اعتراض نمبر 126:
کہ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے کچھ یاد نہیں کیا۔
أخبرنا عبد الله بن يحيى السكري والحسن بن أبي بكر ومحمد بن عمر النرسي. قالوا: أخبرنا محمد بن عبد الله بن إبراهيم الشافعي، حدثنا محمد بن يونس، حدثنا مؤمل بن إسماعيل - أبو عبد الرحمن - قال: سألت سفيان ابن عيينة، قلت: يا أبا محمد تحفظ عن أبي حنيفة شيئا؟ قال: لا، ولا نعمة عين.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں الکدیمی اور مومل ہیں[1]۔
اور ابوحنیفہ کی مسانید میں جو ابن عیینہ کی روایات ہیں وہی تکذیب کرتی ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔
اور خصوصا الحارثی کی راویت جو مسند ہے۔
تفصیل کے لیے ابن العوام اور ابن عبدالبر کی کتب کا مطالعہ کریں[2]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ محمد بن يونس، هو الكديمي، وقد رمَاه غير واحد بالكذب ووضع الحديث، كما في ترجمته من (تهذيب التهذيب ٩/ ٥٤٢).
مومل بن اسماعیل کے بارے میں تفصیل کیلئے دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 5 جس میں 100 سلفیوں کے حوالہ جات ہیں کہ مومل ضعیف ہیں۔
[2]۔امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
اس پوسٹ میں ہم امام سفیان بن عیینہ سے منقول جروحات کا جائزہ لیں گے۔
اعتراض نمبر 1:
قال الإمام يعقوب بن سفيان في «المعرفة والتاريخ» (ج٢ص٧٨٣):
حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.
قال الخطيب رحمه الله (ج١٣ ص٤١٩):
أخبرنا ابن رزق أخبرنا عثمان بن أحمد حدثنا حنبل بن إسحاق
وأخبرنا أبو نعيم الحافظ حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف حدثنا بشر بن موسى قالا حدثنا الحميدي قال سمعت سفيان يقول: ما ولد في الإسلام مولود أضر على الإسلام من أبي حنيفة. اهـ.
جواب :
ہماری تحقیق کے مطابق یہاں سفیان سے سفیان بن عیینہ مراد نہیں ہے بلکہ سفیان الثوری مراد ہیں کیونکہ جہاں بھی یہ جرح ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے وہاں امام ثوری کا ہی ذکر ہے لیکن بعض نے سفیان سے مراد ابن عیینہ کر دیا ہے جو کہ غلط ہے ۔ کیونکہ
1۔ جہاں بھی جرح کے یہ الفاظ منقول ہیں وہاں یا تو سفیان لکھا ہوا ہے یا صراحت سے سفیان ثوری ۔
سفیان ابن عیینہ کہیں بھی مذکور نہیں۔
1)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ( كتاب الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص 128 ) اور یعقوب فسوی کی (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٥)
میں صراحت ہیکہ اسحاق الفزاری سفیان ثوری کے ساتھ تھے تب سفیان ثوری نے جرح کے کلمات کہے ۔
حدثنا نعيم ثنا الفزاري, قال: كنت عند الثوري، فنُعي أبو حنيفة، فقال: الحمد لله، وسجد، قال: كان ينقض الإسلام عروة عروة، وقال يعني الثوري: ما ولد في الإسلام مولود أشأم منه.
جبکہ امام بخاری ہی کی (التاريخ الصغير - البخاري - ج ٢ - الصفحة ٩٣) میں اور بعض دیگر کتب میں صرف سفیان لکھا ہوا ہے ، تو یہاں بھی سفیان الثوری ہی مراد ہیں ۔
لیکن جب اسی روایت کو(یعنی الثوری سے منقول روایت کو) امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا
وقال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعى أبى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الاسلام
عروة عروة وما ولد في الاسلام مولود أشر منه هذا ما ذكره البخاري
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٩)
تو سفیان الثوری کے بجائے ابن عیینہ لکھا ، جو ان کا تسامح ہے ۔ کیونکہ اصل مآخد میں صراحت سے سفیان ثوری لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح خطیب بغدادی نے (تاريخ بغداد - ج ٤ - الصفحة ٤٣٠) میں بھی المعرفہ والی روایت میں سفیان کے بعد ابن عیینہ کا اضافہ کیا ہے جو کہ غلطی ہے کیونکہ المعرفہ والتاریخ میں بھی صرف سفیان ہی لکھا ہوا ہے
ما أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّهِ الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أَبِي عُمَر، قَالَ: سَمِعْتُ ابْن عُيَيْنَةَ، يَقُولُ:
یہاں اس سند میں خطیب بغدادی نے ابن عیینہ نقل کیا ہے لیکن یہ سند درست نہیں کیونکہ
▪︎أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي مجہول ہیں
▪︎ أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري ضعیف ہیں
المعرفہ والتاریخ کی روایت :
حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.
( المعرفة والتاريخ ج٢ص٧٨٣)
کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں۔اب جب المعرفہ میں کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں ، اور کم ترین واسطوں سے منقول روایت میں الثوری ہی لکھا ہوا ہے تو اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ جروحات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہیں نہ کہ امام سفیان بن عیینہ سے۔ جیسے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا تسامح ہے ویسے ہی خطیب بغدادی سے بھی غلطی ہوئی ہے۔
اشکال اور جواب :
محمد بن ابی عمر ابن عیینہ کا مشہور شاگرد ہے تو کیا یہاں وہ ابن عیینہ سے روایت کر رہا ہے ؟
یہاں بھی سفیان ثوری ہی مراد ہیں وجہ یہ ہیکہ لازمی نہیں کہ جو کسی کا شاگرد مشہور ہو ، صرف اسی سے ہی روایت کرے ، مثلا حماد بن دلیل جو ابن عیینہ کے شاگرد نہیں ہیں لیکن امام احمد کی کتاب اور جامع بیان العلم وفضلہ 1/1089 میں روایت ابن عیینہ سے کر رہے ہیں (جس کی تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 میں دیکھ سکتے ہیں ) ، ہمیں ان کی سفیان بن عیینہ سے اور کوئی روایت نہیں ملی ، تاریخ بغداد میں بھی یہی روایت سفیان بن عیینہ سے مذکور ہے۔
لہذا بے شک محمد بن ابی عمر جن سے یہ روایت المعرفہ والتاریخ میں منقول ہے وہ ابن عیینہ کے شاگرد ہیں لیکن وہاں وہ روایت سفیان الثوری رحمہ اللہ سے کر رہے ہیں ۔ اور سفیان ثوری سے جروحات کا جواب ہو چکا ہے۔
دوسرا جواب :
نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه قال: كان رجلا صالحا، وكان به غفلة، ورأيت عنده حديثا موضوعا حدث به عن ابن عيينة، وهو صدوق [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 124)]
محمد بن ابی عمر العدنی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی نے کہا ہیکہ صالح تھا لیکن یہ غفلت برتنے والا تھا ، اور میں نے اس کی کئی موضوع روایات بھی دیکھی ہیں اگرچہ یہ ابن عیینہ سے روایت میں صدوق ہے ۔ انتھی
ہم کہتے ہیں کہ صدوق کوئی ایسی توثیق نہیں جس سے راوی کا ضنط پتہ چلتا ہو ، وہ روایتوں کو محفوظ کیسے کرتا ہے ، ضبط کیلئے راوی کا ثقہ ہونا ضروری ہے ، چونکہ محمد بن ابی عمر کی غفلت کا اشارہ ہو چکا ہے ، اور اوپر تفصیل بھی بیان ہو چکی کہ یہاں سفیان الثوری ہی مراد ہیں تو ، یہ تفصیل بھی سند کو مشکوک کر دیتی ہے ۔
بالفرض اگر کسی قرینہ سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہان ابن عیینہ مراد ہیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کی تعریف صحیح اسانید سے ثابت ہے ۔
اعتراض نمبر 2:
اعتراض : سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ابو حنیفہ کو عمرو بن دینار کی 3 احادیث بھی صحیح سے یاد نہ تھیں۔
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْحُسَيْنِ الْحَافِظَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ مُعَاوِيَةَ، هُوَ الْكَاغِذِيُّ يَحْكِي عَنْ سُلَيْمَانَ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: دَخَلْتُ الْكُوفَةَ، وَلَمْ يَتِمَّ لِي عِشْرُونَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِأَصْحَابِهِ، وَلِأَهْلِ الْكُوفَةِ: جَاءَكُمْ حَافِظُ عِلْمِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. قَالَ: فَجَاءَ النَّاسُ يَسْأَلُونِي عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. فَأَوَّلُ مَنْ صَيَّرَنِي مُحَدِّثًا أَبُو حَنِيفَةَ، فَذَاكَرْتُهُ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، مَا سَمِعْتُ مِنَ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَحَادِيثَ، يَضْطَرِبُ فِي حِفْظِ تِلْكَ الْأَحَادِيثِ
( الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي ١/٣٦٩ — أبو يعلى الخليلي )
سفیان (بن عُیَینہ) نے کہا: میں کوفہ آیا جبکہ میری عمر ابھی بیس سال بھی پوری نہ ہوئی تھی، تو ابو حنیفہ نے اپنے ساتھیوں اور اہلِ کوفہ سے کہا: "تمہارے پاس عمرو بن دینار کے علم کا حافظ آ گیا ہے۔"
سفیان کہتے ہیں: پھر لوگ مجھ سے عمرو بن دینار کے بارے میں سوال کرنے لگے، اور سب سے پہلے جس نے مجھے محدث (محدثین کی صف میں) بنایا، وہ ابو حنیفہ تھے۔
میں نے ان سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: "اے بیٹے! میں نے عمرو (بن دینار) سے صرف تین احادیث سنی ہیں؟ ان احادیث کے حفظ میں بھی مجبور ہوں (یعنی وہ بھی صحیح طریقے سے یاد نہیں)۔"
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں ہے ، کیونکہ ابن معاویہ الکاغذی مجہول ہیں اور ابن معاویہ نے یہ بات خود سلیمان الثقفی سے نہیں سنی ، لہذا سند ضعیف ہے ۔ البتہ امام ابن عیینہ کو سب سے پہلے محدث بنانے والی ذات کون تھی ؟ اس بارے میں ہمیں ایک صحیح روایت ملتی ہے۔
حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن سعدان قال: ثنا سويد بن سعيد، عن سفيان بن عيينة قال: أول من أقعدني للحديث أبو حنيفة، قدمت الكوفة فقال أبو حنيفة: إن هذا أعلم الناس بحديث عمرو بن دينار، فاجتمعوا علي فحدثتهم.
( فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام - المجلد 1 - الصفحة 185 - جامع الكتب الإسلامية )
امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں مجھے حدیث بیان کرنے کے لیے سب سے پہلے جس شخص نے بٹھایا وہ امام ابو حنیفہ تھے میں کوفہ جب آیا تو ابو حنیفہ نے فرمایا یہ (نوجوان سفیان ) عمرو بن دینار کی احادیث کا لوگوں میں بڑا علم (حفظ کرنے والا) ہے تو لوگوں کا اجتماع (امام ابو حنیفہ کے کہنے کی وجہ سے ) ہوا اور میں نے حدیثیں بیان کیں
(اس سند میں سوید متکلم فیہ راوی ہے. امام ابن حجر نے صدوق کہا ہے اور اخبار ابی حنیفہ للصیمری ص 82 میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے. اس لئے یہ سند قابل اعتبار ہے جبکہ امام ابن عیینہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دوسری صحیح و حسن اسانید سے توثیق و تعریف منقول ہے۔ لہذا ابن عیینہ سے امام صاحب کی تعریف ثابت ہے نہ کہ امام صاحب پر جرح ۔
اعتراض نمبر 3:
سفیان بن عیینہ سے منقول ایک اور اعتراض :
قال أبو حاتم: حدثت عن سفيان بن عيينة، قال: لقيني أبو حنيفة، فقال لي: كيف سماعك عن عمرو بن دينار ؟ قال: قلت له أكثرت عنه. قال: لكني لم أسمع منه إلا حديثين. قال: قلت: ما هو؟ فقال: حدثنا عمرو، عن جابر بن عبد الله «في [أخباري]»، فقلت: حدثنا عمرو، عن جابر بن زيد ليس جابر بن عبد الله، قلت: وما الآخر؟ فقال: حدثنا عمرو، عن ابن الحنفية عن علي: «لقد ظلم من لم يورث الإخوة من الأم» فقلت: حدثنا عمرو، عن عبد الله بن محمد بن علي ليس بابن الحنفية.
قال سفيان: «فإذا هو قد أخطأ فيهما جميعا
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧٥٦ )
ابو حاتم نے سفیان بن عُیینہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: مجھے ابو حنیفہ ملے اور مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا عمرو بن دینار سے سماع کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں نے ان سے بہت کچھ سنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں نے ان سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن عبد اللہ سے حدیث بیان کی...‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی ہے، نہ کہ جابر بن عبد اللہ سے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اور دوسری حدیث؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے ابن الحنفیہ سے علیؓ سے روایت کی: ’جس نے ماں شریک بھائیوں کو میراث نہ دی، اس نے ظلم کیا۔‘‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے عبداللہ بن محمد بن علی سے حدیث بیان کی، نہ کہ ابن الحنفیہ سے۔‘‘ سفیان نے کہا: ’’تو وہ دونوں حدیثوں میں غلطی پر تھے۔‘‘
جواب :
امام ابو حاتم (جن کی پیدائش 195ھ ہے) نے امام سفیان بن عیینہ (جن کی وفات 196 یا 198ھ ہے) سے اتنی چھوٹی عمر میں کیسے یہ روایت سن لی ؟
حدثت کا صیغہ سند میں انقطاع بتا رہا ہے ، مزید یہ کہ اس روایت کا متن بھی منکر ہے ، امام صاحب نے عمرو بن دینار سے صرف 2 روایتیں سنی ہیں یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ کتب میں امام صاحب کی عمرو بن دینار سے بہت سی روایات ملتی ہیں ۔ مثلا
▪︎ كتاب الآثار 636 - 1019 - 1021 ( الآثار لأبي يوسف ١/٢٣٠، الآثار لأبي يوسف ١/٢٣١ ، الآثار لأبي يوسف ١/١٤٠ )
▪︎ مسند أبي حنيفة برواية أبو نعيم 2 روايات
▪︎ سنن البيهقي 8209 - 14342 -
لہذا ابو حاتم والی روایت بھی ضعیف ہے اور متن بھی منکر ہے ، پس معترضین کا امام اعظم پر اعتراض باطل ہے ۔
اعتراض نمبر 4:
قال الخطيب رحمه الله (ج٣ص٤١٣):
حدثنا أبو تعيم الحافظ حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف حدثنا بشر بن موسى حدثنا الحميدي حدثنا سفيان عن هشام بن عروة عن أبيه قال: لم يزل أمر بني إسرائيل معتدلًا حتى ظهر فيهم المولدون أبناء سبايا الأمم فقالوا فيهم بالرأي فضلوا وأضلوا، قال سفيان وهو ابن عيينة: ولم يزل أمر الناس معتدلًا حتى غير ذلك أبو حنيفة بالكوفة وعثمان البتي بالبصرة وربيعة بن أبي عبد الرحمن بالمدينة فنظرنا فوجدناهم من أبناء سبايا الأمم.
اعتراض نمبر 5:
قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٣٢٩):
حدثنا إسحاق بن عيسى الطباع عن ابن عيينة قال قلت لسفيان الثوري: لعله يحملك على أن تفتي أنك ترى من ليس بأهل الفتوى يفتي فتفتي؟ قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: يعني أبا حنيفة.
ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری سے کہا: شاید آپ کو فتویٰ دینے پر اس وجہ سے آمادہ کیا ہو کہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ فتویٰ دے رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں، تو آپ بھی فتویٰ دینے لگے؟
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے والد (احمد بن حنبل) نے کہا: اس سے مراد ابو حنیفہ ہیں۔
جواب :
اول : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تعصب اس روایت سے واضح ہو گیا ہے ، خود امام احمد بن حنبل نے فقہ کے مشکل ترین مسائل جن سے سیکھے ، اب انھی کو فقہ سے نا بلد کہہ رہے ہیں ، کیا احسان کا بدلہ یہی ہوتا ہے ؟ کیا جن سے علم حاصل کیا جاتا ہے ، ان سے ایسا سلوک کرنا بہتر ہے ؟
اللہ امام احمد سے درگزر فرمائیں
دوم : اس روایت میں سفیان بن عیینہ یا سفیان الثوری نے کہیں بھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا ۔ الٹا سفیان بن عیینہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کو آفاق پر پھیلاو کا اعلان کر چکے ہیں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے ، یعنی وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی مہارت تسلیم کر چکے ہیں ،
اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی
اور امام سفیان ثوری کی فقہ بھی فقہ حنفی سے مماثلت رکھتی تھی جیسا کہ قارئیں ان مضامین میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔
فقہ حنفی اور فقہ ثوری میں مماثلت: امام وکیع کی حنفیت:
اس صراحت کے باوجود امام احمد بن حنبل نے جو تعصب ظاہر کیا ، یہ ان کی شان کے لائق نہ تھا۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ امام احمد بن حنبل جیسے جرح و تعدیل میں معتدل ترین امام نے بھی امام ابو حنیفہ کے معاملے پر حد سے زیادہ بے انصافی کی ہے ، لہذا امام احمد سے منقول کوئی بھی ایسی روایت ہو جس میں وہ امام ابو حنیفہ پر جرح کریں ، کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی
• " امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح "
اعتراض نمبر 6:
قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٥٤٥):
سمعت سفيان بن عيينة يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. فقال له أبو زيد: يعني حماد بن دليل رجل من أصحاب سفيان لسفيان: فيماذا؟ فقال سفيان: تكلم بكلام فرأى أصحابه أن يستتيبوه فتاب.
اعتراض نمبر 7 :
قال عبد الله بن أحمد رحمه الله في «السنة» (ج١ص٢١٥):
حدثني محمد بن علي الوراق نا إبراهيم بن بشار ثنا سفيان قال: ما رأيت أحدًا أجرأ على الله من أبي حنيفة أتاه رجل من أهل خراسان فقال: جئتك على ألف بمائة ألف مسألة أريد أن أسألك عنها؟ فقال: هاتها، قال سفيان: فهل رأيتم أحدًا أجرأ على الله من هذا. اهـ.
اعتراض نمبر 8:
حدثني محمد بن علي ثنا إبراهيم بن بشار قال سمعت سفيان بن عيينة يقول: كان أبو حنيفة يضرب بحديث رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم الأمثال فيردها بلغة أبي حنيفة أحدث بحديث عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم أنه قال: «البيعان بالخيار ما لم يتفرقا» فقال أبو حنيفة: أرأيتم إن كان في سفينة كيف يتفرقان فقال سفيان: فهل سمعت بأشر من هذا.
اعتراض نمبر 9:
قال ابن حبان في «المجروحين» (ج٣ص٧٠):
أخبرنا الفضل بن الحسين بهمذان قال حدثنا يحيى بن عبد الله بن ماهان عن ابن عيينة قال: حدثت أبا حنيفة عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم فقال: بل على هذا. اهـ.
جواب :
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں