نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث باب نمبر:۱۰ تین طلاقوں کے تین ہونے پر غیرمقلدین کی تائیدی عبارتیں


مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث 

باب نمبر:۱۰

 تین طلاقوں کے تین ہونے پر غیرمقلدین کی تائیدی عبارتیں 

 مفتی رب نواز صاحب حفظہ اللہ مدیر اعلیٰ مجلّہ الفتحیہ (قسط:۸)


اس باب میں کچھ غیرمقلدعلماء کے حوالے ہم زیربحث مسئلہ کی بابت نقل کرنے لگے ہیں۔ اُن علماء کا غیرمقلدین کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے اسے نقل کرنا بھی مناسب ہوگا۔ مگر یاد رہے کہ اُن علماء کی مدح سرائی پر مشتمل حوالوں سے ہمارا اتفاق ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح کے حوالے ہم نے اپنی جس کسی کتاب میں نقل کئے ہیں وہاں غیرمقلدین کو وہ حوالے دکھانامقصود ہیں ،نہ کہ اُن سے اتفاق کا ارادہ۔ 

مولانا شرف الدین دہلوی کا نعرۂ حق 

  مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کو غیرمقلدین ’’ اکابر علمائے اہلِ حدیث ‘‘میں شمار کرتے ہیں ۔ چنانچہ ان کے رسالہ ’’ الاعتصام لاہور ‘‘ میں لکھاہے : 

’’ مولانا شرف الدین دہلوی محدث دہلوی ؒ ( متوفی جولائی ۱۹۶۱ء)ہمارے اکابر علمائے اہلِ حدیث میں سے ہیں۔ ساری عمر تدریس و تحقیق میں گزاری۔ فتاویٰ ثنائیہ میں حضرت مرحوم کی تعلیقات سے ان کی علمی گہرائی اور فقاہت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘

( الاعتصام لاہور ، اشاعتِ خاص بیاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی صفحہ ۱۱۷۴ ) 

الاعتصام کی اس عبارت کے مطابق دہلوی صاحب کی علمی گہرائی اور فقاہت کا اندازہ فتاویٰ ثنائیہ سے لگا سکتے ہیں۔ عرض ہے کہ مسئلہ تین طلاق کی بابت ہم نے ان کی نگارشات اپنی اس کتاب میں اس مقام اور دیگرمقامات پر فتاویٰ ثنائیہ ہی سے نقل کی ہیں ۔ 

پروفیسر عبد الغفور راشد غیرمقلدلکھتے ہیں : 

’’ مولانا امرتسری کی تحریک پر اکتوبر ۱۹۴۵ھ میں صدر بازار دہلی میں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس ہوئی جس کی صدارت مولانا شرف الدین دہلوی نے کی ۔‘‘ 

( اہلِ حدیث منزل بہ منزل صفحہ ۱۵۳،مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ، طبع اول ۲۰۰۱ء) 

غیرمقلدین کے ہاں تین طلاقوں کے ایک ہونے پر مرکزی سمجھی جانے والی دلیل ؍مسلم کی حدیث ابن عباس ہے ۔مولانا شرف الدین دہلوی اس کے متعلق لکھتے ہیں: 

’’ امام حازمی نے ابن عباس ؓ کی مسلم کی اس حدیث کو منسوخ بتا یا ہے اور تفسیر ابن کثیر میں بھی الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ الایۃ کے تحت ابن عباس سے جو صحیح مسلم کی حدیث تین طلاق کے ایک ہونے کے راوی ہیں، دوسری حدیث نقل کی ہے جو سنن ابو داود میں بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَۃِ بَعْدِ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاثِ بسند خود نقل کی ہے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ فَھُوَ اَحَقُّ بِرَجْعَتِھَا وَاِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَنَسَخَ ذٰلِکَ فَقَالَ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ انتھی ( عون المعبود۲؍۲۲۵ )امام نسائی نے بھی اسی طرح ۲؍۱۰۱ میں باب منعقد کیا ہے اور یہی حدیث لائے ہیں ۔...ابن جریر نے ابن عباس ؓ کی اس حدیث کو آیت مذکورہ کی تفسیر بتا کر اسی کو پسند کیا ہے یعنی یہ کہ پہلے جو تین طلاق کے بعد رجوع کر لیاکرتے تھے وہ اس حدیث سے منسوخ ہے۔ پس یہ حدیث مذکور محدث ابن کثیرؒ و ابن جریر ؒ دونوں کے نزدیک صحیح ہے جیسے کہ مستدرک حاکم میں صحیح الاسناد لکھا ہے اور قابلِ اعتماد ہے اور امام فخر الدین رازیؒ کی تحقیق بھی یہی ہے اور امام ابو بکر محمد بن موسیٰ بن عثمان حازمی کتاب الاعتبار میں اپنی سند سے نقل کرکے لکھا ہے :’’ فَاسْتَقْبَلَ النَّاسُ الطَّلَاقَ جَدِیْدًا مِنْ یَّوْمَئَذٍ مَّنْ کَانَ مِنْھُمْ طَلَّقَ اَوْ لَمْ یُطَلِّقْ حَتّٰی وَقَعَ الْاِجْمَاعُ عَلٰی نَسْخِ الْحُکْمِ الْاَوَّلِ دَلَّ ظَاھِرُ الْکِتَابِ عَلٰی نَقْضِیْہِ وَجَآءَ تْ السُّنَّۃُ مُفَسِّرَۃً لِلْکِتَابِِ مُبَیِّنۃً رَفْعِ الْحُکْمِ الْاَوَّلِ الخ صفحہ ۱۸۳۔اور خود علامہ ابن قیم ؒ نے زاد المعاد مصری :۲؍۲۵۴ میں لکھا ہے تَفْسِیرُ الصَّحَابِیِّ حُجَّۃٌ وَقَالَ الْحَاکِمُ ھُوَ عِنْدَنَا مَرْفُوْعٌ انتھی۔اور جب مسلم کی ابن عباس ؓ کی حدیث مذکور اجماع کے خلاف ہوئی تو خود شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے قول سے بھی اس پر عمل نہ ہونا چاہیے اس لیے کہ فتاویٰ ابن تیمیہ جلد دوم صفحہ ۳۵۹میں ہے وَالْخَبْرُ الْوَاحِدُ اِذَا خَالَفَ الْمَشْھُوْرَ الْمُسْتَفِیْضَ کَانَ شَاذًّا وَ قَدْ یَکُوْنُ مَنْسُوْخًاانتھی وَھٰذَا کَذٰلِکَ فَافْھَمْ وَ تَدَبَّرْ اور سنن ابی داود کی نسخ کی حدیث کی سندمیں راوی علی بن حسین اور حسین بن واقد پر جو علامہ ابن قیم ؒ نے اعتراض کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ علی بن حسین کو تقریب التہذیب میں صُدُوْقٌ یَھِمُ لکھا ہے وہم کے باعث ابو حاتم نے اس کی تضعیف کی ہے مگر امام نسائی جو بڑے متشدد ہیں انہوں نے اور محدثین نے کہا ہے لَیسَ بِہٖ بَاْسٌ اور وہم سے کون بشر خالی ہے لہذا یہ کوئی جرح نہیں ،راوی معتبر ہے خصوصاً جب کہ محدثین مذکورین نے حدیث کو صحیح تسلیم کیا ہے اور حسین بن واقد کو تقریب میں ثِقَۃٌ لَہٗ اَوْھَامٌ لکھا اور یہ راوی روات صحیح مسلم سے ہے اور یحیٰ بن معین وغیرہ محدثین نے اس کو ثقہ بتایا ہے ملاحظہ ہو میزان الاعتدال ۔ باقی رجال دونوں کے ثقات ہیں لہٰذا یہ حدیث حسن صحیح ہے قابلِ عمل و حجت ہے اور خود راوی ابن عباس کا فتویٰ بھی اس کی صحت کاموئد ہے ملاحظہ ہو مؤطا امام مالک وغیرہ اور یہ لغو اعتراض کہ یہ ابن عباس کا سہو ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ابن عباس ؓ کو سہو ہو گیا تھا تو پھر ان کی مسلم کی حدیث میں بھی سہو ہوا ہے فَلَاحُجَّۃَ فِیْہِ ...... ابن عباس کی مسلم کی حدیث مذکور مرفوع نہیں، یہ بعض صحابہ کا فعل ہے جس کو نسخ کا علم نہ تھا۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۷)

دہلوی صاحب آگے لکھتے ہیں: 

’’ اصل بات یہ ہے کہ مجیب مرحوم نے جو لکھا ہے کہ تین طلاق، مجلس ِ واحد کی محدثین کے نزدیک ایک کے حکم میں ہیں یہ مسلک سات سو سال کے بعد کے محدثین کا ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کے فتویٰ کے پابند اور ان کے معتقد ہیں۔ یہ فتوی شیخ الاسلام نے ساتویں صدی ہجری کے اخیر یا اوائل آٹھویں میں دیا تھا تو اس وقت کے علمائے اسلام نے ان کی سخت مخالفت کی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے اتحاف النبلاء میں جہاں شیخ الاسلام کے متفردات مسائل لکھے ہیں اس فہرست میں طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ بھی لکھا ہے اور لکھا ہے کہ جب شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے تین طلاق کی ایک مجلس میں ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا تو بہت شور ہوا ، شیخ الاسلام اور ان کے شاگرد ابن قیمؒ پر مصائب برپا ہوئے ، ان کو اونٹ پر سوار کرکے درے مار مار کر شہر میں پھرا کر توہین کی گئی ، قید کئے گئے اس لیے کہ اس وقت یہ مسئلہ علامت ِ روافض کی تھی صفحہ ۳۱۸اور سبل السلام شرح بلوغ المرام مطبع فاروقی دہلی صفحہ ۹۸جلد ۲ اور التاج المکللمصنفہ نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ ۲۸۶ میں ہے کہ امام شمس الدین ذہبی باوجود شیخ الاسلام کے شاگرد اور معتقد ہونے کے اس مسئلہ میں سخت مخالف ہیں۔ التاج المکلل ص ۲۸۸،۲۸۹۔ ہاں تو جب متاخرین علماء اہلِ حدیث عموماً شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کے معتقد ہیں اس لیے وہ بے شک اس مسئلہ میں شیخ الاسلام سے متفق ہیں اور وہ اسی کو محدثین کا مسلک بتاتے ہیں اور مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ مذہب محدثین کا ہے اور اس کے خلاف مذہب حنفیہ کا ہے اس لیے ہمارے اصحاب فوراً اسی کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے خلاف کو رَد کر دیتے ہیں حالاں کہ یہ فتویٰ آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا ہے ۔‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۹،۲۲۰دوسرا نسخہ ۴۵،۴۶)

مولانا شرف الدین دہلوی صاحب کی اس تصریح سے ثابت ہوا کہ تین طلاقوں کو ایک کہنا قرآ ن، حدیث، صحابہ ، تابعین،تبع تابعین وغیرہ ائمہ محدثین متقدمین سے ثابت نہیں اسے تو سات سو سال بعد حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایجاد کیا ہے اور متاخرین اہلِ حدیث اُن کے معتقد ہونے کی وجہ سے اس فتویٰ کو قبول کئے ہوئے ہیں ۔

  ’’اس وقت یہ مسئلہ علامت ِ روافض کی تھی۔‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقوں کو ایک کہنا روافض کا شعار ہے ۔ 

تین طلاقوں کے ایک ہونے کو محدثین کی طرف منسوب کرنا غیرمقلدین کی مہربانی ہے ورنہ حقیقت ایسی نہیں ۔ 

’’ یہ فتویٰ آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا ہے ۔‘‘اس سے تین طلاقوں کو ایک کہنے کی ابتداء بھی معلوم ہو گئی ۔ 

مولانا میرمحمد ابراہیم سیالکوٹی کی طرف سے تائید

 پروفیسر عبد الغفور راشد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی سنجیدہ فکرخطیب، باخبر مناظر، عالم باعمل ،مفسر قرآن اور جماعت کا قیمتی سرمایہ تھے۔ آپ کا تعلق سیالکوٹ سے تھا جس نے علامہ اقبال ؒجیسی نابغہ روز گار شخصیت کو جنم دیا ... برصغیر میں اسلام کے خلاف اٹھنے والے فتنوں جیسا کہ قادیانیت، بہائیت، عیسائیت اور انکار ِ حدیث کے خلاف مولانا میر سیالکوٹی نے قلم اور زبان کے ذریعے قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے قادیانیت کے خلاف اورتحریک پاکستان میں جو متحرک کردار ادا کیا اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘ 

( اہلِ حدیث منزل بہ منزل صفحہ ۹۰، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ،طبع اول مئی ؍ ۲۰۰۱ء) 

 مولانا میرمحمد ابراہیم سیالکوٹی لکھتے ہیں:

’’حضرت عمر ؓ کی نسبت یہ تصوّر دلانا کہ انہوں نے معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بدل ڈالا، بہت بڑی جرأت ہے واللہ اس عبارت کو نقل کرتے وقت ہمارا دل دہل گیا اور حیرانی ہوگئی کہ ایک شخص جو خود مسئلہ کی حقیقت نہیں سمجھا وہ خلیفہ رسول اللہ کی نسبت یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ سنت کے بدلنے میں اس قدر جری تھا استغفر اللہ استغفراللہ۔ اس حکم کے سیاسی سمجھنے میں سخت ٹھوکر کھائی ہے اور پیچ در پیچ غلطیوں کے سلسلہ میں پڑ گئے ہیں۔ یہ کہنا کہ خلیفہ کے بعد اس کے بحال رہنے یا نہ رہنے میں اختلاف ہوا سراسر غلط اور ایجادِ بندہ ہے۔ محدثین کی طرف یہ بات منسوب کرنی کہ وہ اسے [سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاقوں کے تین ہونے کے فتویٰ اور اس کے نافذ کرنے کو (ناقل )] سیاسی حکم کہتے تھے بالکل غلط ہے اور یہ ایجادِ بندہ ہے...جو گروہ اس حکم میں حضرت عمرؓ کی موافقت کرتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ حضرت عمرؓ کا یہ حکم سیاسی تھا اور نہ یہ کہتا ہے کہ وہ سیاسی حکم اب بھی بحال رہنا چاہیے بلکہ وہ تو اُسے اِس لیے مانتا ہے کہ اس کے نزدیک حضرت عمرؓ کا یہ حکم قر آن و حدیث سے ماخوذ ہے ... جناب نے جو یہ فرمایا ہے کہ محدثین اس حکم کو سیاسی حکم کہتے ہیں اِس جگہ محدثین سے اگر ہم جمیع محدثین مراد لیں جو بجا ہے تو ہم دریافت کرتے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ اور حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد ؒاور ان کے مثل دیگر ائمہ حدیث جن کے اسماء گرامی لکھنے میں خوف طوالت ہے محدثین کی فہرست میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر شامل ہیں تو یہ بات کلیۃ ً تو درست نہ ہوئی کہ محدثین اس کو سیاسی حکم کہتے ہیں کیوں کہ سب ائمہ مذکورین صورت زیر سوال میں تین طلاق پڑنے کے قائل ہیں اور وہ اس کے دلائل شرعیہ بیان کرتے ہیں کیا جناب مہربانی فرما کر ان برزگان ِ دین کی تصریحات بتانے کی تکلیف گوار ا کریں گے جہاں انہوں نے اس حکمِ فاروقی کو محض ایک سیاسی حکم قرار دیا ہو اور مذہبی نہ سمجھا ہو اور پھر اسے بحال رکھا ہو ۔ ہمیں بار بار اپنے قصور علم کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں ایسی کوئی تحریر نہ ملی جس میں یہ مذکور ہو کہ ائمہ عظام ؒ نے حضرت عمرؓ کے اِس حکم کو محض سیاسی سمجھا اور اگر لفظ محدثین سے جناب کی مراد بعض محدثین ہوں تو اس صورت میں ہم گذارش کریں گے کہ جناب اس کے حوالہ کی بھی تکلیف گوارا کریے اور ہم پہ احسان کرکے ثواب دارین حاصل کریں کہ وہ کون سے محدثین ہیں جنہوں نے آپ کی طرح اسے سیاسی مداخلت فی الدین سمجھا ہو گو بقول آپ کے جائز مداخلت ہو اور اگر محدثین سے آپ کی ذات گرامی اور اس زمانہ کے آپ جیسے دیگر علماء اہل حدیث مراد ہیں تو بے ادبی معاف ! مجھے آپ کو یا اُن کومحدثین کہنے میں تامل ہے دَورہ میں صحاح ستہ کی سطروں پر سے نظر گزار دینے سے محدث نہیں بن سکتے۔آخر میں ہم پھر دہراتے ہیں کہ متقدمین میں سے امام مالک ؒ کا مؤطا ،پھرا مام شافعی ؒ کی کتاب الام پھر متاخرین میں سے شاہ ولی اللہ صاحب ؒ کی ازالۃ الخفا ملاحظہ فرمائیے جن کے بعد اس وقت تک ہندوستان میں ایسا شخص ہو ا نہیں کہ جسے امام کہہ سکیں اور دوسرے ممالک کا حال خدا جانے ان سب کتب میں حضرت عمرؓ کی موافقت دلائل شرعیہ سے کی گئی ہے ۔ ‘‘ 

( اخبار اہلِ حدیث ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء بحوالہ عمدۃ الاذثاث صفحہ ۹۸)

 مولانا سیالکوٹی صاحب کی مذکورہ عبارت درج ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔

(۱)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سنت نبوی کو نہیں بدلا۔لہذا یہ کہنا کہ ”سنت نبوی کے مطابق تین طلاقیں ایک ہوتی ہے‘‘  غلط ہے ۔ 

(۲)یہ کہنا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سنت نبوی کو بدل ڈالا ’’ بہت بڑی جرأت ہے ‘‘ ۔جب یہ بڑی جرأت ہے تو رئیس محمد ندوی غیرمقلد کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے یہ شوشہ اس سے بڑھ کر جرأت ہے کہ :

’’ قرآنی حکم میں موصوف نے یہ ترمیم کی کہ تین قرار پانے لگیں۔ ‘‘ 

( تنویر الآفاق صفحہ ۴۸۷)

(۳)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو سیاسی حکم سمجھنے والا سخت ٹھوکر کھائے ہوئے ہیں ۔

(۴)فیصلہ عمری کو سیاسی حکم قرار دینے والے پیچ در پیچ غلطیوں کے مرتکب ہیں۔

(۵)یہ کہنا کہ ”خلیفہ کے بعد اس کے بحال رہنے یا نہ رہنے میں اختلاف ہوا سراسر غلط اور ایجادِ بندہ ہے۔‘‘ 

(۶)محدثین کی طرف نسبت کرنا کہ وہ فیصلہ عمری کو سیاسی کہتے تھے غلط ہے ۔

(۷)جو گروہ تین طلاق کو تین مانتا ہے وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کوسیاسی قرار دے کر اسے دلیل نہیں بناتا بلکہ اسے قرآن و حدیث سے ماخوذ مانتا ہے ۔

(۸)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمیت ائمہ اربعہ محدث ہیں ۔ 

(۹)ائمہ اربعہ تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں۔

(۱۰)سیالکوٹی کو ایسی کوئی تحریر نہیں مل سکی جس میں ائمہ عظام نے فیصلہ عمری کو سیاسی کہا ہو۔ 

(۱۱)سیالکوٹی صاحب کے بقول فیصلہ عمری کو سیاسی کہنا ’’ سیاسی مداخلت فی الدین ‘‘ ہے ۔ 

(۱۲)سیالکوٹی صاحب نے اپنے زمانے کے اہلِ حدیث کو محدثین ماننے سے گریز کیا ہے ۔ لہذا انگریز سے اہلِ حدیث نام الاٹ کرانے والے غیرمقلدین کو محدثین کہنا قابلِ تامل ہے۔

(۱۳)امام مالک رحمہ اللہ کی کتاب ”مؤطا“، امام شافعی کی ’’ کتاب الام ‘‘ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ ازالۃ الخفا‘‘ میں حضرت عمر ؓ کی موافقت دلائل شرعیہ سے کی گئی ہے ۔ اور خیر سے ان تینوں : امام مالک ، امام شافعی اور شاہ ولی اللہ رحمہم اللہ کو غیرمقلدین اہلِ حدیث کہا کرتے ہیں ۔

 حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے سیالکوٹی صاحب کی عبارت نقل کرکے لکھا ہے: 

’’ حضرت مولانا سیالکوٹی ؒ نے حضرت عمرؓ کے اس حکم کے سیاسی ہونے کی جس سلجھے ہوئے انداز سے تردید کی ہے اِس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟اور نواب صدیق حسن خان ؒ صاحب نے بھی مختلف پینترے بدل بدل کر آخر میں اُس کو شرعی حکم کہا اور تسلیم کیا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو الجنۃ فی الاسوۃ الحسنۃ بالسنۃ صفحہ ۶۵)الغرض حضرت عمرؓ کا یہ حکم نہ تو سزا کے طور پر تھا ااور نہ سیاسی تھا بلکہ خالص اور نرا مذہبی اور شرعی حکم تھا اگر بالفرض اور کوئی دلیل نہ بھی ہوتی تو خود ان کا ارشاد خلیفہ راشد ہونے کی وجہ سے بمضمون حدیث علیکم بسنی و سنۃ الخلفاء الراشدین الحدیث سنت ہوتا اور پھر ان کے عہد میں حضرات صحابہ کرام ؓ کا اجماع اِس پر مستزاد ہے اور حضرات ائمہ اربعہ ؒ اور جمہور امت کا اجماع اس کے علاوہ ہے اور ظاہر قرآن کریم اور احادیث صحیحہ اس کے علاوہ ہیں جو سب سے مقدم ہیں ، اس لیے یہی مسلک حق اور صواب ہیں ، اسی میں خیر اور اسی میں دین و دنیا کی فلاح و کامرانی ہے اللہ تعالیٰ سب کو حق پر قائم و دائم رکھے آمین ۔ ‘‘ 

( عمدۃ الاثاث صفحہ ۹۹) 

مولانا حافظ محمد عبد اللہ روپڑی کا فتوی

پروفیسر عبد الغفور راشد غیرمقلدلکھتے ہیں :

’’اہلِ حدیث کے عظیم فرزند حافظ محمد عبد اللہ روپڑی پختہ کار سیاست دان ، ثقہ عالم دین ، بے مثال مناظر ، معاملہ فہم ،مفتی اور صاحب الرائے محدث تھے ۔ آپ ساری زندگی کتاب و سنت کی ترویج اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کوشاں رہے ... محدث العصر روپڑی کے فتوی سے مسلم لیگ کو بڑی تقویت ملی ،آپ نے تنظیم اہلِ حدیث کے نام سے جماعت بھی بنائی اور اسی نام سے ہفت روزہ بھی جاری کیا،جو اَب تک جاری ہے۔‘‘

 ( اہلِ حدیث منزل بہ منزل صفحہ ۱۶۰،مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ، طبع اول ۲۰۰۱ء)

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حضرت ابن عباس ؓ کی مسلم والی حدیث کا ظاہر اگرچہ اسی کو چاہتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوں لیکن ابن عباس ؓ کا فتوی اس کے خلاف ہے وہ تین کو تین ہی کہتے ہیں جیسے ابوداود (جلدا صفحہ ۲۹۹) اور منتقی (صفحہ ۲۳۷) وغیرہ میں ہے ابن عباس ؓ کا فتویٰ اس کے خلاف ہونا قوی شبہ ڈالتا ہے کہ یہ حدیث اپنے ظاہر پر نہیں۔ ‘‘ 

 (ا یک مجلس کی تین طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہلِ حدیث روپڑ صفحہ ۳)

روپڑی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

’’ ائمہ اربعہ ؒ اور جمہور تین طلاق واقعہ ہونے کے قائل کیوں ہوئے؟ بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ راوی حدیث ابن عباس ؓ کا فتویٰ ہے۔ ‘‘ 

( فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۵۰۴)

شیخ زبیر علی زئی کا موقف

علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ جیسی جامع کمالات شخصیتیں کہیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ، وہ اپنے دَور کے بلند پایہ عالم دین ، مفسر قرآن ، محدث ، محقق ، مؤرخ و صحافی ، مصنف اور مدرس تھے ۔ جملہ علوم اسلامیہ پر ان کی گہری نظر تھی ۔ ‘‘ 

( اشاعۃ الحدیث حضرو ، اشاعت خاص بیاد شیخ زبیر علی زئی صفحہ ۱۱۹... جمع و ترتیب شیخ ندیم ظہیر .. مکبتہ اسلامیہ )

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے امام شریح رحمہ اللہ کے فتوی ’’اکھٹی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا: 

’’ قُلْتُ :وَصَحَّ بِنَحْوِ الْمَعْنٰی عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَّغَیْرِہٖ مَنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ، وَلَا یُعْرَفُ لَھُمْ مُخَالِفٌ فِیْ ٓاِیْقَاعِ الثَّلَاثِ جَمِیْعًا فَھٰذَا اِجْمَاعٌ ۔“

 ( حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری :۳۷تحت حدیث : ۴۳) 

  ترجمہ میں کہتا ہوں : اور اسی طرح کا مفہوم ابن عباس وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے صحیح سند سے ثابت ہے اکھٹی تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں ان کا کوئی مخالف معلوم نہیں،لہذا یہ اجماعی مسئلہ ہے ۔

میرے قابل اعتماد دوست بھائی محمد عمران صاحب( میلسی) نے کہا کہ میں نے زبیر علی زئی سے کال کے ذریعہ مسئلہ تین طلاق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ انتھی 

اسی طرح مولانا محمد صادق کوہاٹی صاحب نے مجھے بتایا کہ میری موجودگی میں شیخ زبیر علی زئی کے پاس ایک بابا جی کسی نوجوان کو لائے اور کہا : اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں اب کیا حکم ہے؟ علی زئی صاحب نے جواب دیا: تینوں واقع ہو گئیں ۔ انتھی 

ابھی کچھ عرصہ پہلے واٹس ایپ پر آئی ہوئی ایک ریکارڈنگ سنی ہے کسی نے علی زئی صاحب کے معتقد حافظ شیر محمد صاحب سے کہاکہ ہمیں بتایاگیا ہے کہ شیخ زبیر علی زئی صاحب ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دیا کرتے تھے۔ کیا ایسے تھا؟ انہوں نے جواب دیا : جی شیخ صاحب کا یہی موقف تھا۔ جب وہ جامعہ محمدیہ میں پڑھا کرتے تھے اس زمانہ میں امتحانی پرچہ میں مسئلہ تین طلاق پر سوال آیا تو انہوں نے اس پرچہ میں بھی یہی لکھا تھا کہ تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی۔نیز ان کے پاس جو سائل مسئلہ تین طلاق کے حوالے سے حاضر ہوتا ،اسے بھی یہی جواب دیتے کہ تین طلاقیں واقع ہو گئیں ۔ 

  حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری میں علی زئی کا موقف پڑھنے سے بھائی عمران صاحب، کوہاٹی صاحب اور شیر محمد صاحب کی گواہی پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے کہ علی زئی صاحب واقعۃ ً تین طلاقوں کو تین ہی مانتے تھے ۔ 

انجینئرمحمد علی مرزااپنے بیان میں کہتے ہیں:

’’ بہرحال اس میں بھی اہلِ حدیث کے ہاں بھی جو تحقیقی علمائے دین ہیں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ہوں، شیخ غلام مصطفی ظہیر ہوں ہمارے جہلم کے۔ کئی معاملات میں مجھے اختلاف ہے وہ تو مجھے مسلمان بھی نہیں سمجھتے ، میں آپ کی علمی قدر کرتا ہوں تو ان کا بھی یہی موقف ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں ہو جاتی ہیں بلکہ اہلِ سنت کے ہاں تو اجماع پایا جاتا ہے حنفی ،شافعی ، مالکی ، حنبلی اس حوالے سے۔ اور ابن عباس کی ایک ہی روایت ہے صحیح مسلم کی، میں نے اس کا جواب دیا ہے ۔ ان شاء اللہ موقع ملا تو ڈاٹیل سے ریکارڈ کراؤں گا لیکچر ۔‘‘

 ( www.AhlesunnatPak.com)

قارئین کرام! علی زئی صاحب کا موقف تو آپ نے جان لیا کہ وہ تین طلاقوں کو تین ہی مانتے تھے ۔ یاد رہے کہ ا نہوں اس عنوان پر مضمون بھی لکھ لیا تھا مگراس کی اشاعت سے انہیں روک دیا گیا تھا جیسا کہ مولانا عمر فاروق قدوسی غیرمقلدکے انکشاف سے پتہ چلتا ہے۔ وہ علی زئی صاحب سے سعودیہ میں ہونے والی ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : 

’’اس مجلس میں انہوں نے چند مسائل میں اپنے موقف کا اظہار کیا جو کہ جمہورعلماء اہلِ حدیث سے ہٹ کر تھا۔ ان کا ان مسائل کو احاطہ تحریر میں لانے کا ارادہ تھا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی : شیخ !بلاشبہ یہ آپ کی اپنی تحقیق ہے لیکن جب آپ کی طرف سے یہ موقف عوام کے سامنے آئے گا تو اس کے دو نقصان ہوں گے۔ ایک تو عامۃ الناس کے لیے الجھن پیدا ہوگی اور دوسرا وہ لوگ جو ہر وقت آپ کے تعاقب میں رہتے ہیں ، انہیں اہلِ حدیث علماء کے باہمی علمی اختلاف کے اچھالنے کا موقع ملے گا۔ آپ تو نیک نیتی سے اپنا موقف بیان کریں گے لیکن اس کا نقصان ہوگا۔ میں نے انہیں صلوٰۃ الرسول کی تخریج کی مثال بھی دی۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق کیا۔ پاکستان آکر میں نے انہیں اس بارے میں ایک خط بھی لکھا ۔ یہاں میں بصد احترام یہ بات عرض کروں گا اپنے محقق علماء کرام کی خدمت میں جو کہ مصنفین بھی ہیں ،ضروری نہیں کہ ہر بات جو آپ کے نزدیک درست اور راجح ہو ،وہ احاطہ تحریر میں بھی لائی جائے۔ بہت سی باتیں ہیں کہ خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ جاتی ہیں اور ان کا ناگفتہ رہنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘ 

(ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث خصوصی اشاعت ، حافظ زبیر علی زئی صفحہ۵۴۰)

  مسئلہ تین طلاق وغیرہ مسائل میں علی زئی صاحب کی تحقیق اپنے غیرمقلدین کے خلاف تھی مگر انہیں ان مسائل کی اشاعت سے محض اس وجہ سے روک دیا گیا کہ اس سے غیرمقلد عوام الجھن کا شکار ہوں گے اور دوسرا یہ کہ مخالف لوگوں کے ہاتھ میں ہتھیار آ جائے گا۔ یہاں یہ بات بھی عرض کردوں کہ انہیں اگرچہ ان مسائل کو شائع کرنے سے روک دیا گیا تھا مگر ان کا ان مسائل سے رجوع ثابت نہیں۔ 

علی زئی کے مسائل جو جمہور اہلِ حدیث کے خلاف ہیں انہیں شائع کرنے سے مولانا عمر فاروق قدوسی نے اس لیے روک دیا کہ اس سے عوام میں الجھن پیدا ہوگی، مخالفین کے ہاتھ میں غیرمقلدین کے خلاف ہتھیار آ جائے گا۔ کیا اس طرح حق بات کے پرچار سے رک جانے کا جواز قرآن وحدیث سے ثابت ہے ؟ 

  مزید یہ کہ غیرمقلدین کہا کرتے ہیں کہ ہم نے حق بیان کرنا ہے ، ہمیں کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں۔جیسا کہ حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد نے لکھا: 

’’ ہم نے شرعی احکام کے بیان کرنے میں کتاب و سنت کو مد نظر رکھا ہے ۔ وہ کس کے مطابق یا مخالف ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ‘‘ 

( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۲؍۲۰۹)

اس دعوے کے مطابق علی زئی صاحب کو حق بات بیان کرنے دیا جاتا،روکا کیوں گیا ؟

شیخ غلام مصطفی ظہیر کی بابت محمد علی مرز اکی گواہی 

انجینئر محمد علی مرزا غیرمقلد نے ایک غیرمقلد بزرگ کی تردید کرتے ہوئے کہا: 

’’ دَور حاضر میں شیخ زبیر علی زئی جن کو کئی معاملوں میں آپ اپنا استاد سمجھتے ہیں ان کا تویہی موقف تھاان کو بھی جاہل ڈکلور کریں ؟ اور ان کے ایک شاگرد ہیں جو مجھے تو مسلمان نہیں سمجھتے، میں علمی طور پر ان کی بڑی عزت کرتاہوں، ہمارے جہلم کے غلام مصطفی ظہیر صاحب۔ وہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی سمجھتے ہیں۔ امام ابن ماجہ نے بھی باب باندھا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہوں گی سنن ابن ماجہ میں۔تو یہ فتوی میرے پہ کیوں۔ ان پہ کیوں نہیں (کہ) جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ مٹھا ہپ ہپ تے کوڑا کوڑا تھو تھو۔میں یہی کہوں گا کہ دوغلی پالیس سے کلی اجتناب کریں ۔جو فتوی میرے پہ لگانا ہے وہ ان بزرگوں پہ لگائیں ۔میں ان شاء اللہ مسئلہ نمبر ۸۰ سے جو ڈھائی گھنٹے کالیکچر ہے...طلاق کے حوالے سے یہاں کلپ بھی ایڈ کر دوں گا۔‘‘

 ( www.AhlesunnatPak.com) 

محمد علی مرزا نے غلام مصطفی ظہیر امن پوری غیرمقلد کے متعلق بیان دیا کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین کہتے ہیں ۔ امن پوری صاحب اَب حیات ہیں وہ بتائیں کہ مراز صاحب نے زیر بحث مسئلہ میں صحیح نسبت کی یا غلط ؟ آپ اپنی زندگی میں ہی اسے صاف کردیں۔ بندہ نے طلاق کے مسائل پر امن پوری کاایک کتابچہ پڑھا ہے اس میں طلاق کے بہت سے مسائل تحریر کئے ہیں مگر ایک مجلس کی تین طلاقوں کے متعلق مثبت یا منفی کچھ بھی نہیں لکھا ۔ آخر کیا وجہ ہے ؟کہیں ایسا تو نہیں کہ شیخ زبیر علی زئی کی طرح غیرمقلدین کی طرف سے آپ کو بھی اپنا موقف تحریر میں لانے سے روک دیا گیا ہو؟ 

مولانا حنیف ندوی ؒکی تحریر کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ دین کا مغز ہے 

پروفیسر عبد الغفور راشد غیرمقلدلکھتے ہیں :

’’مسجد مبارک اہلِ حدیث کی اہمیت کے پیش ِ نظر خطابت و امامت کے لئے کسی موزوں عالم دین کی ضرورت محسوس ہوئی تو مولانا محمد اسماعیل سلفی کی مشاورت سے مولانا حنیف ندوی کا انتخاب عمل میں آیا۔ مولانا ندوۃ العلماء لکھنو سے فارغ ہو کر واپس آئے تھے۔ چنانچہ مولانا ندوی ۱۹۳۰ء میں مسجد کے محراب و منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔مولا نا ندوی منفرد انداز کی شخصیت تھے... مولانا حنیف ندوی ابتداء میں سلفی منہج پر احادیث سے بکثرت استخراج کرتے۔پھر جب تفاسیر اربعہ کے ساتھ کشاف اور رازی کو بالاستیعاب پڑھا تو تشریحی اور تفسیری وسعتیں پھیلتی گئیں اور خالص علمی میدان میں بہت کام کیا ۔‘‘ 

( اہلِ حدیث منزل بہ منزل صفحہ۱۷۴،۱۷۵...مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان ، طبع اول ۲۰۰۱ء)

مولانا محمد حنیف ندوی غیرمقلد نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا: 

’’آپ کے فیصلوں میں جو احادیث و سیر کی کتابوں میں مندرج ہیں۔ الفاظ پرستی کا شائبہ تک نہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص دین کے مغز و عطر کو سمجھے ہوئے ہے۔ اس کے مزاج سے واقف ہے اور مقاصد اور اعلیٰ اقدار پر اس ڈھب کی نظررکھتا ہے کہ جب یہ دیکھتا ہے کہ کوئی جزئی ان اقدار اوراعلیٰ اقدار کی ترجمانی نہیں کرتی اور اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو بغیر ادنی جھجھک کے اس کی صوریت کو ختم کر دیتا ہے اور اس کے لیے ایسا محمل تلاش کرتا ہے جو اس سے زیادہ کامیابی کے ساتھ ان مقاصد کو پورا کرسکے۔ افسوس یہ ہے کہ مابعد کے فقہاء نے اس بالغ نظری اور ژرف نگاہی کے ساتھ مسائل پر غور نہیں کیا۔ ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے اور دیکھئے کہ خلیفہ ثانی کے فہم دینی کا کیا پایہ ہے کس طرح انہوں نے نصوص کو اصول و مقصد اور منشاء حقیقت کے سانچوں میں ڈھالا ہے ۔اسی سے اس کا اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اجتہاد کے دائرہ اثر کی وسعتیں کہاں سے کہاں تک ممتد ہیں ۔ ‘‘

 ( مسئلہ اجتہاد صفحہ ۱۶۶)

ندوی صاحب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو ’’ دین کا مغز ‘‘ قرار دینے کے بعد بطور نمونہ جو اُن کے فیصلے نقل کیے اُن میں سے دوسرا فیصلہ درج ذیل ہے: 

’’(۲) اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے تو آنحضرت کے زمانہ میں اسے ایک ہی طلاق متصورکیا جاتا تھا۔ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانہ میں بھی یہی معمول رہا۔ خود حضرت فاروق کے ابتدائی دَورِ خلافت تک اسے طلاق رجعی ہی سمجھا گیا لیکن جب حضرت عمر ؓ کی نگاہ معاملہ شناس نے دیکھا کہ لوگ طلاق کے مسئلہ کی پوری پوری اہمیت محسوس نہیں کرتے۔ اور اسلام کی اس رخصت سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں تو آپ نے اس معمول کی مخالفت کی ۔اور فیصلہ صادر فرمادیا کہ آئندہ یہ تین طلاقیں قطعی بینونت و علیحدگی کا موجب ہوں گی اور رجوع کا حق نہیں دیا جائے گا۔ ‘‘ 

 ( مسئلہ اجتہاد صفحہ ۱۶۷)

 سیدنا عمر رضی اللہ کا فیصلہ’’ دینی اعتبار سے مفید‘‘ تھا ،منیر قمر کااقرار 

ابو عدنان مولانا منیر قمر غیرمقلد نے لکھا: 

’’حضرت فاروق کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ہی نافذ کر دینا اور صدقات سے مؤلفہ القلوب کا حصہ بند کرنا، خراج، دیوان اور جیلوں کوجاری کرنا اور عامۃ المجاعۃ ( بھوک و قحط سالی ) میں چوری کی حد (ہاتھ کاٹنے ) کو موقوف کرنا وغیرہ سب اپنے اپنے وقت کی اہم ضرورتیں اور دینی اعتبار سے مفید اور دافع ضرر اُمور تھے۔ ‘‘

 ( جشن میلاد یوم وفات پر ؟ ایک تحقیق ، ایک تجزیہ صفحہ ۲۸ ، ناشر توحید پبلیکیشنز بنگلور ہند ) 

سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی تفہیم 

سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں:

’’ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں جیسا کہ آج کل جہلا کا عام طریقہ ہے ، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے، اور حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا، آپ اس کو درّے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود ائمہؒ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوتی ہے ۔ ‘‘

 ( تفہیم القرآن :۱؍۱۷۵) 

مودودی صاحب نے دوسرے مقام پر لکھا ہے : 

’’ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس میں بیک وقت تین طلاقوں کو رجعی قرار دیا گیا ہو۔ ‘‘ 

( ہفت روزہ ایشیاء ۵؍ نومبر ۱۹۷۶ء صفحہ ۹بحوالہ مودودی صاحب علماء اہلِ حدیث کی نظر میں صفحہ ۸۳)

مودوی صاحب کا نظریہ تقلید ملاحظہ ہو۔ 

مودودی صاحب لکھتے ہیں:

’’ میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لئے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کچھ شدید تر چیز ہے ۔ 

( رسائل ومسائل حصہ اول صفحہ ۲۴۴طبع دوم) 

کاش کہ وہ ’’گناہ سے شدید تر چیز ‘‘ کا مصداق بتادیتے وہ کفر ہے یا کوئی اور چیز ؟

مودودی صاحب فرماتے ہیں:

’’یہ اشکال اس وقت تک دُور نہ ہوگا ، جب تک مسلمانوں میں آزاد فکر پیدا نہ ہوں گے، اسلام میں ایک نشأۃ جدیدہ کی ضرورت ہے ، پرانے اسلامی مفکرین و محققین کا سرمایہ اب کام نہیں دے سکتا، دنیا اب آگے بڑھ چکی ہے ، اس کو اب الٹے پاؤں ان منازل کی طرف واپس جانا ممکن نہیں ہے ، جن سے وہ چھ سو برس پہلے گزر چکی ہے ۔‘‘ 

( ماہ نامہ ترجمان القرآن ستمبر ۱۹۳۴ء بحوالہ تنقیحات صفحہ ۱۴)

مودودی صاحب مزید فرماتے ہیں:

’’ قیامت کے روز حق تعالیٰ کے سامنے ان گناہ گاروں کے ساتھ ساتھ ان کے دینی پیشوا بھی پکڑے ہوئے آئیں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ کیاہم نے تم کو علم و عقل سے اس لیے سر فراز کیا تھا کہ تم اس سے کام نہ لو ؟کیا ہماری کتاب اور ہمارے نبی کی سنت تمہارے پاس اس لیے تھی کہ تم اس کو لیے بیٹھے رہو، اور مسلمان گمراہی میں مبتلا ہوتے رہیں ، ہم نے اپنے دین کو یُسر بنایا تھا ، تم کو کیا حق تھا کہ اسے عُسر بنا دو ، ہم نے قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا حکم دیا تھا ، تم پر یہ کس نے فرض کیا کہ ان دونوں سے بڑھ کر اپنے اسلاف کی پیروی کرو، ہم نے ہر مشکل کا علاج قرآن میں رکھا تھا ، تم سے یہ کس نے کہا تھا کہ قرآن کو ہاتھ نہ لگاؤ، اور اپنے لیے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابیں کافی سمجھو ، اس باز پُرس کے جواب میں امید نہیں کہ کسی عالم دین کو کنز الدقائق، اور ہدایہ اور عالم گیری کے مصنفین کے دامنوں میں پناہ مل سکے ۔ ‘‘ 

( حقوق الزوجین صفحہ ۹۸)

حکیم محمود سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں :

’’ مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا مودودی صاحب ماضی قریب کی بلند ترین شخصیتیں ہیں جنہوں نے تقلید ترک کی ۔ ‘‘ 

( اونچی دوکان صفحہ ۹)

  مودودی صاحب کے نظریہ ترک ِ تقلید پر مذکورہ بالا حوالے ہم نے مولانا عبد الحق خاں بشیر دام ظلہ کی کتاب ’’ قادیانی اور غیرمقلدین ‘‘ سے لیے ہیں۔

مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدلکھتے ہیں:

’’جیسے پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی حنبلی کہلاتے تھے یا شاہ ولی اللہ اورمولانا مودودی ؒ حنفی کہلاتے تھے مگر یہ حضرات مقلد نہیں تھے بلکہ تقلید شخصی کے مخالف تھے ۔ ‘‘ 

( آئینہ پرویزیت صفحہ ۶۱۴) 

شیخ جیلانی رحمہ اللہ اور شاہ صاحب رحمہ اللہ کو تقلید شخصی کے مخالف قرار دینے والی بات سے ہمارا اتفاق نہیں۔

 جناب خرم شہزاد کی اپنے غیرمقلدین کو کھری کھری باتیں

ابو محمد خرم شہزاد غیرمقلدنے نماز وتر کے ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے اپنے غیرمقلدین کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان کے سامنے طلاق ِ ثلاثہ کے بارے میں صحابہ کرام کا موقف رکھا۔چنانچہ وہ اپنے غیرمقلد بھائیوں کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں: 

’’ اگر ہمارے [ غیرمقلدین (ناقل )]بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر ان روایات پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ دوسرے معاملات میں بھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام سے جو روایات صحیح سند سے ملتی ہیں ان پر بھی عمل کریں۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایات پر عمل کر لیا اور جو اپنی مرضی کے خلاف آئی وہ روایات چھوڑ دیں۔ بہر کیف میں اپنے ان بعض بھائیوں سے اُمید کرتا ہوں کہ جو میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی روایات بیان کرنے لگا ہوں یا تو ان روایات پر عمل شروع کردیں گے اور یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق وتر پڑھنا شروع کردیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپس کی ضد، اناپرستی اور بغض و حسد سے محفوظ فرمائے ( آمین ) ...روایت نمبرا،ایک مجلس کی تین طلاقیں ...سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : جس چیز میں لوگوں کو ( سوچنے سمجھنے کے لیے ) مہلت دی گئی تھی لوگوں نے اس بارے میں جلد بازی سے کام لینا شروع کر دیا ہے ( جو خلاف سنت ہے ) لہٰذا ہم بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کر دیں گے، چنانچہ ( اس کے بعد ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ نافذ فرما دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اپنے اس حکم سے رجوع (یعنی ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی طلاق شمار ہوگی ) کرنا ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم ۔ اور جو روایت رجوع کی ہے وہ ضعیف و مردود ہے۔ اس روایت کے متعلق ہمارے بعض ( اہلِ علم ) بھائی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیک وقت تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کر دینا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا آپ کے حکم پر خاموش رہنا ۔ مزید یہ کہ کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کا اس پر انکار نہ کرنا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اجماع ہو گیا تھا اور یہ اجماع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دَور سے لے کر امام مسلم (صحیح مسلم کے مصنف ) کے دَور ، اور امام مسلم کے دَور سے لے کر ۵۰۰ ھ تک ثابت ہے ، صحابہ کرام کے دَور کی دلیل تو آپ نے پڑھ لی اَب امام مسلم کے دَور کی دلیل ملاحظہ فرمائیں ۔ امام مسلم فرماتے ہیں : لیس کل شیء عندی صحیح وضعتہ ھاھنا انما وضعت ھاھنا ما اجمعوا علیہ، ہر وہ حدیث جو میرے نزدیک صحیح ہے اسے میں یہاں نہیں لے آیا ہوں، بلکہ میں نے یہاں صرف وہی احادیث درج کی ہیں جن پر اجماع ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ، باب التشہد فی الصلوۃ ص: ۳۱) امام مسلم کا یہ کہنا کہ میں نے صرف وہی احادیث درج کی ہیں جن پر اجماع ہے اور اس دَور کے اہلِ علم ( محدثین ) کا ’’ صحیح مسلم ‘‘ کی اس حدیث پر انکار بھی ثابت نہیں ،لہذا یہ بھی اجماع کی دلیل ہے۔مزید یہ کہ ۵۰۰ ھ تک بھی اہلِ علم (محدثین) کا اس حدیث پر انکار ثابت نہیں۔ واللہ اعلم ۔یعنی معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کے دَور سے لے کر ۵۰۰ ھ تک یہ اجماع ہے۔ ‘‘ 

( نماز وتر صفحہ ۱۰۹ تا ۱۱۱) 

حافظ عمران ایوب لاہوری کا صغری اور کبری

حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد ’’طلاق بدعی ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: 

’’ گزشتہ صورت کے علاوہ کسی اور صورت میں طلاق دیناحرام ہے اور اسی کو طلاقِ بدعی کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر کوئی حالتِ طہور میں نہیں بلکہ حالتِ حیض یا حالت نفاس میں طلاق دیتا ہے یاہم بستری کے بغیر نہیں بلکہ حالتِ طہر میں ہم بستری کے بعد طلاق دیتا ہے یا پھر ایک ہی لفظ یا موقع و محل میں اکٹھی تین طلاقیں دیتا ہے مثلاً یوں کہتا ہے کہ تمہیں میری طرف سے تین طلاقیں یا یوں کہ طلاق ،طلاق ،طلاق ۔ تو ایسی طلاق بدعی ہے کیوں کہ یہ مسنون طریقہ ٔ طلاق کے خلاف ہے اور اللہ تعالیٰ نے مسنون طریقے کے مطابق طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ ‘‘

 ( طلاق کی کتاب صفحہ۸۹، ناشر: فقہ الحدیث پبلی کیشنز لاہور ، سن اشاعت: اکتوبر؍ ۲۰۰۵ء )

عمران ایوب صاحب نے مذکورہ عبارت میں طلاق کی جن قسموں کو بدعی (بدعت والی ) قرار دیا ہے اُن میں سے ایک قسم اکٹھی تین طلاقیں دینا ہے ۔ اور انہیں یہ بھی تسلیم ہے کہ بدعی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے۔ چنانچہ وہ اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں: 

’’ طلاقِ بدعی واقع ہو جاتی ہے یہی موقف دلائل کی رو سے زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘ 

 ( طلاق کی کتاب صفحہ ۹۲، ناشر: فقہ الحدیث پبلی کیشنز لاہور ، سن اشاعت: اکتوبر؍ ۲۰۰۵ء) 

انجینئر محمد علی مرزا کے بیانات

انجینئر محمد علی مرزا غیرمقلد کہتے ہیں: 

’’لیکن اگرتین ہو گئیں چاہے اکٹھی ہوئیں، چاہے علیحدہ ہوئیں۔میں نے آپ کو بتایا ہے صحابہ کا اجماع ہے اس مسئلہ میں۔تووہ طلاق تو واقع ہو جائیں گی ۔ ‘‘

( www.AhlesunnatPak.com)

مرزا صاحب آگے کہتے ہیں:

’’ اگر کوئی بغیر طہر کے بھی دیتا ہے تووہ ایک طلاق شمار ہو جائے گی۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے حضرت عبد اللہ بن عمر نے حالتِ حیض میں طلاق دی تھی اپنی بیوی کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رجوع کر ...حضرت عبد اللہ بن عمر سے پوچھا گیا آپ نے جو دی تھی حیض کی حالت میں،وہ شمار کر لی گئی تھی ؟انہوں نے کہا :کر لی گئی تھی اگرچہ دینا غلط ہے۔ اسی طریقے سے ہم دلیل لیتے ہیں مسلم کی حدیث سے کہ اگرچہ اکٹھی تین طلاق دینا حرام ہے لیکن جب دے دی جائیں گی تو شمار کر لی جائیں گی ۔ مسئلہ نمبر پندرہ میں میں نے بتایا ہوا ہے ...تین کے بعد تو اس سے شادی نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘

( www.AhlesunnatPak.com)

مرزا صاحب آگے کہتے ہیں: 

  ’’ اب لعان کے مسئلہ کے اوپر آ جائیں آپ کہ اگرلعان والا ایشو ہو جاتا ہے۔اس طرح کا ایک ایشو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں بھی ہوا ...صحیح بخاری میں حدیث ہے انٹرنیشنل نمبری کے مطابق ۵۲۵۹...اسی حدیث پہ امام بخاری نے باب باندھا ہے اکٹھی تین طلاق کا جواز، جوان لوگوں کے گلے میں اکٹی ہوئی ہے جو اکٹھی تین طلاق کو صحیح نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں جب اکٹھی تین طلاقیں دینا ہی قرآن نے حرام کیا ہے تو کیسے سٹیبلش ہو سکتی ہیں۔اوریہاں پہ مانتے ہیں۔نہیں! ہو جائیں گی سٹیبلش اس معاملہ میں۔ اگرچہ حرام ضرور ہیں لیکن اسٹیبلش ہو جائیں گی۔ عام حالت میں طلاق جو ہے الگ الگ ہی دینی ہوگی مسئلہ ففٹین میرا ریکارڈ ہے اہلِ سنت پاک ڈاٹ کام پہ ۔ ان شاء اللہ کبھی موقع ملا میں کبھی ڈاٹیل سے لیکچر بھی ریکارڈ کرواؤں گا ۔‘‘

( www.AhlesunnatPak.com)

مرزا صاحب کہتے ہیں:

’’ اور بعض جو سعودی پیٹ علماء یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کہتا ہے جی کہ ابن تیمیہ نے یہ مسئلہ اُٹھایا ہے اور اس جاہل کو پتہ ہی نہیں ہے ابن تیمیہ کوکہتا ہے کہ آٹھویں صدی ہجری کا۔ ...بھائی امام ابن تیمیہ ۷۲۸ھ میں فوت ہوئے ہیں تو ۷۲۸ ھ آٹھویں صدی بنتی ہے سا ت سوپورے ہو کے اٹھائیس۔ امام بخاری کو ہم کہتے ہیں تیسری صدی ہجری میں ہیں،حالاں کہ ان کی وفات کاسن ہے ۲۵۶ھ ۔یعنی دو سو مکمل ہو ئے تیسری صدی میں وہ فوت ہوئے حالاں کہ پیداوہ دوسری صدی میں ہوئے ۱۹۴ھ میں۔ لیکن ہم ان کو کہتے ہیں تیسری صدی ہجری ۔مولویاں نوں پتہ ای کوئی نیں۷۲۸ پڑھ ریاعلی نے کہہ دتا اٹھویں ،اے تاں نابالغ مولوی ۔ پائی میں تاں مولوی ہے نیں پائی ۔ مولوی تاں تسی لوگ او،تسی بالغ ہو کے نابالغ ہو بلکہ میں کاواں گا بالغ ہوکے بھی نامرد ہو اس قسم دیاں گلاں کرکے۔ تو آ پ اپنا علاج کروائیں اس حوالے سے ۔ علمی طور پر آپ میں نامردی ہے میں وہ والی نامردی کی بات نہیں کررہا تووہ کہتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں تو آپ ۔آٹھویں صدی ہجری بنتی ہے ۸۲۷ ھ میں احمد ابن تیمیہ فوت ہوئے ہیں۔‘‘

( www.AhlesunnatPak.com)

’’پانچواں کومنٹس عمر صدیق نے مجھے یہ دیا تین طلاق کے مسئلہ میں اسے شدید ٹھوکریں لگی ہیں یہ شخص جہالت کے سوا کچھ نہیں۔حافظ صاحب! یہ جو ٹھوکریں مجھے نہیں لگی ہیں آپ کے اہل سنت کے میرے اہلِ سنت کے چاروں امام امام ابو حنیفہ المتوفی ۱۵۰ھ امام شافعی المتوفی ۲۰۴ھ امام مالک المتوفی ۱۷۹ھ ،امام احمد بن حنبل المتوفی ۲۴۱ھ یہ سارے ائمہ ایک وقت کی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین تصور کرتے ہیں لہذایہ جہالت کے سوا کچھ نہیں اور ٹھوکریں لگی ہیں یہ فتوی ان پر لگائیں ۔ اہل سنت کا یہ متفقہ مسئلہ ہے امام ابن تیمیہ سے پہلے کسی صحیح سند سے کسی سے ثابت نہیں کہ کسی نے تین طلاق کو ایک تصور کیا ہو ۔اور صحیح مسلم کی اس حدیث کی(توضیح) غلط کی ہو ...اور دَور حاضر میں شیخ زبیر علی زئی جن کو کئی معاملوں میں آپ اپنا استاد سمجھتے ہیں ان کا تویہی موقف تھاان کو بھی جاہل ڈکلور کریں ؟ اور ان کے ایک شاگرد ہیں جو مجھے تو مسلمان نہیں سمجھتے، میں علمی طور پر ان کی بڑی عزت کرتاہوں، ہمارے جہلم کے غلام مصطفی ظہیر صاحب۔ وہ بھی ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی سمجھتے ہیں۔ امام ابن ماجہ نے بھی باب باندھا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہوں گی سنن ابن ماجہ میں۔تو یہ فتوی میرے پہ کیوں۔ ان پہ کیوں نہیں (کہ) جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ مٹھا ہپ ہپ تے کوڑا کوڑا تھو تھو۔میں یہی کہوں گا کہ دوغلی پالیس سے کلی اجتناب کریں ۔جو فتوی میرے پہ لگانا ہے وہ ان بزرگوں پہ لگائیں ۔میں ان شاء اللہ مسئلہ نمبر ۸۰ سے جو ڈھائی گھنٹے کالیکچر ہے...طلاق کے حوالے سے یہاں کلپ بھی ایڈ کر دوں گا۔‘‘

( www.AhlesunnatPak.com)

مرزا صاحب ایک اور بیان میں کہتے ہیں: 

’’موقف نمبر گیارہ سیکنڈ لاسٹ:یہ ذرا کڑوا مسئلہ ہے اور وہ ہے بھائیو! ایک مجلس کی تین طلاقوں کا۔ دیکھئے ناں جناب! اب کڑوا ایسا ہے کہ آپ سب نے ہنسنا شروع کر دیا ہے۔ شیخ[زبیر علی زئی غیرمقلد ( ناقل) ]صاحب اس مسئلہ میں بہت سٹکس تھے اور مجھے انہوں نے یہاں تک کہا کہ علی بھائی!میں اگر آج کے اہل حدیث علماء ،یادر کھیے! آج کے۔ پہلے تین سوسال کے نہیں۔ انہوں نے میری کال میں بھی کہا میں صرف تین سو سال کے اہلِ حدیث علماء کا قائل ہوں۔ بعد کے علماء اگر اختلاف کریں گے میں اس پہ کوئی قائل نہیں ہوں۔تو مجھے کہا کرتے تھے خود بات کی جب طلاق کامسئلہ پہ میں نے ڈس کس کی ویسے ویڈیو پہ وہ جواب نہیں دیتے تھے مجھے پتہ ہے کہ وہ ویڈیو پہ جواب نہیں دیتے تھے تو میں نے سوال سے پہلے انہیں کہہ دیا تھا کہ آخری سوال ہے آپ کی مرضی ہے جواب دیں یا نہ دیں تو میں نے سوال کیا تو کہا بس یہ پھر بعد میں ڈس کس کریں گے ۔ بہرحال انہوں ایک مضمون بھی لکھ کے رکھاہوا تھا جو چھپا نہیں، بہرحال ابھی موجود ہے... شیخ صاحب [ علی زئی ] جو صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں تین طلاقیں ایک تصور ہوتی تھیں پھر سیدنا ابوبکر کے زمانے میں،پھر سیدنا عمر کے زمانے میں تو شیخ صاحب نے کہا یہ حدیث سنن نسائی میں موجود ہے اس پہ امام نسائی نے اپنا فہم لکھ دیا ہے کہ یہ حدیث غیر مدخولہ کے لئے ہے۔ اورمسائل احمد کے اند ر بھی احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ حدیث غیرمدخولہ کے لیے ہے ۔ ایسی عورت جس سے مرد نے صحبت نہ کی ہو یعنی رخصتی سے پہلے۔اس میں تو ہمارے بریلوی دیوبندی، حنفی شافعی مالکی سارے علماء قائل ہیں کہ جس عورت کی رخصتی نہ ہوئی ہواس کو اگر تین طلاق دی جائیں تو ایک ہی شمار ہوگی ۔دوبارہ نکاح نئے حق مہر کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ غیرمدخولہ اس میں تو اجماع ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے تو یہ کہتے تھے یہ حدیث ہے اس کا فہم یہ ہے کہ یہ غیر مدخولہ کے لئے ہے۔ امام ابن ماجہ نے بھی پورا باب باندھا ہے ایک مجلس میں تین طلاق تین تصور کی جائیں گی۔امام بخاری نے باب باندھا ہے اکٹھی تین طلاق کا جواز ۔الموطا امام مالک میں موجود ہے آپ اٹھائیں موطا امام مالک۔موطا امام مالک حدیث کی سب سے پہلی کتاب ہے ذرا طلاق کا چپٹر کھول کے صحابہ کے فتوے پڑھنا شروع کریں ۔ تو مجھے شیخ صاحب اکثر یہ جملہ بولا کرتے تھے کہ علی بھائی ! اگر میں آج کے اہلِ حدیث علماء کا یہ مسئلہ مان لوں تو میرا سارا منہج ڈھکوسلہ بن جائے گا ۔ کیوں کہ میں کہتا ہوں صحابہ ،تابعین اورتبع تابعین کے فہم کے مطابق ہم نے کتاب و سنت کو سمجھنا ہے۔ اس مسئلہ میں اور علی !مجھے اکثر کہا کرتے تھے علی بھائی۔ ایک مسئلہ اہلِ حدیث کا ایسا ہے جو اجماع کے خلاف ہے ۔ آج کے اہلِ حدیث کا، ساروں کا نہیں ... پہلی دفعہ یہ مسئلہ اٹھا یا امام ابن تیمیہ نے۔ سات سو سال تک کسی نے یہ مسئلہ نہیں اٹھایا ااور انہیں غلطی لگی صحیح مسلم کی حدیث سے ...بہرحال اس پہ کسی نے تحقیق کرنی ہو تو میری پچیس منٹ کی ویڈیو ہے مسئلہ نمبر ۱۵ کے نام سے ۔ جس میں میں  نے سارے دلائل اکسپلور کئے ہیں ... ایک جگہ شیخ صاحب نے لکھ دیا وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں شکر ہے کہ بڑی نیکی کی ویسے تو موطا امام مالک میں انہوں نے اشارے چھوڑے ہیں۔ مشکوٰۃ میں انٹر نیشنل نمبری کے مطابق ۳۲۹۳نمبرطلاق کے چیپٹر میں حدیث ہے۔ طلاق کی حدیث جو تین طلاق والی حدیث ہے اس کا ایک ہی راوی ہے عبد اللہ ابن عباس ... وہ غیر مدخولہ کی بات کر رہے ہیں ایک ہی راوی ہیں ابن عباس ۔اوریہ پینٹ اصول ہے کہ راوی اپنی حدیث کو زیادہ سمجھتا ہے تو ایک روایت مشکوۃ کے اندر امام ولی الدین تبریزی لے کر آئے۔انٹر نیشنل نمبری کے مطابق۳۲۹۳۔اس کے فٹ نوٹ پہ لکھ دیا کہ عبداللہ بن عباس کے پاس ایک شخص آیا اس نے کہا:اے ابن عباس میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں یہ الموطا امام مالک میں بھی موجود ہے السنن الکبری بیہقی میں بھی موجود ہے ۔ تو عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ ستانوے طلاقیں تو تو نے اللہ کے ساتھ مذاق کیا ہے اور باقی تین طلاقوں کی وجہ سے تیری بیوی ہمیشہ کے لئے تجھ پر حرام ہو گئی۔انہوں نے نہیں کہا چاہے سو دی ، چاہے ہزار دی جیسے ڈاکٹر ذاکر نائک مسئلہ بیان کر رہے ہیں امام ابن تیمیہ سے نقل کرکے کہ جتنی مرضی دیتے رہو ،تو اس طرح نہیں ۔تویہ مسئلہ الحمد للہ میں چاہ رہا تھا کہ اس کو حق بیان کردوں اس حوالے سے۔‘‘

 ( www.AhlesunnatPak.com)

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کا نظریہ 

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’خلاصہ کلام یہی ہے کہ ہمارے نزدیک راجح اور صحیح موقف کے مطابق شریعت اسلامیہ میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں ۔ اگرچہ عملا ً میں ایسا ہی کرتا ہوں کہ سائل سے پوچھ لیتا ہوں کہ آپ کامسلک کیا ہے ؟ اگر حنفی ہو تو اس مسلک کے مطابق جواب دیتا ہوں اور اہلِ حدیث ہو تو اہلِ حدیث علماء کاموقف بتلا دیتا ہوں ۔اور اگر کوئی میری رائے جاننا چاہے تو اپنا موقف بتلا دیتا ہوں ۔‘‘ 

 ( مکالمہ صفحہ۱۶۹،۱۷۰ ، ناشر: دار الفکر الاسلامی ، طبع اول : جنوری ؍۲۰۱۸ء )

مولانا داود ارشد کی کتاب ’’دین الحق ‘‘ سے دو سطریں

مولانا داود ارشد غیرمقلدویسے تو عام غیرمقلدین کی طرح تین کو ایک مانتے ہیں مگر ان کا نظریہ ہے کہ سائل اگر مقلدین کا کوئی فرد ہو تو اسے تین کا فتویٰ دینا چاہیے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ ہمارا موقف ہے کہ جو لوگ اہلِ حدیث حضرات کے خلاف بڑے سرگرم رہا کرتے ہیں ... انہیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری حکم کے مطابق فتوی دینا چاہیے ۔ ‘‘ 

 ( دین الحق صفحہ ۶۷۰،ناشر : مکتبہ غزنویہ لاہور ، سن اشاعت: ۲۰۰۱ ء ) 

حافظ زبیر اور مولانا داود ارشد کی تحریروں میں فرق یہ ہے کہ حافظ صاحب مطلقاً احناف کوتین طلاقوں کے وقوع کا مسئلہ بتاتے ہیں جب کہ داود صاحب احناف میں سے صرف ان حضرات کو یہ فتوی دینا چاہتے ہیں جو اُن کے بقول اہلِ حدیث کے خلاف سرگرم ہیں۔ اُن کی عبارت پہ مزید تبصرہ آئندہ کسی باب میں آئے گا ان شاء اللہ۔ 

حافظ عبد الستار حمادکی طرف سے اہلِ حدیث کی مخالفت اور احناف کی موافقت

ایک غیرمقلد نے حافظ عبد الستار حماد سے کہا: 

’’ ہفت روزہ’’ اہلحدیث ‘‘مجریہ ۳ رمضان المبارک ۱۴۲۶ھ میں ایک فتویٰ شائع ہوا ہے جو صریحاً مسلک اہلِ حدیث کے خلاف ہے ۔سوال یہ تھا کہ ایک آدمی اپنی بیوی کوہرماہ ایک طلاق ارسال کرکے تین طلاق کا نصاب پورا کر دیتا ہے، کیا اس کے بعد رجوع کا تعلق ہے یا عورت اس پہ دائمی حرام ہو گئی ہے اس کا جواب دیا گیا کہ اگر آدمی وقفہ وقفہ سے تین طلاق دے چکا ہو ، جیسا کہ صورت مسئولہ میں ہے تو نہ عدت کے اندر رجوع ممکن ہے اور نہ عدت گزارنے کے بعد نکاح کیا جا سکتا ہے ، یہ جواب فقہ حنفی کے مطابق ہے۔ مسلک اہلِ حدیث کی ترجمانی نہیں کرتا کیوں کہ اہلِ حدیث نکتہ نظر کے مطابق پہلی طلاق کے بعد جب تک رجوع ( دَوران عدت) یا نکاح جدید ( بعد از عدت ) نہ ہو اس وقت تک دوسری اور تیسری طلاق لغو اور غیر مؤثر ہوتی ہے ، لہٰذا صورت مسؤلہ میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوئی، لہٰذا بعد اَز عدت اگر عورت رضا مند ہو تو اس سے دوبارہ نکاح کیا جا سکتا ہے ۔ ‘‘ 

 ( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۲؍۳۰۸)

اس عبارت میں حماد صاحب کے بیان کردہ مسئلہ کو مسلک اہلِ حدیث کے خلاف اور احناف کے مطابق بتایا گیا ہے۔ حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد نے مسلک اہلِ حدیث کی خلاف ورزی کے مذکورہ طعنہ دینے والے کو کہا:

’’ ہم نے شرعی احکام کے بیان کرنے میں کتاب و سنت کو مد نظر رکھا ہے۔ وہ کس کے مطابق یا مخالف ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ ‘‘

( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۲؍۲۰۹) 

حماد صاحب تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا بیان کردہ مسئلہ کتاب وسنت والا ہے وہ اگر مسلک اہلِ حدیث کے خلاف اور احناف کے موافق ہے تو اس کی کوئی پروا نہیں۔

 فائدہ :علامہ مہ ابن حزم ظاہری کا موقف

غیرمقلدین کی عبارات پیش کر دینے کے بعد علامہ ابن حزم ظاہری کا حوالہ پیش خدمت ہے۔ ان کو عام لوگ تو ظاہری المذہب کہتے ہیں جب کہ غیرمقلدین کی کئی کتابوں میں انہیں ’’غیرمقلد و اہلِ حدیث ‘‘ لکھا ہوا ہے۔  حوالہ جات درج ذیل کتب میں دیکھئے :

نزل الابرار : ۱ ؍ ۱۲۵، تالیف علامہ وحیدالزمان ۔

  علمی مقالات:۲؍۲۴۵، تالیف شیخ زبیر علی زئی ۔

  ماہ نامہ الحدیث : شمارہ:۹۱صفحہ ۳۸، مدیر شیخ زبیر علی زئی ۔

  تحریک آزادئ فکر صفحہ ۳۵۱ ، تالیف مولانا محمد اسماعیل سلفی ۔ 

علامہ ابن حزم ظاہری نے المحلی: ۱۰؍ ۲۰۷ میں تین طلاقوں کو تین مانا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ وَخَالَفَھُمْ اَبُوْامُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ فِیْ ذَٰلِکَ فَاَبَاحَ جَمْعِ الثَّلاَثِ وَاَوْقَعَھَا۔ (اغاثۃ اللہفان : ۱؍۳۲۹) اہل ِ ظاہر کے ساتھ امام ابو محمد بن حزم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کیوں کہ ابن حزم اکٹھی تین طلاقوں کے جمع کرنے اور ان کے وقوع کے قائل ہیں۔ ‘‘ 

( عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۸)

ٍٍ دَورِ حاضر کے غیرمقلدین اپنے زعم میں تین طلاقوں کے ایک ہونے پہ جسے مرکزی دلیل خیال کیا کرتے ہیں وہ صحیح مسلم میں موجود حدیث ابن عباس ہے۔ علامہ ابن حزم ظاہری نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ہی نہیں۔ حوالہ آگے باب نمبر :۱۲ میں منقول ہوگا ان شاء اللہ ۔ 

باب نمبر:۱۱ 

 شرعی حلالہ 

حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ کی عبارتیں 

حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی کو تیسری طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی ، یہاں تک کہ وہ عورت ( عدت کے بعد ) دوسرے شوہر سے نکاح (صحیح ) کرے ۔ (اور نکاح کے بعد دوسرا شوہر اس سے صحبت کرے، پھر مرجائے یا از خود طلاق دے دے اور اس کی عدت گزر جائے تب یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوگی اور وہ اس سے دوبارہ نکاح کر سکے گا ) یہ حلالہ شرعی ہے۔ تین طلاق کے بعد عورت کا کسی سے اس شرط پر نکاح کردینا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا یہ شرط باطل ہے اورحدیث میں ایسا حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی گئی ہے ۔ تاہم ملعون ہونے کے باوجود اگر دوسرا شوہر صحبت کے بعد طلاق دے دے تو عدت کے بعد پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جائے گی اور اگر دوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہاگیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا لیکن اس شخص کا اپنا یہ خیال ہو تو وہ عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا یہ صورت موجب لعنت نہیں ۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت ہو کہ وہ دوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہو جائے گی تب بھی گناہ نہیں۔ ہاں بغیر دوسرے خاوند سے نکاح کئے وہ عورت پہلے مرد پر قطعاً حرام ہے ۔ غیرمقلدین نے اس حرام کاری کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ وہ تین طلاق کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کئے بغیر پہلے مرد کے سپرد کر دیتے ہیں جو قرآن وسنت اور اجماع امت کے مطابق بالکل حرام ہے۔ آج اکثر جو لوگ غیرمقلدین بن رہے ہیں وہ اسی لیے کہ مذاہب اربعہ میں حرام کاری کی کوئی گنجائش نہیں اور ان غیرمقلدین کے ہاں یہ ساری عمر کی حرام کاری پیشے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ حرام کاری کے یہ دلال حلالہ کے خلاف خوب زور لگارہے ہیں تاکہ ہمارے کاروبار حرام کاری پر پردہ پڑا رہے۔ انہیں اگر باشرط حلالہ سے انکار ہے تو اس شرط کو احناف بھی ناجائز اورموجب لعنت کہتے ہیں۔ فقہ حنفی کو گالیاں دینے والے کیا اس کا جواز فقہ حنفی سے نکال سکتے ہیں، اور اگر وہ اس شرط والے حلالہ کے مخالف ہیں تو کیا وہ بلاشرط حلالہ کرواتے ہیں، اس کے کتنے سنٹر کھولے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود لعنت کرنے کے ان کوحلال کرنے والا فرمایا، حرام کرنے والا نہیں فرمایا اور جس کے لیے حلال کی گئی فرمایا ، جس کے لئے حرام کی گئی نہیں فرمایا۔  غیرمقلدو! کتاب و سنت سے بغاوت کرکے کب تک شریف گھرانوں کو ساری عمر حرام کاری پر لگائے رکھو گے۔ ‘‘ 

 ( تجلیات صفدر :۴؍۶۲۸) 

 اوکاڑوی صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ یہ بات ظاہر ہے کہ حلالہ کی شرط باطل ہے اور متعہ بھی حرام ہے ، لیکن یہ لوگ جو بغیر دوسرے نکاح کے عورت کو پہلے مرد کے سپر د کر دیتے ہیں یہ ان دونوں سے بڑا گناہ اور حرام ہے۔ ساری عمر کا گناہ اور ناجائز اولاد ، اتنے بڑے حرام پر عمل کرنا اور شرط حلالہ کے خلاف شور مچانا ایساہی ہے کہ کوئی بدکار عورت بر سرعام زنامیں مشغول رہے اور کسی گھر ستن کو گالیاں دے رہی ہے کہ بڑی بے شرم ہے، دوپٹہ سرک گیا اور اس کا کان غیر محرم کو نظر آگیا ہے ۔ یہی حال ان حضرات کا ہے ، کبھی اپنے حرام کاروں کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ حلالہ سے بے حیائی اور بے شرمی پھیلے گی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی حد نافذ ہوگی تو سارا ملک ٹنڈا ہو جائے گا۔ اصل بے شرمی اور بے حیائی کی ذمہ داری تو ان پر ہی ہے جو بغیر دوسرے نکاح کے بیوی واپس کر دیتے ہیں۔ اس سے لوگوں میں تین طلاقیں دینے کی جرأت بڑھی ہے اور حرام کاری عام ہو گئی ہے۔ آپ تجربہ کرکے دیکھ لیں کہ ایک آدمی کو کہیں کہ قرآنی حکم کے مطابق دوسرے نکاح کے بغیر یہ (بیوی ) تجھے نہیں مل سکتی اور اس عورت کا دوسرا نکاح ہوجائے تو اس واقعہ کے بعد سالوں تک کوئی تین طلاق کا نام نہ لے گا۔ جس طرح چوروں پر حد نہ لگا کر چوروں کی جرأت بڑھائی گئی ، اسی طرح اس مرد کو یہ سزا معاف کرکے مریض دلوں کو تین طلاقیں دینے کی آپ لوگوں نے جرأت دلائی ہے۔ ‘‘ 

( تجلیات صفدر : ۴؍۶۲۹)

حضرت اوکاڑوی صاحب اپنے خطبات میں فرماتے ہیں:

’’وہ ہم سے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا سوال کر کے شور مچاتے رہتے ہیں کہ یہ حلالہ کا حکم دیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ گناہ مرد کا تھا سزا عورت کوکیوں ؟ آپ ان سے کہیں آپ بے غیرت ہیں اس لیے آپ کو سمجھ نہیں آیا، باغیر ت باعزت آدمی سمجھتا ہے کہ سزا عورت کو نہیں بلکہ مجھے ملی ہے کہ جس بیوی کا میں ایک قدم گھر سے باہر برداشت نہیں کرتا تھا اَب وہ دوسری جگہ نکاح کرکے دوسرے کے بستر کی زینت بن رہی ہے۔ ‘‘

(خطبات ِ صفدر :۱؍۳۵۹)

 اوکاڑوی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

’’ غیرمقلد مولوی صاحب کہنے لگے کہ اگر کوئی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دے پھر اس کورکھنا چاہے تو کیا طریقہ ہے ؟ مقصد یہ تھا کہ یہ حلالہ کا کہے گا ، میں اس پر شور مچاؤں گا ۔ میں نے کہا وہی طریقہ ہے جو اُس شخص کے لیے ہے جس نے اپنی بیوی کو تین طہروں میں تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی ہوں، جو اُس کے بیوی رکھنے کا طریقہ ہے وہی اس کا ہے۔ اس موقع پر وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ عورت اور جگہ نکاح کرے ،اس لیے آپ ان کے مولویوں کے پاس سوال اس طرح لکھ کر بھیجاکریں تو وہ جواب دینے پہ مجبور ہوں گے کہ وہ دوسری جگہ نکاح کرے ،...غیر مقلد کہنے لگا کہ آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ سوال کر دیا ۔ میں نے کہا میں نے سنت طریقہ کے مطابق جواب دیا کیوں کہ جواب کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوال پر سوال کردو۔ بخاری شریف میں جو قیاس کا باب ہے اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے مسئلہ پوچھا کہ اگر میں والد کی طرف سے حج کروں تو ادا ہو جائے گا؟ اَب اس کا جواب تو یہی تھا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہاں یا نہیں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سوال کیا کہ اگر تیرے والد کے ذمہ کسی کا قرض ہوتا تو کیا تیرے ادا کرنے سے وہ ادا ہو جاتایا نہیں ؟ اس نے کہا اداہوجاتا ، حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس طرح بندے کا قرض اتر جاتا ہے اس طرح اللہ کا قرض بھی ادا ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا میں نے سنت طریقہ سے آپ کو جواب دیا ہے کیا آپ اس حیثیت کے منکر ہیں؟‘‘ 

(خطبات ِ صفدر :۱؍۳۵۹)

حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ کی تحریر 

حضرت مولانا علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس بات سے کہ جو ایسا کرے گا میں اس پر حد لگاؤں گا۔ اس سے مراد کون ہیں؟ یہ دوسرا نکاح کرنے والا یا اس عورت کا پہلا خاوند؟ پہلا خاوند تو تبھی اِس زَد میں آسکتا ہے کہ وہ اَب بعد تحلیل اس سے نکاح کرے ایسا ہو تو اس سے صرف وہ موقف نکلتا ہے کہ وہ عورت اَب بعد تحلیل پہلے خاوند سے نکاح نہ کر سکے۔ ہم اس بات سے اتفاق نہیں کرتے لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ یہ دوسرا نکاح جو بارادہ تحلیل کیا گیا تھا وہ نکاح ہی نہیں ۔ ایسا ہوتا تو اس عورت کو بھی لعنت یا رجم سے ڈرایا جاتا حالاں کہ حدیث : لعن اللہ المحلل والمحلل لہ میں اس عورت پر لعنت ہونے کا ذِکر نہیں اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تہدید لا اوتی بمحلل ولا محلل لہ الا رجمتھما ( اگر یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ سے کسی صحیح متصل سند سے ثابت ہو ) میں بھی صرف محلل اور محلل لہ کا ذِکر ہے ۔اس عورت کاذِکر نہیں جس نے باارادہ تحلیل یہ دوسرا نکاح کیا ۔سو قارئین اس غلط فہمی میں نہ جائیں کہ آپ اس نکاح کو تسلیم نہ کرتے تھے ۔ آپ نے جو کچھ فرمایا وہ اَز راہِ تہدید تھا۔ آپ اسے ایک ناپسندیدہ عمل سمجھتے تھے ... حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسے ایک ناپسندیدہ عمل سمجھتے تھے۔ حافظ ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں ولا یحتمل قول ابن عمر الا التغلیظ لانہ قد صح عنہ انہ وضع الحد عن الواطی فرجا حراما جھل تحریمہ و عذرہ بالجھالۃ فالمتأول اَولٰی بذلک ولاخلاف انہ لا رجم علیہ ۔(کتاب التمہید:۵؍۲۴۲) حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس طرح کی روایاتِ تہدید نقل کرنے کے بعد امام بیہقی (۴۵۸ھ) جن کا تعارف ان کی سنن کبری کے ٹائیٹل پر اس طرح دیا گیا ہے : امام المحدثین الحافظ الجلیل ابی بکر احمد بن الحسین البیہقی ۔وہ باب ماجاء فی المحلل کے بعد اگلا یہ باب باندھتے ہیں اور اس کی پہلی سطر میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے استناد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حدیث نفس ، دل کی باتوں اور نیت پر کوئی گرفت نہیں فرمائی ۔ اب ہمارے قارئین وہ باب ملاحظہ فرمائیں : باب من عقد النکاح مطلقا لا شرط فیہ فالنکاح ثابت وان کانت نیتھما اور نیۃ احدھما التحلیل۔ ترجمہ: باب اس شخص کے بارے میں جس نے بغیر کسی شرط کے نکاح کیا تو یہ نکاح درست ہے اگرچہ دونوں یا ان میں سے کسی ایک کی نیت پہلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی تھی۔ ( سنن الکبری :۷؍۲۰۹)داود ظاہری (۲۷۰ھ) بھی نیت تحلیل سے نکاح کرنے والے کے نکاح کو جائز کہتے ہیں بشرطیکہ عقد نکاح کے وقت یہ شرط نہ لگائی جائے ۔حافظ ابن عبد البر کی عبارت بھی ملاحظہ کر چکے ہیں ۔ امام نسائی رحمہ اللہ (۳۰۳ھ) بھی حدیث لعن اللہ المحلل و المحلل لہ کو تغلیظ اور تہدیدپرمحمول کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ یہ نکاح منعقد ہی نہ ہو۔ آپ اس نے پرباب باندھا ہے: باب احلال المطلقۃ ثلاثا ومافیہ من التغلیظ ۔یہ باب تین طلاق دی ہوئی عورت سے حلالہ کرنے اور جو کچھ اس کام کے کرنے والے کے بارے میں سخت بات کہی گئی ہے کے بارے میں ہے۔ (سنن نسائی : ۲؍۱۰۱)حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ (۱۰۵۲ھ) لکھتے ہیں کہ یہاں لعنت سے مراد محلل اور محلل لہ کی خست طبع کا اظہار ہے۔ آپ کی عبارت ملاحظہ ہو: والمراد اظھار خساستھا لان الطبع السلیم ینفر عن فعلھا ۔( لمعات التنقیح :۶؍۱۴۹)یہ وہی بات ہے جو حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ (۴۶۳ھ) نے کتاب التمہید میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے استناد کرتے ہوئے کہی ہے صرف احناف کی شرح حدیث بتلانا صحیح نہیں ہے ۔ صاحب ِ ہدایہ رحمہ اللہ (۵۹۲ھ) نے حضرت امام شافعی اور حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہما اللہ کے بعد اس حدیث کی شرح اس طرح کی ہے : (واذا ت تزوجھا بشرط التحلیل فالنکاح مکروہ )لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن المحلل و المحلل لہ وھذا ھو محملہ (فطلقھا بعد ما وطیھا حلت للاول) لوجود الدخول فی نکاح صحیح اِذ النکاح لا یبطل بالشرط۔ (ہدایہ اولین :۲؍۱۱ مصری ) ترجمہ: اگر اس نے عورت سے حلالہ کی شرط پر شادی کی تو یہ نکاح آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کہ اللہ کی لعنت ہو حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے ) کی وجہ سے مکروہ ہے۔ پس اگر اسے وطی کے بعد طلاق دی تو وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہو جائے گی اس لئے کہ فاسد شرط کی وجہ سے نکاح فاسد نہیں ہوتا۔ پھر جب اس دوسرے نکاح میں وقت عقد ایسی شرط بھی نہ باندھی گئی ہو تو اس نکاح کو عصمت لوٹنے اور لٹانے سے تعبیرکرنا ایک نہایت شرم ناک حرکت سمجھی جائے گی جسے کسی مہذب سوسائٹی میں کوئی جگہ نہیں دی جا سکے گی۔‘‘

 ( صیانۃ القرآن عن الاستھزاء و البھتان المسمی مسئلۃ طلاق ثلٰثہ صفحہ۴۵ تا ۴۸ ، ادارہ : اشاعت اسلام مانچسٹر)

حضرت مولانا علامہ خالد محمود رحمہ اللہ نے کسی غیرمقلدکی تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: 

’’ اصل بات جو اِس مضمون نگار نے اپنے اس مضمون میں پیش کی ہے وہ صرف مسئلہ طلاق ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلا ق کیا واقعی تین طلاقیں ہیں یا یہ ایک طلاق سمجھی جائے گی ؟ اور یہ مسئلہ کوئی نیا اختلاف نہیں ، صدیوں سے فقہ جعفری والوں میں اور اہل السنت والجماعت میں یہ اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ پھر چودہویں صدی میں ہندوستان میں بعض ان لوگوں نے بھی اسے فقہ جعفری والوں سے لے لیا جو سرے سے کسی فقہ کو نہیں مانتے۔ روز نامہ جنگ لندن کا یہ مضمون نگار صرف اس مسئلہ کے درپے ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقیں تین نہیں ایک ہی مانی جانی چاہئیں اور اس نے اپنے دلائل کی کمزوری کوچھپانے کے لیے اس بھڑکیلے عنوان سے پیش کیا کہ اس طلاق کے بعد اسے پھر پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کا کوئی عمل اس عورت کی عصمت دری ہے گو وہ اپنے ارادے سے اس دوسرے نکاح میں آئے ۔ ظاہر ہے کہ اس بھڑکیلے عنوان سے اس موضوع کو عوام کے سامنے لانا حقیقت میں صرف تشغیب عوام ہے ۔‘‘

 ( صیانۃ القرآن عن الاستھزاء و البھتان المسمی مسئلۃ طلاق ثلٰثہ صفحہ۴۵ تا ۴۸ ، ادارہ : اشاعت اسلام مانچسٹر)

حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ کی نگارشات 

حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ لکھتے ہیں:

’’حلالہ شرعی کی دوقسمیں ہیں (۱) تین طلاقوں کی عدت گذارنے کے بعد عورت شرعی طریقہ کے مطابق کسی اور آدمی کے ساتھ نکاح کرے اور دونوں کی نیت مستقل ازدواجی زندگی گزرانے کی ہو اور وہ شوہر اپنی بیوی سے صحبت بھی کر لے ازاں بعد اس دوسرے خاوند نے اس عورت کو از خود طلاق دے دی یا وہ فوت ہوگیا اور عورت نے عدت گذار لی تو حلالہ کی شرط پوری ہوگئی اور عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو گئی ۔اب اگر یہ عورت اور اس کا پہلا شوہر باہمی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ (۲) تین طلاقوں کی عدت گذارنے کے بعد عورت شرعی طریقہ کے مطابق کسی اور آدمی کے ساتھ نکاح کرے اور بوقت نکاح طلاق کی شرط قطعاً نہ رکھی جائے اور نئے خاوند کے دل میں محض جنسی لذت اور ہوس پوری کرنے کی نیت نہ ہو بلکہ نکاح و طلاق کے ذریعے حلالہ کی شرط پوری کرکے اس عورت اور اس کے سابقہ شوہر کے گھر کو آباد کرنے اور ان کی اولاد کو برباد ہونے سے بچانے کی نیت ہو۔‘‘ 

( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۹۵)

حضرت مولانا دام ظلہ آگے لکھتے ہیں: 

’’حلالہ غیر شرعی کی صورت یہ ہے کہ بوقت نکاح شرط طے کر لی جائے کہ دوسرا خاوند صحبت کرنے کے بعد لازماً اس عورت کو طلاق دے گا یا شرط تو طے نہ کی جائے لیکن دوسرے خاوند کی نیت مستقل ازدواجی گذارنے کی نہ ہو اور نہ ہی عورت اور اس کے شوہر کے گھر کو آباد کرنے کی نیت ہو بلکہ محض جنسی لذت اور قضاء شہوت کی نیت ہو تو یہ حلالہ غیر شرعی ہے ۔حلالہ غیر شرعی حرام ، معصیت اور گناہ ہے ۔ ‘‘ 

( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۴۰۵)

حضرت مولانا دام ظلہ آگے لکھتے ہیں: 

’’اگرکوئی آدمی اکٹھی تین طلاقیں دینے کے بعد دوبارہ اس عورت سے نکاح کرنا چاہے تو وہ حلالہ شرعی کی صورت میں حلالہ کی شرط پوری کرکے دوبارہ نکاح اور اگر حلالہ غیر شرعی کا طریقہ اختیار کیا تو اس میں گناہ ہے لیکن شرط پوری ہوجانے کی وجہ سے ازروئے شرع اس عورت کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتا ہے وہ عورت شرعی طور پر اس کی بیوی ہوگی اور ان کا باہمی ازدواجی تعلق جائز ہوگا ان کی زندگی حلال کاری کی زندگی ہوگی اور اولاد بھی حلالی ہوگی۔ اس کے برعکس اہلِ بدعت، منکرین فقہ غیرمقلدین بڑے فخر کے ساتھ حلالہ غیر شرعی کی قباحت ومذمت کی حدیثیں سنا کر تین طلاق دینے والے آدمی کو بجائے حلالہ کے حرامہ پر آمادہ کرتے ہیں ... حلالہ غیرشرعی میں گناہ ہے مگر پھر بھی حرامہ سے کم ہے کیوں کہ حلالہ غیرشرعی وقتی گناہ ہے مگر ساری زندگی حلال کاری کی زندگی ہوگی اور اولاد بھی حلالی ہوگی اور شرعاً یہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے ، جب کہ حرامہ کرنے کی صورت میں بچنا چاہتے تھے حلالہ غیر شرعی کے وقتی گناہ اور ذلت سے مگر حرامہ کرکے ساری زندگی حرام کاری کے سخت گناہ اور ا س کی ذلت میں مبتلا ہوگئے لہذا حلالہ اور حرامہ میں وہی فرق ہے جو نکاح اور زنا میں فرق ہے ۔ ‘‘

 ( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۴۱۲)

حضرت دام ظلہ مزید لکھتے ہیں: 

’’ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خلاف شریعت طریقہ اختیار کرنے پر حکم مرتب ہو جاتا ہے چنانچہ : (۱)……حیض کی حالت میں طلاق دینا غیر شرعی اور گناہ ہے مگر واقع ہو جاتی ہے ۔ (۲)…… جس طہر میں صحبت کی ہو اس میں طلاق دینا غیر شرعی اور گناہ ہے مگر طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔(۳) ……اس شرط پر نکاح کرنا کہ شوہر بیوی کو حق مہر نہ دے گا غیر شرعی ہے مگر نکاح منعقد ہو جاتا ہے اور مہر مثل (یعنی اس جیسی عورتوں کا جتنا عرف میں مہر ہوتا ہے ۔ ) واجب ہوتا ہے ۔(۴)…… اس شرط پر نکاح کہ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ صحبت نہ کرے گا یا دوسرا نکاح نہ کرے گا غیر شرعی ہے مگر نکاح منعقد ہوجاتا ہے ۔ (۵) ……روزہ میں غیبت کرنا ،جھوٹ بولنا حرام ہے مگر روزہ ہو جاتا ہے ۔ (۶)……حج کے دَوران بیوی کے ساتھ بے حجابی کی باتیں کرنا، گالی گلوچ اور جھگڑا کرنا غیر شرعی طریقہ ہے مگر حج ہو جاتا ہے ۔ (۷) ……بیوی کو یہ کہنا کہ تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے جھوٹ اور بُری بات ہے مگر اس سے ظہار منعقد ہو جاتا ہے اورکفارہ ظہار ادا کرنے تک بیوی حرام ہو جاتی ہے ۔(۸)…… جان بوجھ کر جماعت کے بغیر تنہا نماز پڑھنا غیر شرعی طریقہ ہے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں کو جلا دینے کی وعید سنائی مگر تنہاپڑھی گئی نماز صحیح ہے ۔ (۹)……جانور کو کند چھری کے ساتھ ذبح کرنا غیر شرعی ہے مگر رگیں کٹ جانے کی صورت میں جانور حلال ہے ۔ ‘‘ 

 (حرام کاری سے بچئے صفحہ ۴۰۸، ۴۰۹)

آگے لکھا: 

’’ عورت کا برہنہ ہو کر دوسری عورتوں یا محارم کے سامنے نماز پڑھنا غیر شرعی طریقہ ہے مگر غیرمقلدین کے نزدیک نماز صحیح ہے۔ (بدور الاھلۃ صفحہ ۳۹ ) حالاں کہ احادیث میں ایک دوسرے کے ستر دیکھنے پر لعنت کی گئی ہے ... ایک مجلس میں تین طلاقیں دے کر ایک واقع کرنا غیر شرعی طریقہ ہے مگر غیر مقلدین کے نزدیک اس سے ایک طلاق ہو جاتی ہے ... قرآن کریم پ:۲ میں طلاق رجعی کے بعد عورت کو نقصان پہنچانے کی نیت سے اپنے پاس روکنے اور رجوع کرنے سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس بدنیتی کے ساتھ رجوع کرلے تو رجوع ہوجاتا ہے مگر وہ شخص گناہ گار ہے ۔ پس اسی طرح حلالہ غیر شرعی اگرچہ خلاف شرع ہونے کی وجہ سے موجب ِ گناہ اورموجب لعنت ہے لیکن عورت پہلے خاوند کے لیے حلال ہو جاتی ہے ۔ ‘‘

 (حرام کاری سے بچئے صفحہ ۴۰۹،۴۱۰) 

 حضرت مولاناقارن صاحب دام ظلہ کی تحقیق 

حضرت مولانا حافط عبد القدوس قارن صاحب دام ظلہ لکھتے ہیں:

’’ جب دوسرے خاوند سے عورت کا نکاح کیا جا رہا ہو تو پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی شرط تو نہ ہو مگر پہلے خاوند یا عورت یا دوسرے خاوند میں سے کسی ایک کی نیت پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی ہو تو ایسی حالت میں دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح درست ہوگا مگرمکروہ ہوگا ۔ چنانچہ ... مبارک پوری ( غیرمقلد ) لکھتے ہیں:قال الخطابی فی المعالم ...اذا لم یکن شرطا وکان نیۃ وعقیدۃ فھو مکروہ فان اصابھا ...ثم طلقھا فاذانقضت العدۃ فقد حلت للزوج الاول وقد کرہ غیر واحد من العلماء ان یضمروا او ینویا او احدھما التحلیل وان لم یشترطاہ۔( تحفۃ الاحوذی ص ۱۸۶ ج ۲) امام خطابی نے معالم السنن میں کہا ہے کہ... اگر [ پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کی ( ناقل )]شرط قرار نہ دی ہو مگر نیت اور ارادہ ہو تو یہ مکروہ ہے ۔ پھر اگر نکاح کے بعد دوسرے خاوند نے اس عورت سے ہم بستری کر لی پھر طلاق دی اور اس عورت کی عدت گذر گئی تو پہلے خاوند کے لیے وہ عورت حلال ہو جاتی ہے اور بہت سے علماء نے کہا کہ اگر شرط نہ بھی قرار دی ہو مگر دونوں کا یا ان میں سے کسی ایک کا ارادہ تحلیل کا ہو تب بھی مکروہ ہے ۔ ‘‘

 ( جواب مقالہ صفحہ ۴۶) 

 قارن صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ اور غیرمقلد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:وقال الاکثرون ان شرط ذالک العقد فسد والا فلا ،اگر دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح میں تحلیل کو شرط قرار دیا ہو تو اکثر علماء نے کہا ہے کہ یہ نکاح فاسد ہوگا، ورنہ نہیں ۔ ( السراج الوہاج ص ۵۵۴ ج ۱)اور یہ اشارہ حدیث کے الفاظ میں بھی ملتا ہے کہ جب حضرت رفاعہ نے اپنی بیوی کو طلاق دی اس عورت نے دوسرے خاوند عبد الرحمن بن زبیر سے نکاح کر لیا تو پھر وہ عورت حضور علیہ السلام کے پاس آئی اور دوسرے خاوند سے اپنی ناموافقت کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتریدین ان ترجعی الی رفاعۃ، کیا تو رفاعہ کی جانب لوٹنا چاہتی ہے ۔ ( ترمذی ص۲۱۳ ج ۱، وغیرہ )دوسرے خاوند کے نکاح میں ہوتے ہوئے بھی عورت کا ارادہ پہلے خاوند کی جانب لوٹ جانے کا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس بھی فرما لیا مگر اس عورت کو کچھ تنبیہ وغیرہ نہ کی کہ موجودہ خاوند کے نکاح میں ہوتے ہوئے پہلے خاوند کی جانب لوٹ جانے کا ارادہ توکر رہی ہے۔ جب آپ نے تنبیہ وغیرہ کچھ نہیں فرمائی تو اس سے معلوم ہوا کہ اگر دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کے وقت یا نکاح کے بعد پہلے خاوند کی جانب لوٹ جانے کا ارادہ نہ ہوجس کو تحلیل قرار دیا جا سکتا ہے تو اس میں دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح میں فرق نہیں پڑتا۔ جب ا س کا نکاح درست ہے تو اگر یہ خاوند ہم بستری کے بعد عورت کو طلاق دے دیتا ہے تو پہلے خاوند کے لیے وہ عورت حلال ہو جائے گی اور یہی نظریہ احناف کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور مبارک پوری صاحب لکھتے ہیں کہ یہی نظریہ امام شافعی کا بھی ہے ۔ ‘‘

( جوابِ مقالہ صفحہ ۴۶)

قارن صاحب آگے لکھتے ہیں: 

’’ دوسری صورت کہ دوسرے خاوند کے ساتھ نکاح کے وقت پہلے خاوند کے لیے اس عورت کو حلال کرنا شرط قرار دیا گیا ہو تو اس میں فقہاء کے نظریات مختلف ہیں ...امام ابو حنیفہ ؒ سے روایت یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ شرط چوں کہ نکاح کے متقضی سے زائد ہے اس لیے شرط باطل ہوگی اور نکاح درست ہوگا ...امام ابو حنیفہ ؒ نے جو یہ فرمایا ہے کہ اگر شرط تحلیل کے ساتھ نکاح کیا ہو تو شرط باطل اور نکاح صحیح ہوگا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ شرط مقتضاء عقد سے زائد ہے اس لئے کہ نکاح کے ارکان صرف ایجاب و قبول ہیں چنانچہ غیرمقلد عالم سے سوال ہوا کہ نکاح کے فرائض کتنے ہیں تو جواب دیا نکاح میں خطبہ ایجاب و قبول کم سے کم دو گواہ اور مہر ضروری چیزیں ہیں ۔ پھر اس جواب پر مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا شرف الدین صاحب نے’’ شرفیہ‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھا: ’’ ایجاب و قبول کے سوا تونکاح منعقد نہیں ہوتا، اصل یہی دو فرض ہیں باقی حصہ مسنون ہے اس کے سوا بھی منعقد ہو جائے گا ہاں خلاف سنت ہوگا۔ ‘‘ (فتاویٰ ثنائیہ ص ۳۳۰، ج ۲) اگر عورت محل نکاح ہو یعنی شریعت نے اسے نکاح کی اجازت دی ہو تو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہو جاتاہے اور جن حضرات کے نزدیک ولی کا ہونا ضروری ہے تو ان کے نزدیک ولی کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے گواہوں کے سامنے نکاح منعقد ہو جائے گا۔ اس لیے امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی شرط سے دوسرے خاوند سے نکاح کرنے کی صورت میں یہ شرط باطل ہوگی اور نکاح کے ارکان اور شرائط ضروریہ پائے جانے کی وجہ سے نکاح ہو جائے گا اور اس کی تائید میں وہ روایت پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے معاملہ پیش ہوا جس میں بشرط التحلیل نکاح ہوا تھا تو حضرت عمرؓ نے دوسرے خاوند سے فرمایا کہ خبر دار!اس عورت کو اپنے نکاح سے فارغ نہ کرو۔ ( بحوالہ اعلاء السنن ص ۲۱۹: ج ۱۱)اگر ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا تو حضرت عمر ؓ نے اس خاوند کو اپنے نکاح میں برقرار رکھنے کی تلقین کیوں فرمائی۔بہرحال حلالہ کی یہ صورت مختلف فیہ ہے اس لئے اس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر علی الاطلاق حلالہ کی حیثیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘

 ( جواب ِ مقالہ صفحہ ۴۷)

قارن صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ حلالہ کی تمام صورتوں کے لعنتی ہونے کا کوئی بھی قائل نہیں ہے ۔ اگر خاوند سے نکاح اور نکاح کے وقت پہلے خاوند کے لئے اس عورت کو نہ حلال کرنا شرط قرار دیا اور نہ اس کی نیت کی مگر دوسرے خاوند سے ناموافقت کی وجہ سے از خود طلاق دے دی اور عدت گزر جانے کے بعد وہ عورت پہلے خاوند سے نکاح کر لے تو یہ ہے تو حلالہ کسی کے نزدیک بھی یہ لعنت کے تحت داخل نہیں ہے ۔ اگر دوسرے خاوند سے نکاح کے وقت پہلے خاوند کے لیے حلال کرنے کی شرط تو نہیں لگائی مگر نیت اور ارادہ ہو تو اکثر علماء کے نزدیک یہ صورت بھی لعنت کے تحت نہیں آتی ‘‘ 

( جوابِ مقالہ صفحہ ۴۸)

قارن صاحب آگے لکھتے ہیں: 

’’اشکال اور اس کا جواب: اشکال یہ ہے کہ جب بشرط التحلیل دوسرے خاوند سے نکاح لعنتی فعل ہے اور اس کے باوجود امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک یہ نکاح درست ہے تو لعنت کے ساتھ اس کا جواز کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ جواب: احادیث میں کئی افعال ایسے ہیں جن کے ارتکاب پر لعنت فرمائی گی ہے اور اس کی وجہ سے ان افعال سے روکنا مقصود ہے ان میں سے بعض افعال ایسے ہیں جن کی قباحت قرآنی نص سے ثابت ہے ان میں سے ایک سود ہے کہ اس کے بارے میں فرمایا گیا : پس اگر تم سودی لین دین سے باز نہیں آتے تو اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ( پارہ نمبر ۳ سورۃ البقرۃ ، آیت:۲۷۹) اس کی قباحت سب سے زیادہ سخت ہے اور اس سودی فعل میں قباحت ذاتی ہے ۔اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارہ میں سود لینے اور اس سود دینے والوں کے علاوہ اس کے کاتب او ر گواہوں پر بھی لعنت فرمائی ہے ۔ (ترمذی ص ۲۲۹ج ۱) سودی لین دین بھی حرام ہے اور اس کے ذریعہ سے خریدی گئی چیز بھی حرام ہے مگر اس چیز سے کسی حد تک فائدہ اُٹھانا غیر مقلدین حضرات کے نزدیک درست ہے ۔ چنانچہ ایک سوال ہوا :اگر کوئی مدرسہ سود کے روپے سے خریدا جائے تو اس میں قرآن وحدیث کی تعلیم جائز ہے یا نہیں تو جواب دیا گیا :’’ یہ سوال دو پہلو رکھتا ہے ایک یہ کہ سود سے حاصل کیا ہوا روپیہ مراد ہے یا سودی قرضہ پر لیا ہوا روپیہ ، یہ دونوں صورتیں موجب گناہ ہیں لیکن تعلیم وہاں جائز ہے ۔ ( فتاویٰ ثنائیہ ص ۶۸ج ۲) اگر سود کی رقم سے عمارت تعمیر کرنا گناہ ہے مگر اس میں تعلیم درست ہے تو اگر امام ابوحنیفہ ؒنے فرما دیا ہے کہ تحلیل کی شرط موجب گناہ ہے مگر اس کے باوجود نکاح درست ہے تو اس کیا حرج ہے ۔‘‘ 

( جواب مقالہ صفحہ ۴۹)

قارن صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ جن افعال کی قباحت نص قرآنی سے ثابت ہے ان میں سے جھوٹ بھی ہے قرآن کریم مین ہے لعنۃ اللہ علی الکاذبین ( پارہ ۱۸، سورۃ النور،آیت نمبر ۷) جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ۔ جھوٹ قبیح ہونے کے باوجود مقام اور اس کے نتیجے کے لحاظ اس کی قباحت میں درجات ہیں چنانچہ غیرمقلد سے سوال ہوا زید کا اعتقاد وقول وعمل ہے کہ جھوٹ سب برابر نہیں ہیں کوئی جھوٹ مناسب مقام پر جائز کوئی گناہ صغیرہ اور کوئی کبیرہ ، کوئی لغو اور کوئی شرک ۔ تو جواب دیا: ’’ جھوٹ اپنی اصلیت اور حقیقت کے لحاظ سے سب بُرا ہے مگر نتائج کے لحاظ سے اس میں شدت یا ضعف آجاتا ہے مثلا ً دو مسلمانوں کے درمیان یا میاں بیوی میں مصالحت کرانے کو جھوٹ بولنا نتیجہ کے لحاظ سے قابل معافی ہے۔ ‘‘ ( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۸۵)جھوٹ لعنتی فعل ہے مگر مصالحت کے لیے اس کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔‘‘ 

( جواب ِ مقالہ صفحہ ۴۹)

مولانا عبداللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ خاوند بیوی کاتعلق اوران کااتفاق ومحبت سے رہنااس کوشریعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس کے لیے اللہ پرجھوٹ بولنا بھی جائز ہے‘‘ 

(تنظیم ۱۹۳۲؁ء صفحہ ۱۰بحوالہ مظالم روپڑی صفحہ ۵۳)

جھوٹ لعنتی فعل ہے مگر روپڑی صاحب توخود اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا جائز کہہ رہے ہیں !!! ( نعوذ باللہ) 

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا حافظ ابن قیم کی بات پہ تبصرہ 

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آدمی مذاق میں طلاق دے تب بھی واقع ہو جاتی ہے۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب ( بن مولانا منظور احمدنعمانی ہند )نے اُن کی بات پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا: 

’’ سچ تو یہ ہے کہ یہ بالکل اندھیر کا مصداق ہے کہ ایک شخص طلاق دے کر چِلاتا ہے کہ میں تو محض مذاق کر رہا تھا ۔اس طرح نکاح کرکے قسمیں کھاتا ہے کہ میں سنجیدہ نہیں تھا ، محض نکاح کاڈرامہ کر رہا تھا ۔مگر یہ طلاق اور یہ نکاح تو اس کے گلے پڑے اور جب کہ دوسری طرف ایک آدمی بالکل سنجیدگی کے انداز میں نکاح کے تمام واجبات پورے کرتا ہے، ہرگز اپنی نیت میں کسی کھوٹ کا پتہ نہیں دیتا ۔ البتہ دوسرے تیسرے دن طلاق دے کر اپنی نیت کی حیلہ سازی کا بھانڈا پھوڑ دیتا ہے ، تو آپ فتوی دیں کہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں تھا، زنا ہوا ہے۔ حالاں کہ کچھ بات ہلکی ہوتی،اگر بجائے نکاح کے طلاق کو کہا جاتا کہ نہیں ہوئی۔ ورنہ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ ہازل ( مسخرے)  کانکاح و طلاق اس کی چیخ و پکار کے علی الزغم نافذ ہے تو حیلہ ساز کا نکاح وطلاق بدرجہ ٔ اولی نافذ ہو۔ ‘‘ 

(طلاقِ ثلاثہ اور حافظ ابن القیم ؒصفحہ ۶۶، ناشر :الفرقان بک ڈپو نظیر آباد لکھنؤ، پہلا ایڈیشن جنوری ؍۱۹۹۵)

سنبھلی صاحب نے کسی شخص کی گفتگو پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: 

’’ موصوف نے حلالہ کے مسئلے پر اس طرح گفتگو کی تھی جس سے یہ غلط فہمی ہوتی تھی کہ حلالہ اپنی اصل میں ہی ایک ملعون شئ ہے، جب کہ واقعہ یہ تھا کہ یہ اصل میں ایک قرآنی قانون ہے۔ اور اسی کی بناء پرموصوف کو توجہ دلائی گئی تھی کہ وہ اس غلط فہمی کے ازالے کی تدبیر فرمائیں ۔‘‘

( طلاقِ ثلاثہ اور حافظ ابن القیم ؒصفحہ ۸۸، ناشر :الفرقان بک ڈپو نظیر آباد لکھنؤ، پہلا ایڈیشن جنوری ؍۱۹۹۵) 

 ائمہ اربعہ اور حلالہ 

 علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ائمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں پڑ جائیں گی۔اب وہ عورت بغیر حلالہ کے اگلے خاوند کے لیے درست نہیں ہو سکتی۔‘‘ 

(لغات الحدیث :۱؍ ۱۳۰، جو) 

دوسری جگہ لکھتے ہیں: 

’’ کوئی آدمی غصے میں تین طلاق دے دیتا ہے ، اب ائمہ اربعہ کی پیروی کرے تو حلالہ کے بغیر اپنی بیوی سے نہیں مل سکتا ۔‘‘ 

( لغات الحدیث :۲؍۵۶، ر)

یاد رہے ائمہ اربعہ خاص کر امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ غیرمقلدین کے نزدیک تارک تقلید ؍ غیرمقلد اور اہلِ حدیث ہیں اور وہ بقول وحید الزمان حلالہ کے قائل ہیں۔

 کیا حلالہ آیت ’’ولا تزر وازرۃ اخری ‘‘کے خلاف ہے ؟

عمران شہزاد تارڑ غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ کیا اسلام میں ایک شخص کے جرم کی سزا کسی دوسرے شخص کو دی جا سکتی ہے ؟ تیسری طلاق دینے کا جرم تو مرد ( خاوند ) کرتا ہے لیکن آپ حضرات اس کی سزا عورت ( بیوی ) کو دیتے ہیں ... کیا یہ قرآن کی آیت ولا تزر وازرۃ وزر اخری کے خلاف نہیں ہے ؟‘‘

 (حلالہ سنٹر ز اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۳۸)

اس طرح کا اعتراض حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد نے بھی اپنی کتاب’’ طلاق،خلع اور حلالہ صفحہ۱۳۶ وغیرہ میں کیا ہے۔ حالاں کہ وہ خود لکھ چکے ہیں کہ اس آیت کا تعلق آخرت کے حوالہ سے ہے کہ وہاں کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ 

 چنانچہ وہ مذکورہ آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’ یعنی جس طرح کوئی دوسرے کے گناہ کا ذمہ دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کو ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔ اس جزا کا تعلق آخرت سے ہے، دنیا سے نہیں جیسا کہ بعض سو شلسٹ قسم کے اہلِ علم اس کا یہ مفہوم باور کرا کے غیر حاضر زمینداری اور کرایہ داری کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔‘‘

 ( تفسیری حواشی صفحہ ۱۴۹۷)

حاصل یہ کہ قرآنی آیت میں کہا گیا کہ قیامت کے دن کوئی انسان کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔اہلِ سنت احناف کا یہ نظریہ نہیں کہ قیامت کے دن اکٹھی تین طلاقیں دینے والے مرد کا گناہ اس کی بیوی اٹھائے گی۔لہذا اس آیت کواحناف کے خلاف پیش کرنا محض سینہ زوری ہے ۔

شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کودنیا کے معاملات سے جوڑنا سوشلسٹ قسم کے لوگوں کا طرز ہے اور دوسرے مقام پر خود ہی اس آیت کو دنیاوی معاملہ پر چسپاں کئے ہوئے ہیں۔

عمران شہزاد تارڑنے پہلے کہا کہ حلالہ میں قصور مرد کا ہے اور سزا عورت کو ملتی ہے ۔ پھر کہا مرد کو بھی سزا ہوتی ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ البتہ شوہر کو ایک سزا یہ ضرور ملتی ہے بشرطیکہ وہ غیرت مند ہو کہ اس کی چند راتیں اس کرب میں گزرتی ہیں کہ اس کی بیوی کو کب کرائے کے سانڈ سے آزادی ملتی ہے اور وہ باعزت اس کے پاس واپس آتی ہے۔؟‘‘

(حلالہ سنٹرزاور خواتین کی عصمت دری صفحہ ۳۸) 

کرے کوئی،اور بھرے کوئی کا جواب 

خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ مرد کے گناہ کی سزا عورت بھگتے، وہ بے غیرت بنے اور غیر مردوں کے بستر کی زینت بننے کے لیے اپنے ستر کو اُن کے سامنے پیش کرتی پھرے۔ آخر کیوں ؟ کرے کوئی اور اور بھرے کوئی ۔لاتزر وازرۃ وزر اخری۔‘‘

( تین طلاقیں ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ ۱۲۸)

اقبال کیلانی لکھتے ہیں: 

’’ حلالہ کا ایک بہت ہی افسوس ناک اور المناک پہلو یہ ہے کہ تین طلاقیں دینے کا جرم تو مرد کرتا ہے لیکن اس کی سزا عورت کو بھگتنی پڑتی ہے ... کرے کوئی اور بھرے کوئی کا اندھا قانون نفس اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن مجید کا واضح ارشاد مبارک ہے ﴿لا تزر وازرۃ وزی اخری﴾ یعنی کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ ‘‘

 ( کتاب الطلاق صفحہ ۲۵)

اسی طرح کا اعتراض شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد اور عمران شہزاد تارڑ غیرمقلد نے بھی کیا ہے جیسا کہ پچھلے صفحات میں مذکور ہوا۔ 

الجواب: 

’’ لاتزر وازرۃ وزر اخری‘‘کا جواب اوپرمذکورہوچکا ہے ۔ خواجہ صاحب اور کیلانی صاحب کے الفاظ ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی ‘‘ کے دو جواب حاضر ہیں:

(۱) حضرت مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب دام ظلہ لکھتے ہیں:

’’ بعض جدید تعلیم یافتہ نوجوان یہ اعتراض کرتے ہیں کہ طلاق تو مرد دیتا ہے ، پھر حلالہ کی سزا عورت کو کیوں دی جاتی ہے۔ یہ اعتراض غلط فہمی کا نتیجہ ہے ۔ اس لیے کہ یہ عورت کے حق میں سزا تب ہو کہ عورت پر جبر ہو یا اس کی مرضی شامل نہ ہو حالاں کہ دوسرے مرد سے نکاح کے لیے بھی اور اگر پہلے خاوند کی جانب لوٹنا ہو تو اس میں بھی عورت کی رضا ضروری ہے، اس کی رضا کے بغیر تو نکاح ہی نہیں ہو تا اس لیے کہ ایجاب و قبول اس کے ارکان ہیں۔ جب دوسرے خاوند سے نکاح کے لیے عورت اپنی رضا ظاہر کرتی ہے اسی طرح اگر دوسرے خاوند نے طلاق دے دی اور پہلا خاوند اس کو دوبارہ نکاح میں لانا چاہتا ہو توتب بھی عورت کی رضا ضروری ہے ۔ جب عورت کی رضا شامل ہے تو اس کو سزا نہیں کہا جا سکتا۔ باقی رہا یہ کہ عورت کو کبھی ایک کے نکاح میں اورکبھی دوسرے کے نکاح میں دینا بھی تو عیب کی بات ہے تو عرض ہے کہ شرعی حکم پورا کرنے کی خاطر ایسا کرنا کوئی عیب نہیں ہے اور پھریہ صورتیں صرف اسی حالت میں پیش نہیں آتیں بلکہ زندگی میں دیگر حالات میں بھی ایسی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں اور ان کو کوئی بھی عیب نہیں سمجھتا مثلاً عورت کا نکاح ہوا ۔ خاوند نے طلاق دے دی اور پھر رجوع نہ کیا وہ عورت دوسرے کے نکاح میں چلی گئی۔ وہاں بھی اسی قسم کی حالت پیش آ گئی اور پھر تیسرے کے نکاح میں چلی گئی۔ آخر یہ عورت بھی تو یکے بعد دیگرے کئی خاوندوں کے نکاح میں رہی ہے اس کو کوئی عیب نہیں سمجھتا اور نہ ہی خاندان کے افراد اس کو غیرت کے منافی سمجھتے ہیں توجائز حلالہ کی صورت میں ایسی حالت کو کیوں عیب سمجھا جاتا ہے ۔ ‘‘ 

( جواب مقالہ صفحہ۵۱) 

 (۲)یہ کہنا کہ ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی ‘‘خود غیرمقلدین میں بھی پایا جاتا ہے کیوں کہ وہ تین متفرق طلاقوں کے بعد واپسی کی جوصورت بتایا کرتے ہیں، اس میں بھی عورت ہی کو دوسرے کے نکاح میں جانا پڑتا ہے، نہ کہ شوہر کو۔تب انہیں ’’ کرے کوئی اور بھرے کوئی ‘‘اصول کی فکر نہیں ہوتی۔باقی رہا ثبوت تو ذیل میں چند حوالہ جات پیش خدمت ہیں ۔ 


 غیرمقلدین کے ہاں حلالہ کی مشروعیت 

امام آلِ غیرمقلدیت علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

’’ تین طلاق دینے کے بعد بغیر حلالہ کے نکاح نہیں ہو سکتا ۔‘‘

( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۷)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’ فَصَارَ ذٰلِکَ سُنَّۃً بَعْدُ ،پھر اُس کے بعد یہی شریعت قائم ہوئی کہ تین طلاق والی عورت اپنے اگلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ جب تک دوسرا خاوند نہ کرے اور اُس سے صحبت نہ کرائے ۔ ‘‘ 

(لغات الحدیث:۲؍۱۸۳، سن )

 انہوں نے بخاری کی شرح میں لکھا: 

  ’’ تمام علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ حلالہ کے لئے دوسرے خاوند کا صحبت کرنا شرط ہے یعنی حشفہ کا دخول ہو جانا گو انزال نہ ہو اور امام حسن بصری نے انزال کو بھی شرط رکھا اور سعید بن المسیب ؓ نے صرف نکاح کو حلالہ کے لئے کافی سمجھا ہے اور سعید کے سوا کوئی اس کا قائل نہیں ہوا ۔البتہ خوارج کا مذہب سعید کے موافق ہے اور شاید سعید کو یہ حدیث نہ پہنچی ہوگی۔ ‘‘ 

 ( تیسیر الباری شرح بخاری :۷؍۲۲۶، تاج کمپنی ) 

اس عبارت میں لفظ ’’ حلالہ ‘‘ مذکور ہے ۔علامہ صاحب نے اپنی دوسری کتاب میں لکھا: 

’’ یعنی صرف نکاح سے حلالہ نہ ہوگا جب تک جماع نہ کرے ۔ اکثر علماء کا یہی قول ہے ‘‘ 

 ( ابوداو مترجم ۲؍ ۱۷۰)

وحید الزمان صاحب ہی لکھتے ہیں:

’’ تین طلاق کے بعد صرف دوسرے سے نکاح کرنا کافی نہیں بلکہ اس سے صحبت ہونا بھی ضروری ہے ۔ ‘‘

( نسائی مترجم ،کتاب النکاح صفحہ۴۱۵)

رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے علامہ وحید الزمان کو اپنی کتاب ’’سلفی تحقیقی جائزہ ‘‘ میں کئی بار امام اہلِ حدیث کہا ہے مثلاً دیکھئے اس کتاب کا صفحہ ۹۴۵ وغیرہ ۔

مولانا داود راز غیرمقلدلکھتے ہیں: 

’’ یعنی جب تک اچھی طرح دخول نہ ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ صرف حشفہ کا فرج میں داخل ہو جانا تحلیل کے لئے کافی ہے۔ امام حسن بصری نے انزال کی بھی شرط رکھی ہے ۔ یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا کہ عورت کا حکم کھانے پینے کی طرح نہیں ہے۔ بلکہ وہ حقیقتاً حلال یا حرام ہوتی ہے جیسے اس حدیث میں ہے کہ پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوسکتی ۔‘‘ 

 ( شرح بخاری مترجم ،کتاب الطلاق صفحہ ۴۲) 

راز صاحب بھی حلالہ کے ثبوت پرحدیث بخاری کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ 

راز صاحب لکھتے ہیں: 

’’ شرعی حلالہ کے بعد عورت پہلے خاوند سے نکاح کرنا چاہے تو اسے روکنا نہ چاہیے۔ ‘‘ 

 (شرح بخاری مترجم ،کتاب التفسیر صفحہ۱۰۱) 

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

  ’’ جب تین طلاقیں متفرق ہوں تو عورت بالاتفاق حرام ہو جاتی ہے خواہ تھوڑی تھوڑی مدت کے بعد دے یا کئی سالوں میں دے اور خواہ درمیان میں رجوع کیا ہویا نہ۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ یعنی تیسری طلا ق کے بعد حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اور خاوند سے نکاح پڑھے۔ ‘‘

 ( فتاویٰ اہلِ حدیث :۲؍۴۹۸)

تنبیہ: قرآن میں‘‘فَاِنْ طَلَّقَھَا ‘‘ ہے نہ کہ’’ وَاِنْ طَلَّقَھَا ‘‘ ۔

شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی جب تک یہ دونوں امور اکٹھے نہیں ہوجاتے۔ 

(۱) نکاح (۲)جماع ۔ ‘‘

 (مقالاتِ راشدیہ : ۳؍۴۳۵) 

 مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ ہاں اگر اس عورت نے کسی شخص سے نکاح کرلیا اور اس کے گھر آباد ہوگئی اوراس نے بدستور بیوی بنا کر اس کو رکھا اور صحبت کرتا رہا پھر قضاء الہی سے یہ شخص مر گیا یا اس نے کسی سبب سے ناراض ہو کر یا کراہت کرکے اس عورت کو طلاق دے دی، جس سے وہ عدت گذار کر بالکل آزاد ہو گئی تو اَب اس کو اختیار ہے کہ جس جگہ چاہے نکاح کر لے۔اَب اگر پہلے خاوند طلاق دینے والے سے بھی نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ، کچھ حرج اور گناہ نہیں ہے، اَب نئے نکاح سے یہ جائز ہو سکتی ہے۔ یہ حلالہ مشروعہ ہے جو آیت حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ سے مراد ہے ۔ ‘‘ 

( فتاویٰ حصاریہ :۶؍۳۳۳، ناشر :عبد اللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور ، طبع اول ۲۰۱۲ء)

حصاروی صاحب نے اعتراف کیا کہ حلالہ مشروعہ قرآن سے ثابت ہے ۔

 شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد ’’ طلاق بائنہ مغلظہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں: 

’’ اس سے مراد وہ طلاق ہے کہ خاوند دو مرتبہ طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کر چکا ہے ، پھر اس نے کچھ عرصے کے بعد طلاق دے دی، یہ تیسری طلاق، طلاق بائنہ مغلظہ ہے، اسے طلاق بتہ بھی کہا جاتا ہے۔ا س طلاق کے بعد خاوند نہ رجوع کر سکتا ہے اور نہ اس سے نکاح ۔ اَب حلالہ شرعیہ کے بغیر زوج اول سے نکاح نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘ 

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۴۸ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور ) 

 اس عبارت میں ’’ حلالہ شرعیہ ‘‘ الفاظ پہ نگاہ رہے ۔

صلاح الدین صاحب مزید لکھتے ہیں: 

’’ تین طہروں میں تین طلاقوں کو پورا کرنے میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس طرح پھر طلاق مغلظہ یا بتہ واقع ہو جاتی ہے جس کے بعد زوج اول سے نکاح ﴿ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا 

غَیْرَہٗ﴾پر عمل کیے بغیر ممکن ہی نہیں۔‘‘

 ( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۴۵ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور ) 

شیخ صلاح الدین یوسف صاحب نے جسے حلالہ شرعیہ کہا اس کے جواز پرقرآنی آیت : ﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾پیش کی ہے ۔

غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہے : 

’’ صورت مسئولہ میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اس لئے اَب خاوند اپنی مطلقہ بیوی سے نہ رجوع کر سکتا ہے اور نہ نکاح جدید سے اپنے گھر بسا سکتا ہے بجز حلالہ شرعی کے۔‘‘ ’

( آثارِ حنیف بھوجیانی :۱؍۳۸۶، المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور ) 

 آگے لکھا ہے : 

’’ صورت مسئولہ میں چوں کہ تین طلاقیں وقفہ وقفہ سے دی گئی ہیں اس لئے اَب دونوں میاں بیوی کے درمیان حلالہ شرعی کے بغیر نکاح نہیں ہو سکتا ۔ حلالہ شرعی کا مطلب یہ ہے کہ یہ عورت کسی اور جگہ شادی کرے اور وہ زوجِ ثانی صرف پہلے کے لئے حلال کرنے کے ذہن سے نکاح نہ کررہا ہو اپنی مرضی سے طلاق دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اَب یہ عورت زوج اول سے نکاح کرکے گھر آباد کر سکتی ہے ۔ ‘‘ 

( آثارِ حنیف بھوجیانی :۱؍۳۸۶، المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور )

  اس فتویٰ کے آخر میں : ’’تحریرحافظ صلاح الدین یوسف۔ تصدیق مولانا محمد عطاء اللہ حنیف۔‘‘ لکھا ہوا ہے۔

کتاب ’’ آثارِ حنیف بھوجیانی‘‘ کی مذکورہ بالا عبارتوں میں تین بار ’’ حلالہ شرعی ‘‘ کا لفظ لکھ کر اسے جائز تسلیم کیاگیا ہے ۔ 

حکیم عبد الرحمن خلیق غیرمقلد ( بدو ملہی ضلع نارووال )لکھتے ہیں:

’’ قرآن پاک نے جس حلالہ کا ذِکر کیا ہے،وہ ایک بالکل الگ امر ہے ... قرآنی حلالہ کی صورت یہ ہے کہ اگر عورت کو طلاق ہو چکے اور دوسرا گھر بسائے تو وہ اپنے نئے شوہر کی مستقل بیوی بن کر رہے ۔اس کا شوہر بھی اس سے نکاح کسی دوسرے کے لئے نہ کرے بلکہ اس کو اپنی مستقل بیوی بنا کر رکھے۔ وہ خواہ عمر بھر بیوی خاوند بنے رہیں ، اولاد پیدا کریں بسیں رسیں۔ لیکن اگر بد قسمتی سے کسی مرحلہ پر ان میں نزاع چل جائے اور بالآخر نوبت طلاق تک ہی پہنچے تو اَب اگر یہ عورت چاہے تو اپنے پرانے خاوند سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ محض جواز کی ایک صورت ہے کوئی حکم نہیں ہے۔ اگر وہ عورت ایسا نہ چاہے تو اُسے کوئی مجبوری نہیں ہے۔‘‘ 

( بارہ مسائل صفحہ ۲۲۸، اشاعت ششم ،ناشر: نیّر اقبال شجاع آباد ناظم دار الاشاعۃ رحمانیہ بدو ملہی ضلع نارووال )

حکیم صاحب نے اس عبارت میں مذکور حلالہ کو’’ قرآنی حلالہ‘‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حلالہ کا ثبوت قرآن میں ہے ۔ 

حکیم صاحب نے آگے لکھا: 

’’قرآنی حلالہ جس کا ذِکر ہو چکا ایک محفوظ عمل ہے اور کبھی شاذہی وقوع پاتا ہوگا۔ اس میں عورت کو حلالہ کے لئے مجبور کیا گیا ہے، نہ خاوند کو ہی حلالہ کروانے کا حکم ہے۔ عورت چاہے تو ساری زندگی اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ گزارے اور قرآنی حلالہ کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہوتا بلکہ وہ غیر مشروط نکاح ہے۔ عورت کے لئے کوئی ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے شوہر کی طرف واپس لوٹے ۔ ‘‘ 

 (بارہ مسائل صفحہ ۲۴۰، اشاعت ششم ،ناشر: نیّر اقبال شجاع آباد ناظم دار الاشاعۃ رحمانیہ بدو ملہی ضلع نارووال)

حکیم صاحب نے اس عبارت میں مذکور حلالہ کو قرآنی حلالہ کہا اور یہ بھی لکھا کہ اس حلالہ کی کبھی کبھار نوبت آتی ہے ۔ 

 رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ البتہ ایک صورت ایسی ہے کہ ایک ہی طہر بلکہ دو چار دِنوں کے اندر تینوں طلاقیں طریق شرعی کے مطابق واقع ہو سکتی ہیں وہ اس طرح کہ بحالت طہر جماع کے پہلے ایک دن آدمی نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور اسی دن دو چار گھنٹوں کے بعد رجوع کر لیا مگر گزر بسر کی صورت نہ دیکھ کر چند گھنٹوں کے بعد دوسری طلاق دے دی، پھر دو ہی چار گھنٹوں کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی۔ دریں صورت اس کی بیوی پر صرف صرف ایک دن کے اندر تینوں طلاقیں حکم شریعت کے مطابق واقع ہو گئیں۔ اور عورت طلاق دینے والے کے لیے حرام ہو گئی بغیر شرعی حلالہ کے دوبارہ اپنے طلاق دینے والے شوہر کے پاس وہ تجدید نکاح کے ذریعے بھی واپس نہیں آسکتی ۔ ‘‘ 

 ( تنویر الآفاق فی مسلۃ الطلاق صفحہ ۳۲۵) 

 اس عبارت میں ’’ شرعی حلالہ ‘‘ الفاظ پہ توجہ رہے ۔ 

ندوی صاحب کے اس حوالہ پر مولانا منیر احمد منور صاحب دام ظلہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’ رئیس ندوی صاحب نے تکلف سے کام لیا ہے ورنہ پندرہ پندرہ منٹوں کے وقفہ سے پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع کرکے تین طلاقیں دی جائیں تو رئیس ندوی صاحب کے بتائے ہوئے شرعی طریقہ کے مطابق ایک دو گھنٹوں میں تینوں طلاقیں شرعی طریقہ کے مطابق ہو سکتی ہیں۔ ‘‘

 ( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۲۵)

سوال ہوا ’’ اگر ایک آدمی اپنی بیوی کو دن میں یکے بعد دیگرے تین دفعہ طلاق کہہ دے۔ کیا رجوع کے لئے حلالہ کرانافرض ہوجاتا ہے ؟‘‘

مولانا عبد المنان نور پوری غیرمقلد نے جواب دیا: 

’’ صورت مسئولہ میں چوں کہ تین طلاقیں الگ الگ متعدد تین مجلسوں میں دی گئی ہیں۔ اس لئے تینوں ہی واقع ہوچکی ہیں۔ لہذا یہ عورت اپنے میاں کے لئے حلال نہیں۔ حتی کہ وہ کسی اور مرد کے ساتھ صحیح نکاح کرے ۔ ‘‘ 

( احکام و مسائل : ۲؍۴۹۱) 

مولانا عبد السلام بستوی غیرمقلد ( مدرس ریاض العلوم دہلی ) لکھتے ہیں : 

’’ جب اسی طرح کی تین طلاقیں دے دے ، تو وہ عورت بالکل حرام ہو گئی ، بغیر حلالہ کے حلال نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘ 

(ضمیمہ دستور المتقی صفحہ ۲۳۹، طبع عبد التواب اکیڈمی ملتان ) 

یہاں بھی لفظ  ’’ حلالہ ‘‘ پہ نگاہ رہے ۔ 

حافظ عمر فاروق سعیدی صاحب لکھتے ہیں: 

’’ دوسری جگہ محض نکاح کر لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ دوسرے خاوند سے اس کا زن و شوہر والا تعلق قائم ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر اس تعلق زوجیت کے بغیر ہی دوسرا خاوند طلاق دے دے گا تو یہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوگی ۔ ‘‘ 

(شرح ابو داود:۲؍ ۷۶۳)

مولانا محمد اقبال کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ تیسری طلاق (بائن )کے بعد علیحدہ ہونے والے میان بیوی آئندہ زندگی میں دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے الا یہ کہ عورت اپنی آزاد مرضی سے کسی دوسرے مرد کے ساتھ زندگی کی رفاقت نبھانے کی نیت سے نکاح کرے دونوں وظیفہ زوجیت ادا کریں اور پھر کسی وقت وہ مر ( یعنی دوسرا شوہر) فوت ہو جائے یا پہلے شوہر کی طرح آزاد مرضی سے طلاق دے دے تو عدت گزارنے کے بعد یہ مطلقہ خاتون اگر اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے ۔‘‘ 

( کتاب الطلاق صفحہ ۱۸)

حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ البتہ تیسری طلاق کے بعد جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے پہلے کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ (۱)ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ﴾[ البقرۃ:] ( اگر اسے تیسری بار طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں ) جب تک وہ عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے۔ ‘‘ (۲) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رفاعہ قرظی کی بیوی سے کہا تو پہلے شوہر کی طرف اس وقت تک نہیں لوٹ سکتی ﴿حَتّٰی تَذُوْقِیْ عُسَیْلَتَہٗ وَیَذُوْقَ عُسَیْلَتَکِ﴾’’ جب تک کہ تو اس ( یعنی دوسرے شوہر ) سے جماع کا لطف نہ اُٹھائے اور وہ تجھ سے لطف اندوز نہ ہو جائے۔(جمہور) مطلقہ ثلاثہ پہلے خاوند کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے نکاح نہ کرلے اور پھر وہ اس سے مباشرت نہ کر لے۔ (سعید بن مسیب ؒ، سعید بن جبیر ؒ ) مجرد عقد نکاح سے ہی وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی۔ (راجح ) پہلا قول ہی راجح ہے جیسا کہ گذشتہ صحیح حدیث اس پر شاہد ہے ۔ ‘‘ 

( فقہ الحدیث : ۲؍۶۲۱ ) 

حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب نے مذکورہ عبارت میں حلالہ شرعی کو قرآن و حدیث سے ثابت بتایا ہے ۔ 

 مولانا یونس غیرمقلد(مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب دہلی ) لکھتے ہیں: 

’’ ضرورتِ حلالہ شرعیہ طلاقِ مغلظہ میں پڑتی ہے ۔ ‘‘ 

(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍،۳۱۴ اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور ) 

الفاظ’’حلالہ شرعیہ ‘‘ پہ نظر رہے ۔ 

پروفیسر قاضی مقبول احمد غیرمقلد ﴿ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ کے متعلق لکھتے ہیں: 

’’ آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جب تک وہ عورت دوسرے خاوند سے ہم بستری نہ کر لے پہلے کے لیے محض عقد نکاح سے حلال نہیں ہوگی ۔ ‘‘ 

( اسلام اور اجتہاد صفحہ ۳۴ ) 

قاضی صاحب نے بھی حلالہ شرعیہ کے جواز پہ قرآنی آیت پیش کی ہے ۔ 

 شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد (ناظم جمعیت الِ حدیث بمبئی) لکھتے ہیں:

’’حلالہ جس چیز کا نام ہے اور شریعت نے اسے جس صورت میں جائز اور حلال قرار دیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ مطلقہ بائنہ کہیں دوسری جگہ صحیح شرعی طریقہ پر شادی کرکے نئے شوہر کی صحبت سے ہم کنار ہو جائے اور اس کے ساتھ حُسن ِ معاشرت کی پختہ نیت و ارادہ رکھے اور پہلے شوہر کو قطعاً فراموش کر جائے اوراُس سے ہر قسم کا تعلق ِ زوجیت بالکیہ منقطع کر لے۔پھر بد قسمتی سے اُس کا شوہر ہلاک ہو جائے یا اُس کو طلاق دے دے ، تو ایسی صورت میں پہلے شوہر کو اُس سے نکاح کا حق حاصل ہوگا ۔‘‘

 ( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۹۵ ، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )

مختار صاحب کی اس عبارت میں ’’ حلالہ جس چیز کا نام ہے اور شریعت نے اسے جس صورت میں جائز اور حلال قرار دیا۔‘‘ میں الفاظ حلالہ، جائز ، حلال اور شریعت پہ اک نظر پھر جمالیں۔ 

مولانا عبد الرحمن غیرمقلد (ابن مولانا عبید اللہ رحمانی غیرمقلد) لکھتے ہیں:

’’شریعت میں جس تحلیل کا اعتبار ہے وہ یہ ہے کہ پہلے شوہر کے طلاقِ مغلظہ کے بعد عورت کسی دوسرے شخص سے شادی کرکے اس کی صحبت سے ہم کنار ہو جائے اور اس کے ساتھ حسنِ معاشرت سے بسر کرنے لگے اور اس دوسرے نکاح سے سابق شوہر ، عورت اور اس کے موجود شوہر ثانی جس کی زوجیت میں وہ اس وقت ہے، ان تینوں میں سے کسی کی نیت حلالہ کی نہ ہو، پھر قضاء الہی سے شوہر فوت ہو جائے یا کسی وجہ سے طلاق دے دے تو پہلے شوہر کو اس سے نکاح کرنے کاحق ہے ۔‘‘

 ( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۱۱۴ ، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور)

’’شریعت میں جس تحلیل کا اعتبار ہے‘‘ الفاظ زیر نگاہ رہیں۔ 

خلیل الرحمن چشتی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ ایک واقعے میں رسول اللہؐ نے ایک عورت سے فرمایا حتی تذوقی عسیلتہ(بخاری ،کتاب الشہادات ،باب ۳، حدیث : ۲۶۷۸ ) یہاں تک کہ تو اس ( دوسرے شوہر ) کا شہد نہیں چکھ لے پہلا شوہر تجھے حلال نہ ہوگا۔ ‘‘ 

(حدیث کی اہمیت و ضرورت صفحہ۴۹ ، النور اکیڈمی ) 

چشتی صاحب ’’ حلالہ شرعیہ ‘‘ کے جائز ہونے پہ بخاری سے حدیث ِ نبوی پیش کر رہے ہیں۔

غیرمقلدین کی ان عبارات سے ثابت ہوا کہ وہ حلالہ شرعیہ کے قائل ہیں اور اس حلالہ میں بھی عورت ہی کو دوسرے مرد کے نکاح میں منسلک ہو کر اس کے بستر کی زینت بننا پڑتا ہے ، نہ کہ مرد کو۔ اس لئے غیرمقلدین نے جو طعن امیزعبارت لکھی کہ ’’کوئی کرے ، اور بھرے کوئی ‘‘ کی زَد میں وہ خود بھی آتے ہیں۔ 

فائدہ:

ایک صاحب نے عنوان : ’’ شرعی حلالہ کے بعد پہلا خاوند کتنی طلاقوں کا مستحق بنتا ہے ؟‘‘قائم کرکے لکھا:

’’رہا یہ سوال کہ جب طلاق یافتہ عورت مذکورہ بالا دونوں شروط کے پائے جانے کی صورت میں پہلے خاوند کے پاس لوٹ آئے تو کیااَب اس سے پہلے خاوند کو پھر اَز سر نَو تین طلاقوں کا حق ملے گا یا نہیں؟ تو اس بارے راجح قول یہی ہے کہ پہلا خاوند اس صورت میں تین نئی طلاقوں کا مالک بن جائے گا اور وہ گزشتہ دی گئی طلاقیں اس نئے نکاح میں شمار نہ ہوں گی ۔ لیکن اگر کسی نے تین سے کم طلاقیں دی تھیں اور اس کے بعد وہ عورت شرعی حلالہ کے مراحل سے گزر کر اس کے نکاح میں دوبارہ آتی ہے تو کیا اَب بھی اسے تین ہی طلاقوں کا حق ملتا ہے ؟ تو علماء کا اس صورت میں اختلاف ہے ۔‘‘

(شرح بلوغ المرام:۲؍۳۶۲ ، تالیف محمد بن صالح العثیمین ، ترجمہ : مولانا آصف نسیم غیرمقلد، دار المعرفۃ پاکستان ، الفضل مارکیٹ اردو بازار لاہور ) 

اس عبارت میں ’’ وہ عورت شرعی حلالہ کے مراحل سے گزر کر‘‘ـ جملہ قابل توجہ ہے ۔

حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’شرعی حلالہ :کوئی آدمی اپنی بیوی کو وقفے وقفے کے ساتھ تین طلاق دیتا ہے ، اب یہ عورت اپنے خاوند پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جاتی ہے، اس کے حلال ہونے کی ایک صورت قرآن کریم نے بیان کی ہے کہ وہ عورت آباد ہونے کی نیت سے کسی دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کرے اور وہ اس سے ہم بستری کرے پھر وہ نباہ نہ ہو نے کی وجہ سے طلاق دے یا فو ت ہو جائے تو عدت گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾’’ اگر خاوند اپنی بیوی کو( تیسری بار) طلاق دے دے تو اَب وہ عورت اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں جب تک وہ اس کے سوا کسی دوسرے سے نکاح نہ کرے۔‘‘ قرآن مجید میں وارد اس لفظ نکاح کی تفسیر سے آتی ہے، جیسا کہ سیدہ عائشہ( رضی اللہ عنہا ) سے مروی ایک حدیث میں ہے اس کی صراحت ہے۔ ( ابن ماجہ ،النکاح :۱۹۳۶) یہی شرعی حلالہ ہے جس کی قرآن کریم نے اجازت دی ہے۔ ‘‘

 ( فتاوی اصحاب الحدیث : ۵؍۳۷۴) 

  حماد صاحب نے اس عبارت میں مذکور حلالہ کی بابت دو باتیں کہیں: ایک تو اسے شرعی حلالہ کا نام دیا، دوسرا اس کا جواز قرآن مجید سے ثابت تسلیم کیا ہے ۔

حلالہ تومرد کا ہونا چاہیے، غیرمقلدین کا فتوی

اوپر حافظ عبد الستار حماد کی عبارت گزر چکی کہ حلالہ شرعی کا جواز قرآن سے ثابت ہے۔ اس کے ساتھ اُن کی درج ذیل عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں۔ وہ اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

’’ حلالہ تو طلاق دہندہ کاہونا چاہیے تھا جس نے یہ حرکت کی ہے لیکن ہمارے ہاں عورت کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے اس کی عصمت و عزت کو داغ دار کیا جاتا ہے۔ ‘‘ 

( شرح بخاری اردو : ۵؍۲۱۴) 

غیرمقلدین خود کو قرآن وحدیث کا عامل ظاہر کرتے ہیں۔لہذا طلاق دینے والے مرد کے حلالہ کا ثبوت قرآن وحدیث سے پیش کریں۔مزید یہ کہ جب آپ کے بقول مرد کا حلالہ کرایا جائے گا تب مرد عزت و عصمت والا رہے گا؟عورت کی عزت و عصمت کی آڑ میں مرد کی عزت وعصمت کو تار تار کرنے کے کیوں فتوے دینے لگے ہیں؟

حماد صاحب جس حلالہ کو شرعی حلالہ کا نام دے کر تسلیم کر چکے، وہاں بھی تو عورت ہی دوسرے مرد کی نکاح میں جاتی ہے ، نہ کہ مرد ۔تب تو نہیں کہا کہ قصور مرد کا ہے ، تختہ مشق عورت کیوں بنے ؟


حلالہ کی شرعی حیثیت 

رانا محمد شفیق الرحمن خاں پسروری غیرمقلدنے ’’حلالہ کی شرعی حیثیت ‘‘ نام سے ایک کتاب تحریر کی۔ اس میں لکھتے ہیں:

’’ ہاں اگر وہ عورت کسی اورمرد سے شریعت کے معروف طریقے کے مطابق ( بسنے اور زندگی گزارنے کی نیت سے ) نکاح کر لے ( کہ جس طرح اس نے پہلے مرد سے کیا تھا ) اور پھر ان دونوں میں نباہ نہ ہو سکے اور دوسرے شوہر نے بھی کہ جو اس سے دوسرا شوہر فوت ہو گیا ہے تو اَب پہلا شوہر اور یہ عورت چاہیں تو پھر شادی کر سکتے ہیں۔ اس صورت کے علاوہ پہلا شوہر تین طلاق کے بعد مطلقہ عورت سے رجوع نہیں کر سکتا،اس معاملہ میں کوئی اختلاف یا نزاع نہیں اور حلت کا یہ طریقہ نص قرآنی سے ثابت اور مشروع ہے ۔ ‘‘ 

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ ۸،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

مذکورہ عبارت میں ’’ حلت کا یہ طریقہ نص قرآنی سے ثابت اور مشروع ہے ۔ ‘‘جملہ کو پھر پڑھ لیں۔

اصل حلالہ کیا ہے ؟

 رانا محمد شفیق الرحمن خاں پسروری غیرمقلد ’’ اصل حلالہ کیا ہے ؟‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

’’ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو شرعی طریقہ پر تینوں طلاقیں دے کر دوبارہ اس کو رکھنا چاہتا ہے تواس کی کیا صورت ہے؟ یہ مسئلہ تو ظاہر ہے کہ شرعی طور پر دی ہوئی مطلقہ ثلاثہ بالاتفاق حرام ہے اور اس وقت تک حرام رہتی ہے جب تک کہ کسی دوسرے شخص سے شرعی طور پر نکاح نہ کر لے اور وہ دوسرا شوہر جس نے اپنی مرضی سے ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے نکاح کیا ہے برضا و رغبت عورت کے رویہ سے دل برداشتہ ہو کر شرعی اجازت طلاق سے مستفید ہوتے اس مصیبت سے رہائی نہ حاصل نہ کرلے ۔ اس صورت میں زوج اول کے لیے حلال ہونے میں سارے علماء اسلام کا اتفاق ہے ۔ ‘‘ 

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۴۲،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

پسروری صاحب نے حلالہ کی اس صورت کے جواز کو اجماعی لکھا ہے ۔ 

 مسئلہ حلالہ اورابن حزم ظاہری 

علامہ ابن حزم اہلِ ظواہر کے امام ہیں۔ غیرمقلدین نے ظاہری لوگوں کو اپنا ہم مسلک کہا ہے ۔چنانچہ ابو جبیر محمد اسلم سندھی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ظاہری مذہب یہ ہے کہ قیاس و تقلید وغیرہ کو رَد کرکے فقط قرآن وحدیث کے ظاہر پر عمل کیا جائے اور تاویل سے بچا جائے یہی اہلِ حدیث کا مذہب ہے۔‘‘ 

 (مجلہ بحر العلوم میر پور خاص ،شیخ العرب والعجم نمبرصفحہ ۴۲ )

اس طرح کے کئی حوالے ہماری اسی کتاب میں غیرمقلدین کی کتابوں سے منقول ہیں جن میں علامہ ابن حزم ظاہری کو غیرمقلد اور اہلِ حدیث لکھا ہوا ہے ۔ 

اتنا جان لینے کے بعد اَب حلالہ کے متعلق علامہ ابن حزم ظاہری کانظریہ رانا محمد شفیق الرحمن خاں پسروری غیرمقلد کی زبانی پڑھیے ۔

وہ لکھتے ہیں:

’’ اگر مطلِّق [طلاق دینے والے ( ناقل ) ] کو اس بات کی خواہش ہو کہ کوئی شخص اس کی بیوی سے نکاح کرکے اس کو اس کے لیے حلالہ کر دے تو یہ جائز ہے جب زوج ثانی نے بلا شرط نکاح کیا ہو اور بعد نکاح اس زوج ثانی کواختیار کلی حاصل ہے کہ بیوی کو طلاق دے یانہ دے ، اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں، اس اختیار ِ کلی کے بعد اگر زوج ثانی نے طلاق دے دی تو عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی، لیکن اگر اس نے عقد نکاح میں یہ شرط کر دی کہ بعد وطی طلاق دے دے گا تو یہ عقدِ نکاح صحیح نہیں ، فاسد و مفسوح ہے اس عقد سے عورت زوج اول کے حلال نہیں ہوسکتی ...( المحلی ۱۸۰؍۱۰) لیکن ! علامہ ابن حزم کا یہ ارشاد منطقی رو سے جو کچھ بھی ہو ، شرعی نقطۂ نظر سے محل نظر ہے ۔ ‘‘ 

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۴۵،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

 پسروری صاحب لکھتے ہیں:

’’ حافظ ابن حجر امام ابن حزم سے بیان کرتے ہیں کہ حدیث مذکور ہر محلل کے لیے عام نہیں ہے اگرہے تو ظاہری الفاظ پر اس کے مفہوم کو رکھیں تو اس میں ہبہ کرنے والا بیچنے والا اور ہر شادی کرنے کرنے والا داخل ہوگا جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس حدیث سے مراد بعض محللین ہیں ، بالخصوص وہ جو حرام کو دوسرے کے لیے بغیر دلیل کے حلال کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ شرط کس سے متعلق ہے ... بلا شرط و قید نکاح ِ تحلیل کو جائز قرار دینے والوں میں ابو ثور بعض علمائے حنفیہ ، مؤید باللہ اور ھادویہ کا شمار ہوتا ہے ، یہ لوگ حرمت والی احادیث کو اس معنیٰ میں لیتے ہیں یہ تب ہے جب نکاح تحلیل کی شرط لگائی گئی ہو اور ان کی دلیل امام عبد الرزاق نے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے ایک آدمی کو یہ پیغام بھیجا کہ میں نے ایک آدمی سے نکاح اس غرض کے لیے کیا ہے تاکہ وہ اسے اس کے پہلے خاوند کے لیے حلال کر دے تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ وہ آدمی اس کے ساتھ رہے اور اسے طلاق نہ دے اس کے ساتھ ہی ڈانٹا کہ اگر اس نے طلاق دی تو اسے سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا۔ مذکورہ حضرات نے اس سے استدلال پکڑتے ہوئے کہا کہ یہ نکاح درست ہے اگر نکاح ہی باطل ہوتا تو اَز سر نو نکاح کا حکم دیا جاتا ۔ اس قسم کی ایک اور روایت امام عبد الرزاق ہی عروہ بن زبیر سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک نکاح ِ تحلیل کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں جب کہ دونوں میاں بیوی حلالہ والی صورت سے لا علم ہوں۔ ‘‘ 

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ ۶۴،۶۵،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

 پسروری صاحب آگے لکھتے ہیں:

’’ امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ یہ سالم بن عبد اللہ اور حاکم بن محمد کا قول ہے ابن قیم اپنی کتاب اعلام الموقعین میں فرماتے ہیں کہ عطاء بن یسار سے یہ قول صحیح طور پر ثابت ہے کہ جو شخص کسی عورت سے حلالہ کرنے کی غرض سے نکاح کرتا ہے ، پھر اس میں اس کی چاہت اور پسند شامل ہوجاتی ہے اور آئندہ مستقل طور رکھنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام شعبی کہتے ہیں کہ تحلیل میں کوئی حرج نہیں جب کہ خاوند کا اس میں کوئی عمل دخل نہ ہو ۔ اور امام لیث بن سعد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ آدمی اس سے شادی کرے، پھر اسے طلاق دے دے تو وہ عورت پہلے خاوند سے رجوع کر سکتی ہے امام شافعی اور ابو ثور کہتے ہیں کہ حلالہ کرنے والا در اصل اپنا نکاح خراب کر رہا ہے کیوں کہ وہ ایسی عورت سے شادی کر رہا ہے جسے اس کے خاوند کے لیے حلال کرے ۔ تو جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جس نے بوقت نکاح ایسی شرط عائد نہیں کی تو اس کا نکاح صحیح ہوگا اور نہ وہ اس لعنت کے اندر داخل ہے ، اس صورت میں قبل شرط عائد کرنا یا نہ کرنا اورنیت کرنا یا نہ کرنا برابر ہے بلکہ امام ابو ثور نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ اس پر اجر و ثواب کا مستحق ہے ۔ ‘‘

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ ۶۵،۶۶،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

پسروری صاحب کی نقل کردہ عبارات کے مطابق علامہ ابن حزم ظاہری نکاح حلالہ کو جائز کہتے ہیں۔ غیرمقلدین کے ہاں ابن حزم ظاہری چوں کہ غیرمقلد و اہل حدیث سمجھے ہیں،اس لیے پسروری صاحب ان کی تردید میں بس اتنا کہہ سکے کہ ان کا نظریہ : 

’’شرعی نقطۂ نظر سے محل نظر ہے ۔ ‘‘ 

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۴۵،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

جب کہ اپنے دیگر مخالفین کو یوں کوستے رہے ہیں:

 ’’ حلالہ کرنا حرام ہی نہیں دیوثی بھی ہے ۔ ‘‘

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۹،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

 پسروری صاحب لکھتے ہیں: 

  ’’ افسوس کہ ایک غلط فتوے کی بناء پر آج یہ زناکاریاں شریف گھرانوں میں گھس گئیں اور اس حرام کا نام حلال رکھا لیا گیا، شریعت کے مقصود کوکھو دیا، دین کو غیروں کی نظروں میں مطعون کر دیا۔‘‘

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۴۵،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

پسروری صاحب لکھتے ہیں:

’’ اے وہ لوگو!جن کی آنکھوں پر قیاس کی پٹی اور جن گلے میں تقلید کے طوق اور جن کے پاؤں میں رائے کی زنجیریں پڑی ہوئی ہیں، تم نے اگلوں کی اس بات کو کیسے باور کر لیا کہ یہ نکاح ہے اوراس کے بعد یہ عورت اپنے اگلے خاوند پر حلال ہو جائے گی؟تم نے خدا کے دین سے کھیلنا شروع کر دیا، تم نے دین خدا کی عظمت کو روند ڈالا ، تم نے احکام خدا کو اپنے بزرگوں کے قدموں پر قربان کر دیا ۔ ‘‘ 

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۳۱،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

پسروری صاحب کو اعتراف ہے علامہ ابن حزم ظاہری کے ہاں نکاح ِ حلالہ جائز ہے۔ اس لیے اُن کے مذکورہ طعن آمیز سب جملے ابن حزم پر چسپاں ہوتے ہیں۔

ایسے دین کو ہی نہ مانتے ... 

 رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’حضرت امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے تو صاف فرمادیا ہے کہ اگر حلالہ دین کا مسئلہ ہوتا تو ہم ایسے دین کو ہی نہ مانتے۔ ‘‘

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۹،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

عام طور پرمخالفین کہا کرتے ہیں کہ حلالہ بے دینی ہے، اس لیے ہم نہیں مانتے۔اب یوں کہہ دیا کہ اگر یہ دین کا مسئلہ ہوتا تب بھی نہ مانتے۔ 

اہل تشیع کی رائے 

  نکاحِ حلالہ کو حرام قرار دئیے جانے والے اِک فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس فیصلہ کی تحسین کرنے والوں میں من حیث الجماعت اہلِ حدیث ،اہل تشیع اور جماعت اسلامی کے لوگ تھے۔ ‘‘

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۱۸،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

مطلب یہ سب لوگ علامہ ابن حزم ظاہری کے خلاف ہوئے جنہیں غیرمقلدین اپنا ہم مسلک؍ اہلِ حدیث کہا کرتے ہیں۔ 

پسروری صاحب نے شیعہ کے رسالہ ’’ العارف لاہور... فروری ؍ ۱۹۹۶ء ‘‘ سے شاہد نقوی کی تحریر نقل کی ہے :

’’مذہب ِ امامیہ کی رو سے حلالہ کی نوبت ہی نہیں آتی اس لیے کہ کوئی دیوانہ مرد ہی ایسا ہوگا جو وقفہ وقفہ سے طلاق دے کر اور طلاق مؤثر ہونے کے بعد عقدِ جدید کرتا رہا ہو۔ اور تیسری مرتبہ یعنی طلاق بائن کے بعد بھی وہ اس عورت کا خواستگار رہے اور انتظار کرے کہ دوسرا شخص اس عورت سے شادی کرے اور جب وہ اپنی مرضی سے طلاق دے گا تو یہ پھر اس سے شادی کرے گا اور اسی طرح کوئی دیوانی عورت ہی ایسی ہوگی جو اس قسم کے شوہر کی زوجیت سے خارج ہونے کے بعد پھر اپنے اختیار سے اس جیسے شخص سے عقد جدید کرتی رہے۔ اور طلاق بائن کے بعد کسی دوسرے شخص سے شادی کرنے کے بعد اس سے بھی طلاق لے کر اپنے پہلے خاوند سے شادی کرے۔ ‘‘ 

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۷۸،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

ایک عجیب قیاس 

 رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’یہ نکاح نہیں، یہ تو ایسا ہی ہے جیسے دھوبی کو کپڑا دیں کہ وہ اسے دھو کر پاک کرکے دے دے ۔ ‘‘ 

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۲۸،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

پسروری صاحب ایک طرف تو دعویٰ کرتے ہیں کہ نکاح حلالہ جائز نہیں، دوسری طرف اُن کپڑوں پر قیاس بھی کرتے ہیں جسے دھوبی دھو کر پاک کر دے۔ اس سے کیا تاثر ملتا ہے یہی کہ جس طرح کپڑے دھلنے کے بعد پاک ہیں، اسی طرح دوسرے خاوند کے طلا ق دینے کے بعد وہ عورت پہلے کے لیے حلال ہو گئی ۔ اگر یہ مراد نہیں تو کیا ہے ؟ 

ایک اور قیاس 

رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ درندے کے نوچے ہوئے گوشت پھر کیاپاک ہوں گے ۔ ‘‘

 ( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۳۲،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

اب نکاح حلالہ کا قیاس درندوں کے نوچے ہوئے گوشت پر ہونے لگا ،مگر یہ نہیں بتایا کہ غیرمقلدین کے ہاں درندوں کے جھوٹے کا کیا حکم ہے؟ جن کے ہاں درندوں کا جھوٹا نجس نہیں اُن کے لیے کیا ارشاد ہوگا؟اور یہ بھی بتادیا ہوتا کہ خود قیاس کی ان کے ہاں کیا حیثیت ہے ؟

ایسی عورت کو درندے کے حوالہ کردو 

رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’واللہ یہ بہتر تھا کہ اس سانڈ کے بدلے تم اسے کسی درندے کو سونپ دیتے کہ وہ پھاڑ کھائے ... بہتر تھا کہ کوئی شیر اسے پھاڑ کھاتا۔ ‘‘ 

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۳۳،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )

پسروری صاحب قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے دعوے دار ہیں اس لئے وہ کوئی آیت و حدیث پیش کر دیتے کہ ایسی عورت کو شیر وغیرہ درندے کے حوالہ کردیں اور وہ اسے چیر کھائے۔کیا آپ کی یہ رائے قرآن و حدیث کی اُن نصوص کے خلاف نہیں جن میں انسان کے قتل کرنے کی ممانعت ہے ؟ مزید یہ کہ پسروری صاحب کو اعتراف ہے کہ علامہ ابن حزم ظاہری نکاح ِ حلالہ کے قائل ہیں جیسا کہ اوپرمذکور ہوا تو ان پہ یہ جملہ کیوں نہیں کسا ؟

نکاح حلالہ کو ناجائز قرار دینے والوں کی بابت 

رانا شفیق الرحمن خان پسروری غیرمقلد نکاح حلالہ کو ناجائز قرار دینے والوں کے متعلق لکھتے ہیں: 

’’شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ سبب حیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب طلاقیں کثرت سے واقع ہونے لگیں اور اس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تو اس کے بارے میں دوآراء پیدا ہو گئیں۔ پہلی رائے :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چوں کہ حلالہ کو ناجائز قرار دیاتھا اس لیے انہوں نے اسے حرام ہی گردانا اور اس کے ساتھ ساتھ کئی ایسی صورتوں کو بھی حرام قرار دے دیا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار نہیں دیا تھا ۔ توا س سے کئی پیچیدگیاں اور بہت بڑا حرج پیدا ہوگیا جس سے دین و دنیا کے اعتبار سے کئی ایک مفاسد نے بھی جنم لیا۔ مثلاً (اس ناروا سختی پر ) بعض لوگوں کا اسلام سے بھی پھر جانا، پاکیزہ خونوں کا ناجائز بہاؤ، عقل کا زائل ہو جانا ، لوگوں کے درمیان عداوت کا پیدا ہوجانا اور اسی طرح اسلامی شریعت میں نقص و جرح کا سلسلہ چل پڑنا وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘

( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۵۸،الفلاح پبلی کیشنز لاہور ) 

پسروری صاحب کی اس کتاب سے نکاح حلالہ کو ناجائز قرار دینے والوں کے فسادات لوگوں کے سامنے آ گئے۔ 

 بیوی نہ بسانے کی نیت سے کیا گیا نکاح 

کسی نے سوال کیا: 

’’میں بیرون ملک میں زیر تعلیم ہوں، میں نے شادی الاؤنس لینے کے لیے ایک لڑکی سے نکاح کیا لیکن میری نیت شادی کی نہیں تھی، میں نے یہ نکاح گواہوں کی موجودگی،لڑکی کے والدین اور اپنے والدین کی رضا مندی سے کیا ہے ، اس قسم کے نکاح حیثیت کیا ہے ؟‘‘

حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد نے اس کا یوں جواب دیا: 

’’ جب نکاح کے تمام ارکان اور شرائط پائی جائیں اور ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح ہو جاتا ہے خواہ نکاح کرنے والے کی نیت ذاتی مفادات کا حصول ہی کیوں نہ ہو، اس قسم کی نیت کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ احناف، شوافع، حنابلہ اور مالکی حضرات اس قسم کے نکاح کو صحیح قرار دیتے ہیں، خواہ ہنسی مذاق میں ہی کیوں نہ ہو۔ ان حضرات کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر سنجیدگی سے کیا جائے تو بھی پختہ ہیں اور اگر مذاق میں انہیں کیا جائے تو بھی پختہ ہیں: ایک نکاح، دوسری طلاق اور تیسرا رجوع ۔ (ابو داود ، الطلاق: ۲۱۹۴) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ تینوں حقیقی طور پر سنجیدگی سے کئے جائیں تو حقیقت پر مبنی ہوں اور اگر بطور مذاق کئے جائیں تو بھی حقیقت ہی ہوں گے۔ اس لئے ہمارے رجحان کے مطابق سوال میں مذکورہ نکاح حقیقت پر مبنی اور اسے واجب قرار دیا جائے گا، اگرچہ نکاح کرنے والے کی نیت ذاتی مفادات حصول تھا ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: عام علماء کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق بھی واقع ہو جائے گی اور اس طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے مرفوع حدیث کے متن میں اس کا ذِکر ہے۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کا موقف بھی یہی ہے اور مشہور اہلِ علم نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔ (مجموع الفتاوی :ج۶ص ۶۳)‘‘ 

(فتاوی اصحاب الحدیث :۴؍۳۴۱)

غیرمقلدین نکاح حلالہ کی اک خاص صورت کے متعلق کہا کرتے ہیں چوں کہ وہ آباد ہونے کے لیے نہیں ہوتا اس لئے منعقد نہیں۔ عرض ہے کہ مذکورہ فتوی کے مطابق نوجوان نے بھی لڑکی کو آباد کرنے کے لیے نکاح نہیں کیا بلکہ اپنا ذاتی مفاد پیش نظر تھا مگر حماد صاحب نے اس نکاح کو جائز قرار دے دیا اور پھرمذاہب اربعہ کو بھی بیچ میں لے آئے، حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ہم نوائی بھی جتلا دی ، صحابہ کرام و تابعین عظام کے موقف سے تائید بھی ظاہر کر لی اور مشہور اہلِ علم کو بھی اپنا حامی باور کرا دیا بلکہ حدیث سے استشہاد کا دعویٰ بھی ۔ 

حماد صاحب نے لکھا: 

’’جب نکاح کے تمام ارکان اور شرائط پائی جائیں اور ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح ہو جاتا ہے خواہ نکاح کرنے والے کی نیت ذاتی مفادات کا حصول ہی کیوں نہ ہو، اس قسم کی نیت کچھ حیثیت نہیں رکھتی ۔ ‘‘

غیرمقلدین اپنے زعم میں جس نکاح حلالہ کو غیرمنعقد کہتے ہیں کیا وہاں یہ ارکان نہیں ہوتے ؟اوریہ شرائط نہیں پائی جاتیں؟ 

اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کیا جانے والانکاح منعقد 

حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد کاایک اور فتوی بھی ملاحظہ فرما لیں۔یہ فتوی ان کے مجموعہ فتاوی میں ’’ نکاح کے وقت حقیقی نکاح کی نیت نہیں‘‘ عنوان کے تحت درج ہے۔ 

 کسی نے سوال کیا : 

’’ میں نے ایک لڑکی سے اس کے والدین کی اجازت اور دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کیا، لیکن میری نیت شادی کی نہیں تھی، ہم اس کاغذی کاروائی کے ذریعے بیرون ملک جانا چاہتے تھے تاکہ وہاں جا کر وہ اور میں اپنی پسند کی شادی کر لیں۔ چنانچہ ہم نے بیرون ملک جا کر اپنی اپنی پسند کی شادیاں طے شدہ پروگرام کے مطابق کر لیں۔ کیا ایسا کرنا صحیح تھا؟ ‘‘ 

حماد صاحب نے اس کا جواب دیا: 

’’ اسلام میں آباد کاری کی نیت کے علاوہ کسی اور مقصد کے پیش نظر نکاح کرنا درست نہیں۔ آباد کاری میں بھی یہ نیت ہو کہ ہم نے ہمیشہ کے لئے اکٹھے رہنا ہے ، کسی خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عارضی طور پرآباد کاری کی نیت کرنا بھی صحیح نہیں ، دین اسلام میں جب مکمل شروط کے ساتھ ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح واجب ہو جاتا ہے خواہ عقد کرنے والے طرفین یا ان میں سے کوئی ایک یہ نکاح بطور کھیل و مذاق ہی کر رہا ہو، تمام سنجیدہ اہلِ علم کا اس پر اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح و طلاق کے مسائل بیان کرنے کے بعد فرمایا : ﴿وَلَا تَتَّخِذُوْا آیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا ﴾تم اللہ کے احکام و مسائل کو ہنسی اور کھیل کا ذریعہ نہ بناؤ۔ اسی آیت کی بناء پر اللہ کے احکام کو استہزاء و مذاق کا ذریعہ نہیں بنا نا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’ تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے تو حقیقت ہیں اور اگر ہنسی اور مذاق میں کہے تو بھی حقیقت ہیں۔ نکاح، طلاق اور طلاق سے رجوع۔ اس قرآنی آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک شرعی ذمہ داری قبول کرتے وقت یا اس سے دست بردار ہوتے وقت انسان کو اچھی طرح سوچ سمجھ کر اس کے نتائج پر غور کر لینا چاہیے تاکہ بعد میں ندامت و پریشانی نہ ہو ۔ ‘‘ 

(فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۵؍۳۴۶ ) 

حماد صاحب نے اتنا کچھ لکھنے کے بعد آگے لکھا: 

’’صورت مسئولہ  میں جب نکاح کی شرائط موجود ہیں تو یہ عقد نکاح صحیح ہے ۔ اس میں یہ نہیں دیکھاجائے گا کہ نیت نکاح کی نہیں تھی ۔ ہمارے نزدیک نکاح کے وقت اس طرح کی نیت کرنا اپنی ذمہ داریوں سے راہ ِ فرار اختیار کرنے کا ایک چور دروازہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیات کے اور اس کے احکام کے ساتھ ایک مذاق کی صورت ہے جو ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔بہرحال سوال میں ذکر کردہ ’’ کاغذی کاروائی ‘‘ سے فریقین نکاح کے بندھن میں آ چکے ہیں ، اگرچہ ان کی نیت بیرون ملک جا کر اپنی اپنی شادیاں کرنا تھا ،ا گر یہی بات تھی تو والدین کو پہلے سے اپنے ارادے سے آگاہ کر دیا جاتا تاکہ وہ اس کے لیے کوئی اور راستہ نکالتے، عقد نکاح کو اس کے لئے استعمال کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈراموں اور فلموں میں فرضی طور پر میاں بیوی کا کردار ادا کرنا بھی صحیح نہیں کیوں کہ اندیشہ ہے کہ اللہ کے ہاں ایسا کرنے سے وہ میاں بیوی ہی متصورہوں جب کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے اور نہ ہی اس کے مطابق باہم معاملہ کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم !‘‘ 

(فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۵؍۳۴۶، عنوان : نکاح کے وقت حقیقی نکاح کی نیت نہیں ) 

ہم نے حماد صاحب کا پورا فتوی لفظ بہ لفظ نقل کر دیا ہے اس فتوے میں درج ذیل باتیں ہیں:

(۱)اس فتوے کا عنوان ’’ نکاح کے وقت حقیقی نکاح کی نیت نہیں‘‘ ہے ۔مگر نکاح پھر بھی ہوگیا ۔ 

(۲) اسلام میں آباد کاری کی نیت کے علاوہ کسی اور مقصد کے پیش نظر نکاح کرنا درست نہیں ۔لیکن جب انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر نکاح کر لیا تو نکاح ہوگیا۔تونکاح حلالہ کے وقت یہ اصول کہاں چلا جاتا ہے ؟

(۳)لڑکے اور لڑکی نے آباد رہنے کی بجائے محض بیرون ملک جانے کے لئے نکاح کیا۔ لیکن نکاح جائز ہوا۔

(۴) اللہ کا مذاق اُڑانے کی قبیل سے یہ نکاح ہے اور یہ مذاق ممنوع اور گناہ کا کام ہے ۔ 

(۵)اگرچہ انہوں نے ممنوع اور گناہ کا کام کیا مگر پھر بھی نکاح منعقد ہو گیا ۔ 

کیا آپ نکاح حلالہ کی بابت یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ اگرچہ ایسا نکاح ممنوع ہے لیکن اگر کسی نے کرلیا تو منعقد ہوجائے گا؟

(۶)یہ نکاح منعقد اس لئے ہے کہ نکاح کی شرطیں ایجاب وقبول وغیرہ پائی جاتی ہیں۔ کیا حلالہ کے لئے کئے جانے والے نکاح میں نکاح کی شرطیں ایجاب وقبول وغیرہ نہیں ہوتیں؟

(۷)ڈراموں اور فلموں میں میاں و بیوی کا کردار ادا کرنے والوں کی بابت خدشہ ہے کہ شاید وہ اللہ کے ہاں شوہر و بیوی تصور ہوں ۔ایک طرف ڈرامہ اور فلم کی فرضی کاروائی پہ عند اللہ میاں و بیوی بن جانا ممکن ہے اور دوسری طرف باقاعدہ مہر اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول سے کئے جانے والے نکاح حلالہ کی بابت عدم انعقاد کا دعوی ۔

عرب علماء کے چند فتاوی 

 طلاق دینے کی نیت سے نکاح کا جواز

آگے بڑھنے سے پہلے یہاں عرب علماء کے فتاویٰ بھی پڑھتے چلیں ۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ غیرمقلدین عرب علماء کو اپنا ہم مذہب سمجھتے ہیں ۔ حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلدکی کتاب ’’ اہلِ حدیث اور علماء حرمین کا اتفاق رائے‘‘ دیکھئے ۔ 

غیرمقلدین اپنے مزعومہ نکاح حلالہ کے منعقد نہ ہونے کی عقلی وجہ لکھتے ہیں کہ یہ عارضی ہوتا ہے ۔اسی تناظر میں فتاوی بلد الحرام کا ایک فتوی پیش خدمت ہے کہ اس میں طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرنے کو جائز بتایا اور اسے جمہور اہلِ علم کا مسلک قرار دیا ۔ 

’’ السوال: ارید السفر الی الخارج بمقصد الدراسۃ فھل یجوز ان اتزوج بنیۃ الطلاق عند العودۃ ... الجواب: لا حرج فی ذلک اذا تزوج فی محل السفر وفی نیتہ انہ یطلقھا اذا اراد الرجوع عند جمھور اھل العلم۔‘‘

ترجمہ:سوال: میں پڑھنے کے لیے سفر کا ارادہ رکھتا ہوں کیا جائز ہے کہ واپسی پہ طلاق دینے کی نیت سے میں شادی کر لوں ...؟

جواب: جمہور اہلِ علم کے ہاں اس میں کوئی حرج نہیں جب کہ شادی سفر میں ہو اور اس کی نیت ہو کہ واپسی کا ارادہ کرے گا، تب اسے طلاق دے دے گا۔ 

 ( فتاویٰ بلدالحرام صفحہ صفحہ ۴۵۲عنوان نمبر: ۵۱حکم الزواج بنیۃ الطلاق ) 

عارضی شادی کاجواز سعودی عالم شیخ بن باز کا فتوی 

  ’’سوال: میں بیروں ملک پڑھائی کی غرض سے سفر کر رہا ہوں تو کیا میرے لئے انہیں (لڑکی اور اس کے والدین کو )بتائے بغیر واپسی پر طلاق دے دینے کی نیت سے وہاں شادی کرنا جائز ہے ؟ جواب: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اگر انسان سفر کی جگہ میں شادی کرے اور اس کی نیت ہو کہ وہ واپسی پر اسے طلاق دے دے گا۔جمہور اہلِ علم اسی کے قائل ہیں ۔ بعض علماء نے اس مسئلے میں توقف سے کام لیا ہے اور اس بات سے ڈرے ہیں کہ کہیں یہ متعہ کی قسم ہی نہ ہو ، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے ، کیوں کہ نکاحِ متعہ میں معلوم مدت کی شرط لگائی جاتی ہے کہ وہ فلاں عورت سے شادی کرے گا اور پھر ایک یا دو ماہ بعد اسے طلاق دے گا اور پھر ان کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہوگا جب کہ مطلق شادی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہوتی البتہ صرف یہ نیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہر کی طرف واپس جاتے وقت اسے طلاق دے دے گا، اس لیے یہ متعہ نہیں اورا س لئے بھی کہ اس صورت میں بعض اوقات وہ عورت کو طلاق دے دیتا ہے اور بعض اوقات اس میں رغبت رکھتا ہے ( اور اسے طلاق نہیں دیتا ) ۔لہذا جمہور اہلِ علم کی رائے کے مطابق صحیح یہی ہے کہ یہ متعہ نہیں اور بعض اوقات لوگ اس کے محتاج بھی ہوتے ہیں ،وہ اس طرح انسان کبھی اپنے نفس پر کسی فتنہ ( زنا وغیرہ ) میں مبتلا ہو جانے کے خائف ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے کوئی مناسب عورت میسر فرما دیتا ہے اور وہ اس سے شادی کر لیتا ہے، لیکن اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کا ( اپنے ملک ) واپسی کا ارادہ ہوگا تو وہ اسے طلاق دے دے گا کیوں کہ وہ اس کے ملک کے لئے موزوں نہیں یا کسی اور وجہ سے تو یہ چیز صحت نکاح میں کوئی رکاوٹ نہیں اور اسے بھی اپنے ساتھ ہی لے جانا ہے اور اس کی نیت اسے کوئی نقصان نہیں دیتی ۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ ...(شیخ ابن باز ) ...‘‘ 

(سلسلہ فتاوی عرب علماء، فتاوی نکاح و طلاق صفحہ ۱۵۲، ترتیب و تخریج : حافظ عمران ایوب لاہوری، تاریخ ِ اشاعت: جنوری ؍ ۲۰۰۶ء ،ناشر: فقہ الحدیث پبلی کیشنز لاہور )

غیرمقلدین کے ہاں شیخ بن باز اُن کے ہم مذہب عالم ہیں چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے لکھا: 

’’ اَب عصرحاضر کے بعض اہلِ حدیث علماء کے دس حوالے پیش ِ خدمت ہیں...سعودی عرب کے مشہور شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ۔‘‘(علمی مقالات :۴؍۱۹۰،۱۹۱، مکتبہ اسلامیہ ، اشاعتِ اول ۲۰۱۲ء) 


 قانونی سہولت حاصل کرنے کے لئے کیا جانے والا نکاح درست ہے 

 عربی عالم شیخ محمد المنجد کا فتوی 

کسی نے سوال کیا : 

  ’’ میں نے ایک لڑکی سے کسی فائدہ کے لیے نکاح کیا تھا ۔قانونی اعتبار سے تو یہ شادی صحیح تھی کیوں کہ یہ شادی باقاعدہ گواہوں کی موجودگی،لڑکی کے والدین اور اپنے والدین کی موجودگی میں اندراج کرائی تھی ۔ لیکن میری شادی کی نیت نہیں تھی بلکہ نیت یہ تھی کہ ہم قانون کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ ہم شادی شدہ ہیں۔ عقد ِ نکاح کو پانچ برس گزرنے کے باوجود ہم نے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کئے اور اَب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم علیحدہ نہ ہوں اور نہ ہی میں اسے طلاق دوں بلکہ اَب ہم حقیقی خاوند اور بیوی بن کر رہنا چاہتے ہیں ۔اب ہماری نیت شادی کی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہمیں تجدید نکاح کرنا ہوگا کہ نہیں ؟‘‘

عربی عالم شیخ محمد المنجد نے اس کا یوں جواب دیا: 

’’ منفعت کے لئے شادی کی نیت کچھ حیثیت نہیں رکھتی جب مکمل شروط کے ساتھ ایجاب و قبول ہو جائے تو نکاح واجب ہوتا ہے خواہ عقد نکاح کرنے والے طرفین یا ان میں سے کوئی ایک یہ نکاح بطور کھیل و مذاق کر رہا ہو۔ احناف ، حنابلہ کا مسلک یہی ہے اور مالکیہ کے ہاں بھی یہی معتبر ہے اور شوافع بھی اسے ہی صحیح قرار دیتے ہیں ان سب حضرات کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامندرجہ ذیل فرمان ہے ﴿ثلاث جدھن جد وھزلھن جد النکاح والطلاق و الرجعۃ ﴾ ’’تین باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر سنجیدگی سے کہاجائے تو بھی پختہ ہیں اور اگر مذاق سے کہا جائے تو بھی سنجیدگی ہیں۔ ایک نکاح، دوسری طلاق اور تیسری رجوع۔ ‘‘ یعنی یہ تینوں کام اگر حقیقی طور پر کئے جائیں تو حقیقت ہوں گے اور یہ بطور مذاق کئے جائیں تو بھی حقیقت ہی ہوں گے اور ھزل سے مراد یہ ہے کہ لفظ سے وہ معنی مراد لیاجائے جس کے لئے لفظ بنایا نہیں گیا اور یہ اسی فعل پر منطبق ہوتا ہے جو آپ دونوں نے عقد نکاح کیا ہے کیوں کہ آپ نے عقدنکاح کا اندراج تو کروایا لیکن شادی نہیں کرنا چاہتے تھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں: ’’ عام علماء کے ہاں مذاق میں طلاق دینے والے کی طلاق بھی واقع ہو جائے گی اور اسی طرح اس کا نکاح بھی صحیح ہے جیسا کہ مرفوع حدیث کے متن میں بھی اس کا ذِکر ہے ، صحابہ کرام اور تابعین عظام کا موقف بھی یہی ہے ۔ اور جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے۔ حافظ ابن قیم ؒ کہتے ہیں : مراسیل حسن میں ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے بطور کھیل نکاح کیا یا طلاق دی یا بطور کھیل غلام آزاد کیا تو یہ واقع ہوگیا۔ اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چارچیزیں ایسی ہیں کہ جب ان کے بارے میں بات کی جائے تو وہ جائز ہوتی ہیں، طلاق ، آزادکرنا، نکاح اور نذر ماننا۔ اور امیر المومنین کہتے ہیں تین چیزیں ایسی ہیں کہ جب ان کے بارے میں بات کہی جائے تو وہ جائز ہوتی ہیں، طلاق، آزاد کرنا، نکاح اور نذرماننا ۔ اور ابو دردا رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ : تین چیزوں میں کھیل بھی حقیقت پر مبنی ہے ، طلاق،آزاد کرنا اور نکاح اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نکاح خواہ مذاق میں ہو یا حقیقت میں برابر ہے (یعنی بہر صورت منعقد ہوجاتا ہے) اس بناء پرآپ کے لئے دوبارہ نکاح کرنا ضروری نہیں بلکہ آپ دونوں پہلے نکاح پر ہی خاوند اور بیوی ہیں۔ ‘‘

 (سلسلہ فتاوی عرب علماء، فتاوی نکاح و طلاق صفحہ۶۷ ۲،۲۶۸، ترتیب و تخریج : حافظ عمران ایوب لاہوری، تاریخ ِ اشاعت: جنوری ؍ ۲۰۰۶ء ،ناشر: فقہ الحدیث پبلی کیشنز لاہور)

عربی فتاوی میں سے ایک اور فتوی 

غیرمقلدین کی طرف سے شائع کردہ کتاب میں مسئلہ نمبر’’186نکاح کی تعریف :‘‘ کے تحت لکھا ہے : 

’’ نکاح حلالہ یہ ہے کہ ایک آدمی ایسی عورت سے نکاح کا ارادہ کرتا ہے جسے اس کے خاوند نے تین طلاقیں دے دی ہیں، وہ اس طرح کہ پہلی طلاق دی، پھر رجوع کرلیا، پھر طلاق دی اور رجوع کرلیا،پھر تیسری طلاق دی۔ یہ عورت اب اس خاوند کے لیے تب تک حلال نہیں ہو سکتی جب تک دوسرا آدمی اس سے نکاح نہ کرے ،نکاح بھی ایسا کہ شوق و رغبت کی بنیاد پر ہو ، اور اس سے ہم بستر ہو ، پھر اس سے جدا ہو جائے موت یا طلاق کے سبب۔ اب یہ پہلے خاوند کے حلال ہوگی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا اَنْ یَّتَرَاجَعَا اِنْ ظَنَّا اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہ ِ﴾[ البقرہ :۲۳۰]’’پھر اگر وہ اسے ( تیسری ) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، یہاں تک اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے، پھراگر وہ اسے طلاق دے دے تو (پہلے ) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کر لیں،ا گر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے۔‘‘ 

( 477سوال و جواب برائے نکاح و طلاق صفحہ ۱۸۱ لاصحاب الفضیلۃ الامام ابن باز، العلامۃ العثیمن، العلامۃ الفوزان سعودی فتویٰ کمیٹی ۔ ترجمہ مولانا محمد یاسر عرفات ،طبع مکتبۃ بیت السلام ریاض،پاکستان میں ملنے کا پتہ مکتبہ قدوسیہ ) 

اس عبارت میں بھی ’’حلالہ شرعیہ ‘‘ کے جواز پر قرآن کی آیت درج ہے ۔

نکاح میں دوام کی نیت نہیں ہوتی، اس لئے غیرمنعقد ہے 

مولانا عطاء اللہ ساجد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’شریعت میں نیت کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ارشاد نبوی ہے... اعمال کی دار و مدار نیتوں پر ہے ۔ ‘‘ چوں کہ نکاح حلالہ کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شرعی نکاح میں مطلوب ، اس لئے شرعی طور پر یہ نکاح ہی نہیں ہے بلکہ ایک حیلہ ہے ۔ ‘‘ (ترجمہ و فوائد سنن ابن ماجہ:۳؍۱۴۹ ، دار السلام )

الجواب: 

نیت کو مدار بناکر عدم انعقادکا حکم لگانا حدیث کے خلاف ہے، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ وہ حقیقت بھی حقیقت ہیں اورمذاق بھی حقیقت ہے ۔:نکاح، طلاق، عتاق یعنی غلام ولونڈی آزاد کرنا۔(الحدیث) 

اس حدیث کے مطابق مذاق میں کیا جانے والا نکاح منعقد ہے۔ یعنی نکاح کرنے کی نیت نہیں ہوتی مگر خلاف ِنیت بھی نکاح ہوجاتا ہے۔ اوپر حافظ عبد الستار حماد غیر مقلد اور عرب علماء کے فتوے منقول ہیں کہ نکاح کرنے والے کی نیت لڑکی کو ہمیشہ بیوی بنا کر آباد کرنے کی نہیں تھی بلکہ اپنی کسی دنیاوی غرض کی وجہ سے نکاح کر لیا توبھی وہ نکاح منعقد ہوگیا ۔

 اعتراض :نکاح ِ حلالہ شیعوں کے متعہ جیسا ہے 

محمد اقبال کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اگر حلالہ جائز ہے تو پھر اہلِ تشیع میں رائج متعہ کیوں حرام ہے؟ دونوں صورتوں میں کچھ معاوضہ طے کرکے محدود اور معین وقت کے لیے نکاح کر لیا جاتا ہے اس کے بعد فریقین میں علیحدگی طے شدہ امر ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں عملاً آخر فرق ہی کیا ہے ؟ ‘‘ 

( کتاب الطلاق صفحہ ۲۵)

مولانا عطاء اللہ ساجد غیرمقلد’’ نکاح حلالہ ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: 

’’یہ شیعوں کے ہاں رائج متعہ کی طرح ناجائز تعلق کی ایک صورت ہے ، جس کو’’ نکاح ‘‘ کا نام دے کر جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ‘‘ 

(ترجمہ و فوائد سنن ابن ماجہ:۳؍۵۰ ۱ ، دار السلام )

 الجواب: 

اقبال کیلانی اور عطاء اللہ صاحبان کا نکاح حلالہ کو شیعوں کے متعہ کی طرح قرار دینا غلط ہے۔ شیعہ کتب کا وسیع مطالعہ رکھنے والے مصنف حضرت مولانامہر محمد صاحب رحمہ اللہ نے ’’ متعہ کے احکام و اوصاف شیعہ کے نزدیک ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھا: 

’’متعہ میں شاہدوں ؍گواہوں کی ’’ شہادت ‘‘ کی ضرورت نہیں... اجرت لازم ہے۔عورت ممتوعہ کو اجرت دی جائے گی... اجل مسمی : مدت او روقت طے کرنا لازم ہے اگرچہ قلیل ہی ہو ...طلاق دینے کی ضرورت نہیں۔مدت معینہ کا اختتام ہی کافی ہے ...عدت معروفہ نہیں ہوتی بقول بعض ... ۔ ‘‘ 

( فوائد نافعہ :!؍۲۸۴م ۲۸۵)

پہلی ہی بات پہ غور کر لیں کہ شیعوں کے متعہ میں گواہ نہیں ہوتے جب کہ نکاح حلالہ میں گواہوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔اسی ایک بات سے ہی نکاح مذکور اور متعہ کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ 

شیعوں کے متعہ میں عورت کے لئے اُجرت ہے جب کہ نکاح مذکور میں مہر متعین کیا جاتا ہے۔ 

متعہ میں وقت کا تعین لازم ہے جب کہ نکاح مذکور میں یہ تعین ضروری نہیں۔بلکہ اگر کوئی وقت کے تعیین کی قید لگا بھی دے تو یہ شرط باطل ہے ۔ 

متعہ میں طلاق کی ضرورت نہیں جب کہ نکاح مذکور کے بعد جب تک شوہر طلاق نہ دے ،عورت کسی مرد سے نکاح نہیں کرسکتی۔ نہ سابق شوہر سے اور نہ کسی اور مرد سے ۔

متعہ میں بعض شیعہ کے بقول عدت نہیں جب کہ نکاح زیر بحث میں اگرمرد طلاق دے دے تو عورت پہ عدت گزارنا ضروری ہے ۔ 

  یہاں دو باتیں غیرمقلدین کے حوالہ سے ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں ۔ پہلی یہ کہ اقبال کیلانی وغیرہ نکاح حلالہ کو متعہ کانام دے کر دونوں کا حکم ایک بتار ہے ۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ بعض غیرمقلدین متعہ کے قائل ہیں جیسا کہ آگے ’’ غیرمقلدین کی کارستانیوں کے کچھ نمونے ‘‘ عنوان کے تحت باحوالہ منقول ہوگا ان شاء اللہ ۔ 

دوسری بات: غیرمقلدین نکاح حلالہ کو زنا قرار دیتے ہیں جب کہ شیخ زبیر علی زئی کے نزدیک نکاح متعہ کو زناسے تعبیر کرناگڑھی ہوئی بات ہے۔ایک صاحب نے’’ تذکرۃ الحفاظ للذہبی ‘‘کے حوالہ سے لکھا:

 ’’ ابن جریج ... نے نوے عورتوں سے متعہ و زنا کیا تھا۔‘‘ 

علی زئی صاحب نے اس پہ یوں تبصرہ کیا: 

’’ ابن جریج صحاح ستہ کا مرکزی راوی ہے۔ ابن معین ، ابن سعد، ابن حبان اور العجلی نے کہا: ثقہ ہے ، احمد بن حنبل وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے۔ [ التہذیب ۶؍۳۵۷تا ۳۶۰]حافظ ذہبی نے کہا: ثقۃ حافظ ۔ [ سیر اعلام النبلاء ۶؍۳۳۲] رہا متعہ کا مسئلہ... اگر یہ ثابت بھی ہو جائے تو اسے ابن جریج کی اجتہادی غلطی تصور کیا جائے گا۔سیدنا ابن عباس سے بھی متعہ کا جواز مروی ہے اور اکابر صحابہ نے ان پر اس مسئلہ میں ان پر سخت تنقید کی ہے [تفصیل کے لیے صحیح مسلم مع شرح النووی ۹؍۱۸۴،۱۸۸، ۱۹۰ کا مطالعہ کریں] ...تنبیہ: تذکرۃ الحفاظ وغیرہ میں ’’زنا ‘‘ کا لفظ بالکل نہیں ہے۔ یہ لفظ ڈیروی صاحب نے اپنی طرف سے گھڑ کر بڑھا دیا ہے۔ تذکرۃ الحفاظ اور سیر اعلام النبلاء میں حافظ ذہبی نے ’’ تزوج ‘‘ (نکاح کیا ) کے الفاظ لکھے ہیں ۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۴۱، ۴۲، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: اکتوبر ؍۲۰۱۲ء ) 

علی زئی صاحب کی اس عبارت میں چند باتیں قابل توجہ ہیں ۔ 

۱۔ متعہ کے جواز کو ابن جریج کی اجتہادی غلطی تصور کیا جائے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے جو شخص بطور اجتہاد متعہ اختیار کرلے تو گنجائش ہے۔ بلکہ کوئی یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ اجتہاد میں خطاء پر ایک اجر بھی ملے گا، جیسا کہ بخاری میں حدیث نبوی ہے ۔ 

 ۲۔علی زئی صاحب نے ابن جریج کے دفاع میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کی طرف متعہ کا جواز منسوب کر دیا حالاں کہ اُن کا اس مسئلہ میں رجوع ثابت ہے ۔ اور علی زئی صاحب لکھتے ہیں :

’’ رجوع کرنے والے کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھنا...کس عدالت کا انصاف ہے ؟‘‘ 

 ( نور العینین صفحہ ۴۲) 

 ۳۔ نکاح متعہ کے ذریعہ ہونے والی ہم بستری کو زنا کہنا علی زئی صاحب کے بقول گھڑی ہوئی بات ہے۔ اس لئے یہ حوالہ اُن غیرمقلدین کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو نکاح حلالہ کو متعہ کا نام دے کر اسے زنا سے تعبیر کرتے ہیں۔ 

نکاح حلالہ کو زنا قرار دینے والوں کے لیے لمحہ فکریہ 

نکاح حلالہ کی ایک خاص قسم اختلافی ہے ۔چوں کہ غیرمقلدین کے ہاں نکاح کی یہ قسم جائز نہیں اس لیے وہ اسے زنا کہتے ہیں۔ یہاں ہمارے سوالات بجا ہیں کہ کیا نکاح کی جو صورت اختلافی ہو تو اس میں کسی فریق کو زیب دیتا ہے کہ وہ مخالف پہلو کو زنا قرار دے؟ اگر یہ طعنہ دینا درست ہے جیسا کہ غیرمقلدین کی تحریروں میں واضح تصریح ہے تو نکاح کے جواز و عدم جواز کی جو جو صورتیں خود غیرمقلدین میں اختلافی ہیں تو کیا وہاں عدم جواز کے قائلین مخالف فریق کا رد کرتے ہوئے طعنہ دے سکتے ہیں کہ ان لوگوں کا اس نکاح کو جائز کہنا غلط ہے ۔یہ نکاح نہیں ،زنا ہے۔آئیے ہم مسائل نکاح میں غیرمقلدین کے جواز و عدم جواز کا اختلاف نقل کرتے ہیں۔ 

۱:…… نکاح وٹہ سٹہ ـ

غیرمقلدین کے ایک فریق کی رائے ہے کہ وٹہ سٹہ کا نکاح منعقد نہیں ہوتا ۔

 ( الاعتصام ،اکتوبر؍۱۹۹۸ء صفحہ ۶)

جب کہ غیرمقلدین کے دوسرے گروہ کے ہاں نکاح وٹہ سٹہ جائز ہے۔

 ( فتاویٰ نذیریہ: ۳؍۱۶۸)

 ۲:…… بغیر ولی کے نکاح کامسئلہ 

جس عورت کی پہلے شادی ہوئی ہو،پھر اس کا خاوند فوت ہو جائے یا وہ اسے طلاق دے چھوڑے ۔ایسی عورت کو ثیبہ کہاجاتا ہے۔ غیرمقلدین کا ایک فریق کہتا ہے کہ چوں کہ بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا اس لیے ثیبہ کا نکاح بھی بغیر ولی کے منعقد نہیں ہوگا ۔( عام فتاویٰ)

جب کہ غیرمقلدین کے دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ ثیبہ بغیر ولی کے نکاح کر سکتی ہے۔چنانچہ شیخ محمد عبد العظیم حیدر آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ دو احادیث کی تطبیق سے نتیجہ صاف نکلتا ہے کہ باکرہ اپنی کم سنی اور اپنے ماں باپ کے لاڈ پیار اور عدم تجربہ کے لحاظ سے گو اس کی بھی اجازت چاہیے جو محض سکوت پر مبنی ہے مگر ولی کی شرط ضرور ہے۔ اس میں لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ وَالْبِکْرُ تُسْتَاذَنُ فرمانِ نبوی کی تعمیل ہو جاتی ہے ۔ اور ثیبہ بوجہ اس کے کہ وہ پہلے خاوند کی سرد و گرم طبیعت سے واقف ہے اور اپنی ذات کے لیے خوب انتخاب کر سکتی ہے جو اَلثَّیِّبُ اَحَقُّ بِنَفْسِھَا مِنْ وَلِیِّھَا کو شامل ہے ۔‘‘

 ( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۲۸۱) 

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد تو باکرہ (کنواری ) کا نکاح بھی ایک صورت میں بغیر اجازتِ ولی کے جائز قرار دیتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ میں بھی اہلِ حدیث کی اس رائے سے متفق ہوں کہ لڑکی اگرولی کی اجازت کے بغیر گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کر لے تو یہ نکاح نہیں ہوتا ہے کہ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ اگر کسی عورت نے ولی کے بغیر نکاح کیا تو اس کا نکاح باطل ہے لیکن دوسری طرف بھی تو کچھ دلائل ہیں ناں، چاہے ہماری نظر میں اتنے مضبوط نہ ہوں ۔ لہٰذا اگر میرے پاس کوئی ایسا کیس آتا ہے کہ کسی لڑکی نے ایسا کر لیا ہے تو اَب میں امام محمد رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق رہنمائی کر دیتا ہوں ۔ امام محمد رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ایسا نکاح ولی یعنی والد کی اجازت پرموقوف رہے گا ۔ تو میں اس لڑکی کو یہی کہتا ہوں کہ جو کر لیا سو کرلیا، جہالت میں کرلیا، نادانی میں کرلیا ۔اَب باپ کو راضی کرو ۔اب باپ کو راضی کرو۔اَب باپ کو راضی کرو۔ اس کے پاؤں پڑ جاؤ اور تمہارا باپ جب راضی ہو جائے گا توتمہارے اس نکاح میں کوئی حرج نہ رہ جائے گا تو اس رائے میں مجھے معاشرت اور اخلاق دونوں کا احیاء نظر آتا ہے۔اَب بعض کا اعتراض یہ بھی ہے کہ شریعت میں دونوں مفتیان کرام کی رائے کیسے حق ہو سکتی ہے جب کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوں ؟ بھئی! بعض اوقات شریعت میں دونوں گروہ ہی حق پر ہوتے ہیں چاہے وہ ایک دوسرے کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں۔ ‘‘ 

( آسان دین صفحہ ۳۲) 

غیرمقلدین نے بغیر ولی کے نکاح کوجائز قرار دے دیا تو کیا ان کا دوسرا فریق یہ کہنے کو تیار ہے کہ ہمارے ان غیرمقلدوں کی جانب سے اسے نکاح قرار دینا غلط ہے، یہ تو زنا ہے ؟مولانا عبد المنان نورپوری غیرمقلدنے ایسے نکاح کو زنا کہہ بھی دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔جو کوئی کررہا ہے وہ باطل ہی ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کے نکاح کا سلسلہ جاری رکھیں گے تو حرام کاری اور بدکاری کا ارتکاب کریں گے۔ نکاح تو اس طرح ہوتا ہی نہیں ۔ ‘‘ 

( مقالات نور پوری صفحہ۴۶۳، ادارہ تحقیقات سلفیہ گوجرانوالہ) 

ان مذکورہ بالا صورتوں میں غیرمقلدین کے ایک فریق کے نزدیک نکاح جائز نہیں اور دوسرے فریق کی رائے میں جائز ہے ۔ تو کیاپہلا فریق اپنے دوسرے غیرمقلدگروہ کو طعنہ دینے کا مجاز ہے کہ یہ لوگ نکاح نہیں ، زنا ہے اور یہ علماء زنا کا جواز فراہم کرنے پہ فتوے دے ہیں؟

۳:…… مسئلہ رضاعت اور نکاح 

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’اَب مسئلہ یہ در پیش آیا کہ اگر کسی بچے نے دو مرتبہ کسی عورت کا دودھ پیا ہوتو کیا وہ عورت اپنی بچی اس کے نکاح میں دے سکتی ہے ؟ توبعض اہلِ حدیث نے کہا کہ نہیں دے سکتی کیوں کہ شک پڑگیا ہے ۔ اچھا کیا اس عورت کی بچی کہ جس کا نکاح اس بچے سے کرنا مشکوک ہے ،اس سے پردہ کرے گی؟ ہاں! ضرور کرے گی۔یعنی جب اس بچے کے فائدے کی بات آئی تو اپنے فتو ے میں سختی پیدا کرکے اسے فائدے سے محروم کر دیا کہ نکاح جائزنہیں ہے کہ محرم ہونے کا شک پڑگیا ہے اور دوسری طرف اسی محرم ہونے کے شک کی صورت میں سہولت تھی کہ پردہ ختم ہو جاتا تو اسے باقی رکھا کہ غیرمحرم ہونے کا شک بھی موجود ہے ۔یعنی ایک ہی بچی اس کی محرم بھی بنادی اور غیر محرم بھی۔ صرف اور صرف دین کے ایک مسئلہ میں سختی پیدا کرنے کے لیے ۔بھئی ! یا تو احناف کی طرح فتوی دے دیں کہ ایک ہی مرتبہ سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے تو کم از کم پردہ تواُتر جائے اور وہ ایک نفسیاتی عذاب سے نکل جائے کہ یہ میری محرم ہے یا غیرمحرم ۔ اس قسم کے فتاویٰ سوسائٹی میں مذاق بن جاتے ہیں اور دین سے تنفر پیدا کرتے ہیں‘‘

 (آسان دین صفحہ ۳۱ ) 

اسی طرح غیرمقلدین کے ہاں یہ بھی اختلافی مسئلہ ہے کہ بڑی عمرکے آدمی کے لیے کسی اجنبی عورت کا دودھ پیناجائز ہے یا نہیں ؟ 

مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ جو حدیث سوال میں نقل کی گئی ہے ، اس سے شیر زَن کی حلت بالغ کے حق میں ثابت ہوتی ہے ۔‘‘

 ( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۱۲) 

 اس کے برعکس مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ پس ثابت ہوا کہ کبیرکو شیرزَن جائز نہیں ، حرام ہے ۔‘‘ 

( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۳۱۲) 

  مذکورہ بالا اختلافی صورتوں میں غیرمقلدین کے ایک فریق کے نزدیک رضاعت ثابت نہیں لہذا نکاح ہوسکے گا۔ جب کہ دوسرے گروہ کے ہاں چوں کہ رضاعت ثابت ہوگئی اس لئے نکاح نہیں ۔ تو کیا یہ فریق پہلے کو طعنہ دے گاکہ یہ نکاح نہیں ،زنا ہے؟

 ۴:…… زنا سے حاملہ ہونے والی عورت سے زانی کا نکاح 

غیرمقلدین کاایک گروہ کہتا ہے زنا سے حاملہ ہونے والی عورت سے زانی کا نکاح بھی جائز نہیں۔ 

حافظ عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اگر زانی نکاح پڑھنا چاہے اس کا نکاح بھی صحیح نہیں۔‘‘

 ( فتاوی اہلِ حدیث :۲؍۴۳۹، ادارہ احیاء السنہ سرگودھا ) 

جب کہ دوسرا فریق حاملہ بالزنا سے زانی کے نکاح کو جائز مانتا ہے ۔ چنانچہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہی خود زانی سے نکاح ہو ۔دوسری یہ کہ غیر زانی سے ۔ صورت ثانیہ میں علت منع ان یسقی ماء ہ زرع غیرہ پائی جاتی ہے ۔ اُولیٰ میں نہیں ۔ پس صورت اولی میں جواز ہو سکتا ہے ۔ ثانیہ میں نہیں ۔ “

( فتاوی ثنائیہ : ۲؍۱۷۴)

غیرمقلدین کے جس فریق کے ہاں حاملہ بالزنا سے زانی کا نکاح جائز نہیں،کیا وہ جواز کے قائل دوسرے گروہ کو زنا کے طعنہ دینے کا حق رکھتا ہے ؟ 

۵:…… زبر دستی دلوائی جانے والی طلاق کا مسئلہ 

 مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں: 

’’ جبریہ طلاق جائز نہیں لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ۔ ‘‘ 

(فتاویٰ ثنائیہ: ۲؍۳۰۰) 

لیکن اس کے برعکس مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اکراہ میں اختیار باقی رہتا ہے اور فعل مکرہ یا قول کا اعتبار ہے پس طلاق واقع ہوجائےگی۔‘‘ 

(فتاویٰ ثنائیہ: ۲؍۳۰۰) 

جب کوئی شخص مولانا شرف الدین دہلوی کے فتوی کے مطابق جبراً طلاق دلواکر نکاح کرلے تو کیا دوسرے غیرمقلدین یوں کہیں گے کہ دہلوی صاحب کے فتوئے کے مطابق جس نے نکاح کیا ہے ۔وہ نکاح نہیں ، بلکہ زنا ہے ۔ 

حکیم عبد الرحمن خلیق غیرمقلد نکاح حلالہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’ جب حلالہ کی غرض سے نکاح کیا گیا ہے تو یہ نکاح پرنکاح ہے جو حرام بھی ہے اور ایسا نکاح وجود بھی نہیں پاتا۔ پھر جب نکاح ہوا ہی نہیں تو عورت بے نکاح ہی دوسرے مرد کے سپر د ہوئی اس لئے یہ زوجیت والی کوئی بات نہیں بلکہ بالکل زنا ہی ہے ۔ ‘‘ 

( بارہ مسائل صفحہ ۲۱۴، ناشر: نیر اقبال شجاع ناظم دار الاشاعۃ رحمانیہ بدوملہی ضلع نارووال ، اشاعت ششم )

عام غیرمقلدین کے نزدیک زبردستی دلوائی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی ،اس لئے ان کے نزدیک ایسی صورت میں نکاح باقی ہے اب سوال یہ ہے کہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کے فتوی کے مطابق زبر دستی طلاق دلوائی گئی عورت سے جب کوئی مرد نکاح کرے گا تو اس کا یہ عمل نکاح پر نکاح اور زنا ہے یا نہیں ؟ 

 ۶:…… الگ الگ مجالس میں دی گئی تین طلاقوں کا مسئلہ 

  کسی نے سوال کیا: ایک ہفتہ کے اندر اندر مختلف محافل میں تین طلاقیں دیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟

غیرمقلدین کے رسالہ’’ الاعتصام ‘‘ میں اس سوال کا یوں جواب دیا گیا : 

 ’’ مذکورہ بالا صورت میں دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ 

( الاعتصام ، ۲۶ ؍جون ۱۹۹۸ء صفحہ ۶) 

 الاعتصام میں لکھا ہے : 

’’ مجلس سے مراد یہ ہے کہ اس بارہ میں بحث و مباحثہ کے لیے جو مجلس ہوئی ہے۔ جب تک وہ برخاست نہ ہو۔ بعد میں وقفہ وقفہ سے طلاق دینے سے متعدد مجالس ہو جائیں گی اور یہ طلاقیں مؤثر ہوں گی۔ ‘‘ 

( ہفت روزہ الاعتصام ،ربیع الاول ۱۴۱۷ھ ) 

ایک طہر میں دی گئی الگ الگ مجالس کی تین طلاقیں غیرمقلدین کے ایک گروہ کے ہاں تین ہیں جب کہ دوسرے گروہ کے نزدیک ایک رجعی طلاق ہے۔ تو کیا پہلا گروہ دوسرے کو زنا کا طعنہ دے سکتا ہے کہ یہ لوگ مغلظہ طلاقوں کے بعد بھی عورت کو طلاق دینے والے کے سپرد کرنے کا فتوی دے رہے ہیں؟ 

 ۷:…… رجوع کے بغیردوسری اور تیسری طلاق کا مسئلہ 

 الاعتصام میں لکھا ہے : 

’’ ہر مہینے ایک طلاق دی تو تین طلاقوں کے بعد شوہر دوبارہ عقد نہیں کر سکتا۔ ‘‘

 ( الاعتصام ، ۲۴؍نومبر ۱۹۹۵ء صفحہ ۹) 

اس کے بالمقابل مولانا ابو البرکات احمد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ جب تک اس طلاق سے رجوع نہ ہو تو دوبارہ طلاق کا قطعاً جواز نہیں اگر بلا رجوع دوبارہ طلاق دی جائے تو وہ پہلی طلاق کی تاکید ہوگی ، شرعًا وہ مستقل طلاق نہیں ۔‘‘ 

( فتاویٰ برکاتیہ صفحہ ۲۳۴) 

 اسی فتاویٰ میں لکھا ہے : 

’’ بغیر رجوع کے تین حیض میں تین طلاقیں دینے کو ایک ہی شمار کیا جائے ۔ ‘‘ 

( فتاویٰ برکاتیہ صفحہ ۲۴۰)

مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد نے ان فتووں کی تصدیق کی ہے ۔ 

فتاویٰ نذیریہ میں لکھا ہے : 

’’ بہر صورت طلاق ایک واقع ہو گی کیوں کہ عین حکم اللہ و رسول کا یہی ہے کہ طلقات متعدد وقت واحد بلکہ طہر واحد میں حکم میں ایک طلاق میں ہے ۔ ‘‘ 

( فتاویٰ نذیریہ : ۳؍۸۱) 

غیرمقلدین کے ایک فریق کے ہاں الگ الگ مجالس میں ایسی تین طلاقیں بھی تین ہیں جن میں طلاق کے بعد رجوع نہ کیا گیا ۔ کیا یہ فریق اپنے مخالف اس غیرمقلد فریق کو زنا کا طعن دے سکتا ہے جس نے ایسی تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے کو شوہر و بیوی میں صلح کرادی ؟ 

۸:…… ایک ایک مہینے میں دی گئی طلاقوں کے بعد عدت کا مسئلہ 

 فتاویٰ نذیریہ میں لکھا ہے : 

’’ جس عورت کو تین طہرمیں تین طلاقیں ہوئی ہوں اس پر آخری طلاق کے بعد صرف ایک حیض عدت ہے ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ نذیریہ : ۳؍۹۳) 

 اس کے بالمقابل’’ الاعتصام ‘‘میں لکھا ہے : 

’’ ایک ایک ماہ بعد تین طلاقیں ہوئی ہوں تو تیسری طلاق کے تین حیض عدت گزارے ‘‘ 

(الاعتصام ،۳۱؍ مارچ ۱۹۹۵ء صفحہ ۱۰) 

جس فریق کے ہاں مذکورہ صورت میں عدت تین حیض ہے ان کے نزدیک جب تک تین حیض پورے نہ ہوں تب تک اس عورت کا نکاح کسی مرد سے نہیں ہوسکتا ۔جب کہ دوسرے فریق کے نزدیک چوں کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ،لہذا ایک حیض ختم ہوجانے کے بعد اس کا نکاح دوسری جگہ جائز ہوگا ۔ تو کیا پہلا فریق اس نکاح کو زنا کہنے کا حق رکھتا ہے ؟

۹:…… حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق کا مسئلہ 

غیرمقلدین کے ایک فریق کی رائے ہے کہ حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ چنانچہ علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:

’’ اہلِ حدیث کے نزدیک تو حیض کی حالت میں طلاق دینا لغو ہے ، طلاق نہ پڑے گا جیسے اوپر گذر چکا ہے ۔‘‘

( تیسیرالباری :۷؍۲۳۵، تاج کمپنی )

اس کے بالمقابل غیرمقلدین کے دوسرے گروہ کے نزدیک میں حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔اس گروہ کی عبارات آئندہ ایک مستقل باب ’’ طلاق بدعی کا وقوع ‘‘ میں منقول ہیں ۔

اگر کسی عورت کو حالتِ حیض میں طلاق دی گئی تو اس نے غیرمقلدین کے اکثریتی گروہ کے فتوی کے مطابق عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرلیتی ہے،یہ نکاح درست ہوگا۔ جب کہ ان کے اقلیتی گروہ کی رائے میں چوں کہ اس عورت کا اَب تک نکاح باقی ہے،اس لئے دوسری جگہ اسے نکاح اجازت نہیں۔ تو کیا غیرمقلدین کا یہ فریق اپنے مخالف فریق پر طعن کا مجاز ہے ؟ انہیں یوں طعنہ دے سکتا ہے کہ یہ نکاح نہیں ،زنا ہے وغیرہ ۔

۱۰:…… بے نماز سے نکاح کامسئلہ

غیرمقلدین کے ایک گروہ کے ہاں بے نماز شخص گناہ گار ہونے کے باوجود مسلمان ہے اس لئے اس سے نکاح جائز ہے ۔ ( فتاوی ) 

لیکن اس کے برعکس غیرمقلدین کے دوسرے گروہ کے ہاں بے نماز سے نکاح جائز نہیں ہے۔ غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا : 

’’ جب یہ ثابت ہوا ہے کہ بے نماز کافر ہے تو وہ خواہ مرد ہو یا عورت اس سے نکاح جائز نہیں۔ ‘‘ 

( نکاح کی کتاب صفحہ ۶۲... تحقیق و افادات : شیخ البانی ... تالیف و تخریج : حافظ عمران ایوب لاہوری ... فقہ الحدیث پبلی کیشنز ، سن اشاعت: ستمبر ۲۰۰۶ء )

تواَب سوال یہ ہے کہ اس گروہ کے لئے جواز ہے کہ وہ پہلے فریق کے طعن کرتے ہوئے کہے ان کی طرف سے جواز نکاح کا فتوی غلط ہے ، یہ نکاح نہیں ، زنا ہے ۔ 

 امام بخاری رحمہ اللہ اور غیرمقلدین 

امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرمقلدین اپنا ہم مسلک غیرمقلد واہلِ حدیث کہا کرتے ہیں اس لئے یہاں ایک مسئلہ امام بخاری رحمہ اللہ کااختیارکردہ درج کرتے ہیں۔ 

 امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نکاح محرم جائز ہے ۔انہوں نے باب قائم کیا: 

’’ باب تزویج المحرم ، محرم کے شادی کرنے کا باب ‘‘اس باب کی تحت حدیث ذِکر کی : 

عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوج میمونۃ وھو محرم۔ 

(صحیح بخاری :۱؍۲۴۸) 

ترجمہ: سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے حالتِ احرام میں نکاح کیا ۔

علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ شاید اس مسئلے میں امام بخاری ؒ امام ابوحنیفہ اور اہل کوفہ سے متفق ہیں کہ محرم کو عقد کرنا درست ہے ۔ ‘‘

( تیسیرالباری :۳؍۴۲، تاج کمپنی )

امام بخاری رحمہ اللہ کے بر خلاف غیرمقلدین کے رائے ہے کہ حالت ِ احرام میں کیا جانے والا نکاح نہیں ہوتا ۔ ( تحفۃ الاحوذی : ۲؍۸۸) 

حاصل یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک حالت ِاحرام میں کیا جانے والا نکاح درست ہے جب کہ غیرمقلدین کے یہ جائز نہیں۔ تو کیا غیرمقلدین امام بخاری رحمہ اللہ پر طعن کریں گے کہ حالت ِاحرام میں نکاح کرنا نکاح نہیں ، یہ تو زنا ہے ؟ 

تنبیہ: غیرمقلدین بیسیوں مسائل میں اما م بخاری رحمہ اللہ کے خلاف ہیں ۔ ثبوت کے لئے درج ذیل کتابیں پڑھیں ۔ 

 غیرمقلدین امام بخاری کی عدالت میں۔( حضرت مولانا انوار خورشید صاحب دام ظلہ ) 

 بخاری شریف غیرمقلدین کی نظر میں ۔( حضرت مولانا عبدا لقدوس خان قارن دام ظلہ ) 

  اس سلسلہ میں بندہ کی بھی دوکتابیں ہیں ۔ ایک ’’ احادیث ِ بخاری اور غیرمقلدین ‘‘ عنوان سے شائع شدہ ہے ۔ جب کہ دوسری ’’ غیرمقلدین کا امام بخاری ؒسے اختلاف ‘‘نام سے شائع ہوئی۔ 

 غیرمقلدین ’’ حرامہ‘‘ کو مشروع قرار دینے میں مصروف عمل 

حلالہ غیرمشروط قرآن سے ثابت ہے اور حلالہ مشروط کو خود علمائے احناف مکروہ بتا رہے ہیں۔مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد نے یہاں تک لکھ دیا کہ: 

’’ علمائے احناف اگر تطلیقِ ثلاثہ کے قائل ہیں تو بالکل اسی طرح وہ نکاح حلالہ کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔ ‘‘ 

(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۹۸)

پروفیسر مسعود عالم فلاحی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ احناف کے نزدیک مروجہ یعنی سازشی نکاح تحلیل حرام ہے ، صرف امام ابو حنیفہ کے یہاں یہ نکاح کراہت تحریمی کے ساتھ جائز ہے۔ امام ابوحنیفہ کے یہاں اسے جائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قرآنی شرط ’’ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ‘‘ یہاں تک اس کے علاوہ کسی اور سے شادی کرے ‘‘ پوری کر لی، چاہے وہ جائز طریقہ سے پوری کی ہو یاناجائز طریقہ سے ۔ امام ابوحنیفہ اس حلالہ کے ذریعہ ہوئے نکاح کو صرف اس شرط پوری ہونے کی وجہ سے جائز قرار دیتے ہیں ، ورنہ ان کے یہاں بھی حلالہ کے لیے حیلہ کرنا گناہ اور باعثِ عذاب ہے اور ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ ‘‘

 (حلالہ سنٹر ز اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۱۱۵)

  مگراس کے باوجوداحناف کے خلاف غیرمقلدین شور برپا کئے رکھتے ہیں۔ان کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نہوں نے اس پر علمی انداز میں بحث کم کی ہے اور اودھم بہت مچایا۔اس کی وجہ تو وہ خود ہی بتا سکتے ہیں کہ ایسا کرنے سے مسئلہ تین طلاق میں اپنے دلائل کی کمزوری چھپانا مقصود ہے یا کچھ اور ؟بہرحال وجہ کچھ بھی ہو غیرمقلدین نے مسئلہ تین طلاق پہ لکھی گئی تحریروں میں مسئلہ حلالہ پہ بہت زیادہ طعن و تشنیع کی ہے لیکن دوسری طرف خود ’’ حرامہ ‘‘ کو مشروع قرار دینے میں مصروف ہیں کیوں کہ تین طلاق کے بعد اس عورت کو طلاق دینے والے مرد پر مباح قرار دینا حرام ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ نے ابو الصہباء والی حدیث ابن عباس کی بابت لکھا: 

’’ وَاِنَّمَا اَطَبْنَا فِی الْکَلَامِ عَلٰی حَدِیث ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْجُھَّالِ اغْتَرُّوْابِہٖ فَاَحَلَّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہ۔‘‘

( المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم :۱۳؍۸۳بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۴۲)

ترجمہ: ہم نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث پر اتنی طویل گفتگو محض اس لئے کی ہے کہ بہت سے جاہل لوگوں نے اس حدیث سے دھوکہ کھایا اور دھو کہ کھاکر خود انہوں نے اللہ کے حرام کو حلال کر لیا۔ 

امام قرطبی رحمہ اللہ نے ایک تو یہ بات فرمائی کی حدیث ابن عباس سے جاہل لوگوں نے دھوکہ کھایا کہ اس سے تین طلاقوں کا ایک ہونا کشید کرنے لگے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اس عبارت کے مطابق تین طلاقوں کو ایک رجعی طلاق قرار دے کر بیوی کو طلاق دینے والے مرد کے لیے حلال بتانا اللہ کے حرام کردہ کو حلال باور کرانا ہے۔ 

 انجینئر محمد علی مرزا غیرمقلد اپنے بیان میں کہتے ہیں:

’’میں نے یہ مسئلہ انصاف سمجھا کہ اس کو کھول کے بیان کروں تاکہ نہ لوگ حرامہ کروائیں کہ تین طلاق ہو چکی ہیں اب [ تین کو ایک ثابت کرنے پر( ناقل ) ]غلط فتوے دینا شروع کردیں، یہ حرامہ ہے۔ ‘‘

( بیان مسئلہ نمبر :۱۵)

مرزا صاحب ایک اور بیان میں کہتے ہیں: 

’’ ہم تو حلالہ کو بھی غلط سمجھتے ہیں اور حرامہ کو بھی ۔ حرامہ یہ ہے کہ تین طلاقیں دے دیں پھر زبردستی ایک کہہ کر رجوع کرادیا۔مسئلہ نمبر :۱۵ میرا دیکھیں۔ حلالہ بھی حرام اور حرامہ بھی حرام ( کسی نے کہا کہ وہ تو اس کو خدمات کہتے ہیں) وہ حلالہ کو خدمات کہتے ہیں اور یہ حرامہ کو خدمات کہتے ہیں۔ ‘‘

 ( www.AhlesunnatPak.com)

پھر بعض صورتوں میں تو خودتین طلاق کو ایک کہنے والے غیرمقلدین کے فتوی کی رُو سے بھی مدعیان ِاہلِ حدیث ’’حرامہ ‘‘ میں مبتلا ہیں۔ غیرمقلدین کا ایک گروہ ایک طہر میں دی گئی الگ الگ مجلسوں کی تین طلاقوں کو ایک کہتا ہے۔دوسرا گرہ تین طہروں میں دی گئی ان تین طلاقوں کو بھی ایک قرار دیتاہے جن میں پہلی طلاق کے بعد رجوع نہ کیا گیا ہو۔جب کہ ان کے تیسرے گروہ : مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد ، مولانا عبد المنان نور پوری غیرمقلد اور مولانا عبد الستار حماد غیرمقلد کا فتوی ہے کہ ایک طہر کی متعدد مجالس میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہیں، اسی طرح تین الگ الگ طہروں میں دی گئی تین طلاقیں تین ہی ہیں اگرچہ پہلی کے بعد رجوع نہ کیا گیاہو۔ (فتاویٰ اہلِ حدیث :۲؍۴۹۸، احکام و مسائل : ۱ ؍۳۳۸ ، ۳۵۰ ... ۲ ؍ ۲۷۷ ، ۴۸۳ ، فتاویٰ اصحاب الحدیث : ۲؍۳۰۹)

مذکورہ فتاوی میں سے فتاویٰ اہلِ حدیث اور احکام و مسائل کی عبارتیں باب’’ غیرمقلدین کی تضاد بیانیاں میں‘‘ منقول ہیں اور فتاویٰ اصحاب الحدیث کی عبارت باب ’’ در متفرقات ‘‘ میں درج ہے۔ 

غیرمقلدین کے تیسرے گروہ کے فتوی کے مطابق بھی اُن کے مذکوہ بالا پہلے دو گروہ حرامہ کرانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ 

 غیرمقلدین کی کار ستانیوں کے کچھ نمونے 

یہاں غیرمقلدین کی کارستانیوں کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں تاکہ پتہ چلے کہ حلالہ کی آڑ میں احناف کے خلاف اودھم مچانے والوں کا اپنا کردار کیسا ہے؟ 

مولانامحمد جونا گڑھی غیرمقلد نے غربائے اہلِ حدیث کے امام مولانا عبد الوہاب کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے لکھا: 

’’ (۱) اگر کسی کو شہوت نے تنگ کر رکھا ہو تو متعہ جائز ہے، نہ گواہ کی ضرورت، نہ ولی کی۔ صرف اجرت اور میعاد مقرر کرو جتنی ضرورت ہو۔ (۲) اگر لونڈی کوئی گروی رکھے تو گروی رکھنے والا اس لونڈی سے جماع کر سکتا ہے۔ (۳) حنفیوں سے بھاگی ہوئی عورتوں کا دوسرا نکاح بغیر طلاق کے جائز ہے۔ ( ۴) اگر کوئی پردیس میں ہو اور کئی دِنوں کے لیے وہ نان و نفقہ گھر نہ بھیج سکا تو اس کی عورت بلاطلاق لیے دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔‘‘ 

( اخبار محمدی صفحہ ۱۶،یکم جولائی ؍۱۹۳۸ء ) 

 مہتاب الدین گوڑ گانوی غیرمقلد ایک مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’سبب مناظرہ مولوی عبد الستار صاحب [امام غربائے اہل ِ حدیث (ناقل )] مدعی امامت دہلوی اور اُن کے نائب مولوی عبد اللہ اوڈ کی وہ چیرہ دستیاں تھیں جن کی وجہ سے شادی شدہ عورتوں کو تفریق حاکم شرعی کی آڑ میں کرکے دو ایک کو تو خود نائب مولوی عبد اللہ اوڈ نے اپنے گھر میں ڈال رکھا ہے اور بے شمار عورتوں کو اسی مسئلہ کی آڑ میں مولوی عبد اللہ نے اُن کے اصلی شوہروں سے تفریق کرکے دوسروں کے پلے باندھ دیا ہے۔‘‘

( اخبار محمدی صفحہ ۱۴... ۱۵؍اگست ۱۹۳۸ء بحوالہ اظہار التحسین صفحہ۲۰ )

  گلاب نامی چوکیدار، ایک اجنبی عورت پر فریفتہ تھا۔ اس نے غیرمقلدین کے بزرگ مولانا غلام رسول صاحب سے کہا کہ مجھے کوئی وظیفہ بتاؤ کہ میں اس عورت پر قابو پالوں۔ اس سے آگے غیرمقلدین کی شائع کردہ عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

’’مولوی صاحب موصوف نے فرمایا کہ بعداز عشاء اپنے گھر کی چھت پر کھڑے ہوکر مرالی والا[یہ اس عورت کا علاقہ ہے(ناقل)]کی طرف منہ کرکے تین دفعہ یہ لفظ کہنا آجا، آجا،آجا تین روز ایساہی کرکے پھر مجھے بتانا۔ تیسرے روز عصر کے قریب عورت مذکورہ گلاب کے گھر آگئی اور کہنے لگی کہ پرسوں عشاء سے لے کر اب تک میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی۔ تمہارے گھرمیں داخل ہوتے ہی آرام ہوگیا گلاب اس عورت کو پکڑ کر اندر لے گیا اور متواتر تین روز اندر ہی رہا۔ تیسرے روز قیلولہ کے وقت مولوی صاحب نے بڈھا کشمیری کو بلا کر فرمایا کہ جاؤ او راس موذی کو پکڑ لاؤ، وہ اس وقت زنا کررہا ہے بڈھا فوراً گیا اور گلاب کو پکڑ لایا مولوی صاحب نے کہاکہ جا میری آنکھوں سے دُور ہوجا وہ لوٹ کر گھر گیا وہ عورت جیسے آئی تھی ویسے ہی خفا ہوکر چلی گئی ۔‘‘

 ( سوانح حضرت العلام مولاناغلام رسول صفحہ ۱۰۰)

اس جگہ قابل اعتراض چیز یہ ہے کہ مولانا غلام رسول غیرمقلد نے اپنے کرتب غیرمقلدین کے بقول اپنی کرامت سے عورت کو اجنبی مرد کے حوالے کیوں کیا یہاں تک کہ اس اجنبی نے زنا میں سہ روزہ لگایا۔جواب دینے والے اس کاجواب دیں۔ بعد میں مولانا صاحب نے زنا سے منع کیا اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ لہذا غیرضروری بات کرکے گلو خلاصی نہ کریں۔

مزید یہ کہ غیرمقلدین تبلیغی جماعت کے ’’سہ روزہ ‘‘ کو تو زیر بحث لاتے ہیں ۔کرامت کے خوش نما لیبل کے تحت بیان کردہ گلاب کے سہ روزہ کا ثبوت دیں ۔ 

نواب نورالحسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’پس چنانکہ باید وشاید منتہص ازبرائے استدلال برمنع زیادت بر اربع نشود ‘‘ وآیہ کریمہ فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَہٗ مِنَ النَّسِاءِ سَوَاھَا مَثْنٰی وَثَلٰثَ وَرُبٰع‘‘ برمحاورہ عرب عرباو ائمہ لغت مفید جواز نکاح دو دو سہ سہ وچہارچہار نساء دریکے بارست ودراں تعرضے ازبرائے مقدارعدد زنان نیست۔‘‘

 (عرف الجادی صفحہ ۱۱۱)

ترجمہ: پس یہ حدیث اس لائق نہیں کہ چارسے زیادہ شادیوں کی ممانعت پراس سے استدلال کیاجائے اور آیت کریمہ فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَہٗ مِنَ النَّسِاءِ سَوَاھَا مَثْنٰی وَثَلٰثَ وَرُبٰع‘‘یہ عرب اورائمہ لغت کے محاورہ پر ہے کہ یک بارگی دودو، تین تین ،چارچار، عورتوں سے نکاح جائزہے اس آیت میں عورتوں کی مقدار مقررہ کا کوئی ثبوت نہیں۔

تنبیہ: صحیح آیت یوں: فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النَّسِائِہے ۔

اسی طرح غیرمقلدین کی کتاب ’’ظفر اللاضی صفحہ ۱۴۱‘‘ پر بھی یہی لکھاہے کہ بیک وقت چار سے زیادہ شادیاں کرناجائز ہے ۔(بحوالہ آثار خیرصفحہ ۳۵۳)

 امام آلِ غیرمقلدیت علامہ وحیدالزمان لکھتے ہیں:

’’ وَکَذَا لِکَ بَعْضُ اَصْحَابِنَا فِیْ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ فَجَوَّزُوْھَا لِاَنَّہٗ کَانَ ثَابِتًا جَائِزًا فِیْ الشَّرِیْعَۃِ کَمَاذَکَرَہٗ اللّّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَا تُوْھُنَّ اُجَوْرَھُنَّ وَقِرَاءَ ۃُ اُبِیِّ بْنِ کَعْبٍ وَّابْنِ مَسْعُوْدٍ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی یَدُلُّ صَرَاحَۃً عَلٰی اِبَاحَۃِ الْمَتْعَۃِ فَالْاِبَاحَۃُ قَطْعِیَۃُ لِکَوْنِہٖ قَدْوَقَعَِ الْاِجْمَاعُ عَلَیْہِ وَالتَّحْرِیْمُ ظَنِّیٌّ‘‘ (نزل الابرار جلد ۲ صفحہ ۳۳)

ترجمہ:ایسے ہی ہمارے بعض اصحاب نے نکاح متعہ کو جائز کہاہے کیونکہ وہ شریعت میں ثابت اورجائز تھا جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کاتذکرہ کیاہے کہ ان میں سے جن سے تم متعہ کروتواسے اس کی مزدوری دے دیاکرو اورابی بن کعب ؓ اورابن مسعودؓ کی قراء ۃ میں’’ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی‘‘ کی زیادتی ہے جو صراحۃ متعہ کے جواز کی دلیل ہے پس اباحت قطعی ہے کیونکہ اس پر اجماع واقع ہوچکاہے اورجہاں تک اس کی حرمت کی بات ہے سو وہ ظنی ہے‘‘

علامہ موصوف اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

’’ وَاخْتِیَارُ قَوْلِ اَھْلِ مَکَّۃَ فِیْ الْمَتْعَۃِ ‘‘ (ھدیۃ المھدی :۱؍ ۱۱۲)

” متعہ کے جواز میں اہل مکہ کاقول اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔“

غیرمقلدین کی فقہ کا مسئلہ ہے کہ کسی شخص نے عورت سے زنا کیا اور اس کے نطفہ سے بچی پیدا ہو اس زانی کا اپنے نطفہ سے پیدا ہونے والی اسی لڑکی سے نکاح جائز ہے ۔ 

چنانچہ میر نور الحسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ ونیست وجہ از برائے منع نکاح بادختر یکہ این کس با مادرش زنا کردہ زیرا کہ ... بتحریم بنت شرعی آمدہ واین دختر بنت شرعی نیست۔‘‘ 

(عرف الجادی من جنان ھدی الھادی صفحہ ۱۰۹)

ترجمہ: اپنی اس بیٹی کے ساتھ نکاح کی ممانعت کی کوئی وجہ نہیں جس کی ماں کے ساتھ زنا کیا گیا ہو کیوں کہ اس بیٹی سے نکاح حرام ہے جوشرعاً بیٹی ہو، جب کہ یہ تو غیر شرعی بیٹی ہے۔

اپنے نطفہ سے پیدا ہونے والی لڑکی سے نکاح کرنے کی شناعت اس قدر ہے کہ مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد کو بھی اسے شنیع کہنا پڑا۔سلفی صاحب اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ حالاں کہ اس کی شناعت ظاہر ہے۔ ‘‘ 

( تحریک آزادی ٔ فکر صفحہ ۲۴۱)

بہاول پور سے شیخ قاسم علی نے سوال کیا:

’’ باپ بیٹی دونوں مرزائی ہیں لیکن غیر مرزائی مرد سے نکاح پر دونوں رضا مند ہیں۔ نکاح جائز یا نہ ۔جب کہ ناکح اور منکوحہ اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں ۔‘‘ 

غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس سوال کا جواب دیا:

’’ اگر عورت مرزائن ہے تو اور علماء کی رائے ممکن ہے مخالف ہو۔ میرے ناقص علم میں نکاح جائز ہے۔‘‘

( اخبار اہلِ حدیث امرتسر، ۲۳؍رجب ۱۳۵۳ھ، مطابق ۲؍نومبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۳)

اس کا عکس حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی کتاب ’’ تاریخ ختم نبوت ‘‘ صفحہ ۳۵۱ پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ 

مذکورہ بالا عبارتوں سے معلوم ہوا کہ غیرمقلدین آخرت پر دنیاکی لذتوں کوترجیح دے کرزبان حال سے یوں کہہ رہے ہیں ۔ ؂

اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کاوجود

حسن انساں سے نمٹ لوں تووہاں تک دیکھوں

)جاری) 


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...