نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ


 امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت

اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ

تمہید

تاریخی روایات اور معتبر اسناد سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں عمومی رویہ بظاہر سخت اور معترضانہ تھا۔ مگر جب بھی ان سے کسی شاگرد نے براہِ راست سوال کیا — جیسے کہ عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن ضریس یا امام ابو قطن نے — تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ تو کسی علمی خطا یا شرعی غلطی کی طرف اشارہ کر سکے، اور نہ ہی امام ابو حنیفہ پر اپنے اعتراض کی کوئی معقول دلیل پیش کر سکے۔ بلکہ ہر موقع پر: وہ خاموش ہو جاتے، ندامت کا اظہار کرتے، سر جھکا لیتے، نظریں نیچی کر لیتے، اور آخرکار امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، تقویٰ، اور دیانت کا برملا اعتراف کرتے۔

1. عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری کا مکالمہ

عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.

(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ،  الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)


عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)


2. یحییٰ بن ضریس اور سفیان ثوری کا مکالمہ

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے 

حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

جب یحییٰ بن ضریس رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی وجہ دریافت کی، تو امام ثوری کوئی معقول جواب پیش نہ کر سکے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہ کے خلاف کوئی مضبوط علمی دلیل موجود نہ تھی۔


3. امام ابو قطن اور سفیان ثوری کا واقعہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان یعنی جب تک ان سے پوچھا نہ گیا تو وہ ادھوری روایت بیان کرتے تھے کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ کی جس کو بڑے بڑے محدثین جیسے ابن عیینہ ، احمد بن حنبل نے بھی جوں کا توں بیان کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ، بڑے بڑے محدثین نے پوری روایت جاننے کی کوشش تک نہ کی ، لیکن جب امام شعبہ کے شاگرد امام ابو قطن نے ہمت کر کے سفیان ثوری سے پورا واقعہ پوچھا تو سفیان ثوری پہلے نادم ہوئے ، جھوٹ تو بول نہ سکتے تھے اس لئے سچائی بتائی کہ وہ توبہ کفر سے تھی ہی نا۔ قارئین اگر امام ابو قطن یہ بات سفیان ثوری سے نہ پوچھتے تو شاید آج تک محدثین یہی ادھوری بات بتاتے اور لکھتے رہتے کہ ابو حنیفہ نے دو بار کفر سے توبہ کی ۔ الغرض محدثین نے ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں ان کےخلاف الزامات کی تحقیق نہیں کی ، جیسی ادھوری کچی پکی روایت سنی وہی آگے بیان کی ۔

 اللہ ان کی مغفرت فرمائے.

(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) 

خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تین مضبوط روایات اور واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:


اعتراضات کی کوئی مضبوط بنیاد نہ تھی: اگر امام ابو حنیفہ واقعی کسی علمی یا دینی خطا کے مرتکب ہوتے تو امام سفیان ثوری جیسے جلیل القدر محدث دلیل اور وضاحت کے ساتھ ان کی غلطی بیان کرتے۔ مگر خاموشی، سر جھکانا، اور استغفار کرنا  اس بات کی علامت ہے کہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کی گئی جروحات اور اعتراضات کی کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔

محض وقتی معاصرت اور دور کے اختلافات کا اثر تھا: امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ ایک ہی زمانے کے عظیم علماء تھے۔ علمی میدان میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاصرین کے درمیان سختی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات بھی زیادہ تر اسی وقتی معاصرت کا نتیجہ تھے، نہ کہ کسی اصولی نقص یا دینی خیانت پر مبنی۔

باطنی اعترافِ عظمت: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ظاہری طور پر کچھ سخت باتیں کہنے کے باوجود جب حقیقت سے سامنا ہوتا، تو امام ابو حنیفہ کی علم پرستی، دیانت، اور سنت کی پیروی کو تسلیم کرتے اور ان پر ہونے والے طعن پر اللہ سے استغفار کرتے۔

امام ابو حنیفہ کی حقانیت کا غیر شعوری اعتراف: انسان کا اصل کردار اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تنہائی یا غیر رسمی گفتگو میں دل کی بات کرتا ہے۔ امام سفیان ثوری کا شاگردوں کے سامنے بار بار امام ابو حنیفہ کی عظمت کا اعتراف اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں وہ امام ابو حنیفہ کو عظیم امام مانتے تھے۔




امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس قدر تعصب رکھتے تھے کہ فرماتے تھے مین حق بات پر بھی ابو حنیفہ کی موافقت کو پسند نہیں کرتا ، یہی سفیان ثوری رحمہ اللہ ، ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ سے استفادہ بھی کرتے نظر آتے ہیں ، 


قال ونا أبو إسحاق إبراهيم بن أحمد بن فراس قال نا موسى ابن هارون قال نا يحيى بن عبد الحميد الحماني عن علي بن مسهر قال كنت عند سفيان الثوري فسأله رجل عن رجل توضأ بماء قد توضأ به غيره فقال نعم هو طاهر فقلت له ان أبا حنيفة يقول لا يتوضأ به فقال لي لم قال ذلك قلت يقول إنه ماء مستعمل ثم كنت عنده بعد ذلك بأيام فجاءه رجل فسأله عن الوضوء بماء قد استعمله غيره فقال لا يتوضأ به لأنه ماء مستعمل فرجع فيه إلى قول أبى حنيفة

 علی بن مسہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں امام سفیان الثوری رحمہ اللہ کے پاس موجود تھا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا کہ ایک شخص ایسے پانی سے وضو کر سکتا ہے جس کو پہلے کسی شخص نے استعمال کر لیا ہو ؟ 

 تو جواب میں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ٹھیک ہے پانی پاک ہے ۔

 علی بن مسھر کہتے ہیں میں نے امام سفیان ثوری سے کہا کہ امام ابو حنیفہ تو کہتے ہیں ایسے پانی سے وضو نہیں ہوگا 

تو امام سفیان نے مجھ سے دریافت کیا کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ؟ 

تو میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں ایسا پانی ماء مستعمل ہے 

پھر کچھ دن بعد میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص نے ایسے ہی پانی سے وضو کرنے کے بارے میں دریافت کیا تو امام سفیان نے فرمایا : ایسے پانی سے وضو نہیں کیا جائے گا کہ یہ ماء مستعمل ہے۔ 

تو علی بن مسہر رحمہ اللہ کہتے ہیں امام سفیان نے اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ کے قول کی طرف رجوع کر لیا 

( الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٦)

1۔ إبراهيم بن أحمد بن فراس العبقسي المكي أبو إسحاق 

 ثقة صدوق

(تاريخ الإسلام (٧/ ٧٧٩، ٧٩٨). وانظر: الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم (٢). )

2۔ موسى ابن هارون ابن عبد الله الحمال : ثقة حافظ كبير 

(تقريب التهذيب ١/‏٥٥٤ )

3۔ يحيى بن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن ميمون بن عبد الرحمن أبو زكريا

ثقة

( سير أعلام النبلاء - 10/527)

4۔ علي بن مسهر بن علي بن عمير بن عاصم بن عبيد بن مسهر

فقيها محدثا ثقة 

[الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (3/ 459)]

یہاں امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ، فقہ ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں لہذا یہ روایت کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ بالکل بھی نہ کرتے تھے اور ابو حنیفہ ان سے استفادہ کرتے تھے اور وہ فرماتے تھے کہ ابو حنیفہ سنت اور علم کے بغیر کلام کرتے تھے ، معتبر نہیں ہے ، بلکہ اس کے برعکس ، سفیان رحمہ اللہ کا استفادہ کرنا ثابت ہے جو اس بات کی دلیل ہیکہ امام صاحب صحیح علم رکھتے تھے تب ہی تو سفیان خود ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور فقہ سفیان ثوری فقہ حنفی کے بہت قریب تھا ۔

آخری نتیجہ:

 حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم و تقویٰ کا ایسا روشن مینار تھے کہ ان کے مخالفین بھی جب دیانت سے سوچتے، تو ان کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکتے۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...