نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تین طلاقوں کو ایک قرار دینے پر غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل کا جائزہ (قسط: ۹) مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

  

تین طلاقوں کو ایک قرار دینے پر غیرمقلدین کے 

 مزعومہ دلائل کا جائزہ 


مفتی رب نواز  صاحب حفظہ اللہ،مدیر اعلی مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ      (قسط: ۹)

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

باب : ۱۲


حافظ عبد الرحمن غیرمقلد (امام جامع مسجد اقصی احمد پورشرقیہ ) نے ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے کا فتوی دیا ۔ اُن کا یہ فتویٰ قلمی ہے جومیرے پاس اَب بھی محفوظ ہے۔ بندہ نے اس قلمی فتویٰ کا جواب لکھا۔ سب سے پہلے یہی جواب لکھا گیا،عرصہ دراز بعدزیر نظر مستقل کتاب ترتیب دی جیسا کہ’’ پیش لفظ ‘‘میں کتاب کی تالیف کا پس منظر بتا دیا ہے۔حافظ عبد الرحمن غیرمقلدکے بیان کردہ فتوی کا جواب اس باب میں ہے اوردوسرے غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل پر تبصرہ آئندہ ابواب میں ہوگا ان شاء اللہ۔اس بات کو یوں بھی تعبیرکرسکتے ہیں کہ غیرمقلدین کی مزعومہ مرکزی دلیلوں کا جواب یہاں دیا جارہا ہے اور دیگر شبہات کا جواب اگلے ابواب میں دیا جائے گا،وباللہ التوفیق ۔ 

حافظ عبدا لرحمن سے کسی نے پوچھا : 

’’محترم جناب مفتی عبد الرحمن صاحب! 

برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس بات کی وضاحت فرما دیں کہ آیا ایک ہی مجلس میں تین مرتبہ طلاق دینے سے کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے یا اس میں رجوع کی کوئی گنجائش باقی ہے  ؟‘‘

حافظ عبدالرحمن:

حافظ عبد الرحمن نے اس کا یوں جواب دیا: 

’’ایک مجلس میں خاوند اپنی بیوی کو دو یا تین اس سے زیادہ لفظ طلاق کہہ دے اور بیک وقت کہے شرعی حیثیت سے ایک طلاق ہوگی۔ جس طرح مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے زمانہ میں اور حضرت عمر فاروق ؓ کی خلافت کے ابتدائی دو برسوں میں ایک ساتھ تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔ صحیح مسلم ج۱ ص ۵۷۴، صحیح ابوداؤد‘‘

 جواب:

حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ پر بحث 

غیرمقلدین مسلم شریف کی اس حدیث کو اپنے دعوی پر مرکزی اور بہت وزنی بلکہ لاجواب دلیل تصور کیا کرتے ہیں ۔

نواب صدیق حسن خان غیرمقلد اِس حدیث کی بابت لکھتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ایسی دلیل ہے جو تمام دلائل کا گلا گھونٹ سکتی ہے ۔ ( بدور الاہلة صفحہ ۱۸۷ ،بحوالہ عمدة الاثات صفحہ ۸۰)

مولانا عبد المتین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’تین طلاقوں کو جو ایک ہی مجلس میں دی گئی ہوں، ایک ہی ماننے کے لیے یہ حدیث ابن عباس اصل عظیم ہے ۔‘‘ 

( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۱،۱۵۲... مکتبه الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہ مولانا عبد اللطیف اثری ،سن اشاعت: جون ؍۲۰۱۳ء ) 

مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ الغرض حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے عہد نبوی کا دستور العمل اور رواج واضح ہوگیا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک کے حکم میں ہیں جب اس کے ساتھ حدیث صحیح مسلم ملا دی جائے تو یہ دلیل سدسکندری سے بھی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے جس کو مقلدین کا لشکر توڑنا چاہے تو کبھی نہیں توڑ سکتا ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا ۔‘‘

(فتاویٰ حصاریہ :۶؍۳۴۷)

نواب صدیق حسن خان نے جس دلیل کو تمام دلیلوں کا گلا گھونٹنے والی کہا ہے اور جسے حصاروی صاحب نے سد سکندری قرار دے کر کہاکہ مقلدین کا لشکر بلکہ سب مقلدین مل کر توڑ نہیں سکتے، اسے غیرمقلدین کے ایک ہی فرد مولانا شرف الدین دہلوی نے توڑ ڈالا۔ اس حدیث سے کئے جانے والے غیرمقلدین کے استدلال کی دھجیاں فضائے بسیط میں بکھیردی ہیں۔ستر سال کا عرصہ بیت چکا مگر میری معلومات اور یاد داشت کے مطابق آج تک کسی غیرمقلد نے دہلوی صاحب کی اس مضبوط تنقید کا جواب نہیں لکھا۔ مسئلہ تین طلاق کے عنوان پہ لکھی گئی غیرمقلدین کی بیسیوں کتابیں اورتحریریں بندہ نے پڑھی ہیں، کسی نے بھی دہلوی صاحب کے تنقیدی جائزہ پہ لب کشائی نہیں کی ۔اس سے یوں چپ سادھ لی ہے جیسے انہیں اس تنقید کا علم ہی نہ ہو۔حالاں کہ یہ تنقیدی جائزہ محض کسی ماہ نامہ رسالہ یا اخبار کی زینت نہیں جو ایک بار شائع ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں تک پہنچتا ہے اور اکثر لوگ اسے حاصل نہیں کر پاتے۔ بلکہ یہ غیرمقلدین کے مشہور و معروف فتاوی ’’ فتاوی ثنائیہ ‘‘ میں موجود ہے جو پاک و ہند میں بار بار شائع ہو رہا ہے اوراُن کی ہر لائبریری میں موجود ہے۔پی ڈی ایف میں بھی دستیاب ہے۔مزید یہ کہ دہلوی صاحب کی یہ تنقیدمتین علمائے اہلِ سنت کی کتابوں (عمدہ الاثات وغیرہ ) میں بھی منقول ہو کر عام و خاص تک پہنچ چکی ہے ۔ حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد صرف اتنا لکھ پائے : 

’’ باقی رہا مولانا شرف الدین دہلوی کا حوالہ تو اس کے متعلق ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ جب ہم اکابر ائمہ کرام کی بات بلاد لیل نہیں مانتے تو مولانا شرف الدین دہلوی کی کیسے مان لیں گے۔‘‘ 

 ( احسن الابحاث صفحہ ۶۳) 

اس جگہ مسئلہ یہ نہیں کہ بلاد لیل کسی کی بات مانیں یا نہیں؟ بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ دہلوی صاحب نے اس حدیث کے جو ایک درجن جوابات دئیے ہیں اُن کا جواب الجواب چاہیے ۔

غیرمقلدین انہیں جواب دینے سے کنارہ کشی کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں اس کی دو وجہ مجھے سمجھ آتی ہیں۔ 

  ایک وجہ یہ ہے کہ دہلوی صاحب کے یہ مندرجات خود ساختہ نہیں بلکہ ان کی صحت محدثین سے ثابت ہے بلکہ خود محدثین نے اپنی کتابوں میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے جیسا کہ اگلے صفحات سے قارئین جان لیں گے ان شاء اللہ ۔ 

دوسرا یہ کہ حکیم صفدر عثمانی نے ’’ احادیث پر اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ ‘‘ عنوان قائم کرکے اپنی معروضات ذِکر کیں۔اگر اس عنوان کے تحت دہلوی صاحب کے مناقشات کا جواب دیتے تو تاثر ملتا کہ غیرمقلدین کے بیہقی وقت مولانا شرف الدین دہلوی نے اہل حدیث ہو کر حدیث پہ اعتراضات کئے ہیں ۔ اس طرح کا تاثر حکیم صفدر وغیرہ غیرمقلدین کو وارے میں نہیں تھا۔ جناب !اگر آپ نے انہیں جواب دینے سے اس لئے گریز کیا کہ اُن کے پیرو نہیں،پیروی تو آپ علمائے اہلِ سنت کی بھی نہیں کرتے توانہیں جواب دینے کی زحمت کیوں کر لی ؟ یہاں بھی بس یہی کہہ دیتے کہ ہم ان کے پیرو نہیں۔ 

حکیم صاحب نے لکھا: 

’’ ہم اس صحیح حدیث پر کسی قسم کا کوئی اعتراض صحیح نہیں مانتے، اسی لئے ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ یہ صرف حدیث اور اہلِ حدیث کی دشمنی میں سب کچھ کیا جارہا ہے ۔ ‘‘

 (احسن الابحاث صفحہ ۶۱) 

حکیم صاحب نے اس عبار ت میں ایک تو حدیث سے استدلال کے جواب کو حدیث پر اعتراض کا نام دیا۔حالاں کہ حدیث سے کسی کے استدلال پر اعتراض کرنا اور چیز ہے اور حدیث پر اعتراض کرنا دوسری چیز ہے ۔ مزید یہ کہ اگر حدیث سے کئے جانے والے کسی کے استدلال کی کمرزوی ظاہر کرنا حدیث پر اعتراض ہے تو مولانا شرف الدین د ہلوی حدیث پراعتراضات کرنے والے ہوئے۔مگر سارے غیرمقلدین انہیں حدیثوں پر اعتراض کرنے والا کہنے کی بجائے عاملِ حدیث ہی کہا کرتے ہیں ۔ 

دوسرا حکیم صاحب نے حدیث سے کئے گئے استدلال کے جواب دینے کو اہلِ حدیث دشمنی سے تعبیر کیا مگر یہ بتایا جائے کہ کیا مولانا شرف الدین دہلوی نے بھی اہل حدیث دشمنی میں درجن بھر جوابات دئیے ہیں؟ اس حدیث سے کئے جانے والے استدلال کو اہل سنت مخدوش قرار دیں تو اہلِ حدیث دشمنی قرار پائے اور اگر وہی جوابات غیرمقلد عالم دے تو اہلِ حدیث دشمنی نہ ہو، یہ فرق کیوں ہے ؟ کیا ماجرا ہے کہ آپ دہلوی صاحب کو اہلِ حدیث دشمنی کاطعنہ نہیں دیتے ؟

مزید یہ کہ اس حدیث سے کئے جانے والے استدلال کے علمائے محدثین نے بھی جوابات دئیے ہیں جیسا کہ آئندہ صفحات میں باحوالہ مذکور گاان شاء اللہ۔ تو کیا اُن محدثین کی بابت بھی حکیم صاحب یہ جملہ’’یہ صرف حدیث اور اہلِ حدیث کی دشمنی میں سب کچھ کیا جارہا ہے ۔ ‘‘کہیں گے ؟ 

جواب شروع ہونے سے پہلے غیرمقلدین کے کچھ حوالے پڑھ لیں ۔ 

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

  ’’ کتاب و سنت سے استدلال کے لیے سلف صالحین کے فہم کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ‘‘ 

(ماہ نامہ الحدیث حضروشمارہ: ۱۲۱ صفحہ۶۰ بحوالہ اشاعة الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)

علی زئی صاحب نے مزید کہا: 

  ’’ منافقین اور اہلِ بدعت بھی کتاب اللہ سے استدلال کرتے ہیں ، لہذا کتاب و سنت کا صرف وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین سے ثابت ہے ۔ ‘‘ 

 ( اشاعة الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)

شاہد نذیر غیرمقلد ( کراچی ) لکھتے ہیں: 

’’ اہلِ حدیث کے نزدیک ایک مستند اصول ہے کہ قرآن و حدیث کو سلف صالحین کے فہم سے سمجھنا چاہیے۔ یہ قیمتی اور بنیادی اصول اہلِ حدیث مسلک میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘

( اشاعة الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۷۱)

شاہد نذیر نے یوں بھی لکھا: 

  ’’ پس معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو ذاتی فہم سے سمجھنے کی بجائے بذریعہ فہم سلف صالحین سمجھنا ہی محفوظ ترین راستہ ہے ۔‘‘

( اشاعة الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۳)

 شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری غیرمقلد اپنے ویڈیو بیان میں کہتے ہیں:

’’ میں تو حافظ صاحب!یہاں تک کہتا ہوں اگر مجھے کوئی قرآن مقدس کی ایک ہزار آیات بینات پیش کرے اور وہ اپنے مطلب میں بالکل واضح ہوں یعنی وہ مسئلہ ان سے واضح طور پر ثابت ہورہا ہو مگر سلف صالحین نے وہ مسئلہ اس سے ثابت نہ کیا ہو یا اس کے خلاف مسئلہ ثابت کیا ہو تو میں یہ سمجھوں گا کہ قرآن توحق ہے لیکن میرا فہم صحیح نہیں،فہم محدثین یا ائمہ دین کا صحیح ہے۔ یہ اک بنیادی خصوصیت ہے مسلک اہلِ حدیث کی، امتیازی حیثیت سے ایک بات ہے اہلِ 

حدیث مسلک کی کہ یہ اپنی طرف سے قرآن و سنت کے مفاہیم بیان نہیں کرتے۔ ‘‘

جو چاہے ظہیر صاحب کا یہ بیان مجھ سے بذریعہ واٹس ایپ منگوا کر خود ہی سن سکتا ہے۔

غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ کتاب و سنت کا وہی مطلب و مفہوم معتبر ہے جو اَسلاف نے سمجھا اور اختیار کیا۔اَب سوال یہ ہے کہ جن حدیثوں سے غیرمقلدین نے تین طلاقوں کا ایک ہونا لیا ہے،کیا ان احادیث سے اسلاف نے تین کا ایک ہونا اخذ کیا ہے؟ ہر گز نہیں ۔ بلکہ اسلاف تو ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں جیسا کہ ہم اپنی اسی کتاب میں سلف صالحین کے اقوال مستقل باب میں نقل کر چکے ہیں ۔

 مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’اصل بات یہ ہے کہ صحابہ تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا ثابت نہیں ۔ ‘‘ 

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۷)

دہلوی صاحب کے اعتراف کے مطابق اسلام کی پہلی سات صدیوں کے اسلاف نے تین طلاقوں کا ایک ہونا اختیار نہیں کیا ۔ لہذا غیرمقلدین کا حدیثوں سے اسلاف کے خلاف مسئلہ کشید کرنا خود اُن کے اپنے اصول کی رُو سے بھی غلط ہے۔ شاید کوئی غیرمقلد یہاں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے نام ذِکر کردے تو اس کا پیشگی جواب اپنے مصنف شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی سنتے چلیں ۔ انہوں نے لکھا: 

’’ متقدمین کے مقابلہ میں متاخرین کی بات کب مسموع ہوسکتی ہے ؟ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۱۳۷، طبع جدید ) 

علی زئی صاحب نے دوسری جگہ لکھا: 

’’ یہ تمام علماء آٹھویں صدی ہجری یا اس سے پہلے گزرے ہیں ... ان سلف صالحین کے مقابلے میں تیرہویں صدی کے شوکانی ( کی ارشاد الفحول ) اور شر القرون کے دیگر اشخاص کی مخالفت کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ‘‘ 

( علمی مقالات : ۵؍۱۰۸،مکتبہ اسلامیہ ، اشاعت : ۲۰۱۲ء )

علی زئی صاحب کی عبارات کا حاصل یہ ہے کہ متقدمین کے مقابلہ میں متاخرین کے قول کی کوئی حیثیت 

نہیں ہے۔ 

اس کے برعکس جن حدیثوں سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کا کسی کو شبہ ہو سکتاتھا اَسلاف نے اس کا ازالہ کر دیا ۔ آپ آئندہ صفحات میں اسلاف کے اقوال با حوالہ ملاحظہ فرما لیں گے ان شاء اللہ۔ 

  غیرمقلد ین میں ’’ بیہقی وقت ‘‘ کا لقب پانے والے عالم مولانا شرف الدین دہلوی صاحب مذکورہ حدیث سے استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قولِ مجیب مرحوم کہ محدثین کے نزدیک ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کا حکم رکھتی ہیں بحدیث ابن عباس ؓ کان الطلاق علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و ابی بکر و سنتین من خلافة عمر ؓ طلاق الثلات واحدة۔(مسلم ) اس استدلال میں بچند وجوہ کلام ہے ۔ اول :یہ کہ اس میں مجلس واحد کا ذکر ہی نہیں ، عام اس سے کہ مجلس ایک ہو یا تین ، بلکہ اطہار ثلاثہ ہوں یا نہ اور جس روایت مسند احمد میں مجلس واحد کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں، اس کی سند بروایت عکرمه عن عمران بن حصین ہے جس کو محدثین حافظ ابن ِ حجر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ایسی روایت خصوصاً صحیح نہیں ہوتی،  ملاحظہ ہو تقریب التہذیب ۔ دوم : یہ کہ محدثین نے اس میں کلا م کیا ہے جس کی تفصیل شرح مسلم امام نووی، فتح الباری وغیرہ میں ہے خصوصاً میری کتاب ’’کتاب الطلاق‘‘ ملاحظہ ہو۔ سوم: یہ کہ اس میں یہ تفصیل نہیں ہے کہ یہ تین طلاقوں والے مقدمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے سامنے پیش ہو کر فیصلہ ہوتا تھا اور یہ کسی روایت میں نہیں ہے وَاِذْ لَیْسَ فَلَیْسَ۔ 

چہارم : یہ کہ حدیث صحیح مسلم کی ایسی ہے جیسے دوسری حدیث صحیح مسلم کی جابر بن عبد اللہ صحابی سے ہے قال عطاء قدم جابر بن عبد اللہ معتمرا فجئناہ فی منزلة فساله القوم عن اشیاء ثم ذکروا المتعة فقال نعم استمتعنا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم و ابی بکر ؓ و عمرؓ انتہیٰ وفی روایة اخری بعدہ ثم نھانا عمر فلم نعد لھما(متعة النساء و متعة الحج ) صحیح مسلم مع شرح نووی ص ۴۵۱ باب النکاح المتعة۔پس جو جواب اس جابر کی متعة النساء کے جواز و عدم جواز کا ہے وہی حدیث ابن عباس ؓ کا ہے اگر یہ جائز ہے تو پھر متعة النساء بھی جائز ہے ولایقول به المحدثون ۔ پنجم: اس سے ثابت ہوا کہ یہ تین طلاقیں بحکم واحد یا متعة النساء بالا بالا لوگ بے خبری میں کرتے رہے جس کا علم نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا، نہ شیخین کو، آخر میں حضرت عمر ؓکو معلوم ہوا تو منع کر دیا ،ابن عباس ؓ کی اس حدیث پر محدثین نے اور بھی کئی وجوہ سے کلام کیا ہے جس کی تشریح کچھ تو امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں کی ہے، کچھ اور بھی میں نے اپنی کتاب میں محدثین سے نقل کیا ہے ۔ ششم: محدثین کی طرف مجلس واحد میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے کی نسبت میں بھی کلام ہے ۔یہ سخت مظالعہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ صحابہ وتابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین ، صحابہ و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار تو ثابت نہیں مَنِ ادَّعٰی فَعَلَیْہِ الْبَیَانُ بِالْبُرْھَانِ وَ دُوْنَہٗ خَرْطُ الْقَتَادِ ملاحظہ ہو مؤطا امام مالک ، صحیح بخاری، سنن ابوداود، سنن النسائی، جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ و شرح مسلم امام نووی و فتح الباری وتفسیر ابن کثیر و تفسیر ابن جریر و کِتَابُ اْلِاعْتِبَارِ لِلْاِمَامِ الْحَازِمِیِّ فِیْ بِیِانِ النَّاسِخِ وَ الْمَنْسُوْخِ مِنَ الْآثَارِ،اس میں امام حازمی نے ابن عباس سے مسلم کی اس حدیث منسوخ بتایا ہے اور تفسیر ابن کثیر میں بھی اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ الآیۃ کے تحت ابن عباس سے جو صحیح مسلم کی حدیث تین طلاق کے ایک ہونے کی ہے ، دوسری حدیث نقل کی ہے جو سنن ابو داود میں باب نَسْخُ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاثِ بسند خود نقل کی ۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ الرَّجُلَ کَانَ اِذَا طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ فَھُوَ اَحَقُّ بِرَجْعَتِھَا وَاِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَنَسَخَ ذٰلَکَ فَقَالَ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ انتھی ( عون المعبود ص ۲۲۵ ج ۲) امام نسائی نے بھی اسی طرح ص ۱۰۱ جلد ۲ میں باب منعقد کیا ہے ، اور ان دونوں کے نزدیک یہ حدیث صحیح اور حجت ہے جب ہی تو لائے ہیں، اورباب منعقد کیا ہے ، اور ابن کثیر نے بھی سند ابی داود و نسائی و ابن ابی حاتم و تفسیر ابن جریری و تفسیر عبد الحمید و مستدرک حاکم وَ قَالَ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ، وَالتِّرْمِذِیُ مُرْسَلًا وَّ مُسْنَدًا نقل کرکے کہا ہے کہ ابن جریر نے ابن عباس ؓ کی اس حدیث کو آیت مذکورہ کی تفسیر بتا کر اسی کو پسند کیا ہے ، یعنی یہ کہ پہلے جو تین طلاق کے بعد رجوع کر لیا کرتے تھے ،وہ اس حدیث سے منسوخ ہے ، پس یہ حدیث مذکور محدث ابن کثیر و ابن جریر دونوں کے نزدیک صحیح ہے، جیسے کہ مستدرک حاکم صحیح اِسنادلکھا ہے ، اور قابل اعتماد ہے ، اورامام فخر الدین رازی کی تحقیق بھی یہی ہے...اور یہ لغو اعتراض کہ یہ ابن عباس کا سہو ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگرابن عباس ؓ کو سہو ہو گیا تھا ، تو پھر ان کی مسلم حدیث میں بھی سہو ہے فلاحجة فیه...اور وجوہ کلام میں سے ہفتم: یہ ہے کہ محدثین نے مسلم کی حدیث مذکور کو شاذ بھی بتایا ہے ۔ہشتم : یہ کہ اس میں اضطراب بھی بتایا ہے ، تفصیل شرح صحیح مسلم نووی ، فتح الباری وغیرہ مطولات میں ہے ۔نہم:یہ کہ ابن عباس کی مسلم کی حدیث مذکور مرفوع نہیں ، یہ بعض صحابہ کا فعل ہے جس کو نسخ کا علم نہ تھا کما فی الوجه الثالث والرابع ۔ دہم:یہ کہ مسلم کی یہ حدیث بظاہرہ کتاب وسنت ِ صحیحہ و اجماعِ صحابہ ؓ وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے، لہٰذا حجت نہیں ہے ۔‘‘

 (فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۶تا ۲۱۹، دوسرا نسخہ۲؍۴۳تا ۴۶)

تنبیہ:…… مولانا شرف الدین دہلوی کے فتوے کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا گیا اور باقی حصے ہماری اس کتاب میں متفرق مقامات پہ منقول ہیں۔

تنبیہ:۲…… غیرمقلدین کے رسالہ ’’الاعتصام ‘‘ میں لکھاہے :

’’ مولانا شرف الدین دہلوی محدث دہلوی ؒ ( متوفی جولائی ۱۹۶۱ء)ہمارے اکابر علمائے اہلِ حدیث میں سے ہیں ۔ ‘‘

( الاعتصام لاہور ، اشاعتِ خاص بیاد مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی صفحہ ۱۱۷۴ ) 

 مولاناشرف الدین کے فتوے کی توضیح و تشریح 

 غیرمقلد عالم مولانا شرف الدین دہلوی صاحب کا فتویٰ آپ پڑھ چکے ہیں ، اس میں کافی باتیں اجمالی ہیں جو تفصیل کی محتاج ہیں اور بہت سی بحثیں خالص علمی ہیں جن کی توضیح و تشریح کی ضرورت ہے ذیل میں اس فتویٰ کی توضیح و 

تشریح اور پھر اس پر بندہ کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ۔

پہلاجواب: 

تین طلاق کو ایک قرار دینے والے کا دعویٰ ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق کے حکم میں ہیں جیسا کہ حافظ عبد الرحمن نے بھی لکھا ہے ۔دہلوی صاحب فرماتے ہیں : ’’اس میں مجلس واحد کا ذکر ہی نہیں ‘‘ لہٰذا مسلم شریف کی یہ حدیث ان کے دعویٰ کے مطابق نہیں ہے ۔ اگر وہ اس مبہم دلیل سے استدلال کرتے ہیں تب تو الگ الگ تین سالوں میں دی جانے والی تین طلاقوں کو بھی ایک کہنا چاہیے جب کہ ایسی متفرق تین طلاقوں کو خود غیرمقلد بھی نافذ مانتے ہیں ۔چنانچہ حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اگر تیسری طلاق بھی دے دی جائے تو رشتہ ازدواج ہمیشہ کے لیے منقطع ہو جاتا ہے تاہم عورت کے لیے عدت گزارنا ضروری ہے لیکن عام حالات میں اس سے رجوع نہیں ہو سکے گا ۔ اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ وہ عورت کسی سازش کے طور پر نہیں بلکہ آباد ہونے کی نیت سے آگے کسی سے نکاح کرے اور وہ خاوند اس سے مجامعت کے بعد طلاق دے یافوت ہو جائے تو عدت ِ طلاق یا عدتِ وفات گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(فتاویٰ اصحاب الحدیث ۲؍۳۳۹)

 حافظ عبد الستار حماد مزیدلکھتے ہیں:

’’ اگر متعدد مجالس میں پیغام ِ طلاق ارسال کیا ہے تو اس طرح تین طلاقیں ہی واقع ہو جائیں گی اور اَب رجوع کا کوئی موقع نہیں رہا۔ ‘‘ 

( فتاویٰ اصحاب الحدیث :۵؍۳۵۵) 

حماد صاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’’ طلاق کا نصاب پورا ہونے کے بعد عام حالات میں میاں بیوی اکٹھے نہیں ہو سکتے، البتہ دوسری جگہ شادی کرنا، پھرہم بستر ہونے کے بعد اگرطلاق مل جائے تو پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔‘‘ 

(ہدایة القاری شرح بخاری : ۵؍۲۲۹)

رئیس محمدندوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ متفرق اوقات کی طلاقِ ثلاثہ نصوص کتاب و سنت اور پوری امت کے اجماع کے مطابق تین طلاقیں قرارپاتی ہیں۔ ‘‘ 

( تنویر الآفاق فی مسئلة الطلاق صفحہ ۱۱۸) 

مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ صورت مسئولہ طلاقیں واقع ہو گئیں( اَب اس کی سزا بھگتیں ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔ ‘‘ 

( آثارِ حنیف بھوجیانی :۱؍۳۸۷، المکتبة السلفیة شیش محل روڈ لاہور )

اس طرح کے غیرمقلدین کے مزید حوالہ جات ہماری اسی کتاب کے باب: ۱۱ حلالہ شرعی کی وضاحت میں مذکور ہیں۔

حدیثِ مسلم ، مبہم ہے مگر غیرمقلدین ایک مجلس کی تین کو ایک کہتے ہیں اور کئی مجالس یا کئی طہروں یا کئی سالوں کی متفرق تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے ہیں ۔یہ فرق کیوں ہے ؟

دوسرا جواب :

 دہلوی صاحب فرماتے ہیں: ’’محدثین نے اس حدیث ِ مسلم میں طویل کلام یعنی جرح کی ہے ...انتھیٰ

  اگلی بات سن لیں کہ غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ محدثین میں سے ایک محدث بھی مقلد نہیں تھا۔ (رفع العجاجة عن سنن ابن ماجة ۱؍۳۶، اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۵۲) وغیرہ ۔ 

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ علل ِحدیث کے ماہر علماء اگر ثقہ راویوں کی روایت کو ضعیف کہیں تو ان کی تحقیق کو تسلیم کیا جائے گا۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۱۳۴)

یہاں مولاناارشاد الحق اثری غیرمقلد کی بھی سن لیں ، وہ لکھتے ہیں:

’’ اسنادہ حسن کہنے سے حدیث کا حسن ہونا لازم نہیں آتا ۔ ‘‘ 

( توضیح الکلام صفحہ۷۰۶) 

شیخ محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:

  ’’ صحیح مسلم کی صحیح پرمحدثین کرام رحمہم اللہ و کثر سوادھم نے صحیح کا اطلاق کیا ہے کہ اس معنی سے ہرگز صحیح نہیں ہے کہ ان میں سب احادیث بلا استثناء متصل اور صحیح ہیں ،اس میں کوئی ضعیف یا مجروح نہیں ہے یا ہر راوی کا سماع اپنے شیخ سے ثابت ہے ۔ یہی سبب ہے کہ سلف سے لے کر خلف تک صحیح مسلم کی روایت پر کلام کرتے آئے ہیں ۔اسی طرح کسی نے بھی نہیں کہا کہ اس کی ہر ایک روایت بالکل صحیح اور ہر علت سے خالی ہے متقدمین کی مثالیں کئی کتب میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔لیکن متاخرین میں سے مولانا شرف الدین صاحب دہلوی مرحوم ، مسلم شریف کی طلاق ثلاثہ کا ایک مجلس میں ایک ہی وقت میں جو دی جائے اور اس کا ایک شمار ہونے والی حدیث پر کلام کیا کرتا تھا اور صحیح قرار نہ دیتا تھا ۔یہاں پر میرا اس حدیث ’’ ماله و ماعلیه ‘‘ کو بیان کرنے کا مطلب نہیں کہ یہ حدیث واقعتا ضعیف ہے، جس طرح مولانا مرحوم کہتے تھے ۔ ا س کامحل دوسرا ہے۔ سر دست یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ مسلم شریف کو متقدمین خواہ متاخرین نے کلام کرنے سے ماوراء نہیں سمجھا ہے بلکہ وقتا فوقتااس کی حدیث میں کلام کرتے آئے ہیں... صحیح مسلم شریف پر صحت کا اطلاق اس اعتبار سے ہے کہ اگر اس کی کچھ روایات راوی کے ضعف یا کسی دوسری علت کی وجہ سے فی نفسہ ضعیف بھی ہیں تب بھی تعدد طرق کی وجہ سے صالح الاحتجاج بن جاتی ہیں۔ ‘‘ 

( مقالات ِ راشدیہ :۸؍۱۴۳،۱۴۴)

مسلم میں درج حدیث ابن عباس تعدد طرق سے مروی نہیں ،جیسا کہ مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلدنے اس کا اعتراف کیا ہے ۔ اُن کی عبارت آئندہ باحوالہ ہم نقل کریں گے ان شاء اللہ ۔ 

 تیسرا جواب:

دہلوی صاحب نے جو تیسرا جواب دیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ حدیث ِ مسلم میں اتنی بات ہے کہ زمانہ نبوی میں تین طلاق کو ایک شمار کیاجاتا رہا ہے ۔اس میں یہ ہرگز نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم تھا یا 

یہ کام آپ کی اجازت سے ہو رہا تھا ۔ 

بعض کام ایسے بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوتے تھے لیکن آپ کو ان کی خبر تک نہ تھی مثلاً 

سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جنابت کے لیے تیمم کرتے وقت سر سے پاؤں تک سارے بدن کو الٹ پلٹ کر مٹی ملی تھی ۔(بخاری ۱؍۵۰)

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے بحالتِ جنابت پانی نہ ملا تو نماز ہی نہ پڑھی ۔ (بخاری ۱؍۴۸)

تو کیا آپ کے عہد مبارک میں ہونے کی وجہ سے یہ کام جائز ہو گئے ؟(عمدة الاثاث صفحہ ۸۴)

زمانہ نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں جو کام کئے گئے جب آپ کو ان کی اطلاع ملتی تو ان میں سے بعض کو غلط قرار دیتے جیسا کہ تیمم کے مسئلہ میں سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے عمل کو غلط کہااور بعض کو صحیح کو قرار دیتے جیساکہ حدیثِ بنی قریظہ میں ہے ۔ 

لیکن زمانہ نبوی میں تین طلاقوں کو ایک سمجھنے والوں کا عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرے سے معلوم ہی نہیں ہوا۔ اگر یہ کاروائی آپ تک پہنچتی اور آپ اسے جائز قرار دیتے تب اسے حدیث مرفوع کا درجہ حاصل ہوتا۔ 

دہلوی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جس طرح تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی اس کاروائی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا ایسے ہی شیخین یعنی سیدنا ابو بکر و عمررضی اللہ عنہا کو بھی اس کی اطلاع نہ تھی۔ بعد میں جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو علم ہوا تو انہوں نے تین طلاقوں کو نافذ کر دیا جیسا کہ آگے آئے گا ان شاء اللہ ۔ 

 چوتھاجواب: 

دہلوی صاحب فرماتے ہیں مسلم کی حدیث ابنِ عباس رضی اللہ عنہا ایسے ہے جیسا کہ مسلم ہی کی دوسری حدیث ہے سیدناجابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم (صحابہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہا کے زمانہ میں متعہ کرتے رہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کردیا ۔ (صحیح مسلم وغیرہ )

یہی بات حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمائی، وہ لکھتے ہیں:

  ’’ وَفِی الْجُمْلَةِ فَالَّذِیْ وَقَعَ فِیْ ھٰذِہِ الْمَسْئَلَةِ نَظِیْرُ مَا وَقَعَ فِیْ مَسْئَلةِ الْمُتْعَةِ سَوَاءٌ 

اَعْنِیْ قَوْلِ جَابِرٍاَنَّھَا کَانَتْ تَفْعَلُ فِیْ عَھْدِ النَّبِیِّ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَصَدْرٍ مِّنْ خِلَافَةِ عُمَرَ قَالَ ثُمَّ نَھَانَا عُمَرُفَانْتَھَیْنَا فَالرَّاجِحْ فِی الْمَوْضِعَیْنِ تَحْرِیْمُ الْمُتْعَةِ وَاِیْقَاعُ الثَّلَاثِ... ۔‘‘

 ( فتح الباری :۹؍۴۵۷، بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۵۷، مکتبہ اہل السنہ والجماعہ وہاڑی ) 

ترجمہ: خلاصہ یہ ہے کہ تین طلاق کا یہ مسئلہ بعینہ متعہ کے مسئلہ کی طرح ہے یعنی حضرت جابر کا قول کہ متعہ کیا جاتا تھا عہد ِ نبوی صدیقی اور خلافت عمر کے شروع تک پھر حضرت عمر نے ہمیں روکا تو ہم متعہ سے رک گئے ۔ بس دونوں مسئلوں میں راجح متعہ کی حرمت اور تین اکٹھی طلاقوں کا وقوع ہے ۔ 

اگر تین طلاقوں کو ایک اس لیے قرار دیاجاتا ہے کہ یہ عمل زمانہ نبوی ، عہدِ صدیقی اور ابتدائے خلافتِ عمری میں ہوتا رہا ہے تو عورتوں سے متعہ کرنا بھی حدیثِ مسلم ہی کے مطابق اسی طویل زمانہ میں پایا جاتا رہا پھر تو متعہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔ اگر کوئی کہے کہ متعہ کا حرام ہونا تو دیگر احادیث سے ثابت ہے تو عرض ہے کہ تین طلاقوں کا تین ہونا بھی کتاب و سنت سے ثابت ہے جیسا کہ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے جواب نمبر ۱۰ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔ 

پانچواں جواب: 

دہلوی صاحب کے پانچویں جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جو تین طلاقوں کو ایک سمجھتے رہے یا عورتوں سے متعہ کرتے رہے ، یہ دونوں عمل بے خبری کی وجہ سے ان سے صادر ہوتے رہے ۔ ان کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکرو عمر رضی اللہ عنہما کو نہ تھی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو منع کردیا اور تین طلاقوں کے تین ہونے کو نافذ فرما دیا۔ تین طلاقوں کے نفاذ کی یہ بات بھی حدیث ابن ِ عباس کے آخر میں مسلم شریف میں موجود ہے مگر حافظ عبد الرحمن نے اس حدیث کا آخری حصہ کسی مصلحت کی وجہ سے د رج ہی نہیں کیا ، شاید یہی مصلحت ہے تاکہ لوگوں کو خلیفہ راشد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ اور تین طلاقوں کو سرکاری طور پر نافذ کردینے کا علم نہ ہو جائے۔ 

رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے اگرچہ حدیث مکمل نقل کی مگر ساتھ ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر طعن بھی کردیا ۔ چنانچہ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا: 

’’موصوف نے باعترافِ خویش اس قرآنی حکم میں ترمیم کر دی ۔ اس قرآنی حکم میں موصوف نے یہ ترمیم کی تین [طلاقیں (ناقل)] قرار پانے لگیں۔ ‘‘ 

( تنویر الآفاق صفحہ ۴۸۷)

سوال یہ ہے کہ اگر واقعۃً  سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے شریعت کو بدل دیا تھا تو ایسا شخص خلیفہ راشد ہو سکتا ہے؟  نیز جو قرآنی حکم تبدیل کردے اس کا کیا حکم ہے ؟ 

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر شریعت بدلنے کا الزام لگانے والے اپنے فرقہ کے ’’ امام العصر ‘‘ مولانا میرمحمد ابراہیم سیالکوٹی غیرمقلد کی درج ذیل دل سوز تحریر پڑھیں:

’’حضرت عمر ؓ کی نسبت یہ تصوّر دلانا کہ انہوں نے معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو بدل دیا ڈالا، بہت بڑی جرأت ہے واللہ اس عبارت کو نقل کرتے وقت ہمارا دل دہل گیا اور حیرانی ہوگئی کہ ایک شخص جو خود مسئلہ کی حقیقت نہیں سمجھا وہ خلیفہ رسول اللہ کی نسبت یہ خیال رکھتا ہو کہ وہ سنت کے بدلنے میں اس قدر جری تھا استغفر اللہ استغفراللہ۔ ‘‘ 

( اخبار اہلِ حدیث ۱۵ نومبر ۱۹۲۹ء بحوالہ عمدة الاذثاث صفحہ ۹۸)

دہلوی صاحب کے اس جواب بالا کے پیشِ نظر یہ کہنا درست ہے کہ تین طلاقوں کے ایک ہونے پر زمانہ نبوی اور عہدِ صدیقی میں اجماع ہرگز نہ تھا ورنہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ متعہ کے جواز پر دَورِ نبوی اور صدیقی میں اجماع رہا ہے جس طرح دوسرا دعوئے اجماع غلط ہے ، اسی طرح اجماع کا دوسرادعوی بھی صحیح نہیں ۔

چھٹا جواب: 

 دہلوی صاحب نے چھٹے جواب میں دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں ۔

(ا)صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین اور سات سوسال تک محدثین و سلف صالحین سے تین طلاق کو ایک سمجھنا ثابت نہیں۔ انتھیٰ

اس سے اگلی بات ہم ذکر کئے چلتے ہیں کہ حدیثِ ابن عباس ان صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین ، محدثین اور سلف صالحین کے سامنے بھی تھی مگر ان کا تین طلاقوں کے تین ہونے کوماننا دلیل ہے کہ یہ حدیث تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کی دلیل نہیں۔

پروفیسر عبد اللہ بہاول پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اگر کوئی شخص حدیث سے مسئلہ مستنبط کرتا ہے تو اسے دیکھا جائے گا اگر امت کے عمل کے مطابق ہو تو ٹھیک ورنہ رد کر دیا جائے گا ، کیوں کہ استنباط عمل ظنی ہے اور امت کا دائمی عمل قطعیت کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ متواتر بھی ہے ۔ دائمی عمل کے خلاف استدلال مردود ہوگا ۔ ‘‘ 

( رسائل بہاول پوری صفحہ ۸۵۳) 

دہلوی صاحب کے اس قول کہ’’ سلف صالحین سے تین طلاقوں کو ایک قرار دینا ثابت نہیں۔‘‘ کے بعد شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کا کلام پڑھئے، وہ لکھتے ہیں:

’’یاد رہے کہ کتاب وسنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جوسلف صالحین کے اتفاق سے ثابت ہے۔‘‘ 

(توضیح الاحکام ۱؍۲۴، طبع مکتبہ اسلامیہ )

غیرمقلدین جو ضابطے دوسروں کو پیش کرتے ہیں خود بھی ان پر عمل کر لیں ۔ 

علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’ یاد رہے کہ کتاب و سنت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو سلف صالحین اور علمائے اہلِ سنت سے بلا اختلاف ثابت ہے ۔‘‘ 

( توضیح الاحکام :۳؍۷۸، طبع مکتبہ اسلامیہ )

تعجب ہے کہ سلف صالحین کی خلاف ورزی کرنے والے غیرمقلدین اپنے آپ کو ’’سلفی ‘‘ بھی کہتے ہیں!! 

مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ ابن عباس ؓ کی اس حدیث پر محدثین نے اور بھی کئی وجوہ سے کلام کیا ہے جس کی تشریح کچھ تو امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں کی ہے، کچھ اور بھی میں نے اپنی کتاب میں محدثین سے نقل کیا ہے ۔‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۲۱۷)

دہلوی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ محدثین نے حدیث ابن عباس کو قبول نہیں کیا ہے جب کہ غیرمقلدین کا دعویٰ ہے کہ حدیثوں کو محدثین کے فہم کی روشنی میں قبول کرنا ضروری ہے۔ 

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’اہلِ حدیث اپنے عقیدے اور منہج کے مطابق ادلہ ٔ اربعہ سے بذریعہ محدثین کرام اور علمائے حق ( سلف صالحین) کے فہم کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دینے کے پابند ہیں۔‘‘ 

 ( مقالات :۵؍۳۳۸، طبع مکتبہ اسلامیہ ) 

(۲) دہلوی صاحب نے چھٹے جواب میں دوسری بات یہ کہی ہے کہ حدیث ِ ابن عباس منسوخ ہے اور اس کے نسخ پردلائل دیتے ہوئے کہا کہ امام حازمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ الناسخ و المنسوخ‘‘ میں اس حدیث ِ ابن عباس کو منسوخ کہا ہے۔

امام ابو بکر محمد بن موسی الحازمی ( وفات :۵۸۴)فرماتے ہیں پہلے تین طلاقوں کے بعد مراجعت کا حق پہنچتا تھا مگر بعد کو بالاجماع یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ ظاہر قرآن وحدیث اسی پر دال ہیں ۔ (کتاب الاعتبار صفحہ ۱۸۱)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد ایک مسئلہ کے منسوخ نہ ہونے پربزعم خود ایک دلیل یوں پیش کی: 

’’ ناسخ و منسوخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں مثلاً کتاب الحازمی ، کتاب ابن شاہین، کتاب ابن الجوزی وغیرہ ۔ ان کتابوں کے مصنفین نے اس مسئلہ کو اپنی کتابوں میں ذِکر تک نہیں کیا ، ہے کوئی جو اِس موضوع کی کسی کتاب سے یہ مسئلہ نکال کر دکھائے ؟‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۱۵۶،طبع جدید، سن اشاعت: اکتوبر؍۲۰۱۲ء ) 

شیخ امان اللہ عاصم غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اگر جرأت ہے تو ناسخ و منسوخ پر لکھی گئی کتب میں سے کسی ایک کتاب سے یہ بات ثابت کر دیں کہ ان میں رفع یدین کو منسوخ قرار دیا ہو ۔ ‘‘ 

( مجرم کون ؟ رفع یدین کرنے والے یا نہ کرنے والے صفحہ ۲۷، ادارہ نشر التوحید والسنۃ لاہور، اشاعت اول : جولائی ۲۰۱۲ء ) 

غیرمقلدین کی مزعومہ مرکزی دلیل: صحیح مسلم کی حدیثِ ابن عباس کا نسخ توناسخ و منسوخ پر لکھی گئی امام حازمی رحمہ اللہ کی کتاب سے دکھا دیا،چلیں اسے تو منسوخ مان لیں تاکہ پتہ چلے کہ آپ لوگوں نے مذکورہ اصول ماننے کے ارادے سے لکھاہے۔ 

سنن ابی داود اور سنن نسائی میں نسخ کا باب قائم کرکے اسی کو ظاہر کیا گیا ہے، راویِ حدیث خود ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے ایک ہونے کو منسوخ کہا ہے جیسا کہ ابو داود بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَةِ بَعْدَ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاثِ میں ہے ۔پڑھئے :

’’آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا تھاتو وہی اس کی طرف رجوع کرنے کا زیادہ حق دار سمجھا جاتا تھا ،خواہ تین طلاقیں دے چکا ہوتا۔ اس کو منسوخ کردیا گیا اور فرمایا : ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾(قابل رجوع ) طلاق دو بار ہے۔ ‘‘ 

(سنن ابی داود ۲؍۶۷۶، حدیث : ۲۱۹۵ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی غیرمقلد)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اِس اَثر کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ اِسْنَادُہٗ حَسَنٌ‘‘ 

(تخریج سنن ابی داود ۲؍۶۷۶)

ترجمہ : اس کی اسناد حسن ہے ۔ 

اور سیدنا ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما کا اپنا فتویٰ بھی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے۔مولانا شرف الدین دہلوی صاحب کی طرح دیگر غیرمقلدین کو بھی اعتراف ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تین طلاقوں کے وقوع کو مانتے ہیں جیساکہ باب دوم میں باحوالہ مذکور ہے والحمد للہ ۔ 

  امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ بعید نہیں کہ یہ روایت جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے منسوخ ہو، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ان کو معلوم ہو اور پھر وہ دیدہ دانستہ اس کے خلاف عمل کرتے اور فتوی دیتے ہوں ۔ 

( محصلہ سنن الکبری : ۷؍۳۳۸) 

غیرمقلد ین نے اعتراف کیا ہے کہ راوی اپنی روایت کردہ حدیث کی مراد کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے چنانچہ مولانا بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ قاعدہ مشہور ہے کہ الراوی ادری بمرویه ۔‘‘ (شرعی طلاق صفحہ ۳۰)

عربی عبارت کا ترجمہ یہ ہے :

’’ راوی اپنی بیان کردہ روایت کو زیادہ جانتا ہے ۔ ‘‘

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’اور یہ ظاہر ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جانتا ہے ۔ ‘‘

 ( الحدیث : ۵۵؍۳۲)

 علی زئی مزید لکھتے ہیں :

’’راوی ٔ حدیث کی تشریح بعد میں آنے والے تمام لوگوں کے مقابلے میں راجح ہے۔ ‘‘

 ( علمی مقالات : ۳؍۴۹۳)

 علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’ یہ بات طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ راوی ٔ حدیث کی روایت یا تشریح کے مقابلے میں معجم البکری ہو یا کوئی دوسرا مثلاًابو الحسن اللخمی وغیرہ ہو، اس کی بات ہمیشہ مردود ہوتی ہے ‘‘ 

( توضیح الاحکام : ۲؍۱۱۷)

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ متعہ اور تین طلاقوں کے ایک ہونے کی بات پہ بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’ ’ وَقَدْ دَلَّ اِجْمَاعُھُمْ عَلٰی وُجُوْدِ النَّاسِخِ وَاِنْ کَانَ خَفِیَ عَنْ بَعْضِھِمْ قَبْلَ ذٰلِکَ حَتّٰی ظَھَرَ لِجَمْعِھِمْ فِیْ عَھْدِ عُمَرَ ۔‘‘

 ( فتح الباری :۹؍۴۵۷، بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۵۷، مکتبہ اہل السنہ والجماعہ وہاڑی ) 

ترجمہ:اور صحابہ کا اجماع اس بات پہ دلیل ہے کہ پہلے حکم (یعنی اباحت متعہ اور تین طلاق کے بعد رجوع ) کا ناسخ موجود تھا اگرچہ اس اجماع سے پہلے بعض صحابہ پر مخفی رہا حتی کہ عہد عمر رضی اللہ عنہ میں سب پر ظاہر ہوگیا ۔ 

 علامہ قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 

’’ لَوْ سَلَّمْنَا اَنّّہٗ حَدِیْثٌ مُسْنَدٌ مَرْفُوْعٌ لِلنَّبِیِّ لَمَا کَانَ فِیْہِ حُجَّةٌ لِاَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ھُوَ رَاوِی الْحَدِیْثِ وَقَدْ خَالَفَہٗ بِعَمَلِہٖ وَفُتْیَاہُ وَھٰذَا یَدُلُّ عَلٰی نَاسِخٌ عِنْدَہٗ وَلَا یَصِحُّ اَنْ یُّظَنَّ بِہٖ اَنَّہٗ تَرَکَ الْعَمَلَ بِمَا رَوَاہُ مَجَّانًا وَغَالِطًا لِمَا عُلِمَ مِنْ جَلَالَتِہٖ وَوَرْعِہٖ وَ حِفْظِہٖ وَتَثَبُّتِہٖ قَالَ اَبُوْعُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ بَعْدَ اَنْ ذَکَرَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فُتْیَاہُ مِنْ طُرُقٍ مُتَعَدَّدَةٍ بِلُزُوْمِ الطَّلَاقِ ثَلَاثًا مِنْ کَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ مَّا کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِیُخَالِفَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالْخَلِیْفَتَیْنِ اِلٰی رَاْیِ نَفْسِہٖ۔‘‘ 

( المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم :۱۳؍۷۸،۷۹ بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۶۰)

ترجمہ: اگرہم تسلیم کر لیں کہ مذکورہ بالا حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہا مرفوع متصل ہے تب بھی تین طلاقوں کے ایک ہونے پریہ حدیث دلیل نہیں بن سکتی کیوں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا جو اِس حدیث کے راوی ہیں ان کا عمل اور ان کا فتوی اس کے خلاف ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث حضرت ان عباس رضی اللہ عنہا کے نزدیک منسوخ ہے اور اس کا ناسخ ان کے نزدیک ثابت ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کے متعلق یہ بد گمانی صحیح نہیں کہ انہوں نے اپنی روایت کردہ حدیث پرجان بوجھ کر یا غلطی سے عمل چھوڑ دیا ہے کیوں کہ علم کے اعتبار سے ان کی جلالت شان ،ان کاحافظہ ، علم میں ان کی پختگی اور پرہیز گاری سب کومعلوم ہے۔ ابو عمر ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کا فتوی متعدد اسناد کے ساتھ ذِکر کیا ہے کہ تین طلاقیں بیک کلمہ لازم ہوجاتی ہیں اس کے بعد ابن عبد البر لکھتے ہیں کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا اپنی رائے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو خلیفہ راشد کی مخالفت کریں۔ 

علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 ’’ فَاَمَّا حَدِیْثُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَدْ صَحَّتِ الرِّوَایَةُ عَنْہُ بِخِلَافِہٖ وَاَفْتٰی بِخِلَافِہٖ۔‘‘

( الشرح الکبیر لابن قدامۃ  : ۸؍۲۶۰بحوالہ حرم کاری سے بچئے ،ناشر: مکتبہ اہل السنۃ و 

الجماعۃ وہاڑی ، سن اشاعت: جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ )

ترجمہ: بہرکیف حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تین طلاقوں کے ایک ہونے والی حدیث کے خلاف خود ان سے صحیح حدیثیں مروی ہیں اور ان کا فتوی بھی اس حدیث کے خلاف ہے ۔ 

مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حضرت امام احمدؒ سے حضرت اثرم دریافت کرتے ہیں کہ آپ اس حدیث کا کیا جواب دیتے ہیں جس میں ہے کہ تین ایسی طلاقیں زمانہ نبوی میں اور خلافت صدیقی و فاروقی میں ایک شمار کی جاتی تھیں تو آپ نے جواب دیا کہ اس کے راوی ابن عباس ؓ سے اس کے خلاف مروی ہے۔ ‘‘ 

 ( نکاح محمدی صفحہ ۲۰،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حضرت ابنِ عباس ؓ کی مسلم والی حدیث کا ظاہر اسی کو چاہتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوں لیکن ابن عباسؓ کا فتویٰ اس کے خلاف ہے وہ تین کوتین ہی کہتے ہیں جیسے ابوداود (جلد ۱ صفحہ ۲۹۹) اور منتقی(صفحہ ۲۳۷) وغیرہ میں ہے ابن عباس ؓ کا فتویٰ اس کے خلاف ہونا قوی شبہ ڈالتا ہے کہ یہ حدیث اپنے ظاہر پر نہیں۔ ‘‘

 ( ایک مجلس کی تین طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہلِ حدیث روپڑ صفحہ ۳) 

روپڑی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

’’ راوی کے مخالف ہونے کی صورت میں حدیث کو منسوخ یامتروک کہنا یہ بے شک حنفیہ وغیرہ کا مذہب ہے لیکن اہلِ حدیث بھی ایسے موقعہ پر دلیر نہیں کہ بے دھڑک قول صحابی کو چھوڑ دیں۔ آپ خیال نہیں کرتے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کے مسئلہ میں اکثر متقدمین کیامسلک رکھتے ہیں۔ ائمہ اربعہ ؒ اور جمہور اسی کے قائل ہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں۔ حالاں کہ مسلم کی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک ہوتی ہے۔ ائمہ اربعہ ؒ اور جمہور تین طلاق واقعہ ہونے کے قائل کیوں ہوئے؟ بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ روای حدیث ابن عباس ؓ کا فتویٰ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ حدیث قول ِ صحابی ؓ کو بے دھڑک نہیں چھوڑتے ۔ ‘‘ 

(فتاویٰ اہلِ حدیث ۱؍۵۰۴)

شیخ بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس حدیث کے راوی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خود جہر سے پڑھتے تھے ،اگر اس روایت میں جہر کی نفی ہوتی تو ابوہریرہ اس کے خلاف ہرگز عمل نہ کرتے ۔ ‘‘ 

( احکام البسملۃ صفحہ ۱۴۷، ناشر: دعوت اہلِ حدیث پبلی کیشنز حیدر آباد ، اشاعت اول مارچ ۲۰۰۵ء)

کیا اس اصول کو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مسلم پہ چسپاں کرنے کے لئے تیار ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے اگر حدیث مسلم میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کی بات ہوتی تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کبھی اس کے خلاف فتوی نہ دیتے ۔ 

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث نبوی بیان کی کہ داڑھیاں بڑھاؤ اور خود ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتے۔ اس پر مولانا روپڑی صاحب تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

  ’’ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سند لی ہے۔ ورنہ داڑھیاں بڑھانے کی حدیث کے راوی ہو کر ایک ناجائز کام کا ارتکاب نہ کرتے ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ علمائے حدیث :۳؍۳۳۸)

مولانا ثناء اللہ مدنی غیرمقلد نے روپڑی صاحب کی عبارت کو اپنی تائید میں نقل کیا ہے۔

 ( فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ :۱؍ ۷۸۶)

حاصل یہ ہے کہ غیرمقلدین کی تصریحات کے مطابق جب صحابی اپنی بیان کردہ حدیث کے خلاف فتویٰ دے یا عمل کرے تو وہ حدیث منسوخ ہوتی ہے اور یہ بھی کہ صحابی نے اپنے فتویٰ و عمل کے موافق کوئی اور حدیث 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی ہوتی ہے ۔  

جب متعدد غیرمقلدین کو یہ بات تسلیم ہے تو پھر اس کے باوجود ان کے حدیث ابن عباس سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کو کشید کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟یہ آپ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی معلوم کریں ۔ وہ کسی بریلوی کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ راوی کے عمل کے بعد اس روایت سے ... مسئلہ کشید کرنا راوی ِ حدیث کی صریح مخالفت کے مترادف ہے ۔‘‘ 

(نور العینین صفحہ ۲۲۴ طبع ۲۰۰۶ء) 

اگر راوی کے عمل کے خلاف کوئی مسئلہ حدیث سے اخذ کرنا غلط ہے تو حدیث ِ ابن ِ عباس سے ان کے فتوے کے خلاف تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کامسئلہ کشید کرنا غلط کیوں نہیں ہوگا؟

نواب صدیق حسن غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ مخالفت راوی از برائے مروی دلیل است بر آنکہ راوی علم ناسخ دارد چہ حمل آں بر سلامت واجب است۔ 

( دلیل الطالب صفحہ ۴۷۶)

یعنی راوی کی طرف سے اپنی روایت کردہ حدیث کی مخالفت کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ راوی ناسخ کا علم رکھتا ہے ۔بات کو اسی پر محمول کرنا باعث سلامتی اور واجب عمل ہے ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مرفوع حدیث کی کسی نے تاویل کی تو شیخ محمد صدیق بن عبد العزیز غیرمقلد نے اس کا یوں جواب دیا:

’’ حضرت ابن عباس کا فعل اس توجیہ کے خلاف ہے ۔‘‘ 

( جمع بین الصلوٰتین صفحہ ۱۶، ادارہ احیاء السنۃ النبویۃ سرگودھا ) 

کیا اس عبارت کے پیش نظر ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث مسلم کو تین طلاقوں کے ایک ہونے کی دلیل بنانا ان کے اپنے فتوے کے خلاف ہے۔ غیرمقلدین سے یہ اُمید رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنا یہ اصول زیربحث مسئلہ میں بھی قبول کریں۔ 

 ساتواں اور آٹھواں جواب: 

دہلوی صاحب نے کہاکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہا کو محدثین نے شاذ یعنی ضعیف اور مضطرب بتایا ہے ...

دہلوی صاحب نے اس عبارت میں پہلی بات کہی کہ محدثین نے اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے ۔ مولانا 

ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے بھی اقرار کیا ہے کہ علماء کرام کی ایک جماعت کے نزدیک یہ حدیث شاذ ومنکر ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ علماء کی ایک جماعت نے طاؤس کے اس تفرد پرکلام کرتے ہوئے اسے شاذ اور منکر قرار دیا ہے۔عموماً صحابہ کا عمل اس کے برعکس ( اور ) نہ ائمہ اربعہ کا مشہور روایت کے مطابق اس پر عمل ۔ ‘‘

 ( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)

غیرمقلدین کے ہاں مقلد جاہل کے حکم میں ہے اس لئے اثری صاحب کی عبارت میں ’’علماء کی ایک جماعت ‘‘ کا مصداق غیرمقلد جماعت ہونا چاہیے۔اس جماعت میں کون کون سے افراد شامل ہیں اثری صاحب اُن کے نام بتلا دیتے تو اچھا ہوتا۔ 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بقول امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو شاذ قرار دیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ دَعْوٰی شُذُوْذِ رِوَایَةِ طَاؤُسٍ وَّھِیَ طَرِیْقَةُ الْبَیْہَقِیِّ۔(فتح الباری : ۹؍۳۱۷بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۳۳،ناشر: مکتبہ اہل السنّۃ والجماعۃ  ،سن اشاعت: جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ )

ترجمہ: مذکورہ حدیث کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ طاؤس کی یہ روایت شاذ ہے امام بیہقی نے جواب کا یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: 

ٍ ’’ وَھٰذَا الْحَدِیْثُ اَحَدُ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ الْبُخَارِیُّ وَمُسْلِمٌ فَاَخْرَجَہٗ مُسْلمٌ وَتَرَکَہٗ الْبُخَارِیُّ وَاَظُنُّہٗ اِنَّمَا تَرَکَہٗ لِمُخَالَفَتِہٖ سَائِرَ الرِّوَایَاتِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔‘‘

  (سنن الکبری :۷؍۳۳۶ ،بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۳۶،ناشر: مکتبہ اہل السنۃ والجماعۃ  ،سن اشاعت: جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ ) 

ترجمہ:اور یہ حدیث ان حدیثوں میں سے ایک ہے جن کی صحت کے بارے میں امام بخاری اور امام مسلم کا اختلاف ہے چنانچہ امام مسلم نے اس حدیث کو صحیح مسلم میں ذِکر کیا ہے لیکن امام بخاری نے اس حدیث کو چھوڑ دیا ہے ۔ اور میرا گمان یہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو اس لئے چھوڑا ہے کہ یہ حدیث ابن عباس کی دوسری صحیح روایات کے خلاف ہے ۔(یعنی شاذ و منکر ہے ) 

امام ابو عوانہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

’’ بَابُ الْخَبْرِ الْمُبِیْنِ اَنَّ طَلَاقَ الثَّلَاثِ کَانَتْ تُرَدُّعَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ اِلٰی وَاحِدَةٍ وَّبَیَانِ الْاَخْبَارِ الْمُعَارَضَةِ لَہٗ الدَّالَةِ عَلٰی اِبْطَالِ اسْتِعْمَالِ ھٰذَا الْخَبْرِ وَاّنَّ الْمُطَلِّقَ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔

(مستخرج ابی عوانہ : ۵؍۲۳۱ ،بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۳۳ )

ترجمہ: اس باب میں ایک تو ا س حدیث کا بیان ہے جس میں ہے کہ عہد رسالت اور عہد ابی بکر میں تین طلاقوں کو ایک کی طرف لوٹایا جاتا تھا دوسرا ان حدیثوں کا بیان ہے جو اس حدیث کے معارض ہیں یعنی وہ حدیثیں اس بات دلالت کرتی ہیں کہ اس حدیث پرعمل کرنا باطل ہے اور جو آدمی اکٹھی تین طلاقیں دے اس کے لیے اس کی بیوی تب حلال ہو گی جب وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرے ۔

علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

’’ لِاَنَّ حَدِیْثَ طَاءُ سٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِیْ قِصَّةِ اَبِیْ الصَّھْبَاءِ لَمْ یُتَابُعْ عَلَیْہِ طَاءٗ سٌ وَاَنَّ سَائِرَ اَصْحَابِ بْنِ عَبَّاسٍ یَرْوُوْنَ عَنْہُ خِلَافَ ذٰلِکَ ... وَمَا کَانَ بْنُ عَبَّاسٍ لِیَرْوِیَ عَنِ النَّبِیِ عََلَیْہِ السَّلَامُ شَیْئًا ثُمَّ یُخَالِفُہٗ اِلٰی رَأیِ نَفْسِہٖ بَلِ الْمَعْرُوْفُ عَنْہُ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ اَنَا اَقُوْلُ لَکُمْ سُنَّةَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ اَبُوْبَکْرٍ وَّعُمَرُ قَالَہٗ فِیْ فَسْخِ الْحَجِّ وَغَیْرِہٖ وَمِنْ ھُنَا قَالَ جُمْھُوْرُ الْعُلَمَاءِ اَنَّ حَدِیْثَ طَاءٗ سٍ فِیْ قِصَّةِ اَبِی الصَّھْبَاءِ لَا یَصِحُّ مَعْنَاہ۔‘‘

 ( الاستذکار : ۶؍۱۱۰ ،بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۳۳)

ترجمہ: طاؤس کی وہ حدیث جو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں او راس میں ابو الصھباء کا قصہ ہے ۔اس حدیث کے راوی طاوس نے ابو الصھباء کی موافقت نہیں کی، اور نہ طاؤس کا اس حدیث میں کوئی قوی متابع ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کے تمام شاگرد ان سے اس کے خلاف روایت کرتے ہیں اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ شان نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک چیز نقل کریں ، پھر اپنی رائے کی وجہ سے اس کی مخالفت کریں بلکہ ان کی یہ بات مشہور ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں تمہارے سامنے بات کرتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی ۔اور تم کہتے ہو ابو بکر اور عمر۔ فسخ الحج وغیرہ کے بارے میں ان کایہ قول منقول ہے، اسی وجہ سے جمہور علماء کہتے ہیں ابو الصھباءکے قصہ میں طاؤس کی حدیث معنا صحیح نہیں ۔

ان عبارات سے ثابت ہوا کہ مسلم کی حدیث ابن عباس شاذ ہے اور غیرمقلدین کو یہ بھی اعتراف ہے کہ شاذ ضعیف ہوتی ہے ۔ 

 شیخ علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ شاذ روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ ‘‘ 

( نور العینین صفحہ ۲۰۸،سن اشاعت: اکتوبر ؍۲۰۱۲ء) 

اعتراض: طاؤس کاتفرد مضر نہیں 

 عمران شہزاد تارڑ غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’طاؤس پر اعتراض اور ا س کے تفرد پر لب کشائی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا ۔‘‘

(حلالہ سنٹر ز اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۵۶)

الجواب: 

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اگرمان لیا جائے کہ امام حسن بصری نے فی الواقع ابن عمر سے ان الفاظ کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے تو کوئی شک نہیں کہ حسن بصری ان الفاظ کے ساتھ اس روایت کی نقل کرنے میں منفرد ہیں کسی بھی دوسرے راوی کا ان الفاظ میں روایت مذکورہ کی نقل میں حسن بصری کی موافقت ومتابعت کرناثابت نہیں ہے ۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۵۶) 

اگر حسن بصری کا تفرد مضر ہے تو طاؤس کا تفرد مضر کیوں نہیں ہو سکتا ۔اور یہ صر ف امکان ہی نہیں بلکہ علماء کی ایک جماعت نے طاؤس کے تفرد کی بنیاد پہ اس پر کلام کیا ۔ 

  چنانچہ مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلدنے مسلم کی زبر بحث حدیث؍ حدیث ابن عباس کے متعلق لکھا: 

’’ علماء کی ایک جماعت نے طاؤس کے اس تفرد پرکلام کرتے ہوئے اسے شاذ اور منکر قرار دیا ہے۔ ‘‘ 

( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)

اوپر مولانا شرف الدین دہلوی صاحب کی عبارت منقول ہوئی اس میں ایک بات تو یہ تھی کہ زیر بحث حدیث شاذ ہے اور بندہ نے اس کے شاذ ہونے پر حوالہ جات نقل کر دئیے ہیں۔اس عبارت میں دہلوی صاحب نے دوسری بات یہ لکھی کہ زیر بحث حدیث مضطرب ہے ۔ اس کے مضطرب ہونے پر حوالہ ملاحظہ ہو ۔ 

علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ مَاکَانَ فِیْہِ حُجَّةٌ لِلِاضْطِرَابِ وَالِاخْتِلَافِ الَّذِیْ فِیْ سَنَدِہٖ وَ مَتْنِہٖ ۔( المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم :۱۳؍۸۹،بحوالہ حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۳۰،ناشر: مکتبہ اہل السنۃ والجماعۃ وہاڑی ، سن اشاعت: جمادی الاولی ۱۴۳۴ھ) 

ترجمہ: اس میں حجت نہیں اس اضطراب واختلاف کی وجہ سے جو اس کی سند و متن میں ہے ۔ 

پھر اس کے بعد علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس اضطراب کی تفصیل بیان کی ہے ۔ اوراضطراب کا کیا حکم ہے ؟یہ آپ غیرمقلدین کی زبانی جانیں۔ 

شیخ علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں :

’’یہ بات عام طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ اضطراب والی روایت ضعیف ہوتی ہے ‘‘

 ( علمی مقالات : ۳؍۸۴)

شیخ عبد الوارث ضیاء الرحمن اثری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ ان روایات کی تضعیف کے لئے ان الفاظ کا اضطراب ومنکر ہونا ہی کافی ہے ۔ ‘‘

 ( گردن کا مسح ایک تحقیقی جائزہ صفحہ ۱۱ ، سلفی دار الاشاعت دہلی ) 

 نواں جواب:

دہلوی صاحب نے نواں جواب یہ دیا ہے کہ حدیث ِابنِ عباس مرفوع نہیں، یعنی حدیث ِ نبوی نہیں ہے ۔ 

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مرفوع بالفاظِ دیگر حدیث ِ نبوی کی تین قسمیں ہیں ۔ (۱)قولی (۲)فعلی (۳)تقریری۔

غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہوا ہے :

’’ حدیث اس کو کہتے ہیں جو پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان مبارک سے فرمایا یا ،خود کیا یا جو حضرت ؐ کے سامنے ہوا اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو درست رکھا ۔ سو جو زبان سے فرمایا اس کوحدیث ِقولی کہتے ہیں اور جو کیا اس کو حدیثِ فعلی کہتے ہیں اور جو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا [اور آپ نے خاموشی اختیار کی ہو ] اس کو حدیثِ تقریری کہتے ہیں ‘‘ 

( شرح بلوغ المرام صفحہ ۴۵)

حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ لوگ عہد نبوی اور زمانہ صدیقی میں تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے تھے ۔یہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، نہ اپنافعل ہے اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ یہ کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوتا رہا اور آپ کو اطلاع تھی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی ۔ حاصل یہ کہ حدیثِ نبوی کی تینوں قسموں : قولی، فعلی اور تقریری میں سے کوئی بھی نہیں ۔ 

حافظ ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں: 

’’ فَلَیْسَ شَیْ ءٌ مِّنْہُ اَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَھَا وَاحِدَةً اَوْ رَدَّھَا اِلَی الْوَاحِدِةِ وَلَا اَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَ السَّلَامُ عَلِمَ بِذٰلِکَ فَاَقَرَّہٗ وَلَاحُجَّةَ اِلاَّ فِیْمَا صَحَّ اَنَّہٗ عَلَیْہِ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ قَالَہٗ اَوْ فَعَلَہٗ اَوْ عَلِمَہٗ فَلَمْ یُنْکِرْہُ ۔‘‘

ترجمہ:اس حدیث میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں کو ایک قرار دیا ان (تین ) کو ایک کی طرف لوٹایا تھا اور نہ اس میں یہ چیز موجود ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوااور آپ نے اس کو برقرار رکھا اور حجت تو صرف اُسی چیز میں ہے جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہو یا کوئی کام کیا ہو یا آپ کو علم ہوا ہو اور آپ نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو ۔

(محلی ابن حزم ۱۰ ؍۲۰۶بحوالہ عمدة الاثاث صفحہ ۸۴)

یہاں حافظ عبد المنان نور پوری غیرمقلد کی بھی سنتے جائیں ۔ وہ صحابی کے قول و عمل کے حجت نہ ہونے پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں:

  ’’دوسری وجہ اس کے دلیل اور قرینہ نہ بننے کی یہ ہے کہ موقوف ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ فرمان ہے ، نہ عمل ، نہ ہی تقریر اور تصویب ہے ۔ مرفوع ہے ہی نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا قول موقوف ہوتا ہے۔ یہ دین میں حجت نہیں بنتا ۔ صحابی کا قول اور صحابی کا اپنا عمل دلیل نہیں بنتا ۔ صحابی رضی اللہ عنہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب تقریر بیان کریں تو وہ دلیل ہے۔صحابی رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل اور قول دلیل نہیں ہے۔ جب یہ دلیل نہیں تو پھر اس سے گنجائش کیسے ملی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے ....: جو کچھ رب تعالیٰ کی طرف سے ناز ل کیا گیا ہے اس کا اتباع کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کا اتباع نہ کرو۔ ‘‘

(داڑھی کی شرعی حیثیت صفحہ۱۹)

نور پوری صاحب کی یہی عبارت مقالات نور پوری صفحہ ۲۶۳،۲۶۴ پہ بھی موجود ہے ۔

مذکورہ عبارت میں جملہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ فرمان ہے ، نہ عمل ، نہ ہی تقریر اور تصویب ہے ۔

 مرفوع ہے ہی نہیں ۔ ‘‘ ایک بار پھر پڑھ لیں ۔صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس کے متعلق یہ جملہ کہنا انتہائی مناسب ہے جیسا کہ ابن حزم ظاہری نے بھی کہا ہے ۔ 

دسواں جواب :

دہلوی صاحب کہنا چاہتے ہیں اگر اس حدیثِ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا وہی مطلب لیا جائے جو فریقِ مخالف لیتا ہے کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جائے تو اس اعتبار سے یہ حدیث محدثین کے مسلک کے خلاف ہے، 

اجماع ِ صحابہ کے بھی خلاف ہے اور کتاب وسنت کے بھی خلاف ہے ۔ہم اس کی مزید تفصیل عرض کر دیتے ہیں۔

(۱)غیرمقلدین اپنی کتابوں میں پُرزور یہ دعویٰ کیا کرتے ہیں کہ محدثین حدیثوں کی مراد و معنیٰ کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں۔(نیل الاوطار۱؍۱۵۶، عون الباری۱؍۲۷۶، تحفۃ الاحوذی ۱؍۲۵۷)وغیرہ ۔

حدیثوں کی مراد کو زیادہ جاننے والے یہ محدثین تین طلاقوں کو تین ہی کہتے ہیں لہذا ان کے فہم کے پیشِ نظر یہ کہنا درست ہے کہ حدیث ابن عباس تین طلاقوں کے ایک ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔

(۲)دہلوی صاحب کہتے ہیں کہ حدیثِ ابن عباس سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کو اخذ کرنا اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے کیوں کہ صحابہ کرام کا اجماع ہے تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔مولانا شرف الدین دہلوی کی طرح دیگر اہلِ علم بلکہ جمہور کے نزدیک یہ اجماعی مسئلہ ہے ۔ 

ابو البرکات عبد السلام ابن تیمیہ متوفی ۶۲۱ھ فرماتے ہیں کہ ایک کلمہ سے دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر اجماع ہے ۔ (منتقی الاخبار صفحہ ۲۳۷)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

  ترجمہ: تحریم متعہ اور اسی طرح تین طلاقوں کے تین ہونے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں اتفاق و اجماع واقع ہو چکا تھا اور ان کا اجماع خود اس امر پر دال ہے کہ ان کو ناسخ کا علم ہو چکا تھا اگرچہ اس سے پہلے بعض کو اس کا علم نہ ہو سکا ،اب جو شخص اس اجماع کے بعد اس کی مخالفت کرتا ہے تو وہ اجماع کا منکر اور اس کا تارک ہے اور جمہور کا اتفاق ہے کہ اجماع کے بعد اختلاف پیدا کرنا مردود ہے ۔ 

( فتح الباری ۹؍۲۹۳)

  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کو غیرمقلدین اپنا ہم مسلک کہتے ہیں ۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے’’اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۵۴‘‘ پر انہیں غیرمقلد اور ماہ نامہ الحدیث شمارہ : ۸۹ پر اہلِ حدیث قرار دیا ہے۔ 

حافظ احمد بن عبد الحلیم المعروف ابن تیمیہ متوفی ۷۲۸ھ جمہور کا مسلک یوں نقل کرتے ہیں:

’’ وَلَمَّا ثَبَتَ عِنْدَھُمْ عَنْ اَئِمَّةِ الصَّحَابَةِ اَنَّھُمْ اَلْزَمُوْا بِالثَّلَاثِ الْمَجْمُوْعَةِ قَالُوْا لَا یَلْزَمُوْنَ بِذِلِکَ اِلَّا وَذٰلِکَ مُقْتَضٰی الشَّرْعِ وَاعْتَقَدَ طَائِفَةٌ لُزُوْمَ ھٰذَا الطَّلَاقَ وَاَنَّ ذٰلِکَ اِجْمَاعٌ لِکَوْنِھِمْ لَمْ 

یَعْلَمُوْا خِلَافًا ثَابِتًا ۔

(فتاویٰ ۳؍۲۱ طبع مصر ) 

ترجمہ:اور جب ان کے نزدیک ائمہ صحابہ سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے تین اکٹھی طلاقوں کو لازم قرار دیا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ حضرات صحابہ کرام سے بلا دلیل شرعی ایسا نہیں ہو سکتا اور اس گروہ نے ان کے لزوم کا اعتقاد کیا اور یہ ان کے نزدیک اجماعی امر ہے کیوں کہ اس کے خلاف ان کے علم میں کچھ ثابت ہی نہیں ہے ۔

امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی تین طلاقوں کے وقوع پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔(شرح معانی الاثار ۲؍۲۹)

 ہم ان کی عبارت آئندہ صفحات میں نقل کریں گے ان شاء اللہ ۔ 

(۳)دہلوی صاحب کے بقول حدیثِ ابن ِ عباس سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کا کشیدہ مطلب کتاب و سنت کے بھی خلاف ہے، لہٰذا یہ حجت نہیں .... 

 مولانا ارشاد الحق اثری کا تبصرہ 

کسی نے کہا کہ اگر کوئی حدیث درایت کے خلاف ہو تو اسے رد کر دیاجائے گا۔ پھر اس نے اس کی مثال میں حدیث قلتین کوپیش کرکے لکھاچوں کہ یہ حدیث درایت کے خلاف ہے اس لئے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں اسے شاذ قرار دیاکیوں کہ اس حدیث کا تعلق حلال وحرام سے ہے اور بجز عبد اللہ بن عمر کے اور ان سے صرف ان کے دو شاگردوں ( عبد اللہ اور عبیدا للہ ) کے کوئی اور روایت نہیں کرتا ۔( محصلہ ) 

  مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلدمذکورہ بات کا جواب دیتے ہوئے زیر بحث حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سامنے لائے اور پھر اس کی بابت یوں تبصرہ کیا: 

’’ اسے بھی صرف حضرت ابن عباس ؓ ہی روایت کرتے ہیں، اور ان کے تلامذہ میں طاؤس کے علاوہ کوئی بھی اسے بیان نہیں کرتا بلکہ سعید بن جبیر ، عطاء مجاہد، عکرمہ، عمرو بن دینار وغیرہ حضرت ابن عباس کا فتویٰ اس کے برعکس روایت کرتے ہیں۔ علماء کی ایک جماعت نے طاؤس کے اس تفرد پرکلام کرتے ہوئے اسے شاذ اور منکر قرار دیا ہے۔عموماً صحابہ کا عمل اس کے برعکس ( اور ) نہ ائمہ اربعہ کا مشہور روایت کے مطابق اس پر عمل ۔ ‘‘

( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)

اثری صاحب کی اس عبارت کو سیاق و سباق کے اضافہ کے ساتھ باب نمبر:۱۸ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اثری صاحب کی مذکورہ عبارت سے درج ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:

(۱)’’اسے صرف حضرت ابن عباس ؓ ہی روایت کرتے ہیں‘‘دوسرے صحابہ کرام نے اسے روایت نہیں کیا ۔ 

(۲)’’ان کے تلامذہ میں طاؤس کے علاوہ کوئی بھی اسے بیان نہیں کرتا ‘‘ یعنی اس اضافہ کے راوی طاؤس ہیں ۔

 (۳)’’ سعید بن جبیر ، عطاء مجاہد، عکرمہ، عمرو بن دینار وغیرہ حضرت ابن عباس کا فتویٰ اس کے برعکس روایت کرتے ہیں۔‘‘یعنی مذکورہ بالا رواة حدیث نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتوی تین طلاقوں کے تین ہونے کا نقل کیا ہے ۔ 

(۴)’’ علماء کی ایک جماعت نے طاؤس کے اس تفرد پرکلام کرتے ہوئے اسے شاذ اور منکر قرار دیا ہے۔‘‘ یعنی علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔

(۵)’’عموماً صحابہ کا عمل اس کے برعکس ‘‘ مطلب صحابہ کرام نے اس پر عمل نہیں کیابلکہ وہ تین طلاقوں کو تین ہی کہتے ہیں ۔ 

(۶) ’’نہ ائمہ اربعہ کا مشہور روایت کے مطابق اس پر عمل‘‘ یعنی ائمہ اربعہ کا فتوی تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے،بالفاظِ دیگر اُن کا فتویٰ اُس استدلال کے مطابق نہیں جو اِس حدیث ابن عباس سے بعض نے کیا ہے ۔ 

 ایک اور جواب 

امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’ بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرَّقَةِ قَبْلَ الدَّخُوْلِ بِالزَّوْجَةِ ، باب دخول سے پہلے عورت کو الگ الگ تین طلاقیں دینے کا بیان ‘‘ کے تحت حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ذکرکیا ہے ۔

 ا س کی تشریح میں غیرمقلدین نے ’’ فائدہ ‘‘ کا عنوان دے کر لکھا ہے : 

’’ اس حدیث کا عنوان ِ باب سے تعلق اس طرح ہے کہ اس حدیث میں جویہ کہا گیا ہے کہ اِنّ الثَّلَاثَ کَانَتْ ...تُرَدُّ اِلَی الْوَاحِدِةِ ‘‘ تو یہ اس مطلقہ کے بارے میں خاص ہے جسے جماع سے پہلے طلاق دی گئی ہو، جب غیر مدخول بہا کو تین متفرق طلاقیں دی جائیں گی تو پہلی طلاق ہو جائے گی اور دوسری اور تیسری طلاقیں بے محل ہونے کی وجہ سے لغو قرار پائیں گی۔ اس چیز کو بتانے 

کے لیے امام نسائی نے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس کے تحت مذکورہ حدیث ذکر کی ہے۔‘‘ 

 ( نسائی مترجم:۳؍۳۹۹، ح۳۴۳۵) 

سنن نسائی مترجم پر تقدیم مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد اور مراجعت ڈاکٹر عبد الرحمن بن عبد الجبار الفریوائی غیرمقلد کی ہے ۔ 

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ کَانَ الرَّجُلُ اِذَا طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَدْخُلَ بِھَاجَعَلُوْھَا وَاحِدَةً عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صِلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَبِیْ بَکْرٍ وَّصَدْرًا مِّنْ خِلَافَةِ عُمَرَ اِلٰی اَنْ قَالَ ھَذَا لَفْظُ الْحَدِیْثِ وَھُوَ اَصَحُّ اِسْنَادً الخ ۔ 

(زاد المعاد :۴؍۶۱) 

ترجمہ :جب کوئی شخص اپنی بیوی کو ہم بستری سے قبل تین طلاق دے دیتا تو وہ حضرات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی امارت کے ابتدائی دَور میں ان کو ایک قرار دیتے تھے (پھر فرمایا ) یہ اس حدیث کے الفاظ ہیں جو صحیح ترین سند سے ثابت ہے ۔ 

الحاصل مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت غیر مدخول بہاسے متعلق ہے ہر مطلقہ کے بارے میں نہیں ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب کہ متفرق طور پر انت طالق، انت طالق،انت طالق سے اس کو طلاق دی گئی ہو ۔( عمدة الآثاث صفحہ ۹۵) 


حدیث ِ رکانہ رضی اللہ عنہ پر بحث

حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بعد مخالف کی طرف سے جو دوسری مزعومہ دلیل پیش کی جاتی ہیں اب آتے ہیں اس کی طرف ۔ اس حدیث کو حافظ عبد الرحمن صاحب نے ابوداود اورمسند احمد کے حوالے سے نقل کیا ہے ۔ پہلے ابوداود والی روایت کی حیثیت ملاحظہ فرمائیں۔

 روایت رکانہ ابوداود والی کی حیثیت 

حافظ عبد الرحمن :

صحابی ؓ رسول ؐ حضرت رکانہ ؓ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مطہرہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں پھر وہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا تو سرور ِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم صادر فرمایا : (راجع امرأتک) اپنی مطلقہ بیوی سے رجوع کرلے تو اس نے جواب دیا (طلقتھا ثلاثا) میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (علمتھا) مجھے معلوم ہے تو اپنی بیوی سے رجوع کرلے۔ ( صحیح ابوداؤد مسند احمد ) 

الجواب :

ابوداود جلد ۱ صفحہ ۲۹۸ میں یہ روایت توموجود ہے مگر اس سے استدلال کرناچند وجوہ سے درست نہیں ہے ۔ 

پہلی وجہ: 

اس کی سند میں بعض بنی رافع راوی مجہول ہے ۔علامہ ابنِ حزم ظاہری فرماتے ہیں:

”بعض بنی رافع مجہو ل ہے اور مجہو ل سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔“

(محلی ابن ِ حزم ۱۰؍۱۶۸)

یاد رہے کہ ابن ِ حزم ظاہری کو غیرمقلدین اپنا غیرمقلد کہتے ہیں ۔(نزل الابرار : ۱ ؍ ۱۲۵ ، علمی مقالات:۲؍۲۴۵، الحدیث : شمارہ:۹۱صفحہ ۳۸ ، تحریک آزادئ فکر صفحہ ۳۵۱) 

 امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

رکانہ کی وہ حدیث جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں وہ حدیث ضعیف 

ہے کیوں کہ اس میں مجہول راوی موجود ہے ۔ 

(شرح مسلم :۱؍۴۷۸)

حافظ عبد الغفور غیرمقلد (خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث سرگودھا ) لکھتے ہیں:

’’اس میں ابنِ جریج اخبرنی بعض بن رافع کہہ کر روایت کرتے ہیں ۔ بعض بنی رافع کو ائمہ حدیث نے مجہول کہا ہے اس میں طلاقِ ثلاثہ اور رجوع کا بھی ذکر ہے۔ امام نووی نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے ۔‘‘ (البیان المحکم صفحہ ۴۸)

 حافظ عبد الغفورصاحب ہی لکھتے ہیں:

’’ابن جریج کی حدیث جو ضعیف ہے۔ ‘‘(البیان المحکم صفحہ ۴۸)

 حافظ عبد الغفور صاحب مزید لکھتے ہیں:

’’بے شک ابن جریج کی حدیث ضعیف ہے۔ ‘‘(البیان المحکم صفحہ ۵۲)

شیخ زبیر علی زئی نے حدیث رکانہ کی تخریج میں لکھا: 

’’ اسنادہ ضعیف اخرجہ البیہقی :۷؍۳۳۹ من حدیث ابی داود بہ، وھو فی مصنف عبد الرزاق، ح : ۳۳۴ بعض بنی رافع مجھول۔ ‘‘ 

( تخریج ابوداود ،حدیث : ۲۱۹۶) 

اس عبارت میں علی زئی نے بھی راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ 

مولاناعمر فاروق سعیدی غیرمقلد، حدیثِ رکانہ رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتے ہیں:

’’یہ حدیث ضعیف ہے ۔‘‘

(شرح ابوداود مترجم۲؍۶۷۸)

 رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اس حدیث کے ضعیف ہونے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ اس سے مستفاد ہونے والا یہ حکم بھی غیر ثابت و غیر صحیح ہے۔ ‘‘ 

( تنویر الآفاق صفحہ :۴۱۲)

اس عبارت میں ندوی صاحب نے مذکورہ حدیث کو ضعیف الاسناد تسلیم کر لیا ہے ۔

 مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد کا اعتراف بھی پڑھتے چلیں:

’’ ابوداود میں جو احادیث ہیں، وہ بھی الگ الگ واقع ہیں، جو درج ذیل ہیں : (۱) راوی نافع ...رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاقِ البتہ دی۔(۲)روای ابن جریج ... ابو رکانہ نے ام رکانہ کو تین طلاقیں دیں ۔ ابو داود پہلی روایت کو بہتر قرار دیتے ہیں ۔لیکن ابنِ حجر عسقلانی کی تحقیق کے مطابق یہ دونوں ہی ضعیف ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلی ضعیف ہے اور دوسری ضعیف تر۔ ‘‘ 

 (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۵۵)

کیلانی صاحب کی اس عبارت میں اعتراف ہے کہ تین طلاقوں کے ایک ہونے کی بابت حدیث رکانہ ضعیف تر ہے۔ اس بات سے تو ہمارا اتفاق ہے مگر طلاق بتہ والی حدیث ابی داود ضعیف نہیں ہے ،جیسا کہ اس کی صحت پر پہلے باب ... میں بحث ہو چکی ہے۔ 

  غیرمقلدین کے ہاں شیخ العرب والعجم کا لقب پانے والے مصنف مولانابدیع الدین راشدی بعض بنی رافع کے مجہول ہونے کی وجہ سے اس روایت کو اصالۃً پیش کرنے سے کنارہ کش ہو گئے اور اسے تائیداً پیش کرنے کی طرف مجبور ہوئے۔ چنانچہ وہ مصنف عبد الرزاق سے روایت نقل کرکے لکھتے ہیں: 

’’ اس روایت میں ایک راوی بعض بنی رافع بظاہر نامعلوم ہے لیکن ...یہ حدیث شہادت اور تائید کے لیے کافی ہے۔یہ روایت ابو داود ص ۴۹۸ میں بھی ہے۔ ‘‘ 

(شرعی طلاق صفحہ۲۸)

شیخ محمد یحیٰ عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ جھنگوی اہلِ حدیث کی دلیل نمبر ۲ کے تحت سنن ابی داود سے رکانہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک ضعیف روایت کو اہلِ حدیث کا مستدل قرار یتے ہوئے لکھتا ہے ...‘‘

 ( تحفۂ احناف صفحہ ۲۴۴)

عارفی صاحب آگے لکھتے ہیں: 

  ’’ اہلِ حدیث حضرات ابوداود کی ضعیف روایت سے قطعًا استدلال نہیں کرتے بلکہ جس حدیث رکانہ سے اہلِ حدیث استدلال کرتے ہیں وہ ابوداود میں مذکورہی نہیں بلکہ مسند احمد میں ہے ۔‘‘ 

 ( تحفۂ احناف صفحہ ۲۴۵)

عارفی صاحب نے ابوداود کی حدیث رکانہ کو ضعیف قرار دے کر اس سے ہاتھ ہٹا لیا ہے ۔ باقی رہا ان کی طرف سے یہ کہنا کہ اہلِ حدیث لوگ ابوداود کی حدیث رکانہ سے استدلال نہیں کرتے غلط ہے کیوں کہ مدعیان اہلِ حدیث اس سے استدلال کیاکرتے ہیں، حافظ عبد الرحمن نے بھی اسی کا حوالہ دیا ہے مزید تفصیل کے لئے ہماری 

اسی کتاب کا ’’باب نمبر:۲۱ ،غیر مقلدین کی غلط بیانیاں‘‘ ... دیکھئے ۔

عارفی صاحب نے مسند احمد کی حدیث کو غیرمقلدین کا مستدل قراردیا ہے مگر وہ بھی ضعیف ہے اس کے ضعف پر  حوالہ جات آگے ’’ حدیثِ رکانہ مسند احمد والی کی حیثیت ‘‘ عنوان کے تحت آرہے ہیں ان شاء اللہ۔ 

قارئین کرام !آپ علامہ ابنِ حزم ،امام نووی ، اورشیخ زبیر علی زئی وغیرہم کے حوالے اوپر پڑھ چکے کہ حدیث رکانہ رضی اللہ عنہ کی سند کا راوی مجہول ہے۔اب اگلی بات جانئے کہ مجہول راوی کی روایت کا درجہ کیا ہوتا ہے ؟

  ابو یزید عبد القاہر غیرمقلدتسلیم کرتے ہیں کہ سند میں مجہول راوی کاہونا وجہ ضعف ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’حدیث دَ ابن عباس ؓکنبے صرف بعض بنی رافع مجھول الحال دے چہ دا یو علت دے ۔‘‘

( التحقیقات فی رد الھفوات صفحہ۶۴۹)

ترجمہ:حدیث ابن عباس میں صرف بعض بنی رافع مجہول ہے صرف یہی ایک ہی علت ہے۔ 

یہ حوالہ مولانا عبد الرحمن صاحب حفظہ اللہ ( پشاور ) نے مہیا کیا ہے ۔اللہ انہیں جزائے خیر عطاء کرے ، آمین۔

 غیرمقلدین کے ’’محدث العصر‘‘شیخ زبیر علی زئی لکھتے ہیں: 

’’مجہول راوی کی روایت موضوع ہونے کے لیے دیکھئے : حافظ ذہبی کی تلخیص المستدرک ۔‘‘ 

 (علمی مقالات :۴؍۳۰۷)

 علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’ یہ روایت ان مجہول راویوں کی وجہ سے موضوع ہے ۔ ‘‘ 

( توضیح الاحکام : ۲؍۳۸۳)

 اس کے ساتھ علی زئی صاحب کی درج ذیل عبارت بھی پڑھیں:

’’کذاب و وضاع کی روایت کو بطورِ حجت پیش کرکے ... علمی و تحقیقی اور فنی کمالات کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کذب بیانی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔‘‘ 

( توضیح الاحکام : ۲؍۳۷۹)

علی زئی صاحب کی دونوں عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ مجہول کی روایت موضوع (من گھڑت) ہوتی ہے اور موضوع روایت سے استدلال کرنا کذب بیانی کو فروغ دینا ہے۔اگر بات ایسے ہی ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ حافظ عبد الرحمن وغیرہ آلِ غیرمقلدیت نے مجہول کی روایت کو بطورِ حجت پیش کرکے علی زئی اصول کی رُو سے کذب بیانی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے ۔

ایک شبہ اور اس کا ازالہ 

بعض لوگوں نے بعض بنی ابی رافع کی تعیین محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع سے کی ہے ۔چنانچہ رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ مستدرک میں’’ بعض بن رافع ‘‘ کی جگہ پر محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ‘‘ کا نام لکھاہے ۔‘‘ 

 ( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۴۱۱)

 مگر یہ بھی ضعیف ہے ۔ 

امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

’’ مَعْمَرُ وَاَبُوْہُ ضَعِیْفَانِ، معمر اور اس کا باپ (محمد بن عبید اللہ )دونوں ضعیف ہیں۔ ‘‘ 

 ( سنن دارقطنی : ۱؍۸۳) 

امام ابن عدی رحمہ اللہ محمد بن عبید اللہ کی بابت فرماتے ہیں:

’ ’ وَھُوَ فِیْ عِدَادِ شِیْعَةِ الْکُوْفَةِ ۔

 (الکامل : ۶؍۱۱۴) 

ترجمہ: کوفہ کے شیعوں میں اس کا شمار ہوتاتھا۔

فائدہ: شیعہ لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے  ہیں۔اور محدثین کا اصول ہے کہ بدعتی کی جو روایت اس کے مذہب کی تائید میں ہو وہ قبول نہیں ۔ 

علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

’’ ضَعَّفُوْہُ ، محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ ‘‘ 

( الکاشف :۲؍۱۹۷، میزان الاعتدال :۳؍۶۳۵) 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محمد بن عبید اللہ کے متعلق کہا: 

’’ ضعیف ہے ۔‘‘ 

( تقریب التہذیب : ۱؍۴۹۴) 

 حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد کی رائے پہ تبصرہ 

محمد بن عبیداللہ کے مجروح وضعیف ہونے کے حوالے پڑھ لینے کے بعد حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد کی رائے بھی جان لیں۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’ اگرچہ بعض نے ضعیف کہا ہے لیکن کیا محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ضعیف ہے ؟ امام حاکم نے محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع سے مروی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس لئے ان کے نزدیک یہ راوی صحیح الحدیث ثقہ ہے ۔ امام ابن حبان کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہے ۔ محدث العصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ بھی اس روایت کو حسن قرار دیتے ہیں ملاحظہ ہو ان کی صحیح سنن ابی داود ۔پھر یہ دوسری حدیث کی تائید میں بھی قبول ہو سکتی ہے ۔‘‘

( احسن الابحاث صفحہ ۶۷)

حکیم صاحب کی عبارت میں چند باتیں ہیں جن کا تذکرہ مع تبصرہ درج ذیل ہے ۔ 

 (۱)حکیم صاحب نے ’’کیا محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ضعیف ہے ؟ ‘‘لکھ کر سوال کر دیا ۔ اپنی طرف سے دعوی 

نہیں کیا کہ یہ راوی ثقہ ہے ۔ سوال کر دینا اور خود سے ضعیف نہ کہنا کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ 

(۲)حکیم صاحب کہتے ہیں کہ امام حاکم نے محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع سے مروی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔جی مگر امام ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں جچے تلے الفاظ میں تردید کر دی چنانچہ انہوں نے لکھا:

’’ قُلْتُ مُحَمَّدٌ وَاہٍ وَالْخَبْرُ خَطَاء ٌ ، میں کہتا ہوں کہ محمد (بن عبید اللہ) ضعیف راوی ہے اور یہ حدیث خطاء ہے۔ ‘‘ (التلخیص للذھبی علی المستدرک:۲؍۴۹۱) 

مزید یہ کہ غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ امام حاکم تو کذاب راویوں کی من گھڑت روایات کو بھی صحیح کہہ دیتے ہیں۔چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’جب حاکم نے اس روایت کو ’’ صحیح علی شرط الصححین ‘‘ لکھا توحافظ ذہبی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا: ’’ لَا بَلْ مَوْضُوْعٌ ، وَالْعَبَّاسُ قَالَ الدَّارَقُطْنِیْ : کَذَّابٌ..‘‘اللہ کی قسم یہ ہرگز صحیح نہیں بلکہ موضوع (من گھڑت ) ہے اور عباس (بن ولید بن بکار ) کے بارے میں دار قطنی نے فرمایا: کذاب ہے ۔ (تلخیص المستدرک ؍؍۱۵۳ح ۴۷۲۸)‘‘ 

 ( علمی مقالات :۶؍۲۹۹، ۳۰۰) 

علی زئی صاحب نے آگے لکھا: 

’’ مستدرک کی تصنیف کے وقت وہ تغیر حفظ کا شکار ہو کر بہت شدید مجروح و کذاب راویوں کے بارے میں بھی جرحیں بھول گئے تھے اور کئی مقامات پر کذاب راویوں کی روایات کو صحیح کہہ دیا تھا۔ ‘‘ 

( علمی مقالات :۶؍۳۰۱)

علی زئی صاحب نے دوسری جگہ ایک حدیث کی تخریج میں ’’ سَنَدُ ہٗ ضَعِیْفٌ جِدًّا‘‘حکم لگایا ، پھر لکھا: 

’’حاکم نے صحیح کہا تو ذہبی نے رَد کرتے ہوئے فرمایا: بلکہ یہ سخت کمزور ہے، اس کی سند میں صالح بن حیان متروک ہے۔ صالح بن حیان کو جمہور محدثین نے مجروح قرار دیا ہے، لہذا یہ سند سخت ضعیف ہے۔ ‘‘ 

( معانقہ و مصافحہ کے احکام و مسائل صفحہ ۴۷، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: ۲۰۱۷ء ) 

ابو محمدخرم شہزاد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’امام حاکم ثقہ و صدوق ہونے کے ساتھ بہت زیادہ متساہل تھے، امام ترمذی کے تذکرہ میں گزر چکا ہے کہ امام شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی اور امام محمد بن عبد الرحمن سخاوی نے امام حاکم کو متساہل قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے امام حاکم کی تصنیف ’’ مستدرک ‘‘ میں ایک سو (۱۰۰) کے قریب موضوع (جھوٹی ) روایات کی نشان دہی کی ہے ، جن کو امام حاکم نے صحیح کہا ہے یا سکوت کیا ہے ۔ راقم کہتا ہے کہ ’’ مستدرک ‘‘ میں ان سے کہیں زیادہ من گھڑت روایات ہیں۔ امام ذہبی فرماتے ہیں : میری زبردست خواہش ہے کہ یہ (امام حاکم ) ’’مستدر ک‘‘ تصنیف نہ کرتے کیوں کہ انہوں نے اس میں بے جا تصرف کرکے اپنی فضیلت میں بہت کمی کر لی ہے ۔ امام ابن حبان کے تذکرہ میں گزر چکا ہے کہ محدث العصر علامہ البانی نے امام حاکم کو متساہل قرار دیا ہے ۔ ‘‘

 ( اصول ِ حدیث و اصول تخریج صفحہ ۲۵۲،۲۵۳، مکتبۃ التحقیق و التخریج ، اشاعتِ اول : اپریل ؍ ۲۰۱۷ء )

 خرم شہزادآگے لکھتے ہیں:

’’الغرض متساہل محدثین کی مجہول راویوں کی توثیق کرنا کچھ وقعت نہیں رکھتا ، لہٰذا جب اسماء الرجال و جرح و تعدیل کے امام احمد بن حنبل ، امام یحی بن معین ، امام المحدثین امام بخاری وغیرہم جس راوی کو نہیں جانتے تو اس راوی کے متعلق متساہل محدثین کو کیسے معرفت حاصل ہو گئی ، شاید اسی لئے امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ جس راوی کو جرح و تعدیل کے امام یحی بن معین نہیں جانتے تووہ راوی ’’مجہول ‘‘ ہی ہے ۔ والحمد للہ ۔ ‘‘

 ( اصول ِ حدیث و اصول تخریج صفحہ ۳۶۰، مکتبۃ التحقیق و التخریج ، اشاعتِ اول : اپریل ؍ ۲۰۱۷ء )

امام حاکم جب کذاب راویوں کی روایت تک کو صحیح کہہ دیتے ہیں تو انہوں نے تساہل برتتے ہوئے محمد بن عبید اللہ کی ضعیف روایت کو صحیح کہہ دیاتو اس سے وہ صحیح کیسے ہو گئی ؟

(۳)حکیم صفدر عثمانی لکھتے ہیں: 

’’ امام ابن حبان کے نزدیک بھی یہ ثقہ ہے ۔‘‘

عرض ہے کہ غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ امام ابن حبان متساہل ہے۔وہ ضعیف راوی کو بھی تساہل کی وجہ سے ثقہ راویوں میں شمار کر لیتے ہیں چند نقول ملاحظہ ہوں:

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن حبان متساہل ہیں ۔ ‘‘ 

( تحقیق الکلام صفحہ ۱؍۷۷)

مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابن حبان متساہل ہیں ۔ ‘‘ 

( خیرالکلام صفحہ ۲۵۲) 

 شیخ عبد الروؤف سندھو غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ واضح رہے کہ ابن حبان کا اس کوثقات میں ذِکر کرنا معتبر نہیں کیوں کہ وہ مجاہیل کو ثقات میں شمار کرتے ہیں۔ ‘‘

 (القول المقبول صفحہ ۳۲۵) 

مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں: 

’’ ابن حبان متساہل ہیں ۔ ‘‘ 

(توضیح الکلام صفحہ ۲؍۲۶۹)

شیخ البانی ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں: 

’’ وَاِنَّمَا وَثَّقَہٗ ابْنُ حِبَّانَ وَھُوَمَعْرُوْفٌ بِتَسَاھُلِہٖ۔ 

( سلسلۃ احادیث الضعیفۃ :۱؍۴۶۶)

ترجمہ: امام ابن حبان نے اگرچہ اس کی توثیق کی ہے ،لیکن ابن حبان اپنے تساہل میں مشہور ہے ۔ 

ایک اور راوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

حافظ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذِکر کیا ہے مگر ان کا ثقات میں ذِکر کرنا معتبر نہیں۔ 

 (حوالہ مذکورہ صفحہ ۵۲۰)

مولانا محمد رفیق اثری لکھتے ہیں:

’’ ابن حبان کی توثیق کوائمہ رجال کچھ وقعت نہیں دیتے ۔ ‘‘ 

( ہفت روزہ الاعتصام ۹؍ستمبر ۱۹۹۴ء صفحہ ۱۸)

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ ابن حبان کا تساہل مشہور ہے ، ذرا سے سہارے پر ثقوں میں شمار میں شمار کر لیتے ہیں۔ ‘‘ 

 (فتاویٰ اہلِ حدیث : ۲؍۵۰۸)

مولانا عبد المنان نور پوری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ مگر تصحیح میں ابن حبان اور ابن خزیمہ کا تساہل مشہور ہے ۔‘‘ 

( تعداد تراویح صفحہ ۳۴) 

مذکورہ بالا حوالے مولانا حافظ ظہور احمد الحسینی دام ظلہ کی کتاب ’ ’ رکعات تراویح ، ایک تحقیقی جائزہ ‘‘ صفحہ ۳۱۷، ۳۱۸ سے منقول ہیں۔

مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ البتہ ابن حبان اور حاکم اس کی توثیق کرتے ہیں مگر اول یہ کہ ابن حبان اور حاکم کا تساہل مشہور ہے ۔ ‘‘

 ( فتاویٰ راشدیہ :۱؍۲۷۵،ناشر: نعمانی کتب خانہ لاہور ، تاریخ ِاشاعت: فروری ؍۲۰۱۲ء) 

راشدی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں: 

’’ امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ جس طرح توثیق و تعدیل میں متساہل ہیں ، اسی طرح جرح وغیرہ کے سلسلہ میں کافی جگہوں پر بہت زیادہ تشدد سے کا م لیتے تھے ۔‘‘

 ( فتاویٰ راشدیہ : ۱ ؍۵۴۵،ناشر: نعمانی کتب خانہ لاہور ، تاریخ ِاشاعت: فروری ؍۲۰۱۲ء )

راشدی صاحب دوسری کتاب میں لکھتے ہیں: 

’’ ابن حبان کا اس روایت کو اپنی صحیح میں لانا، اس کا صحیح ہونا اہلِ علم کے نزدیک ہر گز حجت نہیں ہو سکتا ۔ صحیح ابن حبان کی کئی روایات پرائمہ حدیث نے کلام کیا ہے اور ان کو معلول یا ضعیف قرار دیا ہے۔پھر یہ کون سی بڑی بات ہے کہ یہ حدیث بھی ضعیف ان میں سے ہے۔ ‘‘ 

 ( مقالات راشدیہ: ۹؍۵۲، ۵۳، ناشر: المکتبة الراشدیة نیو سعید آباد سندھ ) 

جب غیرمقلدین کے نزدیک بھی ابن حبا ن متساہل ہیں تو اُن کے محمد بن عبید اللہ کو ثقات میں شمار کرنے کی کیا وقعت ہے ؟

ابو محمد خرم شہزاد غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ متساہلین کی توثیق مردود ہے ۔‘‘ 

( عید الاضحیٰ کے صحیح احکام و مسائل صفحہ ۷۹)

  حکیم صاحب امام ابن حبان اور امام حاکم کی تصحیح کو کافی سمجھ رہے ہیں مگر اُن کے غیرمقلد نے کہہ دیا یہ دونوں بلکہ ان کے ساتھ مزید متساہل محدثین بھی ہوں تو بھی ان کی تصحیح کا اعتبار نہیں ۔ 

(۴)شیخ البانی کی’’صحیح سنن ابی داود ‘‘ فی الوقت میرے پاس نہیں کہ مراجعت کی جاتی ۔ اگر انہوں نے واقعۃً اس روایت کو حسن کہا ہے تو یہ کئی وجوہ سے غیرمعتبر ہے ۔ایک اس لیے کہ غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ متقدمین کے مقابلہ میں قول ِ متاخرین کی کوئی حیثیت نہیں ۔

( نور العینین صفحہ ۱۳۷، مکتبہ اسلامیہ، سن اشاعت: اکتوبر؍۲۰۱۲ء)

 دوسرا یہ کہ البانی صاحب فریق مخالف کے فرد ہیں ۔

تیسرا یہ کہ شیخ زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ البانی حدیث کی تصحیح و تضعیف میں من مانی کیا کرتے تھے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ ابوقلابہ جو کہ مدلس نہیں تھے ان کے عنعنہ کو رَد کرنا اور ثوری جو کہ ضعفا ء سے تدلیس کرتے تھے ان کے عنعنہ کو قبول کرنا انصاف کا خون کرنے کے برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے ضرور حساب لے گا ۔ اس دن اس کی پکڑ سے کوئی نہ بچا سکے گا ۔تنبیہ: علامہ شیخ ناصرا لدین البانی رحمہ اللہ نے ایک سند کو ابو قلابہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف کہا۔ [ حاشیہ صحیح ابن خزیمہ ج ۳ص ۲۶۸ تحت ح ۲۰۴۳] قَالَ : اِسْنَادُہٗ ضَعِیْفٌ لِعَنْعَنَةِ اَبِیْ قَلَابَةَ وَھُوَ مَذْکُوْرٌ بِالتَّدْلِیْس۔‘‘ حالاں کہ ابو قلابہ کا مدلس ہونا صحیح نہیں ہے ۔ جنہوں نے کئی سو سال کے بعد اسے مدلس کہا، انہوں نے اسے طبقہ ٔ اولیٰ (جن کی روایات ان لوگوں کے نزدیک صحیح ہوتی ہیں ) میں شمار کیا ہے ۔ اس کا ضعفاء سے تدلیس کرنا بھی ثابت نہیں ہے ۔ اس کی روایات کو تو علامہ البانی نے ضعیف کہا ہے ، مگر (اصول سے رو گردانی کرتے ہوئے ) سفیان ثوری مدلس عن الضعفاء ( جو کہ بقول حاکم طبقہ ٔ ثالثہ کے مدلس ہیں ) کی معنعن روایت ترک رفع الیدین کی تعلیقات ِ مشکوة میں تصحیح کر دی ہے ۔ ‘‘ 

 ( نور العینین صفحہ ۱۳۷، مکتبہ اسلامیہ، سن اشاعت: اکتوبر؍۲۰۱۲ء)

  چوتھا :اس روایت کی سند میں محمد بن عبیداللہ ہے شیخ البانی خود ہی اس راوی کومجروح قرار دے چکے ہیں، جیساکہ آگے آر ہا ہے ان شاء اللہ ۔ 

(۵)حکیم صاحب نے ’’کیا محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ضعیف ہے ؟ ‘‘لکھا، جس سے تاثر مل رہا ہے کہ وہ خود اسے ثقہ کہنے کی ہمت نہیں کر رہے۔پھر آخر میں درج ذیل جملہ لکھ کر :’’یہ دوسری حدیث کی تائید میں بھی قبول ہو سکتی ہے ۔‘‘اس تاثر کو مضبوط کر دیا۔

حکیم صاحب اگر محمد بن عبید اللہ راوی ثقہ ہے تو اُن کی حدیث کو تائید میں پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اگر ضعیف ہے تو آپ کے اس سوال : ’’کیا محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع ضعیف ہے؟‘‘کی کیا ضرورت تھی ؟

حکیم صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ محدثین کرام کی طرح غیرمقلدین بھی محمد بن عبید اللہ کو ضعیف کہتے ہیں۔ 

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ متعدد ائمہ جرح و تعدیل نے محمد بن عبید اللہ کی تجریح کی ہے اور ابھی تک ہم کو موصوف کی متابعت کرنے والا دوسرا راوی نہیں مل سکا ہے ۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۴۱۱) 

شیخ البانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ قُلْتُ وَھٰذَا اِسْنَادٌ ضَعِیفٌ جِدًّا مَعْمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَیْدِاللّٰہِ وَاَبُوْھُ کِلَاھُمَا مَنْکَرُالْحَدِیْثِ کَمَا قَالَ الْبُخَارِیُّ۔ ‘‘

(سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة :۴؍۲۳۹) 

ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ یہ سند انتہائی ضعیف ہے کیوں کہ معمر اور اس کا باپ محمدبن عبید اللہ دونوں منکر الحدیث ہیں جیسا کہ امام بخاری کا قول ہے ۔

لطف یہ کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی محمد بن عبیداللہ اور ان کے بیٹے معمر دونوں کو ضعیف مان لیا ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’ مَعْمَرُ وَاَبُوْہُ ضَعِیْفَانِ، معر اور اس کا باپ دونوں ضعیف ہیں۔‘‘

( زاد المعاد :۱؍۱۹۸)

 دوسری وجہ:

اس کی سند میں عکرمہ مولیٰ ابن عباس ہے۔ غیرمقلدین کے ’’ محقق العصر ، شیخ الحدیث ‘‘ جناب بشیر احمد حسیم صاحب نے عکرمہ کو حدیثیں گھڑنے والا کہا ہے جیسا کہ آگے ’’حدیث رکانہ مسند احمد والی کی حیثیت‘‘ عنوان کے تحت باحوالہ مذکورہ ہوگا ۔حسیم صاحب کی نقل کردہ جرح کے مطابق حدیث ِ رکانہ من گھڑت ثابت ہوتی ہے۔ 

تیسری وجہ:

سیدنا رکانہ رضی للہ عنہ نے طلاق البتہ دی تھی ۔

 حدیث ِ رکانہ کے پہلے راوی امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ ھَذَا اَصَحُّ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ جُرَیْجٍ اِنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَأتَہٗ ثَلَاثًا لِاَنَّھُمْ اَھْلُ بَیْتِہٖ وَھُمْ اَعْلَمُ بِہٖ ۔

( ابوداود ۱؍۳۰۱)

ترجمہ: رکانہ کی یہ ( بتہ والی ) روایت ابن ِ جریج کی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیوں کہ بتہ والی حدیث ان کے گھر والے بیان کرتے 

ہیں اور وہ اس کو دوسروں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں ۔ 

امام خطابی رحمہ اللہ(وفات:۳۸۸) نے حدیث رکانہ ثلاثا والی ذِکر کرنے کے بعد لکھا: 

’’ وَقَدْ رَوٰی اَبُوْدَاوٗدَ ھٰذَا لْحَدِیْثَ بِاِسْنَادِہٖ اَجْوَدَ مِنْہُ اَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ اَلْبَتَّةَ ...قَدْ یَحْتَمِلُ اَنْ یَّکُوْنَ حَدِیْثُ ابْنِ جُرَیْجٍ اِنَّمَا رَوَاہُ االرَّاوِیُّ عَلَی الْمَعْنٰی دُوْنَ اللَّفْظِ وَذٰلِکَ اَنَّ النَّاسَ قَدِ اخْتَلَفُوْا فِیْ الَبَتَّةَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ ھِیَ ثَلَاثَةٌ وَقَالَ بَعْضُھُمْ ھِیَ وَاحِدَةٌ وَکَانَ الرَّاوِیُّ لَہٗ مِمَّنْ یَّذھَبُ مَذْھَبَ الثَّلَاثِ فَحَکٰی اَنَّہٗ قَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُھَا ثَلَاثًا یُرِیْدُ اَلْبَتَّةَ الَّتِیْ حُکْمُھَا عِنْدَہٗ حُکْمُ الثَّلَاثِ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۔‘‘ 

( معالم السنن للخطابی : ۲؍۲۸۹)

ترجمہ: اور تحقیق امام ابو داود رحمۃ  اللہ علیہ نے طلاق بتہ والی اس حدیث کو ایسی سند کے ساتھ بیان کیا جو تین طلاقوں والی حدیث کی سند سے زیادہ عمدہ ہے۔نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ابن جریج کی حدیث میں روایت باللفظ نہ ہو بلکہ روایت بالمعنی ہو کیوں کہ ممکن ہے راوی کا مذہب یہ ہو کہ البتہ سے تین طلاقیں مراد ہوتی ہیں تو اس نے لفظ البتہ کی بجائے ثَلَاثا کا لفظ ذِکر کر دیا ۔ کیوں کہ اس کے نزدیک لفظ البتہ اور ثلاث کا ایک حکم ہے ۔

  امام خطابی رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ کا اصل واقعہ طلاق بتہ کا ہے لیکن راوی نے اپنے فہم کے مطابق لفظ البتہ کی جگہ ثَلَاثا کا لفظ بول دیا ہے جس سے تین طلاق ہونے کی غلط فہمی پیدا ہو گئی پس سیدنارکانہ رضی اللہ عنہ کی حدیث البتہ ہے جب کہ ثَلَاثا والا مضمون راوی کی رائے ہے ، حدیث نہیں ۔( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۱۳) 

قاضی عیاض رحمہ اللہ( وفات:۵۴۴ھ) لکھتے ہیں:

’’ وَلَعَلَّھُمْ سَمِعُوْا اَنَّہٗ طَلَّقَھَا اَلْبَتَةَ وَھُمْ یَعْتَقِدُوْنَ اَنَّ اَلْبَتَةَ ھِیَ الثَّلَاثُ، کَرَاْیِ مَالِکٍ فِیْھَا فَعَبَّرُوْا عَنْ ذٰلِکَ بِالْمَعْنٰی وَقَالُوْا :طَلَّقَھَا ثَلَاثًا لِاعْتِقَادِھِمْ اَنَّ اَلْبَتَّةَ ھِیَ الثَّلَاثُ۔‘‘

(اکمال لمعلم : ۵؍۱۱)

  ترجمہ: ممکن ہے کہ انہوں نے طلاق بتہ کا سماع کیا لیکن ان کا عقیدہ یہ ہو لفظ البتہ کے 

ساتھ تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں جیسا کہ امام مالک کا مذہب یہی ہے، پھر انہوں نے اپنے اس مذہب کے مطابق روایت بالمعنی کی اورکہا طَلَّقَھَا ثَلَاثًا کیوں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق البتہ لفظ کے ساتھ تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ 

امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ وَاَمَّا الرِّوَایَةُ رَوَاھَا الْمُخَالِفُوْنَ اَنَّ رُکَانَةَ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَجَعَلَھَا وَاحِدَةً فَرُوَاتُہٗ ضَعِیْفَةٌ عَنْ قَوْمٍ مَجْھُوْلِیْنَ وَاِنَّمَا الصَّحِیْحُ مِنْھَا مَا قَدَّمْنَا اَنَّہٗ طَلَّقَھَا الْبَتَّةَ وَلَفْظُ’’الْبَتَّةَ‘‘مُحْتَمَلٌ لِلْوَاحِدَةِ وَالّثَّلَاثِ وَلَعَلَّ صَاحِبَ ھٰذِہِ الرِّوَایَةِ الضَّعِیْفَةِ اعْتَقَدَ اَنَّ لَفْظَ’’الْبَتَّةَ‘‘ یَقْتَضِیْ الثَّلَاثَ فَرَوَاہُ بِالْمَعْنٰی الَّذِیْ فَھِمَہٗ فِیْ ذٰلِکَ۔‘‘ 

 (شرح مسلم : ۱؍ ۴۷۸)

”بہرحال وہ روایت جسے مخالفین بیان کرتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک قرار دیا تھا تو یہ ضعیف ہے اور مجہول راویوں کی روایت ہے۔ اور حضرت رکانہ کے طلاق سے متعلق تو البتہ والی روایت ہی صحیح ہے اور لفظ البتہ ایک اور تین دونوں کا احتمال رکھتا ہے شاید کہ ضعیف روایت کے راوی نے یہ سمجھ لیا کہ ’’ البتہ ‘‘ کا مقتضی ( مراد) تین ہی ہے تو اپنی سمجھ کے اعتبار سے روایت بالمعنی کردی ۔“

امام نووی رحمہ اللہ نے روایت بالمعنی والی یہی بات اپنی کتاب ’’ المجموع ‘‘ میں لکھی ہے۔( المجموع شرح المہذب : ۱۷؍۱۲۲)

اور یہی کچھ امام ابن الملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ ( البد ر المنیر : ۸؍۱۰۵) 

ثابت ہوا کہ سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے ’’ بتہ ‘‘ لفظ سے طلاق دی تھی جسے بعض راویوں نے تین سمجھ کر ثلاثا کے لفظ سے بیان کر دیا۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ کی تین طلاق والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا: 

’’ وَھٰذَاالْاِسْنَادُ لَا تَقُوْمُ بِہِ الْحُجَّةُ مَعَ ثَمَانِیَةٍ رَوَوْاعَنِِ ابْنِ عَبَّاسٍ فُتْیَاہُ بِخِلَافِ ذٰالِکَ وَ مَعَ رِ وَایَةٍ اَوْلَادِ رُکَانَةَ اَنَّ طَلَاقَ رُکَانَةَ کَانَ وَاحِدَةً۔‘‘

 ( سنن بیہقی : ۷؍۵۵۵)

ترجمہ: اس حدیث کے ساتھ حجت قائم نہیں ہو سکتی کیوں کہ آٹھ راوی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے اس کے خلاف فتویٰ نقل کرتے ہیں۔نیز حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ کی اولاد کی روایت یہ ہے کہ رکانہ نے ایک طلاق دی تھی۔ 

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (وفات: ۴۶۳ھ) نے حدیث رکانہ ثلاثا نقل کرنے بعد لکھا: 

’’ ھٰذَا حَدِیْثٌ مُّنْکَرٌ (خَطَاءٌ) وَاِنَّمَا طَلَّقَ رُکَانَةَ زَوْجَتَہٗ اَلْبَتَّةَ لَا کَذٰلِکَ رَوَاہُ الثِّقَاتُ اَھْلُ بَیْتِ رُکَانَةَ الْعَالِمُوْنَ بِہٖ وَسَنَذُکُرُہٗ فِیْ ھٰذَا الْبَابِ۔‘‘

 ( الاستذکار :۶؍۹)

ترجمہ: یہ حدیث منکر  یعنی غلط ہے کیوں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی، رکانہ کے گھر کے ثقہ لوگ جو اِس قصہ کو بخوبی جانتے ہیں، وہ طلاق بتہ بیان کرتے ہیں ، تین طلاقیں بیان نہیں کرتے اور ہم اس کو باب میں ذِکر کریں گے ۔ 

  صاحب مستدرک امام حاکم نے طلاق بتہ والی حدیث امام شافعی رحمہ اللہ کی سند سے نقل کی۔ سند یہ ہے :

’’ محمد بن ادریس الشافعی عن عمہ محمد بن علی بن شافع عن نافع بن عجیر بن عبد یزید عن رکانہ بن عبد یزید ‘‘ 

پھر لکھا: 

’’ قَدْ صَحَّ الْحَدِیْثُ بِھٰذِہِ الرِّوَایَةِ فَاِنَّ الْاِمَامَ الشَّافِعِیَّ قَدْ اَتْقَنَہٗ وَحَفِظَہٗ عَنْ اَھْلِ بَیْتِہٖ وَالسَّائِبِ بْنُ عَبْدِ یَزِیْدَ اَبُ الشَّافِعِ بْنِ السَّائِبِ وَھُوَ اَخُ رُکَانَةَ بْنِ عَبْدِ یَزِیْدَ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِیِّ بْنِ شَافِعٍ عَمُّ الشَّافِعِیِّ شَیْخُ قُرَیْشٍ فِیْ عَصْرِہٖ۔ ‘‘

( المستدرک علی الصحیحین : ۲؍۱۹۹)

ترجمہ: طلاق بتہ والی حدیث امام شافعی کی اس سند کے ساتھ صحیح ہے کیوں کہ امام شافعی نے اس حدیث کو رکانہ کے افراد خانہ سے ضبط اور حفظ کیا ہے ۔ اور سائب بن عبد یزید ، شافع بن السائب کا باپ اور سائب، رکانہ بن عبدیزید کا بھائی ہے اور محمد بن علی بن شافع، امام شافعی کا چچا ہے جو اپنے زمانہ میں قریش کا بزرگ تھا۔ “

قاضی شوکانی غیر مقلدلکھتے ہیں:

”وَاَثْبَتُ مَا رَوٰی فِیْ قِصَّةِ رُکَانَةَ اَنَّہٗ طَلَّقَھَا اَلْبَتَّةَ لَا ثَلَاثًا۔“ (نیل الاوطار :۶؍۲۴۶) 

ترجمہ: حضرت رکانہ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی۔

 مولانا عبد الرحمن مبارک پور ی غیرمقلد حدیث رکانہ کے متعلق لکھتے ہیں :

’’ وَذَکَرَ التِّرْمِذِیُّ اَیْضًا عَنِ الْبُخَارِیِّ اَنَّہٗ مَضْطَرَبٌ فِیْہِ تَارَةً قِیْلَ فِیْہِ ثَلَاثًا وَتَارَةً قِیْلَ وَاحِدَةً وَّاصَحُّہٗ اَنَّہٗ طَلَّقَھَا اَلْبَتَّةَ وَاِنَّ الثَّلَاثَ ذُکِرَتْ فِیْہِ عَلَی الْمَعْنٰی۔‘‘

 ( تحفۃ الاحوذی : ۲؍۲۱۰، بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۱۰۳)

یعنی اور امام ترمذی نے امام بخاری سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ روایت مضطرب ہے۔ اس میں کبھی ثَلَاثًا کے الفاظ اور کبھی وَاحِدَةً کے الفاظ کہے جاتے ہیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے اس عورت کو طلاق بتہ دی تھی اور الثلث (تین )کا ذکر ( راویوں میں سے کسی کی طرف سے ) بالمعنی کر دیا گیا ہے یعنی کسی راوی نے اَلْبَتَّہ کا معنی تین خیال کرکے اس کے ساتھ ہی اس کی تعبیرکر دی ہے ۔

حافظ عبد الغفور غیرمقلد (خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث سرگودھا ) طلاق کی دوقسموں : طلاقِ بائنہ اور طلاقِ مغلظہ کی تعریف لکھنے کے بعد ’’طلاقِ بتہ ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

’’بتہ کے لفظی معنیٰ کاٹنے کے ہیں ہر وہ طلاق جس سے نکاح ٹوٹ جائے اور میاں بیوی کا تعلق ختم ہو جائے اسے طلاقِ بتہ کہتے ہیں مذکورہ دونوں اقسام پر طلاق بتہ کا بھی استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘

 (البیان المحکم صفحہ ۱۳)

  غیرمقلدین کے خطیب حافظ عبد الغفور کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ طلاق بتہ کااطلاق ایک اور تین دونوں پر ہوتا ہے ۔ 

کسی راوی نے البتہ کامعنی تین سمجھ کر روایت بالمعنی کرتے ہوئے تین طلاقیں دینا روایت کردیا یوں روایت بالمعنی کی وجہ سے حدیث کامضمون بدل گیا۔ چند صفحات پہلے ہم یہی بات امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب ’’شرح مسلم : ۱؍ ۴۷۸‘‘سے نقل کر آئے ہیں۔ 

ہم نے محدثین کے حوالے نقل کر دئیے جن میں بتایاگیا ہے کہ سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے طلاق بتہ دی تھی، نہ کہ تین طلاقیں۔ مخالف کو چاہیے کووہ اس کے برعکس محدثین کے اقوال پیش کریں کہ سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ تین طلاقیں دی تھیں، نہ کہ طلاق بتہ ۔ 

  حدیث ’’البتہ‘‘ سنن ابی داود کی حدیث ہے ہم باب دوم میں غیرمقلدین کی کتابوں : سیرت ثنائی صفحہ ۳۳۵، مقالاتِ نور پوری صفحہ ۴۰۷ سے حوالے نقل کر چکے ہیں کہ جس حدیث پر امام ابو داود سکوت اختیار کریں وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔ اس حدیث پہ امام ابوداود رحمہ اللہ نے تو تصریح فرمائی ہے کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ سیدنارکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دی تھی۔

امام غربائے اہلِ حدیث مولانا عبد الستار غیرمقلدلکھتے ہیں: 

’’ اہلِ حدیث کے نزدیک تو صحاح ستہ کی کل احادیث اپنے اپنے محل موقع پر قابل عمل و لائق تسلیم ہیں ۔ ‘‘ 

( فتاویٰ ستاریہ :۲؍۵۷دوسرا نسخہ صفحہ ۳۷) 

عبد الستار صاحب نے جن کتابوں کی سب حدیثوں کو اہل حدیث کے ہاں ’’ قابل عمل و لائق تسلیم ‘‘ کہا ہے اُن میں سنن ابی داود بھی شامل ہے ۔ 

  تنبیہ: بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ ابن جریج شیعہ ہے اور شیعہ کی وہ روایت جو اُن کے مذہب کی تائید میں ہو وہ قابلِ قبول نہیں ... اور یہ بھی یاد رہے کہ شیعہ مذہب میں تین طلاقوں کو ایک کہا جاتا ہے اور حدیث رکانہ کی سند میں ابن جریج موجود ہیں واللہ اعلم۔ 

 حدیثِ رکانہ مسند احمد والی کی حیثیت

حافظ عبد الرحمن نے حدیث رکانہ کا دوسرا مآخذ مسند احمد بتا یا ہے اب مسند احمد والی حدیث کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ۔

جواب :۱ 

 اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے۔ غیرمقلدین کے مسلَّم پیشوا قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

’’ اِبْنُ اِسْحَاقَ لَیْسَ بِحُجَّةٍ لَا سِیَمَا اِذَا عَنْعَنَ، ابن اسحاق حجت نہیں خصوصاً جب وہ عن کہہ کر روایت بیان کرے ۔‘‘ 

( نیل الاوطار ۱؍۲۳۴)

غیرمقلدین کے مجدد نواب صدیق حسن لکھتے ہیں:

’’ در سندش نیز محمد بن اسحاق است و محمد بن اسحاق حجت نیست۔ ‘‘ 

( دلیل الطالب صفحہ ۲۳۹)

ترجمہ: اس کی سند میں بھی محمد بن اسحاق ہے اور محمد بن اسحاق حجت نہیں ہے ۔ 

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ وَھُوَلَا یُحْتَجُّ بِمَاانْفَرَدَ بِہٖ ۔‘‘ 

( ابکار المنن صفحہ ۵۴)

ترجمہ:اور اس سے حجت نہیں لے جاتی جب کہ وہ منفرد ہو۔

مبارک پوری صاحب ہی لکھتے ہیں :

’’ فِیْ حِفْظِہٖ شَیْءٌ ‘ ‘ا س کے حافظہ میں کلام ہے ۔

(حوالہ مذکورہ صفحہ ۸۹)

مولانا شمس الحق عظیم آبادی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ فَاِنَّہٗ انْفَرَدَ بِہٖ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْحَاقَ وَلَیْسَ ھُوَ مَمَّنْ یُحْتَجُّ بِہٖ فِی الْاَحْکَام ِ۔‘‘

 ( عون المعبود ۱؍۲۳)

اس حدیث کو روایت کرنے میں محمد بن اسحاق منفرد ہیں اور وہ احکام سے متعلقہ روایات میں حجت نہیں ۔ 

شیخ عبد الرحمن معلمی یمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

 ’’ اِبْنُ اِسْحَاقَ مُتَکَلَّمٌ فِیْہِ وَفِیْ حِفْظِہٖ شَیْءٌ ۔‘‘ 

( التنکیل :۲؍۹۶ وھکذا فی: ۲؍۱۲۳)

ترجمہ:ابن اسحاق متکلم فیہ ہیں اور ان کے حافظہ میں خرابی ہے ۔ 

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے شیخ معلمی کے مقام کو یوں بیان کیا: 

’’موجودہ دَور کے مشہور عالم اور ذہبی ٔ عصر علامہ شیخ عبدالرحمن بن یحی المعلمی الیمانی المکی رحمہ اللہ ۔‘‘

( توضیح الاحکام :۲؍۳۲۶،ناشر:مکتبۃ الحدیث حضرو اٹک )

غیرمقلدین کے ’’امام المحدثین ‘‘ شیخ البانی لکھتے ہیں:

’’ وَمَاانْفَرَدَ بِہٖ فِیْہِ نَکَارَةٌ فَاِنَّ فِیْ حِفْظِہٖ شَیْئًا ۔‘‘

 ( اِرواء الغلیل :۲؍۴۴) 

ترجمہ: جس روایت میں وہ منفرد ہو ،اس میں نکارت ہوتی ہے کیوں کہ اس کے حافظہ میں خرابی ہے ۔ 

 مولانا محمد اعظم غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ محمد بن اسحاق ضعیف ہے قَالَ یَحْیٰ بْنُ الْقَطَّانِ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ اِسْحَاقَ کَذَّابٌ ، قَالَ مَالِکٌ دَجَّالٌ مِّنَ الدَّجَاجَلَةِ ، محمد بن اسحاق جھوٹا اور دجال ہے ۔‘‘ 

 ( تعزیہ و ماتم اور واقعہ کربلا صفحہ ۳۰) 

 حکیم فیض عالم صدیقی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ہم نے یہاں کسی ابن اسحاق جیسے مسخرے، ابن ہشام جیسے تقیہ باز اور واقدی جیسے کذاب کو گھسنے نہیں دیا۔‘‘ 

( خلافت راشدہ صفحہ ۷۷)

مذکورہ بالا ’’ خلافت ِ راشدہ ‘‘ کا حوالہ مولانا عبد الرحمن عابد ( پشاور )نے بھیجا ہے ۔ جزاہ اللہ خیرا۔

حکیم صاحب ہی لکھتے ہیں:

’’ یہ ابن اسحق وہ ذات شریف ہوئے ہیں جن کے متعلق امام مالک کہتے ہیں کہ دجال من الدجالة وہ دجالوں میں سے ایک دجال تھا ۔ سلیمان تیمی، یحی بن سعید القطان اور وہیب بن خالد اسے کذاب کہتے ہیں۔اکثر ائمہ حدیث نے اسے ناقابل حجت قرار دیا ہے ابن اسحاق مدنی تھا مگر مدینہ سے نکل کر کوفہ، جزیرہ ،رے سے گھومتا ہوا بغداد مقیم ہوگیا۔مشہور رافضی مفسر اور مؤرخ ابن جریر طبری اسی کا خوشہ چین ہے ۔ ‘‘ 

(صدیقہ ٔ کائنات صفحہ ۱۱۴)

حکیم صاحب اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

’’ محمد بن اسحاق جس کے متعلق امام مالک کا قول ہے کہ وہ ثقہ اورمعتبرنہیں ، امام بخاری نے اس سے کوئی روایت نہیں لی، علی المدائنی اسے ضعیف الروایة کہتے ہیں۔ امام ابو حاتم کے نزدیک وہ غیرمستند تھا اور نسائی اسے ضعیف کہتے ہیں ۔‘‘ 

( اختلاف ِ امت کا المیہ صفحہ ۱۶۷ طبع سوم )

حکیم فیض عالم صدیقی کی غیرمقلدیت کے لیے پروفیسر میاں محمد یوسف سجادصاحب غیرمقلد کی کتاب ’’تذکرہ علماء اہلِ حدیث پاکستان :۳؍۲۲۹تا ۲۳۱‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

اس تذکرہ میں حکیم صاحب کی مذکورہ بالا کتاب ’’ اختلاف امت کا المیہ ‘‘ کو ’’ لا جواب ‘‘ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

  ’’آپ نے مندرجہ ذیل کتب اپنی یاد گار کے طور پر چھوڑی ہیں ۔ا۔ اختلاف امت کا المیہ حصہ اول۔یہ کتاب رد تقلید کے موضوع پر لاجواب کتاب ہے۔ ‘‘ 

 ( تذکرہ علماء اہلِ حدیث پاکستان :۳؍۲۳۱)

حکیم فیض عالم صدیقی کا رَد ِتقلید پہ کتا ب لکھنا ان کے غیرمقلد ہونے کی دلیل ہے ۔ 

مولانا عبد السلام رستمی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ بل راوی محمد بن اسحاق دے او پہ ھغہ باندے ډیر اصحاب الجرح و التعدیل کلام کرے دے چہ پہ حدیث کبنں کذاب او دجال وؤ او عنعنہ ہغہ پہ اتفاق سرہ قبولہ نہ دہ او دَ دے حدیث بنکارہ دلیل دَہ ضعف بلکہ دَوضع دادے۔‘‘ 

( تفسیر احسن الکلام :۵؍۴۷۳ تحت آیت سبحان الذی اسری بعبدہ ...)

ترجمہ:دوسرا راوی محمد بن اسحاق ہے اور اس پر بہت سے اصحاب الجرح وا لتعدیل نے کلام کیا ہے کہ یہ احادیث میں کذاب و دجال ہے اس کا عن کہہ کر روایت کرنا تو بالاتفاق قابل ِ قبول نہیں۔ اس کی حدیث نکارت کی وجہ سے ضعف بلکہ موضوع ہونے کی دلیل ہے۔

 حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

 ’’ محمد بن اسحاق پر جرح محض اہلِ حدیث دشمنی میں کی جاتی ہے ۔ ‘‘

 ( احسن الابحاث صفحہ ۶۹) 

محمد بن اسحاق کے مجروح ہونے پہ اوپردئیے گئے سارے حوالے غیرمقلدین کے ہیں کیا انہوں نے بھی اہلِ حدیث کی دشمنی میں جرح کی ہے ؟ 

فائدہ : بطور فائدہ عرض ہے کہ بعض لوگوں نے دعویٰ کیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی محمد بن اسحاق پرجرح ثابت نہیں ہے جب کہ حقیقت یہ ہے خود غیرمقلد علماء نے اعتراف کیا ہے کہ محمد بن اسحاق پر امام مالک رحمہ اللہ کی جرح ثابت ہے ۔ چند حوالے حاضر ہیں ۔

مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ سبب جرح یعنی امام مالک کا باعث باہمی رنج کے محمد بن اسحاق کو بکلمہ درشت یاد کرنا معلوم ہوا ۔ ‘‘

 ( خاتمہ اختلاف صفحہ ۱۰۰) 

مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:

’’ محمد بن اسحق کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ نے دجال وغیرہ کے الفاظ کہے۔ ‘‘ 

( مقالات ِ راشدیہ :۱؍۳۴۴)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ محمد بن اسحاق کے بارے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے امام مالک وغیرہ نے انہیں کذاب کہا ہے ۔‘‘

 ( نور العینین صفحہ ۲۶۳ طبع ۲۰۰۶ء ) 

تنبیہ:محمد بن اسحاق پہ دئیے گئے کتب رجال کے حوالوں میں تطبیق دیتے ہوئے علمائے محدثین نے کہاکہ وہ مغازی میں حجت ہے اور حلال و حرام اور احکام میں حجت نہیں ہے۔ 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

’’ ابْنُ اِسْحَاقَ لَا یُحْتَجُّ بِمَا انْفَرَدَ بِہٖ مِنَ الْاَحْکَامِ۔ ‘‘

( الدرایة فی تخریج احادیث الھدایة صفحہ ۹۳،مطبوعہ ہند )

ترجمہ: ابن اسحاق کی روایت سے احکام میں احتجاج نہ کیا جائے خاص کر جب وہ روایت کرنے میں منفرد بھی ہو۔ 

علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : 

’’ وَالَّذِیْ تَقَرَّرَ عَلَیْہِ الْعَمَلُ اَنَّ ابْنَ اِسْحَاقَ اِلَیْہِ الْمَرْجِعُ فِی الْمَغَازِیِ وَالْاَیَّامِ النَّبَوِیَّةِ مَعَ اَنَّہٗ یَشَدُّ بِاَشْیَاءَ وَاَنََّہٗ لَیْسَ بِحُجَّةٍ فِی الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ ۔‘‘

 ( تذکرة الحفاظ: ۱؍۱۶۳)

  ترجمہ: عملا جو چیز پختہ طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن اسحاق کی طرف مغازی اور سیرت نبویہ میں رجوع کیا جاتا ہے لیکن اس میں بھی وہ شاذ چیزیں بیان کرتا ہے لیکن حرام و حلال میں حجت نہیں۔ 

شیخ البانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اِبْنُ اِسْحَاقَ حُجَّةٌ فِی الْمَغَازِیِ لَا فِی الْاَحْکَامِ اِذَا خَالَفَ۔‘‘

(ضعیف ابو داود :۲؍۱۶۵)

ابن اسحاق مغازی میں حجت ہے ،نہ کہ احکام میں خاص کر جب وہ (ثقات کی ) مخالفت کرے ۔

 جواب: ۲

اس حدیث کے راویوں میں محمد بن اسحاق متہم بالتشیع ہے یعنی ان پہ شیعہ ہونے کی تہمت ہے ۔ جیسا کہ درج ذیل محدثین نے بیان کیا: 

علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ وَاَمْسَکَ عَنِ الْاِحْتَجَاجِ بِرِوَایَاتِ ابْنِ اسْحَاقَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ الْعُلَمَاءِ لِاَسْبَابٍ مِّنْھَا اَنَّہٗ کَانَ یَتَشَیَّعُ ۔‘‘

( تاریخ بغداد : ۱؍۴۲۴) 

ترجمہ:محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف 

اسباب کی وجہ سے رک گئے ہیں ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔

علامہ ابن عساکر لکھتے ہیں:

’’ مُحَمَّدُ ابْنُ اِسْحَاقَ وَسَلْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ یَتَشَیَّعَانِ۔‘‘

( تاریخ ابن عساکر :۵۹؍۲۰۵)

 علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

’’ وَاَمْسَکَ عَنِ الْاِحْتَجَاجِ بِرِوَایَاتِ ابْنِ اسْحَاقَ غَیْرُ وَاحِدٍ مِّنَ الْعُلَمَاءِ لَاَشْیَاءَ مِنْھَا تَشَٰیِّعُہٗ ۔‘‘

( سیر اعلام النبلاء :۷؍۳۹)

ترجمہ: محمد بن اسحاق کی روایات کے ساتھ دلیل پکڑنے سے بہت سے علماء مختلف اسباب کی وجہ سے رک گئے ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ وہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔ 

علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : 

’’ وَلَا رَیْبَ اَنَّہٗ کَانَ یُتُّھَمُ بِاَنْوَاعٍ مِّنَ الْبِدَعِ مِنَ التَّشَیُّعِ وَالْقَدْرِ وَغَیْرِھِمَا۔‘‘ 

 (شرح علل الترمذی لابن رجب :۱؍۴۱۹) 

ترجمہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد بن اسحاق مختلف قسم کی بدعات کے ساتھ متہم تھا 

جیسے شیعہ اور قدری وغیرہ ۔

ان حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ محمد بن اسحاق تشیع بدعت سے متہم ہے اور بدعتی کی وہ روایت جو اس کے مذہب کی تائید میں ہو قابل قبول نہیں ہوتی ۔( شرح مسلم نووی صفحہ ۶، شرح نخبۃ  الفکر صفحہ ۱۱۸)

مولانا محب اللہ شاہ راشدی غیرمقلد نے شیعہ راویوں کی بابت لکھا: 

’’ ان کی بات زیادہ سے زیادہ بدعت کے زمرہ میں آتی ہے اور اصول حدیث میں مبتدعین کی روایت کو درج ذیل شرائط سے قبول کیا گیاہے ۔ ۱۔ وہ صدوق ہو ، متہم بالکذب نہ ہو، عادل ہو۔ ۲۔ وہ اپنی بدعت کی طرف داعی نہ ہو۔ ۳۔ اس کی روایت اس کی بدعت کی تائید میں نہ ہو۔

( فتاویٰ راشدیہ:۱؍۵۵۵ ،ناشر: نعمانی کتب خانہ لاہور ، تاریخ ِاشاعت: فروری ؍۲۰۱۲ء)

مولانا عبد السلام بستوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ اہلِ سنت والجماعت نے صحت ِ حدیث کے لیے دو مشہور شرطوں کے علاوہ یہ شرط رکھی کہ وہ روایت کسی بدعت کی مؤید نہ ہو۔ ‘‘ 

(انکار ِ حدیث سے انکار قرآن تک صفحہ ۲۸۴)

شیعہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہوتی ہے ۔ اس لئے مذکورہ بالا اصول کی وجہ سے یہ قابل قبول نہیں۔ 

جواب: ۳

اس کی سند میں ایک راوی داود بن حصین ہے جو اِس حدیث کو عکرمہ سے روایت کرتا ہے۔ 

علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت کہتے ہیں:

’’ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَا یَصِحُّ ابْنُ اِسْحَاقَ مَجْرُوْحٌ وَدَاوٗدُ اَشَدُّ مِنْہُ ضُعْفًا قَالَ ابْنُ حِبَّانَ حَدَّثَ عَنِ الثِقَاتِ بِمَا لَا یُشْبِہُ حَدِیْثَ الْاِثْبَاتِ فَیَجِبُ مُجَانَبَةُ رِوَایَتِہٖ ۔‘‘

 (العلل المتناھیۃ : ۲؍ ۶۴۰) 

ترجمہ: یہ حدیث صحیح نہیں کیوں کہ محمد بن اسحاق مجروح ہے اور داود اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ ثقہ راویوں کی طرف نسبت کرکے ایسی حدیث بیان کر تا ہے جو ثقہ راویوں کی حدیث کے خلاف ہوتی ہے ۔ 

علامہ زرقانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

’’ثِقَةٌ اِلَّا فِیْ عِکْرَمَةَ ۔‘‘

(شرح الزرقانی :۲؍۱۲)

ترجمہ: داود بن الحصین ثقہ ہے مگر عکرمہ سے روایت کرنے میں معتبرنہیں ہے ۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ان کے متعلق لکھتے ہیں:

’’دَاوٗدُ ابنُ الْحُصَیْنِ الْاُمُوِیُّ ...ثقة الا فِیْ عکرمة ‘‘

یعنی داود بن حصین ثقہ ہے لیکن جب وہ عکرمہ سے روایت کرے تو ثقہ نہیں۔

 (تقریب صفحہ ۱۱۶)

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ مولانا وحید الزمان نے ’’ تنقید الہدایة‘‘ میں ایسی روایات کے بارے میں جس رائے کا اظہار فرمایا ہے ،اس پر ان کا اعتماد کسی گاؤں یا محلے کے ’’حافظ صاحب‘‘ پر نہیں بلکہ حافظ الدنیا ابن حجر رحمہ اللہ پر ہے ۔‘‘

 ( احادیث ِ ہدایہ : فی و تحقیقی حیثیت صفحہ ۱۸،ادارة العلوم الاثریۃ فیصل آباد ،تاریخِ طباعت: ستمبر ؍۲۰۰۲ء )

جناب! ہم بھی زیر بحث روایت کی تضعیف گاؤں یا محلہ کے کسی حافظ کے کہنے پر نہیں بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے قول پر ذِکر کر رہے ہیں،جو غیرمقلدین کے بقول استاذ الدنیا فی علم الحدیث ہیں بلکہ یہ دعوی بھی ہے کہ وہ غیرمقلد ہیں ۔ 

چنانچہ اثری صاحب کے شاگرد مولانا خبیب اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ استاذ الدنیا فی علم الحدیث ...حافظ ابن حجر رحمہ اللہ۔ ‘‘

( مقالات اثریہ صفحہ ۴۴۲) 

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کو غیرمقلدین اپنا ہم مذہب غیرمقلد قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے لکھا: 

’’ ابن حجر رحمہ اللہ کا مقلد ہونا ثابت نہیں ، بلکہ تقریب وغیرہ کے مطالعہ سے ثابت ہوتا ہے وہ غیرمقلد تھے ۔ ‘‘ 

( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۵۴)

مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد کے بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ پر اعتماد کر لینا کافی ہے۔ عرض ہے کہ جب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ساتھ دیگرمتعدد محدثین اور کئی غیرمقلدین بھی شامل ہوں تب کس قدر زیادہ اعتماد ہو؟ 

علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو داود بن حصین کے مناکیر میں شمار کرتے ہیں۔ (میزان :۱؍۳۱۷) 

مولانا عبد الرحمن مبارک پوری غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَیْنِ اَلْاُمَوِیُّ مَوْلَاھُمْ اَبُوْ سُلَیْمَانَ الْمَدَنِیُّ ثِقَةٌ اِلَّا فِیْ عِکْرِمَةَ وَرُمِیَ بِرَایِ الْخَوَارِجِ ۔“

(تحفۃ الاحوذی ۳؍۱۷۳بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۱۰۸)

یعنی داؤد بن الحصین اگر عکرمہ کے علاوہ کسی اور سے روایت کرے تو ثقہ ہے اور اس کے بارہ میں کہا گیا ہے کہ یہ خارجیوں جیسا نظریہ رکھتا تھا ۔

مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’جس روایت مسند احمد میں مجلس واحد کا ذکر ہے وہ صحیح نہیں، اس کی سند میں بروایت عکرمہ عن عمران بن حصین ہے جسے محدثین حافظ ابن حجر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ایسی روایت خصوصاً صحیح نہیں ہوتی ،ملاحظہ ہو تقریب التہذیب۔‘‘ 

(فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۶ )

غیرمقلدین میں ’’ امام المحدثین ‘‘ کا لقب پانے والے بزرگ شیخ البانی غیرمقلد لکھتے ہیں: 

’’ دَاوٗدُ بْنُ حُصَیْنٍ وَھُوَ ضَعِیْفٌ فِیْ عِکْرِمَةَ خَاصَّةً ۔(اِرواء الغلیل :۱؍۱۱۹)

داود بن حصین خاص طور پہ عکرمہ سے روایت کرنے میں ضعیف ہے ۔

مولانا شمس الحق عظیم آباد ٰ ی غیرمقلد نے حدیث رکانہ ( احمد ) کے بارے میں لکھاکہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے ۔ ( تعلیق المغنی :۲؍۴۴۶)

لیکن مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلدنے کہا : 

’’ مگر ابن قیم کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کیوں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسناد کے حسن ہونے سے حدیث اس وقت حسن ہو سکتی ہے جب حدیث میں کوئی عیب نہ ہو اور یہاں عیب موجود ہے چنانچہ حافظ ابن ِحجر نے اس کو معلول کہا ہے خاص کر جب امام احمد کا فتویٰ بھی اس کے خلاف ہے توپھر معلولیت کا شبہ اور پختہ ہو جاتا ہے۔ ‘‘ 

( ایک مجلس کی تین طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہلِ حدیث روپڑ صفحہ ۱۶ بحوالہ عمدة الاثاث صفحہ ۱۱۰)

سعودی عرب کے ’’مفتی ‘‘ عبد العزیز بن باز نے ایک مجلس کی تین طلاق پر بحث کرتے ہوئے لکھا:

’’ باقی رہی حدیث ِ رکانہ تو وہ اس مسئلہ میں صریح نہیں ہے اس حدیث کی سند میں بھی کلام ہے کیوں کہ اسے داود بن حصین نے عکرمہ سے روایت کیا ہے اور اس روایت کو محدثین کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ تقریب، تہذیب اور دیگر کتابوں میں داود مذکور کے ترجمہ سے معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘

 ( مقالات و فتاویٰ صفحہ ۳۴۷)

 مذکورہ عبارت کودرج ذیل کتاب میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔

( فتاوی علامہ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز صفحہ ۳۱۰ ، باہتمام ڈاکٹر محمد لقمان سلفی ، الناشر: دار الداعی للنشر والتوزیع مرکز العلامہ بن باز للدراسات الاسلامیة ہند ) 

جناب شیخ بن باز کا غیرمقلدین کے ہاں کیا مقام و مرتبہ ہے، وہ ذیل کی عبارات میں ملاحظہ فرمائیں۔

حافظ محمد اسحاق زاہدغیرمقلد (کویت) لکھتے ہیں: 

’’ شیخ ابن باز رحمہ اللہ ...موصوف عالمِ اسلام کی معروف شخصیت تھے ، علم و عمل ، تقویٰ و پرہیز گاری اور بصیر ت کے پہاڑ تھے ۔ ‘‘

 ( اہلِ حدیث اور علمائے حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۴۰)

مولانا عبد الصمدرفیقی غیرمقلدنے سعودی عرب کاحال بیان کرتے ہوئے اُن کے علم و فضل کو یوں بیان کیا: 

’’ وہاں بڑے معروف و ممتاز علمائے کرام تھے۔ خصوصاً فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اور فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہمااللہ کے علم و فضل کا ہر طرف چرچا تھا ۔ ‘‘

( اشاعة الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۲۱، طبع مکتبہ اسلامیہ )

غیرمقلدین نے موصوف شیخ بن باز کو تارک تقلید اور اہلِ حدیث قرار دیا ہے ۔ چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ سعودی عرب کے قاضی القضاة ( چیف جسٹس) شیخ الاسلام عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ ، اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ ‘‘ 

( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۶)

  علی زئی صاحب نے انہیں دوسری کتاب میں ’’ تارک تقلید ‘‘ قرار دیا ہے ۔ 

(دین میں تقلید کا مسئلہ صفحہ ۴۳) 

 ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ بعض اہلِ حدیث علماء کا فتوی ہے کہ رکوع کی رکعت ہو جاتی ہے مثلاً شیخ بن باز رحمہ اللہ۔ ‘‘ 

 ( صالح اور مصلح صفحہ ۳۶۷) 

شیخ شعیب ارناؤط صاحب لکھتے ہیں: 

’ ’ قلت ورایتہ داود بن الحصین عن عکرمة فیھا شیء قال علی بن المدینی: ماروی عن عکرمة فمنکر وقال ابو داود: احادیثہ عن شیوخہ مستقیمة، و احادیثہ عن عکرمة مناکیر، وفی التقریب ثقة الا عکرمة۔ ‘‘ 

 ( تعلیق الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان :۵؍۳۰۷)

الاحسان کے مترجم نے کہا ہے کہ یہ تعلیقات شیخ شعیب ارناؤط کی ہیں ۔ ( الاحسان مترجم : ۱؍۵۴)

 جواب: ۴ 

اس حدیث کے پہلے راوی امام احمد رحمہ اللہ ہیں۔ مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد کا اقتباس پہلے منقول ہو چکا کہ امام احمد رحمہ اللہ کا فتویٰ تین طلاقوں کے تین ہونے کا ہے یعنی حدیثِ رکانہ کو روایت کرنے والے راوی کا فتویٰ خود اس حدیث کے خلاف ہے جب کہ غیرمقلدین کو اعتراف ہے کہ حدیث کا راوی روایت کردہ حدیث کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے۔ 

جواب:۵ 

  اس کی سند میں عکرمہ مولی ابنِ عباس ہے۔ مولانا بشیر احمد حسیم غیرمقلد ( رحیم یار خاں )نے عکرمہ کو 

مجروح قرار دیتے ہوئے چار صفحات میں جرح نقل کی ہے ۔ اس جرح کا کچھ حصہ یہاں نقل کیاجاتا ہے ۔حسیم   صاحب لکھتے ہیں:

’’ امام عبد اللہ بن حارث کہتے ہیں میں علی بن عبد اللہ بن عباس کے پاس گیا تو انہوں نے عکرمہ کو لیٹرین ، بیت الخلاء کے دروازے کے پاس باندھا ہوا تھا تو میں نے اسے کہا : کیا تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا؟ یعنی اسے قید کیا ہوا ہے تو اس نے کہا کہ بے شک یہ خبیث میرے باپ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ امام عبد الرحمن نے کہا کہ عکرمہ نے ایک حدیث بیان کی تو کہا میں نے ابن ِ عباس کو ایسے ایسے کہتے ہوئے سنا تو عبد الرحمن کہتے ہیں میں نے ایک غلام سے کہا کہ دوات لاؤ تو اس (عکرمہ ) نے کہا یہ حدیث تجھے اچھی لگی ہے ؟ تو میں نے کہا ہاں ،تو اس نے کہا کیا تو اسے لکھنا چاہتا ہے ؟ تو میں نے کہا: ہاں ۔ تو اس نے کہا : میں نے تو اسے اپنی رائے سے بیان کیا ہے۔ پہلے اسے ابن عباس کی طر ف منسوب کیا ، پھر فوراً اسے اپنی رائے سے بیان کرنا کہہ دیا ۔‘‘

 ( التحقیق السدید فی رد اھل التقلید المعروف مسائل ثلاثہ صفحہ ۷)

حسیم  صاحب غیرمقلد کی اس نقل کردہ جرح کے مطابق عکرمہ والی حدیث رکانہ من گھڑت ثابت ہوتی ۔ حسیم صاحب لکھتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کی طرف عکرمہ جھوٹی روایتیں مسنوب کرتا تھا اور یاد رہے کہ حدیث رکانہ بھی عکرمہ نے سیدنا ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے ۔ 

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد نے حدیث ِرکانہ کے متعلق لکھا: 

’’ جمہور علماء جو کہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے ہیں تو ان کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے ۔ ‘‘ 

(مکالمہ صفحہ ۱۶۷، ناشر: دار الفکر الاسلامی ، طبع اول : جنوری ؍۲۰۱۸ء )

ڈاکٹر صاحب نے اعتراف کرلیا کہ جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث ضعیف ہے ۔ 

خلاصۂ کلام : مذکورہ بالا جوابات کی رُو سے حدیثِ رکانہ ابوداود اور مسند احمد والی متعدد غیرمقلدین کے نزدیک من گھڑت یا کم از کم ضعیف ضرور ہے اور جو ضعیف کو صحیح کہے اس کا حکم شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔ 

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

’’ غلط روایت کو صحیح سند کہہ کر پیش کرنا بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ‘‘ 

(علمی مقالات ۱؍۵۷۹)

  تنبیہ: بعض حضرات نے حدیثِ رکانہ مسند احمد کا یہ جواب بھی دیا ہے کہ اس کا راوی محمد بن اسحاق شیعہ ہے اور شیعہ کی جو روایت ان کے مذہب کی تائید کرتی ہو وہ معتبر نہیں، شیعہ بھی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں ۔ واللہ اعلم

 جناب مسعود احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ حدیث میں ہے کہ حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک کردیا ۔ مقلدین محض ضد کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔ ‘‘

 (مجلس ِ واحد میں تین طلاقیں ایک کیوں نہیں؟۱۸) 

حدیث ِ رکانہ رضی اللہ عنہ کے ضعف پر غیرمقلدین کے حوالہ جات اوپر مذکور ہیں کیا انہوں نے بھی ضد میں آکر اس روایت کو ضعیف کہا ہے ؟نیز آگے آنے والا عنوان’’کتاب و سنت میں تین طلاق کے ایک ہونے کی کوئی دلیل نہیں‘‘ بھی ملاحظہ فرمالیا جائے ۔

’’یہ روایت نص قطعی ہے ، تاویل کو قبول نہیں کرتی ‘‘ کا دعویٰ 

مسئلہ تین طلاق پہ لکھنے والے کئی غیرمقلدین نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے حدیث رکانہ کی بابت نص قطعی اور غیرموؤل ہونے کا دعوی نقل کیا مثلاً

حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد نے حدیث رکانہ (مسند احمد )کی بابت لکھا: 

’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اس مسئلہ طلاق ِ ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تاویل نہیں ہو سکتی ۔ ‘‘ 

 (ہدایۃ القاری شرح بخاری : ۵؍۳۱۵) 

حماد صاحب نے اس جگہ حوالہ’’ فتح الباری: ۹؍۴۵۰‘‘ کا دیا ہے۔

الجواب: 

۱۔ یہاں قطعی الثبوت کی بات تو ہے ہی نہیں ۔ کیوں کہ قطعی الثبوت حدیث متواتر ہوتی ہے جب کہ یہ خبر واحد ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سمیت جمہور محدثین کے ہاں ضعیف ہے۔ رہامعنی کے اعتبار سے قطعی ہونا،وہ بھی غیرمقلدین کو مفید مطلب نہیں ۔ اول اسے لئے کہ جب یہ حدیث پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی صرف قطعی المعنی ہونے سے کیا فائدہ ؟ پہلے اسے صحیح تو ثابت کریں ،بعد میں اگلی بات۔ اپنی کتابوں میں درج جملہ’’پہلے تخت بنائیں ، پھر نقش و نگار کریں۔‘‘ یاد رکھیں ۔ 

دوسرا یہ کہ یہ روایت ضعیف ہونے کے باوجود مرجوح ہے کیوں کہ حدیث رکانہ جو صحیح سند سے مروی ہے اس میں طلاق بتہ کا تذکرہ ہے ، نہ کہ تین طلاقوں کا ۔ حاصل یہ کہ طلاق البتہ سنداً صحیح اور معناً راجح ہے جب کہ تین طلاق والی روایت سندًا غیرثابت اور معنًا مرجوح ہے، جیسا کہ پچھلے صفحات میں مذکور محدثین کے حوالہ جات اس پہ گواہ ہیں۔ جب تین طلاق والی روایت سند ًا ضعیف اور معناً مرجوح ہے تو قطعی المعنی ہونے سے کیا حاصل ہوگا؟اگر کسی کی طرف سے’’ نص قطعی‘‘ کہا جانا کافی ہے تو مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدنے ایک حدیث کی بابت تسلیم کیاکہ ’’یہ روایت تین طلاقوں کے واقع ہونے پرنص ہے ‘‘مگر پھر بھی اسے قبول نہیں کیا ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’یہ روایت تین طلاقوں کے واقع ہونے پرنص تو ہے مگر یہ روایت نہ درایۃً درست ہے ، نہ روایۃً ۔ ‘‘ 

( ایک مجلس کی تین طلاقیں اوراُن کا شرعی حل صفحہ۶۵)

اس عبارت کے پیش ِ نظر یہ کہنا بجا ہے کہ جس روایت میں تین کے ایک ہونے کی بات ہے وہ نہ روایۃً  درست ہے اور نہ ہی درایۃً۔لہذا صرف نص کہہ دینے سے کیا حاصل ؟ 

 کتاب و سنت میں تین طلاق کے ایک ہونے کی کوئی دلیل نہیں

غیرمقلدین میں ’’ محدث العصر ‘‘ کا لقب پانے و الے شیخ زبیر علی زئی کا اعلانِ حق پڑھ لیں۔

 مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے لکھا:

’’مسلم کی یہ حدیث امام حازمی و تفسیر ابن جریر و ابن ِ کثیر وغیرہ کی تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ حدیث بظاہرہ کتاب و سنت صحیحہ و اجماع صحابہ ؓ وغیرہ ائمہ محدثین کے خلاف ہے، لہٰذا حجت نہیں ہے۔‘‘ 

(فتاویٰ ثنائیہ ۲؍۲۱۹، ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور ...دوسرا نسخہ صفحہ ۴۶)

علی زئی صاحب نے امام شریح رحمہ اللہ کے فتوی ’’اکھٹی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’ قُلْتُ :وَصَحَّ بِنَحْوِ الْمَعْنٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَغِیْرِہٖ مِنَ الصَّحَابَةِ رِضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ، وَلَا یُعْرَفُ لَھُمْ مُخَالِفٌ فِیْ اِیْقَاعِ الثَّلَاثِ جَمِیْعًا فَھٰذَا اِجْمَاعٌ وَلَیْسَ فِی الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ مَا یُعَارِضُہُ ۔‘‘

( حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری :۳۷تحت حدیث : ۴۳)

ترجمہ: میں کہتا ہوں : اور اسی طرح کا مفہوم ابن عباس وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے صحیح سند سے ثابت ہے اکھٹی تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں ان کا کوئی مخالف معلوم نہیں،لہذایہ اجماعی مسئلہ ہے اور کتاب و سنت میں ایسی کوئی بات نہیں جو اس کے خلاف ہو۔ 

علی زئی صاحب کا یہ جملہ ’’ وَلَیْسَ فِی الْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ مَا یُعَارِضُہُ ‘‘واشگاف لفظوں میں اعلان ہے کہ کتاب و سنت میں تین طلاقوں کے تین ہونے کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔ 

دہلوی صاحب کی تصریح کے مطابق تین طلاقوں کو ایک کہنا نہ صرف کتاب و سنت سے ثابت نہیں بلکہ کتاب و سنت میں اس کے خلاف دلائل موجود ہیں۔ علی زئی اور دہلوی صاحبان کا یہ اعترافِ حق حافظ عبد الرحمن وغیرہ آلِ غیرمقلدیت کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ 

صحابہ کرام کو ہم نوا قرار دینے کا دعویٰ 

 حافظ عبد الرحمن: 

 حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ ، حضرت زبیر ؓ ، حضرت عبد الرحمن بن 

عوفؓ اصحابؓ رسول ؐ کا یہی فتویٰ ہے ۔ ( اعلام الموقعین ج ۳، اغاثة اللہفان ج: ۱) 

الجواب: 

حافظ عبد الرحمن نے ان صحابہ کرام کو اپنا ہم نوا قرار دینے کا دعوی تو کر دیا مگر اس کے لیے نہ تو حدیث کی امہات الکتب ماخذ کا حوالہ دیا اور نہ ہی ان کی اسناد ذکر کی ہیں ۔ اگر ان صحابہ کرام کی طرف منسوب بات صحیح سندوں سے مروی ہے تو اس کا ثبو ت پیش کریں ،ورنہ بے سند بات کی حیثیت اپنی کتابوں میں دیکھ لیں ۔ 

  نیز پچھلے صفحات میں غیرمقلد عالم مولانا شرف الدین دہلوی،شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد ،مولانا محمد حنیف ندوی غیرمقلد، پروفیسر قاضی مقبول احمدغیرمقلداور دیگر حضرات محدثین و فقہاء کے اقتباسات نقل کر آئے ہیں کہ تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماعِ صحابہ ہے ۔ 

حافظ عبد الرحمن نے اپنی رائے کی تائید میں جن صحابہ کرام کے اسمائے گرامی ذِکر کئے ہیں اُن میں سے بعض ایسے ہیں کہ خود غیرمقلدین اوران کے معتمد حضرات نے انہیں تین طلاقوں کے وقوع کا قائل بتایا ہے ، حوالہ جات ہم اپنی اسی کتاب کے باب دوم میں صحابہ کرام کے آثار کے تحت نقل کر دئیے ہیں۔ والحمد للہ۔ 

مخالف کے دعویٰ کی حقیقت 

 حافظ عبد الرحمن:

’’ جو ایک ساتھ تین طلاقیں دیتا ہے وہ ایک طلاق ہے جن پر کتاب و سنت دلالت کرتے ہیں ۔ 

(فتاویٰ ابن تیمیہ ج : ۲ص: ۸۶)‘‘

 الجواب: 

کتاب و سنت میں سے آپ نے کتاب یعنی قرآن کو تو پیش ہی نہیں کیا ۔ اور سنت جو اپنے زعم میں پیش کی ہے اس میں سے پہلی حدیث ابن عباس ( مسلم ) تو حدیثِ نبوی ہے ہی نہیں جیساکہ ہم اس پر مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد اور علامہ ابن حزم ظاہری کی گواہی نقل کر آئے ہیں۔حدیث ابن عباس ...عنوان کے تحت اسے دیکھا جا سکتا ہے ۔ 

اور دوسری حدیث ، حدیث رکانہ پیش کی ہے جسے خود متعدد غیرمقلدین کے اصولوں بلکہ تصریحات سے 

ہم ضعیف ثابت کر چکے ہیں۔والحمد للہ حدیثِ رکانہ کی بحث میں اسے پھر دیکھ لیا جائے۔

جب بات یونہی ہے تو صرف علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کہنے سے یہ مسئلہ کتاب وسنت کا قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ یہ موقف علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ضرور ہے اور یہ اُن کا تفرد ہے جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ جلددوم میں مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے اعتراف کیاہے ۔ 

نیز اگر بات حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی لینی ہے تو یاد رہے کہ ان کی پیروی غیرمقلدین کے لئے بہت سے مسائل میں مشکل پیدا کردے گی۔ مثلا وہ مطلق تقلید کو جائز بلکہ واجب کہتے ہیں بَلْ غَایَتُہٗ مَا یُقَالُ اِنَّہٗ یَسُوْغُ اَوْ یَنْبَغِیْ اَوْ یَجِبُ اَنْ یُّقَلِّدُوْا وَاحِدًا لَا بِعَیْنِہٖ مِنْ غَیْرِ تَعْیِیْنِ زَیْدٍ وَلَا عَمْروٍ ۔ ‘‘ (مجموع فتاویٰ ۲۲؍۲۴۹)

اور وہ جہری نمازوں میں متقدیوں کو قراء ة کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ (تفسیر احسن البیان صفحہ ۲)

مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانا ابو بکر غازی پوری رحمہ اللہ کا رسالہ ’’ کیا ابن تیمیہ اہلِ سنت میں سے ہیں؟‘‘ کا مطالعہ کرسکتے ہیں ۔ 

امام طحاوی رحمہ اللہ کی طرف غلط انتساب 

 حافظ عبد الرحمن:

’’امام طحاوی حنفیؒ کا فتوی کہ مرد جب اپنی (بیوی ) کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے تو ایک طلاق واقع ہوگی ۔ 

(شرح معانی الآثار ۲؍۳۵)‘‘

الجواب:

حافظ عبد الرحمن کا امام طحاوی رحمہ اللہ کی طرف یہ انتساب درست نہیں۔وہ تین طلاقوں کے ایک ہونے کے ہرگز قائل نہیں ہیں۔ وہ تو تین طلاقوں کے تین ہونے کے متعلق کہتے ہیں کہ اس پر صحابہ کرام اجماع ہے ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’ فَخَاطَبَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِذٰلِکَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَفِیْھِمْ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمُ الَّذِیْنَ قَدْ عَلِمُوْا مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذٰلِکَ فِیْ زَمْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُّنْکِرٌ وَّلَمْ یَدْفَعْہُ دَافِعٌ کَانَ ذَالِکَ اَیْضًا اِجْمَاعَھُمْ عَلی الْقَوْلِ اِجْمَاعًا یَّجِبُ بِہِ الْحُجَّةُ وَ کَمَا کَانَ اِجمَاعُھُم عَلَی النَّقْلِ بَرِیْئاً مِّنَ الْوَھْمِ الزَّلَّلَ کَانَ کَذٰلِکَ اِجْمَاعُھُمْ عَلَی الرَّأ یِ بَرِیْئًا مِّنَ الْوَھْمِ وَ الزَّلَّلَِ۔ ‘‘

ترجمہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب لوگوں سے اس بارے میں خطاب فرمایا اور ان میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ عنہم بھی تھے جو بخوبی جانتے تھے کہ اس سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس کے متعلق کیا ہوتا رہا؟ لیکن ان میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا اور نہ کسی نے حضرت عمرؓ کے اس حکم کو ٹالا تو یہ ایک بہت بڑی حجت ہے کہ اس کے خلاف جو پہلے ہوتا رہا وہ منسوخ ہے کیوں کہ جب حضور علیہ السلام کے تمام صحابہ کرام ایک عمل پر متفق ہو جائیں تو وہ لازما حجت ہے اور جس طرح نقل پر ان کا 

اجماع وہم وخطاء سے پاک ہے ،اسی طرح رائے پر بھی ان اجماع وہم و خطاء سے بری ہے ۔‘‘ 

(شرح معانی الآ ثار ۲؍۲۹)

زیر بحث مسئلہ کی بابت حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے امام طحاوی رحمہ اللہ کی انصاف پسندی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’ ثُمَّ ذَکَرَ حُجَجَ الْآخَرِیْنَ وَ الْجَوَابَ عَنْ حُجَجِ ھٰؤُلَاءِ عَلٰی عَادَةِ اَھْلِ الْعِلْمِ وَ الَّذِیْنَ فِیْ اِنْصَافِ مُخَالِفِیْھِمْ وَالْبَحْثِ۔‘‘

ترجمہ: پھر انہوں [امام طحاوی رحمہ اللہ (ناقل )]نے دوسرے حضرات کے دلائل بیان کئے ہیں اور تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کے دلائل کا جواب دیا جیسا کہ اہلِ علم اور دین دار حضرات کا شیوہ ہے کہ اپنے ساتھ مخالفت رکھنے والے سے انصاف کرتے ہیں اور بحث کرتے ہیں۔ 

 (اغاثة اللہفان ۱؍۳۲۷بحوالہ عمدة الآثاث صفحہ ۴۸)

امام طحاوی رحمہ اللہ تو تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماع صحابہ کا دعویٰ کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ مخالفین کو جواب بھی دیا ہے ۔حافظ عبد الرحمن کا ان کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کو مسنوب کرنا کس قدر خلافِ حقیقت ہے۔ 

 مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ کا موقف 

 حافظ عبد الرحمن:

’’ علامہ عبد الحی لکھنوی کا فتویٰ کہ جب ایک ساتھ تین طلاقیں دی جائی گی تو ایک طلاق واقع ہوگی ۔

( عمدة الرعایۃ ۲؍۷۱)‘‘

الجواب:

حضرت مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے عمدة الرعایۃ میں تین طلاقوں کے تین ہونے کو بیان کیا ہے ، جیسا کہ آگے آر ہا ہے ان شاء اللہ ۔ البتہ بعض غیرمقلدین عمدة الرعایۃ کی بجائے مجموعہ فتاویٰ ۱؍۴۸۴ کا حوالہ دیتے ہیں مگر ان کا یہ فتویٰ الحاقی ہے یا ان کا اس سے رجوع ثابت ہے کیوں کہ اس فتوی کے بعد انہوں نے جو فتویٰ تحریر کیا اس میں لکھا ہے :

’’ حضرت عمرؓ کا اسی امر پر اہتمام کرنا اور تینوں طلاقوں کے وقوع کا حکم دینا اگرچہ ایک جلسہ میں ہوں صحیح مسلم وغیرہ میں مروی ہے اور یہی قول موافق ظاہر قرآن سے ہے۔ باقی وہ حدیث( ابن عباس ) جو صحیح مسلم میں مروی ہے پس اُس کی تاویل جمہور محدثین و فقہاء کے نزدیک یہ ہے کہ ...‘‘

(مجموعہ فتاویٰ ۱؍۴۹۵۱)

لکھنوی صاحب نے تین طلاقوں کے تین ہونے کے فیصلہ عمری کو قرآن کے موافق قرار دے کر مخالفین کی مرکزی مزعومہ دلیل حدیث ابن عباس کا جواب دے دیا ہے اور اپنی وفات سے قریباً دو سال پہلے اور پہلے فتوے (جسے مخالفین اچھالتے ہیں ) کے بارہ سال بعد عمدة الرعایہ میں تین طلاقوں کے تین ہونے کو دلائل سے ثابت کرکے مخالفین کو جواب دیا ہے ۔ ( عمدة الرعایہ ۳؍۶۳)

صحیح بخاری ۱؍۹۶ پر مذکور ’’ انما یؤخذ بالآخر فالآخر، آخری سے آخری بات کو لیا جائے گا‘‘ قاعدہ کے موافق ان کا آخری فتویٰ تین طلاقوں کے وقوع کا قابلِ اخذ ہے اور پہلا فتویٰ الحاقی ہے یا مردود ہے ۔ لہٰذا حافظ عبد الرحمن صاحب کا لکھنوی صاحب کو اپنا ہم نواباور کرانا درست نہیں ۔ 

حافظ عبد الرحمن کے فتوی کا خلاصہ 

حافظ عبد الرحمن:

’’مذکورہ دلائل کی روشنی میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے شوہر کو بیوی سے رجوع کا حق حاصل ہے بر تقدیر صحت ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب و الیہ المرجع و المتاب ۲۲؍۶؍۲۰۱۲ء ، حافظ عبدا لرحمن خطیب مرکزی جامع مسجد اقصیٰ محبت پور بازار سٹی احمد پور، ضلع بہاول پور ‘‘

الجواب: 

آپ کے مذکورہ مزعومہ دلائل دیکھ لئے۔ لکھنوی صاحب کا حوالہ مرجوع عنہا ہے یا الحاقی ، امام طحاوی رحمہ 

اللہ کی طرف نسبت خلافِ واقعہ ہے اور صحابہ کرام کو اپنا ہم نوا توقرار دیا مگر سند سے اس کو ثابت نہیں کیا ۔ نیز لکھنوی، طحاوی اور صحابہ کرام کیا آپ کے دلائل ہیں؟ کہ آپ ’’ مذکورہ دلائل ‘‘میں انہیں شامل کر رہے ہیں ۔ آپ لوگوں کا نعرہ ہے کہ اہل حدیث کے دو اصول ، اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول جب کہ لکھنوی ، طحاوی اور صحابہ کرام امتی ہیں نہ تو اللہ ہیں کہ اطیعوا اللّٰه کا مصداق بنیں اور نہ ہی رسول کہ اطیعوا الرسول کے تحت انہیں دلیل بنایا جا سکے ۔ 

باقی رہے حدیث کے مزعومہ دلائل؟ ان کی حیثیت ہم غیرمقلدین کی زبانی خوب واضح کر چکے ہیں آپ ان کا اصول ِ حدیث کی روشنی میں معقول جواب دیں۔ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ میں ان کو نہیں مانتا۔ آپ کسی کو مانیں یا مانیں،یہ آپ کی مرضی ہے ہم اس میں دخیل نہیں ہوتے مگرآپ کے ان غیرمقلدین نے ان مزعومہ دلائل پرجو نقد و تنقید کی ہے، ان کا جواب دینا تو ضروری ہوگا۔ اور جواب کون سا معتبر ہوگا وہ آپ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی معلوم کرلیں۔ علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

  ’’ میرے اس مضمون اور کتاب کا مکمل جواب دیں، اگر وہ انہیں متن میں رکھ کر مکمل جواب نہیں دیں گے تو ان کے جواب کو باطل و کالعدم سمجھا جائے گا۔ ‘‘ 

( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۷۱)

 اللّٰھم ارنا الحق وارزقنا اتباعہ ۔ 

)جاری)


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...