مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث باب : ۱۳ غیرمقلدین کی طرف سے افراد امت سے ہم نوائی کے دعویٰ کی حقیقت
مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
باب : ۱۳
غیرمقلدین کی طرف سے
افراد امت سے ہم نوائی کے دعویٰ کی حقیقت
مسئلہ تین طلاق پہ لکھی گئی غیرمقلدین کی تحریروں اور کتابوں میں افراد اُمت میں سے متعدد حضرات کو اپنا ہم نوا باور کرایا گیا ہے۔یہاں اُن کے اس دعوے کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔
حضرت مولانامحمد سر فراز خاں صفدررحمہ اللہ کا چیلنج
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ ہم حافظ ابن القیم اور ان کے اتباع سے ان کے پیش کردہ اصول کے مطابق یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بجائے بیس نفوس کے ، دس نفوس سے اور بجائے دس نفوس کے پانچ نفوس سے باحوالہ کسی صحیح صریح اور متصل روایت سے ثابت کریں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو ایک قرار دیا ہے اور اس کے لیے قرن اسرافیل علیہ السلام تک مہلت ہے دیدہ باید۔ ‘‘
( عمدۃ الاثات صفحہ ۱۱۸)
حکیم محمد صفدر عثمانی غیرمقلداِس پہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اس میں قرن اسرافیل تک مہلت دینا ان کی فیاضی ہے کیوں کہ اس وقت تک تو موصوف دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہوں گے اورپھر ان کو کون دکھائے گا... البتہ موصوف سماع موتی کے قائل ہیں ان کے عقیدہ کے مطابق ان کو سنانا ممکن ہو سکتا ہے (انا للہ ) ویسے ایک بات ہے یہ شیخ الحدیث ہیں جن کی ساری عمر حدیث پڑھتے پڑھاتے گزر گئی ہے ۔پھر پتہ نہیں صحیح کے بعد متصل کہنے کی کیوں حاجت پیش آئی، کیا کوئی غیرمتصل بھی صحیح ہوتی ہے ؟۔ ‘‘
( احسن الابحاث صفحہ ۷۶)
الجواب:
(۱)…… حکیم صاحب خود مان چکے کہ قرن اسرافیل تک مہلت دینا ان کی فیاضی ہے۔ اس طرح فیاضی کا مظاہر ہ تب کیا جاتا ہے جب خود کو کامل یقین ہوکہ اس چیلنج کو نہیں توڑا جاسکتا ۔ حکیم صاحب بھی صحابہ کرام سے تین طلاقوں کا ایک ہونا ثابت نہیں کرسکے۔ حکیم صاحب نے اِدہر و اُدہر کی باتوں میں وقت گزار لیا مگر مرکزی و مقصود ی چیز ؍ چیلنج کا جواب نہیں دیا۔بس اتنا کر پائے کہ صحابہ کرام کے متعلق عمدۃ القاری اور عمدۃ الرعایۃ کے حوالے دے چھوڑے۔ ہم اس کے جواب میں شیخ زبیرعلی زئی غیرمقلد کی درج ذیل عبارت پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’ جس شخص کا جو قول بھی پیش کیا جائے اس کا صحیح و ثابت ہونا ضروری ہے۔ صرف یہ کافی نہیں کہ فلاں کتاب مثلا ً: تہذیب الکمال، میزا ن الاعتدال یا تہذیب التہذیب وغیرہ میں لکھا ہوا ہے، بلکہ اس کے ثبوت کے بعد ہی اسے بطور جزم پیش کرنا چاہیے۔ ‘‘
( اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۱۱۵، طبع مکتبہ اسلامیہ )
(۲)……حکیم صاحب کہتے ہیں :’’ موصوف دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہوں گے اورپھر ان کو کون دکھائے گا۔ ‘‘
عرض ہے کہ:
(ا) موصوف خود مان چکے : یہ فیاضی ہے ۔
(ب) تب جو اہل سنت موجود ہوں گے ،وہ دیکھ لیں گے ۔
(ج) غیرمقلدین بھی اس طرح کی بات لکھ دیا کرتے ہیں مثلاً مولانا محمد داود ارشد لکھتے ہیں:
’’ تجربہ کرکے دیکھئے ، قیامت تک مہلت ہے ۔‘‘
( حدیث اور اہلِ تقلید : ۲؍۶۵۹،۶۶۰... ناشر: مکتبہ اہلِ حدیث )
لہذا حکیم صاحب کو اپنا کلام:’’ موصوف دنیا کو خیر باد کہہ چکے ہوں گے اورپھر ان کو کون دکھائے گا۔ ‘‘ مولانا داود ارشد کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے ۔
(۳)…… رہا مسئلہ سماع موتی! توگزارش ہے کہ یہ کوئی بے بنیاد نظریہ نہیں بلکہ بخاری وغیرہ کی حدیثوں سے ثابت ہے۔ اور یہ نظریہ صرف علمائے اہل سنت دیوبند کا نہیں بلکہ غیرمقلدین کا بھی ہے بلکہ امام آلِ غیرمقلدیت وحیدالزمان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جو سماع موتیٰ کا منکر ہے وہ اہلِ حدیث نہیں، معتزلی ہے۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ممکن ہے مردے سلام کا جواب دیں۔ ملاحظہ ہو:
’’ تَسْمَعُ الْمَوْتٰی فِی الْقُبُوْرِ سَلَامَ الزَّائِرِیْنَ وَکَلَامَھُمْ وَیَعْرِفُوْنَ مَنْ یُّسَلِّمُ عَلَیْھِمْ وَمَنْ یَّدْعُوْا لَھُمْ وَیَسْتَأْنِسُوْنَ فِیْمَا بَیْنَھُمْ وَنَاسٌ مِّنْھُمْ یَصَلُّوْنَ وَیَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ وَیَتَزَاوَرُوْنَ وَیَتَلَافُوْنَ وَیَتَنَعَّمُوْنَ وَیَلْبَسُوْنَ وَیَاکُلْوْنَ مِنْ ثَمَارِ الْجَنَّۃِ وَیَشْرَبُوْنَ مِنْ مِیَامِھَا وَیَعْلَمُوْنَ بِاَحْوَالِ زَائِریْھِمْ وَیَرُدُّوْنَ سَلَامَھُمْ وَیَرَوْنَ اَشْخَاصَھُمْ اِلَّا اَنَّھُمْ لَا یَقْدِرُوْنَ عَلَی اَنْ یُّسْمِعُوْا اَصْوَاتَھُمْ اَوْ یُرَوْا اَشْخَاصَھُمْ لِلْاَحْیَاءِ کُلَّمَا شَآءُ وْا وَرُبَمَا یُرِیْھِمُ اللّٰہُ لِبَعْضِ الْاَحْیَاءِ وَیُسْمِھُمْ کَلَامَھُمْ ۔‘‘
(ھدیۃ المھدی من الفقہ المحمدی صفحہ ۵۹)
ترجمہ: قبروں میں مردے زیارت کرنے والوں کا سلام اور ان کا سلام سنتے ہیں اور سلام کرنے والوں کو پہچانتے ہٰیں اور ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور آپس میں مانوس ہوتے ہیں۔اُن مُردوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو جو نماز ادا کرتے ہیں اور قرآن پڑھتے ہیں ،ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں،الفت سے پیش آتے ہیں نعمتوں میں رہتے ہیں اور پہنتے ہیں ، جنت کے پھل کھاتے ہیں اور اس کا پانی پیتے ہیں ۔ اپنی زیارت کرنے والوں کے حالات جانتے ہیں اور انہیں سلام کا جواب دیتے ہیں۔ان کی شخصیت کو جانتے ہیں البتہ وہ زندوں کو اپنی آواز سنانے اور اپنی شخصیت دکھانے پر قادر نہیں ۔ بسااوقات اللہ بعض زندوں کو مُردے دکھا اور اُن کاکلام سنوا دیتا ہے ۔
علامہ وحیدالزمان کو رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے جگہ جگہ ’’امام اہلِ حدیث ‘‘ لکھا ہے ۔ ( سلفی تحقیقی جائزہ صفحہ ۹۴۵وغیرہ )
علامہ وحید الزمان کے مسلک پر غیرمقلدین کے درجنوں حوالہ جات بندہ کی کتاب ’’ زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ میں موجود ہیں ۔
علامہ صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ قَدْ خَالَفَنَا فِیْ سِمَاعِ الْمَوْتٰی الْمُعْتَزِلَۃُ ... وَبَعْضُ الْمُنْتَحِلِیْنَ مِمَّنْ سَمّٰی بِاَھْلِ الْحَدِیْثِ
نَفْسَہٗ وَلَیْسَ مِنْ اَھْلِ الْحَدِیثِ ۔‘‘
ترجمہ: سماع موتی کی بابت ہم سے معتزلہ نے اور بعض نام نہادخود کو اہلِ حدیث کہنے والوں نے اختلاف کیا ۔ حالاں کہ وہ اہلِ حدیث نہیں۔
(ھدیۃ المھدی من الفقہ المحمدی صفحہ ۶۰)
سماع موتی کے متعلق اس طرح کے مزید حوالہ جات بندہ کی کتاب ’’ فضائل اعمال کا عادلانہ دفاع ‘‘ جلد اول میں دیکھ سکتے ہیں ۔ حکیم صاحب وغیرہ آلِ غیرمقلدیت مسئلہ تین طلاق میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ سماع موتی اور حیات قبر کے متعلق اُن کی کتاب ’’ کتاب الروح ‘‘ کو پڑھ لیں، آنکھیں کھل جائیں گی ان شاء اللہ ۔
(۴)……حکیم صاحب نے حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ للہ کے متعلق لکھا :
’’یہ شیخ الحدیث ہیں جن کی ساری عمر حدیث پڑھتے پڑھاتے گزر گئی ہے۔پھر پتہ نہیں صحیح کے بعد متصل کہنے کی کیوں حاجت پیش آئی کیا کوئی غیرمتصل صحیح بھی ہوتی ہے ؟۔ ‘‘
( احسن الابحاث صفحہ ۷۶)
عرض ہے کہ صحیح کے بعد متصل کالفظ تاکید کے لیے ہے۔ہر زبان میں اس کی مثالیں مل جاتی ہیں کہ بعد والا لفظ کبھی پہلے لفظ کی تاکید ہوا کرتا ہے۔ حکیم صاحب نے حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ پر تو طنز کر دیا مگر یہ خیال نہیں کیا کہ اس طرح کی بات کئی نامی گرامی غیرمقلدین نے بھی لکھی ہوئی ہے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اس حدیث کی سند صحیح اور متصل ہے ۔ ‘‘
( مشکوۃ مترجم : ۲؍۶۹۶)
غیرمقلدین کی کتاب میں لکھا ہے :
’’ مولوی صاحب کو کوئی ایسی صریح ، صحیح ، مرفوع متصل حدیث پیش کرنی چاہیے ۔‘‘
( تذکرۃ المناظرین حصہ اول صفحہ ۴۹۰، مرتب مولانا محمد مقتدیٰ اثری عمری، اہتمام : دار البوادر لاہور، سن اشاعت: ۲۰۰۷ء )
حافظ عبد القادر روپڑی غیرمقلد نے دَوران مناظرہ بریلوی مناظر سے کہا :
’’آپ نے ایک بھی صحیح، صریح ، مرفوع، متصل غیر مجروح حدیث رسول ...پیش نہیں کی ۔‘‘
( تذکرۃ المناظرین حصہ دوم صفحہ ۴۹۰، مرتب مولانا محمد مقتدیٰ اثری عمری ، اہتمام : دار البوادر لاہور، سن اشاعت: ۲۰۰۷ء )
اس عبارت میں ’’صحیح ‘‘کے بعد’’ متصل ‘‘ہے اور ’’غیر مجروح‘‘ بھی۔ حکیم صاحب کی ذہنیت کا کوئی بندہ یہاں بھی بول اُٹھے گا کہ صحیح کے بعد متصل کیوں کہا اور پھرصحیح مان لینے کے بعد غیرمجروح لکھنے کی کیا تُک ہے!؟
عبد القادر روپڑی نے آگے کہا:
’’ کسی صحیح، مرفوع، متصل حدیث سے ثابت کر دیں ۔‘‘
( تذکرۃ المناظرین حصہ دوم صفحہ ۴۹۰، مرتب مولانا محمد مقتدیٰ اثری عمری ، اہتمام : دار البوادر لاہور، سن اشاعت: ۲۰۰۷ء )
شیخ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حدیث کا صحیح مرفوع اور متصل ہونا ضروری ہے۔ ‘‘
( تفسیری حواشی صفحہ ۳۱۱)
علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد نے یوسف صاحب کی مذکورہ عبارت اپنی کتاب ’’ عظمت حدیث صفحہ ۲۵، نعمانی کتب خانہ ، اشاعت: جنوری ؍۲۰۰۱ء ‘‘میں برضا و رغبت نقل کی ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ باسند صحیح متصل ... قطعاً ثابت نہیں ہے ۔ ‘‘
( علمی مقالات :۶؍۴۵۷،سن اشاعت: ۲۰۱۳ء ، مکتبہ اسلامیہ )
بلکہ علی زئی صاحب نے تو صحیح کے بعد متصل کا لفظ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف بھی منسوب کیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ امام شافعی نے فرمایا: اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک حدیث کی سند صحیح و
متصل ثابت ہو جائے تو یہ سنت ہے ۔ ‘‘
( علمی مقالات : ۶؍۴۴۹)
شیخ غلام مصطفی ظہیرامن پوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھذا اسناد حسن متصل ،یہ سند حسن اور متصل ہے ۔ ‘‘
( فاسئلوا اھل الذکر صفحہ ۵۲۲)
قاضی عبد الرحیم عباس الفیضی غیرمقلد نے لکھا:
’’ حدیث اپنی جگہ صحیح، صریح، مرفوع، متصل ہے۔‘‘
( صلوۃ نبوی صفحہ ۳۱۹، طبع سوم ، ناشر: مکبتہ دار الفکر الفیضیۃ للتحقیق والتالیف ہند)
شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام بیہقی کی روایت کردہ یہ حدیث بالکل صحیح و متصل ہے اس صحیح و متصل سند کے سامنے آنے کے بعد... کسی بھی اور سند کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ ‘‘
( چار دن قربانی کی مشروعیت صفحہ ۱۸، ناشر: اسلامک انفار میشن سینٹر ممبئی ، اشاعت: ۲۰۱۳ء )
سنابلی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ یہ حدیث بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے ۔ ‘‘
( چار دن قربانی کی مشروعیت صفحہ ۲۹، ناشر: اسلامک انفار میشن سینٹر ممبئی ، اشاعت: ۲۰۱۳ء )
مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی صحیح مرفوع متصل حدیث اس پر گواہ ہے۔ ‘‘
(تحفہ حنیفہ صفحہ۴۸۲ ، نعمانی کتب خانہ لاہور ، سن اشاعت: ۲۰۰۶ء )
شیخ رضاء اللہ عبد الکریم مدنی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ یہ حدیث صحیح ہے ، مرفوع ہے ، متصل ہے ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۱۷۷ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ حدیث صحیح، صریح، مرفوع متصل ہے ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۲۷۴،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’اس روایت میں سب سے ظاہر علت اس کا مرسل ہوناہے جو صحیح صریح مرفوع متصل کے مقابلے میں ہرگز حجت نہیں ہوسکتی ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۲۷۸ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’حدیث اپنی جگہ صحیح و صریح مرفوع متصل ہے ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۲۸۷،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ حدیث صحیح ہے ، صریح ہے ، مرفوع متصل ہے ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۳۲۰ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہی حدیث صحیح صریح مرفوع متصل ہے۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۳۲۰ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہاں نص صریح مرفوع متصل موجود ہے ۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۴۱۵ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ اس کی تفصیل صحیح صریح مرفوع متصل حدیث ابو حمید میں مذکور ہے۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۴۳۱ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ عنوان قائم کرتے ہیں :
’’ صحیح صریح مرفوع متصل حدیث۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۴۳۷ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
حضرت مولانا محمد سر فراز خان صفدر رحمہ اللہ نے اپنی عبارت میں صحیح کے بعد متصل کا لفظ لکھا تو حکیم صفدرعثمانی غیرمقلد نے یوں طعنہ دیا:ـ
’’یہ شیخ الحدیث ہیں جن کی ساری عمر حدیث پڑھتے پڑھاتے گزر گئی ہے۔پھر پتہ نہیں صحیح کے بعد متصل کہنے کی کیوں حاجت پیش آئی کیا کوئی غیرمتصل بھی صحیح ہوتی ہے ؟۔ ‘‘
حکیم صاحب!صحیح کے بعد متصل کا لفظ آپ کے غیرمقلدین :مولانا محمد اسماعیل سلفی،شیخ صلاح الدین یوسف ،علامہ عبد الرشید عراقی ،حافظ عبد القادر روپڑی،شیخ غلام مصطفی ظہیر،قاضی عبد الرحیم عباس الفیضی،شیخ زبیر علی زئی ،شیخ کفایت اللہ سنابلی، مولانا داود ارشد اورشیخ رضاء اللہ عبد الکریم نے بھی لکھا ہے تو کیا ان کی بابت کہو گے کہ انہیں اتنا علم بھی نہ تھا کہ صحیح کے بعد متصل لفظ لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بالفاظ دیگر جس قدر علم ایک حکیم کو ہے اس قدر ان علمائے غیرمقلدیت کو نہیں !!؟
شیخ زبیر علی زئی کی تصریح کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ نے صحیح کے بعد متصل اور شیخ غلام مصطفی ظہیر کے کی تصریح کے مطابق امام دارقطنی رحمہ اللہ نے حسن کے بعد متصل کا لفظ ارشاد فرمایا تو حکیم صاحب ان کی بابت بھی طعن آمیز جملہ دہرائیں گے کہ ان کی ساری عمر حدیث پڑھتے پڑھاتے گزر گئی مگر انہیں یہ نہیں پتہ چل سکا کہ صحیح اور حسن کے بعد متصل کہنا غیر ضروری ہے ؟
خرم شہزاد محمدی غیرمقلد کی کتاب میں ’’ مکتبۃ التحقیق و التخریج کا پختہ عزم عنوان ‘‘ کے تحت مذکورہے :
’ ’(۳) قرآن وسنت (حدیث ) ، صحیح ، حسن ، صریح متصل مرفوع ، غیرمجروح ، احادیث سے استدلال اور ضعیف اور مردود روایات سے مکمل اجتناب کیا جائے۔(۴)متصل مرفوع ، صحیح حدیث کے مقابلے میں موقوف روایت حجت نہیں ۔ ‘‘
( اصول ِ حدیث و اصول ِ تخریج صفحہ۴ ،مکتبۃ التحقیق و التخریج،اشاعتِ اول : اپریل ؍۲۰۱۷ء )
اس عبارت میں نہ صرف صحیح کے بعد متصل ہے بلکہ صحیح کے بعد غیرمجروح کا اضافہ بھی ہے ۔ شاید حکیم
صاحب جیسا کوئی مہربان یہاں بھی اعتراض کردے کہ صحیح کے بعد متصل لکھنے کی کیا ضرورت تھی ، پھر صحیح لکھ دینے کے بعد غیرمجروح کی وضاحت کس لئے کی گئی ؟
حکیم صاحب! چند مزید حوالے ملاحظہ کریں۔
شیخ رضاء اللہ عبد الکریم مدنی غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ اس پر لاتعداد احادیث صریح صحیح مرفوع متصل موجود ہیں۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۳۰۳ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
شیخ رضاء اللہ لکھتے ہیں :
’’ یہ روایت ضعیف و منکر ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح مرفوع متصل روایات کے مخالف ہے، اس لئے لائق استدلال نہیں۔ ‘‘
( حقیقت پسندانہ جائزہ صفحہ۳۱۱ ،ناشر: مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، اشاعت دوم : جنوری؍ ۲۰۱۲ء)
مفتی محمد عبید اللہ خان عفیف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ احادیث ِ صحیحہ مرفوعہ متصلہ غیرمعللہ و لا شاذہ ملاحظہ فرمائیے ۔‘‘
( فتاوی محمدیہ صفحہ۷۸۷، ترتیب: ابو الحسن مبشراحمد ربانی ، مکتبہ قدوسیہ لاہور ، سن اشاعت: ۲۰۱۰ء )
عفیف صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ احادیث ِ صحیحہ مرفوعہ متصلہ قویہ معتبرہ ملاحظہ فرمائیے ۔‘‘
( فتاوی محمدیہ صفحہ۷۸۹)
عفیف صاحب نے مزید لکھا:
’’حدیث کی نصوص ِ صریحہ صحیحہ مرفوعہ متصلہ کے پیش نظر یہی صحیح ہے کہ ...‘‘
( فتاوی محمدیہ صفحہ۸۰۸ )
فتاوی محمدیہ کے سرورق پہ عفیف صاحب کو ’’حضرت العلام ‘‘ لکھاہوا ہے ۔
حضرت مولانا صفدر حمہ اللہ اور شیخ رضاء اللہ مدنی و عفیف صاحب کی عبارت میں واضح فرق ہیں ، وہ یہ کہ حضرت صفدر رحمہ اللہ نے لکھا:
’’صحیح صریح اور متصل روایت‘‘
جب کہ شیخ رضاء اللہ مدنی نے لکھا:
’’ لاتعداد احادیث صریح صحیح مرفوع متصل ‘‘
اسی طرح عفیف صاحب نے کہا:
’’احادیث ِ صحیحہ ...نصوص ِ صریحہ ...‘‘
’’متصلہ قویہ معتبرہ‘‘ ۔
حاصل یہ ہے کہ حضرت مولانا صفدر رحمہ اللہ کی عبارت میں واحد لفظ ’’ روایت ‘‘ہے جب کہ شیخ رضاء اللہ نے لا تعداد احادیث صحیحہ کی بابت متصل کا لفظ لکھا ۔ اسی طرح عفیف صاحب کی تحریر میں بھی جمع کے الفاظ ’’احادیث اور نصوص‘‘ہیں۔حضرت صفدر صاحب رحمہ اللہ نے متصل کے بعد قوی اور معتبر نہیں لکھا ،جب کہ عفیف صاحب نے متصلہ کے بعد قویہ بھی کہا اور معتبرہ بھی ۔ مزید یہ کہ حکیم صاحب کی نقل کے مطابق حضرت صفدر رحمہ اللہ نے ایک بار صحیح کے بعدمتصل کہا جب کہ عفیف صاحب نے تین بار صحیحہ کے بعد متصلہ کہا اور رضاء اللہ صاحب نے بھی کئی بار صحیح کے بعد متصل لفط لکھا۔ اتنے فروق کے باجوود مفتی عبید اللہ صاحب ’’ عفیف‘‘ کہلائے جائیں اورشیخ رضاء اللہ ’’مدنی ‘‘ لاحقہ کے ساتھ متعارف ہوں اور ان کے مقابلہ میں حضرت صفدر صاحب موردِ الزام ٹھہرائے جائیں تو یہ کیسا انصاف ہوگا!!؟ تلک اذا قسمۃ ضیزی ۔
چیلنج کے متعلق کچھ وضاحت
چیلنج کی بابت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی عبارت پہلے گذر چکی۔ اس کے متصل بعد والی عبارت درج ذیل ہے۔ حضرت رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’رہا یہ امر کہ حضرت ابن عباس کے دونوں قول صحیح ہیں۔ یہ بھی حافظ ابن القیم کا مغالطہ ہے کیوں کہ حضرت ابن عباس کا صرف ایک ہی قول صحیح ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں ۔ ہاں دوسرا قول ان کا یوں صحیح ہے کہ غیر مدخول بہا کی متفرق طور پر دی گئی تین طلاقیں ایک ہوتی ہے جیسا کہ امام بیہقی وغیرہ کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ مدخول بہا کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا کوئی قول ان کا صحیح سند سے ثابت نہیں من ادعی خلافہ فعلیہ البیان بالبرھان۔ اسی طرح حضرت ابن مسعود کا صحیح قول اور صحیح روایت تین طلاقوں کے تین ہونے پر ہی دال ہے۔ توقف کی روایت کسی صحیح اور متصل سند سے ثابت نہیں ہے، طبع آزمائی شرط ہے اور پہلے خود حافظ ابن القیم کے حوالہ سے یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ بلاشک حضرت ابن مسعود وغیرہ سے تین طلاقوں کا تین ہونا ہی ثابت ہو چکا ہے اگر اس کے خلاف بھی ان سے کچھ ثابت ہے تو فَقَدْ صَحَّ بِلَا شَکٍّ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ الخ کی روایت بلاشک کیسے صحیح ہو سکتی ہے؟ کیا حافظ ابن القیم کے نزدیک حلال و حرام جیسے اہم مسئلہ میں دو متضاد حکم اور روایتیں بھی صحیح ہو سکتی ہے ؟ یہ حافظ ابن القیم کا نرا وہم اور مغالطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ سوء فہم سے بچائے۔ ‘‘
( عمدۃ الاثات صفحہ ۱۱۹)
غیرمقلدین افراد امت کی ہم نوائی حاصل کرنے کے لیے کچھ شخصیات کا نام لیتے ہیں کہ وہ تین طلاقوں کو ایک مانتے تھے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ان شخصیات سے تین کو ایک کہنا صحیح سند سے ثابت نہیں۔ اگر ان میں سے کسی سے صحیح سند سے ثبوت ملتا ہے تو وہ غیرمدخولہ کو الگ الگ لفظ سے دی گئی تین طلاق کو ایک ماننے کی بات ہے۔ اس کے تو سب قائل ہیں ۔ الگ الگ الفاظ سے دی جانے والی طلاق کو رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کا نام دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ بیک وقت طلاقِ ثلاثہ دینے کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ بیک وقت زبان سے کہہ دے کہ: طَلَّقْتُکِ ثَلَاثًا یا طَلَّقْتُکِ ثَلَاثَ تَطْلِیْقَاتٍ یا ان کے ہم معنیٰ الفاظ جس کا مطلب یہ ہو کہ میں نے تین طلاقیں دیں۔دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ تین متفرق کلمات میں یکے بعد دیگرے تینوں طلاقیں دے مثلاً کہے : اَنْتِ طَالِقٌ، اَنْتِ طَالِقٌ، اَنْتِ طَالِقٌ یا ان کے ہم معنیٰ الفاظ ۔ظاہر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں ہر صورت ِ طلاق کو ایک وقت کی طلاقِ ثلاثہ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۸۲)
بہرحال ہم اَب غیرمقلدین کے ان حوالوں کاجائزہ لیتے ہیں جن میں اَفراد ِاُمت کو اپنا ہم مسلک قرار دیا ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’خود حضرت عمر فاروق نے ... یہ حکم جاری کیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوتی ہیں۔ ‘ ‘
( ضمیر کا بحران صفحہ۱۶۷، ناشر: ادارۃ البحوث الاسلامیۃ ، جامعہ سلفیہ بنارس ، اشاعت: جنوری ؍ ۱۹۹۷ء )
الجواب:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقوں کے ایک ہونے کا حکم جاری کرنا تو کجا اُن سے تو یہ بھی ثابت نہیں کہ وہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے ہوں، بلکہ اس کے برعکس یہ ثابت ہے کہ انہوں نے تین طلاقوں کے تین ہونے کو نافذ کیا ۔جیسا کہ آ ثار صحابہ کرام والے باب میں ہم نے خود غیرمقلدین کے اعترافی حوالہ جات نقل کر دئیے ہیں۔ندوی صاحب کو یہ بھی اقرار ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے نفاذ والے موقف سے رجوع نہیں کیا جیسا کہ آگے’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف ایک اور بات منسوب‘‘عنوان کے تحت باحوالہ آرہا ہے ان شاء اللہ ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف ایک اور بات منسوب
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’خلیفہ راشد عمر فاروق نے پوری صراحت کے ساتھ کہاہے کہ : قرآن مجید میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہیں۔ ‘ ‘
( ضمیر کا بحران صفحہ۱۶۷، ناشر: ادارۃ البحوث الاسلامیۃ ، جامعہ سلفیہ بنارس ، اشاعت: جنوری ؍ ۱۹۹۷ء )
الجواب:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہرگز موقف نہیں کہ ’’ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک رجعی طلاق ہوتی ہیں۔‘‘ ندوی صاحب نے ان کی طرف غلط نسبت کر دی ہے۔ ندوی صاحب کا مذکورہ دعویٰ ثابت نہیں۔یہاں ندوی صاحب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے کہ وہ تین طلاقوں کے ایک ہونے کا اقرار کرتے تھے جب کہ دوسری جگہ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ ’’ ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔‘‘
کی بابت لکھا:
’’ بعد میں اس کے نفاذ پر نادم بھی تھے بلکہ یہی یقین ہے کہ اگر موصوف کچھ دنوں اور زندہ رہے ہوتے تو ... اس فتوی سے اسی طرح رجوع کر لیتے جس طرح نصوص کتاب و سنت کے خلاف اپنے دوسرے فتوی سے رجوع کر چکے تھے ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۵۰۸)
غیرمقلدین عموماً کہا کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے نفاذ والے فیصلہ سے رجوع کر لیا تھا ندوی صاحب کی مذکورہ عبارت میں اعتراف ہے کہ انہوں نے رجوع نہیں کیا۔
سیدنا ابن عباس کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت
مسئلہ تین طلاق پر لکھنے والے متعدد غیرمقلدین نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہاکے متعلق دعوی کیا کہ وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک کہتے تھے ۔
مثلا ً مولانا عبد المتین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قال ابو داود روی حماد بن زید عن ایوب عن عکرمۃ عن ابن عباس اِذَا قَالَ اَنْتِ طَالِق ثَلاَثًا بِفَمٍ وَاحِدٍ فَھِیَ وَاحِدَۃٌ ۔( سنن ابو داود جلد ا ص ۳۰۶ ، کتاب الطلاق ) ترجمہ: امام ابو داود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حماد بن زید نے ایوب سے روایت کیا ، انہوں نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے ایک ہی وقت میں کہے کہ ’’تجھے تین طلاق دیتا ہوں ‘‘ تو وہ ایک ہی ہے ۔‘‘
( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۴، مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہ مولانا عبد اللطیف اثری ،سن اشاعت: جون ؍۲۰۱۳ء )
الجواب:
علمائے غیرمقلدین نے اعتراف کیاہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔پھر ضعیف ہونے کے ساتھ موؤل بھی ہے۔مزید یہ کہ یہ ضعیف و موؤل روایت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سندوں سے مروی حدیث کے خلاف بھی ہے ۔
چنانچہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے کہا:
’’ وَحَدِیْثُ اَبِیْ دَاوٗدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَیْدٍ لَمْ اَجِدْہُ مَوْصُوْلًا وَّھٰذَا لِغَیْرِ الْمَدْخُوْلَۃِ اِنْ صَحَّ ۔‘‘
( تخریج ابوداود باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث حدیث : ۲۱۹۷)
ترجمہ: ابو داود کی حدیث جو حماد بن زید کے طریق سے ہے میں اسے موصولاً نہیں پا سکا اور یہ اگر صحیح ہوئی تو غیرمدخولہ کے بارے میں ہوگی ۔
علی زئی صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ یہ روایت موصول نہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ منقطع ہے اور انہوں نے یہ بھی لکھا:
’’ اہلِ حدیث کے نزدیک منقطع روایت ضعیف و مردود ہوتی ہے۔ ‘‘
( علمی مقالات :۵؍۴۶۶، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: ۲۰۱۲ء)
یوں بھی حکم سنایا :
’’ ضعیف و منقطع روایات کو وہی شخص پیش کرتا ہے جو خود ضعیف و منقطع ہوتا ہے ۔‘‘
( اوکاڑوی کاتعاقب صفحہ ۸۲، طبع جدید صفحہ ۹۴، تعداد رکعات ِقیام رمضان کا تحقیقی جائزہ صفحہ ۲۶)
یہی عبارت ’’ علمی مقالات :۶؍۴۵۷، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: ۲۰۱۳ء‘‘ پہ بھی ہے ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مذکورہ بالا اَثر علی زئی صاحب کے ہاں منقطع ہے اور جو منقطع روایت پیش کرے وہ ان کے نزدیک ضعیف و منقطع ہوتا ہے ۔اور مولانا عبد المتین میمن نے یہ منقطع روایت پیش کی ہے، تو وہ کیا ہوئے ؟
ہم یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا اَثر کا وہ مطلب نہیں جو میمن صاحب مراد لے رہے ہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔
غیرمقلدین کے ’’ مجتہد العصر ‘‘ مولانا عبد اللہ روپڑی کہتے ہیں :
’’مگر ابوداود (ملاحظہ ہو جلدا صفحہ ۲۹۹) اس کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اس کو عکرمہ ؒکا قول قرار دیتے ہیں ، اس کے علاوہ اس کی یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس روایت میں’’ ثَلاَثًا‘‘ اَنْتِ طَالِقٌ کے ساتھ نہ لگایا جائے بلکہ قَال َکے ساتھ لگایاجائے یعنی ( قَالَ ثَلَاثًا اَنْتِ طَالِق )اَنْتِ طَالِقٌ تین دفعہ کہے تو غیر موطؤہ کے بارے میں یہ تین ایک ہوگی اور بِفَمٍ وَاحِدٍ کے معنی اس صورت میں یہ ہوں گے کہ انت طالق تین دفعہ لگا تار کہے ، درمیان میں فاصلہ نہ کرے اور فائدہ اس قید کا اَنْتِ طَالِق ثلاثا سے احتراز ہے کیوں کہ اَنْتِ طَالِق ثَلاَثًا میں غیرموطؤہ پر بھی تین پڑتی ہیں ۔ ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہلِ حدیث روپڑ صفحہ ۶بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۹۵)
قاضی شوکانی نے کہا تھا کہا اَنْتِ طَالِق ٌ ثَلَاثًا میں اَنْتِ طَالِق ٌ سے غیر موطؤہ کو طلاق ہو جائے گی اور ثَلَاثًا کی قید لغو ہو جائے گی ، مگر مولانا محمد عبد اللہ روپڑی ( غیرمقلد )ان کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ابو داود کی حدیث کا مطلب یہ ٹھیک نہیں بلکہ ابوداود کی حدیث کا مطلب یہ بیان کرنا چاہیے کہ جب اَنْتِ طَالِقٌ، اَنْتِ طَالِقٌ، اَنْتِ طَالِقٌ تین دفعہ الگ الگ کہے تو غیر موطؤہ کی بابت تین ایک ہی ہوتی ہے کیوں کہ غیر موطؤہ پہلی دفعہ انت طالق کہنے سے جدا ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اَنْتِ طَالِق ٌکہنابیکار ہے اور ابن عباس کا فتوی جو منتقی اور ابوداود (وغیرہ ) سے نقل کیا ہے ( کہ غیرموطؤہ پر تین واقع ہوں گی )اَنْتِ طَالِق ٌپر محمول ہے یعنی جب جدا جدا اَنْتِ طَالِقٌ نہ کہے بلکہ ایک ہی دفعہ اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا کہہ دے تو اسی وقت خواہ غیرموطؤہ ہو اس پر تین ہی واقع ہوں گی۔ پس اس صورت میں نسائی کا باب میں متفرق کی قید لگانا بالکل درست ہوگا۔ ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں ضمیمہ تنظیم اہلِ حدیث روپڑ صفحہ ۶ بحوالہ عمدۃ الآثاث صفحہ ۹۵)
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد (ناظم جمعیت اہلِ حدیث بمبئی) لکھتے ہیں:
’’غیرمدخول بہا کے بارے میں امام طاؤس قسم کھا کر کہتے ہیں: یعنی بخدا عبد اللہ بن عباس ؓ غیر مدخول بہاکی تین طلاقوں کو ایک ہی قرار دیتے تھے۔‘‘
( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۹۱ ، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
مزید آگے آنے والا عنوان ’’سیدناعلی،ابن مسعود، ابن عباس، زبیر اور عبد الرحمن کی طرف نسبت‘‘بھی دیکھئے ۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارااور مسلکی پاس داری میں سینہ زوری
مولانا عبد المتین میمن غیرمقلدنے اپنی بات کو مضبوط باور کرانے کے لیے سنن ابی داود سے سیدنا عبد اللہ
بن عباس رضی اللہ عنہا کا ایک اَثر پیش کیا ۔ جس کے متعلق اوپر خودغیرمقلدین کے حوالہ جات منقول ہو چکے کہ وہ اَثر ضعیف، موؤل اور ان سے مروی صحیح روایت کے خلاف ہے۔ مگر میمن صاحب اس ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہیں بلکہ یہ بھی لکھ دیا:
’’ امام ابن قیم حضرت ابن عباس ؓ کے اس فتوے کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ وَحَسْبُکَ بِھٰذا لسَّنَدِ صِحَّۃً وَّ جَلَالَۃ ً۔( اغاثۃ اللہفان جلد ۱ ص ۲۸۶ مطبوعہ مصر ) یہ سند صحت اور جلالت شان کے اعتبار سے تمہارے لئے کافی ہے ۔‘‘
( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۴، مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہ مولانا عبد اللطیف اثری ،سن اشاعت: جون ؍۲۰۱۳ء )
حالاں کہ یہ اثر غایت ِصحت تو کجا حسن درجہ کا بھی نہیں بلکہ منقطع و ضعیف ہے ۔لیکن اس کے بالمقابل سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح و ثابت اَثر ہے کہ انہوں نے تین کے تین ہونے کا فتوی دیا مگر میمن صاحب نے اس سے استدلال کو ’’ ڈوبتے کا تنکا کا سہارا ‘‘ کہہ چھوڑا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے کہ ایک شخص نے سوطلاقیں دیں تو حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ تین سے تیری بیوی جدا ہوگئی اور ستانوے طلاق سے تو نے اللہ کی آیات کا مذا ق اُڑایا ۔ معترض نے اس حدیث کو تین طلاق ایک مجلس میں دینے اور تینوں کے پڑ جانے پر استدلال کیا ہے ۔ میرے بھائی اسی کو کہتے ہیں ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘‘ اس حدیث سے مطلب حاصل نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس میں طلاق دینے کی کیفیت مبہم ہے۔ اس نے طلاق الگ الگ دی یا ایک ساتھ ، سوگن کر دی ہیں یا کثرت طلاق کی طرف اشارہ کیا ہے ... ویسے بھی یہ حدیث صحت کے اعلی معیار پر نہیں ہے ۔ ‘‘
( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۷،۱۵۸ مکتبہ الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہمولانا عبد اللطیف اثری ،سن اشاعت: جون ؍۲۰۱۳ء )
میمن صاحب کا اعتراض ہی ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘‘ مصداق ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس اثر میں ایک مجلس کی صراحت نہیں ۔ عرض ہے کہ اس اثر میں ’’ تو نے اللہ کی آیات کا مذا ق اُڑایا‘‘ الفاظ ہیں ۔ اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق اُڑانا تو تب ہوسکتا ہے جب ایک مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں۔میمن صاحب کی یہ تاویل ’’کثرت طلاق کی طرف اشارہ کیا ‘‘ بھی انہیں مفید نہیں۔ اس لئے کہ اگر مان بھی لیا جائے کہ کثرت مراد ہے تو بھی کثیر میں تین طلاقیں یقینا شامل ہیں، طلاقوں کی وہ کثرت کیسی ہے جس کے تین افراد بھی نہ ہوں؟
میمن صاحب نے کہا:
’’ یہ حدیث صحت کے اعلی معیار پر نہیں ہے ۔ ‘‘
عرض ہے کہ یہ روایت صحیح تو ہے اگرچہ ان کے نزدیک اعلی معیار پر نہ ہو۔ حاصل یہ کہ وہ اس روایت کو ضعیف کہنے کی ہمت نہیں کر پائے۔
مولانا داود ارشد غیرمقلد نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مسلم درج کی۔پھر بریلوی مصنف مفتی احمد یار گجراتی کے متعلق لکھا:
’’حضرت مفتی صاحب نے بھی اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے کیوں کہ انہوں نے اپناپورا زور حدیث مذکور کی تاویل میں صرف کیا ہے۔اگر صحت حدیث میں انہیں رتی بھر گنجائش نظر آتی تو حضرت حکیم صاحب اپنی مخصوص حکمت کو جوش میں لا کر کوئی نہ کوئی حواس باختہ جرح ضرور کرتے ۔‘‘
(دین الحق :۲؍۶۵۷،۶۵۸، مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخ اشاعت:دسمبر ۲۰۰۱ء)
داود صاحب کی یہ عبارت مولانا عبد المتین میمن غیرمقلد پہ سچی آرہی ہے کہ وہ بھی سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اثر پہ ضعف کی چھاپ نہیں لگا سکے تواسے بے جا تاویلوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اگر اس روایت پر ذرا بھی جرح ہو سکتی ہوتی تو وہ جرح کرنے سے نہ چوکتے ۔
تنبیہ: داود ارشد صاحب نے مذکورہ عبارت سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث مسلم کی بابت لکھی۔ اس حدیث کو غیرمقلدین کے بیہقی وقت مولانا شرف الدین دہلوی نے ضعیف بھی کہا اور کئی تاویلیں بھی کیں۔ دیکھئے فتاوی ثنائیہ : ۲ ؍۲۱۷تا ۲۱۹۔ ہم نے ان کی مفصل عبارت اپنی اسی کتاب کے ’’باب : ۱۲، غیرمقلدین کے مزعومہ دلائل کا جائزہ ‘‘ میں نقل کردی ہے۔
داود صاحب کے بقول بریلوی مفتی نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا،صرف تاویلیں کی ہیں۔جب کہ
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد نے اسے ضعیف بھی کہا اور تاویلیں بھی کیں ۔
مزید یہ کہ بریلوی مفتی کی کتاب فی الوقت ہمارے سامنے نہیں، البتہ داود صاحب نے ان کی کتاب سے اس حدیث کے متعلق جو تاویلیں نقل کیں ،وہ چار ہیں۔جب کہ دہلوی صاحب نے اس حدیث سے استدلال کو باطل قرار دیتے ہوئے ایک درجن جوابات دیئے ہیں۔ اس لئے داود صاحب کی مذکورہ بالاطعن امیز عبارت کے بریلوی مفتی سے زیادہ اور بڑے مصداق غیرمقلدین کے ’’بیہقی وقت‘‘ مولانا شرف الدین دہلوی ہیں۔
یہاں یہ کہنا ان شاء اللہ بجا ہوگا کہ اگرچہ ان تاویلوں یا ان میں سے اکثر کو شارحین ِ حدیث نے اپنی اپنی کتابوں میں متفرق طور پہ ذِکرکیا ہے،لیکن میری معلومات کے مطابق انہیں اُردو زبان میں سب سے پہلے یکجا جمع کرنے کا کارنامہ مولانا شرف الدین دہلوی نے سر انجام دیا ۔
سیدناعلی،ابن مسعود، ابن عباس، زبیر اور عبد الرحمن کی طرف نسبت
حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرات ابن مسعود ؓ ، عبد الرحمن بن عوف اور زبیر ؓ بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرنے کے قائل تھے۔ ‘‘
( اہلِ حدیث اور علماء حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۶۷)
الجواب:
زاہد صاحب نے صحیح سند کے ساتھ ان سے ثبوت پیش کرنا تو دُور رہا، سرے سے کسی کتاب کا حوالہ ہی نہیں دیا۔ ہم ’’ صحابہ کرام کا مسلک ‘‘ باب میں خود غیرمقلدین کے حوالہ جات نقل کر چکے ہیں کہ مذکورہ بالا صحابہ کرام تین طلاقوں کو تین ہی سمجھتے تھے ۔
زاہد صاحب کی طرح رئیس ندوی غیرمقلد نے بھی مذکورہ بالا صحابہ کرام کی طرف تین کے ایک ہونے کی نسبت کی مگر اسے سنداً ثابت کرنا تو دُور خود ہی اعتراف کرلیا کہ یہ ثابت نہیں ۔پڑھئے ۔
ندوی صاحب لکھتے ہیں:
’’امام ابن مغیث وغیرہ نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ امام محمد بن وضاح نے فرمایا ہے کہ حضرت علی و ابن مسعود و ابن عباس،زبیر بن عوام اور عبد الرحمان بن عوف جیسے صحابہ کرام اس مسئلہ میں موقف اہلِ حدیث رکھتے تھے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ص ۸۲،ج ۳۳ بحوالہ المقنع فی اصول الوثائق لابن مغیث و اغاثۃ اللہفان و تفسیر قرطبی و فتح الباری) یہ بہت واضح بات ہے کہ امام محمد بن وضاح ثقہ تھے اور اپنے نزدیک روایات معتبرہ کی بنیاد ہی پر موصوف نے ان پانچوں صحابہ کرام کی طرف قول مذکور منسوب کیا ہے، مگر ہم بہرحال ابن وضاح کے مقلد نہیں اور ان کی ہر بات بلادلیل ماننے کو تیار نہیں لیکن یہ یقین ہے کہ ابن وضاح نے بلا دلیل اپنی مذکور بات نہیں کہی ہے اس کا معتبر ہونا اور نہ ہونا البتہ اختلافی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ اسی بناء پر ہم ابن وضاح کی نقل و بیان کو دلیل قطعی کا درجہ دینے پر اصرار نہیں کرتے۔‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۰۲)
ندوی صاحب کی اس عبارت سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ مذکورہ بالا صحابہ کرام کی طرف منسوب موقف ’’تین طلاقوں کے ایک ہونے ‘‘ کو ثابت نہیں کر سکے۔صرف حسن ِ ظن پیش کیا کہ امام محمد بن وضاح نے روایات ِ معتبرہ کی بنیاد پہ مذکور ہ بالا نسبت کی ہوگی۔سوال یہ ہے کہ وہ مزعومہ رویات معتبرہ کہاں ہیں، آپ پیش کیوں نہیں کرتے؟یہ بھی واضح کیا جائے کہ ثبوت کے بغیر محض کسی کی بابت حسن ظن کی نسبت کرکے اس کی بات تسلیم کر لی جائے تویہ تقلید ہے یا نہیں ؟ جب کہ ندوی صاحب خود ہی کہہ رہے کہ ہم اُن کے مقلد نہیں کہ بلادلیل بات مان لیں۔ جناب ! اگر بلادلیل بات ماننے کو تیار نہیں ہیں تو مذکورہ بالا صحابہ کرام کی طرف غلط نسبت کرنے کی زحمت ہی کیوں کی۔ جب آپ کے نزدیک مذکورہ صحابہ کرام سے تین کا ایک ہونا ثابت نہیں اور ابن وضاح کی تقلید سے بھی منکر ہیں تو پھر اس بحث کو لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔اس بحث سے سوائے اپنی بے بسی کے اظہار کے آپ کو کیا حاصل ہوا؟
ہماراسوال یہاں بجاہے کہ ابن وضاح کی بابت جو حسن ظن پیش کیا کہ انہوں نے روایات معتبرہ کی بنیاد پہ مذکورہ بالا نسبت کی ہوگی۔کیا صحابہ کرام کے متعلق یہی حسنِ ظن کرنے کو تیار ہیں کہ انہوں نے روایاتِ معتبرہ ؍ احادیث ِ نبویہ کی بنیاد پہ تین طلاقوں کے تین ہونے کا موقف اختیار کیا ہے۔
ندوی صاحب مذکورہ بالا صحابہ کرام سے تین کا ایک ہونا ثابت نہیں کر سکے۔ اور جو اپنے دعوے کو صحیح یا حسن سند سے ثابت نہ کرپائے اس کی بابت کیا حکم ہے ؟یہ آپ غیرمقلدین کے ہاں ’’محدث العصر ‘‘ کا لقب پانے
والے شیخ زبیر علی زئی کی زبانی جانئے ۔وہ لکھتے ہیں:
’’اصول محدثین کی رُو سے مذکورہ ... روایت کا صحیح یا حسن ہونا ثابت نہیں کیا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اس مسئلے میں بھی آلِ باطل شکست سے دو چار ہیں۔‘‘
( مقالات :۵؍۲۵۴)
ہزاروں صحابہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا کا دعویٰ
عمران شہزاد تارڑ غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اور شیعیت کا الزام کس قدر جسارت کی بات ہے۔کیا وہ ہزاروں صحابہؓ ، تابعین، تبع تابعین جو امیر عمر کے فیصلے سے اختلاف کرتے چلے آئے ہیں، سارے شیعہ تھے ؟؟‘‘
(حلالہ سنٹر ز اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۵۶)
الجواب:
ہزاروں صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف نہیں کیا ۔ تارڑ صاحب! ان ہزاروں صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال صحیح یا حسن سند سے پیش کریں ۔
کبار صحابہ کرام کی طرف تین طلاقوں کے ایک ہونے کی نسبت
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ آپ نے تطلیق ثلاثه کا نفاذ کیا تو صحابہ کبار نے آپ سے اختلاف کیا۔ ‘‘
(آئینہ پرویزیت صفحہ ۷۸۰)
الجواب:
تین کو ایک کہنے والے کبار صحابہ کرام کون ہیں ؟ خلفائے راشدین؟ عشرہ مبشرہ ، بدری صحابہ ؟ بہر حال کبار صحابہ جو بھی ہیں اُن سے صحیح سندوں سے اپنے دعوے کو ثابت کریں۔ ہماری معلومات کے مطابق اُن مقدس شخصیات کی طرف تین کو ایک کہنے کو منسوب کرنا غلط ہے۔ اگر غیرمقلدین اس دعوی کو سچا قرار دیتے ہیں توپہلے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کرنے والے ان کبار صحابہ کرام کے نام بتائیں، پھر صحیح وحسن سند کے ساتھ ثبوت پیش کریں۔ یاد رہے کہ خود غیرمقلد مصنفین نے اعتراف کیاہوا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب تین طلاقوں کے نفاذ کا فیصلہ کیا تو صحابہ کرام نے ان سے اتفاق کیا بلکہ غیرمقلدین کی کتابوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ تین طلاق کے تین ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔ حوالہ جات ہم اپنی اسی کتاب میں’’ باب:۲ طلاق ثلاثہ کے وقوع پر صحابہ کرام کے آثار ‘‘کے تحت نقل کر چکے ہیں ۔
اہلِ بیت کی طرف غلط نسبت
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اکثر اہلِ بیت ذی علم اسی کو پسند فرماتے ہیں کہ ایک ساتھ دی ہوئی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہیں ۔‘‘
( نکاح محمدی صفحہ ۱۰۱،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
الجواب:
اہلِ بیت کا مصداق ازواج مطہرات، سیدنا علی ، فاطمہ ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم ہیں ان میں سے کسی ایک سے بھی تین طلاقوں کا ایک ہونا ثابت نہیں۔ جونا گڑھی صاحب نے اپنے اس دعویٰ پرصحیح یا حسن اسناد پیش نہیں کیں ، صرف دعوی کردینے پر اکتفاء کیا۔
ائمہ ثلاثہ رحمہم اللہ کی طرف نسبت
کسی نے لکھا:
’’ بعض حضرات غیرمقلدین سے سناگیا ہے کہ وہ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا قول ائمہ اربعہ میں سے کسی نہ کسی امام کے قول کے مطابق ہوتا ہے لیکن یہاں تو ان خدا کے بندوں نے نہ صرف حضرت امام اعظم ؒ کی مخالفت کی ہے بلکہ حضرت امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد اور ان کے مقلدین کے بھی خلاف کیا ہے کیوں کہ یہ تمام بزرگان ملت تین طلاقوں کے وقوع کے قائل ہیں ۔ ‘‘
( رسالہ ’’القاسم ‘‘بحوالہ فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۲۱۵، ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور )
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے اس عبارت پہ یوں تبصرہ کیا، بالفاظ دیگر اس کا بزعم خود یوں جواب دیا:
’’ گو ہمارے نزدیک یہ اصول مسلَّم نہیں کہ کسی مسئلہ کی صحت کے لیے یہ شرط ہو کہ وہ
ائمہ اربعہ سے کسی نہ کسی کے موافق ضرور ہو ۔بلکہ مسئلہ کی صحت کے لئے قرآن وحدیث کا ہوناکافی ہے چاہے دنیا بھر کے امامان دین یا مجتہد ان اساطین کے خلاف ہو ،لیکن واقعہ کے اظہار کے لئے اور ایڈیٹر القاسم کی معلومات میں اضافہ کے لئے ہم ان کو مطلع کرتے ہیں کہ مسئلہ ہذا میں امام مالک ،امام احمد بن حنبل بلکہ خود امام ابوحنیفہ صاحب رضی اللہ عنہم کے اقوال بھی اہلِ حدیث کی تائید میں ہیں۔ ملاحظہ ہو اغاثۃ اللفہان مصنفہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ مطبوعہ مصر ص ۱۵۳سے ۱۵۷ تک ، یہ صفحات دیکھ کر اپنے پرچے میں اعلان کیجئے کہ ’’ ہم اپنے اعتراض کو واپس لیتے ہیں ۔‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۲۱۵،۲۶۔ ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور )
الجواب:
امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی طرف مذکورہ نسبت کرنا غلط ہے ۔ درج ذیل جوابات پڑھئے ۔
۱۔ امرتسری صاحب نے مذکورہ بات نہ تو مذکورہ ائمہ کی کتابوں سے نقل کی، نہ ان کے شاگردوں سے اور نہ ہی صحیح سندوں سے نقول درج کی ہیں۔ بلکہ آٹھویں صدیں کے بزرگ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے حوالہ پہ اکتفاء کیا ۔
۲۔ہم نے اپنی اس کتاب کے ’’باب: ۴ ، ائمہ اربعہ کا مسلک ‘‘ کے تحت مستند حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ ائمہ اربعہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانتے ہیں ۔ بلکہ وہاں غیرمقلدین کی کتابوں سے یہی نظریہ نقل کیا ہے ۔
۳۔ امرتسری صاحب کا جملہ ’’چاہے دنیا بھر کے امامان دین یا مجتہد ان اساطین کے خلاف ہو۔‘‘ کو ایک بار پھر پڑھیں۔ دنیا بھر کے مجتہدین اور اساطین امت کا اختیار کردہ مسئلہ اجماعی نہ کہلائے گا؟کیا اجماعی مسئلہ قابل رد ہوتاہے ؟
۴۔ امرتسری صاحب تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف تین طلاق کے ایک ہونے کی علی الاطلاق نسبت کر رہے ہیں جب کہ اس کے برعکس مولانا امین محمدی غیرمقلد نے دعوی کر دیا کہ امام صاحب کے نزدیک تو غیرمدخولہ کو الگ الگ لفظ سے دی جانے والی تین طلاقیں بھی تین ہوتی ہیں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
’’ جناب امام مالک ، امام احمد بن حنبل ، امام شافعی اور دیگر بہت سے علماء کا متفقہ موقف یہ
ہے کہ غیر مدخولہ کو اگر کوئی شخص اَنْتِ طَالِق ٌ، اَنْتِ طَالِق ٌ، اَنْتِ طَالِق ٌ کہہ کر طلاق دے ایک ہی مجلس میں اکٹھی تو صرف ایک ہی طلاق ہوگی .. . اور جناب امام ابوحنیفہ کا اپنا موقف یہ ہے کہ ان الفاظ سے تین ہوں گی یعنی اگر وہ یہ کہے اَنْتِ طَالِق ٌ ،طَالِق ٌ ، طَالِق ٌ تو تینوں ہوں گی ۔ ‘‘
( مقالہ بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۱۶۲)
تنبیہ: غیرمد خولہ کو الگ الگ لفظ سے دی جانے والی تین طلاقیں ایک اس لیے ہوتی ہے کہ عورت پہلی ہی طلاق سے بالکلیہ نکاح سے نکل جاتی ہے ، دوسری اور تیسری طلا ق کا محل نہیں رہتی ۔یہ صورت غیرمقلدین اور اہل سنت کے ہاں باعث نزاع نہیں ۔
حجاج بن ارطاۃ کی طرف نسبت
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام نووی شافعی نے شرح مسلم میں اعتراف کیا ہے کہ حجاج بن ارطاۃ کوفی قاضی متوفی ۱۴۵ھ بھی ایک مجلس کی کی تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے تھے ۔‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۲۸۴)
الجواب:
غیرمقلدین کے اصول کے مطابق صرف علامہ نووی رحمہ اللہ کی کتاب کا حوالہ کافی نہیں بلکہ اسے ثابت کرنا ضروری ہے۔ لہذا اپنے اصول کی لاج رکھتے ہوئے صحیح سند سے ان کا قول پیش کریں۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اس کی مکمل سند پیش کی جائے ... حافظ ذہبی سے ابن جریج تک سندنامعلوم ہے۔ ‘‘
( نور العینین صفحہ ۴۱،طبع جدید )
کیا ہمیں یہ کہنے کا حق ہے کہ’’ اس کی مکمل سند پیش کی جائے ...حافظ نووی رحمہ اللہ سے حجاج بن ارطاۃ تک سندنامعلوم ہے ۔ ‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ حجاج مذکور بذات ِخود غیرمقلدین کے ہاں ’’ضعیف ‘‘ راوی ہے۔
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اس کی سند میں حجاج بن ارطاۃ ضعیف ہے ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۰)
شیخ زبیرعلی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حجاج بن ارطاۃ راوی ضعیف و مدلس ہے ۔ ‘‘
( تخریج ابن کثیر :۱؍۳۸۱)
محمد بن مقاتل سے ہم نوائی کا دعویٰ
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’مازری نے کتاب معلم میں بیان کیا ہے کہ امام محمد بن مقاتل کہتے ہیں کہ طلاق ِ ثلاثہ جو ایک ساتھ کی ہوں وہ ایک رجعی کے حکم میں ہیں۔‘‘
( نکاح محمدی صفحہ ۱۰۱،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
آگے ’’امام محمد بن مقاتل کا تعارف ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ امام بخاری ؒ بھی ان سے اپنی صحیح بخاری میں روایت لائے ہیں۔ ‘‘
( نکاح محمدی صفحہ ۱۰۵،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
الجواب:
اس پہ تبصرہ سے پہلے یہاں رئیس محمد ندوی غیرمقلد کی بھی سُن لیں۔
’’اس مسئلہ میں مسلک اہلِ حدیث کے موافق حنفی مذہب کے مشہور امام مقاتل رازی بھی ہیں جو تیسری صدی کے نصف اول ۲۴۸ھ ،۲۴۹ھ میں فوت ہوئے تھے ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۲۸۵، مکتبہ محمدیہ چیچہ وطنی )
ندوی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ موصوف محمدبن مقاتل دوسری صدی اور تیسری صدی کے فرد ہیں... موصوف پر بعض محدثین بشمول امام بخاری نے جرح کر رکھی ہے ۔‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ ۲۸۶)
ندوی صاحب نے اگلے صفحہ پہ لکھا:
’’ امام محمد بن مقاتل کا فتویٰ مذکور مختلف کتابوں خصوصاً امام مازری کی المعلم شرح مسلم میں منقول ہے جو پانچویں صدی کے آدمی تھے ۔‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ ۳۸۷)
ندوی صاحب نے اپنی عبارت میں محمد بن مقاتل کودوسری و تیسری صدی کا بزرگ کہا اور حنفی بھی باورکرایا۔ حالاں کہ غیرمقلدین کے نزدیک تقلید چوتھی صدی میں اور بعض کے ہاں چوتھی صدی کے بھی بعد پیدا ہوئی ۔ تو محمد بن مقابل حنفی کیسے ہوگئے ؟
ندوی صاحب کی تصریح کے مطابق محمد بن مقاتل تیسری صدی میں فوت ہوئے اور مسئلہ تین طلاق کی بابت اُن کے موقف کے لئے پانچویں صدی میں لکھی جانے والی کتاب کا حوالہ دیا ۔ دوسروں سے ہر بات میں صحیح سند کا مطالبہ کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ بھی صحیح سند پیش کریں ۔ندوی صاحب نے خود ہی لکھا:
’’ امام مازری سے مراد محمد بن علی بن عمر بن محمد تیمی مالکی مولود۴۴۳ھ، ۴۵۳ ھ و متوفی ۵۳۶ھ ہیں ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۲۸۷)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ مازری کی محمد بن مقاتل سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی اُن کا زمانہ پایا،اس لئے یہ روایت منقطع ہے اور شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے لکھا:
’’ضعیف و منقطع روایات کووہی شخص پیش کرتا ہے جو خودضعیف و منقطع ہوتاہے۔ ‘‘
(علمی مقالات : ۶؍۴۵۷)
علی زئی صاحب کی یہ عبارت ان کی کتابوں : اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ۵۲، طبع جدید صفحہ ۹۴... تعداد رکعاتِ قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ صفحہ ۹۶میں بھی موجود ہے ۔
جونا گڑھی صاحب نے محمد بن مقاتل کو بخاری کا راوی قرار دیا ہے جب کہ ندوی صاحب کادعوی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں مجروح قرار دیا ہے ۔
احناف کے کثیر طبقہ اور مالکیہ کی طرف نسبت
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’احناف کا ایک کثیر طبقہ امام صاحب کے اس فتویٰ سے متفق نہیں ،وہ فقہ مالکیہ کے مطابق اسے ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں ۔ ‘‘
(آئینہ پرویزیت صفحہ ۷۷۸)
الجواب:
مذکورہ عبارت میں دونوں دعوے غیر ثابت ہیں ۔ نہ تو احناف کا کثیر طبقہ زیر بحث مسئلہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ہے اور نہ ہی مالکیہ تین طلاق کو ایک کہتے ہیں ۔
نیز یہ بتائیں کہ کثیر طبقہ کا اطلاق کتنے افراد پر ہوتا ہے؟ پھر اتنے افراد سے اپنے دعویٰ کو ثابت کریں۔نیز چوں کہ غیرمقلدین دوسروں سے ہر بات میں صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں اس لئے کیلانی صاحب کے ہم نوا اس دعوے کی صحت پر صحیح سندیں لائیں۔یہ بھی یاد رہے کہ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کی بات کب قابلِ مسموع ہو سکتی ہے ؟‘‘
( نور العینین صفحہ ۱۳۷، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: اکتوبر؍ ۲۰۱۲ء )
یاد رہے کہ مالکیہ سمیت چاروں مذاہب میں تین طلاقوں کو تین ہی کہا گیا ہے ۔ جس پر خود غیر مقلدین کی تحریریں گواہ ہیں ۔مثلاًحافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بیک وقت تین طلاقیں تمام فقہی مذاہب والوں کے نزدیک بھی جائز نہیں گووہ اس کے اجراء و نفاذ کے قائل ہیں ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۳۸ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
صلاح الدین صاحب اسی کتاب میں مزید لکھتے ہیں:
’’ حنفی، حنبلی ، شافعی اور مالکی ...یہ سب اصحاب ِ فقہ ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی شمار کرنے کے قائل ہیں ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۵۸ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
تنبیہ: حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ ( شیخ الحدیث جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا ) نے اپنی کتاب ’’ حرام کاری سے بچئے ‘‘ میں مالکی علماء کی کتب سے کئی حوالہ جات نقل کر دئیے ہیں جن میں یہ مضمون ہے کہ ایک مجلس میں
دینے جانے والی تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔
ہزار ہا محدثین وغیرہم کی طرف نسبت
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد نے تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والوں کی تعداد بتاتے ہوئے لکھا:
’’ہزار ہا صحابہ ، تابعین، تبع تابعین، اتباع تبع تابعین ، ائمہ دین مجتہدین ، محدثین ۔‘‘
ؒ ( نکاح محمدی صفحہ ۲۱،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
الجواب:
ہمارا مطالبہ ہے کہ غیرمقلدین اپنے اصول کے مطابق مذکورہ بالا سب طبقات:صحابہ، تابعین،تبع تابعین ،اتباع تبع تابعین، ائمہ دین، مجتہدین اور محدثین میں سے ہزار ہا افراد سے صحیح یا حسن سند سے تین کا ایک ہونا ثابت کردیں۔مگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے ان شاء اللہ۔جونا گڑھی صاحب کے زمانہ سے یہ دعویٰ بلا دلیل ہی رہا اور آئندہ بھی یہ دعویٰ بلادلیل ہی رہے گاان شاء اللہ ۔اس دعویٰ کو دلائل سے مدلل کرنا غیرمقلدیت کے بس کا روگ نہیں ۔
ہر صدی میں تین کو ایک کہنے والے موجود رہے کا دعوی
حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک ہی شمار کرنے میں اہلِ حدیث منفرد نہیں ہیں بلکہ صحابہ سے عصر ِ حاضر تک ہر دَور میں ایسے علماء و ائمہ موجود رہے ہیں جو اسے ایک طلاق رجعی شمار کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اس مسئلے میں اہل ِ حدیث کو بلا وجہ مطعون کرتے اور ان کے خلاف گوہر افشانی کرتے ہیں۔ ‘‘
( طلاق ، خلع اور حلالہ صفحہ۵۷ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
الجواب:
کیا غیرمقلدین میں سے ایسا کوئی مصنف گزرا ہے جس نے دَور صحابہ سے لے کر ہر دَور کے ایسے علماء و ائمہ کے حوالے باسندصحیح نقل کئے ہوں جو غیرمقلدین کی طرح تین کو ایک کہنے کے قائل ہوں ؟
یوسف صاحب کہتے ہیں:
’’مجلس واحد کی تین طلاقوں کے ایک ہی شمار کرنے میں اہلِ حدیث منفرد نہیں ہیں بلکہ صحابہ سے عصر ِ حاضر تک ہر دَور میں ایسے علماء و ائمہ موجود رہے ہیں جو اسے ایک طلاق رجعی شمار کرتے ہیں۔‘‘
آپ کے بقول ہر زمانہ میں اہلِ حدیث کے علاوہ دوسرے علماء و ائمہ تین کو ایک کہنے والے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ تھے ؟
غیرمقلدین کے ہاں اسلام کی پہلی چار صدیوں میں مقلدین کا وجود نہیں تھا تو اگر ان چار صدیوں میں بھی یوسف صاحب کے بقول اہل ِ حدیث کے علاوہ بھی علماء و ائمہ تھے جو تین کو ایک کہنے والے تھے تو اُن کی نشان دہی کریں کہ وہ کس مسلک کے لوگ تھے ؟ شیعہ تھے یا سنی؟وہ معروف شخصیات ہیں یا مجاہیل ؟
یہاں یہ بھی واضح کیا جائے یوسف صاحب کی عبارت میں مذکورلفظ ’’ اہلِ حدیث‘‘ سے مراد اس کا حقیقی مصداق محدثین ہیں یا انگریز سے نام الاٹ کرنے والے غیرمقلدین ؟ اس کی تعیین کے بعد یوسف صاحب کے دعویٰ کو دلیل سے ثابت کریں۔
یوسف صاحب نے لکھا:
’’ بعض لوگ اس مسئلے میں اہل ِ حدیث کو بلا وجہ مطعون کرتے اور ان کے خلاف گوہر افشانی کرتے ہیں۔ ‘‘
وہ بعض لوگ کون ہیں ؟ ہم نے اپنی اس کتاب میں محدثین اور شارحین حدیث کی عبارتیں نقل کر دی ہیں جن میں تین طلاقوں کو ایک قرار دینے پر سخت تنقید کی گئی اور مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلدنے بھی اس کمزور موقف کا سختی سے رَد کیا ہے ۔کیا ان سب کی تنقید بلاوجہ ہے ؟۔جب کہ صحیح بات اس کے برعکس یہ ہے کہ تین طلاقوں کو تین ماننے والوں: صحابہ کرام اور اکابرین امت کے خلاف غیرمقلدین نے نہ صرف یہ کہ بلاوجہ طعن کیا بلکہ گستاخیاں بھی کیں۔ ثبوت اور حوالہ جات کے لئے ہماری اسی کتاب کا ’’ باب نمبر: ۱۷‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی طرف تین کے ایک ہونے کی نسبت
علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حافظ ابن کثیر طلاق وغیرہ جیسے مسائل میں ابن تیمیہ ؒ کے ہم نوا تھے ، جن کی بناء پر ان
کو بھی بلاء و محن اور لوگوں کی ایذا رسانی سے دو چار ہونا پڑا۔ ‘‘
( کاروانِ حدیث صفحہ ۳۲۳)
الجواب:
عراقی صاحب نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا ۔ اس کے برعکس حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ سنن ابو داود میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے ۔‘‘
( تفسیر ابن کثیر :۲؍۳۷۹،ترجمہ جوناگڑھی )
ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص ایک عورت سے نکاح کرتا ہے اور دخول سے پہلے ہی طلاق بتہ دے دیتا ہے ، وہ دوسرا نکاح کرتی ہے وہ بھی اسی طرح دخول سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے توکیا اگلے خاوند کو اب اس سے نکاح کرنا حلال۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں جب تک یہ اس سے اور وہ اس سے لطف اندوز نہ ہو لیں ۔ ‘‘
( تفسیر ابن کثیر :۱؍۳۸۴)
غیرمقلدین کو اصرار ہے طلاق بتہ اکٹھی دی جانے والی تین طلاقوں کو کہتے ہیں،حوالہ جات ہماری اس کتاب کے ’’باب ۲۲، در متفرقات ‘‘میں منقول ہیں۔
ابن کثیر میں اس حدیث کا حوالہ’’ مسند احمد ، ابن ماجہ وغیرہ ‘‘ درج ہے۔ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اِس حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ وھو صحیح ، اور یہ حدیث صحیح ہے ۔ ‘‘
(تخریج ابن کثیر :۱؍۳۸۴)
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ابن کثیر نے بھی سند ابی داود و نسائی و ابن ابی حاتم و تفسیر ابن جریری و تفسیر عبد الحمید و مستدرک حاکم و قال صحیح الاسناد، والترمذی مرسلا و مسندا نقل کرکے کہا ہے کہ ابن جریر نے ابن عباس ؓ کی اس حدیث کو آیت مذکورہ کی تفسیر بتا کر اسی کو پسند کیا ہے ، یعنی یہ کہ پہلے جو تین طلاق کے بعد رجوع کر لیا کرتے تھے ،وہ اس حدیث سے منسوخ ہے، پس یہ حدیث مذکور محدث ابن کثیر و ابن جریر دونوں کے نزدیک صحیح ہے، جیسے کہ مستدرک حاکم صحیح اسناد لکھا ہے، اور قابل اعتماد ہے، اورامام فخر الدین رازی کی تحقیق بھی یہی ہے۔‘
‘ ( فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۸،ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور )
حافظ سید رشید احمد ارشد (ایم اے) اپنے مضمون ’’ شیخ ابن کثیر اور اُن کی تفسیر ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ آپ فقہی مسلک کے لحاظ سے شافعی تھے، تاہم امام ابن تیمیہ کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھنے کی بناء پر بعض اوقات آپ ان کے مسلک کی حمایت کرتے تھے۔ چنانچہ مسئلہ طلاق میں آپ امام ابن تیمیہ کے مسلک کے مطابق فتوے دیتے رہے اور چوں کہ یہ رائے ہر مسلک کے علماء کے خلاف تھی اس لئے اس کی حمایت کی پاداش میں آپ کو بہت تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ ‘‘
( ہفت روزہ اہلِ حدیث لاہور ،۱۹؍ ستمبر ۱۹۸۰ء صفحہ ۸)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی طرف تین طلاقوں کے ایک قرار دینے کی نسبت غلط ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔ البتہ ہفت روزہ اہلِ حدیث کی اس عبارت میں درج ذیل حقائق کا اقرار ہے :
۱۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ جیسے محدث و مفسر اور مؤرخ فقہی اعتبار سے شافعی المسلک تھے۔
۲۔ تین طلاقوں کو ایک کہنا ہر مسلک کے علماء کے خلاف رائے ہے ۔
۳۔ تین طلاقوں کو ایک قرار دینے والے کو اُس دَور میں بہت سی تکالیف برداشت کرنا پڑیں ۔ یعنی اُس زمانہ میں تین کو ایک کہنے کی رائے کو بجائے قبولیت کے رَد کر دیا جاتا تھا۔
امام رازی رحمہ اللہ کو ہم نوا قرار دینے کا دعوی
بعض لوگ امام رازی رحمہ اللہ کی ایک عبارت تفسیر کبیر سے اپنی تائید میں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔مثلا دیکھئے شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد کی کتاب ’’تحفۂ احناف صفحہ ۲۳۳‘‘...اور مولانا محمد جوناگڑھی کی کتاب ’’ نکاح محمدی صفحہ ...‘‘
الجواب:
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلدنے امام رازی رحمہ اللہ کی عبارت کو اپنی تائید میں نقل کرنے والوں کی تردیدکرتے ہوئے لکھا:
’’ اور امام رازی نے تفسیر کبیر میں آیت مذکورہ کی تفسیر میں بحث کرکے جو اپنی تحقیق لکھی ہے، وہ یہ ہے کہ آیت الطلاق مرتان سے پہلے آیت والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قروء (الی قولہ ) و بعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا(الآیۃ )اس کے بعد ہے الطلاق مرتان الآیۃ اس سے ثابت ہوا کہ پہلی مجمل مفتقر الی المبین یا کالعام مفتقر الی المخصص تھی کہ بُعُول مطلقین کو بعد طلاق حق استرداد یعنی رجوع ثابت تھا ، عام اس سے کہ ایک طلاق کے بعد ہو یا دو کے یا تین پس آیت الطلاق مرتاننے واضح کر دیا کہ مطلق کو رجوع ایک یا دو طلاق کے بعد ہے ،اس کے بعد نہیں، پھر آگے جامع ترمذی کی حدیث سے منع ثابت کیا ہے اور بعض اصحابْ ،تفسیر کبیر سے اپنے مطابق قول کے بعد ھذا ھو الاقیس الخ کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ اس قول کو امام صاحب نے دوسرے سے نقل کرکے اس کا رَد کیا ہے ، ملاحظہ ہو ص۲۴۸ ج۲۔‘‘
( فتاوی ثنائیہ :۲؍۲۱۸،۲۱۹۔ناشر: اسلامک پبلشنگ لاہور )
مزیدیہ کہ امام رازی رحمہ اللہ کو غیرمقلدین کے ’’محدث العصر اور ذہبی زماں ‘‘ شیخ زبیر علی زئی نے مجروح یعنی ضعیف قرار دیا ہے چنانچہ وہ ان کے ایک قول کو اپنے خلاف پاکر اس سے جان چھڑانے لگے تو یوں لکھ دیا :
’’ مذکورہ اقوال سے آلِ دیوبند کا استدلال تین وجہ سے مردود ہے : ۱۔رازی بذاتِ خود مجروح تھا۔ دیکھئے لسان المیزان ( ۴؍۴۲۶، ۴۲۹، دوسرا نسخہ ۵؍۴۳۰،۴۳۵) ‘‘
( علمی مقالات :۵؍۳۶۳،اشاعت اول :۲۰۱۲ء، مکتبہ اسلامیہ )
امام رازی رحمہ اللہ اگر ضعیف ہیں اور ان کے قول کو اپنی تائید میں لانا مردود ہے تو غیرمقلدین کیوں ان کا قول اپنی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں؟
شیعوں کو ہم نوا قرار دینے کی کاوش
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ بعض حضرات نے (جس میں امیریمانی دیکھئے سبل السلام جلد ۳ صفحہ ۲۱۵) اور قاضی شوکانی بھی ہیں۔( دیکھئے نیل جلد ۶صفحہ۲۴۵) تکثیر سواد کے لیے تین طلاقوں کے ایک ہونے کے سلسلہ میں ہاوی، قاسم، باقراور ناصر وغیرہ کے نام بھی لئے ہیں کہ یہ بھی اس کے قائل ہیں مگر یہ تمام زیدی شیعہ ہیں۔( ملاحظہ ہو دلیل الطالب صفحہ ۷۵۶وغیرہ ) اور شیعہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک تصور ہوتی ہے ۔‘‘
(عمدہ الاثات صفحہ ۴۵)
مجاہیل کو ہم نوا کہنے کی کاوش
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ اسی طرح احمدبن عیسیٰ اور عبد اللہ بن موسیٰ وغیرہ کا جو مجہول لوگ ہیں۔ ( ملاحظہ ہو الازھار المربوعۃ صفحہ ۱۵ ، از حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی ) پیش کرنا بھی چنداں مفید نہیں کیوں کہ حلال و حرام کے مسئلہ میں معروف ائمہ دین اور حضرات صحابہ کرام اور امت مرحومہ کے اجماع و اتفاق کو چھوڑ کر کون ایسے غیر معتبر اور مجہول لوگوں کی تحقیق پر اعتماد کرتا ہے ؟ ‘‘
( عمدۃ الاثات صفحہ ۴۶)
مجہول قوم کی ہم نوائی کا دعویٰ
غیرمقلدین اپنی تقریر و تحریر میں کہا کرتے ہیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے کہا کہ ایک قوم تین طلاقوں کے ایک ہونے کی قائل ہے ۔
الجواب:
انجینئر محمد علی مرزا غیرمقلد نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’اسی میں وہ[ غیرمقلد (ناقل)] کلپ میں کہتا ہے وہ امام طحاوی نے اپنی کتاب کے اندر
شرح معانی الاثار میں نقل کیا ہے کہ اس زمانے میں ،امام طحاوی کے زمانے میں۔ ہن میں توانوں دسنا واں۔ امام طحاوی بھی چوتھی ہجری کا ہے۳۲۱ھ میں فوت ہوئے ہیں چوتھی صدی بنتی ہے ۔۳۲۱ھ پڑھ کے فیر ناں پلی کھا لگ جائے۔ کہتا ہے امام طحاوی جو ہے انہوں نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ اس طرح کے گروہ بھی موجود ہیں جو تین کو ایک سمجھتے تھے اس زمانے میں۔وہ کہتا ہے دیکھیں اس سے ثابت ہوا کہ وہ تھے۔ میں نے اپنے لیکچر میں کہا کہ صحیح سند کے ساتھ ثابت کریں۔ یہ امام طحاوی نے تو دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کوئی سند پیش کی ہے ؟وہ تو پھکی مجھ سے لے لیں۔ امام ترمذی نے جامع ترمذی میں ٹو ففٹی سیون نمبر حدیث جو ہے ترک رفع الیدین والی انٹرنیشنل نمبری کے مطابق، عبد اللہ بن مسعود والی۔ اس کے کینٹکس میں لکھا ہے کہ ترک رفع کئی اصحاب رسول کا عمل ہے تو وہ تو امام ترمذی جو ہیں امام طحاوی سے بھی پہلے گزرے ہیں سو سال ۔ ٹوسیونٹی نائین میں فوت ہوئے ،تیسری صدی ہجری کے اندر ۔ وہ کہہ رہے کہ کئی اصحاب رسول کا ترک رفع یدین پر عمل ہے توکیا یہ سعودی عرب کے پیٹو علماء مان لیں گے امام ترمذی کی اس بات کو ۔ نیں جی انہوں نے تو بے سند بات کی ہے ۔ اچھا!ترمذی بے سند بات کریں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں تو وہ اکسیپٹیبل نہیں ہوگی او ر چوتھی صدی کے امام طحاوی اگر بات کر دیں آپ کے مطلب کی، بغیر سند کے وہ قبول ہو جائے گی۔ مٹھا مٹھا ہپ ہپ تے کوڑا کوڑا تھو تھو۔ تو یہ میں اس لیے کہتا ہوں کہ یہ ڈگریاں والے مولوی ہیں ... آپ اپنی ڈگریوں کی فکر کریں جعلی ہیں یا اصلی ۔ نہیں تو کم از کم ڈگری حاصل کرنے کے بعد علم بھی حاصل کریں۔ ڈگر ی تو آ گئی آپ کے پاس،علم بھی حاصل کریں۔ یہ ڈگری تو آپ کو مدرسے کے لوگوں نے دے دی ۔ ‘‘
( www.AhlesunnatPak.com)
مجہول لوگوں کی ہم نوائی کی کیا حیثیت ہے یہ ذرا شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کی زبانی سن لیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ رہ گیا ایک تابعی کا انفرادی و شاذ عمل تو اس کے مقابلے میں تابعین عظام کا جم غفیر ہے اور نبی کریم و صحابہ ٔ کرام کے مقابلے میں ایک تابعی یا مجہول لوگوں کے عمل کی حیثیت ہی کیا ہے؟!‘‘
( نور العینین صفحہ ۵۵۷، مکتبہ اسلامیہ ، سن اشاعت: اکتوبر ؍ ۲۰۱۲ء )
علی زئی صاحب کی اس عبارت کے مطابق مجہول لوگوں کے عمل کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی نے مزید لکھا:
’’ اب اَصحاب عبد اللہ اور اَصحاب علی (رضی اللہ عنہما ) میں سے کسی ایک کا نام بیان نہیں کیا گیا لہذا یہ سارے اشخاص مجہول ہیں۔اگر ان سے مراد ثقہ حضرات تھے تو ان کا نام ظاہر نہ کرنے کی وجہ کیا ہے ؟۔ ‘‘
( نور العینین صفحہ ۳۱۲)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے نام مذکور نہیں مگر اتنی صراحت تو ہے کہ وہ جوبھی ہوں ان کے شاگردان کے فہرست میں شامل ہیں۔اس کے باوجود علی زئی صاحب نے انہیں ’’اشخاص مجہول‘‘ کا نام دیا ۔ لیکن طحاوی میں لفظ ’’قوم ‘‘ہے ۔ان کے متعلق اتنابھی پتہ نہیں کہ کن کے شاگرد ہیں؟ بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ اہلِ سنت کے افراد ہیں یابدعتی گروہ کے ؟تو بتائیے کہ یہ کس قدر مجہول ہوئے۔
بیس کا عدد امت کے مقابلے میں کالعدم ہے
انگریز کے دَور سے پہلے والے لوگوں میں سے تین طلاقوں کو ایک کہنے والے کتنے ہیں ؟تین کو تین کہنے والوں کے مقابلہ میں ان کا کیا تناسب بنتا ہے۔ مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بخاری و مسلم کے اتنے بڑے دفتر سے کل بیس احادیث کے قریب ایسی نکلی ہیں جن پر بعض محدثین کی تنقیدی نظر پڑی ہے تو ترازو میں پاسخ بھی نہیں ... اسی طرح بخاری مسلم کی ان چند احادیث پر اگر جرح ہوئی ہے تو یہ کالعدم ہے ۔ہاں اس سے اتنا فائدہ ضرور پہنچا کہ مخالفوں کا منہ بند ہو گیا،وہ اس طرح کہ بخاری مسلم کی احادیث میں کچھ تنقید کی گنجائش ہوتی تو اتنے بڑے محدثین جرح تعدیل کے امام اتنی کوشش کے باوجود اپنا منہ لے کر نہ بیٹھ جاتے ۔ ‘‘
( مودودیت اور احادیث نبویہ صفحہ ۳۲)
روپڑی صاحب نے تصریح کی ہے کہ بخاری کی کل حدیثوں کے مقابلہ میں بیس کا عدد کالعدم ہے۔ تو پوری امت کے مقابلہ میں بیس کے عدد کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے ۔ لہذا انگریز دَور کے آنے سے پہلے کی اسلامی تاریخ سے غیرمقلدین مسئلہ تین طلاق کی بابت اگر اپنے ہم نوا بیس بندے بھی تلاش کر لیں توانہیں مجموعہ ٔ اُمت کے مقابلہ میں کیا حاصل ہوگا ؟ روپڑی صاحب کی تصریح کے مطابق یہ تعداد کالعدم کے درجہ میں ہے۔
بے سند اقوال کی حیثیت
غیرمقلدین نے افراد امت کی ہم نوائی باور کرانے کے لیے بہت سے لوگوں کے بے سند اقوال اپنی تائید میں پیش کئے ہیں جس کے کچھ نمونے اوپر آپ ملاحظہ فرما لئے۔اب چند عبارات ملاحظہ کریں جن میں بے سند حوالوں کی حیثیت بیان کی گئی ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بے سند روایت مردود ہوتی ہے ۔‘‘
( مقالات :۵؍۱۶۳)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’اور نہ بے سند روایات بیان کرنا جائز ہے ۔‘‘
( مقالات :۵؍۴۹۶)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’ اس واقعے کی کوئی صحیح یا حسن سند متصل موجود نہیں لہٰذا یہ روایت ...بہتان ہے ۔‘‘
(مقالات :۵؍ ۵۰۶)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’ بے سند اقوال موضوع روایات سے بھی نچلا درجہ رکھتے ہیں اور سرے سے مردود ہوتے ہیں۔ بے سند اور جھوٹے اقوال وہی لوگ پیش کرتے ہیں جو بذات ِ خود انتہائی خطرناک قسم کے جھوٹے اور بے سند ہوتے ہیں ۔‘‘
( مقالات الحدیث صفحہ ۱۱۸)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام کے مقابلے میں ایک تابعی یا مجہول لوگوں کے عمل کی حیثیت ہی کیا ہے ؟!‘‘
( مقالات :۵؍۳۲۷)
علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
’’ یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔ ‘‘
( نورا لعینین صفحہ ۲۹۳طبع ۲۰۰۶ء)
علی زئی صاحب کی ان عبارتوں سے ثابت ہوا :
۱۔ بغیر سند والی بات مردود ہے ۔
۲۔بلاسند بات پیش کرنا جائز نہیں۔
۳۔صحیح و حسن سند کے بغیر کسی کی طرف بات منسوب کرنا بہتان ہے ۔
۴۔’’ بے سند اقوال موضوع روایات سے بھی نچلا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘
۵۔’’بے سند اور جھوٹے اقوال وہی لوگ پیش کرتے ہیں جو بذات ِ خود انتہائی خطرناک قسم کے جھوٹے اور بے سند ہوتے ہیں ۔‘‘
جو جو غیرمقلدین اپنی تائید میں بلاسند اقوال پیش کرتے ہیں یا مجاہیل کے حوالے ،تو وہ اپنی جماعت کے ’’ محدث العصر ‘‘ شیخ زبیر علی زئی کے مذکورہ اقوال پڑھ کر ا پنی اوقات جان لیں۔
باب نمبر:۱۴
غیرمقلدین کی قیاسی آراء کا جائزہ
غیرمقلدین کے ہاں قیاس و رائے سے فتوی دینا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ ان کے نزدیک اماموں اور صحابہ کرام بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بھی حجت نہیں ہے ۔
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ میرامذہب اور عقیدہ یہ ہے کہ میں خدا ، رسول کے کلام کو سند اور حجت شرعیہ مانتا ہوں۔ ان کے سوا کسی ایک یا کئی اشخاص کا قول یا فعل حجت ِ شرعیہ نہیں جانتا ۔ ‘‘
( مظالم روپڑی صفحہ ۵۶مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول )
مولانامحمد جونا گڑھی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ سنئے جناب! بزرگوں کی، مجتہدوں اور اماموں کی رائے، قیاس، اجتہاد و استنباط اور ان کے اقوال تو کہاں؟ شریعت اسلام میں تو خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی طرف سے بغیر وحی الہی کے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں ۔‘‘
( طریق محمدی : ۷۰طبع اہلِ حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
اس کتاب پر تقریظ غیرمقلدین کے ’’ فضیلۃ الشیخ ‘‘ مولانا صفی الرحمن مبارک پوری کی ہے ۔
مولانا بدیع الدین راشدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اختیار نہیں تو دوسروں کو اپنی رائے یا قیاس استعمال کرنے کا کیا حق ہے ۔‘‘
( تنقید سدید صفحہ۱۳۲)
راشدی صاحب نے مزید لکھا:
’’ قیاس ورائے قابل اعتماد نہیں اور ظاہر ہے کہ جو خطا کا محتمل ہو اس پر عمل کرنا خطرہ سے خالی نہیں ۔ ‘‘
( تنقید سدیدصفحہ ۳۷۹)
راشدی صاحب قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ہاتھ اُٹھا نے والے قنوتِ نازلہ میں ہاتھ اُٹھانے پر قیاس کرتے ہیں جیسا کہ خود امام احمد بن حنبل نے تسلیم کیا ہے ۔ ( مختصر قیام اللیل للمروزی) باقی کسی امتی کے کہنے کی بنا پر دو جہانوں کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں کوئی بات نہیں بڑھائی جائے گی،اگرچہ وہ دیکھنے میں کتنی ہی اچھی ہی کیوں نہ ہو مگر وہ حقیقتاً بُری ہے کیوں کہ اگر وہ اچھی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز ہم سے نہ چھپا تے۔ اس لیے کہ وہ خیانت ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے پاک رکھا ہوا ہے ۔ ‘‘
( نمازِ نبوی صفحہ۳۹)
راشدی صاحب نے قنوت وتر میں ہاتھ اُٹھانے کو قیاس قرار دے کر اسے دین نبوی میں اضافہ کہا اور یہ
تاثر بھی دیا کہ قیاس سے ثابت شدہ چیز اگرچہ دیکھنے میں اچھی ہو مگر حقیقت میں وہ بُری ہوا کرتی ہے ۔ بلکہ یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ اسے مان لینے سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم پر الزام آتا ہے کہ انہوں نے اسے چھپا کر خیانت کی ۔( معاذ اللہ )
شیخ عبد اللہ دامانوی غیرمقلد نے لکھا:
’’ مقام غور ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات اور رائے کی پیروی بھی لازم نہ آئے تو پھر کسی اور شخص یا امام کی ذاتی ’’آراء ‘‘ کس طرح دین بن سکتی ہیں ۔ ‘‘
( تقریظ : نور العینین صفحہ۲۱)
دامانوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ اتباع صرف اس کی ہے جو رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے ۔ ‘‘
( عذاب ِ قبر کی حقیقت صفحہ ۲۵)
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد ’’ سیدنا فاروق ( رضی اللہ عنہ ) کی سمجھ کا معتبر نہ ہونا ‘‘ عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
’’ روایت عمر سچی ہے لیکن درایت ( سمجھ ) صحیح نہ تھی۔‘‘
( شمع محمدی : ۲۲، ناشر ادارہ قرآن وحدیث کراچی )
صدیق رضا غیرمقلد نے لکھا:
’’ اپنے بنائے ہوئے امام کی بات، اُن کا قول و فعل سرے سے ’’ حجت شرعی ‘‘ نہیں ۔ ‘‘
(مقالات الحدیث صفحہ ۹۵)
مقالات الحدیث کے مندرجات شیخ زبیر علی زئی کے اتفاق اور نظر ثانی سے شائع ہوئے ہیں ، جیسا کہ خود مذکورہ کتاب میں یہ بات صراحت کے ساتھ درج ہے ۔
غیرمقلدین کی کتاب ’’ اصلی نماز حنفی ‘‘ میں لکھا ہے :
’’ مولویوں نے حجروں میں بیٹھ کر قیاس کے ذریعے نیا دین بنا لیا۔ ‘‘
(اصلی نماز حنفی صفحہ ۴۲)
غیرمقلدین کے ہاں جب ائمہ ، صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے حجت نہیں تو خود ان کی اپنی رائے اور ان کا قیاس بھی بطریقِ اولی حجت نہیں ہونا چاہیے۔مزید یہ کہ جب ان کے نزدیک قیاس سے ثابت شدہ مسئلہ دین نبوی میں اضافہ بلکہ نیا دین بنانے کے مترادف ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ قیاس کرنے سے باز آجائیں۔ مگر حیران کن بات ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اپنی رائے اور قیاس کو پیش کیا کرتے ہیں۔اس کی تفصیلی گفتگوہماری زیر ترتیب کتاب ’’ غیرمقلدین کا قیاسی دین ‘‘ میں ہے ۔یہ کتاب مجلہ راہ ہدایت پشاور میں قسط وار شائع ہو رہی ہے۔البتہ مسئلہ طلاق کی بابت اُن کے قیاسات کا جائزہ یہاں لیا جاتا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔
اہل سنت والجماعت کو قیاس کی بھی تائید حاصل ہے
غیرمقلدین کے قیاسات کاجائزہ لینے سے پہلے یہ جان لیں کہ مسئلہ تین طلاق میں قیاس کی تائید بھی اہلِ سنت والجماعت کو ہی حاصل ہے۔ جیسا کہ اس کا اعتراف بعض غیرمقلدین نے بھی کیا ہے ۔مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلدلکھتے ہیں:
’’ اگرچہ حیض کی حالت میں طلاق دینا خلاف سنت اور حرام ہے،تاہم طلاق واقع ہو جاتی ہے۔‘‘
اس عبارت پر یوں حاشیہ لکھا گیا :
’’اسی طرح فقہاء یہ قیاس فرماتے ہیں کہ اگرچہ بیک مجلس تین طلاق دینی خلافِ سنت اور حرام ہے تاہم تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔قیاس کی حد تک تو ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔‘ ‘
(حاشیہ:ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۳۷)
غیرمقلدین کے قیاسات ناقابل ِ سماعت ہیں
غیرمقلدین کے قیاسات میں ہر ایک قیاس کا جواب آئندہ صفحات میں الگ الگ طور پہ دیا جائے گاان شاء اللہ۔اس سے پہلے ہم کچھ اصولی باتیں درج کرتے ہیں۔اسے یوں بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ہم یہاں غیرمقلدین کے سب قیاسات کا مجموعی جواب عرض کئے دیتے ہیں۔
۱۔ اوپر غیرمقلدین کے حوالہ جات منقول ہیں کہ ان کے نزدیک قیاس کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ ہی اس سے ثابت شدہ مسئلہ حجت ۔ لہذا اُن کی طرف سے قیاسات پیش کرنا خود اُن کے اپنے اصول کی رُو سے بھی غلط ہے ۔
۲۔ ہماری اسی کتاب میں محدثین کے حوالہ جات درج ہیں کہ تین طلاقوں کا تین ہونا احادیث اور اجماع سے ثابت ہے اور غیرمقلدین کو یہ بات تسلیم ہے کہ احادیث و اجماع کے خلاف قیاس جائز نہیں ہے۔
مولانا عبد الباری فتح اللہ غیرمقلد اپنے ایک غیرمقلد کو مخاطب کرکے لکھتے ہیں:
’’ سلف کے متفق علیہ قاعدہ ’’ نص کے خلاف کوئی بھی اجتہاد وقیاس فاسد الاعتبار ہوتا ہے۔ ‘‘ کو آپ نے پامال کر دیا مگر آپ کی سلفیت پر اس سے کوئی آنچ نہ آئی ۔ ‘‘
( مقدمہ صفۃ صلوۃ النبی مترجم صفحہ ۶۱، طبع انڈیا )
مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’قرآن وحدیث کے خلاف نہ اجماع ہو سکتا ہے، نہ ہی قیاس۔‘‘
( دین الحق :۲؍۶۴۳، تالیف مولانا داود ارشد ، ناشر مکتبہ غزنویہ لاہور ،تاریخِ اشاعت: دسمبر؍ ۲۰۰۱ء )
داود ارشد صاحب نے اپنی کتاب ’’ تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۹۹،نعمانی کتب خانہ لاہور ، تاریخ ِ اشاعت: اپریل ؍۲۰۰۶ء‘‘ میں اسی بات کو اہلِ حدیث کا موقف قرار دیا جیسا کہ ہم اپنی اسی کتاب کے باب : ’’ تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماع کے حوالے ‘‘ میں عبارت نقل کر دی ہے ۔
۳۔ غیرمقلدٹولہ سلفی ہونے کا دعوے دار ہے اس لئے اُن سے سوال ہے کہ کیا اسلاف نے غیرمقلدین کی طرح قیاسی موشگافیاں کرکے تین طلاقوں کو ایک قرار دیا ہے؟کیااِسلام کی ابتدائی چھ صدیوں کے اسلاف میں سے کسی ہستی کا نام پیش کر سکتے ہیں جنہوں نے غیرمقلدین کے اختیار کردہ یہ قیاسات اپنی کتاب میں لکھے ہوں۔
ہماری معلومات کے مطابق غیرمقلدین کے اکثر قیاسات حافظ ابن قیم رحمہ اللہ سے لئے گئے ہیں۔ مگرمجموعۂ اسلاف کے مقابلہ میں حافظ صاحب مذکور کا کیا تناسب بنتا ہے؟ پھر مزید یہ کہ اُن سے متقدم محدثین و اسلاف نے تین طلاقوں کے تین ہونے کا نظریہ اپنایا ہے۔ اور شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ متقدمین کے مقابلہ میں قولِ متاخرین کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کی بات کب قابلِ مسموع ہو سکتی ہے ۔ ‘‘
(نور العینین صفحہ ۱۳۷، مکتبہ اسلامیہ ، طبع جدی،سنِ اشاعت: اکتوبر ، ۲۰۱۲ء )
علی زئی صاحب کی اس عبارت کے پیش نظرہم کہتے ہیں کہ متقدمین (اسلاف: فقہاء اورمحدثین )کے مقابلہ میں غیرمقلدین اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے قیاسات ناقابلِ سماعت ہیں۔
مسئلہ طلاق کو نماز کے اوقات پر قیاس
مولانا امین محمدی غیرمقلد اپنے ’مقالہ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’ سوال کرو کہ دن رات میں پانچ نماز یں فرض ہیں کیا فجر کے وقت سارے دن کی پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنا جائز ہے۔ اور اگر نہیں تو کوئی شخص فجر کے وقت ہی تمام نماز یں پڑھ لے تو ساری نمازیں ہو جائیں گی یا صرف ایک ہی ہوگی ۔‘‘
(مقالہ بحوالہ جواب مقالہ صفحہ ۱۳۸)
الجواب:
محمدی صاحب نے طلاقوں کو نماز پر قیاس کیا جس طرح اکٹھی نمازیں پڑھنے سے ایک ہوتی ہے، اسی طرح اکٹھی طلاقیں دینے سے بھی ایک ہوگی۔ پہلی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین کے ہاں خاص کر حلال و حرام کے مسئلہ میں قیاس حجت نہیں جیسا کہ آگے ’’ البیان المحکم ‘‘ کے حوالہ سے منقول ہوگا ان شاء اللہ ۔
دوسری بات یہ ہے کہ نمازوں کو اپنے اپنے وقت پر پڑھنے کے لیے قرآنی حکم موجود ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتً عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا۔ آگے حضرت مولانا حافظ عبد القدوس خان قارن دام ظلہ کی سنیں۔وہ لکھتے ہیں:
’’ نمازوں کے اوقات ان کے لئے اسباب ہیں کہ اس سے پہلے نماز جائز نہیں بلکہ فاسد اور غیر معتبر ہے جب کہ طلاق کے لیے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے کہ اس وقت سے اس کو مقدم کرنا غیر معتبر ہو ۔ اس لیے جناب محمدی صاحب کا طلاق کو نمازوں پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔ ‘‘
( جواب مقالہ صفحہ ۱۳۹)
تیسرا یہ کہ غیرمقلدین کے ہاں تو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنا جائز ہے ۔
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری فٹ بال کھیلنے والوں کو مسئلہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ کھیلنے والوں کو چاہیے کہ پہلے افسروں سے تصفیہ کرلیں کہ نماز کے وقت کھیل کو د چھوڑ دیں۔وہ اگر نہ مانیں تو ظہر کے ساتھ عصر ملا لیں۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ :۱؍۶۳۲)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اَلْجَمْعُ بَیْنَ الصَّلٰوتَیْنِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَّلَا سَفَرٍ وَّلَا مَطَرٍ جَائِزٌ عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ ۔‘‘
( ھدیۃ المھدی :۱؍۱۰۹)
ترجمہ:بغیر عذر ، بغیر سفراور بغیر بارش کے نمازوں کو اکٹھے پڑھنا اہلِ حدیث کے ہاں جائز ہے ۔“
اوقات ِ نماز پر ایک اور صاحب کا قیاس
حافظ عبد الغفور غیرمقلد (خطیب جامع مسجد اہلِ حدیث سرگودھا ) لکھتے ہیں:
’’ایک آدمی فجر کے وقت ظہر اور عصر کی نماز بھی پڑھ لیتا ہے تو س کی وہی ایک نماز فجر ادا ہوگی جو اس نے وقت پر پڑھی ہے ۔باقی دو نمازیں اس نے بے مقصد پڑھیں کیوں کہ ان کا ابھی وقت نہیں تھا۔ اسی طرح جو شخص پہلے ماہ میں تینوں طلاقیں دے دیتا ہے اس کی ایک طلاق شمار ہوگی کیوں کہ پہلے ماہ میں پہلی طلاق کا وقت ہے، باقی کا نہ وقت اور نہ شمار ہوں گی۔ ‘‘
(البیان المحکم صفحہ ۵۳)
الجواب:
اول :خطیب صاحب خود ہی لکھ چکے کہ :
’’حلت و حرمت کے مسئلہ میں نص صریح ہونی چاہیے ۔رائے قیاس اور تاویل سے ایسے اہم مسئلے طے نہیں ہوتے۔‘‘
(البیان المحکم صفحہ ۲۷)
اپنے اس اصول کے خلاف خود ہی قیاس کر رہے ہیں ۔
نیز اگر طلاق کے وقت کو مدار بنا نا ہے تو پھر حالتِ حیض میں طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ حالت
حیض طلاق دینے کا وقت نہیں مگر غیرمقلدین کی اکثریت کے نزدیک ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ ہماری اسی کتاب کا ’’باب : ۱۶،غیرشرعی طلاق کا وقوع ‘‘ دیکھئے ۔
اسی طرح تین اکٹھی طلاقیں دینا بھی ممنوع ہے مگر واقع ہوجانی چاہییں۔مزید یہ کہ اکٹھی تین طلاقوں کے لیے شرع میں کوئی وقت جواز نہیں ہے، آپ کے قیاس کی رُو سے تواکٹھی تین طلاقیں دینے کی صورت میں تو ایک طلاق بھی نہیں ہونی چاہیے ۔
مدخولہ کو غیرمدخولہ پر قیاس
قاضی شوکانی نے کہا:
” جب غیر موطؤۃ کی تین متفرق طلاقیں ایک سمجھی جاتی ہے تو موطؤۃ کی بھی اسی طرح ایک ہی سمجھی جائے گی ۔“
(نیل الاوطار : ۶؍۲۴۸ )
الجواب:
یہ قیاس اس لیے غلط ہے کہ جس عورت سے ہم بستری نہیں کی گئی اسے کوئی ’’ تجھے طلاق دی ‘ ‘ کہتا ہے تو وہ بیوی اس سے بالکل جدا ہو جاتی ہے۔(فتاوی نذیریہ :۳؍۴۷)
اس کے بعد وہ دوسری طلاق کا محل نہیں رہتی اوراس کے بالمقابل جس سے ہم بستری ہو چکی ہو وہ ایک طلاق کے بعد دوسری اورپھر تیسری طلاق کا محل رہتی ہے۔جب اسے تین طلاقیں دی جائیں تو وہ ان سے بائنہ ہو جاتی ہے ۔
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ جس عورت سے صحبت نہ کی ہو وہ ایک ہی طلاق میں بائن ہوجاتی ہے اور جس سے صحبت کر چکا ہے وہ تین طلاق میں بائن ہوتی ہے۔‘‘
( شرح موطا امام مالک صفحہ ۳۸۲)
لہذا مدخولہ کو غیرمدخولہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ۔
طلاق الحائض اور ایک مجلس کی اکٹھی تین طلاقوں کو نماز پر قیاس
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اگر طلاق کے وقت مقررہ کے خلاف بحالت حیض و نفاس طلاق دی تو بھی طلاق اسی طرح باطل و مردود ہوگی جس طرح آج کی ظہر کی نماز کے وقت آنے والے کل کی نماز پڑھنے سے کل والی نماز ظہر باطل قرار پائے۔ اس کاحاصل یہ نکلا کہ بحالت حیض دی ہوئی طلاق باطل اور بحالت طہر ایک سے زائد دی ہوئی طلاقیں بھی باطل اور لغو ہو کر صرف ایک طلاق واقع ہوگی۔ ‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۱۶)
الجواب:
طلاق الحائض کے عدم وقوع کو نماز پر قیاس کرنا کئی وجوہ سے غلط ہے :
۱۔ احادیث کے مطابق حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔اس لئے ندوی صاحب کا یہ قیاس احادیث کے خلاف ہے جیسا کہ اوپر ’’ حدیث کے خلاف قیاس‘‘ کے تحت مولانا مبشر احمد ربانی غیرمقلدنے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی رائے کو خلاف ِ نص قرار دیا ہے ۔جس طرح حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا قیاس نص (حدیث )کے خلاف ہے ،اسی طرح ندوی صاحب وغیرہ اُن آلِ غیرمقلدیت کا قیاس بھی خلافِ نص ہے جو حالت ِ حیض میں دی جانے والی طلاق کا وقوع تسلیم نہیں کرتے۔اور جو قیاس نص کے خلاف ہو اس کی حیثیت کیا ہوتی ہے اور ایسے قیاس کرنے والے کا کیا مقام ہوتا ہے، اسے غیرمقلدین کی زبانی ہم اپنی کتاب ’’ غیرمقلدین کا قیاسی دین ‘‘ میں باحوالہ نقل کر چکے ہیں۔
۲۔ اوپر مولانا عبد الغفور غیرمقلد کی عبارت منقول ہو چکی کہ حرام و حلال کے مسئلہ میں قیاس کافی نہیں ہوتا۔
۳۔ غیرمقلدین کے ہاں تو دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ علامہ وحید الزمان کی تصریح کے مطابق اہلِ حدیث کی علامت ہے ۔
’’ اَلْجَمْعُ بَیْنَ الصَّلٰوتَیْنِ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ وَلَا سَفَرٍ وَلَا مَطَرٍ عِنْدَ اَھْلِ الْحَدِیْثِ۔‘‘
(ہدیۃ المھدی: ۱؍۱۹۰ )
ترجمہ : اہلِ حدیث کے نزدیک بغیر عذر، بغیر سفراور بغیر بارش کے دونمازوں کو جمع کرنا جائز ہے ۔ “
اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کا فتوی ہے کہ فٹ بال کھیلنے کے لئے عصرکو نماز کو ظہر کے وقت میں پڑھ سکتے ہیں۔ ( فتاویٰ ثنائیہ:۱؍۱۳۶ )
غیرمقلدین کے ہاں جس طرح ایک وقت میں دو نمازیں پڑھنا درست ہے، اسی طرح ایک وقت کی تین طلاقوں میں سے دو کا واقع ہونا اُن کے قیاس کے مطابق صحیح ہونا چاہیے مگر غیرمقلدین تو ایک طلاق کے وقوع کومانتے ہیں بس،نہ کے دو کے وقوع کو۔
مزید یہ کہ غیرمقلدین کے ہاں ایک ماہ میں کئی بار مثلاً آٹھ دس مرتبہ دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے تو جمع بین الصلوٰتین پہ قیاس کرتے ہوئے ایک طہر میں کئی بارالگ الگ مجالس میں دی جانے والی تین طلاقوں میں سے ایک ایک طلاق واقع ہوجانی چاہیے مگر وہ اس قیاس کو نہیں مانتے بلکہ یہ رائے رکھتے ہیں ایک ہی طہر میں اگرچہ کئی مواقع اور متعدد مجالس میں تین طلاقیں دی ہوں تو وہ صرف ایک ہی ہوگی۔ بلکہ بعض غیرمقلدین کے ہاں تو اگر پچھلی طلاق سے رجوع نہ کیا ہو تو اگلے طہروں میں دی جانے والی طلاق بھی کالعدم ہے ۔
تین طلاق دینے والوں کے لیے قیاس سے سزا کا تعین
مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ میرے خیال میں یک بارگی تین طلاق کی سزاکو ظہار کی سزا یا کفارہ پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۱۰۳)
کیلانی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’دور نبوی میں یہ جرم چوں کہ محدود پیمانہ پہ تھا، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہِ شفقت اس کا کوئی کفارہ مقرر نہ فرمایا...اس کا کفارہ ظہار کے مطابق ہو نا چاہیے یعنی غلام آزاد کرنا یا متواتر دو ماہ کے روزے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۴)
کیلانی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ اس کا کفارہ ظہار کے مطابق ہو نا چاہیے یعنی غلام آزاد کرنا یا متواتر دو ماہ کے روزے یاساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ آج کل غلامی کا دَور بیت چکا ،لہٰذا یہ شق خارج اَز بحث ہے۔پھر آج کل افراط کی وجہ سے اکثر لوگوں کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی سزا کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اندریں صورت میرے خیال میں متواتر دو ماہ روزے فی الحقیقت ایسا کفارہ ہے جس سے مجرم کو اور دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر ایک آدمی کو ایسی سزا مل جائے تو عوام الناس کو یقینا اس بات کا فوری طور پر علم ہو جائے گا کہ بیک وقت تین طلاق دینا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی طریقہ طلاق سیکھ کر اسے اپنا لیں گے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۱۰۴)
الجواب:
کیلانی صاحب کو اعتراف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاق دینے والے پر کفارہ مقرر نہیں فرمایا،پھر بھی وہ کفارہ لازم قرار دینے کی بات کر رہے ہیں ۔ پھرانہوں نے اس کفارہ کوکفارہ ظہار پر قیاس کیا، پھر ظہار کے کفارے میں سے مسکینوں کو کھانا کھلانے کی شق کو رد کر دیا یعنی مقیس علیہ مسئلے کا ایک جز خود ہی ناقابل عمل قرار دے دیا۔
نیز کیلانی صاحب نے اس طرف غور نہیں کیا جب ان کے مذہب میں تین طلاق دینا ایک رجعی طلاق ہے، رجوع کے بعد عورت بدستور اس کی بیوی ہے تو کیا طلاق دینے والا متواتر دو ماہ روزے رکھنے کا آپ کا قیاسی مسئلہ قبول کرے گا ؟ ہاں اگر آپ اسے یہ حکم دیں کہ جب تک متواتر دو ماہ کے روزے نہ رکھیں تب تک رجوع کی اجازت نہیں،تب اس کی مجبوری ہوگی کہ وہ روزے رکھے۔مگر یہاں یہ مشکل پیش آسکتی ہے کہ دو ماہ کے روزے مکمل ہونے پر رجوع کی مدت یعنی عدت ہی ختم ہو جائے۔ کیوں کہ مطلقہ کی عدت تین حیض ہیں دو ماہ میں بھی تین حیض آ سکتے ہیں اس طرح کہ پہلا حیض طلاق کے فوراً بعد شام کو یا اگلے دن آجائے ۔
جان بوجھ کر روزہ توڑ دینے کا کفارہ متواتر دو ماہ روزے رکھنا جو کہ قرآن میں منصوص ہے لوگ اسے اپنانے کی بجائے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیتے ہیں ۔تو کیا لوگ آپ کے قیاسی فتوے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے متواتر دو ماہ روزے رکھیں گے؟ کیلانی صاحب کے اس قیاسی مسئلہ پر آج تک کسی غیرمقلد نے عمل کیا ہے ،صرف ایک ہی آدمی بتا دیا جائے جس نے اسے اختیار کیا ہو ؟ اگر کسی ایک نے بھی عمل نہیں کیا تو یہ کہنا بجا ہے کہ ان کا یہ قیاسی مسئلہ صرف کتاب کی زینت ہے عملاً اس کا کوئی وجود ہی نہیں ۔
تکرار طلاق کو تکرار نکاح پر قیاس
بعض غیرمقلدین کہتے ہیں جس طرح بوقت نکاح تین بار’’ قبول ،قبول قبول ہے‘‘ کہنے سے تین کی بجائے ایک نکاح ہوتا ہے،اسی طرح تین بار طلاق کہنے سے طلاق بھی ایک ہوتی ہے۔یہ قیاس غیرمقلدین کے خطیب سید سبطین شاہ نقوی نے بھی اپنی تقریرمیں پیش کیا ہے۔
الجواب:
مدثرکلیم سبحانی غیرمقلد کے مرتب کردہ مضمون ’’ سٹیج کے ادا کار یا ...‘‘ میں ہے:
’’چٹکلے بازی عام ہو نے لگی۔مطالعہ کے فقدان کی وجہ سے کئی خطیب حضرات تو اخبار کے اسلامی صفحے سے خطبات تیار کرنے لگے۔ ضعیف روایات کی بھر مار ہوگئی۔ اُمت صحیح دلائل سے دُور ہوتی گئی۔ مثال کے طور پر ہمارے دلائل کچھ ایسے ہو گئے کہ اگر کسی خطیب صاحب سے پوچھا گیا کہ ایک مجلس میں تین دفعہ طلاق کہنے سے ایک طلاق واقعی ہو تی ہے اس کی دلیل کیا ہے؟ خطیب صاحب فرمانے لگے : جب آپ کا نکاح ہوا تھا تو مولوی صاحب نے تین دفعہ قبول قبول قبول کہلوایا تھا نکاح کتنے ہوئے؟ عوام زور سے بولی : ایک نکاح ہوا تو مولوی صاحب نے کہا: جن تین دفعہ کی قبول سے نکاح ایک ہوا تو تین دفعہ کی طلاق سے طلاق بھی ایک ہی ہوئی، لو جی ! نعرہ لگ گیا ،نعرہ تکبیر ۔ اللہ اکبر ۔ للکار للکار ہے شیر کی للکار ہے۔ بہرحال جب مشائخ کو سٹیج سے دُور کردیا گیا تو سٹیج کی آبرو پامال ہونا شروع ہو گئی اور اس کو سنبھالنے والا کوئی نہ تھا، جہلاء دندلانے لگے۔ اہل علم کو ہم نے مدرسہ میں تدریس تک محدودکر دیا کہ شیخ صاحب کی گفتگو طالب علموں کو ہی سمجھ آتی ہے، ہمیں سمجھ نہیں آتی۔ بس پھر آج یہ دن ہے کہ سٹیج پر قرآن غلط پڑھا جا رہا بلکہ منہج تک کا علم نہیں، ایسی ایسی فضولیات سامنے آ رہی ہیں کہ الامان والحفیظ۔‘‘
(ماہ نامہ علم و آگہی فیصل آباد ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ؍نومبر ۲۰۲۲ء صفحہ ۱۷)
مدثر کلیم سبحانی کی اس تردید کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس عبارت سے مذکورہ قیاس کرنے
والوں کی اپنی حیثیت بھی متعین ہوگئی۔
طلاق کو لعان کی چار قسمیں اُٹھانے پر قیاس
غیرمقلدین کے فتاوی میں ’’مسک الختام ‘‘ کے حوالہ سے لکھا:
’’ جو تین بار طلاق کا مکلف ہو وہ ایک بار تین طلاق کہہ دینے سے تین نہیں سمجھے گا، مثلاً اگر کوئی لعان میں کہے میں خدا کی قسم اُٹھا کر چار گواہیاں دیتا ہوں کہ میں سچا ہوں تو یہ ایک گواہی ہے ، نہ چار۔‘‘
( فتاویٰ نذیریہ :۳؍۴۵)
الجواب:
یہ قیاس حافظ ابن قیم رحمہ اللہ سے لیا گیا ، انہوں نے یہ قیاس اغاثۃ اللفہان :۱؍۳۰۱میں تحریر کیا ۔ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ اِس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’ اس سے بھی استدلال تام نہیں ہے جس کی تفصیل یوں ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگائے تو قرآن وحدیث کی تصریح کے مطابق اس کو چار گواہ قائم کرنے پڑیں گے۔اگر تین گواہ ہوں اور چوتھا مہیا نہ ہو سکے تو الزام لگانے والے کو اَسی ۸۰ کوڑے سزا ہوگی اور یہ حکم منصوص ہے۔ اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام عائد کرتا ہے اور گواہ موجود نہیں تو اس صورت میں لعان ہوگا جو ایسی شہادت اور گواہی کانام ہے جس میں قسمیں لعنت کے لفظ سے ملی ہوئی ہوں اور یہ لعان خاوند کے حق میں حد قذف کے قائم مقام ہے اور عورت کے حق میں حدزنا کے قائم مقام ہے اور حدقذف اور حد زنا دونوں حدود کی مد ہیں اور آپ اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ یہ چار شہادتیں چار گواہوں کے عوض میں ہیں ان میں الگ الگ چار گواہ مطلوب ہیں تین سے بھی کام نہیں چل سکتا تو پھر لعان میں شہادتیں بھی ایسی ہی سمجھئے ۔ علاوہ اَزیں حدود میں معمولی شبہ کی بنا پر بھی حد کو ٹال دیا جانا شرعا ً مستحسن ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ۔آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِدْرَءُ وْا الْحُدُوْدَ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔ الحدیث (الجامع الصغیر :۱؍۱۴ وقال صحیح ) کہ مسلمانوں سے جتنا بھی تمہارے بس میں ہو حدود کو ٹال دو یعنی معمولی شک اور شبہ بھی ہو تو سزا نہ دو تو اس پر تین طلاقوں کے ایک ہونے کا قیاس باطل و مردود ہے کیوں کہ طلاق تو مسخرہ سے بھی واقع ہو جاتی ہے اور جب ان میں اتنا واضح فرق موجود ہے تو ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ‘‘
(عمدۃ الاثات صفحہ ۱۲۱)
طلاق کو تسبیح کی گنتی پر قیاس
غیرمقلدین کے فتاوی میں لکھاہے :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سبحان اللہ وبحمدہ ...سوبارپڑھے ۔ تواگر کوئی کہے سبحان اللہ وبحمدہ سو بار تووہ سو بار نہیں ہوگا بلکہ ایک بار ہوگا۔‘‘
( فتاویٰ نذیریہ :۳؍۴۵)
الجواب:
مدعیان اہلِ حدیث اس قیاس میں بھی حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے پیچھے چلے ہیں، اس طرح کا قیاس انہوں نے اغاثۃ اللفہان :۱؍۳۰۱، اور زاد المعاد:۴؍۵۳ میں پیش کیا ہے ۔
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’حافظ ابن القیم ؒ کا یہ فرمانا بھی بالکل بے جا اور بے کار ہے ۔ اوّلا : اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ذِکر فی نفسہ مطلوب و محمود ہے پھر اس پر طلاق جیسی مبغوض چیزکاقیاس کرنابے سود ہے۔وثانیا: اللہ تعالیٰ کے ذِکر اور اس کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے کی کوئی آخری حدمقرر نہیں ہے وہ جتنا زیادہ ہو اتنا ہی پسندیدہ ہے اور ارشاد خدا وندی یہ ہے کہ اُذْکُرُو االلّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا اورصبح و شام دِن اور رات ہر وقت اور قیام و قعود اور کروٹ پر لیٹے ہوئے ہر حالت میں مطلوب ہے۔ اس پر طلاق کو قیاس کرنا جس کی شرعا ًحد مقرر ہے اور آخری حد تین ہے اور ہے بھی مبغوض بعید اَز انصاف ہے ۔وثالثا: آں حضرت صلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح یوں بھی ادا فرمائی ہے : سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ خَلْقِہٖ ، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے اس کی مخلوق کی گنتی کے عدد میں ۔ (ترمذی جلد ۲ صفحہ ۱۹۴ وقال حسن صحیح )اور ایک روایت میں آتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ ؓ بنت حی کے پاس گئے تو دیکھا کہ ان کے سامنے کھجور کی چار ہزار گھٹلیاں پڑی ہیں اور وہ ان پرتسبیح پڑھ رہی ہیں، آپ نے فرمایا کہ میں نے تیرے پاس کھڑے ہو کر اس سے زیاد تسبیح پڑھ لی ہے، وہ فرمانے لگیں ـ:حضرت مجھے بھی اس کی تعلیم دیں آپ نے فرمایا کہ : قُوْلِیْ سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ مِنْ شَیْءٍ، تو کہہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ہر اس مخلوق کی گنتی کے برابر جو اُس نے پیدا کی ہے۔(مستدرک حاکم جلدا صفحہ ۵۴۷ قال الحاکم ؒ والذھبی ؒ صحیح ) اورایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا : قُوْلِیْ سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِی السَّمَاءِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِی الْاَرْض الخ تو کہہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اس مخلوق کی تعداد کے برابر جو اُس نے آسمان میں پیدا کی ہے اور اس مخلوق کی تعداد میں جو اُس نے زمین میں پیدا کی ہے ۔ ( مستدرک جلد ا ۵۴۸،سکت عند الحاکم ؒ وقال الذھبی صحیح )اور جامع المسانید صفحہ ۱۱۶ میں ہے : سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا فِی السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا اَحْصٰی فِیْ کِتَابِہٖ، سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ کُلِّ شَیْءٍ الخ ان صحیح حدیثوں سے معلوم ہوا کہ ایک دفعہ کہنے سے بھی اللہ تعالی کی ساری مخلوق کی گنتی کی مقدار میں تسبیح ادا ہو جاتی ہے۔ ورنہ آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یہ ہرگز نہ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کی گنتی کی مقدار پر سبحان اللہ اور اسی طرح اس مخلوق کی الگ الگ شمارفرماتے مثلاً تمام انسانوں سے ایک ایک کا نام لیتے اور اسی طرح فرشتوں اور جنوں میں سے ایک ایک شمار کرتے اور حتی کہ آسمان وزمین کے ایک ایک ذرہ کو جدا جدا گنتے۔علاوہ اَزین معمولی سمجھ والا آدمی بھی اس امر کو بخوبی جانتا ہے کہ عدد اور گنتی میں جب دہائی، سینکڑہ اور ہزار وغیرہ ذِکر کیا جاتا ہے تو یوں نہیں کرتے کہ ایک ایک اکائی کو الگ الگ اور جدا جدا بیان کریں بلکہ ایک ہی دفعہ دس یا سو، یا ہزار وغیرہ کہاجائے تو اس کو ایک نہیں قرار دیا جاتا اور نہ کہاجاتا ہے کہ چوں کہ ایک دفعہ اس نے مثلا سو کہہ دیا ہے ،لہذا یہ ایک ہی تصور ہوگا بلکہ اس کو سو ہی سمجھا جاتا ہے اگرچہ وہ ایک ایک کرکے سو نہ کہے بلکہ دفعۃً سو کہہ دے یہی حال تین طلاقوں کا سمجھئے۔ہاں عیسائیوں کے قاعدے کے
مطابق تین کا ایک ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے۔ ‘‘
(عمدۃ الاثات صفحہ ۱۲۱تا ۱۲۳)
مسئلہ طلاق کوالفاظِ قسم پر قیاس
کچھ لوگ مسئلہ طلاق کو الفاط قسم پر قیاس کیا کرتے ہیں کہ جس طرح بیک وقت تین قسمیں کھانا ایک قسم شمار ہوتی ہے،اسی طرح ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں بھی ایک طلاق شمار ہونی چاہیے ۔ غیرمقلدین کے فتاوی میں لکھا ہے :
’’اور اگر قسامت میں کوئی آدمی کہے، میں خدا کی قسم کھا کرپچاس قسمیں اٹھاتا ہوں تو وہ پچاس نہ ہوں گی بلکہ ایک قسم ہوگی۔‘‘
( فتاویٰ نذیریہ :۳؍۴۵)
الجواب:
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دام ظلہ لکھتے ہیں:
’’جو حضرات اکھٹی دی گئی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرتے ہیں،ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح قسم کھائے کہ ’’ احلف باللہ ثلا ثا۔‘‘ ( یعنی میں تین بار اللہ کی قسم کھاتا ہوں) تو یہ ایک ہی قسم شمار ہوگی، تین نہیں ہوں گی ، تو پھر طلاق دینے والے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ اس اشکا ل کا جواب یہ ہے کہ یہ طلاق کو قسم پر قیاس کرنا درست نہیں،اس لئے کہ دونوں میں فرق ہے ، وہ فرق یہ ہے کہ طلاق دینے والا انشاء طلاق کرتا ہے اور شریعت نے طلاق کی آخری حد تین قرار دی ہے، لہذا جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ’’ انت طالق ثلا ثا‘‘تو گویا اس نے یہ کہا’’ انت طالق جمیع الطلاق ‘‘ یعنی تجھے تمام طلاقیں دیتا ہوں ۔ لیکن جہاں تک قسم کھانے والے کا تعلق ہے تو اس قسم کی کوئی آخری حد مقرر نہیں ہے اس لئے طلاق اور قسم میں فرق ہے۔ ‘‘
( فقہی مقالات۳؍۲۱۰، میمن اسلامک پبلشرز )
شوہر کو وکیل پر قیاس
بعض غیرمقلدین کہتے ہیں اگر ایک آدمی نے دوسرے کو وکیل بنایا کہ تو میری بیوی کو میری طرف سے
ایک طلاق دے اس نے تین طلاقیں دیں تو ایک طلاق واقع ہوگی ،اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے اس کو بیک وقت ایک طلاق دینے کا اختیار دیا ہے اور اس نے تین طلاقیں دیں تو وہ بھی ایک ہوگی ۔
الجواب:
حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ لکھتے ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ طلاق دہندہ شوہر کا وکیل پر قیاس کرنا درست نہیں کیوں کہ وکیل اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے مؤکل کے حکم کے مطابق کام کرے گا تو وہ کام صحیح اور معتبر ہے اور اگر اس کے خلاف کرے گا تو اس کام کا اعتبار نہ ہوگا ،نہ وہ مؤکل پر لازم ہوگا ۔ جب کہ شوہر طلاق اپنے لئے دیتا ہے وہ کسی دوسرے کے لیے یا اللہ تعالیٰ کا وکیل بن کر اللہ تعالیٰ کے لیے طلاق نہیں دیتا اور جب آدمی خود اپنا کام کرے تو وہ جس طرح بھی کرے اس پر وہ فعل لازم ہو جاتا ہے مثلا مؤکل نے وکیل کو کہا سفید رومال خرید کر ، وہ سرخ رومال لے آیا تو مؤکل پر اس کا لینا لازم نہیں لیکن خود آدمی جس رنگ کا بھی رومال خرید کرے، وہ اس پر لازم ہو جائے گا اور اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔ اتنے واضح فرق کے باوجود شوہر کو وکیل پر قیاس کرنا کج فہمی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلے وکیل کو طلاق دینے کا اختیار نہ تھا شوہر نے اس کو وکیل بنا کر طلاق دینے کا اختیار تفویض (سپرد) کیا ہے اور قانون یہ ہے کہ وکیل وہی کام کر سکتا ہے جس کا ا س کو اختیار دیا ہے ، اس لئے وہ ایک ہی طلاق دے سکتا ہے تین طلاقیں نہیں دے سکتا ۔اس وجہ سے وکیل کے تین طلاقیں دینے کے باوجود ایک طلاق واقع ہوئی، نہ اس لئے کہ تین طلاقیں ایک ہیں۔ہاں اگر طلاق دہندہ اپنے وکیل کو تین طلاق دینے کا اختیار دے دے اور وہ اکٹھی تین طلاقیں واقع کرے تو وہ تین ہی شمار ہوں گی ۔ ‘‘
( حرام کاری سے بچئے صفحہ ۳۸۵،۳۸۶)
مزید یہ کہ غیرمقلدین کے اس قیاس کاحاصل یہ ہے کہ چوں کہ تین طلاقیں دینے کا اختیار اللہ نے آدمی کو نہیں دیا اس لئے تین واقع نہ ہوں۔ عرض ہے کہ پھر تو ایک بھی واقع نہ ہو۔ اسی طرح بلاوجہ طلاق دینے ،ہنسی مذاق میں طلاق دینے کی بھی اللہ کی طرف سے اجازت نہیں تو اس صورت میں غیرمقلدین کے قیاس کے مطابق طلاق نہیں واقع ہونی چاہیے۔ جب کہ وہ بھی ایسی طلاق کا وقوع مانتے ہیں۔ نیز حالتِ حیض میں بھی شوہر کو طلاق دینے کا اللہ نے اختیار نہیں دیا تو قیاس ِغیرمقلدیت کے مطابق حالتِ حیض میں دی گئی طلاق واقع نہ ہو جب کہ غیرمقلدین کی اکثریت کے نزدیک ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔حوالہ جات ہماری اسی کتاب کے ’’باب :۱۶ ، غیر شرعی ؍ بِدعی طلاق کا وقوع غیرمقلدین کی زبانی ‘‘ میں منقول ہیں۔
سات کنکریوں پرمسئلہ طلاق کو قیاس
بعض غیرمقلدین کہتے ہیں کہ اگرکوئی آدمی اکٹھی سات کنکریاں جمرات کو مارے تو وہ ایک کنکری شمار ہوتی ہے۔اسی طرح کوئی تین طلاقیں دے تو ایک واقع ہونی چاہیے ۔
الجواب :
۱۔ حج عبادت ہے،جب کہ طلاق احکام ِ عقود میں سے ہے، دونوں میں فرق ہے،لہذا طلاق کو حج کے مسئلہ پر قیاس کرنا درست نہیں ۔ حج میں زبان سے نیت کی جاتی ہے توکیا غیرمقلدین اس پر نماز کی نیت کو قیاس کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟ اگر نہیں تو وجہ فرق بتائیں کہ نماز کی نیت کو حج کی نیت پرقیاس کرنا درست کیوں نہیں اور طلاق کے مسئلہ کو حج کے مسئلہ پر قیاس کرنا درست کیوں ہے ؟
۲۔ حج کے مسئلہ میں سات کنکریاں مارنا مطلوب ہے جب کہ طلاق کے مسئلہ میں تین طلاقیں دینا مطلوب نہیں ۔بلکہ یہاں مطلوب تو بیوی کو نکاح سے جدا کرنا ہوتا ہے چاہے اکٹھی تین طلاقیں دے کر ہو یا الگ الگ دینے کی صورت میں ۔ لہذا غیرمطلوب کو مطلوب پر قیاس کرنا درست نہیں ۔
طلاق کا اذان کے کلمات پر قیاس
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد (ناظم جمعیت الِ حدیث بمبئی)لکھتے ہیں:
’’اذان دیتے وقت اللہ اکبر چار مرتبہ دہرانے کے بجائے پہلی ہی بار کہہ دیں ’’ اللہ اکبر اربع مرات‘‘ تو اس سے اذان پوری نہ ہوگی جب تک چار مرتبہ نہ اسی کلمہ کو دہرائیں ۔ ‘‘
( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ ۸۸، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
الجواب:
غیرمقلدین کا یہ قیاس بھی درست نہیں ۔
اول یہ کہ اذان عبادت ہے جب کہ طلاق عقود میں سے یعنی اس کے ذریعہ عقد ِ نکاح کو ختم کیا جاتا ہے ۔ اس لئے یہ قیاس مع الفارق ہے ۔
دوم: اللہ اکبر اربع مرات کہنے سے تو ایک ’’اللہ اکبر‘‘بھی سنت کے مطابق ادا نہیں ہوگا ،اس لئے غیرمقلدین کے اس قیاس کے مطابق اکٹھی تین طلاقیں دینے سے ایک بھی سنت کے مطابق واقع نہ ہونی چاہیے،جب کہ وہ ایسی صورت میں ایک طلاق کے واقع ہونے کے قائل ہیں۔گویا یہ قیاس خو د غیرمقلدین کے نظریہ کے خلاف ہے ۔
حدیث کے خلاف قیاس
ہماری اس کتاب کے’’باب:۱۶ ،غیر شرعی طلاق کا وقوع ‘‘میں احادیث درج ہیں کہ حالت ِ حیض میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔(مفہوم و خلاصہ )
مگرافسوس کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق کو واقع نہ ماننے والے لوگ حدیث کے مقابلہ میں قیاس کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں ۔
مولانا مبشر ربانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ بعض لوگوں نے یہاں قیاس سے کام لیا ہے جیسا کہ ابن قیم وغیرہ ہیں لیکن نص کے مقابلے میں قیاس فاسد الاعتبار ہے ملاحظہ ہو( فتح الباری ۹؍۳۵۵)‘‘
( آپ کے مسائل اور ان کا حل : ۳؍۳۷۵)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی طرح غیرمقلدین کابھی ایک گروہ حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق کا وقوع نہیں مانتا۔ حوالہ جات ہماری اسی کتاب کے ’’باب: ۲۱، مسئلہ تین طلاق میں غیرمقلدین کی تضاد بیانیاں ‘‘ میں دیکھ سکتے ہیں۔ایک حوالہ اس باب میں پیچھے ’’ حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق کو نماز پر قیاس‘‘عنوان کے تحت بھی درج ہے ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا عجیب قیاس
اس باب میں غیرمقلدین کے قیاسات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ غیرمقلدین اس مسئلہ میں چوں کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے خوشہ چین ہیں، اس لئے آخر میں اُن کا قیاس بھی قارئین کی خدمت میں پیش کرکے دعوت ِفکر دیتے ہیں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اپنے مذہب کے مطابق تین طلاقوں کے ایک ہونے پر قیاسی دلیل دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ وَاَمَّا الْقِیَاسُ فَقَدْ تَقَدَّمَ اَنَّ جَمْعَ الثَّلَاثِ مُحَرَّمٌ وَّ بِدْعَۃٌ وَّالْبِدْعَۃُ مَرْدُوْدَۃٌ لِاَنَّھَا لَیْسَتْ عَلٰی اَمْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔‘‘
( زاد المعاد :۴؍۵۵)
ترجمہ: اور رہا قیاس تو ابھی گزر چکا کہ تین طلاق یک مشت دینا حرام اور بدعت ہے اوربدعت مردود ہوتی ہے کیوں کہ وہ طریق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ۔
الجواب:
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ وَالثَّانِیُ اَنَّھَا لَا تَقَعُ بَل تَرِدُ لِاَنَّھَا بِدْعَۃٌ مُحَرَّمَۃٌ وَّالْبِدْعَۃُ مَرْدُوْدَۃٌ لِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَ رَدٌّ ۔‘‘
(زاد المعاد ۴؍۵۴)
ترجمہ: اور دوسرا مذہب اس طلاق کے سلسلے میں یہ ہے کہ یہ نہیں پڑے گی بلکہ رد کردی جائے گی ۔اس لئے کہ یہ بدعت ہے اور بدعت مردود ہے حسبِ ارشاد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ جو عمل ہمارے طریقہ کے خلاف ہو وہ رَد ہے ۔
تعجب ہوتا ہے کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ جس دلیل کو دوسرے؍ مخالف مذہب ’’اکٹھی تین طلاقوں میں سے ایک بھی واقع نہیں ہوتی ‘‘ کی دلیل کے طور پر درج کرتے ہیں،اسی دلیل کو ’’تین کے ایک ہونے پر‘‘اپنی قیاسی دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔
حضرت مولانا عتیق سنبھلی صاحب نے حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کے مذکورہ دونوں حوالے نقل کرنے کے بعد لکھا:
’’ بہرحال کہنا تو صرف یہ تھا کہ دلیلِ قیاس کے حوالے سے جو دلیل پیش فرمائی گئی وہ تعجب خیز ہے اس لیے کہ اسے وہ خود صرف ایک صفحہ پیشتر ہی ایک دوسرے مذہب اور دوسری
رائے کی دلیل کے طور پر ذِکر فرما چکے ہیں ۔ ‘‘
( طلاق ِ ثلاثہ اور حافظ ابن القیمؒ صفحہ ۶۳،الفرقان بک ڈپو نظیر آباد لکھنو)
یہ کہناکہ ’’ چوں کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا بدعت ہے،اس لئے واقع نہیں ہونی چاہیے ۔‘‘یہ قیاس احادیث کے مقابلہ میں ہے۔اس لئے کہ حالتِ حیض میں طلاق دینا طلاق بدعت ہے،مگر احادیث کی رُو سے ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔مولانا مبشر احمد ربانی غیرمقلد نے ’’ آپ کے مسائل اور ان کا حل : ۳؍۳۷۵‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ قیاس نص کے خلاف ہے جیسا کہ اوپر ’’حدیث کے خلاف قیاس ‘‘ عنوان کے تحت اُن کی عبارت ہم نقل کر چکے ہیں۔ حاصل یہ کہ یہ ضابطہ ہی حدیث کے خلاف ہے کہ طلاق بدعت واقع نہیں ہوتی ۔
مزید یہ کہ اگر اسی قیاس کو دلیل بنانا ہے کہ چوں کہ اکٹھی تین طلاقیں دینا بدعت ہے، اس لئے واقع نہ ہوں ۔تب تو ایک طلاق بھی واقع نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ خود حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی ضابطہ کو دوسرے فریق کی دلیل کے طور پر نقل کیا کہ ایسی صورت میں ایک بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں