نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہؒ، جلیل القدر، ثقہ و ثبت محدث امام مسعر بن کدامؒ کی نظر میں


امام ابو حنیفہؒ، جلیل القدر، ثقہ و ثبت محدث امام مسعر بن کدامؒ کی نظر میں


 مسعر بن کدامؒ کا تعارف

امام مسعر بن کدامؒ حدیث کے جلیل القدر امام، زاہد، فقیہ اور ثبت المحدثین میں سے ہیں۔ ان کے علم، دیانت، ثقاہت اور حفظِ حدیث کی گواہی اکابر محدثین نے دی ہے،  جلیل القدر محدثین نے امام مسعر کو "ثقة، ثبت، امام، فاضل" جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے ۔ مسعر بن کدام  کی روایت کو محدثین حجت و دلیل سمجھتے ہیں ، یہی امام مسعر امام ابو حنیفہ کی تعریف میں کیا کہتے ہیں ملاحظہ ہو۔

 امام ابو حنیفہ کا رتبہ فقہ میں بقول امام مسعر :- 

٢٥٩ - حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : سمعت أبا بشر الدولابي يقول : سمعت إبراهيم بن سعيد الجوهري يقول : سمعت عبيد الله بن موسى يقول : سمعت مسعر بن كدام يقول : رحم الله أبا حنيفة ، إن كان لفقيهاً عالما.

 ( فضائل أبي حنيفة ) 

مسعر بن کدام فرماتے ہیں : اللہ امام ابو حنیفہؒ پر رحم کرے، بے شک وہ بڑے فقیہ اور بڑے عالم تھے۔

دوسرا قول: امام ابو حنیفہؒ کا حدیث میں رتبہ بقول امام مسعر :- 

أَبُو يَحْيَى بْنُ أَبِي مَيْسَرَةَ، ثَنَا خَلادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَالَ مِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ: «طَلَبْتُ مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ الْحَدِيثَ، فَغَلَبَنَا وَأَخَذْنَا فِي الزُّهْدِ، فَبَرَعَ عَلَيْنَا وَطَلَبْنَا مَعَهُ الْفِقْهَ، فَجَاءَ مِنْهُ مَا تَرَوْنَ» ( مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ١/‏٤٣)

"میں نے امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ حدیث کا علم حاصل کیا، تو وہ ہم پر غالب آ گئے۔ پھر ہم نے زہد کی طرف رخ کیا، اس میں بھی وہ ہم سے بڑھ گئے۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ فقہ حاصل کی، تو آپ نے وہ کمال دکھایا جو تم دیکھ رہے ہو۔"

فائدہ :- یہ جملہ امام مسعر بن کدامؒ جیسے عظیم محدث کی طرف سے آیا ہے، جو خود روایت حدیث میں ثقہ ثبت کا درجہ رکھتے ہیں ۔

تنبیہ :- غالب گمان ہے کہ یہ قول امام ذہبی نے امام ابن کاس نخعی کی کتاب سے نقل کیا ہے. کیونکہ امام ذہبی کے پاس امام ابن کاس اور امام طحاوی کی امام ابو حنیفہ کے مناقب پر لکھی کتابیں تھیں. اور وہ ان کتابوں سے اپنی کتاب میں اقوال نقل کرتے ہیں. اسی طرح کے قول کو امام حارثی نے متصل سندوں کے ساتھ اپنی کتاب" کشف الآثار" میں بھی نقل کیا ہے.

٢٤٣ - حدثنا إبراهيم بن علي الترمذي، قال: حدثنا أحمد بن حبان، عن خلاد بن يحيى بن صفوان، قال: قال مسعر بن كدام: أتيت أبا حنيفة وهو يصلي قائماً، فقمت ملياً لا يلتفت إلي، فأخذت حصاة فوضعتها على ثوبه، ثم مضيت، فذهبت ما شاء الله، ثم أتيته، فإذا الحصاة لم تتحرك، ثم قال مسعر: طلبنا مع أبي حنيفة الكلام فغلبنا، وأخذ معنا في الزهد فغلبنا، وأخذ معنا في الفقه فجاء بما ترون.

مسعر بن کدام نے فرمایا: "میں امام ابو حنیفہؒ کے پاس آیا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں ایک طویل وقت تک کھڑا رہا لیکن انہوں نے میری طرف توجہ نہ کی۔چنانچہ میں نے ایک کنکری اٹھائی اور ان کے کپڑے پر رکھ دی، پھر میں چلا گیا اور جتنا اللہ نے چاہا وقت گزر گیا۔جب میں واپس آیا تو دیکھا کہ وہ کنکری ویسے کی ویسے رکھی ہوئی ہے، ہلی تک نہیں تھی۔" پھر مسعر بن کدامؒ نے کہا: "ہم نے ابو حنیفہؒ کے ساتھ کلام (علمِ کلام) حاصل کیا، وہ ہم پر غالب آ گئے۔

ہم نے ان کے ساتھ زہد حاصل کیا، وہ ہم سے بڑھ گئے۔ہم نے ان کے ساتھ فقہ حاصل کی، تو آپ نے وہ کچھ پیش کیا جو تم آج دیکھ رہے ہو۔" (کشف الآثار للإمام الحارثي، صفحہ 112)

 اس لئے اس کے درست ہونے میں کوئی شک نہیں رہتا. 

اگر دیکھا جائے تو یہ نادر، مگر فیصلہ کن جملہ ہے۔ امام مسعر بن کدامؒ خود اعتراف کر رہے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کس طرح حدیث، زہد اور فقہ میں بلندیاں حاصل کرتے گئے

امام ابو حنیفہ کا رتبہ زہد میں بقول امام مسعر :- 

وعن مسعر بن كدام، قال: دخلت ذات ليلة المسجد فرأيت رجلا يصلي، فاستحليت قراءته فقرأ سبعاً، فَقُلْتُ: يركع، ثُمَّ قرأ الثالث، ثُمَّ النصف، فلم يزل يقرأ القُرْآن حَتَّى ختمه كله في ركعة، فنظرت فَإِذَا هُوَ أَبُو حنيفة. 

مسعر بن کدام فرماتے ہیکہ میں ایک رات مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا ، مجھے اس کی قراءت بہت اچھی لگی ، اس نے قرآن کی ایک منزل تلاوت کی ، میرا خیال تھا کہ وہ اب رکوع کرے گا ، پر اس نے تہائی قرآن پڑھا، پھر نصف ، وہ قرآن پڑھتا ہی رہا حتی کہ اس نے ایک رکعت میں پورا قرآن مکمل کر لیا۔ میں نے دیکھا تو وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تھے ۔ 

( تاریخ بغداد ت بشار 15/488 ، اسنادہ حسن )

گویا امام ابو حنیفہؒ نے علمِ حدیث، زہد، اور فقہ — تینوں میدانوں میں اپنی برتری منوائی۔ یہ اعتراف کسی عام طالب علم کا نہیں، بلکہ اس ثقہ، ثبت، اور امام المحدثین کا ہے جس کی ثقاہت پر محدثین کا اجماع ہے۔ امام مسعر بن کدامؒ جیسے محدثِ کبیر کی یہ شہادت بتاتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ صرف فقیہ نہیں، بلکہ میدانِ حدیث میں بھی امام، حجت اور غالب تھے۔

دوسری بات اگر ایک عظیم محدث کہے کہ ابو حنیفہؒ ہم پر حدیث میں غالب آ گئے، تو یہ بات علمِ حدیث کے طلاب و ماہرین کے لیے بڑی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقاہت کسی مجرد رائے پر نہیں، بلکہ حدیث کی گہرائی اور مہارت پر قائم تھی۔ کیونکہ یقیناً، حدیث میں کامل مہارت کے بغیر فقہ میں کمال درجہ حاصل کرنا ممکن نہیں — اور حدیث میں مہارت کے بغیر کوئی "امام اعظم" نہیں بن سکتا۔ اس لئے امام مسعر بن کدام کی شہادت دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہ فقہ کے ساتھ حدیث میں بھی کمال درجہ رکھتے تھے.

حسد کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ کے خلاف طعن و تشنیع : ایک ثقہ محدث مسعر بن کِدامؒ کی چشم کشا شہادت

مسعر بن کِدامؒ کی یہ گواہی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف طعن و تشنیع کرنے والوں کی حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے۔ :

حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال : سمعت محمد بن حماد يقول: سمعت الحسن بن إسماعيل بن مجالد قال : سمعت وكيع بن الجراح يقول : سمعت مسعر بن كدام يقول : حسد أهل السير النعمان بن ثابت لفهمه وعلمه ، فشنع عليه 

وکیع بن الجراح کہتے ہیں: میں نے مسعر بن کدام کو کہتے ہوئے سنا:

"اہلِ سیر ( محدثین ) نے نعمان بن ثابت (یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سے ان کی فہم و بصیرت اور علم کی وجہ سے حسد کیا، چنانچہ ان پر طعن و تشنیع کرنے لگے۔" ( فضائل أبي حنيفة ص 74 ، سند حسن )

یہ قول اس حقیقت کو نہایت وضاحت سے نمایاں کرتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ پر کی جانے والی تنقید ہمیشہ خلوصِ نیت اور علمی دیانت پر مبنی نہ تھی، بلکہ بہت مرتبہ اس کی جڑیں حسد، بغض اور اُن کی غیر معمولی علمی برتری کو برداشت نہ کر سکنے میں پیوست تھیں۔ مسعر بن کدامؒ جیسے جلیل القدر اور ثقہ محدث کی یہ شہادت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ امام اعظمؒ کے خلاف اٹھنے والی آوازیں اکثر علمی کم مائیگی، تعصب اور ذہنی تنگ نظری کا شاخسانہ تھیں، نہ کہ انصاف پر مبنی علمی اختلاف۔ ان کی یہ گواہی اہلِ علم کو اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہر تنقید کو بلا تحقیق قبول کرنا درست نہیں، خاص طور پر جب وہ ایک ایسے امام پر ہو جس کی فقاہت، تقویٰ اور فہم دین پر امت کا عظیم طبقہ متفق ہو۔




فقہ کی تعریف درحقیقت امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں مہارت کا اعتراف ہے

جب بھی امام ابو حنیفہؒ  کی فقہی عظمت کا اعتراف کیا جاتا ہے، بالخصوص جب امام ابو حنیفہؒ کو "عظیم فقیہ" یا "فقہ میں سب سے بلند مقام رکھنے والا" کہا جاتا ہے، تو یہ محض ان کی فقہ دانی کی تعریف نہیں ہوتی، بلکہ درحقیقت یہ حدیث نبویؐ میں ان کی مہارت، بصیرت اور ثقاہت کا  واضح اعتراف ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ کا پورا ڈھانچہ قرآن و سنت، بالخصوص احادیث نبویہ پر قائم ہے۔ کوئی بھی فقیہ اس وقت تک معتبر نہیں ٹھہرایا جا سکتا جب تک وہ حدیث کے مفاہیم، اسناد، رجال، علل اور اصولِ درایت پر کامل دسترس نہ رکھتا ہو۔فقہ صرف قیاس و رائے کا نام نہیں، بلکہ وہ علم ہے جو قرآن و سنت  کی بنیاد پر پروان چڑھتا ہے۔ جو شخص حدیث سے ناواقف ہو، وہ کبھی صحیح معنوں میں فقہی اجتہاد نہیں کر سکتا۔ اسی تناظر میں، جب ائمہ و محدثین  امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، تو وہ درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، دقتِ نظر، اصولی فہم، اور علمی بصیرت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ فقہ میں بلندی اور عمق اُس وقت ہی معتبر ہوتا ہے جب اس کے پیچھے حدیث کا گہرا علم اور اعتماد موجود ہو۔ اس لیے کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف، ان کی حدیث فہمی کی روشن دلیل ہے۔پس، جو لوگ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کی تعریف کرتے ہیں، وہ خواہ شعوری طور پر نہ بھی کریں، درحقیقت ان کی حدیث میں مہارت، استدلال کی قوت، اور ثقاہت کو بھی تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔ 

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...