امام ابو یوسفؒ پر امام سعید بن منصور سے منقول جرح کا تحقیقی جائزہ:
«سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ مَنْصُورٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِأَبِي يُوسُفَ: رَجُلٌ صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ فِي مَسْجِدِ عَرَفَةَ ثُمَّ وقف حتى (٢٥١ أ) دُفِعَ بِدَفْعِ الْإِمَامِ قَالَ: مَا لَهُ؟ قَالَ: لا بأس به. قال فقال: سبحان اللَّهِ قَدْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَنْ أَفَاضَ مِنْ عَرَنةَ فَلَا حَجَّ لَهُ مَسْجِدُ عَرَفَةَ فِي بَطْنِ عَرْنَةَ . فَقَالَ: أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِالْإِعْلَامِ وَنَحْنُ بِالْفِقْهِ. قَالَ: إِذَا لَمْ تَعْرِفِ الْأَصْلَ فَكَيْفَ تَكُونُ فَقِيهًا»
سعید بن منصور کہتے ہیں:ایک شخص نے قاضی ابو یوسف سے پوچھا:"ایک آدمی نے امام کے ساتھ مسجد عرفہ میں نماز پڑھی، پھر امام کے ساتھ ہی عرفات سے روانہ ہوا، تو اس کا کیا حکم ہے؟" ابو یوسف نے فرمایا: "اس میں کوئی حرج نہیں۔" اس شخص نے کہا: "سبحان اللہ! ابن عباسؓ نے تو فرمایا ہے: جو شخص عرفہ کی وادی عرنہ سے روانہ ہو، اس کا حج نہیں ہوتا، اور مسجد عرفہ وادی عرنہ میں واقع ہے۔" ابو یوسف نے جواب دیا: "تم لوگ اعلانیہ احکام سنانے کے ماہر ہو، اور ہم فقہ میں ماہر ہیں۔" اس شخص نے کہا: "اگر تمہیں اصل بات کا علم ہی نہیں تو فقیہ کیسے ہو سکتے ہو؟"
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/790 )
اول تو اس روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ سعید بن منصور نے یہ بات خود امام ابو یوسفؒ سے سنی ہے یا نہیں، نہ ہی یہ واضح ہے کہ وہ اس وقت ان کے ساتھ موجود تھے یا نہیں، یا اس مجلس میں شریک تھے یا نہیں۔ اس روایت میں اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ شخص جس نے امام ابو یوسفؒ سے سوال کیا، وہ بھی مجہول ہے، اور اس کا تعارف بھی سعید بن منصور نے بیان نہیں کیا۔ اگر سعید بن منصور خود اس مجلس میں موجود ہوتے تو اس کی صراحت کرتے، اور اگر موجود نہیں تھے تو یہ روایت انہیں کس واسطے سے پہنچی؟ کیا اسی مجہول شخص کے واسطے پہنچی؟ ہمیں معلوم نہیں کیونکہ روایت میں اس کی بھی کوئی وضاحت نہیں۔ لہٰذا اس کی سند ہی مشکوک ہو جاتی ہے۔
جہاں تک مسجد عرفہ کے محلِ وقوع کا تعلق ہے، تو اس کی نسبت "عرفہ" کی طرف ہے، نہ کہ "عرنہ" کی طرف، اور اصول یہ ہے کہ لفظ کو ظاہر سے کسی دلیل کے بغیر نہیں پھیرا جا سکتا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں