نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 11 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ حسن بن زیاد لؤلؤی نے امام ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو فارسی میں شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

 


 کتاب  الكامل في ضعفاء الرجال  از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 11 :

امام  ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)  اپنی کتاب  الكامل میں نقل کرتے ہیں   کہ حسن بن زیاد لؤلؤی نے امام ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو فارسی میں شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔


حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عِصْمَةَ، حَدَّثَنا أَحْمَد بْن الفرات، قَالَ: سَمِعْتُ الحسن بن زياد اللؤلؤى يَقُولُ: سَمعتُ أبا حنيفة يَقُولُ لا بأس ان تفتح الصَّلاة بالفارسية.


ہم سے ابن ابی عصمہ نے روایت کی، کہا: ہم سے احمد بن الفرات نے روایت کی، کہا: میں نے حسن بن زیاد لؤلؤی کو کہتے ہوئے سنا: میں نے امام ابو حنیفہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نماز کو فارسی میں شروع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

(الكامل في ضعفاء الرجال ت السرساوي ، 10/122)


جواب نمبر 1:
اس مسئلے میں خود امام صاحبؒ کا رجوع ثابت ہے اور وہ اصحابِ صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) کے موقف کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔

قال صاحب الهداية الحنفي بعد ذكر المسألة: [ويروى رجوعه في أصل المسألة وعليه الاعتماد] الهداية مع شرح فتح القدير ١/ ٢٤٩. وقال الشيخ علاء الدين الحصكفي من الحنفية بعد ذكر المسألة: [لأن الأصح رجوعه -أبو حنيفة- إلى قولهما - أبو يوسف ومحمد- وعليه الفتوى] الدر المختار شرح تنوير الأبصار ١/ ٤٨٤. وأكد العلامة ابن عابدين الحنفي صحة رجوع أبي حنفية عن قوله في هذه المسألة. حاشية ابن عابدين ١/ ٤٨٤.
وخلاصة الأمر أنه تحرم قراءة القرآن بغير العربية ولا تصح الصلاة بذلك .

حنفی فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ کے مصنف نے اس مسئلے کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
"روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اصل مسئلے میں رجوع کر لیا تھا اور اسی رجوع پر اعتماد ہے۔"
(ہدایہ مع شرح فتح القدیر 1/249)

اسی طرح حنفیہ کے بڑے فقیہ شیخ علاء الدین حصکفی نے اس مسئلے کے ذکر کے بعد کہا:
"زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنے دونوں شاگردوں ابو یوسف اور محمد کے قول کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔"
(الدر المختار شرح تنویر الأبصار 1/484)

اور مشہور حنفی عالم علامہ ابن عابدین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اس مسئلے میں اپنے قول سے رجوع کیا۔
(حاشیہ ابن عابدین 1/484) خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کو عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں پڑھنا حرام ہے اور نماز اس سے درست نہیں ہوتی،

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ "میں ہے:  (قوله: ويروى رجوعه إلى آخره) قال العيني - رحمه الله -: وأما الشروع بالفارسية أو القراءة بها فهو جائز عند أبي حنيفة مطلقا وقالا لا يجوز إلا عند العجز وبه قالت الثلاثة وعليه الفتوى وصح رجوع أبي حنيفة إلى قولهما. اهـ."

نماز میں فارسی قراءت کو امام ابو حنیفہؒ نے رخصت کے طور پر جائز کہا، پھر روایت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنے دونوں شاگردوں کے قول کی طرف رجوع کیا اور اسی پر اعتماد ہے۔ چنانچہ علامہ عینیؒ نے بھی وضاحت کی کہ فتویٰ اسی پر ہے اور امام ابو حنیفہؒ کا رجوع بھی اسی پر ثابت ہے۔( كتاب الصلاة، فصل الشروع في الصلاة وبيان إحرامها وأحوالها، ١ / ١١٠ - ١١١، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے: "ولا تجوز القراءة بالفارسية إلا بعذر عند أبي يوسف ومحمد رحمهما الله وبه يفتى. هكذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم ويجوز عند أبي حنيفة - رحمه الله - بالفارسية وبأي لسان كان وهو الصحيح ويروى رجوعه إلى قولهما وعليه الاعتماد. هكذا في الهداية وفي الأسرار هو اختياري وفي التحقيق هو مختار عامة المحققين وعليه الفتوى كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم وهو الأصح. هكذا في مجمع البحرين." فتاویٰ میں ہے کہ امام ابو یوسف اور امام محمدؒ کے نزدیک بغیر عذر کے فارسی قراءت جائز نہیں اور فتویٰ انہی کے قول پر ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے فارسی بلکہ کسی بھی زبان میں قراءت کی اجازت منقول ہے، لیکن ہدایہ، الاسرار، اور محققین کی تصریحات کے مطابق امام ابو حنیفہؒ نے بھی اپنے قول سے رجوع کیا اور ان دونوں (ابو یوسف و محمد) کے قول پر فتویٰ ہے، اور یہی اصح ہے۔ (الباب الرابع في صفة الصلاة، الفصل الأول في فرائض الصلاة، ١ / ٦٩، ط: دار الفكر )


 لہٰذا اس مسئلے کو امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کے طور پر لینا محض فضول ہے۔ تفصیل کے لیے قارئین دیکھیں



جواب نمبر 2:
اس روایت میں ابنِ عدی نے حسن بن زیاد سے امام صاحبؒ کے خلاف نقل کیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حسن بن زیاد پر خود ابنِ عدی نے جرح کی ہے اور ان کو ضعیف قرار دیا ہے۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ ایک ایسے راوی کی روایت کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف دلیل بنائیں جسے آپ خود ہی مجروح مانتے ہیں؟ بہرحال، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔




تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...