اعتراض نمبر 17 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے درمیان جو بھی فقیہ نیک نامی کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا، ابوحنیفہ اُس کی مجلس میں ضرور کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتے تھے۔
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 17 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ مشرق و مغرب کے درمیان جو بھی فقیہ نیک نامی کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا، ابوحنیفہ اُس کی مجلس میں ضرور کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمد بْن يوسف، حَدَّثَنا مُحَمد بن المهلب البُخارِيّ، حَدَّثَنا إِبْرَاهِيم بْن الأشعث، قَالَ: سَمِعْتُ الفضل يَقُول لم يكن بين المشرق والمغرب فقيها يذكر بخير إلا عاب أبو حنيفة مجلسه.
(الكامل في ضعفاء الرجال ت السرساوي ، 10/123)
الجواب :
یہ روایت قابلِ احتجاج نہیں ہے کیونکہ اس کی سند ضعیف ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں راوی إبراهيم بن الأشعث البخاري ہے جس پر محدثین نے جرح کی ہے۔
امام دارقطنی فرماتے ہیں: إِبْرَاهِيم بْن الْأَشْعَث ضَعِيف، يحدث عَن الثِّقَات بِمَا لَا أصل لَه.یعنی: "ابراہیم بن الأشعث ضعیف ہے، ثقہ راویوں سے ایسی چیزیں بیان کرتا ہے جن کی کوئی اصل نہیں۔"(تعليقات الدارقطني على المجروحين لابن حبان ١/٩٥)
امام ہیثمی نے کہا: رواه الطبراني في الأوسط، وفيه إبراهيم بن الأشعث صاحب الفضيل، وهو ضعيف. (مجمع الزوائد ١٠/ ٣٠٣ - ٣٠٤) یعنی: "اسے طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے، اس میں ابراہیم بن الأشعث ہے اور وہ ضعیف ہے۔"
امام ابو حاتم رازی نے کہا: هذا حديث باطل موضوع، كنا نظن بإبراهيم بن الأشعث الخير فقد جاء بمثل هذا. (ميزان الاعتدال ١/٤٥، نقلاً عن أبي حاتم) یعنی: "یہ حدیث باطل اور موضوع ہے۔ ہم ابراہیم بن الأشعث کے بارے میں اچھا گمان رکھتے تھے لیکن اس نے ایسی باطل روایت بیان کی۔"
ابن حبان نے اگرچہ اس کو "الثقات" میں ذکر کیا ہے، لیکن ساتھ ہی کہا: يغرب ويتفرد ويخطئ ويخالف. (الثقات لابن حبان ٨/٤٩) یعنی: "یہ غریب روایتیں بیان کرتا ہے، تنہا روایت کرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے اور مخالفت کرتا ہے۔" غیر مقلد ناصر الدین البانی نے بھی اس پر جرح کی ہے : (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ٦/٩٠) . معلمی یمانی نے بھی اس کی کمزوری واضح کی: زاهد يتكلَّف الرواية فيأتي بالأباطيل. یعنی: "یہ راوی بظاہر زاہد تھا مگر روایت میں تکلّف کرتا اور باطل روایات لے آتا۔" (الفوائد المجموعة ص ٤٨٦، النكت الجياد ١/١٥٢)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں