اعتراض نمبر 24 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے غیر عرب ہونے کے باوجود خود کو عرب قبیلے سے منسوب کیا۔
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 24 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے غیر عرب ہونے کے باوجود خود کو عرب قبیلے سے منسوب کیا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَحْمَدَ بن حفص، حَدَّثَنا زياد بْن أيوب، حَدَّثني إِبْرَاهِيم بْن المنذر الخزامى بالمدينة، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبد الرَّحْمَن المقري يَقُول: قَالَ يَا أَبَا حنيفة ممن أنت قلت أهل دورق قَالَ فما منعك أن تنتمي إِلَى بعض أحياء العرب قَالَ فإني هكذا كنت حَتَّى اعتزيت إِلَى هذا الحي من بَكْر بْن وائل فوجدتهم أحياء صدقا.
اسحاق بن احمد بن حفص بیان کرتے ہیں، کہا ہم سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن منذر خزاعی نے مدینہ میں بیان کیا، کہا: میں نے ابو عبد الرحمن مقری کو یہ کہتے ہوئے سنا: انہوں نے ابو حنیفہ سے کہا: آپ کس قبیلے سے ہیں؟ ابو حنیفہ نے کہا: اہلِ دورق سے۔ اس نے کہا: پھر تم کسی عرب قبیلے کی طرف نسبت کیوں نہیں کرتے؟
ابو حنیفہ نے کہا: میں تو ایسا ہی تھا، پھر میں نے بکر بن وائل کے اس قبیلے کی طرف اپنی نسبت کی، تو میں نے انہیں سچے لوگ پایا۔
(الكامل في ضعفاء الرجال ت السرساوي ، 10/126)
جواب : سند ضعیف ہے ، اسحاق بن احمد بن حفص مجہول راوی ہے ، اس کے علاوہ ابراہیم بن منذر اگرچہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکر ان سے مناکیر بھی ملتی ہیں (تاريخ بغداد ت بشار ٧/١٢٢) ، اور امام ابو حنیفہ سے المقرئ کی سند سے جو صحیح روایت ملتی ہے اس میں صرف یہ ہیکہ انسان تعارف کیلئے قبیلے سے اپنی نسبت بتائے (شرح مشكل الآثار ٧/٢٨٣ ) جیسا کہ الحجرات آیت 13 میں ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب مخالفین امام ابو حنیفہؒ کے علم و تقویٰ میں کوئی کمی نہ پا سکے تو انہوں نے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی پہلو سے امام صاحب کی شخصیت پر طعن کا موقع مل جائے، چنانچہ انہوں نے خاندانی نسب اور پس منظر میں کیچڑ اچھالنے کی کوشش کی۔
کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ امام ابو حنیفہؒ کے اجداد اسلام پر نہ تھے۔ لیکن یہ اعتراض سراسر بے معنی ہے۔ کیا بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام ایسے نہ تھے جو اسلام سے قبل کفر و شرک پر تھے؟ اصل کمال تو یہ ہے کہ جب اسلام کی دعوت پہنچی تو اسے قبول کیا گیا۔ لہٰذا اجداد کے بارے میں یہ کہنا امام صاحب کی شان کو کسی طرح گھٹا نہیں سکتا۔
اسی طرح بعض نے یہ طعن تراشا کہ امام ابو حنیفہؒ غلام خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بھی بے بنیاد اور بے دلیل دعویٰ ہے۔ اور اگر بالفرض اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو غلامی عیب نہیں۔ حضرت بلال حبشیؓ اور دیگر بہت سے صحابہ غلام رہ چکے تھے، مگر اسلام نے انہیں عزت و مرتبہ عطا کیا۔ غلامی اسلام میں باعثِ ننگ نہیں بلکہ آزادی کے بعد ایمان اور عمل ہی اصل معیار ہے۔
مزید برآں، کچھ لوگوں نے یہ جھوٹا پروپیگنڈا کیا کہ امام ابو حنیفہؒ نے اپنا نسب بدل دیا اور عرب قبیلے کی طرف منسوب ہونا شروع کیا۔ حالانکہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے اور جمہور محدثین و محققین نے اس کو ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ اس کے برخلاف صحیح روایات واضح کرتی ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ فارسی النسل تھے، کسی بھی معتبر سند سے یہ بات ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنا نسب بدلنے کا دعویٰ کیا ہو۔
ان سب باتوں سے حقیقت آشکار ہے کہ مخالفین جب علمی میدان میں مغلوب ہوئے تو انہوں نے نسب اور خاندانی پس منظر جیسے کمزور اور غیر متعلق امور کو ہتھیار بنایا۔ یہ رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا بعض باطل فرقے صحابہ کرامؓ پر کیچڑ اچھال کر اختیار کرتے ہیں۔ دراصل یہ کمزور دلائل اور تعصب کی علامت ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہؒ کو عزت بخشی اور ان کا نام تا قیامت باقی رکھا۔ جو لوگ ان پر جھوٹے طعن کرتے ہیں، حقیقت میں وہی خود اپنی رسوائی کا سامان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے، ورنہ ان کے یہ طعن اور افتراء انہی پر پلٹ جائیں گے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں