كتاب السنة از عبدالله بن أحمد بن حنبل (ت 290 هـ) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
كتاب السنة از عبدالله بن أحمد بن حنبل (ت 290 هـ) میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اکثر غیر مقلدین امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جروحات پیش کرتے وقت کتاب السنۃ از عبداللہ بن امام احمد کی روایات پیش کرتے ہیں جن میں امام صاحب کے بارے میں منفی کلام منقول ہے۔ اس پوسٹ میں ہم اسی دعوے کا تحقیقی جائزہ لیں گے۔
پہلی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ کتاب السنۃ کے جس مخصوص نسخے سے غیر مقلدین امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جرح نقل کرتے ہیں، اسی نسخے کی سند میں دو راوی مجہول ہیں، جس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
دوسری بات یہ کہ غیر مقلدین اس کتاب کو ثابت کرنے کے لیے اسلافِ امت کی کتابوں سے یہ کہہ کر حوالے دیتے ہیں کہ فلاں امام نے کتاب السنۃ سے کوئی حوالہ پیش کیا ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ اسلاف امت کے ان حوالہ جات پر ہمیں کوئی اعتراض ہی نہیں؛ اصل اعتراض تو اس مخصوص نسخے پر ہے جس میں امام ابو حنیفہؒ پر طعن نقل ہوا ہے—
لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ کتاب السنۃ کا یہ مخصوص نسخہ، جسے غیر مقلدین امام ابو حنیفہؒ کے خلاف استعمال کرتے ہیں، سنداً ناقابلِ اعتماد ہے، کیونکہ اس میں طعن کے باب کی روایت کی بنیاد ہی دو مجہول راویوں پر قائم ہے، لہٰذا یہ باب《 ما حفظت عن أبي وغيره من المشايخ في أبي حنيفة 》سند کے لحاظ سے ثابت نہیں۔
کتاب السنہ کی وہ دونوں معروف مطبوعات جن میں امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں منفی روایات نقل کی گئی ہیں، علمی تحقیق کے اعتبار سے کئی اہم اشکالات رکھتی ہیں۔ اس کتاب کی دو بنیادی طباعتیں سلفی محققین نے کی ہیں:
محمد سعید قحطانی سلفی کی تحقیق
ابو عبداللہ عادل آل حمدان کی تحقیق
دونوں نے اپنی اپنی تحقیق کے لیے کتاب السنہ کے صرف دو دو نسخوں کو ’’اصل‘‘ کے طور پر اختیار کیا ہے۔
قحطانی کے مطابق اصل نسخے
پہلا: مکتبہ ظاہریہ دمشق کا قدیم نسخہ
دوسرا: مکتبہ شیخ عبداللہ بن حسن کا نسخہ
عادل آل حمدان کے مطابق اصل نسخے
پہلا: وہی ظاہریہ دمشق کا نسخہ
دوسرا: جامعہ اُمّ القریٰ کا نسخہ
اہم بات یہ ہے کہ جامعہ ام القریٰ کے نسخے میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف موجود منفی روایات کا پورا باب سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
یہ دونوں محققین اپنی تحقیقات کے مقدمات میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں اس کتاب کا کوئی ایسا نسخہ نہیں مل سکا جو ان مذکورہ نسخوں سے زیادہ قدیم، کامل یا اصل کے زیادہ قریب ہو۔ یعنی خود ان سلفی محققین کے بقول:
کل تین نسخے اس کتاب کے اصل ماخذ ہیں
باقی تمام نسخے انہیں کی نقل یا فرع ہیں
(کتاب السنہ از قحطانی، ص 15؛ کتاب السنہ از عادل، ص 12)
کتاب کی سند اور اس پر اعتراضات
دونوں محققین نے کتاب کی جو سند ذکر کی ہے، وہ یہ ہے:
أَنْبَأَنَا الْأَشْيَاخُ: مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عُمَرَ القَطِيعِيُّ وَعُمَرُ بْنُ كَرَمِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ الدَّيْنُورِيُّ وَأَبُو نَصْرِ بْنُ أَبِي الْحَسَنِ بْنِ قُنَيْدَةَ وَعَبْدُ السَّلَامِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ بَكْرَانِ الدَّاهِرِيُّ وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: أَنْبَأَنَا أَبُو الْوَقْتِ عَبْدُ الْأَوْلِ بْنُ عِيسَى بْنِ شُعَيْبٍ السِّجْزِيُّ الهَرَوِيُّ الصُّوفِيُّ قَالَ: أَنَا الشَّيْخُ الإِمَامُ شَيْخُ الإِسْلَامِ أَبُو إِسْمَاعِيلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيُّ مِنْ كِتَابِهِ أَنَا أَبُو يَعْقُوبَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ القَرَّابُ كِتَابَةً أَنَا أَبُو النَّصْرِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سُلَيْمَانَ السِّمْسَارُ نَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ خَالِدٍ الهَرَوِيُّ ثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ (کتاب السنہ از قحطانی ص 102؛ از عادل ص 21)
اس سند کے دو راوی مجہول ہیں
خود محمد سعید قحطانی اعتراف کرتا ہے کہ اس سند میں دو راوی ایسے ہیں جن کے حالات زندگی، جرح و تعدیل، ثقاہت، حتیٰ کہ مختصر ترجمة تک کہیں نہیں ملتا:
أبو النصر محمد بن الحسن بن سليمان السمسار
أبو عبد الله محمد بن إبراهيم بن خالد الهَرَوِي
لہذا خود کتاب کے محقق نے اعلان کر دیا کہ کتاب کی سند صحیح نہیں ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ:
عادل آل حمدان نے اپنی تحقیق میں اس مسئلے پر سرے سے کوئی گفتگو ہی نہیں کی۔
حالانکہ اس کی تحقیق کی چوتھی طباعت (طبع: 1441ھ)، جو ہمارے پاس موجود ہے، اس میں بھی کوئی وضاحت نہیں۔ یعنی سلفیوں کے پاس آج تک اس سند کے یہ دونوں مجہول راوی ، ثقہ ثابت نہیں ہو سکے۔
حاصل کلام :
یہ ساری تفصیلات ایک ہی حقیقت ثابت کرتی ہیں: کتاب السنہ میں امام ابو حنیفہؒ کے خلاف موجود باب 《 ما حفظت عن أبي وغيره من المشايخ في أبي حنيفة》
سنداً بھی ثابت نہیں، نسخوں کے اعتبار سے بھی اصل نہیں، اور محدثین کے نزدیک قابل احتجاج بھی نہیں ہے ۔ اس کی سند میں دو مجہول راوی موجود ہیں جس کا سلفی محققین خود اعتراف کرتے ہیں ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں