احادیث کے رد وقبول میں غیرمقلدین کی من مانیاں
مفتی رب نواز حفظہ اللہ، احمد پور شرقیہ (قسط:۶)
مأخوذ مجلّہ راہِ ہدایت
شُمارہ نمبر 42
ضعیف سند والی روایت سے استدلال
شیخ زبیر علی زئی نے لکھا:
’’ سیدنا معاویہ نے رومیوں کی زمین پر سولہ مرتبہ فوج کشی کی ہے ۔ “
( البدایہ والنھایہ : ج ۸، ص:۱۳۳)‘‘ [ مقالات : ۱؍۳۱۱]
شیخ کفایت اللہ سنابلی غیرمقلد نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ سب سے پہلی بات تو یہ کہ حافظ موصوف نے اس روایت کی سند پیش نہیں کی اور نہ ہی اس کا درجہ بتانے کی زحمت گوارا کی ہے ، حالاں کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند بھی پیش کی ہے ملاحظہ ہو : امام ابن کثیر رحمہ اللہ (المتوفی : ۷۷۴) نے کہا: وقال ابو زرعة عن دحیم عن الولید عن سعید بن عبد العزیز ……قارئین آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس روایت کو امام ابو زرعہ کے حوالہ سے نقل کیا اور پوری سند بھی ذِکربھی کر دی ہے ۔ یہ روایت امام ابوزرعہ کی تاریخ میں اسی سند سے موجود ہے آئیے ہم اصل کتاب سے یہ روایت سند و متن کے ساتھ دیکھتے ہیں ۔ چنانچہ امام ابو زرعہ الدمشقی رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۸۱) نے کہا: حدثنی عبد الرحمن بن ابراہیم عن الولید بن مسلم عن سعید بن عبد العزیز ……قارئین یہ ہے اس روایت کی سند جسے نہ تو حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ، اور نہ ہی اس پر کوئی حکم لگایا ہے ۔ دَراَصل یہ سند صحیح ہے ہی نہیں ، اس لئے اس سے نظر پوشی کی گئی ۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ ۲۳،۲۴،مکتبہ بیت السلام مؤ ناتھ بھنجن یوپی الہند )
منقطع سند سے استدلال
سنابلی صاحب مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھتے ہیں:
’’ ذیل میں ہم اس کی خرابی واضح کرتے ہیں۔ الف:اس روایت کو بیان کرنے ’’سعید بن عبد العزیز التنوخی ‘‘ ہیں ، ان کی پیدائش امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی تقریبا تیس سال بعد ہوئی ۔ [ سیر اعلام النبلاء للذھبی : ۸؍۳۲] لہذا یہ روایت مرسل و منقطع ہے ۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ۲۵،مکتبہ بیت السلام مؤ ناتھ بھنجن یوپی الہند )
ولیدبن مسلم کی عن والی روایت ضعیف بھی اور اس سے استدلال بھی
سنابلی صاحب مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھتے ہیں:
’’ ب: سند میں ولید بن مسلم معروف مدلس ہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انہیں چوتھے طبقہ کا مدلس کہاہے جن کی معنعن روایات بالاتفاق رد ہوتی ہیں دیکھئے : [طبقات المدلسین لابن حجر القریوتی : ص : ۵۱]نیز خود حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: انام دار قطنی کے اس قول سے معلوم ہوا کہ ولید بن مسلم تدلیس تسویہ کرتے تھے ۔ ولید بن مسلم کو حافظ ابن حجر، العلائی ، ابو زرعہ ابن العراقی، ذہبی، حلبی،مقدسی اور سیوطی وغیرہم نے مدلس قرار دیا ہے ۔ دیکھئے : (الفتح المبین: ص :۷۳) اور ان کا کوئی مخالف مجھے معلوم نہیں ہے ،لہذا تدلیس ولید پر اجماع ہے ۔ [ اضواء المصابیح ( تحقیق مشکوۃ )ص: ۲۷۸م رقم : ۲۱۲ ، مجلہ الحدیث: ۷۰ص ۸ ] غور کیا جائے کہ مذکورہ روایت میں ولید بن مسلم ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں اور حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ خود ہی دوسرے مقام پر انہیں بالاجماع مدلس بتلاتے ہیں ۔ پھر بھی موصوف نے یزید کی مخالفت میں اس عیب کو نظر انداز کر دیا ۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ ۲۵)
جھوٹی روایت سے استدلال
شیخ زبیر علی زئی نے تاریخ طبری وغیرہ کتب کی ایک روایت سے استدلال کیا ۔ [ مقالات : ۱؍۳۱۱]
شیخ کفایت اللہ سنابلی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ یہ بات سب سے پہلے امام طبری رحمہ اللہ نے ذِکر کی ہے اور انہوں نے اس کی سند اس طرح پیش کی ہے ……[تاریخ طبری : ۴؍۳۰۴] امام طبری کا استاذ ’’احمد بن ثابت ‘‘ یہ احمد بن ثابت بن عتاب الرازی المعروف بفرخویہ ‘‘ہے ۔ اوریہ بہت بڑا جھوٹا شخص ہے چنانچہ الف: ابو العباس بن ابو عبد اللہ الطہرانی (المتوفی : ۴۵۹) نے کہا: محدثین کو (احمد بن ثابت ) فرخویہ کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ بہت بڑا جھوٹا ہے ۔[ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۲؍۴۴واسنادہ صحیح ] علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے کذاب کہا ہے اوراس کی وجہ سے ایک روایت کو موضوع اور من گھڑت کہا ہے ۔ دیکھیں ![ سلسلة الاحادیث الضعیفة ۴؍۲۹۵، رقم : ۱۸۱۶]نیز دیکھئے ![ معجم الشیوخ الطبری : ص ۷۵] ب: احمد بن ثابت کذاب کے استاذ کا بام بھی مذکور نہیں ۔ ج: اسی طرح نجیح بن عبد الرحمن السندی ابو معشر المدنی بھی سخت ضعیف ہے ۔ امام یحیٰ بن سعید رحمہ اللہ (المتوفہ : ۱۹۸ھ ) نے اسے ضعیف کہا: یحی بن سعید اس سے روایت نہیں کرتے تھے ، اور اسے ضعیف قرار دیتے اور اس کا تذکرہ ہونے پر ہنستے ۔[ الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ۸؍۴۹۴ واسنادہ صحیح ] امام مظفر بن مدرک رحمہ اللہ ( المتوفی : ۲۰۷ھ ) نے کہا: ابو معشر ایسا آدمی تھا جو سندوں کو یاد نہیں رکھ پاتا تھا ۔[ العلل والمعرفة الرجال ۲؍۵۵۳ واسنادہ صحیح ] امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۳۰ھ) نے کہا : یہ کثیر الحدیث اور ضعیف تھا۔ [ الطبقات الکبری لابن سعد، العلمیة ۵؍۴۸۸]امام ابن معین رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۳۳ھ ) نے کہا: ابو معشر کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ [ تاریخ ابن معین روایۃ الدوری ۳؍۱۶۰]نوٹ: واضح رہے کہ لیس بشی ء یہ سخت قسم کی جرح ہے ، جیسا کہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے ، دیکھیں [الفاظ و عبارات الجرح والتعدیل : ۳۰۷، فتح المغیث : ۲؍۱۲۳م تدریب الراوی : ۱؍۴۰۹،۴۱۰] اور ابن معین کے نزدیک بھی عام حالات میں یہ اسی معنی میں ہے ، بلکہ بسا اوقات آپ نے کذاب اور وضاع راویوں پر بھی انہیں الفاظ میں جرح کی ہے ، مثلاً ایک کذاب کے بارے میں فرماتے ہیں کذاب لیس بشی ء ، یہ کذاب ہے ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ [ سوالات ابن الجنید رقم ۵۳۵و ایضا ارقام : ۲۹۳،۴۱۷،۴۸۴] اور ایک واضاع کے بارے میں فرماتے ہیں : لیس بشی ء یضع الاحادیث ،اس کی کوئی حیثیت نہیں ، یہ احادیث گھڑا کرتا تھا ۔ [ تاریخہ ، روایۃ الدوری ، رقم ۴۲۱۳] حافظ زبیر علی علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ امام ابن معین عام طور پر جس راوی کو لیس بشیء کہتے ہیں تو وہ شدید جرح ہوتی ہے ۔ ‘ ‘[ ماہ نامہ الحدیث حضرو : ۵۵ ص ۱۸]امام علی بن المدینی رحمہ اللہ (المتوفی : ۲۳۴ھ ) نے کہا: یہ شیخ تھا اور ضعیف تھا، ضعیف تھا ۔ [ سوالات ابن ابی شیبۃ لابن المدینی ص:۱۰۰] نوٹ: ضعیف ضعیف کی تکرار سخت جرح ہے [سنابلی نے مزید تین صفحات پر جرح نقل کی، اور آخر میں لکھا(ناقل )] معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔ طبری کی اسی روایت کو امام ذہبی ، ابن الجوزی اور ابن کثیر وغیرہ نے سند ذِکرکئے بغیر نقل کیا ہے ۔ اور ہم بتا چکے ہیں کہ سنداً یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ اس حملہ کا ثبوت ملتا ہے سراسر باطل ہے۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ۲۷تا ۳۳)
کچھ گڑ بڑ ضرور ہے
شیخ زبیر علی زئی نے لکھا :
’’ محمد الخضیری کی ’’ محاضرات الامم الاسلامیة‘‘ میں ہے : اور ۴۸ ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ کی فتح کے لئے ایک عظیم لشکر بھیجا جس کے امر سفیان بن عوف رضی اللہ عنہ تھے ۔ ‘‘
[ مقالات: ۱؍۳۱۲]
علی زئی نے یہ الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھا:
’’ محاضرات کا حوالہ ایک دوسری کتاب سے لیا گیا ہے ۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ )
سنابلی صاحب نے علی زئی کی مذکورہ عبارت کو نقل کرکے یوں تبصرہ کیا :
’’ لیکن موصوف نے اس دوسری کتاب کا نام نہیں بتایا جس سے حوالہ لیا تھا ۔ہماری نظر اس وضاحت پر پڑی تو ہم سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ موصوف نے اصل کتاب سے عبارت کیوں نہیں نقل کی ؟ نیز جس دوسری کتاب سے یہ عبارت نقل کی اس کا نام کیوں نہیں بتایا ؟ ذہن میں اُٹھنے والے ان سوالات نے تجسس پر مجبور کیا اور ہمیں یقین ہو چلا کہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے ۔ پھر ہم نے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا تو ہماری حیرت کی انتہاء نہ رہی ! کیوں کہ اَصل کتاب میں اس کے فوراً بعد محمد الخضیری نے یہ بھی لکھا ے کہ اس لشکر میں یزید بن معاویہ بھی موجود تھے ، آئیے ہم محاضرات سے پوری عبارت نقل کر دیتے ہیں ……۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ۴۲،۴۳ )
یہ متابعت قطعاً ثابت نہیں
شیخ زبیر علی زئی نے لکھا:
’’ لیث بن سعد نے ابن وہب کے استاذ حیوۃ بن شریح کی متابعت تامہ کر رکھی ہے ۔‘‘
( مجلہ الحدیث : ۶، صفحہ ۶)
سنابلی صاحب نے علی زئی کی مذکورہ بات کا رد کرتے ہوئے لکھا:
’’ عرض ہے کہ یہ متابعت قطعاً ثابت نہیں ہے کیوں کہ ابن عساکر کی سند میں لیث بن سعد سے نیچے ضعف موجود ہے ۔ اور وہ ولید بن مسلم القرشی ہیں جو تدلیس التسویہ کرتے تھے ، اور انہوں نے اپنے سے اوپر سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت نہیں کی ہے ۔ جب کہ تدلیس تسویہ سے متصف راوی کی سند صحیح ہونے کے لئے شرط ہے کہ وہ اپنے سے اوپر تمام طبقات میں سماع یا تحدیث کی صراحت کر دے ۔ چنانچہ خود حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ہی ایک مقام پر ایک دوسری روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں : اس روایت کے ایک راوی ولید بن مسلم مدلس تھے ، آپ تدلیس التسویہ کرتے تھے ۔دیکھئے : (تقریب التھذیب : ۷۴۵۶) تدلیس تسویہ کرنے والے راوی کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی جس میں وہ آخر تک سماع مسلسل کی تصریح کرے ۔ [مجلہ الحدیث :۲۰، ص:۵، نیز دیکھیں : اضواء المصابیح :ج ۱ ص ۶۸ ، تحت الرقم : ۳۲] معلوم ہوا کہ خود حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے اُصول کی روشنی میں بھی یہ روایت ضعیف ہے ،اور یہ متابعت ثابت ہی نہیں۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ۶۳ )
زبیر علی زئی کی طرف سے تضعیف ِ حدیث کا ایک اور غلط اُصول
سنابلی صاحب مذکورہ عبارت کے متصل بعد لکھتے ہیں:
’’ بلکہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے ایک اور اُصول جو ہماری نظر میں غلط ہے اس سے بھی یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے ۔ چنانچہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اُصول ہے کہ سند میں کوئی راوی اپنے دو ایسے استاذ سے روایت کرے جس میں ایک ضعیف ہو اور ایک ثقہ ہو تو یہ روایت ضعیف ہوگی کیوں کہ یہاں یہ معلوم نہیں کہ اس نے کس استاذ کے الفاظ بیان کئے ہیں ۔ اسی اصول کے تحت موصوف نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح قرار دی ہوئی ایک روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جس کی مفصل تردید ہمم نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ میں ص ۴۷۰ تا ۴۷۴پر کردی ہے ۔ عرض ہے کہ یہاں بھی ولید بن مسلم اپنے دو استاذ سے نقل کر رہے ہیں ایک لیث بن سعد ہیں اور دوسرے ابن لھیعہ ہیں ، اور ابن لیھعہ اخیر میں مختلط و ضعیف ہو گئے تھے اور اس بات کا کوئی ثبوت ہیں ہے کہ ولید بن مسلم نے ان سے اختلاط سے قبل روایت کیا، خود حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ صاحب نے ابن لھیعہ سے ان کے اختلاط سے قبل روایت کرنے والوں کی جو فہرست اپنی کتاب الفتح المبین ص :۷۷، ۷۸ پر پیش کی ہے ان میں ولید بن مسلم کا نام نہیں پیش کیا ہے ۔ مزید یہ کہ یہاں ابن لھیعہ کا عنعنہ بھی ہے۔ لہذا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے اپنے اس اُصول سے بھی یہ روایت ضعیف ہے ۔لہٰذا متابعت تامہ کا دعویٰ درست نہیں ہے ۔‘‘
(قسطنطنیہ پر پہلا حملہ اور یزید کی بشارت صفحہ۶۳،۶۴ )
)جاری)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں