نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 31 : کہ ابو حنیفہ نے کوفہ کے والی عیسی بن موسیٰ العباسی کے سامنے جب قرآن کو مخلوق کہا تو اس نے موجود آدمیوں سے کہا کہ اس کو کہو کہ توبہ کرلے ورنہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا


 اعتراض نمبر 31 : 
کہ ابو حنیفہ نے کوفہ کے والی عیسی بن موسیٰ العباسی کے سامنے جب قرآن کو مخلوق کہا تو اس نے موجود آدمیوں سے کہا کہ اس کو کہو کہ توبہ کرلے ورنہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا

أخبرني الخلال، حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا عمر بن الحسين القاضي، حدثنا عباس بن عبد العظيم، حدثنا أحمد بن يونس قال: كان أبو حنيفة، في مجلس عيسى بن عيسى. فقال: القرآن مخلوق. قال فقال: أخرجوه، فإن تاب وإلا فاضربوا عنقه.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں "عمر بن الحسن الاشنانی القاضی" ہے جس کو دار قطنی نے ضعیف اور الحاکم نے کذاب کہا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے[1]۔ اور دوسری طبع میں الحسن کی جگہ الحسین کا لفظ ہے اور یہ غلطی ہے اور اس میں راوی احمد بن یونس جو ہے وہ اگر احمد بن عبد اللہ بن یونس الیربوعی ہے جس کی وفات 227ھ ہے تو وہ عیسی بن موسیٰ والی کوفہ کے زمانے میں اتنی عمر کا تھا ہی نہیں کہ ان جیسی مجالس میں اس کی حاضری ممکن ہو تو خبر مقطوع ہے [1] اور اگر یہ احمد بن یونس الیربوعی کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مجہول ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی جو خطیب نے اس سے ملتا جلتا واقعہ لکھا ہے ،

أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أحمد بن إسحاق بن وهب البندار، حدثنا محمد ابن العباس - يعني المؤدب - حدثنا أبو محمد - شيخ - له أخبرني أحمد بن يونس قال: اجتمع ابن أبي ليلى وأبو حنيفة عند عيسى بن موسى العباسي والي الكوفة قال: فتكلما عنده، قال: فقال أبو حنيفة: القرآن مخلوق. قال: فقال عيسى لابن أبي ليلى: اخرج فاستتبه، فإن تاب وإلا فاضرب عنقه.

 اس کا حال بھی اسی طرح ہے۔ اور اس کی سند میں ابن رزق ہے اور ایک شیخ مجہول ہے جس کو ابو محمد کہا جاتا ہے۔ اور احمد بن یونس الیربوعی ہو تو سند میں انقطاع ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ مجہول ہے تو اس جیسا واقعہ ان جیسی اسناد سے کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔ اور رہا ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کا مسئلہ تو ابن عبد البر نے الانتفاء میں اس کی انتہائی وضاحت کی ہے اور اس کا ذکر بھی ہم نے 《لفت اللحظ اِلى ما فی الاختلاف فی اللفظ》 میں کر دیا ہے تو یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ ابن ابی لیلی کا مکمل نام أبو عبد الرحمن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى الأنصاري ان کی وفات 148ھ میں ہوئی ۔ والی کوفہ عیسی بن موسی کا مکمل نام عيسى بن موسى بن محمد بن علي بن عبد الله بن العباس ہے ۔ انہوں نے 132 ہجری میں کوفہ کی گورنری حاصل کی ،اور 147ھ میں معزول ہوئے۔ راوی احمد بن یونس کون ہے معلوم نہیں، اگر بالفرض اس سے مراد أحمد بن عبد الله بن يونس التيمي اليربوعي الكوفي ہے تو ان کی ولادت 132 ھ میں ہوئی ہے۔ اور 147ھ تک ان کی عمر 15 سال بنتی ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی مجلس میں حاضر ہوں لہذا یہ روایت منقطع بھی ہوئی ، اس کے علاوہ سند میں بھی کلام ہے ، جیسا کہ عمر بن الحسین قاضی کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ضعیف ، امام حاکم رحمہ اللہ نے کذاب اور تاریخ بغداد کے محقق بشار عواد نے بھی متروک کہا ہے اور دوسری سند میں مجہول راوی ہے ، یعنی وہ بھی ضعیف روایت ہوئی، اگر بالفرض احمد بن یونس کا سماع ہو بھی تو سند میں عمر ابن الحسین القاضی اور ایک مجہول کی موجودگی ، اس قصے کو بہت مشکوک بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح مان لیں تو قاضی ابن ابی لیلی رحمہ اللہ پر اعتراض آئے گا کہ وہ قاضی تھے اور طاقت رکھتے تھے ، پھر انہوں نے باطل عقیدے پر گردن کیوں نہ اڑائی ؟ قاضی صاحب نے اپنے اختیارات کا استعمال کیوں نہ کیا ؟۔

 لہذا معلوم ہوا کہ اس افسانے کا اجر دشمنان ابو حنیفہ کے نامہ اعمال میں ہے۔




کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ معاذ اللہ جہمی تھے؟

 بِسمِ اللہِ الرحمٰنِ الرحیم


امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ معاذ اللہ جہمی تھے یعنی جہم بن صفوان کے عقائد پر تھے… جبکہ حقیقت میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ جہمی تھے اور نہ ہی جہم بن صفوان جیسے باطل عقائد رکھتے تھے… آج کی پوسٹ میں ہم اسی تعلق سے مختلف اقوال و حوالوں کا جائزہ لیں گے… ان شاء اللہ

امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے اقوال اور انکا جائزہ –

 امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے جتنے بھی اقوال ہیں وہ سنداً اور متناً کے لحاظ سے صحیح نہیں… سند اور متن دونوں میں علتیں ہیں

1:- امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہمی تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ‘ہاں’ 

… اسکی سند کی پہلی علت یہ ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے یہ قول نقل کرنے والا سعید بن سالم ہے، لیکن روایت بیان کرنے والے راوی کبھی سعید بن سالم کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور کبھی سعید کے والد  سالم

 کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال کیا…  

یعنی سند میں اضطراب ہے جو سند کو ضعیف بناتا ہے… اسکے علاوہ ان سندوں کے راوی بھی ثقہ ثبت نہیں جو بات کو صحیح سے محفوظ کر سکیں کہ اصل بات پوچھی کس نے ہے سعید نے یا انکے والد نے…

أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر مُحَمَّد بن عُمَر بن بُكَيْر المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُثْمَان بن أَحْمَد بن سمعان الرَّزَّاز، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدُّورِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا محمود بن غيلان، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن سَعِيد، عن أَبِيهِ، قَالَ: كُنْت مَعَ أمير المؤمنين موسى بجرجان ومعنا أَبُو يُوسُف، فسألته عن أَبِي حنيفة، فَقَالَ: وما تصنع بِهِ وقد مات جهميا

حوالہ نمبر 1 – تاریخ بغداد 513/15 ,  تاریخ جرجان اور کتاب الثقات 646/7 پر روایت کرنے والا راوی محمد بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند ضعیف ہے

حوالہ نمبر 2 – معرفۃ التاریخ 783/2 اور تاریخ بغداد 513/15 پر ہی یہ قول عمرو بن سعید بن سالم  کے واسطے سے ہے اور وہ اپنے دادا سالم کے حوالے سے یہ قول نقل کرتا ہے… سند کا راوی عمرو بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے…

وَقَالَ يَعْقُوب: حَدَّثَنَا أَبُو جزي بن عَمْرو بن سَعِيد بن سالم، قَالَ: سَمِعْتُ جدي، قَالَ: قُلْتُ لأبي يُوسُف: أكان أَبُو حنيفة مرجئًا؟ قَالَ: نعم، قُلْتُ: أكان جهميا؟ قَالَ: نعم، قلت: فأين أَنْتَ منه؟ قَالَ: إنما كَانَ أَبُو حنيفة مدرسا، فما كَانَ من قوله حسنا قبلناه، وما كَانَ قبيحا تركناه عَلَيْهِ

حوالہ نمبر 3 – اخبار القضاۃ 258/3 پر یہ قول فضل بن سعید بن سالم کے واسطے سے منقول ہے اور یہ راوی بھی ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے

أَخْبَرَنِي إبراهيم بْن أبي عُثْمَان قال: حَدَّثَنِي الفضل بْن سعيد بْن سلم عَن أبيه قال: قلت لأبي يوسف: أكان أَبُوْحَنِيْفَةَ يرى رأي جهم؟ قال: نعم، قلت فأين أنت منه؟ قال: لا أين، قلت: وكيف وأنت من أصحابه؟ قال: كان أَبُوْحَنِيْفَةَ رجلًا قد أوتي فهمًا، فكنا نأتيه وكان لنا مدرسًا.

أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسن بن زياد النقاش، أن مُحَمَّد بن علي أخبره، عن سعيد بن سالم، قال: قلت لقاضي القضاة أبي يوسف سمعت أهل خراسان يقولون: إن أبا حنيفة جهمي مرجئ؟ قال لي: صدقوا، ويرى السيف أيضا، قلت له: فأين أنت منه؟ فقال: إنما كنا نأتيه يدرسنا الفقه، ولم نكن نقلده ديننا

حوالہ نمبر 4 – تاریخ بغداد 530/15 پر یہ قول محمد بن حسن بن زیاد کے واسطے سے منقول ہے … یہ راوی مناکر روایات کرنے والا ہے… لہذا یہ سند بھی صحیح نہیں…

مفصل جواب 

اعتراض نمبر 47:  کہ قاضی ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ جہمی تھے اور ہم ان سے صرف سبق پڑھتے تھے، دین میں ان کے مقلد نہ تھے۔

حوالہ نمبر 5 – معرفۃ التاریخ 782/3 پر یہ قول محمد بن معاذ بصری کے واسطے سے منقول ہے…

اگرچہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن اسے وہم بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے…

یہ تو ہوئی اسکی سندوں کی بات اب اسکے متن کی بات کرتے ہیں اسکا متن بھی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے صحیح سند سے منقول قول کے خلاف ہے 

جسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسماء الصفات صفحہ 656 میں نقل کرنے کے بعد راویوں کو ثقہ کہا… جس میں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسی رائے ( سوچ / عقیدہ) رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا معاذ اللہ ( یعنی وہ ایسی سوچ یا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ) میں بھی ایسی سوچ نہیں رکھتا…

اسکے علاوہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسا عقیدہ رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ترک کیوں نہیں کر دیا تھا، کیونکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے مطابق کتابیں لکھتے تھے جسکی وجہ سے دنیا میں فقہ حنفی کو پھیلنے کا موقع ملا… کیا وجہ تھی کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت کی دعا کرتے تھے… جیسا کہ اخبار القضاۃ 258/3 پر حسن سند سے موجود ہے…

اسکے علاوہ ایک قول امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخ بغداد 580/15 پر موجود ہے جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے، لیکن اسکی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ سند کا راوی نصر بن محمد بغدادی مجہول ہے…

اسکے علاوہ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے لیکن یہ قول بھی حجت نہیں کیونکہ یہ قول بلا دلیل ہے، امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہمی ہونے کی دلیل نہیں دی…

اسکے علاوہ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور جہم بن صفوان کے عقائد میں کچھ واضح فرق بتا دیتے ہیں جس سے واضح ہو جائے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہم بن صفوان جیسے عقائد نہیں…

1:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا جبکہ جہم کے نزدیک ایمان صرف معرفت قلب ( دل ) ہے بندہ زبان سے انکار کرنے کے باوجود کامل ایمان والا رہتا ہے…

2: – امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآن کلام اللہ اور غیر مخلوق ہے جبکہ جہم کے نزدیک قرآن مخلوق ہے…

مفصل جواب

اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن

3:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوگ اعمال میں ایک دوسرے سے افضل اور کمتر ہیں جبکہ جہم کے نزدیک ایمان کے بعد کسی نیک اعمال کی ضرورت نہیں…

4:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اللہ کی صفات کا انکار نہیں کرتے جبکہ جہم اللہ کی صفات کا انکار کرتا ہے…

5:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک انسان کے گناہ نقصان دہ ہیں جسکی سزا بھی اسے ملے گی اور جب کہ جہم کے نزدیک انسان کا ایمان نبیوں کی طرح ہے چاہے وہ کچھ بھی ( گناہ یا کفر ) کرے…

مفصل جواب

اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے

اعتراض نمبر 18: کہ ایک نشے میں مست آدمی نے ابو حنیفہؒ کو مرجئہ کہا تو انہوں نے کہا کہ میں نے تیرے ایمان کو جبرئیل کے ایمان جیسا قرار دیا ہے اور تو اس کا یہ صلہ مجھے دے رہا ہے


6:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ مانتے ہیں جب کہ جہم اسکا منکر ہے…

7:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ( ختم ) ہونے والی نہیں جب کہ جہم کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ہو جائیں گی …

مفصل جواب

اعتراض نمبر 48 : کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر جنت اور دوزخ پیدا کی جا چکی ہیں تو وہ قیامت کے دن فنا ہو جائیں گی۔

اسکے علاوہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم بن صفوان کے ان باطل عقائد کی وجہ سے اسے کافر کہتے ہیں جیسا کہ تاریخ بغداد 515/15 پر موجود ہے

مفصل جواب

اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت


 تو جو شخص امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کافر ہو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس جیسے عقائد کیسے رکھ سکتے ہیں… رہی بات کے انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کی گئی ہے تو ایسے تو بشر بن السری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی جہمی کہا گیا ہے جب کہ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے انہیں کعبہ کے سامنے دیکھا کہ وہ اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے جہم جیسے عقائد سے جب کہ لوگ انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کرتے تھے…"

اصل مضمون کا لنک


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...