اعتراض نمبر 31 : کہ ابو حنیفہ نے کوفہ کے والی عیسی بن موسیٰ العباسی کے سامنے جب قرآن کو مخلوق کہا تو اس نے موجود آدمیوں سے کہا کہ اس کو کہو کہ توبہ کرلے ورنہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا
اعتراض نمبر 31 : کہ ابو حنیفہ نے کوفہ کے والی عیسی بن موسیٰ العباسی کے سامنے جب قرآن کو مخلوق کہا تو اس نے موجود آدمیوں سے کہا کہ اس کو کہو کہ توبہ کرلے ورنہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا
أخبرني الخلال، حدثنا أحمد بن إبراهيم، حدثنا عمر بن الحسين القاضي، حدثنا عباس بن عبد العظيم، حدثنا أحمد بن يونس قال: كان أبو حنيفة، في مجلس عيسى بن عيسى. فقال: القرآن مخلوق. قال فقال: أخرجوه، فإن تاب وإلا فاضربوا عنقه.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں "عمر بن الحسن الاشنانی القاضی" ہے جس کو دار قطنی نے ضعیف اور الحاکم نے کذاب کہا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے[1]۔ اور دوسری طبع میں الحسن کی جگہ الحسین کا لفظ ہے اور یہ غلطی ہے اور اس میں راوی احمد بن یونس جو ہے وہ اگر احمد بن عبد اللہ بن یونس الیربوعی ہے جس کی وفات 227ھ ہے تو وہ عیسی بن موسیٰ والی کوفہ کے زمانے میں اتنی عمر کا تھا ہی نہیں کہ ان جیسی مجالس میں اس کی حاضری ممکن ہو تو خبر مقطوع ہے [1] اور اگر یہ احمد بن یونس الیربوعی کے علاوہ کوئی اور ہے تو وہ مجہول ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی جو خطیب نے اس سے ملتا جلتا واقعہ لکھا ہے ،
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أحمد بن إسحاق بن وهب البندار، حدثنا محمد ابن العباس - يعني المؤدب - حدثنا أبو محمد - شيخ - له أخبرني أحمد بن يونس قال: اجتمع ابن أبي ليلى وأبو حنيفة عند عيسى بن موسى العباسي والي الكوفة قال: فتكلما عنده، قال: فقال أبو حنيفة: القرآن مخلوق. قال: فقال عيسى لابن أبي ليلى: اخرج فاستتبه، فإن تاب وإلا فاضرب عنقه.
اس کا حال بھی اسی طرح ہے۔ اور اس کی سند میں ابن رزق ہے اور ایک شیخ مجہول ہے جس کو ابو محمد کہا جاتا ہے۔ اور احمد بن یونس الیربوعی ہو تو سند میں انقطاع ہے اور اگر اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ مجہول ہے تو اس جیسا واقعہ ان جیسی اسناد سے کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔ اور رہا ابو حنیفہ سے توبہ طلب کرنے کا مسئلہ تو ابن عبد البر نے الانتفاء میں اس کی انتہائی وضاحت کی ہے اور اس کا ذکر بھی ہم نے 《لفت اللحظ اِلى ما فی الاختلاف فی اللفظ》 میں کر دیا ہے تو یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ ابن ابی لیلی کا مکمل نام أبو عبد الرحمن محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى الأنصاري ان کی وفات 148ھ میں ہوئی ۔ والی کوفہ عیسی بن موسی کا مکمل نام عيسى بن موسى بن محمد بن علي بن عبد الله بن العباس ہے ۔ انہوں نے 132 ہجری میں کوفہ کی گورنری حاصل کی ،اور 147ھ میں معزول ہوئے۔ راوی احمد بن یونس کون ہے معلوم نہیں، اگر بالفرض اس سے مراد أحمد بن عبد الله بن يونس التيمي اليربوعي الكوفي ہے تو ان کی ولادت 132 ھ میں ہوئی ہے۔ اور 147ھ تک ان کی عمر 15 سال بنتی ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کوفہ کے گورنر کی مجلس میں حاضر ہوں لہذا یہ روایت منقطع بھی ہوئی ، اس کے علاوہ سند میں بھی کلام ہے ، جیسا کہ عمر بن الحسین قاضی کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ضعیف ، امام حاکم رحمہ اللہ نے کذاب اور تاریخ بغداد کے محقق بشار عواد نے بھی متروک کہا ہے اور دوسری سند میں مجہول راوی ہے ، یعنی وہ بھی ضعیف روایت ہوئی، اگر بالفرض احمد بن یونس کا سماع ہو بھی تو سند میں عمر ابن الحسین القاضی اور ایک مجہول کی موجودگی ، اس قصے کو بہت مشکوک بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح مان لیں تو قاضی ابن ابی لیلی رحمہ اللہ پر اعتراض آئے گا کہ وہ قاضی تھے اور طاقت رکھتے تھے ، پھر انہوں نے باطل عقیدے پر گردن کیوں نہ اڑائی ؟ قاضی صاحب نے اپنے اختیارات کا استعمال کیوں نہ کیا ؟۔
لہذا معلوم ہوا کہ اس افسانے کا اجر دشمنان ابو حنیفہ کے نامہ اعمال میں ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں