اعتراض نمبر 54 : کہ سفیان ابن عیینہ کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر اللہ کے سامنے بے باکی کا مظاہرہ کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو مثال دے کر بیان کرتے پھر اس کی تردید کرتے۔
اعتراض نمبر 54 : کہ سفیان ابن عیینہ کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر اللہ کے سامنے بے باکی کا مظاہرہ کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو مثال دے کر بیان کرتے پھر اس کی تردید کرتے۔
أخبرنا أبو القاسم إبراهيم بن محمد بن سليمان المؤدب - بأصبهان - أخبرنا أبو بكر بن المقرئ، حدثنا سلامة بن محمود القيسي - بعسقلان - حدثنا عمران بن موسى الطائي، حدثنا إبراهيم بن بشار الرمادي، حدثنا سفيان بن عيينة قال: ما رأيت أجرأ على الله من أبي حنيفة، كان يضرب الأمثال لحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيرده. بلغه أني أروي " إن البيعان بالخيار ما لم يفترقا " فجعل يقول: أرأيت إن كان في سفينة؟ أرأيت إن كانا في السجن؟ أرأيت إن كانا في سفر، كيف يفترقان؟
الجواب : میں کہتا ہوں کہ ابو حنیفہ کی نظر نصوص کے معانی پر بڑی گہری ہوتی تھی یہاں تک وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ بے شک افتراق سے مراد افتراق بالاقوال ہے نہ کہ افتراق بالابدان اور اس کی وضاحت ادلہ سمیت پہلے ہو چکی ہے[1]۔
اور اس مسئلہ میں ابو حنیفہ کے ساتھ ثوری اور مالک رحمہما اللہ بھی ہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اس کی سند میں ابراہیم بن بشار الرمادی ہے اور اس کے بارہ میں ابن ابی حاتم نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اس خط میں بتایا جو اس نے میری طرف لکھا تھا کہ میں نے اپنے والد سے سنا جبکہ انہوں نے ابراہیم بن بشار الرمادی کا ذکر کیا تو کہا کہ وہ ہمارے ساتھ سفیان کے پاس موجود تھا۔
پھر اس نے لوگوں کو وہ احادیث لکھوائیں جو انہوں نے سفیان سے سنی تھیں۔ اور وہ بعض دفعہ ایسی روایات بھی لکھواتا جو ان سے نہ سنی ہوتیں گویا کہ وہ الفاظ کو تبدیل کرتا تو وہ حدیث میں زیادتی ہوتی تھی حدیث کا حصہ نہ ہوتی تھی۔تو میں نے اس کو کہا کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتا کہ تو ان کو وہ کچھ بھی لکھواتا ہے جو انہوں نے اس (سفیان) سے نہیں سنا۔ اور اس کی بہت مذمت بیان کی۔ الخ[2]۔
پس آپ غور کریں کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے معاملہ میں خدا خوفی نہیں رکھتا تو کیا وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتا ہو گا؟
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ یہاں سفیان کا قول یہ ہے۔
《بلغه اروی ... فجعل بقول》 اور اس میں سفیان نے جو اس کی طرف بات منسوب کی ہے، اس کی سند ہی ذکر نہیں کی۔
اور بیہقی کے الفاظ سنن میں باب خیار المتبایعین کے آخر میں ابن المدنی عن سفیان کی سند سے یہ ہیں کہ بے شک وہ کوفیوں سے البیعان بالخيار والی حدیث بیان کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر انہوں نے وہ حدیث ابو حنیفہ کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ بے شک یہ لیس بشی درجہ کی ہے۔ تیرا خیال کیا ہے کہ اگر وہ دونوں (بائع اور مشتری) کشتی میں ہوں الی آخرہ ۔ابن المدنی نے کہا کہ بے شک اللہ تعالی اس سے پوچھ لے گا اس چیز کے بارہ میں جو اس نے کہی۔ انتھی[3]۔
اور السيد المرتضی الزبیدی نے کہا کہ ابن المدنی کا یہ کہنا کہ بے شک اللہ تعالی اس سے پوچھ لے گا تو اس میں کوئی شک ہی نہیں، ہر آدمی اپنے قول و فعل میں جواب دہ ہوگا۔ اور اس نے تو جواب تیار کر رکھا ہے۔ اور اس نے نصوص کو باہم متعارض نہیں رہنے دیا۔الخ
(اس لیٸے کہ اس نے ایسی توجیہ اور ان کے مفہوم ایسے بیان کیے ہیں کہ تمام نصوص مناسب ہیں۔) پھر الزبیدی نے متعصبوں کا رد بہت تفصیل سے اپنی اپنی جگہ فٹ اور عقود الجواهر المنیفہ کی دوسری جز کی ابتداء میں کیا اور اس مسئلہ میں ادلہ کو مکمل طور
پر بیان کیا[4]۔
اور ذکر کیا کہ اس حدیث کے اس مفہوم میں ان (امام ابو حنیفہ) کے ساتھ سلف کی ایک جماعت ہے جن میں ابراہیم النخعی رحمہ اللہ، سفیان ثوری رحمہ اللہ اور مالک رحمہ اللہ وغیرہم ہیں[5]۔
اور الجوهر النقی میں اس بات کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے جو البیہقی کی کتاب میں پوشیدہ ہے[6]۔
اور اگر ابن المدینی جواب دینے میں ابن ابی داؤد کے طریق پر چلتا جیسا کہ ابن الجوزی کی مناقب احمد کی شرح میں ہے اور اس طریقہ سے جواب دینے کی کوشش کرتا تو اس کے لیے اچھا ہوتا۔
اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے جواب کو شمار میں لایا ہی نہیں جا سکتا اور رہا۔ فقیہ الملت کا معاملہ تو اس پر کیے گئے اعتراض کا جواب ہمارے ہاتھوں میں اس قدر وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اس کے حق میں دلائل کے لحاظ سے ہر منصف مزاج آدمی کا شرح صدر ہو جاتا ہے[7]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]. دیکھیں اعتراض نمبر 52
[2]. العلل رواية عبد اللَّه 5865۔
تهذيب التهذيب - ابن حجر - ج 1 - الصفحة 95
[3]. السنن الكبرى للبيهقي - ج 5 صفحہ 272
[4]۔ باب بیان الخبر الدال علی ان المبیع بملکہ المشتری بالقول دون التفرق بالابدان - ج 2 صفحہ 319
[5]۔ تفصیل کیلئے دیکھیں
▪︎نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار جلد 11 صفحہ 412
▪︎اعلاء السنن للتھانوی رقم 4603 ، ج 14 صفحہ 32
[6]۔ السنن الكبرى للبيهقي مع الجوہر النقی للماردینی حنفی طبع ہند - ج 5 صفحہ 272
[7]۔ یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ
1۔ سلامة بن محمود القيسي (سلامة بن محمود بن عيسى بن قزعة) مجہول ہیں ، ہمیں روایت حدیث میں انکی کوئی توثیق معلوم نہیں۔
2۔إبراهيم بن بشار الجرجرائي الرمادي کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ان کو وہم ہوتا تھا (تقریب 1/88) ۔
امام احمد بن حنبل کے مطابق الرمادی لوگوں کو ایسی روایتیں بھی لکھواتا تھا جو اس نے سفیان بن عیینہ سے نہ سنی ہوتی تھیں اور امام احمد الرمادی کی مذمت بیان کرتے تھے۔
(علل روایتہ عبداللہ 5865)۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے الرمادی کو لیس بالقوی کہا ہے۔
امام بخاری ، ابن عدی اور امام ابو الفتح الازدی رحمھم اللہ نے بھی الرمادی کے وہم کو بیان کیا ہے۔
3۔ عمران بن موسی الطائی بھی مجہول ہیں۔
ایک متعصب سلفی عالم عبدالرحمن معلمی یمانی غیر مقلد نے اپنی کتاب التنکیل میں عمران بن موسی کو ایک ہم نام ثقہ راوی پر فٹ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ معلمی کے مطابق "عمران بن موسی الطائی" سے مراد "ابو موسی عمران بن موسی الجرسوسی" ہیں۔ لیکن یہ دعوی دلیل کا محتاج ہے۔
1) ابو موسی عمران بن موسی الجرسوسی کے شیوخ میں اسماعیل بن سعید الخراسانی اور الرمادی شامل نہیں ہیں۔
2)۔ امام ابن عبدالھادی الحنبلی نے اپنی تصنیف تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق (3/134) میں عمران بن موسی الطائی والی سند کے بارے میں کہا ہیکہ
إسناده مظلم وبعض رجاله غير مشهورين
یہ سند تاریک ہے اور اس کے بعض رواہ غیر مشہور ہیں۔ انتھی
3)۔یہی بات ہندی غیر مقلدین یعنی شمس الحق عظیم آبادی نے غاية المقصود في حل سنن أبي داود 2/323 اور تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي 3/266 میں احناف دشمن مبارکپوری غیر مقلد نے نقل کی ہے ۔
ہماری تحقیق کے مطابق اس سند میں عمران بن موسی الطائی ، اسماعیل بن سعید الخراسانی اور احمد بن محمد الاشقر تینوں مجہول ہیں۔
4) ایک متشدد سلفی عالم مقبل بن ھادی الوداعی عمران بن موسی الطائی کو مجہول مانتے ہیں۔
▪︎عمران بن موسى الطائي
824 - عمران بن موسى الطائي
قال الدارقطني - رحمه الله - (ج 2 ص 151): حدثنا محمد بن مخلد، ثنا أحمد بن محمد بن نصر بن الأشقر أبو بكر، ثنا عمران بن موسى الطائي بمكة.
لم نجده.
وقد قال المعلق على " سنن الدارقطني " وهو عبد الله هاشم يماني، قال صاحب " التنقيح ": إسناده مظلم وبعض رجاله غير مشهورين.
(تراجم رجال الدارقطني في سننه المؤلف : الوادعي، مقبل بن هادي الجزء : 1 صفحة : 327)
5)۔ زوائد سنن أبي الحسن علي بن عمر الدارقطني على الكتب الستة من الأحاديث المرفوعة - رقم 814 میں محمد خالد اسطنبولی نے نقل کیا ہیکہ عمران بن موسی الطائی کا ترجمہ ان کو نہیں مل سکا ۔
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
تفصیل کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 36 : امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں