اعتراض نمبر 54 : کہ سفیان ابن عیینہ کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر اللہ کے سامنے بے باکی کا مظاہرہ کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو مثال دے کر بیان کرتے پھر اس کی تردید کرتے۔
اعتراض نمبر 54 : کہ سفیان ابن عیینہ کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر اللہ کے سامنے بے باکی کا مظاہرہ کرنے والا کوئی اور نہیں دیکھا وہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کو مثال دے کر بیان کرتے پھر اس کی تردید کرتے۔
أخبرنا أبو القاسم إبراهيم بن محمد بن سليمان المؤدب - بأصبهان - أخبرنا أبو بكر بن المقرئ، حدثنا سلامة بن محمود القيسي - بعسقلان - حدثنا عمران بن موسى الطائي، حدثنا إبراهيم بن بشار الرمادي، حدثنا سفيان بن عيينة قال: ما رأيت أجرأ على الله من أبي حنيفة، كان يضرب الأمثال لحديث رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيرده. بلغه أني أروي " إن البيعان بالخيار ما لم يفترقا " فجعل يقول: أرأيت إن كان في سفينة؟ أرأيت إن كانا في السجن؟ أرأيت إن كانا في سفر، كيف يفترقان؟
الجواب : میں کہتا ہوں کہ ابو حنیفہ کی نظر نصوص کے معانی پر بڑی گہری ہوتی تھی یہاں تک وہ اس نتیجہ تک پہنچے کہ بے شک افتراق سے مراد افتراق بالاقوال ہے نہ کہ افتراق بالابدان اور اس کی وضاحت ادلہ سمیت پہلے ہو چکی ہے[1]۔
اور اس مسئلہ میں ابو حنیفہ کے ساتھ ثوری اور مالک رحمہما اللہ بھی ہیں۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ اس کی سند میں ابراہیم بن بشار الرمادی ہے اور اس کے بارہ میں ابن ابی حاتم نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن احمد بن حنبل نے اس خط میں بتایا جو اس نے میری طرف لکھا تھا کہ میں نے اپنے والد سے سنا جبکہ انہوں نے ابراہیم بن بشار الرمادی کا ذکر کیا تو کہا کہ وہ ہمارے ساتھ سفیان کے پاس موجود تھا۔
پھر اس نے لوگوں کو وہ احادیث لکھوائیں جو انہوں نے سفیان سے سنی تھیں۔ اور وہ بعض دفعہ ایسی روایات بھی لکھواتا جو ان سے نہ سنی ہوتیں گویا کہ وہ الفاظ کو تبدیل کرتا تو وہ حدیث میں زیادتی ہوتی تھی حدیث کا حصہ نہ ہوتی تھی۔تو میں نے اس کو کہا کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتا کہ تو ان کو وہ کچھ بھی لکھواتا ہے جو انہوں نے اس (سفیان) سے نہیں سنا۔ اور اس کی بہت مذمت بیان کی۔ الخ[2]۔
پس آپ غور کریں کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے معاملہ میں خدا خوفی نہیں رکھتا تو کیا وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرتا ہو گا؟
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ یہاں سفیان کا قول یہ ہے۔
《بلغه اروی ... فجعل بقول》 اور اس میں سفیان نے جو اس کی طرف بات منسوب کی ہے، اس کی سند ہی ذکر نہیں کی۔
اور بیہقی کے الفاظ سنن میں باب خیار المتبایعین کے آخر میں ابن المدنی عن سفیان کی سند سے یہ ہیں کہ بے شک وہ کوفیوں سے البیعان بالخيار والی حدیث بیان کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر انہوں نے وہ حدیث ابو حنیفہ کے سامنے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ بے شک یہ لیس بشی درجہ کی ہے۔ تیرا خیال کیا ہے کہ اگر وہ دونوں (بائع اور مشتری) کشتی میں ہوں الی آخرہ ۔ابن المدنی نے کہا کہ بے شک اللہ تعالی اس سے پوچھ لے گا اس چیز کے بارہ میں جو اس نے کہی۔ انتھی[3]۔
اور السيد المرتضی الزبیدی نے کہا کہ ابن المدنی کا یہ کہنا کہ بے شک اللہ تعالی اس سے پوچھ لے گا تو اس میں کوئی شک ہی نہیں، ہر آدمی اپنے قول و فعل میں جواب دہ ہوگا۔ اور اس نے تو جواب تیار کر رکھا ہے۔ اور اس نے نصوص کو باہم متعارض نہیں رہنے دیا۔الخ
(اس لیٸے کہ اس نے ایسی توجیہ اور ان کے مفہوم ایسے بیان کیے ہیں کہ تمام نصوص مناسب ہیں۔) پھر الزبیدی نے متعصبوں کا رد بہت تفصیل سے اپنی اپنی جگہ فٹ اور عقود الجواهر المنیفہ کی دوسری جز کی ابتداء میں کیا اور اس مسئلہ میں ادلہ کو مکمل طور
پر بیان کیا[4]۔
اور ذکر کیا کہ اس حدیث کے اس مفہوم میں ان (امام ابو حنیفہ) کے ساتھ سلف کی ایک جماعت ہے جن میں ابراہیم النخعی رحمہ اللہ، سفیان ثوری رحمہ اللہ اور مالک رحمہ اللہ وغیرہم ہیں[5]۔
اور الجوهر النقی میں اس بات کو کھول کر بیان کر دیا گیا ہے جو البیہقی کی کتاب میں پوشیدہ ہے[6]۔
اور اگر ابن المدینی جواب دینے میں ابن ابی داؤد کے طریق پر چلتا جیسا کہ ابن الجوزی کی مناقب احمد کی شرح میں ہے اور اس طریقہ سے جواب دینے کی کوشش کرتا تو اس کے لیے اچھا ہوتا۔
اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے جواب کو شمار میں لایا ہی نہیں جا سکتا اور رہا۔ فقیہ الملت کا معاملہ تو اس پر کیے گئے اعتراض کا جواب ہمارے ہاتھوں میں اس قدر وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اس کے حق میں دلائل کے لحاظ سے ہر منصف مزاج آدمی کا شرح صدر ہو جاتا ہے[7]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]. دیکھیں اعتراض نمبر 52
[2]. العلل رواية عبد اللَّه 5865۔
تهذيب التهذيب - ابن حجر - ج 1 - الصفحة 95
[3]. السنن الكبرى للبيهقي - ج 5 صفحہ 272
[4]۔ باب بیان الخبر الدال علی ان المبیع بملکہ المشتری بالقول دون التفرق بالابدان - ج 2 صفحہ 319
[5]۔ تفصیل کیلئے دیکھیں
▪︎نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار جلد 11 صفحہ 412
▪︎اعلاء السنن للتھانوی رقم 4603 ، ج 14 صفحہ 32
[6]۔ السنن الكبرى للبيهقي مع الجوہر النقی للماردینی حنفی طبع ہند - ج 5 صفحہ 272
[7]۔ یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ
1۔ سلامة بن محمود القيسي (سلامة بن محمود بن عيسى بن قزعة) مجہول ہیں ، ہمیں روایت حدیث میں انکی کوئی توثیق معلوم نہیں۔
2۔إبراهيم بن بشار الجرجرائي الرمادي کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ان کو وہم ہوتا تھا (تقریب 1/88) ۔
امام احمد بن حنبل کے مطابق الرمادی لوگوں کو ایسی روایتیں بھی لکھواتا تھا جو اس نے سفیان بن عیینہ سے نہ سنی ہوتی تھیں اور امام احمد الرمادی کی مذمت بیان کرتے تھے۔
(علل روایتہ عبداللہ 5865)۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے الرمادی کو لیس بالقوی کہا ہے۔
امام بخاری ، ابن عدی اور امام ابو الفتح الازدی رحمھم اللہ نے بھی الرمادی کے وہم کو بیان کیا ہے۔
3۔ عمران بن موسی الطائی بھی مجہول ہیں۔
ایک متعصب سلفی عالم عبدالرحمن معلمی یمانی غیر مقلد نے اپنی کتاب التنکیل میں عمران بن موسی کو ایک ہم نام ثقہ راوی پر فٹ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ معلمی کے مطابق "عمران بن موسی الطائی" سے مراد "ابو موسی عمران بن موسی الجرسوسی" ہیں۔ لیکن یہ دعوی دلیل کا محتاج ہے۔
1) ابو موسی عمران بن موسی الجرسوسی کے شیوخ میں اسماعیل بن سعید الخراسانی اور الرمادی شامل نہیں ہیں۔
2)۔ امام ابن عبدالھادی الحنبلی نے اپنی تصنیف تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق (3/134) میں عمران بن موسی الطائی والی سند کے بارے میں کہا ہیکہ
إسناده مظلم وبعض رجاله غير مشهورين
یہ سند تاریک ہے اور اس کے بعض رواہ غیر مشہور ہیں۔ انتھی
3)۔یہی بات ہندی غیر مقلدین یعنی شمس الحق عظیم آبادی نے غاية المقصود في حل سنن أبي داود 2/323 اور تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي 3/266 میں احناف دشمن مبارکپوری غیر مقلد نے نقل کی ہے ۔
ہماری تحقیق کے مطابق اس سند میں عمران بن موسی الطائی ، اسماعیل بن سعید الخراسانی اور احمد بن محمد الاشقر تینوں مجہول ہیں۔
4) ایک متشدد سلفی عالم مقبل بن ھادی الوداعی عمران بن موسی الطائی کو مجہول مانتے ہیں۔
▪︎عمران بن موسى الطائي
824 - عمران بن موسى الطائي
قال الدارقطني - رحمه الله - (ج 2 ص 151): حدثنا محمد بن مخلد، ثنا أحمد بن محمد بن نصر بن الأشقر أبو بكر، ثنا عمران بن موسى الطائي بمكة.
لم نجده.
وقد قال المعلق على " سنن الدارقطني " وهو عبد الله هاشم يماني، قال صاحب " التنقيح ": إسناده مظلم وبعض رجاله غير مشهورين.
(تراجم رجال الدارقطني في سننه المؤلف : الوادعي، مقبل بن هادي الجزء : 1 صفحة : 327)
5)۔ زوائد سنن أبي الحسن علي بن عمر الدارقطني على الكتب الستة من الأحاديث المرفوعة - رقم 814 میں محمد خالد اسطنبولی نے نقل کیا ہیکہ عمران بن موسی الطائی کا ترجمہ ان کو نہیں مل سکا ۔
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

امام سفيان بن عيينة رحمه الله سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
اس پوسٹ میں ہم امام سفیان بن عیینہ سے منقول جروحات کا جائزہ لیں گے۔
اعتراض نمبر 1:
قال الإمام يعقوب بن سفيان في «المعرفة والتاريخ» (ج٢ص٧٨٣):
حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.
قال الخطيب رحمه الله (ج١٣ ص٤١٩):
أخبرنا ابن رزق أخبرنا عثمان بن أحمد حدثنا حنبل بن إسحاق
وأخبرنا أبو نعيم الحافظ حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف حدثنا بشر بن موسى قالا حدثنا الحميدي قال سمعت سفيان يقول: ما ولد في الإسلام مولود أضر على الإسلام من أبي حنيفة. اهـ.
جواب :
ہماری تحقیق کے مطابق یہاں سفیان سے سفیان بن عیینہ مراد نہیں ہے بلکہ سفیان الثوری مراد ہیں کیونکہ جہاں بھی یہ جرح ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے وہاں امام ثوری کا ہی ذکر ہے لیکن بعض نے سفیان سے مراد ابن عیینہ کر دیا ہے جو کہ غلط ہے ۔ کیونکہ
1۔ جہاں بھی جرح کے یہ الفاظ منقول ہیں وہاں یا تو سفیان لکھا ہوا ہے یا صراحت سے سفیان ثوری ۔
سفیان ابن عیینہ کہیں بھی مذکور نہیں۔
1)۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی ( كتاب الضعفاء الصغير للبخاري ت أبي العينين ص 128 ) اور یعقوب فسوی کی (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٥)
میں صراحت ہیکہ اسحاق الفزاری سفیان ثوری کے ساتھ تھے تب سفیان ثوری نے جرح کے کلمات کہے ۔
حدثنا نعيم ثنا الفزاري, قال: كنت عند الثوري، فنُعي أبو حنيفة، فقال: الحمد لله، وسجد، قال: كان ينقض الإسلام عروة عروة، وقال يعني الثوري: ما ولد في الإسلام مولود أشأم منه.
جبکہ امام بخاری ہی کی (التاريخ الصغير - البخاري - ج ٢ - الصفحة ٩٣) میں اور بعض دیگر کتب میں صرف سفیان لکھا ہوا ہے ، تو یہاں بھی سفیان الثوری ہی مراد ہیں ۔
لیکن جب اسی روایت کو(یعنی الثوری سے منقول روایت کو) امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا
وقال نعيم عن الفزاري كنت عند سفيان بن عيينة فجاء نعى أبى حنيفة فقال لعنه الله كان يهدم الاسلام
عروة عروة وما ولد في الاسلام مولود أشر منه هذا ما ذكره البخاري
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١٤٩)
تو سفیان الثوری کے بجائے ابن عیینہ لکھا ، جو ان کا تسامح ہے ۔ کیونکہ اصل مآخد میں صراحت سے سفیان ثوری لکھا ہوا ہے۔
اسی طرح خطیب بغدادی نے (تاريخ بغداد - ج ٤ - الصفحة ٤٣٠) میں بھی المعرفہ والی روایت میں سفیان کے بعد ابن عیینہ کا اضافہ کیا ہے جو کہ غلطی ہے کیونکہ المعرفہ والتاریخ میں بھی صرف سفیان ہی لکھا ہوا ہے
ما أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بْن عُبَيْد اللَّهِ الحنائي، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن أَبِي عُمَر، قَالَ: سَمِعْتُ ابْن عُيَيْنَةَ، يَقُولُ:
یہاں اس سند میں خطیب بغدادی نے ابن عیینہ نقل کیا ہے لیکن یہ سند درست نہیں کیونکہ
▪︎أَبُو مُحَمَّد عَبْد اللَّه بْن أَحْمَدَ بْن الصديق المروزي مجہول ہیں
▪︎ أَحْمَد بْن مُحَمَّد المنكدري ضعیف ہیں
المعرفہ والتاریخ کی روایت :
حدثني محمد بن أبي عمر: قال سفيان: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.
( المعرفة والتاريخ ج٢ص٧٨٣)
کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں۔اب جب المعرفہ میں کہیں بھی ابن عیینہ مذکور نہیں ، اور کم ترین واسطوں سے منقول روایت میں الثوری ہی لکھا ہوا ہے تو اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ مذکورہ جروحات امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہیں نہ کہ امام سفیان بن عیینہ سے۔ جیسے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا تسامح ہے ویسے ہی خطیب بغدادی سے بھی غلطی ہوئی ہے۔
اشکال اور جواب :
محمد بن ابی عمر ابن عیینہ کا مشہور شاگرد ہے تو کیا یہاں وہ ابن عیینہ سے روایت کر رہا ہے ؟
یہاں بھی سفیان ثوری ہی مراد ہیں وجہ یہ ہیکہ لازمی نہیں کہ جو کسی کا شاگرد مشہور ہو ، صرف اسی سے ہی روایت کرے ، مثلا حماد بن دلیل جو ابن عیینہ کے شاگرد نہیں ہیں لیکن امام احمد کی کتاب اور جامع بیان العلم وفضلہ 1/1089 میں روایت ابن عیینہ سے کر رہے ہیں (جس کی تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 میں دیکھ سکتے ہیں ) ، ہمیں ان کی سفیان بن عیینہ سے اور کوئی روایت نہیں ملی ، تاریخ بغداد میں بھی یہی روایت سفیان بن عیینہ سے مذکور ہے۔
لہذا بے شک محمد بن ابی عمر جن سے یہ روایت المعرفہ والتاریخ میں منقول ہے وہ ابن عیینہ کے شاگرد ہیں لیکن وہاں وہ روایت سفیان الثوری رحمہ اللہ سے کر رہے ہیں ۔ اور سفیان ثوری سے جروحات کا جواب ہو چکا ہے۔
دوسرا جواب :
نا عبد الرحمن قال: سألت أبي عنه قال: كان رجلا صالحا، وكان به غفلة، ورأيت عنده حديثا موضوعا حدث به عن ابن عيينة، وهو صدوق [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (8/ 124)]
محمد بن ابی عمر العدنی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی نے کہا ہیکہ صالح تھا لیکن یہ غفلت برتنے والا تھا ، اور میں نے اس کی کئی موضوع روایات بھی دیکھی ہیں اگرچہ یہ ابن عیینہ سے روایت میں صدوق ہے ۔ انتھی
ہم کہتے ہیں کہ صدوق کوئی ایسی توثیق نہیں جس سے راوی کا ضنط پتہ چلتا ہو ، وہ روایتوں کو محفوظ کیسے کرتا ہے ، ضبط کیلئے راوی کا ثقہ ہونا ضروری ہے ، چونکہ محمد بن ابی عمر کی غفلت کا اشارہ ہو چکا ہے ، اور اوپر تفصیل بھی بیان ہو چکی کہ یہاں سفیان الثوری ہی مراد ہیں تو ، یہ تفصیل بھی سند کو مشکوک کر دیتی ہے ۔
بالفرض اگر کسی قرینہ سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہان ابن عیینہ مراد ہیں تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کی تعریف صحیح اسانید سے ثابت ہے ۔
اعتراض نمبر 2:
اعتراض : سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ابو حنیفہ کو عمرو بن دینار کی 3 احادیث بھی صحیح سے یاد نہ تھیں۔
سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ الْحُسَيْنِ الْحَافِظَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ مُعَاوِيَةَ، هُوَ الْكَاغِذِيُّ يَحْكِي عَنْ سُلَيْمَانَ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: قَالَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: دَخَلْتُ الْكُوفَةَ، وَلَمْ يَتِمَّ لِي عِشْرُونَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ لِأَصْحَابِهِ، وَلِأَهْلِ الْكُوفَةِ: جَاءَكُمْ حَافِظُ عِلْمِ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. قَالَ: فَجَاءَ النَّاسُ يَسْأَلُونِي عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ. فَأَوَّلُ مَنْ صَيَّرَنِي مُحَدِّثًا أَبُو حَنِيفَةَ، فَذَاكَرْتُهُ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، مَا سَمِعْتُ مِنَ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ إِلَّا ثَلَاثَةَ أَحَادِيثَ، يَضْطَرِبُ فِي حِفْظِ تِلْكَ الْأَحَادِيثِ
( الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي ١/٣٦٩ — أبو يعلى الخليلي )
سفیان (بن عُیَینہ) نے کہا: میں کوفہ آیا جبکہ میری عمر ابھی بیس سال بھی پوری نہ ہوئی تھی، تو ابو حنیفہ نے اپنے ساتھیوں اور اہلِ کوفہ سے کہا: "تمہارے پاس عمرو بن دینار کے علم کا حافظ آ گیا ہے۔"
سفیان کہتے ہیں: پھر لوگ مجھ سے عمرو بن دینار کے بارے میں سوال کرنے لگے، اور سب سے پہلے جس نے مجھے محدث (محدثین کی صف میں) بنایا، وہ ابو حنیفہ تھے۔
میں نے ان سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا: "اے بیٹے! میں نے عمرو (بن دینار) سے صرف تین احادیث سنی ہیں؟ ان احادیث کے حفظ میں بھی مجبور ہوں (یعنی وہ بھی صحیح طریقے سے یاد نہیں)۔"
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں ہے ، کیونکہ ابن معاویہ الکاغذی مجہول ہیں اور ابن معاویہ نے یہ بات خود سلیمان الثقفی سے نہیں سنی ، لہذا سند ضعیف ہے ۔ البتہ امام ابن عیینہ کو سب سے پہلے محدث بنانے والی ذات کون تھی ؟ اس بارے میں ہمیں ایک صحیح روایت ملتی ہے۔
حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال: حدثني محمد بن سعدان قال: ثنا سويد بن سعيد، عن سفيان بن عيينة قال: أول من أقعدني للحديث أبو حنيفة، قدمت الكوفة فقال أبو حنيفة: إن هذا أعلم الناس بحديث عمرو بن دينار، فاجتمعوا علي فحدثتهم.
( فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام - المجلد 1 - الصفحة 185 - جامع الكتب الإسلامية )
امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں مجھے حدیث بیان کرنے کے لیے سب سے پہلے جس شخص نے بٹھایا وہ امام ابو حنیفہ تھے میں کوفہ جب آیا تو ابو حنیفہ نے فرمایا یہ (نوجوان سفیان ) عمرو بن دینار کی احادیث کا لوگوں میں بڑا علم (حفظ کرنے والا) ہے تو لوگوں کا اجتماع (امام ابو حنیفہ کے کہنے کی وجہ سے ) ہوا اور میں نے حدیثیں بیان کیں
(اس سند میں سوید متکلم فیہ راوی ہے. امام ابن حجر نے صدوق کہا ہے اور اخبار ابی حنیفہ للصیمری ص 82 میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے. اس لئے یہ سند قابل اعتبار ہے جبکہ امام ابن عیینہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دوسری صحیح و حسن اسانید سے توثیق و تعریف منقول ہے۔ لہذا ابن عیینہ سے امام صاحب کی تعریف ثابت ہے نہ کہ امام صاحب پر جرح ۔
اعتراض نمبر 3:
سفیان بن عیینہ سے منقول ایک اور اعتراض :
قال أبو حاتم: حدثت عن سفيان بن عيينة، قال: لقيني أبو حنيفة، فقال لي: كيف سماعك عن عمرو بن دينار ؟ قال: قلت له أكثرت عنه. قال: لكني لم أسمع منه إلا حديثين. قال: قلت: ما هو؟ فقال: حدثنا عمرو، عن جابر بن عبد الله «في [أخباري]»، فقلت: حدثنا عمرو، عن جابر بن زيد ليس جابر بن عبد الله، قلت: وما الآخر؟ فقال: حدثنا عمرو، عن ابن الحنفية عن علي: «لقد ظلم من لم يورث الإخوة من الأم» فقلت: حدثنا عمرو، عن عبد الله بن محمد بن علي ليس بابن الحنفية.
قال سفيان: «فإذا هو قد أخطأ فيهما جميعا
(سؤالات البرذعي لأبي زرعة الرازي - ت الهاشمي ٢/٧٥٦ )
ابو حاتم نے سفیان بن عُیینہ سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا: مجھے ابو حنیفہ ملے اور مجھ سے پوچھا: ’’تمہارا عمرو بن دینار سے سماع کیسا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں نے ان سے بہت کچھ سنا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: ’’لیکن میں نے ان سے صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔‘‘ میں نے کہا: ’’وہ کیا ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن عبد اللہ سے حدیث بیان کی...‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے جابر بن زید سے حدیث بیان کی ہے، نہ کہ جابر بن عبد اللہ سے۔‘‘ میں نے کہا: ’’اور دوسری حدیث؟‘‘ انہوں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے ابن الحنفیہ سے علیؓ سے روایت کی: ’جس نے ماں شریک بھائیوں کو میراث نہ دی، اس نے ظلم کیا۔‘‘‘ میں نے کہا: ’’ہمیں عمرو نے عبداللہ بن محمد بن علی سے حدیث بیان کی، نہ کہ ابن الحنفیہ سے۔‘‘ سفیان نے کہا: ’’تو وہ دونوں حدیثوں میں غلطی پر تھے۔‘‘
جواب :
امام ابو حاتم (جن کی پیدائش 195ھ ہے) نے امام سفیان بن عیینہ (جن کی وفات 196 یا 198ھ ہے) سے اتنی چھوٹی عمر میں کیسے یہ روایت سن لی ؟
حدثت کا صیغہ سند میں انقطاع بتا رہا ہے ، مزید یہ کہ اس روایت کا متن بھی منکر ہے ، امام صاحب نے عمرو بن دینار سے صرف 2 روایتیں سنی ہیں یہ صریح جھوٹ ہے جیسا کہ کتب میں امام صاحب کی عمرو بن دینار سے بہت سی روایات ملتی ہیں ۔ مثلا
▪︎ كتاب الآثار 636 - 1019 - 1021 ( الآثار لأبي يوسف ١/٢٣٠، الآثار لأبي يوسف ١/٢٣١ ، الآثار لأبي يوسف ١/١٤٠ )
▪︎ مسند أبي حنيفة برواية أبو نعيم 2 روايات
▪︎ سنن البيهقي 8209 - 14342 -
لہذا ابو حاتم والی روایت بھی ضعیف ہے اور متن بھی منکر ہے ، پس معترضین کا امام اعظم پر اعتراض باطل ہے ۔
اعتراض نمبر 4:
قال الخطيب رحمه الله (ج٣ص٤١٣):
حدثنا أبو تعيم الحافظ حدثنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف حدثنا بشر بن موسى حدثنا الحميدي حدثنا سفيان عن هشام بن عروة عن أبيه قال: لم يزل أمر بني إسرائيل معتدلًا حتى ظهر فيهم المولدون أبناء سبايا الأمم فقالوا فيهم بالرأي فضلوا وأضلوا، قال سفيان وهو ابن عيينة: ولم يزل أمر الناس معتدلًا حتى غير ذلك أبو حنيفة بالكوفة وعثمان البتي بالبصرة وربيعة بن أبي عبد الرحمن بالمدينة فنظرنا فوجدناهم من أبناء سبايا الأمم.
اعتراض نمبر 5:
قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٣٢٩):
حدثنا إسحاق بن عيسى الطباع عن ابن عيينة قال قلت لسفيان الثوري: لعله يحملك على أن تفتي أنك ترى من ليس بأهل الفتوى يفتي فتفتي؟ قال عبد الله بن أحمد: قال أبي: يعني أبا حنيفة.
ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری سے کہا: شاید آپ کو فتویٰ دینے پر اس وجہ سے آمادہ کیا ہو کہ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ فتویٰ دے رہے ہیں جو اس کے اہل نہیں، تو آپ بھی فتویٰ دینے لگے؟
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میرے والد (احمد بن حنبل) نے کہا: اس سے مراد ابو حنیفہ ہیں۔
جواب :
اول : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تعصب اس روایت سے واضح ہو گیا ہے ، خود امام احمد بن حنبل نے فقہ کے مشکل ترین مسائل جن سے سیکھے ، اب انھی کو فقہ سے نا بلد کہہ رہے ہیں ، کیا احسان کا بدلہ یہی ہوتا ہے ؟ کیا جن سے علم حاصل کیا جاتا ہے ، ان سے ایسا سلوک کرنا بہتر ہے ؟
اللہ امام احمد سے درگزر فرمائیں
دوم : اس روایت میں سفیان بن عیینہ یا سفیان الثوری نے کہیں بھی امام ابو حنیفہ کا تذکرہ نہیں کیا ۔ الٹا سفیان بن عیینہ امام ابو حنیفہ کی فقہ کو آفاق پر پھیلاو کا اعلان کر چکے ہیں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے ، یعنی وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی مہارت تسلیم کر چکے ہیں ،
اعتراض نمبر 71 : کہ سفیان نے کہا کہ اسلام میں سب سے بڑی شر ابوحنیفہ نے پھیلائی
اور امام سفیان ثوری کی فقہ بھی فقہ حنفی سے مماثلت رکھتی تھی جیسا کہ قارئیں ان مضامین میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں ۔
فقہ حنفی اور فقہ ثوری میں مماثلت: امام وکیع کی حنفیت:
اس صراحت کے باوجود امام احمد بن حنبل نے جو تعصب ظاہر کیا ، یہ ان کی شان کے لائق نہ تھا۔
ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ امام احمد بن حنبل جیسے جرح و تعدیل میں معتدل ترین امام نے بھی امام ابو حنیفہ کے معاملے پر حد سے زیادہ بے انصافی کی ہے ، لہذا امام احمد سے منقول کوئی بھی ایسی روایت ہو جس میں وہ امام ابو حنیفہ پر جرح کریں ، کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی
• " امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح "
اعتراض نمبر 6:
قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج٢ص٥٤٥):
سمعت سفيان بن عيينة يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. فقال له أبو زيد: يعني حماد بن دليل رجل من أصحاب سفيان لسفيان: فيماذا؟ فقال سفيان: تكلم بكلام فرأى أصحابه أن يستتيبوه فتاب.
اعتراض نمبر 7 :
قال عبد الله بن أحمد رحمه الله في «السنة» (ج١ص٢١٥):
حدثني محمد بن علي الوراق نا إبراهيم بن بشار ثنا سفيان قال: ما رأيت أحدًا أجرأ على الله من أبي حنيفة أتاه رجل من أهل خراسان فقال: جئتك على ألف بمائة ألف مسألة أريد أن أسألك عنها؟ فقال: هاتها، قال سفيان: فهل رأيتم أحدًا أجرأ على الله من هذا. اهـ.
اعتراض نمبر 8:
حدثني محمد بن علي ثنا إبراهيم بن بشار قال سمعت سفيان بن عيينة يقول: كان أبو حنيفة يضرب بحديث رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم الأمثال فيردها بلغة أبي حنيفة أحدث بحديث عن رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وسلم أنه قال: «البيعان بالخيار ما لم يتفرقا» فقال أبو حنيفة: أرأيتم إن كان في سفينة كيف يتفرقان فقال سفيان: فهل سمعت بأشر من هذا.
اعتراض نمبر 9:
قال ابن حبان في «المجروحين» (ج٣ص٧٠):
أخبرنا الفضل بن الحسين بهمذان قال حدثنا يحيى بن عبد الله بن ماهان عن ابن عيينة قال: حدثت أبا حنيفة عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم فقال: بل على هذا. اهـ.
جواب :
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں