یہاں جدید فرقہ اہلحدیث کے زبیر علی زئی کی طرف سے نقل کردہ باطل جروحات کے جوابات ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں۔
"النعمان سوشل میڈیا سروسز" یہ اقتباس مولانا ظہور الحسینی صاحب کی کتاب " تلامذہ امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام" سے پیش کر رہا ہے۔
امام ابو جعفر العقیلی سے منسوب جرح کا جواب
علی زئی لکھتے ہیں:
آپ نے قاضی ابو یوسف کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے جروح نقل کی ہیں۔ دیکھئے ج 4 ص 438 تا 444
[الحديث شمارہ 19، ص 52]
جواب:
امام عقیلی احناف کے خلاف انتہائی متعصب ہیں،
اور امام ابوحنیفہ سے لے کر ان کے زمانے تک کا کوئی حنفی شاہد ہی ان کے تعصب سے محفوظ رہا ہو، اور خود زبیر علی زئی نے تصریح کی ہے کہ:
تعصب والی جرح مردود ہوتی ہے۔ [الحدیث 22/44]
لہٰذا امام عقیلی جیسے متعصبین کا امام ابو یوسف کہ جن کی تحقیقات پر ہر دور میں امت کی اکثریت اعتماد کرتی آئی ہے، کو ضعفاء میں ذکر کرنا کچھ وقعت نہیں رکھتا۔
ثانیا: امام عقیلی نے اپنے تمام تر تعصب کے باوجود اگرچہ امام ابو یوسف کے خلاف جروح نقل
کی ہیں( جن میں سے اکثر کی حقیقت آپ ما قبل ملاحظہ کر چکے ہیں ) لیکن خود انہوں نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ،
اس کا مطلب ہے کہ امام عقیلی جیسے متعصب شخص کو بھی امام ابو یوسف میں کوئی ایسی چیز نہیں مل سکی کہ جس کی بنیاد پر وہ آپ پر جرح کرتے۔
ثالثاً۔ خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی امام عقیلی سخت متعنت اور متشدد ہیں یہاں تک کہ انہوں
نے امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ کبیر اور نامورحافظ الحدیث امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کو بھی معاف نہیں کیا، اور ان کو بھی کتاب الضعفاء میں ذکر کر دیا۔
مولانا نذیر احمد رحمانی غیر مقلد (جن کو علی زئی "مولانا المحقق الفقیہ" کے القاب سے یاد
کرتے ہیں)
[تعداد رکعات قیام رمضان صفحہ7]
امام عقیلی کے رد میں بحوالہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں :
ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء فبئس ما صنع ..... الى ان قال قال فمالک عقل یا عقیلی اتدرى فيمن تكلم
[انوار المصابيح ص 111]
عقیلی نے امام علی بن مدینی کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے بہت برا کیا ہے۔
اسے عقیلی ! تیری عقل کہاں چلی گئی؟
کیا تو جانتا ہے کہ کس شخص پر تو تنقید کر رہا ہے؟“
ہم یہاں علی زئی سے ان کے اپنے محقق اور فقیہ کی زبان سے گزارش کرتے ہیں کہ
اے عقل کے اندھے !
امام ابو یوسف کے خلاف عقیلی سے جرح نقل کرتے وقت تیری عقل کہاں چلی گئی؟
کیا تو نہیں جانتا کہ امام ابو یوسف وہ عظیم شخص ہیں کہ ایک نہیں ہزاروں عقیلی بھی ہوں تو وہ سب مل کر بھی آپ کے علم و فضل کے پاسنگ بھی نہیں ہو سکتے ؟
نیز رحمانی صاحب لکھتے ہیں : چار حضرات ( ابن معین ، نسائی، عقیلی اور ابن عدی)
کا متعنتین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے۔
[ انوار المصابيح ص 111 ]
شیخ عبد الرحمن الیمانی غیر مقلد نے بھی عقیلی کو متشدد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ
فقد كان في العقيلي تشدد ما فينبغي التثبت فيما يقول من عند نفسه في مظان تشدده
[التنكيل 465/1]
"بے شک عقیلی میں قدرے تشدد پایا جاتا ہے لہٰذا جب وہ تشدد میں آکر اپنی طرف سے کسی پر جرح کریں تو اس کو قبول کرنے میں احتیاط برتی جائے ۔“
لہذا جب خود غیر مقلدین کو بھی یہ تسلیم ہے کہ امام عقیلی جرح میں متشدد اور متعنت ہیں تو پھر علی زئی ان کی جرح کو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے خلاف کیوں پیش کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ممدوح مولانا ارشاد الحق اثری نے تصریح کی ہے کہ
یہ طے شدہ بات ہے کہ متعنت کی جرح قابل قبول نہیں
[توضيح الكلام 312/1]
اور خود علی زئی کا اپنا بیان بھی حافظ جوزجانی سے منسوب جرح کے جواب میں گزر چکا ہے
[تلامذہ ص 230 ، النعمان سوشل میڈیا سروسز]
جس میں علی زئی نے متعنت کی جرح کو مردود قرار دیا ہے۔
.........................
پیشکش :
النعمان سوشل میڈیا سروسز
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں