نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 74 مسئله : جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورہ سجدہ اور دوسری میں سورہ دہر پڑھنا مسنون ہے۔


 اعتراض نمبر ٧٤
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : جمعہ کے دن نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورہ سجدہ اور دوسری میں سورہ دہر پڑھنا مسنون ہے۔

حدیث نبویﷺ

عن ابي هريرة قال كان النبي ﷺ يقرء في الفجر يوم الجمعة بالم

تنزيل السجده في الركعة الاولى وفى الثانية هل اتى على الانسان.

( ترجمہ ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن فجر نماز کی پہلی رکعت میں الم تنزیل السجدۃ پڑھتے تھے اور دوسری رکعت میں ھل اتی علی الانسان پڑھتے تھے۔

(بخاري ج ١كتاب الجمعة باب ما يقرء في صلاة الفجر يوم الجمعة ص ۱۲۲، رقم الحدیث ٨٩١) (مسلم ج ١ ص ۲۸۸)

عن عبیدالله ابن ابی رافع قال استخلف مروان ابا هريرة على المدينة وخرج الى مكة وصلى لنا ابوهريرة الجمعة فقرا سورة الجمعة في السجدة الأولى وفى الاخرة اذا جاءك المنفقون فقال سمعت رسول الله ﷺ يقرأ بهما يوم الجمعة -

(ترجمہ) عبید اللہ بن ابی رافع کہتے ہیں کہ مروان ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کر کے مکہ کی طرف نکلا، پھر ابو ہریرہ نے جمعہ کی نماز میں پہلی رکعت میں سورۃ الجمعۃ اور دوسری میں اذا جاءك المنافقون پڑھی پھر کہنے لگے میں نے رسول اللہﷺ سے سنا جمعہ کے دن یہی دونوں سورتیں پڑھتے تھے۔

(مسلم ج١ص، ۲٧ رقم الحدیث ۸٧۷)

فقه حنفی

ويكره ان يوقت بشيئ من القران لشيء من الصلوات

(هداية اولین ١کتاب الصلاة باب صفة الصلاة فصل في القرأة صفحه ۱۲۰)

کسی نماز کے لیے قرآن میں سے کوئی سورت مقرر کرنا مکروہ ہے۔ (فقہ وحدیث ص ۱۱۳) .

جواب:

فقہ حنفی میں اس مسئلہ میں تفصیل ہے راشدی صاحب نے ہدایہ سے صرف لفظ مکروہ تو لکھ دیا اور اس کی وجہ نہیں لکھی۔ کب مکروہ ہوگا اور کس طرح مکروہ کا حکم لگے گا۔ اس مسئلہ میں جمعہ کے دن فجر کی نماز والی حدیث تو لکھ دی مگر آپ ﷺ نے پوری پوری سورۃ بقرہ آل عمران، نساء بھی تو نماز میں پڑھی ہے ان احادیث کا بالکل ذکر نہیں کیا۔ اور جمعہ کی نماز ۔ عید کی نماز جمعہ کی رات کی مغرب کی نماز ، اورہر نماز کی ہر رکعت میں ہمیشہ قل ہو اللہ احد پڑھنا بھی احادیث سے ثابت ہے۔ کیا ان احادیث پر غیر مقلدین کا عمل ہے ہم نے تو غیر مقلدین کی کسی مسجد میں کسی امام کو ہر رکعت میں ہمیشہ قل ھو اللہ احد پڑھتے نہیں دیکھا جبکہ یہ حدیث بخاری کی ہے تو یہاں پر نبی کریم ﷺ کی مخالفت نظر نہیں آتی۔ ہدایہ میں مکروہ کی وجہ بھی لکھی تھی جو راشدی صاحب نے نقل نہیں کی ہم یہاں پر پہلے مسئلہ کی تفصیل لکھتے ہیں بعد میں ہدایہ کی مکمل عبارت نقل کریں گے جس سے مسئلہ خود بہ خود صاف ہو جائے گا۔

 ہدایہ کی عبارت کا صحیح مفہوم

مفتی عبد الحلیم قاسمی لکھتے ہیں:

مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی نماز کے لیے قرآن کریم کے کسی خاص حصے کا پڑھنالازم اور ضروری نہیں ہے کہ اگر اس نماز میں اس حصے کو نہ پڑھا جائے گا تو نماز ہی درست نہیں ہوگی ۔ کیوں کہ قرآت قرآن کے سلسلے میں جو آیت ہے یعنی فاقرؤا ما تسير من القرآن ۔ وہ مطلق ہے اور المطلق يجرى على إطلاقہ کے پیش نظر پورے قرآن میں سے کہیں سے بھی قرآت کرنے سے نماز ہو جائے گی۔ لہذا قرآن کے کسی بھی حصے کو خاص کرنا درست نہیں ہے۔

اسی طرح کسی نماز کے لیے کسی سورت کو مثلاً مغرب کی نماز کے لیے معوذتین ( یعنی فلق اور والناس) کو متعین کر کے پڑھنا ( یعنی ان کے علاوہ دوسری سورۃ پڑھنا ہی نہیں ) بھی مکروہ ہے کیوں کہ اس میں دو خرابیاں لازم آتی ہیں 

(۱) اس کے علاوہ باقی قرآن کا ترک (۲) یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ اس حصہ کا پڑھنا افضل ہے اور بقیہ کا پڑھنا افضل نہیں ہے۔ جب کہ جواز صلاۃ کے لیے پورا قرآن پڑھنا یکساں ہے اور نماز میں تو کسی بھی حصے کو دوسرے پر فوقیت یا فضیلت حاصل نہیں ہے۔ 

(احسن الہدایہ جلد ۲، ص ۹۵ و ص ۹۶)

ہدایہ کی عبارت کا مکمل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں

مولانامحمد حنیف گنگوہی لکھتے ہیں :

وليس في شيء من الصلوت قراءة سورة بعينها لا يجوز غيرها لاطلاق ما تلونا ويكره ان يوقت بشيء من القران لشئ من الصلوت لما فيه من هجر الباقي وايهام التفصيل

(ترجمہ) اور نہیں ہے کسی نماز میں کوئی معین سورت پڑھنا کہ اس کے علاوہ جائز نہ ہو، بدلیل مطلق ہونے اس آیت کے جو ہم نے تلاوت کی ، اور مکروہ ہے یہ کہ مقرر کر لے قرآن کا کوئی حصہ کسی نماز کے لیے کیونکہ اس میں باقی قرآن کا

چھوڑنا اور مقرر کردہ کو فضیلت دینے کا وہم لازم آتا ہے۔

تشریح : قولہ ولیس بشی الخ یہاں دو مسئلے ہیں جن میں سے ایک ولیس فی شیء من الصلوت اٹھا ہے اور بظاہر ان دونوں کا مفاد حکم گو ایک ہی معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ دونوں وضعاً اور بیانا ہر دو اعتبار سے متغایر ہیں، وضعا تو اس لیے کہ پہلا مسئلہ مسائل قدوری میں سے ہے اور دوسرا مسئلہ مسائل جامع صغیر میں سے ہے، اور صاحب ہدایہ نے اس کا التزام کیا ہے کہ جب روایتیں مختلف ہوں تو دونوں کو ذکر کرتے ہیں، اور بیانا اس لیے کہ پہلے مسئلہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی نماز میں ادائیگی قرآت کے لیے کوئی سورت معین ہو کر فرض نہیں کہ اس سورت کے علاوہ کوئی دوسری سورت جائز نہ ہو۔ اس میں امام شافعی کے مذہب سے احتراز ہے کہ وہ جواز صلوۃ کے لیے قراءت فاتحہ کو معین کرتے ہیں، اور دوسرے مسئلہ کا مطلب یہ ہے کہ نمازی کا قرآن کی کسی سورت ( مثلاً الم سجدہ اور هل اتي على الانسان وغیرہ) کو کسی نماز کے لیے اس طرح مقرر کرنا کہ اس میں وہی سورت پڑھنا واجب ہے۔ مکروہ ہے۔ (عنایہ ) پھر اس مسئلہ کے حکم اور اس کی علت کے بارے میں فقہاء کی عبارتیں اور اس کی تحقیق میں ان کے اقوال متناقض ہیں اس لئے یہاں اس کی تفصیل ضروری ہے، سو جاننا چاہئے کہ امام محمد رحمۃاللہ علیہ نے جامع صغیر میں لکھا ہے ” یکرہ ان یوقت الرجل شيئا من القران لشئ من الصلوة کہ نمازی کا قرآن کے کسی حصہ کو کسی نماز کے لیے مقرر کر لینا ۔ مکروہ ہے، اب اس کی علت کیا ہے؟

صدر شہید نے شرح جامع صغیر میں کہا ہے ۔ لان فيه هجر الباقی “ کہ اس میں باقی قرآن کا ہجر ( چھوڑنا ) لازم آتا ہے اور یہ مکروہ ہے بقوله تعالى: "وقالى الوصول يا رب إن قومي اتخذوا هذا القران مهجورا ، یعنی ضدی معاندین نے جب کسی طرح نصیحت پر کان نہ دھرا تب پیغمبر علیہ اسلام نے بارگاہ الہی میں شکایت کی کہ خداوندا میری قوم نہیں سنتی ، انہوں نے قرآن جیسی عظیم الشان اور قابل قدر کتاب کو بالکل مہجور ومتروک کر چھوڑا ہے۔ صاحب ہدایہ نے اس علت کےساتھ وايهام التفصیل بھی ذکر کیا ہے کہ اس میں ابہام تفصیل بھی ہے یعنی یہ وہم ہوتا ہے کہ فضیلت اس سورت کو حاصل ہے دوسری کو نہیں ، حالانکہ یہ بھی غلط ہے۔ صاحب نہایہ نے امام طحاوی اور اسمبیجابی کا قول نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

هذا الذي ذكر نا اذار اه حتما واجب الا يجزى غيرها اور اى القراءة بغيرها مكروهة امالو قراها فى تلك الصلوة تبركا بقراءة رسول الله ﷺ او تاسیا به اولاجل التيسير فلاكراهة فى ذلك لكن يشترط ان يقرا غيرها احيانا لئلا يظن الجاهل الغبى انه لا يجوز غير ذلك وغالب العوام على اعتقاء بطلان الصلوة بترك سورة الم تنزيل السجدة وما يحملهم على هذا الا التزام الشافعية قراءة سورة السجدة انتهى (ومثله في خز المفتين)

 یعنی مذکورہ حکم اس وقت ہے جب اس کا پڑھنا حتمی واجب سمجھے اس طرح کہ اس کے سوا جائز ہی نہیں یا یہ سمجھے کہ اس سورت کے سوا اور کچھ پڑھنا مکروہ ہے، لیکن اگر کوئی سورت اس لیے مقرر کر لے کہ وہ اس پر آسان ہے یا آنحضرت ﷺ نے اس کو پڑھا ہے یا تبرک کے طور پر مقرر کر لیا تو کراہت نہ ہوگی بشرطیکہ کبھی کبھی اس کے علاوہ بھی پڑھ لے تا کہ عوام جاہلوں کو یہ گمان نہ جم جائے کہ اس نماز کے لیے اس سورت کی قراءت مقرر ہے، دوسری جائز نہیں، چنانچہ شافعیہ نے جو سورہ سجدہ کا نماز جمعہ وفجر ہیں بوجہ سنت کے التزام کیا ہے اس سے اکثر عوام میں یہ اعتقاد بیٹھ گیا کہ اس وقت میں یہی مخصوص ہے حتی کہ اس کے بغیر جائز نہیں

ان عبارات کا حاصل یہ نکلا کہ کراہت تعیین دوامی کی علت کے سلسلہ میں چار قول ہیں۔ 

اول یہ کہ تعیین کی صورت میں باقی قرآن کا ہجر لازم آتا ہے 

دوم یہ کہ اس میں ایہام تفصیل ہے سوم یہ کہ ہجر باقی اور ایہام تفصیل دونوں ہیں 

چہارم یہ کہ معین کردہ سورت کے علاوہ سے عدم جواز صلوٰۃ کا اعتقاد ہوتا ہے، اب اگر پہلی علت مانی جائے تو کسی نماز کے لیے کوئی سورت ہمیشہ کے لیے مقرر کرنا اس وقت مکروہ ہو گا جب کسی اور نماز میں بھی اس سورت کے علاوہ نہ پڑھے، اس لیے کہ اگر کسی خاص نماز کے لیے کوئی سورت معین کرے اور اس نماز کے علاوہ دیگر نمازوں میں دیگر سورتیں پڑھے تو اس صورت میں باقی قرآن کا ہجر لازم نہیں آتا ، اور اگر دوسری علت مانی جائے تو مداومت علی الاطلاق مکروہ ہوگی دیگر سورت پڑھے یا نہ پڑھے اور تیسری علت اگر مجموع من حیث المجموع معتبر ہو تو اس کا حال اول کاسا ہوگا اور اگر ان میں سے ہر ایک مستقلاً معتبر ہو تو یہ علت ثانی کی طرح ہوگی اور چوتھی علت پر مداومت اس وقت مکروہ ہوگی جب مقرر کردہ سورت کے علاوہ سے عدم جواز صلوۃ کا اعتقاد ہو۔ 

اسی اختلاف کی طرح ایک دوسرا اختلاف ہے اور وہ یہ کہ ہر جمعہ کے روز نماز میں سورہ سجدہ اور سورۂ دہر کی مداومت مکروہ ہے یا نہیں؟ سو جو لوگ تعلیل رابع کے قائل نہیں ان کے یہاں مکروہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتقاد مذکور سے خالی ہو، اور جو لوگ تعلیل اول کے قائل ہیں وہ بھی مکروہ نہیں کہتے جبکہ دیگر نمازوں میں دیگر سورتیں پڑھنا ہو، لیکن جو لوگ تعلیل ثانی اور تعلیل ثالث کے قائل ہیں ان دونوں فرقوں کے نزدیک مداومت مذکورہ علی الاطلاق مکروہ ہے، اسی اختلاف پر یہ بات متفرع ہوتی ہے کہ مسئلہ مذکورہ ہمارے اور شوافع کے درمیان اختلافی ہے یا اتفاقی ؟ سوقول رابع پر تو مسئلہ اتفاقی قرار پاتا ہے اور باقی اقوال پر اختلافی ہوتا ہے وہ یہی مشہور بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ہمارے اور شوافع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور مسئلہ کی اصل علت یہ ہے کہ اس میں شارع کی تعیین کے بغیر اپنی طرف سے ایک چیز کو معین کرنا لازم آتا ہے جو بالیقین مکروہ ہے۔ 

(غایۃ السعایہ ج ۳ ص ۲۱۶ ، ۲۱۷)

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...