اعتراض نمبر 110 : کہ امام ابو حنیفہ نے عقیقہ کو جاہلیت کا طریق کار کہا حالانکہ اس کے بارہ میں تو مستند احادیث ہیں۔
اعتراض نمبر 110 :
کہ امام ابو حنیفہ نے عقیقہ کو جاہلیت کا طریق کار کہا حالانکہ اس کے بارہ میں تو مستند
احادیث ہیں۔
أخبرنا بشرى بن عبد الله الرومي، أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان، حدثنا محمد بن جعفر الراشدي، حدثنا أبو بكر الأثرم قال: أخبرنا أبو عبد الله بباب في العقيقة، فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم أحاديث مسندة، وعن أصحابه وعن التابعين. ثم قال: قال أبو حنيفة: هو من عمل الجاهلية. ويتبسم كالمتعجب.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اہل جاہلیت عقیقہ کو واجب سمجھتے تھے اور ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب کی رائے میں اسلام کے اندر اس کا وجوب ختم کر کے اس کی صرف اباحت رکھی گئی ہے اور امام محمد بن الحسن الشیبانی نے الاثار میں ابو حنیفہ حماد۔ ابراہیم کی سند نقل کر کے کہا کہ ابراہیم نے کہا کہ عقیقہ جاہلیت میں تھا تو جب اسلام آیا تو چھوڑ دیا گیا۔ (یعنی اس کی پہلے جیسی حالت باقی نہ رہی)
اور امام محمد نے ابو حنيفة عن رجل عن محمد بن الحنفية كي سند نقل کر کے کہا کہ بے شک عقیقہ جاہلیت میں تھا تو جب اسلام آیا تو اس کو چھوڑ دیا گیا۔
امام محمد نے کہا کہ اسی پر ہمارا عمل ہے اور یہی ابوحنیفہ کا قول ہے۔ الخ۔[1]
اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ پہلے جاہلیت کے عمل سے تھا، پھر اسلام میں اس پر عمل کیا گیا۔
ابو حنیفہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بے شک جو عمل جاہلیت کے دور میں واجب تھا جب اسلام میں اس عمل کی اجازت دی گئی تو یہ عمل صرف اباحت پر دلالت کرتا ہے اس کا وہ وجوب باقی نہیں رہتا جو جاہلیت میں تھا۔
اور اس کے ساتھ اس نظریہ میں محمد بن حنفیہ بھی ہیں وہ اتنے بڑے فقیہ تھے کہ افتاء میں وہ فقاء صحابہ کے برابر سمجھے جاتے تھے۔
اور اسی طرح اس کے ساتھ ابراہیم النخعی ہیں۔
یہ جلیل القدر فقیہ جس کے بارہ میں شعبی نے کہا کہ ابراہیم نے اپنے بعد کوئی ایسا آدمی نہیں چھوڑا جو اس سے زیادہ عالم ہو تو اس سے پوچھا گیا کہ الحسن اور ابن سیرین بھی نہیں تو اس نے کہا کہ نہ الحسن ہیں اور نہ ابن سیرین اور نہ ہی اہل بصرہ اور اہل کوفہ اور اہل حجاز میں سے کوئی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے یہ بھی کہا کہ نہ ہی اہل شام میں سے کوئی ہے۔
اور اسی طرح اس کے ساتھ اس
نظریہ میں محمد بن الحسن ہیں۔
یہ وہ عظمت والا فقیہ ہے جس نے ابوحنیفہ ابو یوسف
الاوزاعی، ثوری اور مالک رضی اللہ عنہم کے علم کو اپنے اندر جمع کیا ہوا تھا۔
اور عقیقہ کے بارہ میں جو احادیث وارد ہیں، یہ حضرات ان سے عقیقہ کا وجوب نہیں سمجھتے۔
اگرچہ امام احمد نے( اس کے وجوب) کا دعوی کیا ہے اور جماعت سے کٹ کر اکیلے رہ گئے۔ اور بہر حال اس عقیقہ کی اباحت جو ندب کو مشتمل ہے تو ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اس کا انکار کرتا ہو۔
اور عقیقہ والی احادیث میں کافی لمبی بحث ہے۔
اور ابو حنیفہ نے عقیقہ کو جو جاہلیت کے عمل سے کہا ہے تو اس کی مراد وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے۔ علاوہ اس کے یہاں ایک روایت ایسی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف لفظ عقیقہ کو اچھا نہ سمجھتے تھے۔ اور اس نام کو حضور علیہ السلام نے بھی اچھا نہیں سمجھا ( جیسا کہ ابو داؤد ج 2 ص 36 وغیرہ کی روایت میں ہے) [2][3]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ 806 - محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة, عن حماد, عن إبراهيم قال: كانت العقيقة في الجاهلية فلما جاء الإسلام رفضت.
807 - محمد قال: أخبرنا أبو حنيفة قال: حدثنا رجل, عن محمد بن الحنفية, أن العقيقة كانت في الجاهلية, فلما جاء الإسلام رفضت.
قال محمد: وبه نأخذ, وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى.
[2]۔ سنن ابو داود (حدیث نمبر 2843 صحیح ) سے معلوم ہوتا ہیکہ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ عقیقہ کرتے تھے ، اور جانور کا خون بچے کے سر پر ملتے تھے ، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہیکہ بعد میں خون بچے کے سر پر ملنے والا عمل منسوخ ہو گیا ۔
[3]۔ امام صاحب کے نزدیک عقیقہ کو واجب کہنا ، یہ جاہلیت کا طریقہ ہے ، کیونکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہیکہ یہ مستحب عمل ہے ، جس کے پاس گنجائش ہو وہ کرے ۔ مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 108 میں دیکھ سکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں