اعتراض نمبر 124 : کہ ابن المبارک نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں یتیم تھے اور ابو قطن نے کہا کہ حدیث میں اپاہج تھے۔
اعتراض نمبر 124 :
کہ ابن المبارک نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں یتیم تھے اور ابو قطن نے کہا کہ حدیث میں اپاہج تھے۔
أخبرنا ابن دوما ، أخبرنا ابن سلم، حدّثنا الأبار، حَدَّثَنَا عَليّ بن خشرم عن عَليّ بن إِسْحَاق التِّرْمِذِي قَالَ: قَالَ ابن المبارك: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.
١١٣- أَخْبَرَنَا الْبَرْقَانِيّ قال: قرئ على عمر بن بشران- وأنا أسمع- حدثكم عَليّ بن الحُسَيْن بن حبان، حدّثنا أبي حَدَّثَنَا عَبْد اللَّه بْن أَحْمَد بْن شَبَّوَيْهِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَهْب يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْد الله- هُوَ ابن المبارك- يَقُولُ: كَانَ أَبُو حنيفة يتيما في الحديث.
١١٤- أَخْبَرَنَا عَليّ بن مُحَمَّد بن عبد الله المعدل، حدّثنا أبو علي بن الصّوّاف، أخبرنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ- إجازة- حدّثنا سريج بن يونس، حدّثنا أبو قطن، حَدَّثَنَا أَبُو حنيفة، وَكَانَ زمنا في الحديث.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خطیب نے پہلی خبر دو سندوں سے نقل کی ہے ان میں سے ایک سند میں ابن دوما ہے۔ اور جھوٹا آدمی کبھی سچ کہہ ہی دیتا ہے۔
اور یہ خبر ان میں سے ہے جن کو ابن عبد البر نے الانتقاء ص 132 میں ذکر کیا ہے مگر اس میں تصحیف ہوتی ہے کہ ہیما کو تیما لکھ دیا گیا ہے اور یہ واضح غلطی ہے اور ابن ابی حاتم کے ہاں كان مسكينا في الحدیث کے الفاظ ہیں اور آخری سند میں عبد اللہ بن احمد ہے اور اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ واقعہ ثابت ہے تو جس نے یتیم یا الزمانہ کی صفت کی نسبت ابو حنیفہ کی طرف کی ہے تو اس کی مراد یہ ہے کہ وہ حدیث کی راویت میں سندوں کی زیادتی تلاش کرنے کی پرواہ نہ کرتے تھے جیسا کہ ان لوگوں کی عادت تھی جو صرف روایت کی جانب ہی توجہ کرنے والے تھے بخلاف مجتہدین کے کہ اگر ان کو چند اسناد کے ساتھ یا ایک ہی صحیح یا حسن درجہ کی سند کے ساتھ روایت مل جائے تو وہ اس میں سے احکام استنباط کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کثرت طرق کے متلاشی نہیں ہوتے اور ابراہیم بن سعید الجوہری کہا کرتے تھے کہ ہر ایسی حدیث جو میرے پاس سو سندوں کے ساتھ نہ ہو تو میں اس حدیث میں یتیم ہوں۔
فقہی مسائل میں امام ابو حنیفہ کا امتیازی طریق کار
اور ہمیں اعتراف ہے کہ ابو حنیفہ اس انداز میں نہ تھے کہ وہ احادیث کے کثرت طرق ہی تلاش کرتے رہے ہوں اور نہ ہی وہ ان راویوں میں سے تھے جن کے پاس ایک ایک حدیث کے لاکھوں راوی ہوں۔
پختہ بات ہے کہ ان کے پاس حدیث کے کئی صندوق تھے ان میں سے چار ہزار کے قریب احادیث انہوں نے منتخب کیں۔ ان میں سے نصف تو وہ تھیں جو انہوں نے اپنے خاص شیخ حماد بن سلیمان سے لی تھیں اور باقی نصف ان کے باقی شیوخ سے تھیں۔
اور ان کے علاوہ باقی میں وہ اس لیے اکتفاء کرتے کہ ان کو مختلف علوم میں فوقیت والے ان کے اصحاب روایت کرتے ہیں جو اس فقہی مجلس کے ارکان تھے جس کے وہ سردار تھے اور وہ ان ارکان سے مسائل کے ہر پہلو میں خوب بحث کرتے پھر اس کو رجسٹر میں درج کرتے۔ ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد محمد بن شجاع الحسن بن ابی مالک۔ ابو یوسف کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو یوسف نے کہا کہ جب کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو ابو حنیفہ کہا کرتے تھے کہ اس بارہ میں تمہارے پاس کیا آثار ہیں؟ تو جب ہم آثار راویت کرتے اور ذکر کر دیتے اور وہ بھی ان آثار کو ذکر کر دیتے جو ان کے پاس ہوتے تو پھر غور و فکر کرتے تو اگر کسی مسئلہ میں دو رائے ہوتیں اور ان میں سے ایک رائے پر آثار زیادہ ہوتے تو اس رائے کو اختیار کر لیتے۔ اور اگر دونوں میں آثار قریب قریب اور برابر ہوتے تو غور و فکر کے بعد ایک قول کو اختیار کر لیتے تھے۔ الخ
امام ابو حنیفہ کے بارہ میں وکیع کا نظریہ
اور خطیب نے ص 247 ج 14 میں الخلال۔ الحریری علی بن عمرو۔ علی بن محمد النخعی یعنی ابراہیم ابن کرامہ کی سند نقل کر کے کہا کہ ابن کرامہ نے کہا کہ ہم وکیع کے پاس تھے تو ایک آدمی نے کہا کہ ابوحنیفہ نے خطا کی ہے تو وکیع نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ابو حنیفہ خطا کرتے؟
اس لیے کہ ان کے ساتھ تو قیاس میں ابو یوسف اور زفر جیسے اور حفاظ حدیث میں یحییٰ بن ابی زائدہ اور حفص بن غیاث اور حبان اور مندل جیسے اور لغت اور عربیت میں القاسم بن معن جیسے اور زہد و تقویٰ میں داؤد الطائی اور فضیل بن عیاض جیسے آدمی تھے۔
اور یہ لوگ جس کے ہم مجلس ہوں تو وہ غلطی نہیں کر سکتا اس لیے کہ اگر وہ غلطی کرے گا تو یہ حضرات اس کو رد کر دیں گے۔ الخ۔ [1]۔
اور اس کے قریب ابو حنیفہ کا قول ہے کہ ہمارے یہ چھتیسں اصحاب ہیں۔
اور میں نے نصب الرایہ کے مقدمہ میں تفصیل کے ساتھ اس فقہی مجلس کے ہونے پر ان اخبار کو پیش کیا ہے جو اس پر وارد ہیں۔
مجتہد کے پاس کم از کم کتنی احادیث کا ہونا ضروری ہے
اور ابو حنیفہ کے پاس احادیث تھیں جن میں احکامات کا ذکر ہے جو متن کے تکرار کے بغیر مسانید میں روایت کی گئی ہیں اور ایک ہی حدیث کے متعلق بہت بڑی تعداد میں کئی کئی اسناد بھی ذکر نہیں کی گئیں۔
اس کے باوجود ان احادیث کی تعداد اس تعداد سے کم نہیں جو احکام والی روایات امام مالک اور امام شافعی کے پاس معلوم کی جاسکی ہیں حالانکہ ان دونوں اماموں سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اپنی ہی مروی کئی روایات پر عمل نہیں کرتے۔
اور جزء ابن عقال میں ابن شکوال کی روایت ہے کہ مجتہد کو کتنی احادیث کی جانب لازما حاجت ہوتی ہے تو اس بارہ میں آراء مختلف ہیں اور ان کے نقل کرنے میں طوالت کا خوف بھی ہے۔
اور تمام آراء کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ کم از کم پانچ سو احادیث کا ہونا ضروری ہے بلکہ متاخرین میں سے بعض حنابلہ نے صراحت کی ہے کہ مجتہد کے لیے پانچ سو احادیث کا ہونا ضروری ہے۔
اور جس آدمی کا یہ خیال ہے کہ ابوحنیفہ کے پاس کم حدیثیں تھیں یا وہ حدیث کی بکثرت مخالفت کرنے والے تھے یا بکثرت ضعیف احادیث کو لینے والے تھے تو وہ ان تمام کے ہاں اخبار قبول کرنے کی جو شرائط ہیں ایسا آدمی ان سے ناواقف ہے اور وہ آئمه مجتہدین کے علوم کا وزن اپنے اس ناقص ترازو پر کرنا چاہتا ہے جو بعض اوقات پرکھنے میں خلل ڈالتا ہے۔
احکام استنباط کرنے میں امام ابو حنیفہ کے بعض اصول اور امام صاحب کے احکام استنباط کرنے کے باب میں اصول پختہ ہیں تو جو آدمی ان سے ناواقف ہے وہ بعض دفعہ ان چیزوں کی نسبت ان کی طرف کر دیتا ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہیں( یعنی یہ کہ ابو حنیفہ قلیل الحدیث تھے یا اکثر حدیث کی مخالفت کرتے تھے وغیرہ وغیرہ)
اور امام ابو حنیفہ کے ان اصولوں میں یہ بھی ہے کہ ثقہ راویوں کی مرسلات بھی قبول کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابل ان سے زیادہ قوی دلیل یا روایت موجود نہ ہو۔
اور مرسل کو دلیل بنانا تو ایسا طریقہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے کہ فضیلت والے زمانوں میں امت کا عمل اس پر جاری رہا ہے۔
یہاں تک کہ ابن جریر نے کہا کہ مطلقا مرسل روایت کو رد کرنا ایسی بدعت ہے جو دوسری صدی کی ابتداء میں رائج ہوئی۔ الخ۔
جیسا کہ الباجی نے اپنے اصول میں اور ابن عبد البر نے التمہید میں اور ابن رجب نے شرع علل الترمزی میں اس کو ذکر کیا ہے۔
بلکہ آپ دیکھیں گے کہ امام بخاری نے جیسے جزء القراءة خلف الامام وغیرہ میں ان مراسیل سے دلیل پکڑی ہے، اسی طرح اپنی صحیح میں بھی مرسل روایات سے دلیل پکڑی ہے بلکہ مسلم کے ہی اپنی صحیح میں تو بہت سے مراسیل ہیں۔
جیسا کہ آپ اس کی وضاحت فتح المہلم شرح صحیح مسلم میں دیکھ سکتے جو مولانا المحدث شبیر احمد عثمانی کی ہے۔
اور جو آدمی محض ارسال کی وجہ سے روایت کو کمزور قرار دیتا ہے تو اس نے سنت کے ایک ایسے بڑے حصہ کو پھینک دیا جس پر عمل کیا جاتا ہے۔
اور ابو حنیفہ کے اصول میں سے یہ بات بھی ہے کہ اگر خبر واحد ہو تو اس کو ایسے اصول پر پیش کیا جاتا ہے جن پر اتفاق ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ خوب اچھی طرح موارد الشرع کی چھان بین کر لی جاتی ہے۔
تو جب خبر واحد ان اصولوں کے خلاف ہو تو وہ اپنے اس قاعدہ پر عمل کرتے ہیں کہ دو دلیلوں میں سے جو زیادہ قوی ہو اس کو لیا جاتا ہے اور جو اس کے مختلف ہو اس کو شاذ خبر شمار کیا جاتا ہے اور اس کے بہت سے نمونے امام طحاوی کی معانی الاثار میں موجود ہیں اور اس میں خبر صحیح کی مخالفت نہیں ہوتی۔
پختہ بات ہے کہ اس میں اس خبر کی مخالفت ہوتی ہے جس میں مجتہد کے سامنے کوئی علت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اور حدیث کا صحیح ہونا تو تب ثابت ہوتا ہے کہ مجتہد کے ہاں وہ حدیث عیب والی علتوں سے خالی ہو
اور ان کے اصول میں سے یہ بات بھی ہے کہ وہ خبر واحد کو کتاب اللہ کے عموم اور اس کے ظاہر پر پیش کرتے ہیں تو جب یہ خبر اس کے عام یا ظاہر کے خلاف ہو جو کتاب میں ہے تو کتاب پر عمل کرتے ہیں اور خبر کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہاں بھی دو دلیلوں میں سے اقوی کو لینے کے اصول پر عمل ہوتا ہے۔
اس لیے کہ کتاب قطعی الثبوت ہے اور اس کا ظاہر اور اس کا عموم ان کے نزدیک قطعی الدلالت ہے اور اس پر ان کے پاس دلائل قاطعہ ہیں جو اصول کی کتابوں جیسا کہ ابوبکر الرازی کی الفصول اور الاتقانی کی شامل میں تفصیل سے موجود ہیں۔
اور بہر حال جب خبر واحد کتاب کے عام یا ظاہر کے خلاف نہ ہو بلکہ اس میں مجمل کا بیان ہو تو اس پر عمل کرتے ہیں کیونکہ بیان کے بغیر اس (کتاب) میں کوئی دلالت ہی نہیں ہوتی۔
جب دلالت نہیں ہوتی تو عمل بھی نہ ہو سکے گا اس لیے حدیث سے اس کا بیان لیا جاتا ہے( تاکہ کتاب پر عمل کیا جا سکے) اور اس کو اس باب میں شامل نہیں کیا جا سکتا کہ خبر واحد کے ساتھ کتاب پر زیادتی کی گئی ہے۔
اگرچہ ان لوگوں نے یہ وہم کیا ہے جنہوں نے شور و غل کو عادت بنا رکھا ہے۔
اور ابو حنیفہ کے اصول میں سے یہ بھی ہے کہ خبر واحد کو اس وقت لیا جاتا ہے جبکہ وہ سنت مشہورہ کے خلاف نہ ہو خواہ وہ سنت فعلیہ ہو یا قولیہ ہو۔ اور یہاں بھی یہی اصول پیش نظر ہوتا ہے کہ دو دلیلوں میں سے زیادہ قوی پر عمل کرنا۔
اور اسی طرح اس کے اصول میں یہ بھی ہے کہ خبر واحد کو اس وقت لیا جائے گا جبکہ وہ اپنے جیسی خبر کے معارض نہ ہو اور تعارض کے وقت ترجیح کی جو وجوہات متعین کی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر ان دو متعارض اخبار میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دی جاتی ہے۔
اور یہ وجوہ ترجیح مجتہدین کی نظروں میں مختلف ہیں۔ جیسا کہ ان دو اخبار میں سے ایک کا راوی فقیہ ہو اور دوسرے کا فقیہ نہ ہو یا ایک روایت کا راوی دوسری روایت کے راوی سے زیادہ فقیہ ہو تو فقیہ کی روایت کو غیر فقیہ کی روایت پر اور افقہ کی روایت کو دوسری پر ترجیح دی جاتی ہے تو راوی کا فقیہ یا افقہ ہونا بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک وجوہ ترجیح میں سے ہے۔
اور اسی طرح اس کے اصول میں سے ہے کہ خبر کے راوی کا عمل اپنی مروی روایت کے خلاف نہ ہو جیسا کہ حضرت ابوہریرہ کی حدیث کہ جب کتا برتن میں منہ ڈالے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے جبکہ ان کا فتوہ اس کے خلاف ہے کہ انہوں نے تین مرتبہ دھونے کا فتوی دیا تو ابوحنیفہ نے اس علت کی وجہ سے اس سات مرتبہ والی روایت پر عمل ترک کر دیا[2]۔
اور ان اعلال میں امام ابو حنیفہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ سلف میں سے بہت سے حضرات ہیں جیسا کہ ابن رجب کی شرح علل الترمزی میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے اس کے خلاف رائے قائم کی ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی فقہ الظاہریہ کے زیادہ قریب ہے۔ (ظاہر یہ وہ ہیں جو حدیث کے مفہوم پر توجہ کیے بغیر صرف الفاظ ہی کو پیش نظر رکھ کر عمل کرتے ہیں)
اور اس کے اصول میں سے یہ بھی ہے کہ اگر ایک روایت میں متن یا سند کے لحاظ میں زیادتی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے دین میں احتیاط کا پہلو پیش سے زیادتی ہو اور دوسری روایت نظر رکھتے ہوئے زیادتی کو رد کر کے ناقص پر عمل کرتے ہیں جیسا کہ اس کا ذکر ابن رجب نے کیا ہے اور مخالفین کے ساتھ بحث و مباحثہ کے دوران ہمارے بعض متاخرین اصحاب کا اس قاعدہ سے غفلت برتتا جو پایا جاتا ہے تو یہ الزام الخصم بما یراہ ھو کے قبیل سے ہے (یعنی مخالف جس نظریہ کا قائل ہے اس میں اس کو جواب دینا)
اور اس کے اصول میں سے یہ بھی ہے کہ جس معاملہ میں عموم بلوی ہو اس میں خبر واحد کو نہیں لیتے یعنی ایسی چیز ہو جس میں تمام لوگوں کو ضرورت ہو تو ایسے معاملہ میں کم از کم خبر مشهور یا متواتر ہونی چاہیے۔
خبر واحد کو نہیں لیا جا سکتا اور اس میں حدود اور کفارات داخل ہیں جو شبہ کی وجہ سے ٹل جاتے ہیں۔
اور اس کے اصول میں سے یہ بھی ہے کہ جو روایت کسی صحابی نے کی تو اس کے حکم میں اختلاف کرنے والے صحابہ میں سے کسی نے اس حدیث سے احتجاج کو نہ چھوڑا ہو۔
اور اس کے اصول میں سے یہ بھی ہے کہ وہ خبر واحد ایسی ہو کہ اس میں سلف میں سے کسی نے طعن نہ کیا ہو۔
اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ حدود اور عقوبات میں جب روایات مختلف ہوں تو جن راویات میں تخفیف ہو ان کو لیتے ہیں۔
اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ راوی نے جب روایت سنی اس وقت سے لے کر آگے دوسرے تک پہنچانے تک اس کو وہ روایت خوب یاد ہو۔ درمیان میں نسیان طاری نہ ہوا ہو۔
اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ راوی اس وقت تک اپنے خط پر اعتماد نہ کرے جب تک اپنی مروی روایت کو ذکر نہ کر دے۔
اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ جو حدود شبہات کی وجہ سے مل جاتی ہیں ان میں روایات مختلف ہوں تو جس روایت میں سب سے زیادہ احتیاط ہو اس کو لیتے ہیں جیسا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کا معاملہ کہ ایک روایت میں ہے کہ مسروقہ چیز کی قیمت دس درہم ہو۔
دوسری میں ہے کہ ربع دینار یعنی تین درہم ہو تو دس دراہم والی روایت میں زیادہ احتیاط ہے اور اعتماد کے زیادہ لائق ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے جبکہ دونوں روایتوں کی تقدیم و تاخیر کا علم نہ ہو یہاں تک کہ ان میں سے کسی ایک پر منسوخ ہونے کا حکم نہ لگایا جا سکے۔
اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ اگر دو حدیثیں متعارض ہوں اور دونوں کے ساتھ صحابہ کے آثار پائے جاتے ہوں تو جس کے ساتھ آثار زیادہ ہوں اس کو لیا جائے گا اور ان اصولوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ خبر واحد ایسی ہو کہ اس میں اس عمل کی مخالفت نہ پائی جاتی ہو۔
جو عمل صحابہ اور تابعین میں مسلسل پایا جاتا ہو اور یہ حضرات جس شہر میں بھی رہائش پذیر ہوں یہ حکم عام ہے ،
اور یہ کسی شہر کے ساتھ مختص نہیں ہے جیسا کہ اس کی طرف لیث بن سعد نے اپنے اس خط میں اشارہ کیا ہے جو امام مالک کی طرف لکھا تھا۔
اور امام صاحب کے جو اصول بیان ہو چکے ہیں ان جیسے اور اصول بھی ہیں جو اقوی پر عمل کرتے ہوئے بہت سی روایات سے اعراض کا باعث بنتے ہیں۔
( اور جو حدیث قواعد و اصول پر پوری نہ اترے اس سے اعراض کو حدیث کے انکار پر محمول کرنا یا مجتہد کو اس کی وجہ سے طعن و تشنیع کرنا سراسر جہالت ہے) اور بے شک السيرة الشامية الكبرى والے الحافظ محمد بن يوسف الصالحی نے ان بعض اصول کی جانب اپنی اس بحث میں اشارہ کیا ہے جو اس نے ابن ابی شیبہ کے خلاف عقود الجمان فی مناقب ابی حنيفة النعمان میں کی ہے۔
پھر اس نے کہا کہ ان قواعد کی وجہ سے امام ابوحنیفہ نے بہت سی اخبار آحاد پر عمل کو چھوڑا ہے۔
اور اللہ تعالی کے ہاں وہ ان باتوں سے محفوظ ہیں جو اس کے بارہ میں اس کے مخالف کہتے ہیں اور وہ بری الذمہ ہے ان چیزوں سے جو مخالفین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور حق بات یہ ہے کہ انہوں نے عناداً کسی حدیث کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان سے اعراض پر واضح دلائل کی وجہ سے اجتہادا ان کے خلاف کیا ہے۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس معاملہ میں ان سے غلطی ہوئی ہے تب بھی ان کے لیے ایک اجر ہے اور اگر وہ درست ہے تو دوہرا اجر ہے اور اس پر طعن کرنے والے یا تو حاسد ہیں یا پھر اجتہاد کے مواقع سے ناواقف ہیں۔الخ
اور بہرحال اس کے بعض شیوخ یا شیوخ کے شیوخ کی وجہ سے اس کی بعض احادیث کو ضعیف قرار دینا تو اس کا دارومدار بعض متاخرین کے قول پر ہے تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ ظاہر بات ہے کہ وہ یقیناً اپنے شیوخ اور شیوخ کے شیوخ کے احوال کو جانتے تھے اور ان کے اور صحابی کے درمیان اکثر روایات میں زیادہ سے زیادہ دو راوی ہیں۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ تو ان کے احوال کا جاننا ان کے لیے کیسے دشوار ہو سکتا ہے؟[3] [4]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ تفصیل کیلئے دیکھیں دفاع احناف لائبریری پر رسالہ امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت
[2]۔حنفیہ کے ہاں ، واجب تین مرتبہ دھونا ہے جبکہ 7 دفعہ دھونا مستحب ہے
جس برتن میں کتا منہ ڈالے اسے تین، پانچ یا سات بار دھونے کا بیان
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متفرق اعتراضات
اعتراض نمبر30 : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حدیث میں یتیم یا مسکین تھے
[4]۔ ثقہ امام ابو قطن نے امام صاحب کو حدیث میں کمزور کیوں کہا ؟
اصل میں یہ روایت یوں تھی جیسے کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام ابو حنیفہ حدیث میں یتیم تھے ، تو بعض نے روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے یتیم کو مسکین سے تبدیل کیا اور بعض نے یتیم کو زمنا یعنی بیمار یا معذور سے بیان کیا۔
اب اصل میں یتیم کوئی قبیح کلمہ نہیں ، نہ ہی اس سے تضعیف ہوتی ہے بلکہ یتیم کا کلمہ تعریف میں بھی بولا جاتا ہے ۔ تو بعض لوگوں نے جو روایت بالمعنی میں اس کا غلط معنی بیان کیا تو وہ ان حضرات کا یا تو تعصب ہے یا تسامح ۔
٤٢٤٤- عمرو بن الهيثم بن قطن أبو قطن البصري عن بن أبي عروبة وأبي حنيفة
(الكاشف ٢/٩٠ )
اگر ابو قطن حدیث میں امام ابو حنیفہ کو ضعیف تصور کرتے تو ان کے واسطے سے حدیث ہی کیوں بیان کرتے ؟
دوم : ایسا ممکن ہیکہ یہ امام ابو قطن کا ابتدائی موقف ہو کیونکہ
امام ابو قطن نے جب امام شعبہ رحمہ اللہ کا خط امام ابو حنیفہ تک پہنچایا تو اس میں امام ابو قطن کے استاد عظیم محدث امام شعبہ رحمہ اللہ نے امام صاحب کی تعریف کی ہے لہذا ممکن ہیکہ یہ ابو قطن کا پہلا موقف ہو بعد میں انہوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا ہو جیسا کہ اس کی ایک مثال ملتی ہے جس میں امام ابو قطن امام سفیان ثوری سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں آپ کی طرف سے روایت بیان کی جاتی ہیکہ ابو حنیفہ نے توبہ کی ہے ؟ وہ سفیان ثوری سے پوچھتے ہیں کہ وہ توبہ کس سے تھی جس کے جواب میں امام سفیان ثوری سے مفصل روایت ہیکہ وہ توبہ کوئی کفر سے توبہ نہ تھی۔
مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 75 میں دیکھ سکتے ہیں۔
اب یہاں یہ بات معلوم ہوتی ہیکہ کبار محدثین کے شاگرد ، اپنے استاد پر آنکھ بند کر کے جو سنتے وہے آگے بیان کرتے تھے ، سفیان ثوری رحمہ اللہ سے کفر والی روایت کتنے ہی شاگردوں نے بیان کی ہے لیکن سب نے ادھوری بیان کی ہے ، کسی نے استاد سے نہیں پوچھا کہ پوری روایت کیا ہے ؟ صرف ابو قطن کے اسرار پر متعصب امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بتلایا کہ وہ توبہ تو کفر سے توبہ تھی ہی نہیں ۔
اب اس روایت میں بھی ایسا ہی ہے ، یہاں ابن المبارک کا مقصد مدح تھا لیکن بعض حضرات نے روایت بالمعنی بیان کرتے ہوئے اس مدح کو اعتراض میں بدل دیا ۔ لہذا ان حضرات کا یہ اعتراض وقعت نہیں رکھتا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں