اعتراض نمبر 130 : کہ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ امام مالک کی حدیث صحیح اور رائے کمزور ہے اور ابو حنیفہ کی نہ رائے ہے اور نہ حدیث اور امام شافعی کی رائے بھی صحیح ہے اور حدیث بھی صحیح ہے۔
اعتراض نمبر 130 :
کہ امام احمد بن حنبل نے کہا کہ امام مالک کی حدیث صحیح اور رائے کمزور ہے اور ابو حنیفہ کی نہ رائے ہے اور نہ حدیث اور امام شافعی کی رائے بھی صحیح ہے اور حدیث بھی صحیح ہے۔
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ آپ محمد بن عبد اللہ الشافعی کا حال نہ بھولے ہوں گے جبکہ آپ دیکھ رہے ہے ہیں کہ وہ ایک ایسی خبر بیان کرنے میں منفرد ہے جو خبر امام شافعی کے علاوہ باقی تمام ائمہ پر یا تو حدیث میں یا رائے میں یا دونوں چیزوں میں ضعف کا فیصلہ کر رہی ہے۔ اور یہ جواب مکمل نہیں ہو سکتے جب تک محذوفات کو مد نظر نہ رکھا جائے۔
پس اگر مراد یہ ہے کہ بے شک اس کی حدیث صحیح حدیث ہے اور اس کی کوئی معین رائے ضعیف ہے اور اس کو معہود مسئلہ میں قرار دیا جائے جو سائل اور مجیب کے درمیان جاری ہوا تھا۔
تو پھر یہ ایسی کلام ہے کہ اس میں کوئی غبار نہیں ہے۔
اس لیے کہ بے شک کوئی عالم ایسا نہیں مگر اس کی روایات میں سے کوئی حدیث تو صحیح ہوگی اور اس کی آراء میں سے کوئی رائے تو ضعیف ہوگی۔
اور بہر حال جب ہم یہ اعتبار کریں کہ محذوف عام ہے اور کہیں کہ اس کی ہر حدیث صحیح ہے اور اس کی ہر رائے ضعیف ہے تو یہ کھلم کھلا جھوٹ ہوگا کیونکہ امام مالک کی کتنی ہی حدیثیں ایسی ہیں جو صحیح نہیں ہیں جیسا کہ جزاء الدار قطنی میں ہے اور اس کی کتنی ہی رائے ایسی ہیں جو صحیح اور بہت زیادہ مضبوط ہیں جیساكه المصلحة المرسلة ان مقامات میں جہاں نص موجود نہیں۔ اور اسی طرح باقی جوابات میں بھی کلام ہے۔
اور بہر حال اس کا قول ابو حنیفہ کے بارہ میں کہ بے شک نہ اس کی رائے ہے اور نہ حدیث ہے تو میں نہیں جان سکا کہ اس سے قائل کی مراد کیا ہے؟ کیا اس کی مراد اس سے رائے صحیح کی نفی کرتا ہے یا ضعیف رائے کی یا صحیح حدیث کی یا ضعیف کی نفی کرتا ہے؟
کیونکہ ہمارے پاس کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے کہ ہم ان میں سے کسی کو متعین کریں۔
اور اگر وہ ارادہ کرتا ہے کہ اس کی بالکل کوئی رائے نہیں خواہ صحیح ہو یا ضعیف تو یہ کھلا جھوٹ ہے اور وہ راوی جو ابو حنیفہ کو اہل الرائے کا امام شمار کرتے ہیں تو ان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ اس کی یہاں کوئی رائے ہونے کی نفی کریں۔
بالخصوص جبکہ العقیلی - عبد اللہ بن احمد سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتا ہے کہ ابو حنیفہ کی حدیث ضعیف اور اس کی رائے ضعیف ہے۔
تو یہاں انہوں نے اس کی حدیث اور رائے دونوں کو تسلیم کیا ہے (اگرچہ ان کو ضعیف کہا ہے) اور بے شک خطیب بھی اس روایت کو العقیلی تک اپنی سند کے ساتھ روایت کرتا ہے جب کہ یہاں اسی کو رد کر رہا ہے۔
پس ابو حنیفہ کے بارہ میں العقیلی نے جو راویت کی ہے وہ بعینہ وہ روایت ہے جو خطیب نے یہاں اوزاعی کے بارہ میں کی ہے تو اے شخص تو غور سے اس شخص کو دیکھ جو دو جگہوں میں دو مختلف کے ساتھ ماپتا ہے (اور یہ دیانت کے خلاف ہے) [1]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]اس پوسٹ میں ہم مختصرا امام احمد سے جروحات کا جائزہ لیں گے ، اس پوسٹ کو پڑھنے سے پہلے قارئیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود درج ذیل مضمون کو لازمی پڑھیں ، کیونکہ اس پوسٹ میں ہم بارہا اسی مضمون کا اختصار نقل کریں گے ، مکمل تفصیل ، جوابات ، دلائل کیلئے دیکھیں ہمارا مضمون ۔
• امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
أخبرنا الحسن بن الحسن بن المنذر القاضي والحسن بن أبي بكر البزاز قالا أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي سمعت إبراهيم بن إسحاق الحربي قال: سمعت أحمد بن حنبل وسئل عن مالك فقال: حديث صحيح ورأي ضعيف، وسئل عن الأوزاعي فقال: حديث ضعيف ورأي ضعيف، وسئل عن أبي حنيفة فقال: لا رأي ولا حديث، وسئل عن الشافعي فقال: حديث صحيح ورأي صحيح. اهـ.
"امام احمد بن حنبل سے امام مالک کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا: حدیث صحیح ہے لیکن رائے کمزور ہے۔
امام اوزاعی کے بارے میں پوچھا تو کہا : حدیث کمزور اور رائے بھی کمزور۔
امام ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا تو کہا: نہ حدیث ہے نہ رائے۔
امام شافعی کے بارے میں پوچھا تو کہا : "حدیث بھی صحیح اور رائے بھی صحیح۔"
جواب :
اسی قول میں امام اوزاعی جو بالاتفاق ثقہ ہیں ، بخاری مسلم میں 100 سے زائد روایتیں امام اوزاعی سے منقول ہیں ، ان امام اوزاعی کی رائے اور حدیث کو بھی ضعیف کہا گیا ہے بلکہ امام مالک کی رائے کو بھی ضعیف کہا گیا ہے. تو کیا خیال ہے امام اوزاعی کی کتب احادیث میں وارد روایات بھی اب ضعیف شمار کی جائیں گی؟ کیا بخاری مسلم کی 100 سے زائد روایتیں ضعیف ہیں یا غیر مقلد اہلحدیث تسلیم کریں گے کہ امام احمد کی جرح تعصب سے خالی نہ تھی اور وہ مردود ہے ، ورنہ غیر مقلدیں کو صحیحین سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں