اعتراض نمبر 138:
کہ امام احمد نے کہا کہ ضعیف حدیث بہتر ہے ابوحنیفہ کی رائے سے۔
وقال عبد الله بن أحمد: سألت أبي، عن الرجل يريد أن يسأل عن الشيء من أمر دينه، يعني مما يُبتلى به من الأيمان في الطلاق وغيره، وفي مِصره من أصحاب الرأي، ومن أصحاب الحديث لا يحفظون ولا يعرفون الحديث الضعيف، ولا الإسناد القوي، فمن يسأل، أصحاب الرأي، أو هؤلاء، أعني أصحاب الحديث، على ما كان من قلة معرفتهم؟ قال: يسأل أصحاب الحديث، ولا يسأل أصحاب الرأي، ضعيف الحديث خير من رأي أبي حنيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ فقہاء عراق اس بات پر متفق ہیں کہ بے شک ضعیف حدیث قیاس پر راجح ہوتی ہے جیسا کہ ابن حزم نے ان سے روایت کی ہے۔ اور اس بارہ میں حنابلہ ان فقھاء کے گروہ کے تابع ہیں۔
تو رائے کو ابو حنیفہ کی طرف اضافت کر کے رائے کو مقید کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ حق کلام یہ ہے کہ کہا جائے کہ ضعیف حدیث رجال کی آراء سے بہتر ہے۔
اور راوی کا کلام اہل الرائے کی جانب سے مجمل ہے اور مقصد کو چھپانے سے دوری اختیار کرنا راوی پر واجب تھا اور اس بات کی صراحت کرنا ضروری تھا کہ مراد یہ ہے کہ جس کو کتاب وسنت کا علم نہیں تو اس کی رائے خواہش سے مدد طلب کرنے والی ہے نہ کہ کتاب و سنت سے اور اسی طرح حدیث کی جانب میں قول بھی مجمل ہے۔
پس اگر ایسے محدثین کی حدیث مراد ہے جن کی جہالت اس حد تک ہے کہ وہ موضوع اور غیر موضوع میں فرق نہیں کر سکتے تو ان کو چھوڑ دینا ضروری ہے اور ان سے ایک مرتبہ بھی فتوی نہیں طلب کرنا چاہیے۔
اور بہت سے قدیم محدثین کے نزدیک ضعیف حدیث ایسے معنی میں استعمال کی جاتی ہے جو کہ موضوع کو بھی شامل ہے تو رائے اور اجتہاد پر ترجیح کے ضمن میں اس کا مراد لینا یہاں صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ اپنے مقام پر یہ بات واضح ہے۔
اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسے عالم سے شہر والوں کو محروم نہ رکھیں جو ان کو درست فتوی دے سکے۔
تو تصور نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانوں کے شہروں میں سے کسی شہر میں ایسی گھٹا ٹوپ جہالت کی حالت اس وقت سے پہلے طاری ہو گئی ہو جبکہ ان کا معاملہ لاقانونیت سے دور تھا۔
اور میں خیال نہیں کرتا کہ عبد اللہ بن احمد نے اپنے باپ سے اس روایت کو ایسے انداز سے ضبط کیا ہو جیسا کہ اس کا ضبط کرنا ضروری ہے۔ ورنہ کلام میں ایسی گڑبڑ نہ ہوتی جس کی وضاحت کی گئی ہے[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ وقال عبد الله بن أحمد: سألت أبي، عن الرجل يريد أن يسأل عن الشيء من أمر دينه، يعني مما يُبتلى به من الأيمان في الطلاق وغيره، وفي مِصره من أصحاب الرأي، ومن أصحاب الحديث لا يحفظون ولا يعرفون الحديث الضعيف، ولا الإسناد القوي، فمن يسأل، أصحاب الرأي، أو هؤلاء، أعني أصحاب الحديث، على ما كان من قلة معرفتهم؟ قال: يسأل أصحاب الحديث، ولا يسأل أصحاب الرأي، ضعيف الحديث خير من رأي أبي حنيفة.
«تاريخ بغداد» ١٣/٤١٨.
عبداللہ بن احمد بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا:
"اگر کسی شخص کو دین کے کسی مسئلے میں سوال کرنا ہو، اور اس کے شہر میں دو طرح کے لوگ ہوں: ایک وہ جو قیاس اور عقل سے فتوے دیتے ہیں، اور دوسرے وہ جو حدیث کا علم رکھتے ہیں، مگر کمزور حدیث ہی جانتے ہیں، تو وہ کس سے پوچھے؟" امام احمد نے فرمایا: "حدیث جاننے والوں سے پوچھے، چاہے وہ کمزور حدیث ہی جانتے ہوں، کیونکہ ابو حنیفہ کی رائے سے کمزور حدیث بھی بہتر ہے!"
جواب :
فقہاء عراق اس بات پر متفق ہیں کہ بے شک ضعیف حدیث قیاس پر راجح ہوتی ہے ، تو رائے کو امام ابوحنیفہ کی طرف اضافت کر کے رائے کو مقید کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ حق کلام یہ ہے کہ کہا جائے کہ
" ضعیف حدیث امام ابو حنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام مسلم و دیگر محدثین و فقہاء کی آراء سے بہتر ہے"۔
مزید تفصیل کیلیے قارئیں دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
• امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات -
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں