نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام مسلمؒ کی امام ابو حنیفہؒ پرجرح

 

 امام مسلمؒ  کی امام ابو حنیفہؒ  پرجرح


أخبرنا أبو حازم العبدوي قال: سمعت محمد بن عبد الله الجوزقي يقول: قرىء على مكي بن عبدان - وأنا أسمع - قيل له: سمعت مسلم بن الحجاج يقول: أبو حنيفة النعمان بن ثابت صاحب الرأي مضطرب الحديث، ليس له كبير حديث صحيح؟

امام مسلم بن الحجاج نے امام ابو حنیفہ پر مضطرب الحدیث کی جرح کی ہے۔


جواب نمبر 1:

غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ابو القاسم سیف بنارسی صاحب "مضطرب الحدیث" جرح کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

"یہ ان کے ثقہ ہونے کے مخالف نہیں، اس لیے کہ احتمال ہے کہ اضطراب ان کے اواخر عمر میں ہوا ہو۔" (دفاع بخاری، صفحہ 675)

اسی طرح ہم بھی کہہ سکتے ہیں کہ ممکن ہے یہ اضطراب کسی اور راوی کی وجہ سے آیا ہو اور امام مسلمؒ نے اسے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں سمجھ لیا ہو۔ جیسا کہ یحییٰ بن عنبسہ کے بارے میں امام ابنِ حِبّان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "يحيى بن عنبسة: شيخ دجّال، يضع الحديث على ابن عيينة وداود بن أبي هند وأبي حنيفة وغيرهم من الثقات."

(المجروحین 3/124)

یعنی یہ شخص (یحییٰ بن عنبسہ) ایک جھوٹا راوی تھا جو ثقہ محدثین جیسے کہ سفیان بن عیینہ، داود بن ابی ہند اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جھوٹی احادیث بیان کرتا تھا۔

یہ اس بات کا قوی امکان ظاہر کرتا ہے کہ ممکن ہے کسی ضعیف راوی نے ایسی کوئی روایت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سند سے امام مسلم  تک پہنچائی ہو جس میں اضطراب  پایا گیا ہو — اور وہ اضطراب خود اس ضعیف راوی کی طرف سے ہو، نہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف سے۔

کیونکہ امام مسلم رحمہ اللہ نے وہ تمام روایات نقل ہی نہیں کیں جن میں اضطراب یا دیگر شدید علّتیں تھیں، لہٰذا ایسی مجمل جرح ایک غیر مفسر جرح شمار ہوتی ہے، اس لیے یہ جرح قابلِ اعتبار نہیں رہتی جب تک اس کی تفصیل اور تعین نہ ہو کہ خطا کس سے ہوئی ہے، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی ذات پر اس بنیاد پر جرح کرنا علمی دیانت کے خلاف ہے۔امام محمد بن طلحہ بن مصرف رحمہ اللہ سے بھی ایک قول ایسا ملتا ہے جو اسی مفہوم کی تائید کرتا ہے۔

حدثنا أبو جعفر أحمد بن سعيد النيسابوري، قال: حدثنا أبو كريب ، قال : حدثني أبو تميلة يحيى بن واضح تجارينا مع محمد بن طلحة بن مصرف ذكر أبي حنيفة ، قال : فقال محمد بن طلحة : يا أبا تميلة ! إذا وجدت قولاً عن ابي حنيفة رحمة الله عليه عن ثقة فعليك به، فإنك لا تجد شيئا عن أبي حنيفة الا نضبحا 

 یحییٰ بن واضح نے بیان کیا۔"ہم محمد بن طلحہ بن مصرف کے ساتھ امام ابو حنیفہؒ کا ذکر کر رہے تھے، تو محمد بن طلحہ نے کہا: اے ابو تمیلہ! جب تمہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی قول کسی ثقہ راوی سے ملے، تو اسے اختیار کر لینا، کیونکہ تم ابو حنیفہ کا کوئی بھی قول ایسا نہ پاؤ گے، مگر یہ کہ وہ پختہ اور پکا ہوا ہوگا. ( كشف الآثار ص 156/1 ، سند حسن )

اس قول سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں. پہلی یہ کہ ثقہ راوی ہی امام ابو حنیفہ سے درست بات نقل کرتے ہیں اور اگر کوئی غلطی ہو تو اس کی نسبت ضعیف راوی کی طرف ہوگی.

دوسری اور اہم بات یہ کہ امام ابو حنیفہ ( دلائل پر مبنی ) صحیح بات ہی ارشاد فرماتے تھے. جیسا کہ انکا خود کا قول ہے کہ میں سب سے پہلے مسئلہ قرآن میں تلاش کرتا ہوں، پھر سنت رسول اللہ ( حدیث ) میں، پھر صحابہ ( کے اقوال ) میں اور پھر اجتہاد کرتا ہوں.

اور جیسا کہ امام حسن بن صالح بن حی کا قول ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جب کوئی صحیح حدیث ( ثابت ہو جاتی ) تو کسی اور طرف دھیان نہیں کرتے (الانتقاء : ص  ۱۲۸)

جواب نمبر 2:

ایک راوی کسی محدث کے نزدیک سخت ضعیف ہوتا ہے جبکہ دوسرے محدث کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے، جیسے 

مثال نمبر 1 : عبد الملك بن عمير بن سويد بن جارية 

امام احمدؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ بہت زیادہ ضعیف اور "مضطرب الحدیث" ہیں ( الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 5/ 360 ، تهذيب الكمال 18/ 370 )

لیکن امام مسلمؒ اپنی "صحیح مسلم" میں تقریبا 40 سے زائد روایات ان سے  لائے ہیں ( مثلا صحیح مسلم حدیث نمبر 289 ، 359 ، 501 ، 502 ، 510 ،  511 ، 512 ، 948 ، 101 )

مثال نمبر 2 أحمد بن عبد الرحمن بن وهب بن مسلم القرشى المصرى

اسی طرح احمد بن عبدالرحمٰن بن وہبؒ کے بارے میں امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ "کذاب" ہیں اور امام ذہبیؒ انہیں "منکر الحدیث" کہتے ہیں ۔

لیکن امام مسلمؒ ان سے بھی "صحیح مسلم" میں 9 روایت لائے ہیں (صحیح مسلم حدیث نمبر 1273 ، 1848 ، 1890 ، 2456 ، 4728 ، 4771 ، 4957 ، 5123 ، 6195 )

مثال نمبر 3: حبيب بن سالم الأنصاري الكوفي

 امام بخاریؒ، حبیب بن سالم کے بارے میں فرماتے ہیں: " فيه نظرجبکہ امام مسلمؒ ان سے بھی "صحیح" میں روایت لاتے ہیں (صحیح مسلم : باب ما يقرا في صلاة الجمعة)۔

یعنی مجموعی طور پر راوی پر حکم دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جواب 3:

دفاع بخاری، صفحہ 529 میں لکھا ہے:

"یحییٰ بن معینؒ ناقدین کے امام ہیں، پس جس راوی کی وہ توثیق کریں، وہ ثقہ سمجھا جائے گا، اور اس پر جتنی بھی جروحات ہوں، وہ مردود (غیر معتبر) سمجھی جائیں گی۔"

ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کو ابن معینؒ، امام شعبہؒ اور دیگر محدثین نے توثیق کی ہے، پس وہ ثقہ ہی سمجھے جائیں گے، اور باقی تمام جرحیں مردود ہوں گی۔

مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

 پیش لفظ: سلسلۂ تعریف و توثیقِ امام ابو حنیفہؒ : علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ



جواب نمبر 4:

امام مسلمؒ تک امام ابو حنیفہؒ کی بہت کم روایات پہنچی تھیں، جیسا کہ ان کے کلام سے محسوس ہوتا ہے، اس لیے کم احادیث کی بنیاد پر امام ابو حنیفہؒ کی تضعیف کا حکم لگانا درست نہیں، جبکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ روایات کون سی تھیں ؟ ایسا بھی ہو سکتا ہیکہ امام مسلم تک بعد کے کسی ضعیف راوی سے روایات پہنچی ہوں ۔ بہرحال اگر متعصب لوگ پھر بھی امام ابو حنیفہ کو ضعیف کہلانے پر تلے ہوئے ہیں تو پھر ان کو چاہیے کہ امام مسلم کی سخت باتیں ، امام بخاری  کے خلاف بھی قبول کریں ، جس میں امام مسلم رحمہ اللہ نے امام بخاری کو  منتحلي الحديث  یعنی جھوٹ موٹ سے اپنے آپ سے حدیث بیان کرنے والا بولا ہے۔

باب صِحَّةِ الاِحْتِجَاجِ بِالْحَدِيثِ الْمُعَنْعَنِ إِذَا أَمْكَنَ لِقَاءُ وَلَمْ يَكُنْ فِيهِمْ مُدَلِّسٌ

باب: معنعن حدیث سے حجت پکڑنا صحیح ہے جبکہ معنعن والوں کی ملاقات ممکن ہو اور ان میں کوئی تدلیس کرنے والا نہ ہو۔

 وقد تكلم بعض منتحلي الحديث من اهل عصرنا في تصحيح الاسانيد، وتسقيمها، بقول: لو ضربنا عن حكايته، وذكر فساده صفحا، لكان رايا متينا، ومذهبا صحيحا، إذ الإعراض عن القول المطرح احرى، لإماتته، وإخمال ذكر قائله، واجدر ان لا يكون ذلك تنبيها للجهال عليه، غير انا لما تخوفنا من شرور العواقب واغترار الجهلة، بمحدثات الامور وإسراعهم إلى اعتقاد خطإ المخطئين، والاقوال الساقطة عند العلماء راينا الكشف عن فساد قوله، ورد مقالته بقدر ما يليق بها من الرد، اجدى على الانام، واحمد للعاقبة إن شاء الله،

امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں بعض ایسے لوگوں نے جنہوں نے جھوٹ موٹ اپنے تئیں محدث قرار دیا ہے، اسناد کی صحت اور سقم میں ایک قول بیان کیا ہے۔ اگر ہم بالکل اس کو نقل نہ کریں اور اس کا ابطال نہ لکھیں تو عمدہ تجویز ہو گی اور ٹھیک راستہ ہو گا اس لئے کہ غلط بات کی طرف التفات نہ کرنا اس کو مٹانے کے لئے اور اس کے کہنے والے کا نام کھودنے کے لئے بہتر ہے اور مناسب ہے جاہلوں کے لئے تاکہ ان کو خبر بھی نہ ہو اس غلط بات کی مگر اس وجہ سے کہ ہم انجام کی برائی سے ڈرتے ہیں اور یہ بات دیکھتے ہیں کہ جاہل نئی بات پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور غلط بات پر جلد اعتقاد کر لیتے ہیں جو علما کے نزدیک ساقط الاعتبار ہوتی ہے، ہم نے اس قول کی غلطی بیان کرنا اور اس کو رد کرنا اس کا فساد و بطلان اور خرابیاں ذکر کرنا لوگوں کے لئے بہتر اور فائدہ مند خیال کیا اور اس کا انجام بھی نیک ہو گا اگر اللہ عزوجل چاہے۔

امام مسلم رحمہ اللہ کی یہ رائے امام بخاری کے بارے میں تھی ۔ جیسا کہ امام ابن حجر اور ذہبی نے لکھا ہے۔ قال الحافظ ابن حجر: واكتفى مسلم بمطلق المعاصرة، وألزم البخاري بأنه يحتاج إلى أن لا يقبل العنعنة أصلًا، وما ألزمه به ليس بلازم

ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "اور امام مسلم نے صرف معاصرت (یعنی راوی کا دوسرے راوی کے زمانے میں موجود ہونا) پر اکتفا کیا ہے،اور امام بخاری پر یہ اعتراض وارد کیا کہ اگر تم معاصرت کے ساتھ سماع کی تصریح (واضح طور پر سننے کا ذکر) کو شرط مانتے ہو، تو پھر تمہیں ہر 'عن' (عنعنہ) والی روایت کو سرے سے قبول ہی نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ابن حجر فرماتے ہیں: یہ اعتراض جو امام مسلم نے امام بخاری پر کیا ہے، وہ لازم (یعنی درست اور لازمی) نہیں آتا۔ (نزهة النظر شرح نخبة الفكر ص٣١) .

 ثم إن مسلماً، لحدة في خلقه، انحرف أيضا عن البخاري، ولم يذكر له حديثا، ولا سماه في "صحيحه" بل افتتح الكتاب بالحط على من اشترط اللقيا لمن روى عنه بصيغة "عن" وادعى الإجماع في أن المعاصرة كافية، ولا يتوقف في ذلك على العلم بالتقائهما، ووبخ من اشترط ذلك. وإنما يقول ذلك أبو عبد الله البخاري، وشيخه علي بن المديني، وهو الأصوب الاقوى، وليس هذا موضع بسط هذه المسألة)

ج 12 ص573)سير أعلام النبلاء)

امام ذہبی لکھتے ہیں :

"پھر یہ بھی ہے کہ امام مسلم، جن کی طبیعت میں کچھ سختی تھی، امام بخاری سے کچھ انحراف کر گئے، نہ ان سے کوئی حدیث ذکر کی، نہ ہی ان کا نام "صحیح مسلم" میں لیا۔ بلکہ اپنے صحیح کی ابتداء ہی ان لوگوں پر تنقید سے کی جو "عن" (عنعنہ) سے روایت کو قبول کرنے کے لیے صرف معاصرت (ایک ساتھ زندہ ہونا) کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ ملاقات (لقا) کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں۔ امام مسلم نے دعویٰ کیا کہ اس پر اجماع (اتفاق) ہے کہ معاصرت کافی ہے اور ملاقات کی صراحت ضروری نہیں، اور جو اس شرط کو مانتے ہیں ان کی سرزنش کی۔"

امام ذہبی اس پر تبصرہ کرتے ہیں: جبکہ حقیقت میں یہ بات امام بخاری اور ان کے شیخ علی بن مدینی کا مؤقف ہے، اور یہی زیادہ صحیح اور قوی ہے۔"

اختتامی کلمات:

جیسے امام ذہبی اور ابن حجر عسقلانی رحمہما اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کی بعض سخت جرحوں کے مقابلے میں امام بخاری کی منہج کو زیادہ معتدل اور متوازن قرار دیا ہے، اور امام مسلم کی بعض آراء کو قابلِ قبول نہ سمجھا — اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام مسلم کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر جرح  کو بھی نہ امام ذہبی نے تسلیم کیا، نہ ابن حجر نے اس کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف حجت بنایا، اور نہ ہی امام مزّیؒ جیسے جلیل القدر محدث نے۔

اگر واقعی امام مسلمؒ کی یہ جرح قابلِ اعتماد اور مؤثر ہوتی، تو ان جیسے بڑے محدثین، جو رجال کے بارے میں فیصلہ کن آراء رکھتے ہیں، اسے ضرور امام ابو حنیفہؒ کے تذکرے میں پیش کرتے۔

لہٰذا جب ائمہ جرح و تعدیل نے خود اس جرح کو نظر انداز کیا، تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ: یہ جرح مردود (ناقابلِ قبول) ہے

نیز، امام ابو حنیفہؒ کے کمالِ ضبط، فقاہت، دیانت، اور امت میں ان کی علمی قبولیت کے پیشِ نظر ایسی جرح کا کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔

یہی وجہ ہے کہ جمہور محدثین نے امام ابو حنیفہؒ کی عدالت و ثقاہت کو تسلیم کیا، اور ان پر کیے گئے بعض تعصّبی اعتراضات کو ردّ کر کے ان کے علمی مقام کو تسلیم کیا ہے۔


مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود


علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 46 : محمد بن طلحۃ بن مصرف الیامیؒ(م۱۶۷؁ھ)کے نزدیک، امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ) ثقہ ہیں۔



تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...