نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 149: کہ ابوحنیفہ کی وفات پر سفیان ثوری نے ابراہیم بن طہمان کی طرف آدمی بھیجا کہ اس کو جا کر خوش خبری دے کہ اس امت کا فتنہ باز مر گیا ہے۔


 اعتراض نمبر  149: 

کہ ابوحنیفہ کی وفات پر سفیان ثوری نے ابراہیم بن طہمان کی طرف آدمی بھیجا کہ اس کو جا کر خوش خبری دے کہ اس امت کا فتنہ باز مر گیا ہے۔


أخبرنا محمد بن عمر بن بكير المقرئ، أخبرنا الحسين بن أحمد الهروي الصفار، حدثنا أحمد بن محمد بن ياسر، حدثنا محمد بن عبد الوهاب بن يعلى الهروي، حدثنا عبد الله بن مسمع الهروي قال: سمعت عبد الصمد بن حسان يقول: لما مات أبو حنيفة قال لي سفيان الثوري: اذهب إلى إبراهيم بن طهمان فبشره أن فتان هذه الأمة قد مات، فذهبت إليه فوجدته قائلا، فرجعت إلى سفيان فقلت: إنه قائل، قال: اذهب فصح به! أن فتان هذه الأمة قد مات.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ البرقانی نے الحسین بن احمد الهروی الصفار کے بارہ میں کہا ہے کہ میں اس سے ناراض ہوں اور میں نے اس سے الصحیح میں ایک حرف بھی نقل نہیں کیا۔ 

اس نے ابو القاسم البغوی سے صرف تین یا چار حدیثیں سنیں مگر پھر اس کے واسطہ سے بہت زیادہ حدیثیں بیان کرنے لگا۔

 میں نے پہلے اس سے حدیثیں لکھیں پھر اس کی حالت میرے سامنے ظاہر ہو گئی کہ بے شک وہ حجت نہیں ہے۔ 

اور الحاکم نے کہا کہ وہ کذاب ہے اس کے ساتھ شغل نہیں رکھنا چاہیے[1]۔ 

تو اس جیسا گھٹیا کلام کہنے سے ثوری بری الذمہ ہے۔

 اور یہ سارا بوجھ خطیب کے کندھے پر سوار ہو جاتا ہے جو اس ساری صورت حال کو جانتا ہے[2]۔

 اور ابو حنیفہ کی طرف جس ارجاء کی نسبت کی جاتی ہے وہ نہ خالص سنت ہے[3] جیسا کہ ہم نے پہلے اس کی وضاحت سے تحقیق کر دی ہے اور اس کے مخالف نظریہ اپنا کر خوارج یا معتزلہ کی جانب میلان رکھتا ہے یا پھر آپ نظریہ میں خبط میں مبتلا رہیں گے۔

 تو جب کسی مسئلہ میں ابو حنیفہ کی مخالفت کسی کے دل میں کھٹکے تو ان تین صورتوں میں سے جو صورت کوئی چاہے اختیار کرے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ راوی الحسين بن احمد الصفار الهروي پر کذب اور متروک کی جرح موجود ہے۔ 


١٣- ابو عبد الله الحسين بن احمد الصفار الهروي كذاب لا يشتغل بالسؤال عنه. (سؤالات السجزي للحاكم ١/‏٦٢ )

 

٩٦٨ - الحسين بن أحمد الشماخي الهروي الصفار: كذبه الحاكم (ديوان الضعفاء ١/‏٨٧ )


الْحُسَيْن بن أَحْمد الشماخي أَبُو عبد الله الْهَرَوِيّ الصفار، كذبه الْحَاكِم. (تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة ١/‏٥٢ )


١٥٠٧ - الْحُسَيْن بن أَحْمد الشماخي الْهَرَوِيّ الصفار أَبُو عبد الله

كذبه الْحَاكِم (المغني في الضعفاء ١/‏١٧٠ )


وَكَانَ يرى الْمَنَاكِير وَلَيْسَ بِثِقَة  ( اللباب في تهذيب الأنساب ٢/‏٢٠٧ )


وقال أبو عبد الله بن أبي ذهل: ضعيف. 

(سير أعلام النبلاء ١٦/ ٣٦٠).


وإسنادها ضعيف جدًا؛ فيها الصَّفار، وهو الحُسَيْن بن أَحْمَد بن مُحَمَّد بن عَبْد الرَّحمن أبو عَبْد الله الشَّماخي متروك، بل قال الحاكم: كذاب لا يُشتغَلُ به، وانظر ترجمته في»اللسان«(١)، وبه أعلها الذَّهَبِي في»التذكرة«. (بلوغ الأماني بتراجم شيوخ أبي الشيخ الأصبهاني ١/‏٥٢٩ )


غیر مقلد مختار أحمد الندوي صاحب الدار السلفية ببومباي - الهند 

إسناده: ضعيف.

• الحسين بن أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن أسد بن شماخ الهروي الشماخ أبو عبد الله الصفار (م ٣٧٢ هـ).

قال البرقاني: كتبت عنه الكثير ثم بأن لي أنه ليس بحجة وقال أبو عبد الله بن أبي ذهل: ضعيف وقال الحاكم كذاب لا يشتغل به. (شعب الإيمان - ط الرشد ١٣/‏٣٢٨ )


غیر مقلد محقق شیخ یاسر فتحی :

وأبو عبد الله الحسين بن أحمد بن محمد بن عبد الرحمن بن أسد الصفَّار الشمَّاخي الهروي: ادعى سماع ما لم يسمع، فحدث به، ولم يحتشم ممن يعرف أمره، وحدث بالمناكير، حتى قال الحاكم: «كذاب؛ لا يُشتغل بالسؤال عنه» ( فضل الرحيم الودود تخريج سنن أبي داود ١٤/‏٤٧٩ )


سلفی عالم :أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري

قلت: [متروك وكذبه بعضهم على كثرة شيوخه وتجواله] ولو كان يدلس عن ابن بنت مَنِيْع فيما لم يسمعه منه لما هدده زاهر بالتشهير به، فالظاهر أنه ادعى سماع ما لم يسمع. (الروض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم ١/‏٤٤٠)


لہذا معلمی یمانی کا اس راوی کا دفاع کرنا فضول ہے۔


[2]۔ اس سند کا حال یہ ہیکہ الصفار الھروی پر تو کذب کی جرح موجود ہے  وہ ضعیف ہیں جیسا کہ بیان ہوا ، اس کے علاوہ تین راوی اور بھی مجہول ہیں 

أحمد بن محمد بن ياسر ، 

 محمد بن عبد الوهاب بن يعلى الهروي، 

عبد الله بن مسمع الهروي

لہذا اتنی گری ہوئی سند سے خطیب بغدادی کا امام ابو حنیفہ پر طعن کرنا ، خطیب بغدادی کے بغض و کینہ کا ثبوت ہے کیونکہ خطیب کے نزدیک یہ روایتیں محفوظ ہیں جبکہ اصل میں سند کی حالت بیان ہو چکی۔


[3]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 40 : مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ




تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...