نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 150 : کہ بشر بن ابی الازهر النيسابوری نے خواب میں ایک جنازہ دیکھا جس پر سیاہ کپڑا تھا اور اس کے ارد گرد پادری تھے تو اس نے پوچھا کہ یہ جنازہ کس کا ہے تو اس کو بتایا گیا کہ ابو حنیفہ کا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں نے یہ خواب ابو یوسف کے سامنے بیان کی تو اس نے کہا کہ یہ کسی اور کے سامنے نہ بیان کرنا۔


 اعتراض نمبر  150 : 

کہ بشر بن ابی الازهر النيسابوری نے خواب میں ایک جنازہ دیکھا جس پر سیاہ کپڑا تھا اور اس کے ارد گرد پادری تھے تو اس نے پوچھا کہ یہ جنازہ کس کا ہے تو اس کو بتایا گیا کہ ابو حنیفہ کا ہے۔وہ کہتا ہے کہ میں نے یہ خواب ابو یوسف کے سامنے بیان کی تو اس نے کہا کہ یہ کسی اور کے سامنے نہ بیان کرنا۔


أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا عبد الرحمن قال: سمعت علي بن المديني قال: قال لي بشر بن أبي الأزهر النيسابوري:رأيت في المنام جنازة عليها ثوب أسود، وحولها قسيسين فقلت: جنازة من هذه؟

فقالوا جنازة أبي حنيفة، حدثت أبا يوسف فقال: لا تحدث به أحدا.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ خطیب اپنے خاتمہ کا خوف پیش نظر رکھے بغیر ابوحنیفہ کے حالات کا اختتام اس خواب کو بیان کر کے کر رہا ہے۔ 

اور عبد اللہ بن جعفر جو اس کی سند میں ہے وہ ابن درستویہ ہے جس کو البرقانی اور اللالکائی نے ضعیف قرار دیا ہے اور وہ متہم ہے کہ جب اس کو ایک درہم دیا جاتا تو وہ ایسی روایت بھی کر دیتا جو اس نے نہ سنی ہوتی تھی اور خطیب پسند کرتا ہے کہ اس کی زبانی لوگوں کو گالیاں دے اور اس سے پہلے اس نے اس کو ان باتوں سے بری الذمہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔

 لیکن تہمت لگانے کی جو بالکل ثابت شدہ باتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں خطیب کے کندھے اس کو اٹھانے سے کمزور ہیں۔

 اور خطیب نے اپنی تاریخ میں ابن المدینی کے بارہ میں جو ذکر کیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ اور اسی میں سے اس کا احمد بن ابی داؤد کو اپنا عہد و پیمان پہنچاتا ہے۔ 

اس دور میں جو محدثین پر آزمائش کا دور تھا۔ اور اس میں سے وہ بھی ہے جو اس کے بارہ میں کہا گیا ہے۔ اے ابن المدینی جس کے سامنے دنیا ظاہر ہوئی تو اس نے اپنا دین قربان کر دیا تا کہ اس دنیا کو حاصل کرے۔ 

کس چیز نے تجھے ایسی بات پر اعتقاد رکھنے کی دعوت دی ہے کہ جس کا قائل تیرے نزدیک کافر ہوتا تھا اور آخر تک وہ اشعار نقل کیے جو ص 469 ج 11 میں ذکر کیے گئے ہیں۔اور بے شک آزمائشی دور کے بعد ابو زرعہ اور احمد نے اس سے روایت لینا چھوڑ دیا تھا[1]۔

 اور بشر بن ابی الازھر تو ابو یوسف کے خاص ساتھیوں میں سے تھا اور اپنے زمانہ میں نیسابور میں حنفی فقہاء کا امام تھا۔

 اور اہل علم میں سے ابو حنیفہ کی بہت زیادہ پیروی کرنے والوں میں سے اور دوسروں کی بہ نسبت اس کی زیادہ طرف داری کرنے والا تھا۔

 پس اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ خواب بشر بن ابی الازھر کی زبان پر گھڑی گئی ہے جیسا کہ انہوں نے براہ راست ابوحنیفہ کے دیگر ساتھیوں کی زبان پر بہت سی اشیاء گھڑی ہیں۔پس ہم سند کے راویوں کے بارہ میں اس سے زیادہ کلام میں مشغول نہیں ہوتے۔

بعض نیک لوگوں کا امام محمد کو خواب میں دیکھنا

 اور میں نہیں جان سکا کہ خطیب کی زبان کیسے اس افسانہ کے ساتھ بول پڑی۔اور کیسے اس کا قلم اس باطل خیال کو لکھنے کے لیے جاری ہو گیا۔  حالانکہ یہ وہی ہے جس نے محمد بن الحسن کے ترجمہ میں میں ص 182 ج 2 میں علی بن ابی علی۔ طلحہ بن محمد ۔مکرم بن احمد القاضی احمد بن محمد بن المغلس۔ سلیمان بن ابی شیخ ۔ابن ابی طالب رجاء القاضی - محمویہ کی سند نقل کر کے کہا اور محمد ایسا آدمی تھا کہ ہم اس کو ابدال شمار کرتے تھے۔ محمویہ نے کہا کہ میں نے خواب میں محمد بن الحسن کو دیکھا تو میں نے پوچھا اے ابو عبد اللہ تو کسی حالت کی طرف منتقل ہوا ہے ؟ اس نے کہا کہ اس نے (رب تعالیٰ نے یا اس کے بھیجے ہوئے فرشتہ نے قبر میں )مجھے کہا کہ بے شک میں نے تجھہ کو علم کا برتن اس لیے نہیں بنایا تھا کہ تجھ کو عذاب میں مبتلا کروں۔ میں نے کہا کہ ابو یوسف کے ساتھ کیا کاروائی ہوئی۔ تو اس نے کہا کہ وہ میرے اوپر والے درجہ میں ہے۔ میں نے کہا کہ ابوحنیفہ کے ساتھ کیا کاروائی ہوئی تو اس نے کہا وہ تو ابو یوسف سے بھی کئی درجہ بلند ہے۔ الخ 

اور اگر خطیب فقیہ الملت کے بارہ میں بد نیت نہ ہوتا تو اگر کسی خواب کا تذکرہ ضروری تھا تو یہاں ضرور اس خواب کو دوبارہ ذکر کرتا۔

 نیز بے شک اس سند کے ساتھ اس خواب کا ذکر کرنے میں خطیب کی چال ہے اس لیے کہ بے شک اس کی سند میں احمد بن المغلس ہے۔

اور بے شک اس نے اس کو ساقط کرنے میں پورا زور صرف کیا ہے تا کہ اس سے جان چھڑا لے جو اس نے ابوحنیفہ کے مناقب میں روایت کی ہے۔ حالانکہ اس کا معاملہ ایسا ہے جس کی ہم نے پہلے وضاحت کر دی ہے۔ 

اور یہ خواب احمد بن المغلس کی سند کے بغیر بھی مروی ہے اور خطیب نے اس سے اعراض کیا اور صرف اسی کی روایت پر اکتفاء کیا تا کہ واقعہ کے بطلان کا وہم ڈال سکے۔

 لیکن اس کی آرزو خاک میں مل گئی اور حقیقت واضح ہو کر رہی۔ 

ابن عبد البر نے الانتقاء ص 145 میں حکم بن المنذر - ابو یعقوب یوسف بن احمد الصيدلانی المکی محمد بن علی السمنانی احمد بن حماد بن العباس القاسم بن عباد محمد بن شجاع ابو رجاء کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو رجاء عبادت گزار لوگوں میں سے تھا۔ ابو رجاء نے کہا کہ میں نے محمد بن الحسن کو خواب میں دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالی نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا۔ اس نے کہا کہ اس نے مجھے بخش دیا۔ میں نے پوچھا کہ اور ابو یوسف تو اس نے کہا کہ وہ تو مجھ سے اعلیٰ درجہ میں ہے۔ میں نے کہا کہ ابوحنیفہ سے کیا کاروائی ہوئی تو اس نے کہا وہ بہت دور اعلی علیین میں ہے الخ۔ 

اور خطیب کے لیے ممکن تھا کہ یہ روایت ضرور ذکر کرتا اس لیے کہ یہ اس کے شیخ العتیقی کی مرویات میں سے ہے جو اسی الصیدلانی سے اس نے ذکر کی ہیں جس کا ذکر کیا گیا ہے۔

اور ابو عبد الله الصیمری نے اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ میں عمر بن ابراہیم۔ مکرم محمد بن عبد السلام سليمان بن داؤد بن كثير الباھلی عبد الوہاب عیسی۔ محمد بن ابی رجاء کی سند نقل کر کے کہا کہ محمد بن ابی رجاء نے کہا کہ میں نے اپنے باپ ابو رجاء سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے خواب میں محمد بن الحسن کو دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا کاروائی کی تو اس نے کہا کہ اس نے مجھے جنت میں داخل فرما دیا اور مجھے کہا کہ میں نے تجھے علم کا برتن اس لیے نہیں بنایا تھا کہ تجھے عذاب میں مبتلا کرتا۔ ابو رجاء نے کہا کہ میں نے پھر پوچھا کہ ابو یوسف کا کیا بنا۔ تو اس نے کہا کہ وہ مجھ سے یا کہا کہ ہم سے ایک درجہ اوپر ہے۔ 

ابو رجاء نے کہا کہ میں نے پوچھا کہ ابو حنیفہ کا کیا بنا تو اس نے کہا کہ وہ تو اعلیٰ علیین میں ہیں۔ الخ۔ 

اور خطیب کے لیے ممکن تھا کہ اس سند کے ساتھ بھی روایت کرتا اس لیے کہ یہ اس کے شیخ الصیمری کی روایت ہے اور خطیب نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کی بہت تعریف کی ہے۔ .

اور الحافظ ابو القاسم بن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد احمد بن القاسم البرتی ابو علی  احمد محمد بن ابی رجاء ابو رجاء کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو رجاء نے کہا کہ میں نے خواب میں محمد بن الحسن کو دیکھا تو میں نے پوچھا کہ تو کس حالت کی طرف منتقل ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ رب تعالی نے مجھے بخش دیا ہے۔

 میں نے پوچھا کہ کس وجہ سے؟

 تو اس نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ہم نے جب تجھ میں علم ڈالا تھا تو اس وقت تجھے بخش دیا تھا۔

 ابو رجاء نے کہا کہ میں نے پوچھا کہ ابوحنیفہ کا کیا بنا تو اس نے کہا وہ تو اعلیٰ علیین میں ہیں۔ الخ۔ 

اور ابن ابی العوام نے ابراہیم بن احمد بن سھل القاسم بن غسان القاضی۔ غسان القاضی۔ ابو نعیم الفضل بن دکین کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو نعیم نے کہا کہ میں الحسن بن صالح کے پاس گیا۔

 اس دن کے آخر میں جس دن اس کے بھائی علی بن صالح کو دفن کیا گیا تو اس نے سچی خوابوں کا ذکر کیا۔پھر ابو نعیم نے کہا کہ میں پھر چند دنوں کے بعد الحسن بن صالح کے کے پاس گیا تو اس نے مجھے دیکھ کر کہا۔ اے ابو نعیم کیا تو جانتا ہے کہ بے شک میں نے گزشتہ رات اپنے بھائی کو خواب میں دیکھا۔ گویا کہ و وہ میرے پاس پہنچا اور اس پر سبز رنگ کے کپڑے تھے تو میں نے اس سے پوچھا اے میرے  بھائی کیا تو فوت نہیں ہو گیا تھا تو اس نے کہا ہاں۔

 تو میں نے کہا کہ یہ تجھ پر کپڑے کیسے ہیں تو اس نے کہا یہ سندس (باریک ریشم) اور استبرق (موٹا ریشم کے کپڑے ہیں۔ اور اس نے کہا کہ اے میرے بھائی تیرے لیے بھی ایسے ہی ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا تو اس نے کہا کہ مجھے اس نے بخش دیا اور میری وجہ سے اور ابوحنیفہ کی وجہ سے اس نے فرشتوں پر فخر کا اظہار کیا۔ میں نے پوچھا کہ ابوحنیفہ جو نعمان بن ثابت ہے؟  تو اس نے کہا ہاں۔  میں نے کہا کہ اس کا ٹھکانہ کہاں ہے تو اس نے کہا کہ اعلیٰ علیین کے جوار میں۔ القاسم نے کہا کہ میرے باپ نے کہا کہ ابو نعیم جب ابوحنیفہ کا تذکرہ کرتے تھے یا اس کے سامنے تذکرہ ہوتا تو وہ کہتے آفرین آفرین اعلی علیین میں ہے۔  پھر یہ واقعہ بیان کرتے۔ الخ لیکن خطیب کو صرف میں پسند ہے کہ وہ فقیہ الملت کا حشر پادریوں کے ساتھ ہی دکھائے۔ 

اگرچہ اس خواب میں جو اس نے بیان کی ہے اس میں عبد اللہ بن جعفر الدراھمی جیسا راوی ہے۔

 اور میں اس مقام میں خوابوں کے سلسلہ میں کوئی زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ اگر خطیب نے مجھے اس پر برانگیختہ نہ کیا ہوتا تو یہ بھی ذکر نہ کرتا۔ اور جیسا کہ آپ نے دیکھ لیا کہ وہ اپنے شیوخ سے خوابیں روایت کرتا ہے اور خوابوں کے بعد ان کی تفسیر اور تعبیر بتانے کو بھی ضروری نہیں سمجھتا حلانکہ انبیاء کرام علیم السلام کی بھی بہت سی خوابوں میں اس کی طرف حاجت ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم نے کہا ہے۔ اور ابوحنیفہ کے حالات میں خطیب نے جو کچھ نقل کیا ہے اس پر ہماری بحث مکمل ہوئی[2]۔






امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔چونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ بُرا، شیطانی خواب کسی کے سامنے بیان نہ کیے جائیں، اسی لیے امام ابو یوسفؒ نے اس بات سے منع فرمایا کہ ایسے خواب کسی کو نہ بتائے جائیں۔

  اچھے خواب اللہ کی طرف سے اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، جیسا کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں پس جب کوئی اچھے خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اسے عزیز ہو اور جب برا خواب دیکھے تو اللہ کی اس کے شر سے پناہ مانگے اور شیطان کے شر سے اور تین مرتبہ تھوتھو کر دے اور اس کا کسی سے ذکر نہ کرے پس وہ اسے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا (بخاری 7044)۔ 

فرقہ اہلحدیث کے بدنام زمانہ متضاد شخصیت زبیر علی زئی لکھتے ہیں

"صحابۂ کرام کے بعد کسی اُمتی کا خواب حجت نہیں ہے "

(کتاب الاربعین لابن تیمیہ ص 114)

مزید یہ کہ خواب شرعی حجت نہیں ، خواب سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے جیسا کہ محدثین نے لکھا ہے ( فتح الباری 12 /388 ) اور خود غیر مقلدوں نے بھی لکھا ہے ۔( فتاوی علمائے حدیث : باب الغسل والکفن 1/71 ، مقالات زبیر علی زئی 5/342 ، فتاوی ثنائیہ مدنیہ 1/881 )


[2]۔   الحمد للہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ترجمہ کے ضمن میں تاریخ بغداد میں جو طعن و تشنیع پر مبنی روایات نقل کی گئی تھیں، ان کی اسنادی تحقیق مکمل ہو چکی ہے۔ہم نے اپنی اس تحقیقی کوشش کے نتیجے میں تقریباً ڈیڑھ سو (150) علمی پوسٹس تیار کیں، جنہیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر باقاعدہ اپلوڈ کر دیا گیا ہے۔

ہمارا تحقیقی منہج یہ رہا کہ ہم نے اس کام کی بنیاد  الامام العلامة، المحدث البارع، الفقيه المدقق، المتكلم البصير، المحقق النحرير، الناصر للمذهب الحنفي، الناقد الجريء، شيخ الاسلام، محمد زاهد بن حسن الكوثري الحنفي رحمه الله  کی نہایت گراں قدر تصنیف "تأنيب الخطيب على ما ساقه في ترجمة أبي حنيفة من الأكاذيب" پر رکھی، جسے حافظ عبدالقدوس خان قارن صاحب نے نہایت خوش اسلوبی سے اردو قالب میں ڈھالا ہے۔ یہ ترجمہ "امام ابو حنیفہ کا عادلانہ دفاع" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ 

چانچہ ہم  ہر پوسٹ میں ہم سب سے پہلے تاریخ بغداد سے وہ عربی روایت بمع سند و متن نقل کرتے، جو امام اعظم پر اعتراض کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ ایسے تقریباً 150 اعتراضات تھے جو تأنيب الخطيب میں ذکر کیے گئے۔ اس کے بعد ہم امام زاہد کوثری رحمہ اللہ کا مفصل جواب نقل کرتے، جیسا کہ اسے حافظ عبدالقدوس صاحب نے اردو میں منتقل کیا ہے ، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اس ترجمے میں صرف ان مواضع پر بہت معمولی سی تبدیلی کی گئی ہے جہاں یا تو عبارت میں اشکال تھا یا خامئ طباعت کے سبب عبارت غیر واضح ہو گئی تھی۔اس کے بعد ہم نے ہر اعتراض پر جہاں مناسب سمجھا حاشیہ تحریر کیا، جہاں ضروری سمجھا وہاں مراجع و مصادر کے حوالے دیے، اصل عبارتیں پیش کیں، رواۃ پر جرح و تعدیل کا کلام بھی شامل کیا۔ اگر امام کوثریؒ کا جواب کسی مقام پر مختصر محسوس ہوا یا وضاحت طلب تھا، تو ہم نے اپنی جانب سے مزید توضیحی نکتہ جات بھی قلم بند کیے۔ جہاں قارئین کے فہم و تشفی کے لیے مزید تفصیل کی ضرورت محسوس کی، وہاں ہم نے متعلقہ مضامین کے لنکس فراہم کیے تاکہ قاری تفصیلی مطالعہ کی جانب رجوع کر سکے۔

اسی طرح متعدد مقامات پر غیر مقلد متعصب معلمی یمانی نے بعض رواۃ کا بلاوجہ دفاع کیا ہے، وہاں ہم نے سلفی علماء کے الزامی اقوال اور حوالہ جات پیش کیے، تاکہ یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ غیر مقلدین کے یہاں اسماء الرجال کا معیار کس قدر دوہرا رہا ہے—وہ راوی جو امام ابو حنیفہؒ پر طعن کے لیے استعمال ہوتے ہیں، انہی کے دفاع میں انصاف کے بجائے ذاتی رجحانات غالب آ جاتے ہیں۔

ہم نے ہر اعتراض کے ساتھ اصل مصادر کے اسکین صفحات بھی شامل کیے ہیں، جن میں صرف تاریخ بغداد ہی نہیں، بلکہ المعرفۃ والتاریخ، الکامل لابن عدی، الضعفاء للعقیلی، الانتقاء، فضائل ابی حنیفہ اور دیگر کئی کتب سے اسکین شامل کیے گئے ہیں۔ ان اسکینز کی مجموعی تعداد تقریباً 390 ہے۔الغرض، اللہ رب العزت کی توفیق سے ہم نے یہ کام امام اہل الرائے، امام المجتہدین، امام ابو حنیفہؒ کے دفاع میں انجام دیا۔

اب ان شاء اللہ، ایک آخری پوسٹ شائع کی جائے گی، جس میں تاریخ بغداد میں امام اعظم کے ترجمہ میں وارد تمام اعتراضات کا اجمالی اسنادی جائزہ پیش کیا جائے گا۔

اس آخری پوسٹ کا لنک یہ ہے:


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...