اعتراض نمبر 3 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں مزاحم بن زُفَر کہتے ہیں: میں نے امام ابوحنیفہؒ سے عرض کیا: اے ابوحنیفہ! جو فتاویٰ آپ دیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں، کیا وہی ایسا حق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو؟ تو آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، شاید وہ باطل ہو جس میں کوئی شک نہ ہو!"
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 3 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاريخ میں نقل کرتے ہیں مزاحم بن زُفَر کہتے ہیں: میں نے امام ابوحنیفہؒ سے عرض کیا: اے ابوحنیفہ! جو فتاویٰ آپ دیتے ہیں اور اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں، کیا وہی ایسا حق ہے جس میں کوئی شک نہ ہو؟ تو آپ نے فرمایا: "اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا، شاید وہ باطل ہو جس میں کوئی شک نہ ہو!"
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ثنا أَبُو مُسْهِرٍ عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ زُفَرَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: يَا أَبَا حَنِيفَةَ هَذَا الَّذِي [تُفْتِي وَالَّذِي وَضَعْتَ فِي كُتُبِكَ] هُوَ الْحَقُّ الَّذِي لَا شَكَّ فِيهِ؟ فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّهُ الْبَاطِلُ الَّذِي لَا شَكَّ فِيهِ»
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/782 )
جواب : امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت، علمی گہرائی اور تقویٰ و پرہیزگاری کا اعتراف امت کے جلیل القدر علماء و محدثین نے کیا ہے۔ آپ کی شخصیت میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے، وہ آپ کی علمی تواضع اور دیانت ہے۔ جن مسائل کو آپ نے رائے، قیاس یعنی اجتہاد سے اخذ فرمایا، ان کے بارے میں کبھی قطعیت کا دعویٰ نہ کیا یعنی کبھی یہ نہیں کہا کہ یہی صحیح اور حق ہے بلکہ اعتراف کیا کہ یہ ہماری رائے ہے، صحیح بھی ہو سکتی غلط بھی۔اس قول میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ میں نے اپنے اجتہاد سے جو کچھ فرمایا ضروری نہیں وہی صحیح اور حق ہو بلکہ ممکن ہے مجھ سے غلط ( جسے باطل سے تعبیر کیا ہے ) بیان ہو گیا ہو. تو یہ قول نہ صرف آپ رحمہ اللہ کی عاجزی انکساری کا ثبوت ہے بلکہ اس بات کی دلیل بھی ہے جو ہر اجتہادی کوشش کو بشری امکان ( صحیح یا غلط ) کے دائرے میں رکھتا ہے، نہ کہ وحی کی طرح حق کے درجے میں۔
شریعتِ مطہرہ میں اجتہاد ایک ایسا عظیم عمل ہے جس میں ثواب پر دوہرا اجر اور خطا پر بھی ایک اجر کا وعدہ ہے، امام ابو حنیفہؒ جیسے متقی فقیہ کا اپنے اجتہادات میں احتیاط اور انکساری اختیار کرنا نہ صرف ان کے تقویٰ کا آئینہ ہے بلکہ یہ طرزِ عمل آئندہ آنے والے اہلِ علم کے لیے بہترین نمونہ بھی ہے۔
لہٰذا اُن کی علمی تواضع اور عاجزی کو کمزوری یا شک و شبہ سے تعبیر کرنا حاسدین اور متعصین کی بدفہمی اور علم سے خیانت کے مترادف ہے، کیونکہ ایک سچا عالم وہی ہوتا ہے جو حق کی تلاش میں اپنی رائے کو بھی قابلِ نظرِ ثانی سمجھے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں