امام ابو یوسفؒ پر امام عبد اللہ بن المبارکؒ سے منقول جروحات کا تفصیلی تحقیقی و اسنادی جائزہ
1. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنا عَبد اللَّهِ بْنُ سَعِيد الأَشَج، حَدَّثَنا الحسن بْن الرَّبِيع قَالَ قيل لابن مبارك أَبُو يُوسُف أعلم أم مُحَمد؟ قَال: لاَ تقل أيهما أعلم ولكن قل أيهما اكذب.
ترجمہ :- حسن بن الربیع نے کہا کہ ابن مبارک سے پوچھا گیا: "ابو یوسف زیادہ علم رکھتے ہیں یا محمد بن حسن الشیبانی؟ " انہوں نے جواب دیا: "یوں نہ کہو کہ کون زیادہ علم والا ہے، بلکہ یوں کہو کہ کون زیادہ جھوٹا ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال ٨/٤٦٦)
جواب :-اوّل تو یہاں "قِيل" مجہول کا صیغہ استعمال ہوا ہے، جس سے یہ واضح نہیں کہ سوال کرنے والا کون تھا۔
مزید یہ کہ حسن بن الربیع نے اس روایت میں یہ تصریح نہیں کی کہ یہ بات انہوں نے خود امام ابن المبارکؒ سے براہِ راست سنی ہے یا کسی واسطے سے۔
نہ ہی یہ ذکر ہے کہ وہ اس مجلس میں موجود تھے یا نہیں۔
اس وجہ سے یہ روایت گو بظاہر سند صحیح دکھائی دیتی ہے، مگر اپنے اندر ایک مخفی علت رکھتی ہے جو اسے مشکوک بنا دیتی ہے۔
دوم، متن کے اعتبار سے بھی یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی، کیونکہ امام محمد بن حسن الشیبانیؒ خود امام ابو یوسفؒ کے شاگرد ہیں۔ کوئی صاحبِ علم اس دور میں استاد اور شاگرد کے درمیان اس طرح کا موازنہ کیوں کرے گا؟ اس زمانے میں — یعنی امام ابن المبارکؒ کے دور میں — فقہِ حنفی کے اَئمہ کی باہمی درجہ بندی یا "اجتہاد" کے مراتب بعد میں مرتب ہوئے تھے۔ اس وقت نہ یہ تقسیم موجود تھی کہ کون "مجتہدِ مطلق" ہے اور کون "مجتہد فی المذہب"، اور نہ ہی علمی ماحول میں استاد اور شاگرد کے درمیان اس انداز کا تقابل رائج تھا۔ چنانچہ امام محمدؒ جو امام ابو حنیفہؒ کے بھی شاگرد ہیں اور امام ابو یوسفؒ کے بھی، ان کا اپنے استاد سے اس نوع کا مقابلہ کروانا اس وقت کے علمی مزاج اور حقیقت دونوں کے خلاف ہے۔
2. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَكَرِيَّا الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيُّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قِيلَ لَهُ: أَيُّ الرَّجُلَيْنِ أَفْقَهُ أَبُو يُوسُفَ أَوْ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ؟ فَقَالَ: لَا تَقُلْ كَانَ أَيُّهُمَا.
ترجمہ :- محمد بن زکریا البلخی بیان کرتے ہیں: ہم سے سعید بن یعقوب الطالقانی نے بیان کیا، انہوں نے ابن مبارک سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا: "ابو یوسف زیادہ فقیہ ہیں یا محمد بن حسن؟" انہوں نے کہا: "یوں مت کہو کہ کون زیادہ ہے۔"
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٤٣٨ )
جواب :- محمد بن زکریا البلخی کو کسی امام نے ثقہ نہیں یعنی یہ راوی مجہول ہے اور سند ضعیف ہے.
3. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَمِيلٍ الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ: مَا سَمِعْتُ ابْنَ الْمُبَارَكِ ذَكَرَ أَنَّ أَبَا يُوسُفَ قَطُّ إِلَّا مَزَّقَهُ، وَذَكَرَهُ يَوْمًا فَقَالَ: إِنَّ بَعْضَ هَؤُلَاءِ هَوَى جَارِيَةً كَانَ وَطِئَهَا أَبُوهُ، فَاسْتَشَارَ أَبَا يُوسُفَ، فَقَالَ: لَا تُصْدِقُهَا، فَجَعَلَ يُقَطِّعُهُ.
ترجمہ :- احمد بن جمیل الہروی بیان کرتے ہیں: ہم سے عبدہ بن سلیمان المروزی نے کہا: "میں نے کبھی نہیں سنا کہ ابن مبارک نے ابو یوسف کا ذکر کیا ہو مگر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہو۔" ایک دن ان کا ذکر آیا تو کہا: "ان میں سے ایک نے ایک لونڈی سے دل لگا لیا تھا جس کو اس کے والد نے نکاح میں رکھا تھا، پھر اس نے ابو یوسف سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: اس کی بات کا یقین نہ کرو۔" اس پر ابن مبارک نے ان پر سخت کلام کیا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٤٣٨ )
جواب :- اس کی سند میں أحمد بن جمیل مجہول ہے اور سند ضعیف ہے.
4. حَدَّثَنِي أَحْمَدُ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّزَّاقِ بْنَ عُمَرَ الْبُزَيْعِيَّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ. قَالَ: فَأَفْتَاهُ فِيهَا، فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتَ أَبَا يُوسُفَ فَخَالَفَكَ. فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ خَلْفَ أَبِي يُوسُفَ صَلَوَاتٍ تَحْفَظُهَا فَأَعِدْهَا»
ترجمہ :- عبدالرازق بن عمر البزیعی کو کہتے سنا: "میں ابن مبارک کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور ایک مسئلہ پوچھا۔ ابن مبارک نے فتویٰ دیا۔ اس نے کہا: میں نے یہی مسئلہ ابو یوسف سے پوچھا تھا تو انہوں نے اس کے برعکس کہا۔ ابن مبارک نے کہا: اگر تم نے ابو یوسف کے پیچھے کچھ نمازیں پڑھی ہیں اور انہیں یاد رکھتے ہو تو ان سب کو دوبارہ ادا کرو۔"
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٩)
جواب :-
اس روایت کی سند میں عبد الرزاق بن عمر موجود ہے، جس کے بارے میں امام ابن حبان فرماتے ہیں:
يقلب الأخبار ويسند المراسيل لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد. روى عن ابن المبارك، عن شعبة، عن قتادة، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ في قوله: ﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ﴾ قال: من الحيضة والنخامة، وهذا قول قتادة رفعه، لا أصل له من كلام النبي ﷺ. المجروحين [٢/ ١٥٠].
یعنی یہ شخص روایات کو اُلٹ پلٹ کر بیان کرتا ہے، مرسل روایات کو مسند بنا دیتا ہے، اور جب منفرد ہو تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔ مزید برآں، امام ابن حبان نے اسی عبد الرزاق بن عمر کی سند سے ابن المبارک کے واسطے سے ایک حدیث ذکر کی اور فرمایا:
"لا أصل له من كلام النبي ﷺ"
(یعنی اس کی کوئی اصل نبی ﷺ کے کلام میں نہیں)
وذكره الذهبي في (ميزان الاعتدال) ٢: ٦٠٨ في ترجمة البزيعي، وقال: أخطأ، يعني البزيعي في رفعه. امام ذہبی نے ميزان الاعتدال (2/608) میں البزيعي کے ترجمہ میں کہا: "اس نے (یعنی البزيعي نے) اس کو مرفوع بیان کرنے میں غلطی کی ہے۔" اس سے واضح ہے کہ یہ راوی ایسی روایت بھی بیان کر سکتا ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے: جو شخص ایسی بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دے جس کی کوئی اصل نہ ہو، وہ حکایات و مناظرات نقل کرنے میں کیسے معتبر قرار دیا جا سکتا ہے؟
اور ابنِ جوزی نے بھی اس راوی کو ضعفاء میں شامل کیا ہے۔ وذكره ابن الجوزي في»الضعفاء«(الورقة: ١٠٢) یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے
5. أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيم بْن عُمَر البرمكي، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلَفِ الدّقّاق، حدثنا عمر بن محمّد الجوهريّ، حدثنا أبو بكر الأثرم، حَدَّثَنَا نُعَيْم بْن حماد قَالَ: سمعتُ ابن المبارك- وذكروا عنده أَبَا يوسف- فقال: لا تفسدوا مجلسنا بذكر أبي يوسف.
ترجمہ :- "میں نے ابن مبارک کو سنا کہ جب ابو یوسف کا ذکر کیا گیا تو کہا: ہمارے اس مجلس کو ابو یوسف کا ذکر کر کے خراب مت کرو۔"
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٤/٢٥٨ )
جواب :- سند کے راوی عمر بن محمد الجوہری کے بارے میں خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ ان کی بعض أحاديث میں نکارت پائی جاتی ہے. اس کے علاوہ نعیم بن حماد کثرت سے خطأ کرنے والا ہے یعنی یہ سند ضعیف ہے
عُمَر بْن مُحَمَّد بْن عيسى بْن سعيد، أَبُو حفص الجوهري المعروف بالسذابي :
وفي بعض حديثه نكرة.
تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
6. أَخْبَرَنِي مُحَمَّد بْن أَحْمَد بْن يوسف، أَخْبَرَنَا محمد بن نعيم قال: سمعت أبا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ يَقُولُ: سمعتُ مُحَمَّد بْن إِسْمَاعِيل بْن مهران يَقُولُ: سمعتُ المسيب بْن واضح يَقُولُ: ما سمعتُ ابن المبارك ذكر أحدًا بسوء قط إلا أن رجلا قَالَ لَهُ: مات أَبُو يوسف قَالَ: مسكين يعقوب، ما أغنى عَنْهُ ما كان فيه.
مسیب بن واضح کو کہتے سنا: "میں نے کبھی ابن مبارک کو کسی کا برائی سے ذکر کرتے نہیں سنا، مگر ایک مرتبہ جب کسی نے کہا: ابو یوسف کا انتقال ہو گیا۔ ابن مبارک نے کہا: بیچارہ یعقوب! جو کچھ وہ کرتا رہا، اس نے اسے کوئی فائدہ نہ دیا۔"
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٤/٢٥٨ )
جواب :- اس کی سند میں مسیب بن واضح ہے کثیر الخطأ ہے. ( لسان الميزان 71/8)
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : له حديث كثير عن شيوخه وعامة ما خالف فيه
الناس لا يتعمده بل كان يشبه عليه، وهو لا بأس به
أبو بكر البيهقي : كثير الوهم، وليس بالقوي، وقال مرة: كان ضعيفا، وقال مرة: غير محتج به
أبو جعفر العقيلي : متروك
أبو حاتم الرازي : صدوق يخطئ كثيرا، فإذا قيل له لم يقبل
أبو حاتم بن حبان البستي : ذكره في الثقات وقال: كان يخطئ
أبو دواد السجستاني : يضع الحديث
أبو عروبة الحراني : لا يحدث إلا بشئ يعرفه ويقف عليه
أحمد بن شعيب النسائي : كان حسن الرأي فيه
الدارقطني : فيه ضعف، مرة: متروك
یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے
7. أَخْبَرَنِي أَبُو الوليد الْحَسَن بْن محمّد الدينوري، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ سُلَيْمَانَ الْحَافِظُ- ببخارى- حدثنا خلف بن محمّد، حدثنا سهل بن شاذويه، حدثنا مسلم بن سالم الباهليّ، حدثنا علي بن مهران الرّازيّ، حَدَّثَنَا ابن المبارك- بالري- قَالَ: فيما حَدَّثَنَا يعقوب قَالَ لَهُ رَجُل: يا أَبَا عَبْد الرَّحْمَن، يعقوب بْن إِبْرَاهِيم أَبُو يوسف؟ فقالابن المبارك: لأن أخِرَّ من السماء إلى الأرض فتخطفني الطير أو تهوي بي الريح فِي مكان سحيق أحبُّ إليَّ من أن أروي عن ذلك .
"ابن مبارک نے ہمیں ری میں کہا: ایک مرتبہ یعقوب (ابو یوسف) کا ذکر ہوا تو ایک شخص نے پوچھا: کیا آپ کا مطلب یعقوب بن ابراہیم ابو یوسف ہے؟ ابن مبارک نے کہا: میرے لیے یہ بہتر ہے کہ میں آسمان سے زمین پر گر جاؤں اور پرندے مجھے اچک لے جائیں یا ہوا مجھے کسی گہرے مقام پر پھینک دے، اس سے بہتر ہے کہ میں اس سے کوئی روایت کروں۔"
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٤/٢٥٨ )
جواب :- اس سند میں مسلم بن سالم باہلی مجہول ہے. اس کے علاوہ علی بن مہران کے بارے میں امام ابن عدی نے غیر ثقہ ہونا نقل کیا ہے. ١٣٥٣- علي بْن مهران الرازي. سمعتُ ابن حماد يقول: قال السعدي علي بْن مهران كَانَ رديء المذهب غير ثقة. قَالَ الكامل في ضعفاء الرجال ٦/٣٤٥
یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے
8. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أَجْلِسَ فِي مَجْلِسٍ يُذْكَرُ فِيهِ يَعْقُوبُ.
ترجمہ :- عبداللہ بن عثمان بیان کرتے ہیں:عبداللہ بن مبارک نے کہا: "مجھے ناگوار ہے کہ میں ایسی مجلس میں بیٹھوں جہاں یعقوب (ابو یوسف) کا ذکر ہو۔"
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٩)
اسی طرح کا قول خطیب بغدادی نے بھی نقل کیا ہے أَخْبَرَنَا العتيقي، أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني- بمكة- حدثنا محمّد بن عمرو العقيلي، حدثنا محمّد بن حاتم، حَدَّثَنَا حبَّان بْن مُوسَى قَالَ: سمعتُ ابن المبارك يَقُولُ: إني لأستثقل مجلسًا فِيهِ ذكرُ أبي يوسف.
"میں نے ابن مبارک کو کہتے سنا: مجھے وہ مجلس بوجھ لگتی ہے جس میں ابو یوسف کا ذکر ہو۔"
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٤/٢٥٨ )
اولاً، اس روایت یا اس جیسے دیگر اقوال سے امام ابو یوسفؒ کی عدالت و ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ کسی شخص سے فکری یا اجتہادی اختلاف، اس کو ضعیف یا مجروح نہیں بنا دیتا۔ اصولِ جرح و تعدیل میں یہ بات مسلم ہے کہ نظریاتی یا عملی اختلاف جرح کا سبب نہیں بنتا جب تک کہ اس کا تعلق دیانت یا ضبطِ روایت سے نہ ہو۔
ثانیاً، یہ بات واضح ہے کہ امام ابن المبارکؒ کی امام ابو یوسفؒ سے ناراضگی، کسی ضعفِ دیانت یا کذب کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اس کا سبب محض منصبِ قضاء (چیف جسٹس) کا قبول کرنا اور خلفاء کی مجالست اختیار کرنا تھا۔ یہ تقوی کی بنیاد پر تھا، جس کے تحت بعض اہلِ علم، حکومتی مناصب اور صاحبانِ اقتدار کی قربت کو اپنے لیے ناموزوں سمجھتے تھے۔ اس کا تعلق ذاتی ورع اور احتیاط سے ہے، نہ کہ عدالت یا ثقاہت سے۔
اس پر مزید دلیل یہ ہے کہ امام ابن المبارکؒ نے اسی بنیاد پر نہ صرف امام ابو یوسفؒ پر سختی کی، بلکہ امام اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہؒ پر بھی ناراض ہوئے، حالانکہ ان کو الإمام، العلامة، الحافظ، الثبت جیسے بلند القابات حاصل تھے (سیر أعلام النبلاء 9/108)، اور صحاح ستہ میں ان سے پانچ سو پچاس سے زائد احادیث مروی ہیں۔ ان کی عدالت اور ثقاہت میں کسی نے اختلاف نہیں کیا، لیکن ابن المبارکؒ کا اعتراض صرف اس لیے تھا کہ انہوں نے ایک معمولی سا سرکاری عہدہ قبول کر لیا تھا۔
وقد كان ابن المبارك شديدًا على أبي يوسف لولايته القضاء، ومجالسته الخلفاء. وقد غضب ابن المبارك على إسماعيل بن إبراهيم ابن عُلَيّة لولايته شيئًا خفيفًا
( التنكيل - ط المكتب الإسلامي ٢/٧١٥ )
لہٰذا یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اعتراض جرحِ مفسّر کے باب سے نہیں، بلکہ اختلافِ اجتہاد اور مخالفتِ طریقِ ورع سے متعلق ہے۔ اس سے نہ تو امام ابو یوسفؒ کے مقام میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی ان کی عدالت و ضبط پر حرف آتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منصبِ قضاء کی قبولیت، بعض اہلِ علم کے نزدیک مصلحتاً درست اور بعض کے نزدیک احتیاطاً محلِ ترک تھی . امام ابن المبارکؒ کی امام ابو یوسفؒ کے خلاف جرح ثابت ہو بھی جائے تو وہ قابلِ قبول نہیں، کیونکہ یہ جرح مبنی بر اختلافِ منہج و طریقِ ورع ہے، نہ کہ جرحِ مفسر بر ضبط و عدالت۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں