اعتراض نمبر 26 : امام یعقوب فَسَوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں یہ دو روایات نقل کرتے ہیں: پہلی روایت میں، ابن المبارک نے ابو یوسف کے فتوے کے برخلاف اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے پڑھی گئی گنی چنی نمازوں کو دوبارہ پڑھو۔ دوسری روایت میں، ابن المبارک نے اس مجلس میں بیٹھنے کو ناپسند کیا جس میں ابو یوسف کا ذکر ہوتا ہو۔
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 26 :
امام یعقوب فَسَوی (م 277ھ) اپنی کتاب المعرفة والتاریخ میں یہ دو روایات نقل کرتے ہیں: پہلی روایت میں، ابن المبارک نے ابو یوسف کے فتوے کے برخلاف اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پیچھے پڑھی گئی گنی چنی نمازوں کو دوبارہ پڑھو۔
دوسری روایت میں، ابن المبارک نے اس مجلس میں بیٹھنے کو ناپسند کیا جس میں ابو یوسف کا ذکر ہوتا ہو۔
«حَدَّثَنِي أَحْمَدُ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّزَّاقِ بْنَ عُمَرَ الْبُزَيْعِيَّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ. قَالَ: فَأَفْتَاهُ فِيهَا، فَقَالَ: قَدْ سَأَلْتَ أَبَا يُوسُفَ فَخَالَفَكَ. فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ قَدْ صَلَّيْتَ خَلْفَ أَبِي يُوسُفَ صَلَوَاتٍ تَحْفَظُهَا فَأَعِدْهَا»
. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أَجْلِسَ فِي مَجْلِسٍ يُذْكَرُ فِيهِ يَعْقُوبُ.
عبدالرازق بن عمرنے کہا: میں عبداللہ بن المبارک کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس سے ایک مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے اس میں فتویٰ دیا۔ اس شخص نے کہا: آپ سے پہلے میں نے یہی مسئلہ ابو یوسف سے پوچھا تھا، مگر انہوں نے اس کے برعکس جواب دیا۔ اس پر عبداللہ بن المبارک نے کہا: اگر تم نے ابو یوسف کے پیچھے ایسی نمازیں پڑھی ہیں جنہیں تم شمار کر سکتے ہو، تو ان نمازوں کو دوبارہ پڑھ لو۔
عبداللہ بن المبارک نے کہا: میں پسند نہیں کرتا کہ ایسے مجمع میں بیٹھوں جہاں یعقوب (یعنی ابو یوسف) کا ذکر ہو۔
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق 2/789 )
جواب : اس روایت کی سند میں عبد الرزاق بن عمر موجود ہے، جس کے بارے میں امام ابن حبان فرماتے ہیں:
يقلب الأخبار ويسند المراسيل لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد. روى عن ابن المبارك، عن شعبة، عن قتادة، عن أبي نضرة، عن أبي سعيد، عن النبي ﷺ في قوله: ﴿وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ﴾ قال: من الحيضة والنخامة، وهذا قول قتادة رفعه، لا أصل له من كلام النبي ﷺ. المجروحين [٢/ ١٥٠].
یعنی یہ شخص روایات کو اُلٹ پلٹ کر بیان کرتا ہے، مرسل روایات کو مسند بنا دیتا ہے، اور جب منفرد ہو تو اس کی روایت سے حجت پکڑنا جائز نہیں۔ مزید برآں، امام ابن حبان نے اسی عبد الرزاق بن عمر کی سند سے ابن المبارک کے واسطے سے ایک حدیث ذکر کی اور فرمایا:
"لا أصل له من كلام النبي ﷺ"
(یعنی اس کی کوئی اصل نبی ﷺ کے کلام میں نہیں)
وذكره الذهبي في (ميزان الاعتدال) ٢: ٦٠٨ في ترجمة البزيعي، وقال: أخطأ، يعني البزيعي في رفعه. امام ذہبی نے ميزان الاعتدال (2/608) میں البزيعي کے ترجمہ میں کہا: "اس نے (یعنی البزيعي نے) اس کو مرفوع بیان کرنے میں غلطی کی ہے۔" اس سے واضح ہے کہ یہ راوی ایسی روایت بھی بیان کر سکتا ہے جس کی کوئی اصل نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے: جو شخص ایسی بات نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دے جس کی کوئی اصل نہ ہو، وہ حکایات و مناظرات نقل کرنے میں کیسے معتبر قرار دیا جا سکتا ہے؟
اور ابنِ جوزی نے بھی اس راوی کو ضعفاء میں شامل کیا ہے۔ وذكره ابن الجوزي في»الضعفاء«(الورقة: ١٠٢) یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أَجْلِسَ فِي مَجْلِسٍ يُذْكَرُ فِيهِ يَعْقُوبُ.
ترجمہ :- عبداللہ بن عثمان بیان کرتے ہیں:عبداللہ بن مبارک نے کہا: "مجھے ناگوار ہے کہ میں ایسی مجلس میں بیٹھوں جہاں یعقوب (ابو یوسف) کا ذکر ہو۔"
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٧٨٩)
اسی طرح کا قول خطیب بغدادی نے بھی نقل کیا ہے أَخْبَرَنَا العتيقي، أخبرنا يوسف بن أحمد الصيدلاني- بمكة- حدثنا محمّد بن عمرو العقيلي، حدثنا محمّد بن حاتم، حَدَّثَنَا حبَّان بْن مُوسَى قَالَ: سمعتُ ابن المبارك يَقُولُ: إني لأستثقل مجلسًا فِيهِ ذكرُ أبي يوسف.
"میں نے ابن مبارک کو کہتے سنا: مجھے وہ مجلس بوجھ لگتی ہے جس میں ابو یوسف کا ذکر ہو۔"
( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٤/٢٥٨ )
اولاً، اس روایت یا اس جیسے دیگر اقوال سے امام ابو یوسفؒ کی عدالت و ثقاہت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ کسی شخص سے فکری یا اجتہادی اختلاف، اس کو ضعیف یا مجروح نہیں بنا دیتا۔ اصولِ جرح و تعدیل میں یہ بات مسلم ہے کہ نظریاتی یا عملی اختلاف جرح کا سبب نہیں بنتا جب تک کہ اس کا تعلق دیانت یا ضبطِ روایت سے نہ ہو۔
ثانیاً، یہ بات واضح ہے کہ امام ابن المبارکؒ کی امام ابو یوسفؒ سے ناراضگی، کسی ضعفِ دیانت یا کذب کی بنا پر نہ تھی، بلکہ اس کا سبب محض منصبِ قضاء (چیف جسٹس) کا قبول کرنا اور خلفاء کی مجالست اختیار کرنا تھا۔ یہ تقوی کی بنیاد پر تھا، جس کے تحت بعض اہلِ علم، حکومتی مناصب اور صاحبانِ اقتدار کی قربت کو اپنے لیے ناموزوں سمجھتے تھے۔ اس کا تعلق ذاتی ورع اور احتیاط سے ہے، نہ کہ عدالت یا ثقاہت سے۔
اس پر مزید دلیل یہ ہے کہ امام ابن المبارکؒ نے اسی بنیاد پر نہ صرف امام ابو یوسفؒ پر سختی کی، بلکہ امام اسماعیل بن ابراہیم ابن علیہؒ پر بھی ناراض ہوئے، حالانکہ ان کو الإمام، العلامة، الحافظ، الثبت جیسے بلند القابات حاصل تھے (سیر أعلام النبلاء 9/108)، اور صحاح ستہ میں ان سے پانچ سو پچاس سے زائد احادیث مروی ہیں۔ ان کی عدالت اور ثقاہت میں کسی نے اختلاف نہیں کیا، لیکن ابن المبارکؒ کا اعتراض صرف اس لیے تھا کہ انہوں نے ایک معمولی سا سرکاری عہدہ قبول کر لیا تھا۔
وقد كان ابن المبارك شديدًا على أبي يوسف لولايته القضاء، ومجالسته الخلفاء. وقد غضب ابن المبارك على إسماعيل بن إبراهيم ابن عُلَيّة لولايته شيئًا خفيفًا
( التنكيل - ط المكتب الإسلامي ٢/٧١٥ )
لہٰذا یہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اعتراض جرحِ مفسّر کے باب سے نہیں، بلکہ اختلافِ اجتہاد اور مخالفتِ طریقِ ورع سے متعلق ہے۔ اس سے نہ تو امام ابو یوسفؒ کے مقام میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ ہی ان کی عدالت و ضبط پر حرف آتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ منصبِ قضاء کی قبولیت، بعض اہلِ علم کے نزدیک مصلحتاً درست اور بعض کے نزدیک احتیاطاً محلِ ترک تھی . امام ابن المبارکؒ کی امام ابو یوسفؒ کے خلاف جرح ثابت ہو بھی جائے تو وہ قابلِ قبول نہیں، کیونکہ یہ جرح مبنی بر اختلافِ منہج و طریقِ ورع ہے، نہ کہ جرحِ مفسر بر ضبط و عدالت۔
قارئین دیکھیں : "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود امام ابو یوسفؒ پر امام عبد اللہ بن المبارکؒ سے منقول جروحات کا تفصیلی تحقیقی و اسنادی جائزہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں