اعتراض نمبر 36 : امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: مساور (یعنی الورّاق) ایک نیک اور صالح آدمی تھا، اس میں کوئی حرج نہ تھا، سوائے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی رائے (فقہ) پر (عمل کرتا) تھا
کتاب "المعرفة والتاريخ" از یعقوب فسوی
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 36 :
امام یعقوب فسوی (م 277ھ) کی کتاب المعرفة والتاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: مساور (یعنی الورّاق) ایک نیک اور صالح آدمی تھا، اس میں کوئی حرج نہ تھا، سوائے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی رائے (فقہ) پر (عمل کرتا) تھا
قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ مُسَاوِرٌ- يَعْنِي الْوَرَّاقَ- رَجُلًا صَالِحًا لَا بَأْسَ بِهِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ لَهُ رَأْيٌ فِي أَبِي حَنِيفَةَ، وَكَانَ يَقُولُ الشِّعْرَ، فَقَالَ فِيهِ هَذِهِ الْأَبْيَاتَ، وَلَيْتَهُ لَمْ يَقُلْهَا - أَوْ قَالَ سُفْيَانُ: لَوْ لَمْ يَقُلْهَا كَانَ خَيْرًا لَهُ-:
إِذَا مَا النَّاسُ يَوْمًا قَايَسُونَا ... بِمُعْضِلَةٍ مِنَ الْفُتْيَا ظَرِيفَةْ
رَمَيْنَاهُمْ بِمِقْيَاسٍ صَلِيبٍ ... مُصِيبٍ مِنْ طِرَازِ أَبِي حَنِيفَةْ
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: مساور (یعنی الورّاق) ایک نیک اور صالح آدمی تھا، اس میں کوئی حرج نہ تھا، سوائے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی رائے (فقہ) پر (عمل کرتا) تھا ، اور وہ شعر بھی کہا کرتا تھا۔ اس نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ اشعار کہے، اور کاش وہ یہ اشعار نہ کہتا — یا سفیان نے فرمایا: اگر وہ یہ نہ کہتا تو اس کے لیے بہتر تھا:
مفہوم اشعار:
جب لوگ ہم سے کسی مشکل اور نازک مسئلے کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو ہم انہیں ایک مضبوط اور درست دلیل کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ یہ دلیل ایسی مضبوط اور پکی ہوتی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کے علم اور فقہ کے طرز و انداز سے ماخوذ ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری فکری بنیاد اور مسائل کے حل کا طریقہ امام ابو حنیفہؒ کے اصولوں پر قائم ہے، جو ہمیشہ صحیح اور پختہ رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
(المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٦٨٦ )
الجواب :
مساور الوراق—کوفہ کا نامور شاعر اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کا سچا مرید۔ ان کی شخصیت پر تفصیل پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے تاکہ واضح ہو کہ ایک صاحبِ ذوق شاعر کس طرح امام اعظم سے عقیدت رکھتا تھا۔
اعتراض نمبر101: ایک شاعر مساور نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کی تو ایک نامعلوم شاعر نے مساور کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ابوحنیفہ نے کئی حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا تھا۔
اب آئیے اصل نکتہ پر: یہ روایت صاف بتاتی ہے کہ بعض محدثین کی اس زمانے میں کیفیت کیا تھی۔ اگر اہلِ رائے میں سے کوئی راوی حدیث روایت کرتا اور وہ بھی ایسا کہ حافظہ، ضبط، صدق و عدالت ہر معیار پر پورا اترتا، پھر بھی کچھ محدثین صرف اہل رائے میں ہونے کی وجہ سے اس پر بے وجہ کلام کرتے ۔ گویا جرم یہ نہ تھا کہ اس کے دین یا روایت میں نقص تھا، جرم صرف یہ تھا کہ یا تو اہل رائے میں سے تھا یا وہ امام اعظم سے وابستہ تھا۔ یہاں ایک عجیب تضاد دیکھنے کو ملتا ہے:
ایک طرف بعض محدثین امام ابو حنیفہ کی فضیلت کے معترف ہیں۔
دوسری طرف بعض ان کے شاگردوں پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔
خود سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: "مجھے سب سے پہلے محدث بنانے والے ابو حنیفہ ہی ہیں۔"
فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام - المجلد 1 - الصفحة 185 - جامع الكتب الإسلامية
پھر یہی سفیان تسلیم کرتے ہیں:
"مجھے گمان تھا کہ فقہِ حنفی ( مخالفت کی وجہ سے ) کوفہ کے پل سے باہر نہ جا سکے گی، لیکن ( ابو حنیفہ کی زندگی ہی میں ) وہ مشرق و مغرب میں پھیل گئی۔" ( تاریخ بغداد ت بشار 15/475 اسنادہ صحیح )
یہ رویہ ہمیں بتاتا ہے کہ بعض محدثین علمی دیانت کے علمبردار ہونے کے دعوے کے باوجود متعصب قسم کے تھے۔ وہ چاہتے تو کسی راوی کے اوصاف کو قبول کر لیتے، مگر امام اعظم سے نسبت آڑے آ جاتی۔ وہ بہانے سے کہتے: "اس میں کوئی برائی نہ تھی، مگر وہ فقہِ ابو حنیفہ پر تھا۔"ان روایات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ بعض محدثین معصوم فرشتے نہیں تھے، بلکہ انسان ہی تھے اور ان میں سے بعض تعصب کے کچے دھاگے سے جکڑے ہوئے تھے۔ وہ بہانے تلاشتے ، کیچڑ اچھالتے اور اپنی حسد بھری نفرت کو علمی تنقید کے لبادے میں پیش کرتے۔یہ واقعات بتاتے ہیں کہ تاریخِ حدیث میں ہر راوی کے بارے میں لکھی گئی جرح آسمان سے اترنے والی وحی نہیں ہے، جسے آنکھ بند کر کے قبول کر لیا جائے. بعض اوقات یہ جرح صرف مسلکی تعصب کی دھول ہوتی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگردوں پر کیے گئے اعتراضات اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ان کو پڑھتے وقت یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بعض محدثین "معصوم ملائکہ" نہیں تھے، بلکہ انسان تھے—اور انسان تعصب، حسد، اور بغض کا شکار ہو سکتا ہے۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
نتیجہ
مساور الوراق جیسے صاف گو، ثقہ اور قابلِ اعتماد شخص پر انگلی اٹھانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ امام ابو حنیفہ کے دامن کو داغدار دکھایا جا سکے۔ لیکن امام اعظم کی فقہ آج بھی زندہ ہے، ان کے شاگردوں کا نام آج بھی روشن ہے، اور وہ تعصبی جرحیں تاریخ کے کسی انجان کونے میں پڑی دھول کھا رہی ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں