امام ابو حنیفہ اور اہل الرائے کے ثقہ و صدوق رواۃ پر محدثین کی بلاوجہ جرح و تنقید — تعصب کی ایک جھلک
اسی تحریر میں ہم چند ایسے راویوں کا ذکر کریں گے جن پر بعض محدثین نے جرح میں حد سے بڑھ کر زیادتی کی، اور اس زیادتی کی واحد وجہ یہ تھی کہ وہ راوی امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھا یا ان کی فکر سے وابستہ تھے۔ اس دور کے بعض محدثین کی کیفیت بڑی عجیب تھی۔ اگر اہلِ رائے میں سے کوئی راوی حدیث روایت کرتا، اور وہ بھی ایسا کہ حافظہ، ضبط، صدق و عدالت کے ہر معیار پر پورا اترتا، تب بھی صرف اس لیے اس پر اعتراض کر دیا جاتا کہ وہ اہلِ رائے میں شمار ہوتا ہے۔ گویا دین و روایت میں کوئی نقص نہ تھا، اصل جرم یہ تھا کہ وہ امام اعظم ابو حنیفہؒ سے وابستہ تھا یا ان کی فقہ پر کاربند تھا۔ ان راویوں میں درج ذیل شخصیات شامل ہیں:
-
شعیب بن اسحاق
-
محمد بن حسن الشیبانی
-
قاضی ابو یوسف
-
امام ابو یعلی معلی بن منصور
-
سعيد بن سالم الكوفي
هارون بن عمرو بن يزيد المخزومى الدمشقي
-
النضر بن محمد المروزيُّ
-
إسماعيل بن حمّاد بن أبي حنيفة الكُوفيُّ القاضي
ابراہیم بن رستم مروزی
-
حماد بن دلیل
-
مساور الوراق
یہ سب وہ حضرات ہیں جو اپنی صداقت، قوتِ حافظہ اور ضبطِ روایت میں ممتاز تھے، مگر صرف اس وجہ سے تعصب کا نشانہ بنے کہ وہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کے شاگرد، اصحاب یا ان کی فقہی فکر کے حامل تھے۔
امام احمد بن حنبل کا دوہرا معیار
اور امام ابو حنیفہؒ کے خلاف غیر منصفانہ ( نا انصافی والا ) رویہ -
جب ہم امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدر محدث کی علمی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ان کے زہد، تقویٰ، حفظ حدیث اور سنت سے محبت کی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ مگر جب یہی امام احمد ، امام ابو حنیفہؒ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس سے امام احمد کا کچھ اور ہی ( سخت مزاجی والا ) پہلو ظاہر ہوتا ہے، ملاحظہ ہو :
سألت أحمد بن حنبل فقلت: ما تقول في أبي حنيفة؟ قال: رأيه مذموم وحديثه لا يذكر ترجمہ :- میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: آپ ابو حنیفہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کی رائے قابل مذمت ہے اور اس کی حدیث روایت نہیں کی جاتی۔ تو ایک جستجو کرنے والا طالب علم ٹھٹھک جاتا ہے، اور سوال کرتا ہے:
کیا واقعی امام احمد کا یہ فتویٰ علمی دیانت کا عکاس ہے؟
کیا ابو حنیفہؒ کی "رائے" بدتر تھی اُن راویوں سے جنہیں امام احمد نے خود یا ان کے دیگر ساتھی جیسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے "کذاب"، "رافضی"، "قدری"، "جہمی"، "مرجئی" اور "خبیث" جیسے الفاظ سے یاد کیا، مگر پھر بھی ان سے روایت کی؟
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جابر الجعفی کے تعلق سے امام احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا "ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﻙ اﻟﻨﺎﺱ ﺣﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﻟﺴﻮء ﺭﺃﻳﻪ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﺭﺃﻱ سوء" لوگوں نے جابر کی حدیث کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس کی رائے خراب تھی؛ اس کی رائے بُری تھی. یہاں امام احمد جابر الجعفی ( کذاب ) کی رائے کو برا بھی کہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی مسند میں اس سے کئی جگہ روایات بھی لائے ہیں. ایک طرف وہ راوی ہے جسکی رائے بری ہونے اور کذاب ہونے کا اقرار خود امام احمد کو ہے دوسری طرف امام ابو حنیفہ نہ جھوٹے ہیں اور نہ انکی رائے ( چاہے عقیدہ ہو یا قیاس ) وہ غلط نہیں ہیں لیکن ان سے روایات نہیں لائے. اس کے علاوہ سب سے پہلے امام احمد جس شخص کے پاس حدیث پڑھنے بیٹھے ہیں یعنی امام ابو یوسف ان کے بارے میں امام احمد سے سوال ہوا تو فرمایا : ﻭﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ، ﻣﻦ ﺃﺳﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ. ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎ، ﻭﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﺻﺪﻭﻕ، ﻭﻟﻜﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺮﻭﻯ ﻋﻨﻬﻢ ﺷﻲء. «اﻟﻌﻠﻞ» (5332)
ترجمہ :- ابو یوسف صدوق ہیں لیکن ابو حنیفہ کے اصحاب سے کچھ بھی روایت نہیں کرنا چاہیے۔
وہیں دوسری طرف جب امام احمد سے سے جابر الجعفی کے بارے میں سوال ہوا
" ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻤﻴﻤﻮﻧﻲ: ﻗﻠﺖ (ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ) : ﺟﺎﺑﺮ اﻟﺠﻌﻔﻲ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻲ: ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻯ اﻟﺘﺸﻴﻊ. ﻗﻠﺖ: ﻳﺘﻬﻢ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻣﻦ ﻃﻌﻦ ﻓﻴﻪ، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻳﻄﻌﻦ ﺑﻤﺎ ﻳﺨﺎﻑ ﻣﻦ اﻟﻜﺬﺏ. ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- میمونی کہتے ہیں میں نے (یعنی امام احمد بن حنبل سے) پوچھا: "جابر الجعفي (کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں)؟" تو انہوں نے فرمایا: "وہ تشیع (یعنی شیعہ نظریات) رکھتا تھا۔" میں نے پوچھا: "کیا اس کی حدیث کو جھوٹ کا الزام دیا جاتا ہے؟" تو انہوں نے مجھے جواب دیا: "جس نے اس پر طعن کیا ہے، اس نے دراصل اس چیز پر طعن کیا ہے جس کے بارے میں جھوٹ کا خدشہ ہوتا ہے۔"پھر فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس کے باوجود جابر سے جگہ جگہ مسند میں روایت لائے ہیں. کیا یہی انصاف ہے کہ جو شخص آپکا پہلا استاد ہے اور آپ کے نزدیک سچا اور حدیث میں قابل اعتبار بھی ہے لیکن آپ اس سے کچھ روایت نہیں کرتے دوسری طرف جابر الجعفی جو خود آپ کے نزدیک مجروح ہے اس سے جگہ جگہ روایات نقل کی جاتی ہیں.
ایسی ہی کچھ اور مثالیں پیش خدمت ہیں جس میں امام احمد، بدعقیدہ اور مجروح راویوں سے روایت کرتے ہیں جنہیں وہ خود "کذاب، قدری، مرجئی، شیعہ ( رافضی ) " وغیرہ مانتے ہیں:
1:- جابر بن يزيد الجعفي — جابر الجعفی کے بارے میں جب امام احمد سے پوچھا گیا " ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس جھوٹے راوی سے کئی احادیث اپنی مسند میں لائے ہیں (مسند أحمد ط دار الحديث: ٨٤٥، ٢١٥٣، ٢٥٢٥، ٣٢١٧، ٣٨٨٧، ٤٠٧٢، ٥٠٥٤)۔
2:- حصين بن عمر الأحمسي — جس کے بارے میں امام احمد نے کہا " ﺇﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ" (الفتح الرباني ٢٣/٢٢٣، الضعفاء الكبير ١/٣١٤)،مگر اس سے روایت بھی کی (مسند أحمد ط الرسالة ١/٥٤٢)۔
3:- عمرو بن جابر الحضرمي — امام احمد کے بقول یہ حضرت جابر بن عبد الله سے مناکیر بیان کرتا ہے (تهذيب التهذيب 3/259، الجرح والتعديل 6/223)۔ لیکن اس سے کئی مقامات پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی احادیث لی گئیں (مسند أحمد ٢٢/٢٠٦، ٢٢/٢٠٧، ٢٢/٣٦٣، ٢٢/٣٦٤)۔
4:- تليد بن سلیمان المحاربي — جس کو امام یحیی بن معین کذاب کہتے ہیں اور خود امام احمد جس کے بارے میں کہتے ہیں "ﻭﻫﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ " (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤ ، تهذيب الكمال 4/ 320) ، لیکن پھر بھی مسند میں اس سے روایت لائے ہیں. (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤، تهذيب الكمال 4/320)
بلکہ عبد الله الجديع کے مطابق:
"تَليد بن سلیمان المحاربی الکوفی ان راویوں میں سے ایک تھے جن سے امام احمد بن حنبل نے احادیث سنی تھیں، اور امام احمد نے ان کی تعریف بھی کی ہے" (تحرير علوم الحديث ١/٥٤٠)
یہاں سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ تلید بن سلیمان وہ خبیث روافضی راوی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی پر گالیاں بکتا تھا۔ مگر اس سے روایت کرنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ تعریف بھی کی جاتی ہے۔
عجیب نکتہ : امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، خصوصاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر سبّ و شتم (گالم گلوچ) کرنے والا شخص گویا کہ کافر یعنی اسلام سے خارج ہے۔ یہ موقف امام احمد سے صحیح اسانید کے ساتھ منقول ہے، جیسا کہ درج ذیل روایات میں واضح ہے:
٧٧٩ - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مَنْ يَشْتِمُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعَائِشَةَ؟ قَالَ: مَا أُرَآهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
ابو بکر المروذی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا کہ جو شخص ابوبکر، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کو گالی دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں اسے اسلام پر نہیں سمجھتا۔
وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ شَتَمَ أَخَافُ عَلَيْهِ الْكُفْرَ مِثْلَ الرَّوَافِضِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ شَتَمَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ لَا نَأْمَنُ أَنْ يَكُونَ قَدْ مَرَقَ عَنِ الدِّينِ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
عبدالملک بن عبد الحمید کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو فرماتے سنا: "جو شخص (صحابہ کو) گالی دے، مجھے اس کے بارے میں کفر کا خوف ہوتا ہے، جیسے روافض۔ پھر فرمایا: جو نبی ﷺ کے صحابہ کو گالی دے، ہم اس بات سے نہیں بچ سکتے کہ وہ دین سے نکل چکا ہو۔"
٧٨١ -أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثنا أَبُو طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: الرَّجُلُ يَشْتِمُ عُثْمَانَ؟ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ رَجُلًا تَكَلَّمَ فِيهِ، فَقَالَ: هَذِهِ زَنْدَقَةٌ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند حسن )
زکریا بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ ابو طالب نے امام احمد سے پوچھا: اگر کوئی شخص حضرت عثمان کو گالی دے؟ اور مجھے بتایا گیا کہ ایک شخص نے ان کے بارے میں کچھ کہا۔ تو امام احمد نے فرمایا: یہ زندقہ (الحاد و نفاق) ہے۔
٧٨٢ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي عَنٍ رَجُلٍ شَتَمَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: «مَا أُرَاهُ عَلَى الْإِسْلَامِ» ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام احمد) سے پوچھا کہ اگر کوئی نبی ﷺ کے کسی صحابی کو گالی دے؟ تو فرمایا: "میں اسے اسلام پر نہیں سمجھتا۔"
لیکن اس کے باوجود، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تلید بن سلیمان رافضی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا تھا، مگر امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اس شخص سے روایت لی ( حالانکہ یہ شخص خود امام احمد کے اقوال کی روشنی میں دین سے خارج ٹھہرتا ہے ۔ دوسری طرف، انہوں نے اپنے استاذ قاضی ابو یوسف سے روایت لینے کو پسند نہیں کیا، حالانکہ انہی امام احمد نے انہیں ( روایت حدیث ) میں "صدوق" کہا ہے۔ اور امام ابو یوسف کے عقائد بھی بالکل درست ہیں.
یہ تھا محدثین کے امام، امام احمد بن حنبل کا "عدل" اور "انصاف" اہلِ رائے فقہائے احناف کے ساتھ!
رافضی تلید بن سلیمان، جو حضرت عثمانؓ جیسے جلیل القدر صحابی پر سبّ و شتم کرتا تھا — ( بقول امام احمد زندیق کی روایت قبول ) ،لیکن قاضی ابو یوسفؒ جیسے صدوق، ثقہ اور فقیہ استاد سے صرف اس لیے روایت نہ لی کہ وہ اہلِ رائے سے تھے ، ابو حنیفہ کے لائق شاگرد تھے۔
اگر عقیدے کے فاسد ہونے کے باوجود روایت قبول ہے، تو کیا صرف فقہی اختلاف روایت ترک کرنے کا جواز بن سکتا ہے؟ یا پھر یہ تسلیم کیا جائے کہ امام احمد جیسے بڑے محدث بھی احناف کے خلاف تعصب کی گرفت سے محفوظ نہ رہ سکے؟
سوال غیر مقلدین سے ہے: کیا آپ اس علمی تضاد کی کوئی معقول توجیہ پیش کر سکتے ہیں — یا صرف خاموشی ہی ایک واحد جواب ہے؟
5:- محمد بن ميسر الصاغاني — جسے یحییٰ بن معین نے "جہمی، شیطان" کہا، امام احمد خود اسے مرجئا کہتے ہیں لیکن اس ان سے روایت بھی لی ہے (تهذيب الكمال 26/535)۔
6:- محمد بن الحسن بن أتش — جسے امام احمد نے خود قدری کہا (الضعفاء للعقيلي 4/57)، مگر اسی سے روايات بيان کیں (مسند أحمد ٩/٣٨٠، ٩/٣٨١، ٩/٣٨٢، ٣٦/٤٨٢، العلل رواية عبد اللَّه 1762)۔
7:- حسان بن عطية الشامي الساحلي — جس کے عقیدے پر قدری ہونے کا الزام تھا، پھر بھی مسند احمد میں اس کی روايات موجود ہیں (مسند احمد 7006) ۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے عقیدہ ( ان کی رائے ) کے بارے میں . تو جس اعتقادی دستاویز کو اہل السنہ والجماعت کے اجماعی عقیدے کا آئینہ کہا جا سکتا ہے تو وہ "عقیدہ طحاویہ" ہے۔ امام طحاویؒ، جو تیسری صدی ہجری کے وسط میں عالم اسلام کے جید فقہاء و محدثین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے اپنی اس مختصر مگر جامع کتاب میں امت کے مسلمہ عقائد کو مختصر نکات میں بیان کیا۔
لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امام طحاویؒ نہ صرف خود حنفی المسلک تھے، بلکہ اس عقیدہ کی بنیاد انہوں نے امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، اور امام محمدؒ کے عقائد پر رکھی۔ چنانچہ انہوں نے آغاز میں واضح کیا: "هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة: أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري، وأبي عبد الله محمد بن الحسن الشيباني رحمهم الله."
یہ اعلان اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے دونوں جلیل القدر تلامذہ اہل السنہ والجماعت کے معتمد عقائد پر تھے۔ نہ ان کا عقیدہ بدعت پر تھا، نہ وہ جہمی تھے، نہ مرجئی، نہ قدری، نہ اہل ضلال۔ اس لئے چاہے احناف ہوں یا شوافع، مالکی ہوں یا حنابلہ دنیا بھر کے مدارس میں "عقیدہ الطحاویہ" ہی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے بلکہ خود غیر مقلدین کے مدارس میں بھی اسی کی شرح پڑھائی جاتی ہے.
تو جن ائمہ کے عقیدے پر بنیاد رکھ کر یہ نصاب تیار ہوا اور جن کے اقوال کو "مرجع حق" مان کر عقیدہ مرتب کیا گیا، انہی ائمہ کو بدعتی، جہمی، مرجئی، عقل پرست، اور زندیق کہنے میں کوئی جھجک نہیں کی جاتی.
کیا یہ یہی انصاف ہے کہ:
جو شخص بد عقیدہ، کذاب، راوی ضعیف، روافض، خبیث العقیدہ ہو، اس سے روایت بھی لی جائے. اور جو شخص اہل سنت کا علمبردار، فقیہ، مجتہد مطلق، زاہد، عابد، متقی، امانت دار ہو — اس پر طعن کیا جائے، اور اس کی روایات کو رد؟
جب امام احمد بن حنبل جیسے معتدل امام کا رویہ احناف کے تعلق سے اتنا سخت اور دوہرے معیار پر مبنی نظر آتا ہے تو جو حضرات جرح و تعدیل میں متشدد شمار کئے جاتے ہیں انکا امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف و امام محمد کے تعلق سے کتنا سخت رویہ ہوگا. اس لئے ضرورت ہے کہ ان حضرات سے مروی جروحات کو انکے علمی درجہ کی وجہ سے آنکھ بند کر کے تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اصل حقیقت اور جرح کے پیچھے کے اسباب کو دیکھا جائے آیا کہ وہ جرح درست بھی ہے یا نہیں. اس جرح کی جو وجہ بیان کی گئی وہ صحیح ہے بھی یا نہیں. اس سے انسان کی عدالت مجروح ہوتی بھی یا نہیں. کیا جو جرح کی گئی وہ کسی غلط فہمی، تعصب، آپسی اختلافات، یا رائے کی بنیاد پر ہوئے کسی اختلاف کی بنیاد پر تو نہیں تھی. اگر ایسا ہی تھا تو ایسی جرح نہ صرف قابل ترک ہوتی بلکہ اسی بنیاد پر بعد کے محدثین یعنی امام مزی، امام ذہبی اور امام ابن حجر نے انکو اہمیت نہیں دی.
امام احمد رحمہ اللہ کا اہل الرائے کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ :
▪︎ قال عبد اللَّه: سمعت أبي يقول: أهل الرأي لا يروى عنهم الحديث.
امام احمد نے کہا اہل الرای سے احادیث روایت نہیں کی جائے گی. "العلل" برواية عبد اللَّه (١٧٠٧)
حالانکہ راوی کے حفظ و عدالت کے ہوتے ہوئے اہل الرائے ہونا یہ سرے سے کوئی علت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سے حدیث روایت نا کی جائے نا ہی اہل علم میں سے آج تک کسی نے صحت حدیث کے لئے ایسی کوئی شرط مقرر فرمائی ہے کہ راوی رائے و اجتھاد سے پیدل ہو۔
شعیب ابن اسحاق
▪︎ شعیب ابن اسحاق جوکہ امام احمد کے نزدیک خود صاحب حفظ و عدالت تھا ان کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا تو جواب میں امام احمد نے کہا
وقال عبدالله في العلل ومعرفة الرجال :
3127 - وَسَأَلته عَن شُعَيْب بن إِسْحَاق قَالَ : مَا أرى بِهِ بَأْسا وَلكنه جَالس أَصْحَاب الرَّأْي كَانَ جَالس أَبَا حنيفَة . یعنی امام احمد کہتے ہیں میرے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی موجود نہیں ہے سوائے یہ کہ اصحاب الرائ کی مجالس اور امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا تھا.
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ راوی میں ایسی کوئی خرابی موجود نہیں جس کی وجہ سے اس کی حدیث مشکوک ہو لیکن پھر بھی امام احمد رحمہ اللہ کو ان سے اصحاب الرائے کی مجالس میں بیٹھنے کا گلہ ہے ۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے کے قابل ہے ، وہ تمام شرائط جو محدثین رکھتے ہیں اس پر پورا اترتا ہے ، اس کے باوجود امام احمد نے اس سے خرابی یہ نکالی کہ وہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا ہے ، یہ سراسر تعصب ہے ، ابو حنیفہ کی مجلس میں تو عبداللہ بن مبارک بھی بیٹھتے تھے ، وہی عبداللہ بن مبارک جن سے صحیح اسانید سے امام ابو حنیفہ کے مناقب منقول ہیں ۔ بہرحال امام احمد کا اہل الرائے سے رویہ غیر منصفانہ ہے۔
امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ
▪︎ امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا کہ محمد بن حسن شیبانی جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور اصحاب الرائے میں سے ہے انکے بارے میں کیا فرماتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔ سألت ابی عن محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفة صاحب الرای قال لا اروی عنه شیئا، ( العلل ومعرفۃ الرجال 5329 مع 5330)
حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ جن کی شاگردی پر ناز کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فقہ و حدیث صرف شافعی رحمہ اللہ میں ہے ، وہ شافعی رحمہ اللہ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے گن گاتے نظر آتے ہیں ، مسند شافعی ہو یا کتاب الام ، ہر جگہ امام شافعی رحمہ اللہ ، اپنے استاد محمد بن حسن الشیبانی کی علمی جلالت کے گرویدہ پائے جاتے ہیں ، قارئین تفصیل مضمون کے آخر میں لنک پر دیکھ سکتے ہیں ۔ معلوم ہوا ، امام احمد بن حنبل کا امام محمد سے رویہ نا انصافی پر مبنی تھا اور اپنے استاد شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے صریح مخالف تھا۔
امام ابو یوسف رحمہ اللہ
امام ابو یوسف ، امام احمد کے ہاں صدوق تھے ، لیکن امام احمد پھر بھی ان سے روایت نہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔
وقال عبد الله: سألت أبي، من أسد بن عمرو. قال: كان صدوقًا، وأبو يوسف صدوق، ولكن أصحاب أبي حنيفة لا ينبغي أن يروى عنهم شيء. «العلل» (٥٣٣٢)
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ ایک انسان آپکے نزدیک صدوق اور حدیث بیان کرنے کے قابل ہے لیکن آپ صرف اس وجہ سے اس سے احادیث نقل نہیں کرتے کیونکہ وہ امام ابو حنیفہ کا شاگرد ہے. کیا یہی انصاف کا تقاضہ ہے؟
امام ابو یعلی معلی بن منصور رحمہ اللہ
▪︎ اسی طرح امام قاضی ابو یوسف کے جید لائق شاگرد امام ابو یعلی معلی بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں ، امام بخاری نے ان سے صحیح میں روایت لی ہے ، تمام آئمہ ان کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں سوائے امام احمد کے ، جنہوں نے اپنے اس انوکھے رویہ پر کوئی جواب نہیں دیا ۔ بعض کی رائے یہ ہیکہ امام احمد نے ان پر جھوٹ کی تہمت بھی لگائی تھی لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے ، البتہ امام احمد کے اقوال سے معلوم ہوتا ہیکہ چونکہ امام معلی بن منصور رازی ، حنفی تھے ، بس اسی وجہ سے انہوں نے ان سے حدیث نہ لی ۔ امام احمد کہتے تھے کہ معلی بن منصور اہل الرائے سے ہیں ، ان کی کتب تصنیف کرتے ہیں لہذا وہ جھوٹ سے بچ نہ سکتے ہیں ، یہ بھی امام احمد کا ایک غلط اندازہ ہے ، کتنے ہی لوگ امام ابو حنیفہ یا صاحبین کی مجلس میں بیٹھتے تھے ، بخاری شریف میں کتنے ہی راوی حنفی ہیں ، کیا وہ سب بھی جھوٹے تھے ؟ مکی بن ابراہیم جھوٹے تھے ؟ ابو عاصم النبیل ، عبداللہ بن مبارک ؟
حماد بن دلیل رحمہ اللہ
▪︎ ایک مشہور ثقہ امام ہیں جن کا نام ہے حماد بن دلیل رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی لکھتے ہیں
٤٢٠٦ - حَمَّاد بْن دليل أَبُو زيد قاضي المدائن حدث عَنْ سفيان الثوري، وعمر بْن نافع، والحسن بْن عمارة، وأبي حنيفة النعمان بْن ثابت، وَكَانَ قد أخذ الفقه عَنْ أَبِي حنيفة.
یعنی امام حماد بن دلیل نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے سیکھا
ان کی توثیق پیش خدمت ہے
1...امام یحی بن معین کہتے ہیں لیس به بأس ھو ثقة
دوسری جگہ کہتے ہیں حماد بن دلیل ابو زید قاضی المدائن وکان ثقة.. (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری 4/376)
2...ابن عمار کہتے ہیں حماد بن دلیل.. وکان من ثقات الناس
( تاریخ بغداد 8/148)
3...امام ابو داؤد صاحب السنن کہتے ہیں ابو زید قاضی المدائن لیس به بأس
(تاریخ بغداد 8/148)
4...امام مغلطائی کہتے ہیں ذکرہ ابو حفص ابن شاھین فی جملة الثقات قال ھو عندی فی الطبقة الثالثة من المحدثین..
(اکمال تھذیب الکمال 4/138)
5...وقال ابن ابی حاتم عن ابیه من الثقات
(اکمال تھذیب الکمال رقم 1336)
اسی طرح بہت سارے ائمہ حدیث نے اسکی توثیق کی ہے۔
اب چونکہ حماد بن دلیل جوکہ ثقہ امام ہیں انھوں نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا تھا ، اس بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ رائے و قیاس کی مخالفت کے سبب ان پر جرح کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ مھنی بن یحییٰ کہتے ہیں سألت احمد عن حماد بن دلیل قال کان قاضی المدائن لم یکن صاحب حدیث کان صاحب رای قلت سمعت منه شیئا قال حدیثین.
میں نے امام احمد سے پوچھا حماد بن دلیل کے بارے میں تو انھوں نے کہا کہ مدائن کے قاضی تھے لیکن صاحب حدیث نہ تھے (یعنی حدیث سے شوق و شغف نہیں رکھتے تھے) بلکہ صاحب رای تھے (یعنی قیاس و اجتھاد کے فاعل و قائل تھے) میں نے پوچھا کیا اپ نے ان سے کچھ سنا ہے امام احمد نے کہا ہاں صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔ (موسوعة اقوال الإمام أحمد رقم 612)
حافظ ابن حجر رح انکا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ﺣﻤﺎﺩ اﺑﻦ ﺩﻟﻴﻞ ﻣﺼﻐﺮ ﺃﺑﻮ ﺯﻳﺪ ﻗﺎﺿﻲ اﻟﻤﺪاﺋﻦ ﺻﺪﻭﻕ ﻧﻘﻤﻮا ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺮﺃﻱ
تقریب التھذیب رقم 1497
یعنی حماد بن دلیل صدوق درجے کا راوی ہے رائے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا گیا ہے ۔
البانی رائے کے اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں قلت: وهذا ليس بجرح، فالحديث جيد الإسناد میں( البانی )کہتا ہوں یہ سرے سے جرح ہی نہیں ہے لہذا حدیث اعلی سند والی ہے انتہی (سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ رقم 1233) معلوم ہوا کہ رائے و اجتھاد کی مخالفت پر مبنی جرح مردود ہوتی ہے
هارون بن عمرو بن يزيد المخزومى الدمشقي
هارون بن عمرو بن يزيد [بن زياد - ٢] بن أبي زياد المخزومى الدمشقي روى عن الوليد [يعنى - ٢] ابن مسلم ومحمد بن شعيب بن شابور ويحيى بن سليم الطائفي روى عنه صالح بن بشير (٣) بن سلمة الطبراني. نا عبد الرحمن قال سألت ابى عنه فقال: شيخ دمشقي ادركته، كان يرى رأى ابى حنيفة، وعلى العمد لم نكتب (٤) عنه، محله الصدق
ہارون بن عمرو بن یزید (بن زیاد) بن ابی زیاد مخزومی دمشقی۔ انہوں نے روایت کی ہے ولید بن مسلم، محمد بن شعیب بن شابور اور یحییٰ بن سلیم الطائفی سے۔ان سے روایت کی ہے صالح بن بشیر بن سلمہ طبرانی نے۔عبدالرحمٰن کہتے ہیں: میں نے اپنے والد سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا:"وہ شام (دمشق) کے شیخ تھے، میں نے ان کو پایا ہے۔ وہ ابو حنیفہ کی فقہ پر تھے۔ اور ہم نے جان بوجھ کر ان سے روایت نہیں لکھی۔ تاہم ان کا مقام صدق (سچائی) کا ہے۔" (الجرح والتعديل المؤلف : الرازي، ابن أبي حاتم الجزء : 9 صفحة :
93)
اس راوی سے روایت نہ لینے کی اصل وجہ یہ بیان کی کہ وہ "ابو حنیفہ کی فقہ پر تھا"۔ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ محض فقہی وابستگی کی بنیاد پر صحیح اور ثقہ راویوں کو بھی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ یہ دراصل اس زمانے کے بعض محدثین کے اندر موجود تعصب کی جھلک ہے، ورنہ ایک اصولی اور غیر جانب دارانہ رویہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ اگر راوی ثقہ ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے، چاہے وہ کسی بھی امام کی فقہ پر ہو۔
یہی وہ طرزِ عمل تھا جس کی وجہ سے بعض محدثین کے یہاں فقہی تعصب کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کی فقہ کو اپنانے والے صرف معمولی لوگ نہیں تھے بلکہ بڑے بڑے ثقہ، صدوق اور معتبر رواۃ بھی شامل تھے۔
الإمام أبو بكر إبراهيم بن رُستم المَرْوَزي الحنفي الفقيه
ابراہیم بن رستم مروزی، امام محمد بن حسن کے شاگرد اور فقہ حنفی کے بڑے فقیہ تھے۔ ان کے بارے میں ائمہ کے اقوال مختلف ملتے ہیں۔ امام یحییٰ بن معین جیسے متشدد ناقد نے انہیں "ثقة" کہا (تاريخ الدارمي عن ابن معين ص ٧٥ رقم ١٥١) جو ان کی بڑی توثیق ہے۔ امام ذہبی نے بھی انہیں نبیل اور جلیل القدر امام قرار دیا اور ان کے زہد و عبادت کا ذکر کیا، حتیٰ کہ خلیفہ مامون نے انہیں قضا کی پیشکش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ ان سے امام احمد بن حنبل جیسے ائمہ نے بھی روایت لی۔ دوسری طرف بعض محدثین نے ان پر جرح کی، جیسے امام ابو حاتم نے کہا: «كان يرى الإرجاء، ليس بذاك، محلُّه الصدق، وكان آفته الرأي، وكان يُذْكَرُ بسَتْرٍ وعِبَادَةٍ» (الجرح والتعديل ٢/٩٩-١٠٠) یعنی وہ مرجیہ کے قول کے قائل تھے، لیکن اپنی ذات میں سچے تھے، ان کی کمزوری رائے تھی ، اور وہ ستر و عبادت کے ساتھ ذکر کیے جاتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان پر جرح کا اصل سبب فقہی اختلاف اور ان کی فقہ حنفی سے وابستگی تھی، نہ کہ ان کی صداقت یا دیانت میں کوئی نقص۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ثقہ بھی کہا گیا اور عبادت گزار بھی، مگر بعض نے محض فقہی مسلکی تعصب کی بنا پر ان پر کلام کیا۔
بعض رواۃ پر جرح محض اہلِ رائے ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے، حالانکہ وہ ثقہ اور صاحبِ علم تھے۔ اس پر شیخ شعیب ارنؤوط اور شیخ بشار عواد معروف جیسے کبار محدثین کی تصریحات بڑی اہم ہیں۔ والأسوأ من كُلِّ هذا: التضعيفُ لموضع الرأي، كما رأينا ذلك في كثيرٍ من الرواة الكوفيين الثقاتِ من أصحاب أبي حنيفة ﵀، مع أن كثيرًا ممن ضُعِّفَ لأجلِ هذا كانوا من ذوي الرأي السديد المُشيد على الكتاب والسُّنة، وقد سلكوا فيه طريقًا محمودًا كسائِرِ الأئمة المتبوعين، وَكانَ له الأثرُ الكبير في إغناءِ الفقه الإسلامي بتشريعات وافية، وحلولٍ عملية لما يستجِدُّ من الحوادث والقضايا.
"اور سب سے بُرا پہلو یہ ہے کہ محض رائے رکھنے کی وجہ سے تضعیف کر دی گئی، جیسا کہ ہم نے بہت سے کوفی ثقہ رواۃ میں دیکھا ہے جو امام ابو حنیفہ ؒ کے اصحاب میں سے تھے۔ حالانکہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جن کی رائے کتاب و سنت کی بنیاد پر قائم اور نہایت مضبوط ہوتی تھی، اور انہوں نے اسی راہ کو اختیار کیا تھا جو دیگر متبوع ائمہ کا طریقہ تھا۔ ان کی آراء نے فقہ اسلامی کو بھرپور تشریعات اور نئے مسائل کے عملی حل فراہم کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔"
(تحرير تقريب التهذيب، تأليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط، سادسًا: الجرح المردود، 1/39)
مساور الورّاق
اسی طرح ایک اور راوی مساور الورّاق کے بارے میں بھی ملاحظہ ہو
قَالَ سُفْيَانُ: وَكَانَ مُسَاوِرٌ- يَعْنِي الْوَرَّاقَ- رَجُلًا صَالِحًا لَا بَأْسَ بِهِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ لَهُ رَأْيٌ فِي أَبِي حَنِيفَةَ
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں: مساور (یعنی الورّاق) ایک نیک اور صالح آدمی تھا، اس میں کوئی حرج نہ تھا، سوائے کہ وہ امام ابو حنیفہ کی رائے (فقہ) پر (عمل کرتا) تھا (المعرفة والتاريخ - ت العمري - ط العراق ٢/٦٨٦ )
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
سعيد بن سالم الكوفي، أبو عثمان
اسی طرح ایک اور راوی سعيد بن سالم الكوفي، أبو عثمان کے بارے میں شعیب ارناؤوط اور بشار عواد معروف کے کلمات ملاحظہ ہوں۔ تحریر تقریب التہذیب میں صاف لکھتے ہیں:
صدوق حسن الحديث، تكلم فيه يعقوب بن سفيان، والدارمي، وابن حبان لرأيه في أبي حنيفة، بل صرح بعضهم بذلك
"صدوق، حسن الحدیث، اس پر یعقوب بن سفیان، دارمی اور ابن حبان نے کلام کیا، اور کلام کی وجہ صرف اس کا امام ابو حنیفہ کے بارے میں رائے رکھنا تھا، بلکہ بعض نے تو صاف صاف اس بات کا اظہار بھی کر دیا۔"
یہ الفاظ گویا فیصلہ کن شہادت ہیں کہ جرح کا اصل سبب نہ تو روایت میں کوئی ضعف تھا، نہ ہی حافظہ میں کمی، بلکہ جرم یہی تھا کہ وہ امام اعظم ابو حنیفہؒ کی فقہ کا حامی اور ان کے بارے میں مثبت رائے رکھنے والا تھا۔ یوں "علمی نقد" کا پردہ اوڑھ کر اصل میں مسلکی تعصب کی آگ بھڑکائی گئی، اور ایک ثقہ و صدوق راوی کو بلاوجہ مطعون کر کے تاریخ کے سامنے اپنی ہی جانبداری کو رسوا کر دیا گیا۔
النضر بن محمد المروزيُّ
٧١٤٩ - النضر بن محمد المروزيُّ، مولى بني عامرٍ قريش، أبو محمد، أو أبو عبد الله: صدوقٌ ربما يَهِمُ ورُمِيَ بالِإرجاء، من الثامنة، مات سنة ثلاث وثمانين. ل س.
• بل: صدوقٌ حسن الحديث، فقد روى عنه جمع، وأطلق توثيقه النسائي والدارقطنيُّ، وقال ابنُ سعد: كان مقدمًا عندهم في العلم والفقه والعقل والفضل، وكان صديقًا لعبد الله بن المبارك، وكان من أصحاب أبي حنيفة. وقد ضعَّفه البخاري ومسلم وأبو زرعة والساجي والأزدي والحاكم أرو أحمد. ولكن كثيرًا منهم صَرَّحوا بتضعيفه بسبب الرأي، وهو تضعيف مردود.
وہ صدوق اور حسن الحدیث تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس سے روایت کی ہے، اور نسائی و دارقطنی نے اس کی توثیق مطلقاً کی ہے۔ ابن سعد نے کہا: وہ ان کے نزدیک علم، فقہ، عقل اور فضل میں مقدم تھا، اور وہ عبداللہ بن مبارک کا دوست تھا اور امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے تھا۔ البتہ بخاری، مسلم، ابو زرعہ، ساجی، ازدی اور حاکم ابو احمد نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن ان میں سے اکثر نے اس کے تضعیف کی وجہ 'رائے' (فقہی رائے) کو بیان کیا ہے، اور یہ تضعیف مردود ہے۔
(تحرير تقريب التهذيب، 4/18)
إسماعيل بن حمّاد بن أبي حنيفة الكُوفيُّ القاضي
افظ ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ ان پر کلام کیا گیا ہے۔ (تقریب)
الجواب :
حافظ ؒ کے کلام کے جواب میں ، شیخ شعیب الارناؤط ؒ اور شیخ بشار عواد معروفؒ کہتے ہیں کہ :
’’قولہ : ’’ تکلموا فیہ‘‘ یشیر إلی کلام ابن عدی وصالح جزرۃ فیہ ، وماأنصفہ بعض المحدثین ، ولا أنصفوا جدہ‘‘
حافظ ؒ کا قول : ’’ اسماعیل ؒ پر کلام کیا گیا ہے‘‘ ابن عدی ؒ اور صالح جزرہ ؒ کے قول کی طرف اشارہ ہے، اور بعض محدثین نے نہ اسماعیل کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا اور نہ ان کے دادا کے ساتھ ۔
آگے موصوف دونوں حضرات ؒ نے کہا کہ : اسماعیل ؒ بغداد کے مغربی جانب میں علماء کے قاضی تھے ، اور ان کے بارے میں امام محمد بن عبد اللہ بن المثنی ابو عبد اللہ القاضی الانصاری ؒ (م ۲۱۵ھ) کی توثیق وتعریف نقل کی ہے
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
قاضی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ(م۲۱۲ھ) ائمہ کی نظر میں۔
أسد بن عمرو البجلي
أسد بن عمرو البجلي، امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ ان کے بارے میں ائمہ کے اقوال کو دیکھنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ:
-
توثیق کرنے والے ائمہ (جمہور محدثین)
-
أحمد بن منيع البغوي : ثقة صدوق
-
ابن حجر العسقلاني : ثقة
-
الدارقطني : يعتبر به
-
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : لم أر في أحاديثه شيئا منكرا، وأرجو أن حديثه مستقيم
وَقَدْ ذَكَرَهُ ابْنُ شَاهِين فِي "الثِّقَات": ١٠٥ - أَسَدُ بْنُ عَمْرٍو القَاضِي، ثِقَةٌ،
-
أبو دواد السجستاني : صاحب رأي وهو في نفسه ليس به بأس
-
محمد بن سعد كاتب الواقدي : عنده حديث كثير وهو ثقة إن شاء الله تفقه
-
يحيى بن معين :
-
كان لا بأس به
-
: أوثق من نوح بن دراج
-
: لم يكن به بأس … كان أسد بن عمرو صدوقا، وكان يذهب مذهب أبي حنيفة
-
ان سب اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ جمہور محدثین جیسے ابن حجر، دارقطنی، ابن معین، ابن سعد، احمد بن منیع وغیرہ نے انہیں ثقہ اور صدوق کہا ہے۔
-
-
خود امام احمد بن حنبل نے بھی صاف کہا: "كان صدوقا" یعنی یہ سچے اور معتبر تھے۔
لیکن اس کے ساتھ امام احمد ہی نے یہ بھی کہا کہ: "أبو يوسف صدوق، لكن أصحاب أبي حنيفة ينبغي أن لا يروى عنهم شيء (ابو یوسف بھی صدوق تھے اور اسد بن عمرو بھی، مگر ابو حنیفہ کے شاگردوں سے روایت نہیں لینی چاہیے)۔
یہ کلام بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ جرح ان کی دیانت یا صداقت پر نہیں تھی بلکہ صرف اور صرف اس وجہ سے تھی کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد تھے۔ اسی طرح نسائیؒ، ابن حبانؒ، عثمان بن ابی شیبہؒ، علی بن مدینیؒ، امام بخاریؒ اور عمرو بن علی الفلاسؒ نے بھی جرح کرتے وقت ان کے "صاحب الرائے" ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ ورنہ ابن عدی نے تو صاف لکھ دیا: "لم أر في أحاديثه شيئا منكرا، وأرجو أن حديثه مستقيم" (میں نے ان کی حدیث میں کوئی منکر چیز نہیں دیکھی، اور امید ہے کہ ان کی حدیث درست ہے)۔
اگر أسد بن عمرو پر جرح کو قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایک سچا اور ثقہ راوی صرف اس لیے ترک کر دیا جائے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کا شاگرد تھا۔ یہ بات اصولِ جرح و تعدیل کے بالکل خلاف اور صریح تعصب ہے۔ لہٰذا تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ أسد بن عمرو پر اصل جرح "رائے اور تعصب" کی وجہ سے ہے، نہ کہ ان کی روایت یا شخصیت کی کمزوری کی وجہ سے۔
قارئین! یہ تفصیل محض چند مثالیں ہیں جو اس حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کے تلامذہ پر ہونے والی جرح کا اصل سبب علمی یا دینی ضعف نہ تھا بلکہ محض فقہی وابستگی اور اہل الرائے ہونا تھا۔ امام احمد بن حنبلؒ جیسے عظیم محدث بھی اس تعصب سے مکمل طور پر محفوظ نہ رہ سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر کذاب، رافضی، زندیق اور اہل بدعت سے روایت لینا روا ہے، تو پھر امام ابو حنیفہؒ جیسے مجتہد مطلق، صادق اور فقیہ سے روایت کو ترک کرنے کا جواز صرف تعصب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تحریر اسی صدائے حق کی ترجمان ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو امام اعظم ابو حنیفہؒ اور ان کے شاگرد نہ صرف فقہ و اجتہاد کے امام ہیں بلکہ اہل السنۃ والجماعۃ کے معتمد ستون بھی ہیں۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار
اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح
اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں