کیا امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ کے سامنے ایسے بیٹھتے تھے جیسے بچہ اپنے والد کے سامنے؟
وروى سعيد بن أبي مريم عن أشهب بن عبد العزيز قال: رأيت أبا حنيفة بين يدي مالك كالصبي بين يدي أبيه١ قلت: فهذا يدل على حسن أدب أبي حنيفة وتواضعه مع كونه أسنّ من مالك بثلاث عشرة سنة.
سعيد بن أبي مريم روایت کرتے ہیں کہ أشهب بن عبد العزيز نے کہا: "میں نے امام ابو حنیفہؒ کو امام مالکؒ کے سامنے اس طرح دیکھا جیسے کوئی بچہ اپنے والد کے سامنے ہو۔"
( تذکرة الحفاظ / طبقات الحفاظ للذهبي ١/١٥٥)
جواب:
اول تو ہمیں اس روایت کی مکمل سند دستیاب ہی نہیں، اور جب سند ہی موجود نہ ہو تو ایسی روایت کو کس طرح معتبر مانا جا سکتا ہے؟
لیکن بالفرض ہم یہ مان بھی لیں کہ اس روایت کی کوئی سند موجود ہے، تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ امام ذہبیؒ کا اس پر اپنا تبصرہ پیش کیا جائے، کیونکہ یہ روایت انہوں نے اپنی کتاب تذکرة الحفاظ میں ذکر کی ہے۔ امام ذہبیؒ خود اس کے بعد وضاحت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ
"یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ، باوجود اس کے کہ وہ امام مالکؒ سے عمر میں تیرہ سال بڑے تھے، پھر بھی ان کے سامنے انتہائی ادب اور تواضع کے ساتھ پیش آتے تھے۔"
لیکن محقق زکریا عمیرات نے حاشیے میں اس پر تنبیہ کی اور کہا:
هذه المكانة خطأ كما يظهر لأن أبا حنيفة توفي وأشهب صبي له نحو خمس سنين فإن صح السند فعل الصواب «رأيت محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة».
"یہ روایت محلِّ نظر ہے، کیونکہ امام ابو حنیفہؒ کی وفات کے وقت أشهب (جو امام مالکؒ کے مشہور شاگرد تھے) کی عمر صرف پانچ سال کے قریب تھی۔ لہٰذا اس کا براہِ راست مشاہدہ ممکن نہیں۔ اگر سند صحیح بھی ہو تو زیادہ درست بات یہ ہے کہ اصل روایت یوں ہے:
'رأيت محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة'
یعنی أشهب نے امام ابو حنیفہؒ کو نہیں بلکہ ان کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانیؒ کو امام مالکؒ کے سامنے دیکھا تھا۔"
( تذکرة الحفاظ / طبقات الحفاظ للذهبي ١/١٥٥)
کیونکہ ایک بات تو یہ ہے کہ ہمیں کتب میں امام ابو حنیفہؒ کے بیٹے کی امام مالکؒ سے ایک روایت ملتی ہے(ما رواه الأكابر عن مالك لمحمد بن مخلد ١/٤٥)، اور دوسری طرف یہ بھی ثابت ہے کہ امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے موطا سنی ہے۔ لہٰذا غالب گمان یہی ہے کہ اس روایت کی سند میں کسی راوی سے مکمل عبارت چھوٹ گئی ہے، اور اصل مفہوم اس طرح ہے کہ: ’’میں نے امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد یا بیٹے کو امام مالکؒ کے سامنے ایسے بیٹھے دیکھا جیسے کوئی بیٹا اپنے والد کے سامنے بیٹھا ہو۔‘‘
یہی بات عقلاً اور نقلاً زیادہ قرینِ قیاس ہے اور دلائل و قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ پھر خود امام مالکؒ سے جب امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ایسے الفاظ میں جواب دیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امام صاحب کو کسی درجہ کم تر یا بچے کی طرح نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں علم کا پہاڑ قرار دیتے تھے، جیسا کہ مشہور روایت میں ہے:
’’رأيت رجلا لو كلمك في هذه السارية أن يجعلها ذهبا لقام بحجته‘‘
(میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا، اگر وہ اس ستون کو سونا ثابت کرنے پر دلیل قائم کرتا تو اپنی حجت سے بات منوا لیتا۔)
اسی طرح امام مالکؒ کا امام ابو حنیفہؒ سے فقہی طور پر استفادہ بھی ثابت ہے( (فضائل ابی حنیفہ واخبارہ ومناقبہ لابن ابی عوام : صفحہ ۲۳۵))۔ لہٰذا یہ روایت جس کی نہ سند موجود ہے اور نہ متن میں کوئی استحکام پایا جاتا ہے، وہ امام ابو حنیفہؒ کے خلاف ہرگز حجت نہیں بن سکتی۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎غایۃ الامانی مقدمۃ الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی (مکمل )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں