اعتراض نمبر 35 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں "حديث الضحك" کی روایت میں ابو حنیفہ نے سند اور متن میں خطا کی ہے، کیونکہ انہوں نے سند میں معبد کا اضافہ کیا جبکہ اصل میں یہ حسن سے مرسلاً ہے اور متن میں قہقہہ (بلند آواز سے ہنسنا) کا اضافہ کیا .
کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 35 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں "حديث الضحك" کی روایت میں ابو حنیفہ نے سند اور متن میں خطا کی ہے، کیونکہ انہوں نے سند میں معبد کا اضافہ کیا جبکہ اصل میں یہ حسن سے مرسلاً ہے اور متن میں قہقہہ (بلند آواز سے ہنسنا) کا اضافہ کیا .
حَدَّثَنَا ابْن حَمَّادٍ وَيَحْيَى بْنُ مُحَمد صَاعِدٌ، وَمُحمد بْنُ أَحْمَدِ بْنِ الحسين الأهوازي قالوا، حَدَّثَنا شُعَيب بن أيوب، حَدَّثَنا أَبُو يَحْيى الْحِمَّانِيُّ، عَن أَبِي حَنِيفَةَ عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ عَنِ الْحَسَنِ، عَن مَعْبِدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلاةِ إِذْ أَقْبَلَ أَعْمَى يُرِيدُ الصَّلاةَ فَوَقَعَ فِي رَيْبَةٍ فَضَحِكَ بَعْضُ الْقَوْمِ قَهْقَهَةً فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ ﷺ قَال: مَنْ كَانَ مِنْكُمْ قَهْقَهَ فَلْيُعِدِ الْوُضُوءَ وَالصَّلاةَ.
قَالَ ابنُ عَدِي وَرَوَاهُ أَبُو يُوسُفَ وَمَكِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَالْمُقْرِيُّ وَقَالَ مَعْبِدُ الْجُهَنِيُّ وَأَرْسَلَهُ مُحَمد بْنُ الْحَسَنِ وَزُفَرٌ، عَن أَبِي حَنِيفَةَ وَلَمْ يُذْكَرْ مِعْبَدٌ فِي هَذَا الإِسْنَادِ.
قَالَ لَنَا ابْن حَمَّادٍ، وَهو مِعْبَدُ بْنُ هَوْذَةَ الَّذِي ذَكَرَهُ البُخارِيّ فِي كِتَابِهِ فِي تَسْمِيَةِ أَصْحَابِ النَّبِيُّ ﷺ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرَهُ بن حَمَّادٍ غَلَطٌ وَذَلِكَ أَنَّهُ قِيْلَ مِعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ فَكَيْفَ يَكُونُ جُهَنِيٌّ أنصاري وَمِعْبَدُ بْنُ هَوْذَةَ أَنْصَارِيٌّ وَلَهُ حَدِيثٌ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْكُحْلِ إلاَّ أن بن حَمَّادٍ اعْتَذَرَ لأَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ هُوَ مِعْبَدُ بْنُ هَوْذَةَ لِمَيْلِهِ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ وَلَمْ يَقُلْهُ أَحَدٌ عَنْ مِعْبَدٍ فِي هَذَا الإِسْنَادِ إلاَّ أَبُو حَنِيفَةَ.
ورواه هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ عَنِ الْحَسَنِ مرسلا وأصحاب منصور بْن زاذان صاحبه المختص فيه هشيم بْن بشير لأنه من أهل بلده وبعده أبو عَوَانة وغيرهما ممن روى عن منصور بْن زاذن وليس عند هشيم وأبي عَوَانة هذا الحديث لا موصولا، ولاَ مرسلا فأخطأ أبو حنيفة في إسناد هذا الحديث ومتنه لزيادته في الإسناد معبد والأصل عن الحسن مرسلا وزيادته في متنه القهقهة وليس في حديثه أبي العالية مع ضعفه وإرساله القهقهة قال لنا ابْن صاعد ويقال إن الحسن سمع هذا الحديث من حفص بْن سليمان المنقري عن حفصة بنت سِيرِين، عَن أبي العالية عن النَّبِيّ ﷺ مرسلا فرجع الحديث إلى أبي العالية
ابن حمّاد، یحییٰ بن محمد صاعد، اور محمد بن احمد بن الحسین الاہوازی نے کہا: ہم سے شعب بن ایوب نے روایت کیا، انہوں نے کہا ہمیں ابو یحییٰ الحِمّانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا (یہ روایت) ابو حنیفہ سے، وہ منصور بن زاذان سے، وہ حسن (بصری) سے، وہ معبد سے، نبی ﷺ سے (روایت کرتے ہیں) کہ جب آپ ﷺ نماز میں تھے تو ایک اندھا نماز پڑھنے کے ارادے سے آیا، تو کسی گڑھے (یا شُبہ والی جگہ) میں گر پڑا، تو قوم میں سے بعض لوگ زور سے ہنس پڑے۔ جب نبی ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: تم میں سے جس نے قہقہہ (یعنی زور سے ہنسا) کیا ہو وہ دوبارہ وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے۔
ابن عدی کہتے ہیں: اس کو ابو یوسف، مکّی بن ابراہیم اور مقری نے روایت کیا، اور (اس میں) معبد جہنی کا ذکر کیا، اور محمد بن حسن اور زُفر نے اسے ابو حنیفہ سے روایت کیا، مگر اس سند میں معبد کا ذکر نہیں کیا۔ابن حماد نے ہم سے کہا: اور یہ معبد بن ہوذہ ہے جس کا ذکر امام بخاری نے اپنی کتاب میں اصحابِ رسول ﷺ کے ذکر میں کیا ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ابن حماد نے ذکر کیا، یہ غلط ہے، کیونکہ کہا گیا ہے کہ یہ معبد جہنی ہے، پس جہنی کیسے انصاری ہو سکتا ہے؟ جبکہ معبد بن ہوذہ انصاری ہے اور اس کی نبی ﷺ سے سرمہ (کحل) کے بارے میں حدیث بھی ہے۔ ہاں، سوائے اس کے کہ ابن حماد نے ابو حنیفہ کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے ان کے لیے عذر پیش کیا اور کہا کہ یہ معبد بن ہوذہ ہے، حالانکہ اس سند میں معبد کا ذکر ابو حنیفہ کے سوا کسی نے نہیں کیا۔
اور اسے ہشام بن حسان نے حسن (بصری) سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور منصور بن زاذان کے اصحاب میں اس (روایت) کے خاص راوی ہشیم بن بشیر ہیں کیونکہ وہ انہی کے شہر کے ہیں، پھر ان کے بعد ابو عوانہ وغیرہ ہیں جنہوں نے منصور بن زاذان سے روایت کیا، اور ہشیم اور ابو عوانہ کے پاس یہ حدیث نہ متصل ہے نہ مرسل۔ پس ابو حنیفہ نے اس حدیث کی سند اور متن میں خطا کی ہے، کیونکہ انہوں نے سند میں معبد کا اضافہ کیا جبکہ اصل میں یہ حسن سے مرسلاً ہے اور متن میں قہقہہ (بلند آواز سے ہنسنا) کا اضافہ کیا، جبکہ حسن کی ابو العالیہ والی حدیث میں — باوجود اس کے کہ وہ ضعیف اور مرسل ہے — قہقہہ کا ذکر نہیں ہے۔ ابن صاعد نے ہم سے کہا: اور کہا جاتا ہے کہ حسن نے یہ حدیث حفص بن سلیمان المنقری سے سنی، وہ حفصہ بنت سیرین سے، وہ ابو العالیہ سے — نبی ﷺ سے مرسلاً — پس یہ حدیث واپس ابو العالیہ پر ہی لوٹتی ہے۔
(الكامل في ضعفاء الرجال ٤/١٠٢ )
یہی اعتراض امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ كَتَبْنَاهُ قَبْلَ هَذَا وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَوَهِمَ فِيهِ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى مَنْصُورٍ وَإِنَّمَا رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ مَعْبَدٍ، وَمَعْبَدٌ هَذَا لَا صُحْبَةَ لَهُ، وَيُقَالُ: إِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مِنَ التَّابِعِينَ، حَدَّثَ بِهِ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: غَيْلَانُ بْنُ جَامِعٍ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، وَهُمَا أَحْفَظُ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ لِلْإِسْنَادِ
اور یہی حدیث امام ابو حنیفہؒ نے منصور بن زاذان سے، اور انہوں نے حسن بصری سے، اور انہوں نے معبد جہنی سے مرسلاً نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ لیکن اس میں امام ابو حنیفہؒ سے منصور کے بارے میں وہم (اشتباہ) ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منصور بن زاذان نے یہ روایت محمد بن سیرین سے، اور محمد بن سیرین نے معبد سے بیان کی ہے۔ اور یہ معبد صحابی نہیں ہیں۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ تابعین میں سے سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مسئلۂ تقدیر (قضا و قدر) پر بات چھیڑی۔ اس روایت کو منصور سے ابن سیرین کے واسطہ سے غیلان بن جامع اور ہشیم بن بشیر نے بھی بیان کیا ہے، اور یہ دونوں ابو حنیفہ سے زیادہ مضبوط اور یادداشت والے ہیں اسناد کے معاملے میں۔ (سنن الدارقطني ١/٣٠٦ )
یہی اعتراض غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری نے بھی — امام دارقطنی اور ابنِ عَدی کی اندھی تقلید کرتے ہوئے — اپنی کتاب توضیح الکلام (صفحہ ۹۵۴) میں نقل کیا ہے۔
الجواب : سب سے پہلے امام ابو حنیفہ م(۵۰اھ) ، امام ہشیم بن بشیر اور قاضی غیلان بن جامع وغیرہ کی امام منصور بن زاذان سے مروی روایات پیش خدمت ہیں:
1۔ ابو حنیفہ عن منصور کی روایات :
١٦٣ - مُحَمَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَمَا هُوَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ أَقْبَلَ أَعْمَى مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ، وَالْقَوْمُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَوَقَعَ فِي زُبْيَةٍ، فَاسْتَضْحَكَ بَعْضُ الْقَوْمِ حَتَّى قَهْقَهَ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، قَالَ: «مَنْ كَانَ قَهْقَهَ مِنْكُمْ فَلْيُعِدِ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ»
(الآثار لمحمد بن الحسن ١/٤٢١ )
حدثنا أحمد بن محمد بن الحسين الحافظ ثنا عيسى بن محمد بن أبي يزيد ثنا عبد الصمد بن الفضل ثنا مكي بن إبراهيم عن أبي حنيفة عن منصور بن زاذان عن الحسن عن معبد الجهني قال بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إذ أقبل أعمى فوقع في بئر فاستضحك بعض القوم فأمر النبي صلى الله عليه وسلم من ضحك أن يعيد الوضوء والصلاة - ( الحديث القهقهة وعلله للخليلي - مخطوطة : ص ٢ ، المكتبة الظاهرية، دمشق)
(عن) صالح بن أحمد (عن) شعيب بن أيوب ( عن) أبي يحيى الحماني (عن) أبو حنيفة (عن) منصور بن زاذان (عن) الحسن (عن) معبد بن صبيح رضي الله عنه ( عن ) النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه كان في الصلاة فأقبل أعمى يريد الصلاة فوقع في زبية فضحك بعض القوم حتى قهقه فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال من كان قهقه فليعد الوضوء والصلاة
(جامع المسانيد الخوارزمی : ج ۱ : ص ۲۴۷-۲۴۸)
حدثنا أبو محمد بن حيان ، ثنا سلم بن عصام عن عمه محمد بن المغيرة ، ثنا الحكم عن زفر عن أبي حنيفة عن منصور بن زاذان ح، وثنا محمد بن إبراهيم، ثنا إسحاق بن إبراهيم، ثنا إسماعيل بن محمد ، ثنا مكي بن إبراهيم، ثنا أبو حنيفة عن منصور بن زاذان كلهم قال : عن الحسن، عن معبد بن ابي معبد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بينما هو في الصلاة إذ أقبل أعمى يريد الصلاة، فوقع في روية فاستضحك بعض القوم، حتى قهقه، فلما انصرف قال النبي صلى الله عليه وسلم: من كان منكم قهقه فليعد الوضوء والصلاة ( مسند الإمام أبي حنيفة رواية أبي نعيم : ص ۲۲۲-۲۲۳)
أخبرنا الشيخ أبو الفضل أحمد بن الحسن بن خيرون قال : أخبرنا خالي أبو علي قال : حدثنا أبو عبد الله بن العلاف قال : أخبرنا القاضي عمر بن الحسن الأشناني قال : أخبرنا إسماعيل بن محمد بن أبي كثير القاضي قال : حدثنا مكي بن إبراهيم قال : حدثنا أبو حنيفة، عن منصور بن زاذان، عن الحسن، عن معقل بن يسار : أن معبداً قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة إذ أقبل أعمى يريد الصلاة فوقع في زبية فاستضحك بعض القوم حتى قهقه فلما انصرف النبي صلى الله عليه وسلم قال : من ضحك منكم قهقهة فليعد الوضوء - ( مسند الامام ابی حنیفة لابن خسرو : ج ۲ ص ۸۰۲)
2. غیلان عن منصور کی روایت :
٦٢٣ - فَحَدَّثَنَا بِهِ الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَا: نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّهَيْرِيُّ أَبُو بَكْرٍ، نا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى، نا أَبِي، نا غَيْلَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ الْوَاسِطِيِّ هُوَ ابْنُ زَاذَانَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُصَلِّي الْغَدَاةَ فَجَاءَ رَجُلٌ أَعْمَى وَقَرِيبٌ مِنْ مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِئْرٌ عَلَى رَأْسِهَا جُلَّةٌ، فَجَاءَ الْأَعْمَى يَمْشِي حَتَّى وَقَعَ فِيهَا، فَضَحِكَ بَعْضُ الْقَوْمِ وَهُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ بَعْدَمَا قَضَى الصَّلَاةَ: «مَنْ ضَحِكَ مِنْكُمْ فَلْيُعِدِ الْوُضُوءَ وَلْيُعِدِ الصَّلَاةَ»
(سنن الدارقطني ١/٣٠٧ )
3. ہشیم عن منصور کی روایت :
حدثنا أحمد بن عبد الله بن محمد الوكيل, نا الحسن بن عرفة, حدثنا هشيم, عن منصور عن ابن سيرين, وعن خالد الحذاء, عن حفصة عن أبي العالية ح وحدثنا الحسين بن إسماعيل, ثنا زياد بن أيوب, ناهشیم نامنصور, عن ابن سيرين, وخالد, عن حفصة, عن أبي العالية, أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي فمر رجل في بصره سوء على بئر عليها خصفة فوقع فيها, فضحك من كان خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم, فلما قضى صلاته قال: من كان منكم ضحك فليعد الوضوء والصلاة لفظ زياد ۔
(سنن الدار قطنی : حدیث نمبر ۶۲۴)
خلاصہ :
غیر مقلد ارشاد الحق اثری کا یہ کہنا کہ حدیث الضحک کی روایت کو امام صاحب نے منصور عن الحسن عن معبد کے طریق سے بیان کیا ہے۔ ان کے برعکس غیلان بن جامع اور ہشیم بن بشیر اسے منصور عن ابن سیرین عن معبد کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں( توضیح الکلام: ص ۹۵۴) یہ غلط ہے ، اصل میں اوپر روایات سے آپ نے دیکھا کہ بشیم بن بشیر نے اس کو عن منصور عن ابن سيرين, وعن خالد الحذاء, عن حفصة, عن أبي العالية کی سند سے ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ سند و متن گزر چکا۔ لہذا یہاں پر غیر مقلد اثری سے خطاء ہوئی ہے۔
حافظ ابن الترکمانی کہتے ہیں قلت * قرأته في مسند ابى حنيفة من رواية ثلاثة عنه فرواه الحسن بن زياد عنه عن منصور عن الحسن مرسلا وراه اسد عنه من عن منصور عن الحسن عن معبد بن صبيح قال بينا رسول الله ﷺ ثم ذكر مثله ورواه مكى بن ابراهيم عنه عن الحسن عن معقل بن يسران معبدا قال بينا رسول الله ﷺ الحديث وليس في شئ منها انه الجهنى والطريق الثالثة جيدة متصلة وعلل البيهقى رواية ابى حنيفة عن منصور (برواية غيلان عن منصور عن ابن سيرين عن معبدوبان معبدا لاصحبة له وهو اول من تكلم بالبصرة في القدر) * قلت * في معرفة الصحابة لابن مندة معبد بن ابى معبد وهو ابن ام عبد رأى النبي ﷺ وهو صغير ثم ذكر ابن مندة بسنده مرور النبي ﷺ بنخباء ام معبدوانه بعث معبدا وكان صغيرا الحديث * ثم قال روى أبو حنيفة عن منصور بن زاذان عن الحسن عن معبد بن ابى معبد عن النبي ﷺ قال من قهقه في صلوته اعاد الوضوء والصلوته ثم ذكر ذلك بسنده عن معن عن ابين حنيفة ثم قال وه وحديث مشهور عنه رواه أبو يوسف القاضى واسد بن عمرو وغيره ما * فظهر بهذا ان معبدا المذكور في هذا الحديث ليس هو الذى تكلم في القدر كما زعم البيهقى ولم يكذر ذلك بسند لينظ فيه ثم لو سلمنا انه الجهنى المتكلم في القدر فلا نسلم انه لاصحبة له * (الجوهر النقي ١/١٤٥ )
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام صاحب (م۱۵۰ھ) نے یہ حدیث ۳ سندوں سے ذکر کی ہے۔
-1 ابو حنيفة عن منصور عن الحسن مرسلا
2۔ ابو حنيفة عن منصور عن الحسن عن معبد بن صبيح ،
3۔ ابو حنيفة عن منصور عن الحسن عن معقل بن يسار عن معبد،
اور یہ تیسری سند جید اور متصل ہے، کیونکہ اس میں معبد سے مراد معبد بن ابی معبد الخزاعی موجود ہیں، جیسا کہ ابن مندہ کی کتاب معجم الصحابۃ میں صراحت موجود ہے۔
یعنی امام ابو حنیفہ کی تمام روایات میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ امام صاحب کو یہ روایت منصور عن حسن بصری کی سند سے 3 طرح سے ملی تھی۔
1۔ ابو حنيفة عن منصور عن الحسن مرسلا
2۔ ابو حنيفة عن منصور عن الحسن عن معبد بن صبيح،
3۔ ابو حنيفة عن منصور عن الحسن عن معقل بن يسار عن معبد
معلوم ہوا کہ غیلان بن جامع (م ۱۳۲ھ) کی روایت کی طرح، امام صاحب (م ۱۵۰ھ) نے یہی روایت " عن منصور عن الحسن عن معبد بن صبيح الجهني “ سے نقل کی ہے ، جیسا کہ تفصیل گزرچکی ، لہذا امام صاحب (م۱۵۰ھ) نے غیلان بن جامع کی روایت کی موافقت کی ہے ، نہ کہ مخالفت ۔ البتہ امام صاحب نے عن منصور عن الحسن کی طریق سے 2 اور سندیں بھی ذکر کی ہیں۔ لہذا یہ زیادتی ہوئی ، نہ کہ مخالفت اور ثقہ حافظ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔ لہذا امام صاحب کی باقی "۲" سندیں بھی مقبول ہیں۔ واللہ اعلم
جب غیلان بن جامع (م ۱۳۲ھ) اور ہشیم بن بشیر (م ۱۸۳ھ) ہی اس روایت کو منصور بن زاذان سے نقل کرنے میں متفق نہیں ہیں ، جیسا کہ تفصیل گزرچکی ۔ تو امام دارقطنی (م ۳۸۵ھ) کا امام صاحب کی روایت پر اعتراض وزن دار باقی نہیں رہا۔ کیونکہ جن روایات کی بنیاد پر وہ اعتراض فرمارہے ہیں، ان روایات میں ہی اختلاف ہے۔ پھر غیلان بن جامع اور امام صاحب کی روایت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ امام صاحب (م۱۵۰ھ) نے غیلان بن جامع (م۱۳۲ھ) کی روایت کی موافقت کی ہے، نہ کہ مخالفت ۔ البتہ امام صاحب نے یہ حدیث عن منصور عن الحسن“ کی طریق سے 2 اور سندیں بھی ذکر کی ہے، جس کی تفصیل او پرگزر چکی، لہذا جب ان دونوں حضرات [ یعنی ہشیم ، غیلان ] کی روایت منصور (م۱۲۹ھ) سے اس لئے صحیح ہو سکتی ہے۔ کیونکہ وہ دونوں حضرات ثقہ ہیں۔ تو امام صاحب کی یہ روایت ، دیگر ۲ سندوں کی طریق سے بھی کیوں کر صحیح نہیں ہو سکتی؟ جب کہ امام ابو حنیفہ (م ۱۵۰ھ) بھی ثقہ، امام، فقیہ، حافظ الحدیث ، ثبت معتقن اور تدلیس سے پاک ہیں ۔
لہذا غیلان اور ہشیم بن بشیر کی روایات کی طرح ، امام صاحب کی یہ روایت ، دیگر 2 سندوں سے بھی صحیح ہے اور امام دارقطنی و ابن عدی کا اعتراض درست نہیں۔
معبد الجہنی سے مراد کون ہے؟؟؟
اکثر آئمہ مثلاً ابن عدی، دارقطنی بیہقی کے نزدیک اس سے مراد، مبتدع راوی، معبد بن خالد الجہنی البصری القدری ہے۔ لیکن راجح قول میں اس سے مراد معبد بن صبیح الجہنی ہیں ، جن کا ذکر حافظ ابواحمد العسکری (م ۳۸۲ھ) نے "کتاب الصحابة“ میں کیا ہے ۔ (کتاب الصحابة للعسكرى بحواله الإنابة إلى معرفة المختلف فيهم من الصحابة للمغلطائي: ج ۲ ص ۱۹۲، ۲۶۵)، کیونکہ یہاں اس سند میں اگرچہ معبد الجہنی موجود ہے لیکن حافظ طلحہ بن محمد الشاہد (م۳۸۰ھ) کی روایت میں بطریق " أبي يحيى الحماني (عن) أبي حنيفة “ میں معبد بن صبیح کی تصریح موجود ہے، (جامع المسانيد للخوارزمی : ج ۱ : ص ۲۴۷-۲۴۸)، اسی طرح اسد بن عمرو کی روایت میں بھی معبد بن صبیح کا ذکر ہے۔ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم : ج ۵ ص ۲۵۲۹، جامع المسانيد للخوارزمی : ج ۱ ص ۲۴۸)، لہذا جب خود سند میں ہی راوی کا تعین ہو گیا ہے، تو راجح وہی ہوگا ، اس لئے معبد الجہنی سے مراد معبد بن صبیح الجہنی ہی ہیں۔ واللہ اعلم اور وہ تابعی ہیں، حافظ ابواحمد العسکری (م ۳۸۲ھ) نے کسی امام سے ان کی توثیق بھی نقل کی ہے۔ (بحوالہ الإنابة إلى معرفة المختلف فيهم من الصحابة للمغلطائي: ج ۲ ص ۱۹۲، ۲۶۵)، خلاصہ یہ کہ معبد بن صبیح الجہنی صدوق ہیں اور صحابی نہیں ہیں ، لہذا سند بھی مرسل ہے ۔ واللہ اعلم
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں
الاجماع شمارہ نمبر 21

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں