نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو الحسن الدارقطنیؒ (م385ھ) کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ


امام ابو الحسن الدارقطنیؒ (م385ھ) کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ


امام اعظم ابو حنیفہؒ (80-150ھ) کی شخصیت اسلامی تاریخ میں ایسا علمی و اجتہادی مقام رکھتی ہے جسے امت کے اکابر محدثین و فقہا نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ مرجعِ امت قرار دیا۔ تاہم محدثین کے طبقۂ اواخر میں سے بعض حضرات کی طرف سے ان کی حدیثی روایت و ضبط پر بعض جزوی اعتراضات منسوب ملتے ہیں، جن میں امام ابو الحسن الدارقطنیؒ (306-385ھ) کا نام لیا جاتا ہے۔ ایک طبقے نے انہی منقول اعتراضات کو بنیاد بنا کر امام اعظم کی ثقاہت پر اشکال قائم کرنے کی جسارت کی — حالانکہ اصولِ نقد و تحقیق کی روشنی میں یہ اعتراضات نہ صرف محلِ نظر ہیں  بلکہ خود دارقطنیؒ کے علمی تعامل ہی سے ان کا بطلان ظاہر ہو جاتا ہے۔

تمہیدی حقیقت

امام دارقطنیؒ جرح و تعدیل میں امام المتقن اور فنِ عللِ حدیث کے بڑے امام ہیں، مگر یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ائمۂ جرح و تعدیل کے انفرادی اقوال اُس وقت حجت متصور کیے جاتے ہیں جب وہ
(1) واضح، مفصل، دلیل کے ساتھ ہوں
(2) دیگر ائمہ کے تعامل و توثیق سے معارض نہ ہوں
(3) بعد کے استقراء و تتبعِ احادیث کی روشنی میں مسترد نہ کر دیے گئے ہوں۔

چنانچہ صرف اتنا کہ "فلاں نے ضعیف کہا تھا" — اصولی اعتبار سے فیصلہ کن معیار نہیں، جب تک امت کا مجموعی علمی رُجحان اور ائمہ حدیث کا عملی تعامل اس کے موافق نہ ہو۔ یہیں سے بحث کا اصل دروازہ کھلتا ہے۔

امام دارقطنیؒ کے منسوب اعتراضات — ایک اصولی جائزہ

امام دارقطنیؒ  نے جن مخصوص روایات کی بنیاد پر امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ضعیف قرار دیا تھا، ہم نے ان تمام روایات کا نہایت باریک بینی کے ساتھ تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ اعتراضات درج ذیل ہیں:


اعتراض نمبر 1

١٢٣٣ - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُبَشِّرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ».  لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ وَهُمَا ضَعِيفَانِ

امام دارقطنی فرماتے ہیں: اس روایت کو موسیٰ بن ابی عائشہ سے صرف امام ابو حنیفہ اور حسن بن عمارة نے مسنداً (یعنی جابر کا نام ذکر کر کے) روایت کیا ہے — اور یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ (سنن الدارقطني ٢/‏١٠٧)

ولم يذكر في هذا الإسناد جابرًا غير أبي حنيفة

وروى هذا الحديث: سفيان الثوري، وشعبة، وإسرائيل بن يونس، وشريك، وأبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وسفيان بن عيينة، وجرير ابن عبد الحميد وغيرهم، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبد الله بن شداد مرسلًا، عن النبي ﷺ، وهو الصواب

امام دارقطنی فرماتے ہیں: اور اس سند میں حضرت جابر کا ذکر ابو حنیفہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا۔

جبکہ یہ حدیث سفیان ثوری، شعبہ، اسرائیل بن یونس، شریک، ابوخالد الدالانی، ابوالأحوص، سفیان بن عیینہ، جریر بن عبدالحمید اور کئی دیگر ائمہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ → عبداللہ بن شداد سے مرسلاً (یعنی بغیر جابر کا ذکر کیے) نبی ﷺ سے روایت کی ہے — اور یہی (مرسل ہونا) صحیح ہے۔ (سنن الدارقطني ١/‏٣٢٣)

جواب :   اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود





اعتراض نمبر 2
امام صاحب کی عبد خیر عن علی کی مشہور حدیث وضو پر امام دارقطنیؒ کا اعتراض

٢٩٨ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ، نا أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، نا أَبُو حَنِيفَةَ، وَثنا الْحَسَنُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ يُوسُفَ الْمَرْوَرُوذِيُّ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ جَدِّي: نا أَبُو يُوسُفَ الْقَاضِي، نا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ ﵁ أَنَّهُ تَوَضَّأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَامِلًا فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا» - وَقَالَ شُعَيْبٌ -: «هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَتَوَضَّأُ». هَكَذَا رَوَاهُ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، قَالَ فِيهِ: وَمَسَحَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا. وَخَالَفَهُ جَمَاعَةٌ مِنَ الْحُفَّاظِ الثِّقَاتِ مِنْهُمْ: زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَشَرِيكٌ، وَأَبُو الْأَشْهَبِ جَعْفَرُ بْنُ الْحَارِثِ، وَهَارُونُ بْنُ سَعْدٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، وَأَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ، وَعَلِيُّ بْنُ صَالِحِ بْنِ حُيَيٍّ، وَحَازِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، وَجَعْفَرٌ الْأَحْمَرُ، فَرَوَوْهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عَلْقَمَةَ، فَقَالُوا فِيهِ: «وَمَسَحَ رَأْسَهُ مَرَّةً». إِلَّا أَنَّ حَجَّاجًا مِنْ بَيْنِهِمْ جَعَلَ مَكَانَ عَبْدِ خَيْرٍ عَمْرًا ذَامِرَ، وَوَهِمَ فِيهِ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا مِنْهُمْ قَالَ فِي حَدِيثِهِ: إِنَّهُ مَسَحَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا غَيْرَ أَبِي حَنِيفَةَ، وَمَعَ خِلَافِ أَبِي حَنِيفَةَ فِيمَا رَوَى لِسَائِرِ مَنْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَدْ خَالَفَ فِي حُكْمِ الْمَسْحِ فِيمَا رَوَى عَنْ عَلِيٍّ ﵁ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: إِنَّ السُّنَّةَ فِي الْوُضُوءِ مَسْحُ الرَّأْسِ مَرَّةً وَاحِدَةً. وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يَحْيَى، وَأَبُو يُوسُفَ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ

یہ روایت امام ابوحنیفہ نے خالد بن علقمہ سے نقل کی ہے — اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ: "آپ ﷺ نے سر کا مسح تین مرتبہ کیا۔" لیکن ان کی اس روایت کے خلاف کئی بڑے اور معتبر حفاظِ حدیث نے روایت کیا ہے، مثلاً: زائدہ بن قدامہ، سفیان ثوری، شعبہ، ابو عوانہ، شریک، ابو الاشہب جعفر بن الحارث، ہارون بن سعد، جعفر بن محمد، حجاج بن ارطاة، ابان بن تغلب، علی بن صالح بن حیّ، حازم بن ابراہیم، حسن بن صالح، اور جعفر الاحمر — ان سب نے خالد بن علقمہ ہی سے روایت نقل کی، مگر یہ الفاظ بیان کیے کہ: "آپ ﷺ نے سر کا مسح صرف ایک مرتبہ کیا۔" البتہ ان میں سے صرف حجاج نے روایت میں عبدِ خیر کے بجائے عمر و ذامر کا ذکر کر دیا — جو کہ غلطی تھی۔ اور ہمیں ان تمام رواة میں سے کسی سے بھی یہ روایت نہیں ملی کہ ’’سر کا مسح تین مرتبہ‘‘ ہوا — سوائے امام ابوحنیفہ کے۔ بلکہ امام ابوحنیفہ نے نہ صرف حدیث کی روایت میں دوسروں سے اختلاف کیا، بلکہ انہوں نے اسی مسئلے (مسحِ سر) میں حضرت علیؓ سے مروی حدیث کے مطابق یہ بھی نقل کیا کہ: "وضو میں سر مسح کرنے کی سنت صرف ایک مرتبہ ہے" — اور یہی روایت ابراہیم بن ابی یحییٰ اور امام ابو یوسف نے بھی حجاج سے، حجاج نے خالد سے، خالد نے عبدِ خیر سے، اور عبدِ خیر نے حضرت علیؓ سے بیان کی ہے۔

(سنن الدارقطني ١/‏١٥٤)

یہی اعتراض غیر مقلد ارشاد الحق اثری نے بھی بغیر تحقیق کے امام دارقطنی کی اندھی تقلید میں نقل کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں :
حضرت علی ؓ سے وضوء کی روایت جو بواسطہ خالد عن عبد خیر ہے میں ’’مسح راسہ ثلاثا‘‘ کو بھی محدثین نے امام صاحب ؒ کا وہم  قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ زائدہ بن قدامہ ، سفیان ، شعبہ، ابو عوانہ ، شریک ،ابو الاشہب ،ہارون بن سعد ،جعفر بن محمد ، حجاج بن ارطاۃ ، ابان بن تغلب ،علی بن صالح ،حازم بن ابراہیم ،حسن بن صالح ،جعفر بن الاحمر رحمہم اللہ ’’مسح راسہ مرۃ‘‘ کے الفاظ ہی نقل کرتے ہیں۔ (دارقطنی : ص ۸۹ج۱،ص۳۳،ط ہند،نصب الرایہ : ص ۳۲ ج۱،العلل للدارقطنی : ص۵۱ج۴،بیہقی ص ۶۳ ج۱) ، امام صاحب ؒ سے بھی گو ’’ مسح راسہ مرۃ واحدۃ‘‘ کے الفاظ مروی ہیں۔جامع المسانید (ص۲۳۵ ج۱) مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے، خارجہ بن مصعب ان کا شاگرد متروک ہے۔(توضیح الکلام : ص ۹۴۵)

الجواب : 
اولاً امام صاحب ؒسے گو ’’ مسح راسہ مرۃ واحدۃ‘‘ کے الفاظ مروی ہیں، اور اس میں خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸؁ھ) منفرد نہیں ہے۔بلکہ ان کے متابع میں اسد بن عمرو الکوفی ؒ(م۲۰۸؁ھ) ،القاسم بن الحکم ؒ(م۲۰۸؁ھ) وغیرہ ائمہ موجود ہیں۔ چنانچہ القاسم بن الحکم عن ابی حنیفۃ کی طریق سے حافظ ابن خسروؒ (م۵۲۲؁ھ)نے روایت نقل کی ہے کہ جس میں ’’مسح برأسه ‘‘ کے الفاظ ہے۔  حافظ ابو عبد اللہ ابن خسروؒ(م۵۲۲؁ھ) فرماتے ہیں : 
وأخبرنا الشيخ أبو الحسين قال: أخبرنا أبو محمد قال: أخبرنا أبو الحسين بن المظفر قال: حدثنا أبو علي الحسن بن محمد بن شعبۃ قال: حدثنا محمد بن عمران الهمداني قال: حدثنا القاسم بن الحكم قال: حدثنا أبو حنيفة قال: حدثنا خالد بن علقمة، عن عبد خير، عن علي رضي الله عنه: أنه دعاء بماء فغسل كفيه ثلاثاً، ومضمض ثلاثاً، واستنشق ثلاثاً، وغسل ذراعيه ثلاثاً ثلاثاً، ومسح برأسه، وغسل قدميه ثلاثاً، ثم قال: هذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم۔(مسند ابی حنیفۃ لابن خسرو : ج۱: ص ۴۱۸)
اور حافظ حارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ) نے اسد بن عمرو الکوفی عن ابی حنیفہ کی سند سے بھی تقریباً یہی الفاظ نقل کئے ہیں۔   (مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۲: ص۷۶۴،۷۶۷) صدوق،حافظ ابو محمد الحارثی ؒ(م۳۴۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ 
حدثنا هارون بن هشام الكسائي، حدثنا أبو حفص أحمد بن حفص البخاري، حدثنا أسد بن عمرو البجلي، عن أبي حنيفة، عن خالد بن علقمة، عن عبد خير، عن علي بن أبي طالب: أنه دعا بماء فغسل كفيه ثلاثاً، ومضمض ثلاثاً، واستنشق ثلاثاً، وغسل وجهه ثلاثاً، وغسل ذراعيه ثلاثاً، ثم أخذ ماء في كفه فصبه في صلعته فتحدر عنها، وغسل رجليه ثلاثاً ثلاثاً، ثم قال: من سره أن ينظر إلى وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم كاملاً فلينظر إلى هذا۔(مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۲: ص۷۶۴، ۷۶۷)
لہذا امام صاحب ؒ سے’’ مسح راسہ مرۃ واحدۃ‘‘ کے الفاظ بھی ثابت ہیں۔ واللہ اعلم 
دوم امام صاحب ؒ کی روایت کے الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثاً ‘‘، دیگر ائمہ کی روایت کے الفاظ ’’ مسح راسہ مرۃ  ‘‘ کے خلاف نہیں ہے۔کیونکہ امام صاحب ؒ کی روایت کے الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثاً ‘‘ کہ انہوں نے اپنے سر کا ’’۳‘‘ مرتبہ مسح کیا ،
اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سرپر’’۳‘‘ مرتبہ ہاتھ پھرا، 
- پہلی مرتبہ سر کے ابتدائے حصہ یعنی پیشانی سے گدی تک۔
- دوسری مرتبہ گدی سے پیشانی تک۔
- تیسری بار کانوں کا مسح کیا۔
گویا  امام صاحب ؒ کی روایت کے الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثاً ‘‘، دیگر ائمہ کی روایت کے الفاظ ’’ مسح راسہ مرۃ  ‘‘ کی  تشریح کررہے ہیں۔قریب قریب یہی بات حافظ ابو محمد الحارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ)نے کہی ہے۔(مسند ابی حنیفۃ للحارثی : ج۲: ص۷۶۷)
اور حافظ ابن عبد الہادی ؒ (م۷۴۴؁ھ) نے بھی حافظ حارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ)کے کلام کو ذکر کرکے ،سکوت کے ذریعہ سے ان کی تائید کی ہے۔(تعلیقۃ علی العلل لابن عبد الہادی : ص ۲۰۱،انوار الطریق للشیخ زبیر علی زئی : ص ۸اس تاویل کے درست ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ’’ عبد خير عن علي ‘‘ کی روایت میں ’’ مسح برأسه وأذنيه ثلاثا ‘‘ کے بھی الفاظ آئے ہے ،اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ امام صاحب ؒ کی روایت کے الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثاً‘‘  میں ’’مسح اذنیہ‘‘ بھی داخل ہے۔ واللہ اعلم
خلاصہ یہ کہ امام صاحب ؒ کی روایت کے الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثاً ‘‘، دیگر ائمہ کی روایت کے الفاظ ’’ مسح راسہ مرۃ  ‘‘ کے خلاف نہیں ہے۔ 
سوم ’’عبد خیر عن علی‘‘ کی مشہور حدیث میں یہ الفاظ’’مسح برأسه ثلاثاً ‘‘ کو نقل کرنے میں امام ابوحنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ)  منفرد بھی نہیں ہیں۔
۱- چنانچہ امام ابو الحسن الدارقطنیؒ(م۳۸۵؁ھ) نے ’’مسهر بن عبد الملك بن سلع، عن أبيه، عن عبد خير، عن علی‘‘ کی سند سے نقل کیا کہ ’’مسح برأسه وأذنيه  ثلاثا ‘‘  حضرت علی ؓ نے اپنے سر اور کانوں کا ’’۳،۳‘‘ مرتبہ مسح کیا تھا۔
امام دارقطنی ؒ(م۳۸۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ  حدثنا ابن القاسم بن زكريا , ثنا أبو كريب , نا مسهر بن عبد الملك بن سلع , عن أبيه , عن عبد خير , عن علي رضي الله عنه , أنه توضأ ثلاثا ثلاثا , ومسح برأسه وأذنيه ثلاثا , وقال: هكذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم أحببت أن أريكموه۔ (سنن الدارقطنی : ج۱: ص ۱۶۱)
2۔ اسی طرح محدث ابو محمد،جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی ؒ(م۳۴۸؁ھ) نے ’’ شعيب، عن أبي إسحاق، عن عبد خير قال علی‘‘ کی سند سے نقل کیا  ’’ مسح برأسه ثلاثا ‘‘ کہ حضرت علی ؓ نے اپنے سر کا ’’۳‘‘ مرتبہ مسح کیا ۔
محدث ابو محمد،جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی ؒ(م۳۴۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ  أخبرنا القاسم بن محمد: حدثنا إبراهيم: حدثنا شعيب، عن أبي إسحاق، عن عبد خير قال: رأيت عليا رضي الله عنه توضأ فغسل كفيه، ثم تمضمض واستنشق ثلاثا ثلاثا، ثم غسل وجهه وذراعيه ثلاثا ثلاثا، ثم مسح برأسه ثلاثا، ثم غسل قدميه، ثم أخذ كفا من ماء فشربه۔(الجزء الخلدی مع  مجموع فيه ثلاثة أجزاء حديثية : ص ۱۶۰،طبع دار البشائر الإسلامية)
۳- حافظ ابو بکر البزار ؒ(م۲۹۲؁ھ) نے بھی اپنی سند ’’   أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن أبي حية ، أنه رأى عليا  ‘‘ سے ’’ مسح رأسه ثلاثا ‘‘ کے الفاظ ذکر کیےہیں۔
حافظ ابو بکر البزار ؒ(م۲۹۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ حدثنا محمد بن معمر، قال: نا أبو داود، قال: نا سلام بن سليم أبو الأحوص، عن أبي إسحاق، عن أبي حية بن قيس، أنه رأى عليا توضأ في الرحبة فغسل كفيه ثم مضمض ثلاثا، واستنشق ثلاثا، وغسل وجهه ثلاثا، وذراعيه ثلاثا ثلاثا، ورأسه ثلاثا، وغسل رجليه، إلى الكعبين ثلاثا، ثم قام فشرب فضل وضوئه وهو قائم وقال: أحببت أن أريكم كيف كان طهور النبي صلى الله عليه وسلم " قال أبو إسحاق: فحدثني عبد خير عن علي، بمثل هذا غير أنه لما فرغ أخذ حفنة من ماء في كفه فشربها وهو قائم " وهذا الحديث لا نعلم أحدا رواه بهذا اللفظ عن أبي إسحاق، عن عبد خير، وأبي حية، عن علي مجموعين إلا أبو الأحوص۔(مسند البزار :ج۳: ص ۴۳-۴۴)
 اور حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁ھ)  فرماتے ہیں کہ ’’إسناده متقارب ‘‘ اس روایت کی سند صحت کے قریب (یعنی حسن)ہے۔(الدرایہ لابن حجر : ج۱: ص ۲۸)
۴- ثقہ،جلیل،امام ابو عبیدۃ،السری بن یحیی ؒ(م۲۷۴؁ھ) نے اپنی سند ’’حدثنا قَبِيصَة عن سفيان عن أبي إسحاق عن أبي حبة بن قيس عن علي‘‘ سے ’’مسح برأسه ثلاثا‘‘ الفاظ نقل کئےہیں۔ 
ثقہ،جلیل،امام ابو عبیدۃ،السری بن یحیی ؒ(م۲۷۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ  حدثنا قبيصة عن سفيان عن أبي إسحاق عن أبي حبة بن قيس عن علي رضي الله عنه أنه بدأ فغسل يديه ثلاثا ثم تمضمض واستنشق ثلاثا ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل قدميه ثلاثا ثم مسح برأسه ثلاثا ثم غسل يديه ثلاثا، ثم قام قائما فشرب فضل الإناء , ثم قال: هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ۔(حدیث سفیان الثوری للسری بن یحیی : ص۵۶)
۵- امام طبرانی ؒ (م۳۶۰؁ھ) نے بھی اپنی سند ’’ سليمان بن عبد الرحمن ثنا إسماعيل بن عياش عن عبد العزيز بن عبيد الله عن عثمان بن سعيد النخعي عن علي ‘‘ سے ’’مسح رأسه ثلاثا بماء واحد‘‘ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ 
امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ حدثنا الحسن بن علي بن خلف الدمشقي ثنا سليمان بن عبد الرحمن ثنا إسماعيل بن عياش عن عبد العزيز بن عبيد الله عن عمیر بن سعيد النخعي عن علي أنه قال: ألا أريكم وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قلنا: بلى، فأتى بطست من ماء فغسل كفيه ووجهه ثلاثا ويديه إلى المرفقين ثلاثا ثلاثا ومسح رأسه ثلاثا بماء واحد ومضمض واستنشق ثلاثا بماء واحد وغسل رجليه ثلاثا۔(کتاب الشامیین للطبرانی بحوالہ نصب الرایہ للزیلعی : ج۱: ص ۳۳)
لہذا جب امام صاحب ؒ کے متابع میں ’’۵‘‘ راوی موجود ہیں۔تو اس روایت میں موجود الفاظ ’’مسح برأسه ثلاثا‘‘ کو نقل کرنے میں ان پر تفرد کا الزام کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟
خلاصہ یہ کہ یہ اعتراض غیر صحیح ،باطل و مردود ہے۔واللہ اعلم  مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں 

 الاجماع شمارہ نمبر  21


اعتراض نمبر 3
اعتراض : حدیث : إن الله حرم مكة، فحرام بيع رباعها ۔ ۔ ۔  پرامام دارقطنی ؒ اور امام ابن القطان ؒ کا اعتراض

٣٠١٥ - ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ يُوسُفَ الْمَرْوَذِيُّ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ جَدِّي، نا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، نا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، كَذَا قَالَ: عَنْ أَبِي نَجِيحٍ، عَنِ ابْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ:  «إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ، فَحَرَامٌ بَيْعُ رِبَاعِهَا، وَأَكْلُ ثَمَنِهَا»، وَقَالَ: «مَنْ أَكَلَ مِنْ أَجْرِ بُيُوتِ مَكَّةَ شَيْئًا فَإِنَّمَا يَأْكُلُ نَارًا». كَذَا رَوَاهُ أَبُو حَنِيفَةَ مَرْفُوعًا، وَوَهِمَ أَيْضًا فِي قَوْلِهِ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، وَإِنَّمَا هُوَ ابْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقِدَاحُ وَالصَّحِيحُ أَنَّهُ مَوْقُوفٌ
یہ روایت امام ابو حنیفہ نے مرفوع (یعنی نبی ﷺ سے منسوب کر کے) بیان کی،
لیکن انہوں نے یہاں دو جگہ وہم (غلطی) کی —ایک تو "عبید اللہ بن ابی یَزِید" کہا،
حالانکہ صحیح نام "عبید اللہ بن ابی زِیاد القَدّاح" ہے، اور دوسری بات یہ کہ اصل میں یہ روایت موقوف ہے (یعنی ابنِ عمرو کا قول ہے، نبی ﷺ سے نہیں)۔
(سنن الدارقطني ٤/‏١٢ )


(١٢٩٢) وَذكر من طَرِيق أبي حنيفَة، حَدِيث عبد الله بن عَمْرو، عَن النَّبِي ﷺ َ -: «فِي بيع رباع مَكَّة، وَأكل ثمنهَا».
وَجعل أَبَا حنيفَة واهما فِي رَفعه.
وَلَيْسَ هَذَا عِلّة، وَإِنَّمَا الْعلَّة ضعف أبي حنيفَة، وَرَاوِيه عَنهُ مُحَمَّد بن الْحسن صَاحبه، وَمُخَالفَة النَّاس لأبي حنيفَة فِي رَفعه.
وَذَلِكَ أَنه يرويهِ عَن عبيد الله بن أبي يزِيد، عَن أبي نجيح، عَن عبد الله بن عَمْرو مَرْفُوعا.
وَرَوَاهُ عِيسَى بن يُونُس وَمُحَمّد بن ربيعَة، عَن عبيد الله بن أبي زِيَاد - وَهُوَ الصَّوَاب - عَن أبي نجيح، عَن عبد الله بن عَمْرو قَوْله مَوْقُوفا.
وَوهم أَبُو حنيفَة فِي قَوْله: ابْن أبي يزِيد، وَإِنَّمَا هُوَ ابْن أبي زِيَاد القداح.
وَقد رَوَاهُ الْقَاسِم بن الحكم، عَن أبي حنيفَة على الصَّوَاب، فَقَالَ فِيهِ: ابْن أبي زِيَاد، فَلَعَلَّ الْوَهم من صَاحبه مُحَمَّد بن الْحسن.

امام ابو حنیفہ کی یہی روایت دوسری سند سے بھی آئی ہے — عبداللہ بن عمرو سے نبی ﷺ کا یہ فرمان کہ "مکہ کی زمین بیچنا اور اس کا ثمن کھانا ممنوع ہے" — لیکن ابو حنیفہ نے اسے مرفوع کیا، جبکہ جمہور محدثین کے نزدیک یہ روایت موقوف ہے۔ اصل علت (خرابی) یہ نہیں کہ ابو حنیفہ نے اسے مرفوع کہا — بلکہ اصل علت یہ ہے کہ سند میں خود امام ابو حنیفہ ضعیف الحدیث شمار ہوتے ہیں، اور اُن سے یہ روایت بیان کرنے والے محمد بن الحسن بھی انفرادی (غریب) طریق سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ بڑے حفاظ و محدثین اس کو موقوف ہی روایت کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں نے اسے صحیح طور پر بیان کیا — مثلاً عیسیٰ بن یونس، محمد بن ربیعہ — انہوں نے عبید اللہ بن ابی زِیَاد القداح، ابو نجیح، ابنِ عمرو — موقوفاً (یعنی صرف ابنِ عمرو کا قول) نقل کیا ہے۔ اور امام ابو حنیفہ نے یہاں بھی راوی کا نام غلط لیا — "ابن ابی یَزِید" کہا، حالانکہ درست "ابنِ ابی زِیَاد القدّاح" ہے۔ ہاں — قاسم بن الحکم نے جب یہی روایت ابو حنیفہ سے نقل کی تو صحیح نام لیا: ابن ابی زِیَاد — اس لیے امکان ہے کہ غلطی ابو حنیفہ سے نہیں، بلکہ ان کے شاگرد محمد بن الحسن سے ہوئی ہو۔

( بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام ٣ ‏/ ٥١٩ ، أبو الحسن ابن القطان المتوفى: ٦٢٨هـ)

یہی اعتراض امام ابن قطان اور امام حافظ دارقطنی کی اندھی تقلید میں غیر مقلد ارشاد الحق اثری نے بھی نقل کیا ہے وہ لکھتے ہیں :

اسی طرح حدیث : إن الله حرم مكة، فحرام بيع رباعها۔۔ آخ کو مرفوع بیان کرنے میں بھی امام صاحب سے وہم ہوا ہے  اور ان کے دوسرے ساتھی اسے موقوف ہی بیان کرتے ہیں۔(دارقطنی : ص ۳۱۳ ط ہند،ص۵۷ ج۳)، امام دارقطنی ؒ اور امام ابن القطان ؒفرماتے ہیں کہ اس میں امام صاحب  سے وہم ہوا ہے۔(توضیح الکلام : ص ۹۴۵)

الجواب :  
اس کا جواب کئی ائمہ محدثین اور حفاظ کرام دے چکے ہیں۔چنانچہ
(۱) حافظ ابو محمد الزیلعیؒ(م۷۶۲؁ھ) نے اس روایت قال الدارقطنی ثنا عثمان بن أحمد الدقاق , نا إسحاق بن إبراهيم الختلي , نا محمد بن أبي السري، نا المعتمر بن سليمان , عن أیمن بن نابل , عن عبيد الله بن أبي زياد , عن أبي نجيح ,عن عبد الله بن عمرو , رفع الحديث قال: من أكل كرا بيوت مكة أكل نارا۔(السنن للدارقطنی : ج۳: ص ۳۷۳،حدیث نمبر ۲۷۸۷)
 کے بارے میں  کہا :  قلت  :أخرجه الدارقطني في آخر الحج عن أيمن بن نابل عن عبيد الله بن أبي زياد عن أبي نجيح عن عبد الله بن عمرو، ورفع الحديث، قال: من أكل كراء بيوت مكة أكل الربا، انتهى. وروى ابن أبي شيبة في مصنفه حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مكة حرام، حرمها الله لا تحل بيع رباعها، ولا إجارة بيوتها۔
  میں کہتے ہوں کہ اس حدیث ’’إن الله حرم مكة، فحرام بيع رباعها ‘‘ کو امام دارقطنی نے کتاب الحج کے آخر میں ’’ عن أيمن بن نابل عن عبيد الله بن أبي زياد عن أبي نجيح عن عبد الله بن عمرو ‘‘ کی سند مرفوعاً نقل کیا کہ رسول ﷺ نے فرمایا : کہ جس نے مکہ کے کسی گھر کا کرایا کھایا، اس نے سودکھایا۔
 اور حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہؒ نے مصنف میں اپنی سند سے’’ حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد ‘‘  مجاہد سے مرسلاً نقل کیا کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ مکہ حرمت والی جگہ ہے، اللہ نے اس کی حرمت بیان کی ہے ، اس کے گھروں کی بیع کرنا حلال نہیں ہے اور ان کو کرایہ پر دینا درست نہیں ۔(نصب الرایہ : ج۴: ص ۲۶۵)
(۲) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ 
وقد رفعه أيمن ابن أم نابل عن عبيد الله بن أبي زياد أيضا فلم ينفرد أبو حنيفة برفعه أخرجه الدارقطني أيضا في أواخر الحج وله طريق أخرى أخرجها الدارقطني والحاكم من رواية إسماعيل ابن مهاجر عن أبيه عن عبد الله بن باباه عن عبد الله بن عمرو رفعه مكة مناخ لا تباع رباعها ولا تؤاجر بيوتها وإسماعيل قال البخاري منكر الحديث وفي ترجمته أخرجه ابن عدي والعقيلي في الضعفاء۔
حدیث ’’ إن الله حرم مكة، فحرام بيع رباعها ‘‘ کو ایمن ابن ام نابل ؒنے بھی عبید اللہ بن ابی زیاد ؒ سے مرفوعاً نقل کیا ہے ۔ جس کو امام دارقطنی ؒنے کتاب الحج کے آخر میں نقل کیا ہے۔لہذا امام ابو حنیفہ ؒ(م۱۵۰؁ھ) اس حدیث کو مرفوع بیان کرنے میں منفرد نہیں ہیں۔اس حدیث کا ایک طریق ہے جس کو دارقطنی ؒ،ابو عبد اللہ الحاکم نے ’’ إسماعيل ابن مهاجر عن أبيه عن عبد الله بن باباه عن عبد الله بن عمرو ‘‘ کی سند سےمرفوعاً نقل کیا ہے کہ قال الدارقطنی ثنا الحسين بن إسماعيل , نا أحمد بن محمد بن يحيى بن سعيد , نا عبد الله بن نمير , نا إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر , عن أبيه , عن عبد الله بن باباه , عن عبد الله بن عمرو , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  «مكة مناخ لا تباع رباعها ولا تؤاجر بيوتها۔(السنن للدارقطنی : ج۴: ص ۱۳،حدیث نمبر ۳۰۱۸)
 رسول ﷺ نے فرمایا : کہ ’’مكة مناخ لا تباع رباعها ولا تؤاجر بيوتها ‘‘ مکہ اترنے کی جگہ ہے، لہذا مکہ کے مکانات کی نہ بیع کی جائے گی اور نہ اس کو اجرت پر دیا جائے گا۔ اور اسماعیل بن مہاجر کے ترجمہ میں جس کو ابن عدی ؒ اور عقیلی ؒنے ذکر کیا ہے امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ اسماعیل منکر الحدیث ہے ۔(الداریہ لابن حجر : ج۲: ص ۲۳۶)
(۳) حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹؁ھ) نے کہا : 
قلت : الوھم ممن دون اصحاب ابی حنیفۃ فقد قدمناہ من متن اثار محمد بن الحسن علی الصواب ولم اقف علی نسخۃ من الآثار فیھا ابن ابی یزید ، اما الوجہ الآخر فمردود بتوثیق ابی حنیفۃ عن ائمتھم کما قدمناہ فی الصلاۃ ، فلیس ھو بدون عیسی بن یونس ، محمد بن ربیعۃ، کیف و من شرطہ دوام الحفظ من حین السماع الی وقت الاداء ، وقد روی احمد بن منیع ثنا ھشیم ثنا الحجاج  عن عطاء عن عبد اللہ بن عمرو قال : نھي عن اجر بیوت مکۃ ، وعن بیع رباعھا۔وروی ابن ابی شیبۃ  حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مكة حرام، حرمها الله لا تحل بيع رباعها، ولا إجارة بيوتها۔
میں کہتا ہوں کہ وہم اصحاب ابی حنیفہ کے نیچے کے روات سے ہوا ہے اورجیسا کہ ہم امام محمد ؒ کی کتاب الآثار سے صحیح متن  نقل کیا ہے اور مجھے کتاب الآثار کا ایسا نسخہ نہیں ملا، جس میں ابن ابی یزید ہو۔رہا دوسرا اعتراض تو وہ مردود ہے۔کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ کی ائمہ محدثین نے توثیق کی ہے جیسا کہ ہم نےکتاب الصلاۃ میں نقل کیا ہے۔لہذا امام صاحب ؒ عیسی بن یونس اور محمد بن ربیعہ سے (حافظہ میں) کم نہیں ہیں اور وہ حافظہ میں کیسے کم ہوسکتے ہیں کہ جب کہ ان کے نزدیک راوی کا دوام الحفظ ہونا (یعنی راوی کو روایت یاد رہنا) شرط ہے سماع روایت سے لیکر اس کے بیان کرنے تک اور حافظ احمد بن منیع ؒ نے ’’ ثنا ھشیم ثنا الحجاج عن عطاء عن عبد اللہ بن عمرو ‘‘ کی سند سے عبد اللہ بن عمرو سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے گھروں کی فروخت اور ان کے کرایوں سے منع کیا گیا  ہے۔ حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہؒ نے مصنف میں اپنی سند سے’’ حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن مجاهد ‘‘ مجاہد سے مرسلاً نقل کیاکہ رسول ﷺ نے فرمایا : کہ مکہ حرمت والی جگہ ہے، اللہ نے اس کی حرمت بیان کی ہے ، اس کے گھروں کی بیع کرنا حلال نہیں  ہے اور ان کو کرایہ پر دینا درست نہیں ۔(التعریف و الاخبار للقاسم : ج۵:ص۲۳۸۳،ت شیخ محمد یعقوبی) 
(۴) مشہور امام،محدث بدر الدین العینیؒ(م۸۵۵؁ھ)نے بھی تقریباً یہی بات کہی ہے، البتہ انہوں نے ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ ثقہ روات نے اس حدیث ’’ إن الله حرم مكة، فحرام بيع رباعها ‘‘ کو مرفوع بیان کیا ہے،اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے ۔  لہذا ثقات کا مرفوعاً بیان کرنا صحیح ہے۔خاص طور سے جب کہ زیادتی بیان کرنے والے امام ابوحنیفہ ؒ کی طرح امام ہو۔محدث بدر الدین العینیؒ(م۸۵۵؁ھ) کے الفاظ یہ ہیں : 
قلت: أخرجه الدارقطني في آخر الحج عن أيمن بن نايل، عن عبيد الله بن أبي زياد عن أبي نجيح، عن عبيد الله بن عمر، ورفع الحديث. قال: من أكل كراء بيوت مكة أكل الربا. وروى ابن أبي شيبة في مصنفه حدثنا أبو معاوية عن الأعمش،عن مجاهد قال: قال رسول الله - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مكة حرام حرمها الله، لا يحل بيع رباعها، ولا إجارة 
بيوتها . حدثنا معتمر بن سليمان، عن ليث، عن مجاهد، وعطاء، وطاوس: كانوا يكرهون أن يباع شيء من رباع مكة، وأما قول الدارقطني: هكذا رواه أبو حنيفة، ووهم في موضعين غير صحيح ولا مسلم، لأن محمدا - رَحِمَهُ اللَّهُ - رواه في " الآثار " عن أبي حنيفة - رَحِمَهُ اللَّهُ - عن عبيد الله بن أبي زياد عن أبي نجيح، عن عبد الله بن عمرو، به، وليس فيه وهم، وبهذا أيضا سقط كلام ابن القطان حيث نسب الوهم إلى محمد بن الحسن.
وأما قوله: والثاني في رفعه والصحيح موقوف، فمردود أيضا لأن رفع الثقات صحيح، ولا سيما مثل هذا الإمام.وأما قول ابن القطان: وعلته ضعف أبي حنيفة - رَحِمَهُ اللَّهُ - فإساءة أدب، وقلة حياء منه، فإن مثل الإمام الثوري، وابن المبارك وأضرابهما وثقوه وأثنوا عليه خيرا، فما مقدار من يضعفه عند هؤلاء الأعلام الأشنان، وقد أشبعنا الكلام فيه، وفي مناقبه التي جمعناها في "تاريخنا الكبير"۔(البنایہ شر ح ہدایہ : ج۱۲: ص ۲۲۸-۲۲۹)

لہذا امام دارقطنیؒ(م۳۸۵؁ھ)،امام ابن القطان ؒ (م۶۲۸؁ھ)کا اعتراض غیر صحیح ہے۔

مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں 

 الاجماع شمارہ نمبر  21


اعتراض نمبر 4

وَكَذَلِكَ رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَقَدْ كَتَبْنَاهُ قَبْلَ هَذَا وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ مُرْسَلًا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَوَهِمَ فِيهِ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى مَنْصُورٍ وَإِنَّمَا رَوَاهُ مَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ مَعْبَدٍ، وَمَعْبَدٌ هَذَا لَا صُحْبَةَ لَهُ، وَيُقَالُ: إِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مِنَ التَّابِعِينَ، حَدَّثَ بِهِ عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: غَيْلَانُ بْنُ جَامِعٍ، وَهُشَيْمُ بْنُ بَشِيرٍ، وَهُمَا أَحْفَظُ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ لِلْإِسْنَادِ

اور یہی حدیث امام ابو حنیفہؒ نے منصور بن زاذان سے، اور انہوں نے حسن بصری سے، اور انہوں نے معبد جہنی سے مرسلاً نبی ﷺ سے روایت کی ہے۔ لیکن اس میں امام ابو حنیفہؒ سے منصور کے بارے میں وہم (اشتباہ) ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ منصور بن زاذان نے یہ روایت محمد بن سیرین سے، اور محمد بن سیرین نے معبد سے بیان کی ہے۔ اور یہ معبد صحابی نہیں ہیں۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ تابعین میں سے سب سے پہلے شخص تھے جنہوں نے مسئلۂ تقدیر (قضا و قدر) پر بات چھیڑی۔ اس روایت کو منصور سے ابن سیرین کے واسطہ سے غیلان بن جامع اور ہشیم بن بشیر نے بھی بیان کیا ہے، اور یہ دونوں ابو حنیفہ سے زیادہ مضبوط اور یادداشت والے ہیں اسناد کے معاملے میں۔ (سنن الدارقطني ١/‏٣٠٦ )


جواب :   اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 35 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں "حديث الضحك" کی روایت میں ابو حنیفہ نے سند اور متن میں خطا کی ہے، کیونکہ انہوں نے سند میں معبد کا اضافہ کیا جبکہ اصل میں یہ حسن سے مرسلاً ہے اور متن میں قہقہہ (بلند آواز سے ہنسنا) کا اضافہ کیا .


اعتراض نمبر 5

٣٤٥٥ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، نا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، وَأَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ تَرْتَدُّ، قَالَ: «تُسْتَحْيَا». ٣٤٥٦ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدِ، نا ابْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ، يَقُولُ: كَانَ الثَّوْرِيُّ يَعِيبُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ حَدِيثًا كَانَ يَرْوِيهِ، وَلَمْ يَرْوِهِ غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ

٣٤٥٧ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْعَطَّارُ أَبُو يُوسُفَ الْفَقِيهُ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ تَرْتَدُّ، قَالَ:  «تُحْبَسُ وَلَا تُقْتَلُ» ٣٤٥٨ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِشْكَابَ أَبُو جَعْفَرٍ، ثنا أَبُو قَطَنٍ، نا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:  «لَا تُقْتَلُ النِّسَاءُ إِذَا هُنَّ ارْتَدَدْنَ عَنِ الْإِسْلَامِ»

٣٤٥٩ - نا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، نا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، نا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي الْمَرْأَةِ تَرْتَدُّ قَالَ: «تُسْتَحْيَا». ثُمَّ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: نا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَاصِمٍ بِهَذَا، فَلَمْ أَكْتُبْهُ وَقُلْتُ: قَدْ حَدَّثَتْنَا بِهِ عَنْ سُفْيَانَ يَكْفِينَا. وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ: نَرَى أَنَّ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ إِنَّمَا دَلَّسَهُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ فَكَتَبْتُهُمَا جَمِيعًا

(سنن الدارقطني ٤/‏٢٧٥)


جواب :   اس اعتراض  کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود

ہم یہاں ایک نہایت مفید رسالے کا تعارفی لنک پیش کر رہے ہیں جو شیخ ڈاکٹر حمزہ

البکری حفظہ اللہ کا تصنیف کردہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس رسالے میں نہایت تحقیقاتی، مدلل

 اور جامع انداز میں امام دارقطنیؒ کی جانب سے امام ابو حنیفہؒ پر ذکر کردہ سات (7) روایات پر

 مشتمل تمام اعتراضات کو جمع فرمایا ہے، اور ہر روایت کا علمی، معیاری اور کافی و شافی

 جواب بھی پیش کیا ہے۔ ہم نے اپنی اس بحث میں ان سات میں سے صرف دوسری اور

 چھٹی روایت کا جواب تفصیل  کے ساتھ ذکر نہیں کیا۔ معزز قارئین اُن دونوں روایات کے مدلل

 جوابات براہِ راست ڈاکٹر حمزہ البکری کے اسی رسالے  سے ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔


انتقادات الدارقطني الحديثية لأبي حنيفة في كتاب السنن: 


جرح سے مسند تک 

 امام دارقطنیؒ   کے امام ابو حنیفہؒ سے متعلق موقف میں مثبت تبدیلی

مزید برآں، اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امام دارقطنیؒ   کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق رائے بعد میں تبدیل ہو گئی ہو، کیونکہ تاریخی طور پر یہ واضح اور ثابت شدہ بات ہے کہ امام دارقطنیؒ نے خود امام ابو حنیفہؒ کی مسند مرتب فرمائی ہے۔ کسی محدث کا کسی راوی کی احادیث کو مستقل مسند کی شکل میں جمع کرنا دراصل اس بات کا بین ثبوت ہوتا ہے کہ وہ اس راوی کو حدیث کے باب میں معتبر، قابلِ اعتماد اور اہلِ قبولیت سمجھتا ہے۔ امام دارقطنیؒ کی ’’مسند أبي حنيفة‘‘ کا معتبر ذکر درج ذیل کتاب میں ملتا ہے:

  1. تسمية ما ورد به الخطيب دمشق من الكتب - ومصنفاته (1/153)
    محمد بن أحمد المالكي (ت بعد 465ھ)

  1. الحافظ الخطيب البغدادي، وأثره في علوم الحديث — ص 300

  2. الحديث والمحدثون (1/285) — محمد محمد أبو زهو (ت 1403ھ)

  3. السنة ومكانتها، ط. الوراق (1/451) — مصطفى السباعي (ت 1384ھ)

  4. موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله (1/22) — تحقیق: محمود محمد خليل
      واضح عبارت: "٦٠ - مسند أبي حنيفة، مفقود"

  5. الإمام أبو الحسن الدارقطني وآثاره العلمية (1/239) — عبد الله الرحیلی

یہ بات نہایت اہم ہے کہ حوالہ نمبر 5 اور 6 اُن محققین کے ہیں جنہوں نے امام دارقطنیؒ کے اقوال اور اُن کی تمام مرویات و تصانیف کو باقاعدہ تحقیقی طور پر جمع و مرتب کیا ہے۔ اس لیے یہ دونوں حوالہ جات خود تاریخی و اسنادی طور پر فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دونوں نے صراحت کے ساتھ ’مسند أبي حنيفة‘‘ کا ذکر امام دارقطنیؒ کی تصنیفات میں کیا ہے، جو اس امر کی واضح شہادت ہے کہ امام دارقطنیؒ نے واقعی مسند مرتب فرمائی تھی۔

اسی بات کی تائید امام محقق زاہد الکوثریؒ نے اپنی معروف کتاب   تانیب الخطیب میں بھی کی ہے، جہاں انہوں نے واضح طور پر نقل کیا کہ امام دارقطنیؒ نے  ’’مسند أبي حنيفة‘‘ بھی مرتب کی۔ مزید یہ کہ محقق ڈاکٹر محمود الطحان حنفی نے بھی الحافظ الخطيب البغدادي، وأثره في علوم الحديث (ص 300) میں اسی کا ذکر نقل کیا ہے اور اسے دارقطنیؒ کی مسلّم و معروف تالیفات میں شامل قرار دیا ہے۔

اس طرح قدیم ترین حوالہ (تسمیہ ما ورد...) سے لے کر معاصر دور کے محققین تک — تمام معتبر مصادر اس بات پر متفق ہیں کہ امام دارقطنیؒ نے ’’مسند أبي حنيفة‘‘ تصنیف فرمائی تھی، خواہ وہ آج مفقود ہو چکی ہو، مگر تألیف کا ثبوت قطعی طور پر ثابت ہے۔  اگر امام دارقطنیؒ  کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ کو واقعی حدیث میں ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہونا ثابت ہوتا، تو ان کی احادیث کو باقاعدہ مسند کی صورت میں جمع کرنا کسی طور ممکن نہ تھا، کیونکہ یہ اقدام خود اُن کے منہج اور معیارِ نقد کی صریح تردید ہوتا۔

خلاصہ:

 امام دارقطنیؒ نے حدیثی روایت کے حوالے سے امام ابو حنیفہؒ پر چند اعتراضات کیے تھے، تاہم یہ اعتراضات نہ تو قطعی طور پر درست ثابت ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی حیثیت کو متاثر کرتے ہیں۔ ان اعتراضات کا ایک بڑا حصہ جزوی فہمی، متابع کی کمی یا شواہد کے عدمِ لحاظ کا نتیجہ تھا۔تحقیق سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ ان روایات میں نہ امام ابو حنیفہؒ سے کسی قسم کی وہم یا غلطی کا صدور ہوا ہے اور نہ ہی سند یا متن کے اعتبار سے ان کے نقل کردہ روایت میں کوئی ایسی کمزوری پائی جاتی ہے جسے علمی معیار کی روشنی میں تضعیف کا سبب قرار دیا جا سکے۔ یہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ 

امام دارقطنیؒ  نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں جو تضعیف ذکر کی تھی، وہ دراصل ایک غیر مضبوط یا محلِ نظر بنیاد پر قائم تھی۔ جب اصل بحث کی بنا ہی کمزور ثابت ہو جائے، تو اس پر قائم کردہ تضعیف بلاشبہ اصولِ جرح و تعدیل کے اعتبار سے علمی وزن نہیں رکھتی۔ دوسرے الفاظ میں، جب اصولی تحقیق سے یہ متحقق ہو چکا کہ انہی روایات میں امام ابو حنیفہؒ ثقہ، ثبت اور قابلِ اعتماد راوی ہیں، تو امام دارقطنیؒ  کی جانب سے ان کے بارے میں ذکر کی گئی جرح علمی طور پر مؤثر نہیں رہتی اور نہ اسے محدثین کے مستند منہجِ نقد پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔

قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


پیش لفظ: سلسلۂ تعریف و توثیقِ امام ابو حنیفہؒ : علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


اعتراض نمبر 27 : محدث و فقیہ امام ابو حنیفہؒ پر مشہور محدثین کرام کا دوہرا / نا انصافی پر مبنی معیار ( امام بخاریؒ , امام عقیلی رحمہ اللہ , امام ابن حبان رحمہ اللہ , امام ابن عدی رحمہ اللہ , امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ)


اعتراض نمبر 33 : امام ابو حنیفہؒ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ – حصہ اول ثقہ راویوں کا کردار


اعتراض نمبر 35 : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح 


اعتراض نمبر 37 : امام اعظم ابو حنیفہؒ پر محدثین کے تعصب کی چند شرمناک مثالیں

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...