نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 29 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» کو مسند طور پر بیان کیا اور اس میں جابر بن عبداللہ کا واسطہ خود شامل کیا، جبکہ محدثین کے نزدیک یہ اضافہ ضعیف اور غیر ثابت ہے، کیونکہ اصل روایت مرسل ہی ہے۔

 


 کتاب  الكامل في ضعفاء الرجال  از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)

 میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ : 


اعتراض نمبر 29 :

امام  ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)  اپنی کتاب  الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» کو مسند طور پر بیان کیا اور اس میں جابر بن عبداللہ کا واسطہ خود شامل کیا، جبکہ محدثین کے نزدیک یہ اضافہ ضعیف اور غیر ثابت ہے، کیونکہ اصل روایت مرسل ہی ہے۔


حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى قَالَ قَرَأَ عَلَيَّ بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، أَخْبَرنا أَبُو يُوسُفَ، عَن أَبِي حَنِيفَةَ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبد الله عن رسول اللَّهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ كَانَ قُرْآنُهُ لَهُ قِرَاءَةً. حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيد بْنِ بشير، حَدَّثَنا عَبد الرَّحْمَنِ بْنُ عَبد الصَّمَدِ بْنِ شُعَيب بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثني جَدِّي سمعتُ ابْنَ إِسْحَاقَ، عَن أَبِي حَنِيفَةَ عَنْ مُوسَى بْنِ الْحَسَنِ، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ أَنَّهُ صَلَّى وَرَجُلٌ خَلْفَهُ يَقْرَأُ فَجَعَلَ الرَّجُلَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمد يَنْهَاهُ عَنِ الْقِرَاءَةِ فِي الصَّلاةِ فَقَالَ تَنْهَانِي عَنِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَتَنَازَعَا حَتَّى ذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَإِنَّ قراءة الامام له قراءة. حَدَّثَنَا ابْن صاعد، وابن حماد، وَمُحمد بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحُسَيْنِ قالوا، حَدَّثَنا شُعَيب بن أيوب، حَدَّثَنا أبو يَحْيى الحماني، حَدَّثَنا أبو حنيفة، حَدَّثَنا مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبد اللَّهِ، أَنَّ رَجُلا قَرَأَ خَلْفَ النَّبِيُّ ﷺ ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى﴾ فَسَكَتَ القوم فسألهم ثلاث مرار كُلُّ ذَلِكَ يَسْكُتُونَ فَقَالَ الرَّجُلُ أَنَا فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا. ورواه أَبُو يُوسُف، عَن أَبِي حَنِيفَةَ عَنْ مُوسَى عَنْ عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَن أبي الْوَلِيد عن جَابِر عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، أَنَّ رجلًا قرأ. حَدَّثَنَاهُ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْمَدَائِنِيُّ، عنِ ابن أخي بن وَهب، عَن عَمِّه عن اللَّيْث، عَن أبي يوسف بذلك (ح) وحدثنا الحسين بن عُمَير، حَدَّثَنا مجاهد بن موسى، حَدَّثَنا جَرِيرٌ، وَابْنُ عُيَينة جَمِيعًا عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قراءة ، حَدَّثَنا عُمَر، حَدَّثَنا سحيم، حَدَّثَنا المقري، عَن أبي حنيفة عن مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ مِثْلَهُ. حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ عُمَر بْنِ عَبد الْعَزِيزِ، حَدَّثَنا أبو عُمَير، حَدَّثَنا حجاج وَحَدَّثنا معاوية بن العباس، حَدَّثَنا سَعِيد بن عَمْرو، حَدَّثَنا بَقِيَّة جميعا عن شُعْبَة عن مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّه بْن شداد قَال رَسُول اللهِ ﷺ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فقراءته لَهُ قراءة. ورواه مع من ذكرنا عن مُوسَى بْن أبي عَائِشَة مرسلا والثوري وزائدة وَزُهَيْرٌ، وأَبُو عَوَانة، وَابْنُ أَبِي ليلى وشَرِيك، وقيس بْن الرَّبِيع وغيرهم وروى عن المقري، عَن أبي حنيفة موصولا كما رواه غيره عَنْهُ قَالَ المقري أَنَا لا أقول عن جَابِر أَبُو حنيفة يَقُول أَنَا بريء من عهدته.

 وروى عن الحسن بْن عمارة وهذا زاد أَبُو حنيفة فِي إسناده جَابِر بْن عَبد اللَّه ليحتج بِهِ فِي إسقاط الحمد عن المأمونين وقد ذكرناه عن الأئمة عن مُوسَى مرسلا ووافقه الحسن بْن عمارة، وَهو أضعف منه عن موسى موصولا.


امام ابن عدی رحمہ اللہ اپنی کتاب «الکامل» میں یہ اعتراض ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» (“جس کا کوئی امام ہو، تو امام کی قراءت اس کے لیے قراءت شمار ہوگی”) کو مسند (متصل) روایت کے طور پر بیان کیا ہے، اور اس کی سند میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا واسطہ خود اضافہ کیا، جبکہ دوسرے محدثین نے اسی روایت کو مرسل (یعنی درمیان میں صحابی کا ذکر کیے بغیر) بیان کیا ہے۔امام ابن عدی کے بقول، امام ابو حنیفہ نے یہ اضافہ اس لیے کیا کہ وہ اس حدیث کو اپنے فقہی موقف کی دلیل کے طور پر پیش کر سکیں —یعنی امام کے پیچھے مقتدی پر سورۂ فاتحہ پڑھنا لازم نہیں ہے۔البتہ محدثین کے نزدیک یہ اضافہ سند کے اعتبار سے ثابت نہیں، کیونکہ اصل روایت مرسل ہے، اور جنہوں نے اسے مسند روایت کے طور پر بیان کیا ہے، وہ صرف حسن بن عمارة ہیں، جو خود ضعیف راوی ہیں، بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی زیادہ کمزور شمار کیے گئے ہیں۔

(الكامل في ضعفاء الرجال ت السرساوي ، 10/131)


ایک اور مقام پر بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ

الحديث فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فِقَرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ... قَالَ الشَّيْخُ: وَهَذَا لَمْ يُوَصِّلْهُ فَزَادَ فِي إِسْنَادِهِ جَابِرً غَيْرُ الْحَسَنِ بْنِ عمارة، وأَبُو حَنْيِفَةَ وَبِأَبِي حَنِيفَةَ أَشْهَرَ مِنْهُ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ غَيْرُهُمَا فَأَرْسَلُوهُ مِثْلَ جَرِيرٌ، وَابْنُ عُيَينة، وأَبُو الأَحْوَصِ، وشُعبة وَالثَّوْرِيُّ وَزَائِدَةُ وَزُهَيْرٌ، وأَبُو عَوَانة، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وشَرِيك، وَقَيْسٌ وَغَيْرُهُمْ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائشة، عَن عَبد اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، أَن النَّبيّ ﷺ مُرْسَلا.


نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جس کا امام ہو تو امام کی قراءت ہی اس کے لیے قراءت ہے۔"

شیخ (ابن عدی) کہتے ہیں: اس حدیث کو متصل نہیں کیا گیا بلکہ اس کی سند میں جابرؓ کا اضافہ کیا ہے (یعنی یہ اضافہ کیا گیا ہے کہ یہ روایت جابرؓ سے ہے)۔ یہ اضافہ حسن بن عمارة نے کیا، اور ابو حنیفہ نے بھی کیا ہے۔ ابو حنیفہ کی طرف یہ نسبت حسن بن عمارة سے زیادہ مشہور ہے۔

حالانکہ یہ حدیث موسیٰ بن ابی عائشہ سے دوسرے رواۃ نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے اسے مرسلاً (یعنی بغیر جابرؓ کا واسطہ ذکر کیے) بیان کیا ہے۔ جیسے: جریر، ابن عیینہ، ابو الاحوص، شعبہ، ثوری، زائدہ، زہیر، ابو عوانہ، ابن ابی لیلیٰ، شریک، قیس بن الربیع اور دیگر۔ یہ سب موسیٰ بن ابی عائشہ سے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے نبی ﷺ کی طرف مرسلاً بیان کرتے ہیں۔

(الكامل في ضعفاء الرجال ٣/‏١١٠ )


١٢٣٣ - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُبَشِّرٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ، ثنا إِسْحَاقُ الْأَزْرَقُ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ».  لَمْ يُسْنِدْهُ عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ غَيْرُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ وَهُمَا ضَعِيفَانِ

امام دارقطنی فرماتے ہیں: اس روایت کو موسیٰ بن ابی عائشہ سے صرف امام ابو حنیفہ اور حسن بن عمارة نے مسنداً (یعنی جابر کا نام ذکر کر کے) روایت کیا ہے — اور یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔

(سنن الدارقطني ٢/‏١٠٧)

ولم يذكر في هذا الإسناد جابرًا غير أبي حنيفة

وروى هذا الحديث: سفيان الثوري، وشعبة، وإسرائيل بن يونس، وشريك، وأبو خالد الدالاني، وأبو الأحوص، وسفيان بن عيينة، وجرير ابن عبد الحميد وغيرهم، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبد الله بن شداد مرسلًا، عن النبي ﷺ، وهو الصواب

امام دارقطنی فرماتے ہیں: اور اس سند میں حضرت جابر کا ذکر ابو حنیفہ کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا۔

جبکہ یہ حدیث سفیان ثوری، شعبہ، اسرائیل بن یونس، شریک، ابوخالد الدالانی، ابوالأحوص، سفیان بن عیینہ، جریر بن عبدالحمید اور کئی دیگر ائمہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ → عبداللہ بن شداد سے مرسلاً (یعنی بغیر جابر کا ذکر کیے) نبی ﷺ سے روایت کی ہے — اور یہی (مرسل ہونا) صحیح ہے۔ (سنن الدارقطني ١/‏٣٢٣)


تمہید: ہم اس روایت کا یہاں صرف سرسری جواب پیش کریں گے، تفصیلی اور مکمل اسنادی بحث کے ساتھ جواب  قارئین  رسالہ “الإجماع” کے شمارہ نمبر 21 اور 22 میں دیکھ سکتے ہیں،

جس کا  لنک ہم نے یہاں فراہم کر دیا ہے۔

الاجماع شمارے


الجواب : 

یہاں امام ابنِ عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ پر دو اعتراضات نقل کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ امام صاحب نے روایت میں حضرت جابرؓ  کا  ایک اضافی واسطہ بیان کیا ہے، جس میں وہ منفرد ہیں۔ دوسرا اعتراض یہ کیا کہ امام ابو حنیفہؒ ضعیف ہیں۔ تاہم آگے چل کر ہم ان دونوں اعتراضات کا علمی و تحقیقی جائزہ پیش کریں گے، جس سے واضح ہوگا کہ یہ اعتراضات حقیقت کے برعکس ہیں اور ناقد کی غلط فہمیوں پر مبنی تھے۔

اعتراض نمبر 1 کا جواب:

امام ابنِ عدیؒ یہاں یہ کہتے ہیں کہ وہ حدیث جسے امام ابو حنیفہؒ نے عن مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَة، عَن عَبدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ کے واسطے سے روایت کیا ہے، اس میں امام صاحبؒ نے حضرت جابرؓ کا واسطہ خود سے اضافہ کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ بات درست نہیں، کیونکہ عن مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَة، عَن عَبدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ ہی کی اسی سند سے حضرت جابرؓ کا واسطہ سفیان الثوری اور شریک بن عبداللہ جیسے رواۃ نے بھی نقل کیا ہے۔ 

متابع نمبر  1۔ امام سفیان ثوری  2۔ شریک بن عبداللہ


وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ منيع: أبنا إسحاق الأزرق، ثنا سفيان وشريك، عن موسى ابْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:»مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ«. (إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة ٢/‏٨٠ — البوصيري )

نیز امام بوصیری ،  امام ابن الہمام ، حافظ قاسم بن قطلوبغا ، شیخ  فاضل محمد ہاشم سندھی ، مشہور مفسر محدث محمود بن عبد الله الآلوسی ، محدث محمد بن علی النیموی ، محدث الہند، امام انور شاہ کشمیری رحمھم اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے (اتحاف الخيرة المهرة للبصيري : ج ۲ : ص ۸۰ ، ج ۲: ص ١٦٨  ، فتح القدیر : ج ۱ ص ۳۳۸، تخریج احادیث الاختیار: ج ١ : ص ١٦٨ طبع الفاروق ، تنقیح الکلام : ص ۱۳۲ ، رسالة الدكتوراة تفسیر آلوسی : ج ۵ ص ۱۴۱، آثار السنن مع تعليق الحسن : ص ۹۴، العرف الشدی : ج۱ : ص ۳۱۲)

لہٰذا امام ابنِ عدیؒ کا یہ کہنا کہ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت جابرؓ کا اضافہ خود سے کیا — یہ رائے درست نہیں۔

 اس کے علاوہ بھی یہی مضمون دوسرے طرق (اسانید) سے منقول ہے، جیسا کہ متعدد محدثین نے اسی متن کو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔


متابع نمبر 3۔ 

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ حَامِدٌ الْفَقِيهُ بِبُخَارَى نا أَبُو الْفَضْلِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ السُّلَمِيُّ نا الْعَبَّاسُ بْنُ عَزِيزِ بْنِ سَيَّارً الْقَطَّانُ الْمَرْوَزِيُّ نا عَتِيقُ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّيْسَابُورِيُّ نا حَفْصُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ ⦗١٥٥⦘ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ»  (كتاب القراءة خلف الإمام ، أبو بكر البيهقي (ت ٤٥٨هـ) ص 154)


متابع نمبر 4۔ ٣٨٠٢ - حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «كَلُّ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» (المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت ١/‏٣٣١ )


متابع نمبر 5۔

١٢٩٧ - حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ، قَالَ: ثنا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ، قَالَ: ثنا الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَلَيْثٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، ﵁، عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قال : مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» (شرح معاني الآثار ١/‏٢١٧ )


 پس نتیجہ یہ ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ کی روایت میں حضرت جابرؓ کا ذکر انفراد نہیں بلکہ متعدد ثقہ رواۃ کی متابعت سے ثابت ہے، اور امام ابن عدیؒ کا اعتراض اس اعتبار سے غلط یا کمزور قرار پاتا ہے۔



مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں  الاجماع شمارہ نمبر 21






اعتراض نمبر 2 کا جواب:


سب سے پہلے یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ امام ابو حنیفہؒ ضعیف الحدیث نہیں ہیں۔ ضعیف ہونے کا الزام دراصل بعد کے بعض متعصب ناقدین کی طرف سے سامنے آیا، جنہوں نے فقہی اختلافات کی بنیاد پر ان پر تنقید کی۔ یہ تنقید زیادہ تر متشدد اہلِ حدیث حضرات کی جانب سے تھی، جن کی ایسی جرح اصولاً قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ متعدد جلیل القدر ائمہ حدیث نے امام ابو حنیفہؒ کی ثقاہت، فقہ اور علم کا اعتراف کیا ہے۔ ان کی توثیق و تعریف امت کے علمی ورثے میں محفوظ ہے، جو ان کے بلند مقام کا روشن ثبوت ہے۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود


پیش لفظ: سلسلۂ تعریف و توثیقِ امام ابو حنیفہؒ : علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


اعتراض نمبر 64 : امام ابو الحسن الدارقطنیؒ (م385ھ) کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ


اعتراض نمبر60 : امام ابنِ عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...