نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابنِ عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ

 

امام ابنِ عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق آرا میں مثبت تبدیلی — تحقیقی و اسنادی مطالعہ 


امام اعظم ابو حنیفہؒ (80-150ھ) کی شخصیت اسلامی تاریخ میں ایسا علمی و اجتہادی مقام رکھتی ہے جسے امت کے اکابر محدثین و فقہا نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ مرجعِ امت قرار دیا۔ تاہم محدثین کے طبقۂ اواخر میں سے بعض حضرات کی طرف سے ان کی حدیثی روایت و ضبط پر بعض جزوی اعتراضات منسوب ملتے ہیں، جن میں امام ابنِ عدیؒ  کا نام لیا جاتا ہے۔ ایک طبقے نے انہی منقول اعتراضات کو بنیاد بنا کر امام اعظم کی ثقاہت پر اشکال قائم کرنے کی جسارت کی — حالانکہ اصولِ نقد و تحقیق کی روشنی میں یہ اعتراضات نہ صرف محلِ نظر ہیں  ، جن کے تفصیلی جواب کے لیے قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود



یہ بات تاریخی طور پر مسلم ہے کہ بعد کے زمانے میں امام ابنِ عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں آرا پہلے کے مقابلے میں نمایاں حد تک زیادہ مثبت ہو گئیں بلکہ  امام ابنِ عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ پر ایک باقاعدہ مسند («مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ») بھی لکھی، جو اس بات کی قوی دلیل ہے کہ  امام ابنِ عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں آرا  مثبت ہو گئیں  


 1. امام ابنِ عدی نے خود امام ابو حنیفہ کی مسند تصنیف کی

 امام ابنِ عدیؒ کا امام ابو حنیفہؒ  کی ’’«مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ»‘‘ لکھنے کا ثبوت ، اس بارے میں سب سے پہلا اور معتبر ثبوت ہمیں امام موفق بن احمد المکی الخوارزمیؒ (وفات ۵۶۸ھ) [ صاحبِ مناقب امام ابوحنیفہؒ ] سے ملتا ہے۔ انہوں نے متصل سند کے ساتھ امام ابنِ عدیؒ کی اس مسند کا ذکر کیا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابنِ عدیؒ نے صرف امام ابو حنیفہؒ کی روایات جمع نہیں کیں بلکہ ایک باقاعدہ "مسند" مرتب کی تھی۔

(وأما المسند السادس) الذي جمعه الإمام الحافظ صاحب الجرح والتعديل أبو أحمد عبد الله بن عدي الجرجاني رحمه الله

 فقد أخبرني به المشائخ أبو محمد الحسن بن أحمد بن هبة الله بن محمد بن هبة الله إذناً (قال أخبرنا) أبو المحاسن محمد بن عبد الخالق الجوهري (قال أخبرنا) السيد ظفر بن داعي العلوي (قال أخبرنا) أبو القاسم حمزة بن يوسف السهمي (قال أخبرنا) الحافظ أبو أحمد عبد الله بن عدي صاحب المسند

(جامع المسانيد للخوارزمي 1/73)

یہ حوالہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ امام خوارزمی نے امام ابنِ عدی کی «مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ» کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے، اوراس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔ مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


امام موفق بن احمد المکی الخوارزمیؒ (م۵۶۸؁ھ)[صاحب مناقب امام ابوحنیفہ ] صدوق ہیں ۔


2. امام كمال الدين عمر بن أحمد بن هبة الله العقيلي الحلبي ابن العديم ت ٦٦٠ جن کو امام قاسم بن قطلوبغا جليل القدر، كثير العلوم کے القاب سے یاد کرتے ہیں انہوں نے امام ابنِ عدیؒ کی اس مسند کا ذکر کیا ہے،

وقد نَظَرتُ في مَسَانيْد أبي حَنِيْفَة رضي الله عنه، وهي: مُسْنَدُه الَّذي جَمَعَهُ الحافِظُ أبو أحْمَد بن عَدِيّ، 

اور میں نے خود امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تمام مسانید کا مطالعہ کیا ہے — یعنی وہ مسند جو حافظ ابو احمد بن عدی نے جمع کی ہے (بُغْيَة الطَّلَب في تاريخ حلب ، - ط الفرقان ٦/‏٢٨٠ )

3. دیوان السنۃ کے متعلق.
یہ ایک سلفی علمی انسائیکلوپیڈیا ہے، جس کا عنوان ہے: «ديوان السنة: موسوعة شاملة لكل ما ورد عن سيد المرسلين ﷺ من أقوال وأفعال وتقريرات» – قسم الطهارة یہ مجموعہ عدنان بن محمد العرعور کی زیرِ نگرانی ایک جماعتِ محدثین و محققین نے تیار کیا۔ شیخ عدنان بن محمد العرعور کے اساتذہ میں سلفی مکتب کے بڑے اور معروف علما شامل ہیں، مثلاً:
  • الشیخ الألباني

  • الشیخ عبد الرحمن عبد الصمد

  • الشیخ ابن باز 

یہ سلفی مکتبِ فکر کا نہایت معتبر ماخذ ہے، خاص طور پر علمِ حدیث کے میدان میں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انہی سلفی محققین نے بھی امام ابن عدیؒ کی "«مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ»" کا ذکر کیا ہے اور اس کی نسبت کو ثابت و معتبر تسلیم کیا ہے۔

حنف (عدي - خوارزم)، «مسند أبي حنيفة»، رواية أبي أحمد ابن عدي (صاحب الكامل).

والكتاب مفقود، ولكن يتم العزو له من خلال كتاب (جامع المسانيد) للخوارزمي.

یہ کتاب («مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ») اگرچہ اب مفقود ہے، مگر اس کے مضامین اور نسبت کو جامع المسانید للخوارزمی کے ذریعے نقل کیا جاتا ہے۔

 (دیوان السنۃ - مقدمہ، صفحہ ۹۳)

 نتیجہ: سلفی علماء کی ایک جماعت نے جس مشترکہ انسائیکلوپیڈیا "دیوان السنۃ" پر کام کیا، جو انہی سلفی محدثین کی مجموعی تصنیف ہے، اس میں امام ابن عدیؒ کی امام ابو حنیفہؒ کی  "مسند" کو تسلیم کیا گیا ہے، لہٰذا الحمدللہ یہ ثابت ہوا کہ سلفی علماء  کی ایک جماعت نے بھی اس «مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ»  کو صحیح مانا ہے کہ امام ابن عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کی مسند تصنیف فرمائی۔


3. مزید برآں، محقق شیخ خلیل محی الدین المیس نے بھی اپنی تحقیق (شرح مسند أبي حنيفة از ملا علی القاری) میں اسی «مسندُ الإمامِ أبي حنيفةَ لابنِ عَدِيٍّ» کا حوالہ دیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ تحقیق کے نزدیک اس مسند کی نسبت اور روایت ثابت و معروف ہے۔

5.  عظیم حنفی سلطان جناب الملك المعظم أبي المظفر عيسى بن أبي بكر بن أيوب الحنفي لکھتے ہیں :

ذكر ابن عدى صاحب كتاب «الجرح والتعديل» في كتاب مسند أبى حنيفة ﵁ في صدر الكتاب في مناقب أبى حنيفة بإسناد له إلى أن قال: كان بين أبى حنيفة وبين سفيان الثوري شيء، وكان أبو حنيفة أكفهما لسانا. فهذا ابن عدى قد نقل أنهما كان بينهما شيء، وإذا صار خصما فلا اعتداد بقوله في حقه، وقد بين ابن عدى بقوله وكان أبو حنيفة أكفهما لسانا، أنه قد جرت بينهما منافرة توجب ترك كلام كل واحد منهما في صاحبه

ابن عدی (صاحب کتاب الجرح والتعدیل) نے اپنی کتاب مسند ابی حنیفہ کے شروع میں، امام ابو حنیفہؒ کے مناقب میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ: "امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری کے درمیان کچھ اختلاف تھا، لیکن ابو حنیفہ اپنی زبان کو زیادہ قابو میں رکھنے والے تھے۔" پس یہ بات ابن عدی نے نقل کر دی کہ دونوں کے درمیان کچھ نہ کچھ اختلاف رہا۔ اور جب کوئی شخص دوسرے کا خصم و مخالف بن جائے تو پھر اس کے قول کو اس کے مخالف کے بارے میں قبول نہیں کیا جاتا۔مزید برآں، ابن عدی نے یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ ابو حنیفہ زیادہ صبر و حلم والے اور زبان کو قابو میں رکھنے والے تھے، جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک طرح کی منافرت پیدا ہوگئی تھی۔ اور اصول یہ ہے کہ ایسی حالت میں ہر ایک کا دوسرے پر جرح و طعن قابلِ اعتناء نہیں رہتا۔

(كتاب السهم المصيب في الرد على الخطيب - ط العلمية ، ص 112)

اس عبارت سے دو بنیادی باتیں ثابت ہوتی ہیں:

  1. امام ابن عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے مناقب اپنی سند کے ساتھ بیان کیے، جس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہؒ کے فضائل پر مبنی روایات موجود تھیں

  2. یہ مناقب انہوں نے اپنی "مسند الإمام أبي حنيفة" میں درج کیے، جو اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ امام ابن عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں ایک مستقل مسند تصنیف فرمائی۔


 6. امام ابنِ عدی کی فکری تبدیلی

امام زاہد الکوثری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وكان ابن عدي – على بعده عن الفقه والنظر والعلوم – طويل اللسان في أبي حنيفة وأصحابه, ثم لما اتصل بأبي جعفر الطحاوي وأخذ عنه تحسنت حاله يسيراً, حتى ألف مسنداً في أحاديث أبي حنيفة." 

ترجمہ: “ابتدا میں ابن عدی فقہ اور نظر میں کمزور تھے اور امام ابو حنیفہ و ان کے اصحاب کے بارے میں سخت زبان استعمال کرتے تھے، لیکن جب وہ امام ابو جعفر طحاوی کے قریب آئے اور ان سے علم حاصل کیا تو ان کا رجحان بدل گیا، اور انہوں نے امام ابو حنیفہ کی احادیث پر مشتمل ایک مسند تصنیف کی۔”

(تأنيب الخطيب، ص 169؛ فقه أهل العراق وحديثهم، ص 14، 21)


یہ بات  فکری طور پر اہم ہے کہ امام ابنِ عدیؒ کی فکری تبدیلی اور امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں مثبت رویّے کی بنیاد ان کے اساتذہ کے علمی و فقہی اثرات پر قائم ہوئی۔چنانچہ یہ حقیقت مسلم ہے کہ امام طحاویؒ اور امام ابو بشر الدولابیؒ — دونوں امام ابنِ عدیؒ کے اساتذہ میں شامل تھے، اور یہ دونوں حضرات فقہِ حنفی کے نمایاں حاملین میں سے تھے۔یہ بات بھی "الکامل فی ضعفاء الرجال" کے محققین نے اپنے مقدمے میں واضح طور پر بیان کی ہے کہ امام طحاویؒ، امام ابنِ عدیؒ کے اساتذہ میں سے تھے۔جب امام ابنِ عدیؒ نے امام طحاویؒ جیسے جلیل القدر محدث و فقیہ کی شاگردی اختیار کی، تو ان کی صحبت و تعلیم نے ابنِ عدی کے فکری و علمی رجحان  کے مزاج میں تبدیلی پیدا  کی ، اور اسی فکری تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بعد میں "مسند الإمام أبي حنيفة" جیسی کتاب تصنیف فرمائی۔

جرح سے مسند تک 

 امام ابنِ عدیؒ کے امام ابو حنیفہؒ سے متعلق موقف میں مثبت تبدیلی

امام ابنِ عدیؒ  نے جن مخصوص روایات کی بنیاد پر امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ضعیف قرار دیا تھا، ہم نے ان تمام روایات کا نہایت باریک بینی کے ساتھ تحقیقی و تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ یہ اعتراضات درج ذیل ہیں:


اعتراض نمبر 29 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے حدیث «مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ» کو مسند طور پر بیان کیا اور اس میں جابر بن عبداللہ کا واسطہ خود شامل کیا، جبکہ محدثین کے نزدیک یہ اضافہ ضعیف اور غیر ثابت ہے، کیونکہ اصل روایت مرسل ہی ہے۔


اعتراض نمبر 30 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں حدیث "مفتاح الصلاة الوضوء “ میں موجود الفاظ "وفي كل ركعتين تسلیم" کو ابو سفیان السعدی سے نقل کرنے میں امام ابو حنیفہ (م۱۵۰ھ) منفرد ہیں


اعتراض نمبر 31 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں امام ابو حنیفہؒ نے روایت (أَكَلَ ذَبِيحَةَ امْرَأَةٍ) کو نبی ﷺ تک متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے جبکہ دوسرے رواۃ جیسے منصور، مغیرہ اور حماد نے اسی روایت کو موقوف (یعنی صرف حضرت ابراہیم النخعیؒ کا قول) کے طور پر روایت کیا ہے۔


اعتراض نمبر 32 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں حدیث "إِذَا ارْتَفَعَ النَّجْمُ ارْتَفَعَتِ الْعَاهَةُ عَنْ أَهْلِ كُلِّ بَلَدٍ" کی روایت میں امام ابو حنیفہؒ عطاءؒ سے منفرد راوی ہیں۔ اگرچہ عسل نے بھی یہ روایت مرفوع و موقوف دونوں انداز میں بیان کی ہے، تاہم وہ لکھتے ہیں کہ “عسل اور امام ابو حنیفہؒ دونوں ضعیف ہیں، لیکن عسل روایت کے ضبط میں امام ابو حنیفہؒ سے بہتر ہے۔”


اعتراض نمبر 33 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں حدیث "الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ" کی روایت میں امام ابو حنیفہؒ علقمہ بن مرثد سے منفرد ہیں


اعتراض نمبر 34 : امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں حدیث " إِنَّ أَحْسَنَ مَا غَيَّرْتُمْ بِهِ الشَّعْرَ الْحِنَّاءُ وَالْكَتَمُ" کی روایت میں امام ابو حنیفہؒ نے ابو حجیہ اور ابو الاسود کے درمیان "ابن بریدہ" کا اضافہ کیا ہے


تحقیق سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ ان روایات میں نہ امام ابو حنیفہؒ سے کسی قسم کی وہم یا غلطی کا صدور ہوا ہے اور نہ ہی سند یا متن کے اعتبار سے ان کے نقل کردہ روایت میں کوئی ایسی کمزوری پائی جاتی ہے جسے علمی معیار کی روشنی میں تضعیف کا سبب قرار دیا جا سکے۔ یہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ امام ابنِ عدیؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں جو تضعیف ذکر کی تھی، وہ دراصل ایک غیر مضبوط یا محلِ نظر بنیاد پر قائم تھی۔ جب اصل بحث کی بنا ہی کمزور ثابت ہو جائے، تو اس پر قائم کردہ تضعیف بلاشبہ اصولِ جرح و تعدیل کے اعتبار سے علمی وزن نہیں رکھتی۔ دوسرے الفاظ میں، جب اصولی تحقیق سے یہ متحقق ہو چکا کہ انہی روایات میں امام ابو حنیفہؒ ثقہ، ثبت اور قابلِ اعتماد راوی ہیں، توامام ابنِ عدیؒ  کی جانب سے ان کے بارے میں ذکر کی گئی جرح علمی طور پر مؤثر نہیں رہتی اور نہ اسے محدثین کے مستند منہجِ نقد پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔

مزید برآں، اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ امام ابنِ عدیؒ  کی امام ابو حنیفہؒ سے متعلق رائے بعد میں تبدیل ہو گئی ہو، کیونکہ تاریخی طور پر یہ واضح اور ثابت شدہ بات ہے کہ امام ابنِ عدیؒ  نے خود امام ابو حنیفہؒ کی مسند مرتب فرمائی ہے۔ کسی محدث کا کسی راوی کی احادیث کو مستقل مسند کی شکل میں جمع کرنا دراصل اس بات کا بین ثبوت ہوتا ہے کہ وہ اس راوی کو حدیث کے باب میں معتبر، قابلِ اعتماد اور اہلِ قبولیت سمجھتا ہے۔ اگر امام ابنِ عدیؒ کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ کو واقعی حدیث میں ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہونا ثابت ہوتا، تو ان کی احادیث کو باقاعدہ مسند کی صورت میں جمع کرنا کسی طور ممکن نہ تھا، کیونکہ یہ اقدام خود اُن کے منہج اور معیارِ نقد کی صریح تردید ہوتا۔

پس، یہ تمام دلائل مجموعی طور پر اس امر کی مضبوط شہادت فراہم کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں بعض متقدمین کی منفی آرا بعد از تحقیق نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہوتی ہیں بلکہ خود اُن ہی ائمہ کے عملی رویے اور علمی تعامل سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کو حدیث میں جید، ثقہ اور قابلِ احتجاج امام تسلیم کیا گیا۔

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...