نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 134: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ مرتدہ کے بارہ میں عاصم کی حدیث کوئی ثقہ راوی تو روایت نہیں کرتا البتہ ابو حنیفہ اس کو روایت کرتے تھے۔


 اعتراض نمبر  134: 

کہ سفیان ثوری نے کہا کہ مرتدہ کے بارہ میں عاصم کی حدیث کوئی ثقہ راوی تو روایت نہیں کرتا البتہ ابو حنیفہ اس کو روایت کرتے تھے۔


أخبرنا البرمكي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف، حدثنا عمر بن محمد الجوهري، حدثنا أبو بكر الأثرم، حدثنا أبو عبد الله، حدثنا عبد الرحمن ابن مهدي قال: سألت سفيان عن حديث عاصم في المرتدة؟ فقال: أما من ثقة فلا، كان يرويه أبو حنيفة. قال أبو عبد الله: والحديث كان يرويه أبو حنيفة عن عاصم عن أبي رزين عن ابن عباس في المرأة إذا ارتدت، قال: تحبس ولا تقتل.

128 - أخبرنا عبيد الله بن عمر الواعظ، أخبرنا أبي، حدثنا أحمد بن مغلس، حدثنا مجاهد بن موسى، حدثنا أبو سلمة منصور بن سلمة الخزاعي قال: سمعت أبا بكر بن عياش وذكر حديث عاصم. فقال: والله ما سمعه أبو حنيفة قط.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں عمر بن محمد الجوھری السذابی ہے جو کہ موضوع حدیث کی روایت میں منفرد ہے اس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ تو ایسی سند جس میں السذابی ہو اس کے ساتھ ثوری سے یہ روایت ثابت نہیں ہو سکتی[1]۔ 

اور جو روایت خطيب نے ابو بکر بن عیاش کی طرف منسوب کی ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ابو حنیفہ نے اس کو کبھی نہیں سنا۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ابو بکر بن عیاش سے یہ روایت ثابت ہے تو اس کی کلام نفی پر شہادت ہے جو کہ مردود ہے۔

 اور جو آدمی یاد رکھتا ہے وہ اس کے خلاف حجت ہوتا ہے جس نے یاد نہیں رکھا۔

 یا یہ کہ اس کی تاویل یہ ہوگی کہ اس کی کلام کا مطلب یہ ہے کہ میری معلومات کے مطابق اس نے اس کو نہیں سنا۔

 اور ابن عدی نے الکامل میں مرتدہ سے متعلق ابوحنیفہ کی روایت ذکر کی ہے جس کی سند یوں ہے۔ حدثنا احمد بن محمد بن سعيد حدثنا احمد بن زهير بن حرب قال سمعت يحيى بن معين يقول كان الثوری کہ یحییٰ بن معین نے کہا کہ ثوری ابوحنیفہ  پر ایک حدیث کی وجہ سے عیب لگاتے تھے جو ابوحنیفہ کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا اور وہ ابو حنیفہ - عاصم ابو رزین عن ابن عباس کی سند سے روایت کرتے ہیں۔  پھر جب یمن کی طرف گئے تو اس کو عاصم سے تدلیس کرتے تھے۔ پھر ابن عدی نے احمد بن محمد بن سعید علی بن الحسن بن سهل محمد بن فضل البطی داؤد بن حماد بن فرافصه۔ وکیع ابوحنیفہ - عاصم ابو رزين عن ابن عباس کی سند نقل کر کے کہا عورتوں کے بارہ میں جبکہ وہ مرتد ہو جائیں کہ ان کو قید کیا جائے اور قتل نہ کیا جائے۔ وکیع نے کہا کہ شام میں اس حدیث کے متعلق سفیان سے پوچھا جاتا تو کبھی وہ نعمان عن عاصم کہتے اور کبھی کہتے کہ بعض اصحابنا کہ ”ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے"۔ الخ

اور ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد ابویحیی محمد بن عبد اللہ بن یزید المقرئ۔ عبد الله بن الوليد العدنی سفیان ثورى عن رجل عن عاصم اور دوسری سند ابو بشر الدولابی صاحب لنا جس کی کنیت ابوبکر تھی۔  یعقوب بن اسحاق ابو يوسف العطار الفقيه - عبد الرزاق۔ سفیان ابوحنیفہ - عاصم ابو رزین عن ابن عباس نقل کی کہ حضرت ابن عباس نے عورت کے بارہ میں کہا جو مرتدہ ہو جائے اس کو قید کیا جائے اور قتل نہ کیا جائے۔ الخ۔  اور اس کے ساتھ ظاہر ہو گیا کہ بے شک یہ روایت تو خود سفیان ابوحنیفہ سے کرتے تھے۔ خواہ ہر منکر ذلیل و خوار ہوتا رہے[3]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا 


[1] عمر بن محمد بن عيسى الجوهري هو عمر بن محمد بن عيسى بن سعيد المعروف بالسذابي قال الخطيب في بعض حديثه نكرة  (تاريخ بغداد ت بشار ج13/ص74)

وفي حديثه بعض النكرة وذكر له هذا الحديث المنكر فقال حدثنا عبد العزيز الأرحبي ثنا أحمد بن عبد العزيز الصريفيني ثنا عمر بن محمد ثنا الحسن بن عرفة ثنا يزيد بن هارون ثنا حماد بن سلمة عن قتادة عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما مرفوعا عن جبرئيل عن الله قال انا الله لا اله الا انا كلمتي من قالها أدخلته جنتي ومن أدخلته جنتي فقد امن عذابي والقرآن كلامي ومنى خرج * قلت * هذا موضوع انتهى  (لسان الميزان، ابن حجر - ج ٤ - الصفحة ٣٢٥)


[2] ۔  امام ابو حنیفہؒ پر جرح اور امام سفیان ثوریؒ کا طرزِ عمل – ایک علمی تضاد


اگر امام سفیان ثوریؒ واقعی امام ابو حنیفہؒ کو غیر ثقہ راوی سمجھتے تھے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ:

1. پھر وہ اسی روایت (مرتدہ کو قید کیا جائے گا )کو خود کیوں بیان کرتے ہیں؟ (سنن درقطنی 3457)

2. اپنا فقہی فتویٰ اسی روایت کے مطابق کیوں دیتے ہیں؟(سنن ترمذی رقم 1458)

3. اگر وہ اس روایت کو منکر یا ضعیف سمجھتے، تو ان کا عملی موقف اسی روایت کا عکس کیوں ہوتا؟ 

یہ تینوں سوالات ایک گہری علمی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیںامام سفیان ثوریؒ کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر جو جرح منقول ہے، وہ نہ تو انصاف پر مبنی تھی، نہ قادح (یعنی روایت کو ناقابل قبول بنانے والی) ، امام سفیان ثوری کی جرح ہمیشہ غیر مفسر ہوتی ہے ، اگر وہ یہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت ثقہ سے نہیں آئی تو کیا مطلب ثقہ سے کم درجہ صدوق یا حسن درجہ کے راوی سے آئی ہے ؟ پھر جب کہ اس روایت میں امام صاحب کی متابعت بھی موجود ہے (سنن دار قطنی 127/4) ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ جرح محض اختلافِ فقہ و طرزِ اجتہاد کی بنیاد پر تھی،

 مثلاً: کثرتِ قیاس یا کوفہ کے محدثین کے مخصوص طرز پر۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ امام ثوریؒ کا عملی رویہ اور فقہی رجحان امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ ہم آہنگ تھا۔ مثال کے طور پر: امام ترمذی کے مطابق: "بعض اہلِ علم نے کہا کہ مرتدہ عورت کو قتل کیا جائے، اور بعض نے کہا کہ اسے قتل نہ کیا جائے بلکہ قید کیا جائے، اور یہی امام سفیان ثوریؒ کا قول ہے۔" جبکہ یہ موقف وہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ سے مروی حدیث میں آیا ہے: «اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺗﺮﺗﺪ، ﻗﺎﻝ: «ﻻ تقتل ﻭﻻ ﺗﺤﺒﺲ» (مسند أبي حنيفة برواية أبو نعيم ) یاد رہے کہ امام سفیان ثوریؒ سے بعض اوقات یہ بات نقل ہوئی کہ: "یہ روایت ثقہ راوی سے نہیں۔" لیکن وہ خود بھی اسے روایت کرتے ہیں، اور اسی کے مطابق فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ گویا ان کا عمل خود اس جرح کی تردید کر رہا ہے۔

اب اگر سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر محدث و فقیہ کا خود انہی روایات پر اعتماد اور فقہی ہم آہنگی تھی تو امام ابو حنیفہ کو غیر ثقہ کہنا انکا دوہرا معیار دکھاتا ہے کیونکہ آپ ایک طرف امام ابو حنیفہ پر جرح کر رہے ہیں وہیں دوسری طرف اپنی فقہی دلیل بھی ان سے مروی روایت پر قائم کر رہے ہیں ۔ تو گویا یہ تضاد ہے کہ آپ راوی کو غیر معتبر لیکن روایت کو معتبر مان رہے ہیں.  یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ پر جرحیں اُن کے فہم، بصیرت، اور استقلال رائے سے خائف ہو کر کی گئیں، نہ کہ کسی واقعی علمی کمزوری کی بنیاد پر۔ اور یہ صرف ایک مسئلہ نہیں کہ جس میں امام سفیان ثوری نے امام ابو حنیفہ کی موقف کے مطابق فتوی دیا ہو مثال اور بھی ہے.  لہٰذا سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح:

1. یا تو غیر معتبر ہے

2. یا محض تاثراتی و شخصی ہے 

3. یا وقتی علمی اختلاف پر مبنی تھی، جو عملی طور پر تسلیم میں بدل گئی




ہمیں سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کی واضح تعریف بھی ملتی ہے ، جہاں سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ کی حدیث میں تعریف کی ہے ، ذیلی مضمون کی پہلی روایت ملاحظہ ہو۔ 


امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت

اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ

تمہید

تاریخی روایات اور معتبر اسناد سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں عمومی رویہ بظاہر سخت اور معترضانہ تھا۔ مگر جب بھی ان سے کسی شاگرد نے براہِ راست سوال کیا — جیسے کہ عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن ضریس یا امام ابو قطن نے — تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ تو کسی علمی خطا یا شرعی غلطی کی طرف اشارہ کر سکے، اور نہ ہی امام ابو حنیفہ پر اپنے اعتراض کی کوئی معقول دلیل پیش کر سکے۔ بلکہ ہر موقع پر: وہ خاموش ہو جاتے، ندامت کا اظہار کرتے، سر جھکا لیتے، نظریں نیچی کر لیتے، اور آخرکار امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، تقویٰ، اور دیانت کا برملا اعتراف کرتے۔

1. عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری کا مکالمہ

عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.

(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ،  الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)


عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)


2. یحییٰ بن ضریس اور سفیان ثوری کا مکالمہ

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے 

حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

جب یحییٰ بن ضریس رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی وجہ دریافت کی، تو امام ثوری کوئی معقول جواب پیش نہ کر سکے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہ کے خلاف کوئی مضبوط علمی دلیل موجود نہ تھی۔


3. امام ابو قطن اور سفیان ثوری کا واقعہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان یعنی جب تک ان سے پوچھا نہ گیا تو وہ ادھوری روایت بیان کرتے تھے کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ کی جس کو بڑے بڑے محدثین جیسے ابن عیینہ ، احمد بن حنبل نے بھی جوں کا توں بیان کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ، بڑے بڑے محدثین نے پوری روایت جاننے کی کوشش تک نہ کی ، لیکن جب امام شعبہ کے شاگرد امام ابو قطن نے ہمت کر کے سفیان ثوری سے پورا واقعہ پوچھا تو سفیان ثوری پہلے نادم ہوئے ، جھوٹ تو بول نہ سکتے تھے اس لئے سچائی بتائی کہ وہ توبہ کفر سے تھی ہی نا۔ قارئین اگر امام ابو قطن یہ بات سفیان ثوری سے نہ پوچھتے تو شاید آج تک محدثین یہی ادھوری بات بتاتے اور لکھتے رہتے کہ ابو حنیفہ نے دو بار کفر سے توبہ کی ۔ الغرض محدثین نے ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں ان کےخلاف الزامات کی تحقیق نہیں کی ، جیسی ادھوری کچی پکی روایت سنی وہی آگے بیان کی ۔

 اللہ ان کی مغفرت فرمائے.

(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) 

خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تین مضبوط روایات اور واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:


اعتراضات کی کوئی مضبوط بنیاد نہ تھی: اگر امام ابو حنیفہ واقعی کسی علمی یا دینی خطا کے مرتکب ہوتے تو امام سفیان ثوری جیسے جلیل القدر محدث دلیل اور وضاحت کے ساتھ ان کی غلطی بیان کرتے۔ مگر خاموشی، سر جھکانا، اور استغفار کرنا  اس بات کی علامت ہے کہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کی گئی جروحات اور اعتراضات کی کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔

محض وقتی معاصرت اور دور کے اختلافات کا اثر تھا: امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ ایک ہی زمانے کے عظیم علماء تھے۔ علمی میدان میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاصرین کے درمیان سختی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات بھی زیادہ تر اسی وقتی معاصرت کا نتیجہ تھے، نہ کہ کسی اصولی نقص یا دینی خیانت پر مبنی۔

باطنی اعترافِ عظمت: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ظاہری طور پر کچھ سخت باتیں کہنے کے باوجود جب حقیقت سے سامنا ہوتا، تو امام ابو حنیفہ کی علم پرستی، دیانت، اور سنت کی پیروی کو تسلیم کرتے اور ان پر ہونے والے طعن پر اللہ سے استغفار کرتے۔

امام ابو حنیفہ کی حقانیت کا غیر شعوری اعتراف: انسان کا اصل کردار اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تنہائی یا غیر رسمی گفتگو میں دل کی بات کرتا ہے۔ امام سفیان ثوری کا شاگردوں کے سامنے بار بار امام ابو حنیفہ کی عظمت کا اعتراف اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں وہ امام ابو حنیفہ کو عظیم امام مانتے تھے۔



آخری نتیجہ:

 حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم و تقویٰ کا ایسا روشن مینار تھے کہ ان کے مخالفین بھی جب دیانت سے سوچتے، تو ان کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکتے۔

امام سفیان ثوری نے حدیث میں امام ابو حنیفہ کی تعریف کی ہے اس پر مزید تفصیل کیلئے دیکھیں 

الاجماع شمارہ 21 ص 60۔


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں

اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...