کتاب الكامل في ضعفاء الرجال از محدث امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ)
میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 39 :
امام ابن عدی الجرجانیؒ (م 365ھ) اپنی کتاب الكامل میں نقل کرتے ہیں کہ بُکیر بن جعفر نے کہا اگر امام ابو حنیفہؒ کی غلطیاں زہریلا پودا ہوتیں تو وہ بہت بڑی مخلوق کو بھی ہلاک کر دیتیں۔
سَمِعْتُ عِمْرَانَ بْنَ مُوسَى بْنِ سَعْدٍ الأَزْدِيَّ يَقُولُ: سَمعتُ مُحَمد بْنِ بُنْدَار السَّمَّاكُ يَقُولُ: سَمعتُ بُكَير بْنَ جَعْفَرٍ يَقُولُ لَوْ كَانَ مَا أَخْطَأَ أَبُو حَنِيفَةَ جَوْزًا لاكْتَفَى بِهِ ناس كثير.
عِمران بن موسیٰ بن سعد الازدی نے کہا: میں نے محمد بن بندار السمّاک کو کہتے ہوئے سنا: میں نے بُکیر بن جعفر کو یہ کہتے ہوئے سنا: اگر امام ابو حنیفہؒ کی غلطیاں زہریلا پودا ہوتیں تو وہ بہت بڑی مخلوق کو بھی ہلاک کر دیتیں۔
(الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢١٤)
جواب : یہی روایت امام حمزہ سَہْمی نے اپنی کتاب تاریخِ جُرْجان میں بھی ابنِ عدی کی ہی سند سے نقل کی ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْن عدي الحافظ حَدَّثَنَا عمران بْن مُوسَى بْن سعيد قَالَ سمعت مُحَمَّد بْن بندار السباك يقول سمعت بكير بْن جعفر الْجُرْجَانِيّ يقول لو كان ما أخطأ أَبُو حنيفة جوزا لاكتفى به ناس كثير. (تاريخ جرجان ١/١٦٩)
مگر اگر ہم اس روایت کی تحقیق کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سند اور متن دونوں ہی اعتبار سے یہ روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔
اولاً : روایت میں بكير بن جَعْفَر الْجِرْجَانِيّ السّلمِيّ ہے۔ ابنِ عدی خود اس کے بارے میں فرماتے ہیں: ٥٧٩ - بكير بن جَعْفَر الْجِرْجَانِيّ السّلمِيّ حدث بمناكير عَن المعروفين بكير معروف راویوں سے منکر روایات بیان کیا کرتے تھے (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢١٣)۔ امام ذہبیؒ نے بھی اسے اپنی کتابوں دیوان الضعفاء (ص: ۵۳) اور المغني في الضعفاء (۱/۱۱۴) میں درج کرتے ہوئے صراحت کی: بكير بن جعفر الجرجاني: عن سفيان، منكر الحديث یعنی "یہ سفیان (ثوری) سے روایت کرتا ہے، مگر منکر الحدیث ہے (دیوان الضعفاء، صفحہ ۵۳ ; المغني في الضعفاء ١/١١٤ )۔" امام ابنِ جوزیؒ نے بھی بُکیر بن جعفر الجرجانی السُّلَمی کے بارے میں یہی بات نقل کی ہے۔ حدث بمناكير عَن المعروفين (الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي، ۱/۱۵۱)
ثانیاً :
ابنِ عدی کے شیخ ابو العباس عمران بن موسیٰ بن سعید بن جبریل الازدِی ہیں۔ ان کی تعدیل و توثیق کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں، لہٰذا یہ راوی مجہول الحال ہیں۔
ثالثاً :
محمد بن بندار ہیں، جنہیں صرف ابنِ حِبّان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ بات معروف ہے کہ ابنِ حبان مجہول راویوں کو بھی ثقہ قرار دینے میں متساہل مانے جاتے ہیں، لہٰذا ان کی توثیق کو اکیلا معتبر نہیں مانا جا سکتا۔لہٰذا یہ مجہول الحال ہیں۔
محمد بن بندار أبو عبد الله السباك الجرجاني (مجهول حال) (مصباح الأريب في تقريب الرواة الذين ليسوا في تقريب التهذيب ٤/١٦٦ — محمد المصنعي)
اب آتے ہیں روایت کے متن کی طرف:
سب سے پہلے دیکھنا یہ ضروری ہے کہ یہ بُکیر کون ہے؟ اگر یہ کوئی بڑے فقیہ یا محدث ہوتے، جنہیں امام ابو حنیفہؒ کی فقہی غلطیاں نظر آتیں، تو اہلِ علم ان کی تعریف و توصیف ضرور کرتے، مگر تاریخ میں ان کے علمی مقام کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ ان کا علمی درجہ امام ابو حنیفہؒ کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے فضل و علم کا اعتراف امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام ابن المبارکؒ جیسے اکابر نے خود فرمایا ہے۔ مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
ایسے میں اگر کوئی راوی — جو خود منکر الحدیث ہے اور جس پر محدثین نے جرح کی ہے — امام ابو حنیفہؒ جیسے مجتہد مطلق پر تنقید کرے، تو ایسی بات قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ بلکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جس راوی کی اپنی روایتیں مشکوک ہوں، اس کے کلام کو کسی امامِ مجتہد کے خلاف حجت نہیں بنایا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ تحقیق نے اس روایت کو ضعیف اور مردود قرار دیا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں