اعتراض نمبر 62 : حافظ ابو علیؒ (م۳۴۹ھ) کا اعتراض کہ حدیث "نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ" میں امام ابو حنیفہ سے غلطی ہوئی ہے
حافظ ابو علیؒ (م۳۴۹ھ) کا اعتراض کہ حدیث "نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ" میں امام ابو حنیفہ سے غلطی ہوئی ہے
أَخْبَرَنِي أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الْحَلَبِيُّ بِحَلَبَ، قَالَ: ثنا جَدِّي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي سَكِينَةَ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَبْرَةَ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: نَهَى عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ سَمِعْتُ أَبَا عَلِيٍّ يَقُولُ: صَحَّفَ فِيهِ أَبُو حَنِيفَةَ لِإِجْمَاعِ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ عَلَى رِوَايَتِهِ عَنْهُ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ
امام حاکمؒ نے معرفۃ علوم الحدیث : ص ۱۵۰ میں ایک روایت امام ابو حنیفہ کے واسطہ سے نقل کی ہے جسے امام ابو حنیفہ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَبْرَةَ بْنِ الرَّبِيعِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں۔امام حاکمؒ یہی روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حافظ ابو علی ؒ فرماتے ہیں کہ اس میں ابو حنیفہؒ سے تصحیف ہوئی ہے کہ امام زہریؒ سے ان کےتمام تلامذہ اسے بالاتفاق ’’ الربيع بن سبرة، عن أبيه ‘‘ کی سند سے ذکر کرتے ہیں۔ انتھی
(معرفة علوم الحديث للحاكم ١/١٥٠ )
یہی اعتراض غیر مقلد عالم ارشاد الحق اثری نے بھی — امام حافظ ابو علیؒ کی اندھی تقلید کرتے ہوئے — اپنی کتاب توضیح الکلام (صفحہ 955) میں نقل کیا ہے۔
الجواب :
صاحب المستدرک،ابو عبد اللہ الحاکم ؒ(م۴۰۵ھ) نے اس کی سند یوں ذکر کی ہے :
قال الحاکم : أخبرني أبو علي الحافظ قال: أخبرنا يحيى بن علي بن محمد الحلبي بحلب، قال: ثنا جدي محمد بن إبراهيم بن أبي سكينة، قال: ثنا محمد بن الحسن الشيباني، قال: حدثنا أبو حنيفة، عن محمد بن شهاب الزهري , عن سبرة بن الربيع الجهني، عن أبيه , أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: نهى عن متعة النساء يوم فتح مكة۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ۱۵۰)
یہ اعتراض نہیں، بلکہ ثقہ، امام، حافظ ابو علی النیساپوری ؒ(م۳۴۹ھ) کا تشدد ہے،کیونکہ اس روایت میں ’’الزهري ، عن سبرة بن الربيع الجهني، عن أبيه ‘‘ کا ذکر محمد بن ابراہیم بن ابی سکینہؒ کی خطاء کا نتیجہ ہے، نہ کہ امام صاحب ؒ اس کے ذمہ دار ہیں اور ثقات کی روایت میں امام صاحب ؒ نے ’’عن الزهري عن رجل من آل سبرة عن سبرة ‘‘اور ’’ عن الزهري عن ابن سبرة عن أبيه‘‘ کہا ہے۔ جیسا کہ حافظ کمال الدین عمر بن احمد ابن العدیم العقیلیؒ نے وضاحت کیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں :
قُلتُ: هذا القَوْل تَحَامُل من أبي عليّ الحافِظ ومن الحاكِم أبي عَبْد الله على أبي حَنِيْفَة ﵁، حيثُ نَسَبا الخَطأ في ذلك إلى أبي حَنِيْفَة، ولم يَنْسباهُ إلى مَنْ هو دُونه! فإنَّ يَحْيَى بن عليّ بن مُحَمَّد الحَلَبيّ رَوَاهُ عن جدِّه مُحَمَّد بن إبْراهيم بن أبي سُكَيْنَة الحَلَبِيّ، عن مُحَمَّد بن الحَسَن، عن أبي حَنِيْفَة، فِلمَ اخْتُصَّ أبو حَنِيْفَة بالخَطَأ دون هؤلاء؟!
وقد ذَكَرَ أبو مُحَمَّد بن حِبَّان البُسْتِيّ أنَّ مُحَمَّد بن إبْراهيم بن أبي سُكَيْنَة رُبَّما أخْطأ، فكان نِسْبة الخَطَأ إليه أوْلَى من نِسْبته إلى إمامٍ من أئمَّة المُسْلمِيْن، وقد نَظَرتُ في مَسَانيْد أبي حَنِيْفَة ﵁، وهي: مُسْنَدُه الَّذي جَمَعَهُ الحافِظُ أبو أحْمَد بن عَدِيّ، ومُسْنَدُه الَّذي جَمَعَهُ الحافِظ أبو الحُسَين بن المُظَفَّر، ومُسْنَدُهُ الَّذي جَمَعَهُ أبو القَاسِم طَلْحَة بن مُحَمَّد بن جَعْفَر الشّاهِد، ومُسْنَدُه الَّذي جَمَعَهُ أبو نُعَيْم الحافِظ، ومُسْنَدُهُ الَّذي جَمَعَهُ أبو عَبْد الله الحُسَين بن مُحَمَّد بن خُسْرُو البَلْخِيّ، وذُكِرَ في كُلٍّ منها ما أسْنَدَهُ أبو حَنِيْفَة رضي الله عنه عن مُحَمَّد بن مُسْلِم بن شِهَاب الزُّهْرِيّ، وذَكَرُوا حَدِيث مُتْعَة النِّسَاء.
فمنه ما هو مَرْويُّ عن مُحَمَّد بن الحَسَن، عن أبي حَنِيْفَة، عن الزُّهْرِيّ، عن مُحَمَّد بن عُبَيْد الله، عن سَبْرَة الجُهَنِيّ، عن النَّبِيّ ﷺ.
ومنه ما رَوَاهُ أيُّوب بن هَانئ، وشُعَيْب بن إسْحاق، والصَّلْت بن الحَجَّاج، كُلّهم عن أبي حَنِيْفَة، عن الزُّهْرِيّ، عن مُحَمَّد بن عُبَيْد الله، عن سَبْرَة، عن النَّبِيّ ﷺ.
ومنه ما رَوَاهُ القَاسِم بن الحَكَم، عن أبي حَنِيْفَة، عن الزُّهْرِيّ، عن ابن سَبْرَة، عن أَبِيهِ، عن النَّبِيّ ﷺ.
ومنهُ ما رَوَاهُ سَعيد في سَالِم، عن أبي حَنِيْفَة، عن الزُّهْرِيّ، عن رَجُلٍ من آل سَبْرَة، عن سَبْرَة.
ولَم يَذْكر أحَدُ منهم في طَريقٍ من طُرُق الحَدِيْث المُشَارِ إليه رِوَايَة أبي حَنِيْفَة، عن سبْرَة بن الرَّبِيْع، عن أَبِيهِ! فبَانَ بذلك أنَّ الخَطأ إنَّما وَقَعَ من مُحَمَّد بن إبْراهيم أو من ابن بنْته يَحْيَى، أو أنَّهُ وَقَع الخَطَأ من كاتب النُّسْخَة الّتي لأبي عليّ الحافِظ. فنِسْبَةُ ذلك إلى أبي حَنِيْفَة رضي الله عنه تَحَامُلُ وظُلْمُ وعُدْوَانُ.
میں کہتا ہوں: یہ بات امام ابو علی حافظ اور حاکم ابو عبد اللہ کی جانب سے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر سختی اور زیادتی ہے کہ انہوں نے اس خطا کو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کیا، اور ان حضرات کی طرف نہیں جو درجہ میں ان سے کم ہیں! حالانکہ یہ روایت یحییٰ بن علی بن محمد حلبی نے اپنے نانا محمد بن ابراہیم بن ابی سکینہ الحلبی سے، انہوں نے محمد بن حسن سے، اور انہوں نے امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ تو پھر یہ خطا صرف امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہی کی طرف کیوں منسوب کی گئی؟!
اور امام ابو محمد بن حبان بُستی نے ذکر کیا ہے کہ محمد بن ابراہیم بن ابی سکینہ سے کبھی کبھی خطا سرزد ہو جاتی تھی؛ تو ایسے میں خطا کو ان کی طرف منسوب کرنا زیادہ مناسب ہے، بہ نسبت اسے مسلمانوں کے ایک امام کی طرف منسوب کرنے کے۔
اور میں نے خود امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی تمام مسانید کا مطالعہ کیا ہے — یعنی وہ مسند جو حافظ ابو احمد بن عدی نے جمع کی، وہ مسند جو حافظ ابو الحسین بن المظفر نے جمع کی، پھر وہ مسند جو ابو القاسم طلحہ بن محمد بن جعفر الشاہد نے جمع کی، اور وہ مسند جو حافظ ابو نعیم نے جمع کی، اور وہ مسند جو ابو عبد اللہ الحسین بن محمد بن خسرو البلخی نے جمع کی — ان تمام میں امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی وہ روایت ذکر کی گئی ہے جو انہوں نے محمد بن مسلم بن شِہاب الزہری سے نقل کی ہے، اور اس میں نکاحِ متعہ کا ذکر بھی آیا ہے۔
ان روایتوں میں سے کچھ یہ طریق ہے: محمد بن حسن، امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ، الزہری، محمد بن عبید اللہ، سبرا جہنی، نبی ﷺ۔
اور کچھ روایتیں ایوب بن ہانئ، شعب بن اسحاق، اور صلت بن حجاج نے بیان کی ہیں — سب کے سب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے، الزہری سے، محمد بن عبید اللہ سے، سبرا سے، نبی ﷺ تک۔
اور کچھ روایتیں قاسم بن حکم سے مروی ہیں — امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ، الزہری، ابنِ سبرا، ان کے والد، نبی ﷺ۔
اور کچھ میں یہ طریق آیا ہے: سعید نے سالم سے، وہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے، وہ الزہری سے، سبرا کے خاندان کے ایک شخص سے، وہ سبرا سے (نبی ﷺ تک)۔
اور ان میں سے کسی بھی طریق میں یہ ذکر نہیں ملا کہ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے سبرا بن ربیع سے براہِ راست ان کے باپ سے روایت کی ہو!
پس واضح ہو گیا کہ یہ خطا محمد بن ابراہیم کی طرف سے ہوئی ہے، یا ان کی نواسی کے بیٹے یحییٰ کی طرف سے، یا پھر وہ خطا اس نسخے کے کاتب سے ہوئی جو امام ابو علی حافظ کے پاس تھا۔ سو اس خطا کو امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا سراسر سختی، ظلم اور زیادتی ہے۔ (بغية الطلب فى تاريخ حلب - ط الفرقان ٦/٢٨٠ — كمال الدين ابن العديم ت ٦٦٠) لہذا خطا امام حافظ ابو علی سے ہوئی ہے ، کیونکہ ان کی نظر میں دیگر طرق نہ تھے اس روایت کے ، جب دیگر طرق سے بات واضح ہو گئی تو ، امام ابو حنیفہ پر خطا کا الزام صحیح نہیں۔
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں
الاجماع شمارہ نمبر 21
..
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں