اعتراض26
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں.
مسئلہ: غلام کا قصاص بھی ہے اور دیت بھی۔
حدیث نبویﷺ
عن سمرة بن جندبؓ قال قال رسول اللہ ﷺ من قتل عبده قتلناه ومن جدع عبدة جدعناه۔
ترجمہ: سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنے غلام کوقتل کیا ، ہم اس کوقتل کریں گے اور جس نے اپنے غلام کا کوئی عضو کاٹا ، ہم اس کا عضو کاٹیں گے۔
(ترمذي ج1 ابواب الديات باب ما جاء في الرجل يقتل عبده صفحه 169, رقم الحديث 1414)
▪︎فقه حنفی
"ولا يقتل الرجل بعبدة"
(هداية آخرين 4 کتاب الجنايات باب ما يوجب القصاص ص563)
کسی آدمی کو اس کے غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جاۓ گا۔
(فقہ و حدیث 65)
جواب:
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عین مطابق ہے دلائل ملاحظہ ہو۔
حدیث نمبر :۱
عن ابن عباسؓ قال جاءت جارية الى عمر بن الخطابؓ فقالت ان سیدی اتهضي فاقعدنى على النار حتى احترق فرجی فقال لها عمر هل راى ذلك عليك قالت لا قال فهل اعترفت له بشی قالت لا فقال عمر بن علی به فلما رای عمر الرجل قال اتعذب بعذاب الله قال يا امير المومنين اتهمتها في نفسها قال رايت ذلك عليها قال الرجل لا، قال فاعترفت لك به فقال لا، قال والذي نفسي بيده لو لم اسمع رسول ﷺ يقول لا يقاد مملوك من مالكه من مالكه و لا ولد من والده لا قدمها منك فبرده و ضربه مائة سوط وقال للجارية اذهبي فانت حرة لوجه الله وانت مولاة الله و رسوله. قال ابو صالح و قال الليث و هذا القول معمول به.
(سنن الکبری ج8ص36)
ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ایک لونڈی سیدنا عمر بن الخطابؓ کے پاس آئی اور کہا کہ میرے مالک نے مجھ پر ( بدکاری )کا الزام لگایا۔ اور مجھے آگ کے اوپر بیٹھادیا جس سے میری شرمگاہ جل گئی ۔سید نا عمرؓ نے اس سے کہا، کیا اس نے تمہیں ( بدکاری کرتے ہوۓ) دیکھا۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے کہا ،کیا تو نے اس کے سامنے کسی بات کا اقرار کیا ؟ اس نے کہا نہیں، سید نا عمرؓ نے کہا اسے میری پاس لاؤ۔ جب حضرت عمرؓ نے اس آدمی کو دیکھا تو کہا کیا تم ( اپنی لونڈی کو )اللہ تعالی کے عذاب میں عذاب دیتے ہو؟ اس نے کہا، اے امیرالمومنین مجھے اس کے متعلق بدکاری کرنے کا گمان ہوا۔ حضرت عمر نے کہا کیا تم نے اسے ایسا کرتے ہوۓ دیکھا؟ اس نے کہا نہیں آپ نے کہا، کیا اس نے تمہارے سامنے اعتراف کیا ؟ اس نے کہا نہیں سیدنا عمر نے کہا، خدا کی قسم اگر میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا ہوتا کہ غلام کے بدلے میں آقا سے اور بیٹے کے بدلے میں باپ سے قصاص نہیں لیا جاۓ گا۔ تو میں اس کو تجھ سے بدلہ دلواتا۔ پھر سیدنا عمرؓ نے اس آدمی کے کپڑے اتروا کر اسے سوکوڑے لگواۓ اور لونڈی سے کہا جاؤ تم اللہ کے لئے آزاد ہو اور تم اللہ اور اس کے رسول کی لونڈی ہو۔ابوصالح نے کہا کہ لیث کہتے ہیں کہ اس بات پر عمل چلا آ رہا ہے۔
حدیث نمبر؛2
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رجلا قتل عبده متعمدا فلجده النبی ﷺ مائة جلدة و نفاه سنة و محاسهمه من المسلمين و لم يقدة به وامره ان يعتق رقبة.
(سنن الکبری ج 8 ص 36 دار قطنی ج 3 ص 143 مصنف ابن ابی شیبہ ج9ص304)
حضرت عبداللہ بن عمرؓو سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کو عمدا قتل کرد یا تو حضور اکرم ﷺ نے اس کوسو کوڑے لگاۓ اس کو ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا اور غنیمت میں سے اس کا حصہ ختم کر دیا۔ آپ نے اسے قصاص میں قتل نہیں کیا بلکہ اسے حکم دیا کہ ایک غلام کو آزادکرے۔
حدیث نمبر :3
عن علی ابن ابي طالب قال اتى رسول اللہ ﷺ برجل قتل عبده متمعدا فجلده رسول اللہ ﷺ مائة جلدة و نفاه سنة و محاسهمه من المسلمين ولم يقدبه-
(سنن الکبری ج 8 ص 36 دار قطنی ج 3 ص 144 مصنف ابن ابی شیبہ ج 9 ص 304)
حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جس نے اپنے غلام کو عمد قتل کر دیا تھا۔ آپ نے اس کو سوکوڑے لگواۓ ۔ایک سال کے لئے اسے جلاوطن کر دیا اور مال غنیمت میں سے اس کا حصہ ختم کر دیا( لیکن )
اسے بدلے میں قتل نہیں کیا۔
حدیث نمبر :4
عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن عبدالله بن عمر و قال كان ابو بکر و عمر لا يقتلان الرجل بعبده كانا يضربانه مة و يسجنانه سنة و يحرمانه سهمه مع المسلمين سنة اذا قتله عمدا قال واخبرنى ابى عن عبدالكريم ابي امية مثله قال و يومر بعتق رقبة
(مصنف عبدالرزاق ج9ص491)
عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کسی آدمی کو اپنے غلام کوقتل کرنے کے جرم میں قتل نہیں کرتے تھے بلکہ اسے سو کوڑے لگاتے۔اسے ایک سال کے لئے قید کر دیتے اور ایک سال کے لئے مال غنیمت میں سے اس کا حصہ ختم کر دیتے تھے۔ جب کہ اس نے عمدا قتل کا ارتکاب کیا ہوتا۔ اور اسے ایک غلام آزاد کرنے کا حکم دیتے۔
اس مفہوم کی روایت ۔
( سنن بہیقی ج8 ص37)اور(مصنف ابن ابی شیبہ ج9ص305) میں مذکور ہے۔
حدیث نمبر: 5
عن قتادة عن الحسن قال لا يقاد الحربالعبد.
قتادہ حضرت حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ آزاد قتل نہ کیا جاۓ غلام کے بدلے میں ۔
(ابودود مترجم علامہ وحید الزماں ج3ص417)
آنحضرت ﷺ. اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے اس طرزعمل کی روشنی میں راشدی صاحب کی نقل کردہ روایت کا مطلب یہ ہوگا کہ حضوراکرم ﷺ نے یہ بات محض آقاؤں کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے فرمائی تھی ، تا کہ وہ اپنے غلاموں کوقتل کر نے کے معاملے میں بے لگام نہ ہوجائیں۔اس کا مقصد اس جرم کی سزا بیان کرنا نہیں تھا۔ جیسا کہ چوتھی بار شراب پینے والے کے لیے حدیث جابرؓ میں آتا ہے"فاقتلوہ" اس کوقتل کر دو۔ مگر جب آنحضرت ﷺ کے سامنے ایک آدمی پکڑ کر لایا گیا جس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تھی آپ نے اس کا دماء اور قتل نہیں کیا۔ مشکوۃ ص 315 آپؐ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے صرف ڈرانے اور دھمکانے کے لئے یہ بات فرمائی تھی۔ورنہ خود حضور اکرم ﷺ اور اپ کے خلفائے راشدین یہ سزا دینے سے غریز نہیں کرتے۔
علاوہ ازیں اس روایت کی سند بھی کمزور ہے کیونکہ یہ روایت حسن بصری نے حضرت سمرہؓ سے نقل کی ہے اور محدثین کی ایک بڑی جماعت نے ان کی حضرت سمرہؓ سے نقل کردہ روایات کو ناقابل اعتماد قراردیا ہے۔امام بیہقی اس حدیث کونقل کر کے لکھتے ہیں۔
قال قتاده ثم ان الحسن نسى هذا الحديث قال لا يقتل حر بعبد ( قال الشيخ ) يشبه ان يكون الحسن لم ينس الحديث لكن رغب عنه لضعفه وأكثر أهل العلم بالحديث رغبوا عن رواية الحسن عن سمرة وذهب بعضهم إلى أنه لم يسمع منه غير حديث الحقيقة.
قتادہ کہتے ہیں کہ حسن بصری یہ روایت بیان کرنے کے بعد بھول گئے اور کہنے لگے کہ آزاد آدی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جاۓ گا۔شیخ کہتے ہیں کہ غالباً حسن بصری روایت کو بھولے نہیں تھے بلکہ انہوں نے اس حدیث کے ضعف کی وجہ سے اس کو قبول نہیں کیا۔ اور اکثر ائمہ حدیث نے ان حضرت سمرہؓ سے نقل کردہ روایتوں سے اعراض کیا ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے سمرہؓ سے سواۓ ایک حدیث عقیقہ کے اور کوئی روایت نہیں سنی۔
امام بیہقیؒ آگے تحریر فرماتے ہیں۔
عن شعبة قال لم يسمع الحسن من سمرة قال و سمعت يحيى بن معين يقول لم يسمع الحسن من سمرة شيئا هو كتاب قال يحيى في حديث الحسن سمرة من قتل عبده۔
شعبہ کہتے ہیں کہ حسن نے سمرہؓ سے سماع نہیں کیا۔ اور میں نے یحیی بن معین کو کہتے سنا کہ حسن نے سمرہؓ سے سماع نہیں کیا، بلکہ وہ ایک کتاب سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس حدیث ( یعنی مالک کو غلام کے بدلے میں قتل کرنے کی حدیث) کے بارے میں یحیی نے فرمایا کہ حسن نے سمرہ سے نہیں سنی۔( سنن الكبرى بہقی ج 8 ص 35)
عن قتادة الا ان اكثر الفاظ لا يثبتون سماع الحسن البصري من
سمره في غير حديث العقبة.
قیادہ کہتے ہیں کہ اکثر حافظ حدیث عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہؓ سے حسن بصری کے سماع کو ثابت نہیں مانتے۔ (سنن الکبری ج5ص288)
راشدی صاحب نے جوحدیث نقل کی ہے وہ عقیقہ کے علاوہ ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں