اعتراض نمبر ٤٠
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں۔
مسئله ٤٠:
ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا
حدیث نبویﷺ
عن ابي موسى عن النبی ﷺ قال لا نكاح الابولی
ترجمہ: سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ولی کے بغیرنکاح نہیں ہوتا۔
(ابوداؤد 1کتاب النكاح باب في الولي ص291، رقم الحدث 2085)(ترمذيج 1كتاب النكاح باب ما جاء لانكاح الابولي ص208، رقم الحديث 1101)(ابن ماجہ کتاب النکاح باب لانكاح الابولي ص135 رقم الحديث 1881)
فقه حنفى
وينعقد نكاح الحرة العاقلة البالغة برضاءها وان لم يعقد عليها ولى بكرا اوثيبا(هدایه اولین 2 كتاب النكاح باب في الأولياء والاكفاءص313) ترجمہ: یعنی آزر، عاقلہ، بالغہ عورت کا نکاح اس کی رضا مندی سے ولی کے بغیر ہو جاۓ گا وہ کنواری ہو یا بیوہ۔
(فقہ وحدیث79)
جواب:
امام ابوحنیفہ کا طریقہ اجتہاد یہ ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں وارد ہونے والی تمام روایات کو پیش نظر رکھ کر ایسا مسلک اختیار کرتے ہیں۔ جس سے حتی الامکان ساری روایات جمع ہو جائیں اور کوئی روایت عمل کرنے سے نہ رہ جاۓ ۔ زیر بحث مسئلہ میں بھی یہی صورت ہے۔ مملوکہ صغیرہ ،مجنونہ کوغلامی، بچپن اور پاگل پن کے عواض کی بنا پر اپنا نکاح خود کرنے کاحق بالاتفاق حاصل نہیں ان کا نکاح ان کے ولی ہی کریں گے لیکن آزاد، عاقلہ اور بالغہ عورت کے بارے میں قرآن وسنت کے قطعی دلائل اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ اپنا نکاح خود کرسکتی ہیں ۔اور ولی کے بغیر اس کا نکاح منعقد ہوجاتا ہے۔ قرآن وسنت کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن سے دلائل
پہلی آیت
و الذين يتوفون منكم و يذرون ازواجا يتربصن بأنفسيهن أربعة أشهر وعشراء فإذا بلغن أجلهن فلا جناح عليكم فيما فعلن في انفسهن بالمعروف والله بما تعملون خبيره
(پارہ نمبر2 سورة بقرہ آیت نمبر 234)
اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیبیاں اپنے آپ کو نکاح وغیرہ سے روکے رکھیں چار مہینے اور دس دن پھر جب اپنی میعاد ( عدت ختم کر لیں تو تم کو کچھ گناہ نہ ہو گا ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لئے کچھ کاروائی ( نکاح کی ) کریں قاعدہ کے موافق اور اللہ تعالی تمہارے افعال کی خبر رکھتے ہیں۔
اس آیت سے اللہ تعالی کا صاف اور واضح حکم ہم کو ملتا ہے کہ بیوہ عورت اگر بعد از عدت معروف واحسن طریقہ پر اپنا نکاح کسی مرد سے کر لیتی ہے تو وہ کرسکتی ہے اور کسی پر کوئی گناہ یابار نہیں ہے۔
دوسری آیت
فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتی تنکح زوجا غيرة .
اگر خاوند بیوی کو تیسری طلاق دے دے تو اس کے لئے وہ عورت حلال نہ رہی۔ جب تک دوسرے کسی شخص سے نکاح کر لے۔
( سورۃ بقرہ آیت 230)
اس آیت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مطلقہ عورت کو اپنی مرضی سے نکاح کرنے کا حق ہے۔
تیسری آیت
قرآن مجید میں سر پرستوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا۔
فلا تعضلوهن أن ينكحن أزواجهن
اور اس کے بعد ان کو روکواگر وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں ۔
(سورۃ بقرہ آیت232)
اس آیت میں اولیاء کوتنبیہ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے لفظ’’عضل‘‘ استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں ظلم تنگی‘‘ یعنی اولیاء کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ ایک مطلقہ عورت جو کہ معروف طریقہ سے اپنی شادی کرنا چاہتی ہے اسے روکیں یا اس کے لئے کوئی تنگی پیدا کریں یا اس پر کسی قسم کا ظلم روا رکھیں ۔لہذا ایسی عورت کو اپنے کفو میں شادی سے روکنے کی سخت اور واضح ممانعت ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
و إذا طلقتم النساء فبلغن أجلهن فلا تعضلوهن أن ينكحن ازواجهن إذا تراضوا بينهم بالمعروف۔
(سورۃ بقرہ آیت 232)
اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو تم انہیں جب کہ وہ نیک طریقہ پر باہم رضا مند ہوجائیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کر لینے سے مت روکو ۔ اس آیت مبارکہ میں ان ینکحن ازواجھن کہ وہ اپنے خاوندوں سے (اپنی مرضی سے نکاح کر لیں۔ یہ جملہ غور طلب ہے کہ اس جملہ میں ایک فعل یعنی نکاح کا ذکر ہورہا ہے جس کی نسبت عورتوں کی طرف کی گئی ہے لہذا فعل کی نسبت ہمیشہ فاعل کی طرف ہوتی ہے اور اس جملہ کی رو سے فاعل عورتیں ہیں لہذا معلوم ہوا کہ فعل نکاح عورت کر سکتی ہے کہ شارع نے خود اس فعل کی نسبت بطور فاعل عورت یا عورتوں کی طرف کی ہے باقی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولیاءکوعورت کو اس فعل سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں بشرطیکہ فعل عورت معروف یعنی صحیح اور احسن طریقہ سے کر رہی ہو۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
اس میں شبہ نہیں کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر عورتوں کا نکاح کرنے کی نسبت ان کی سر پرستوں کی طرف بھی کی گئی ہے ۔ ( مثلاً سورۃ نور کی آیت نمبر 2 3 وسورۃ بقرہ آیت نمبر 221) اور ایک جگہ مردوں کو یہ بھی خطاب ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کے گھر والوں کی اجازت سے نکاح کرو ( سورۃ نساء آیت 25) لیکن امام ابوحنیفہ کا مسلک ان آیات کے خلاف نہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک جیسے عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے ، اس طرح اس کا سر پرست بھی اس کی رضا مندی سے نکاح کرسکتا ہے، بلکہ سر پرست کا نکاح میں موجود ہونا اور امام صاحب کے نزدیک مستحب ہے ۔اسی طرح مردوں کے لئے پسندیدہ اور باوقار طریقہ یہی ہے کہ وہ عورتوں کو نکاح کا پیغام خاندان کے واسطے سے ہی بھیجیں ۔ تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر عورت خاندان اور سر پرست کے واسطے کے بغیر ،اپنا نکاح خودکر لے تو اس کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا۔
احادیث سے دلائل
پہلی حدیث
عن ابن عباس قال : قال رسول اللہ ﷺ الایم احق بنفسها من وليها،والبكر شامر في نفسها واذنها صماتها
(موطا امام مالک کتاب النکاح ص 416 متر جم مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ غیر شادی شدہ ( ایم) عورت کو اپنے اوپر والی کی نسبت زیادہ حق ہے اور کنواری سے اس کے نکاح کے بارے میں اس کی اجازت لی جاۓ اور اس کی خاموشی
اس کی اجازت ہے۔ اس حدیث میں لفظ ایم نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے معنی ہیں بغیر شوہر والی عورت یا لڑکی‘‘اب چاہے اس کی شادی سرے سے ہوئی ہی نہ ہو یا وہ بیوہ یا مطلقہ ہوگئی ہو۔
دوسری حدیث
عن ابي هريرة قال: قال النبی ﷺ لا تنكح الايم حتى تسامر ولا تنكح البكر حتى تستأذن قاكوا يا رسول الله وكيف اذنهاقال ان تسكت
( بخاری شریف کتاب النکاح ج6ص477)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایم( غیر شوہر والی) عورت کا اس وقت تک نکاح نہ کیا جاۓ جب تک کہ اس سے صاف صاف زبان سے اجازت نہ لے لی جاۓ ۔ اسی طرح باکرہ کا بھی نکاح نہ کیا جاۓ جب تک وہ اذن نہ دے۔لوگوں نے کہاوہ اذن کس طرح دے گی حضور ﷺ نے فرمایا اس کا اذن یہی ہے کہ وہ سن کر چپ ہو جاۓ ۔
تیسری حدیث
ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قال النبی ﷺ الثيب أحق بنفسها من وليها و البكريستاذنها ابوها في نفسها و اذنها صماتها وربما قال صمتها اقرارها .
( مسلم کتاب النکاح ج 1 ص 455) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ثیب ( بیوہ یا مطلقہ) عورت اپنی ذات کی زیادہ حق دار ہے اپنے ولی سے اور کنواری سے اس کا باپ اس کی ذات کے لئے اجازت لے اور اجازت اس کا چپ رہنا ہے اور بعض وقت راوی نے کہا کہ اس کا چپ رہنا گویا اقرار ہے۔
چوتھی حدیث
عن ابن عباس ان جارية بكرا اتت رسول الله فذكرت ان اباها زوجها وهي كارهة، مخيرها النبي ﷺ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کرادیا اوروہ اسے ناپسند ہے
نبی کریم ﷺ نے اس کو اختیار دے دیا۔
(الفتح الربانی ج 1 ص 16 ص 162 مصنف عبدالرزاق ج 6 ص 47-146) مصنف عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے والد سے کہا: تمہارا کیا ہوا نکاح کالعدم ہے۔اورلڑکی سے کہا جاؤ اور جس سے چاہتی ہو نکاح کرلو۔
پانچویں حدیث
عن عبدالله بن بريدة عن ابيه قال: جائت فتاة الى رسول اللہ ﷺ فقالت ان ابي زوجني ابن اخيه ليرفع بی حسیئته قال: فجعل الامر اليها فقالت : قد أجزت ماصنع ابي و لكن اردت ان اعلم النساء ان ليس الى الاباء من الامر شيء ۔
( سنن ابی ماجہ کتاب النکاح حدیث نمبر 1961 مترجم مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور )
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا ایک نوجوان عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی کہ میرے والد نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کر دیا ہے تا کہ میری وجہ سے اس کی رذالت دور کر دیں۔ آپ نے اسے اختیار دے دیا۔ اس پر اس نے کہا میرے والد نے جو کچھ کر دیا ہے وہ مجھے منظور ہے لیکن میری غرض آپ سے پوچھنے کی یہ ہے کہ عورتوں کو معلوم ہوجاۓ کہ نکاح کے بارے میں باپوں کو کوئی اختیار نہیں۔
چھٹی حدیث
عن خنساء بنت حذام الانصارية ان اباها زوجها و هي ثيب مكرهت ذلك ماتت رسول الله و فردنکاحه
حضرت خنساء انصاریہ کہتی ہیں میرا نکاح میرے والد نے ایسی جگہ کیا جہاں میں پسند نہ کرتی تھی اور میں ثیبہ تھی میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ ﷺ نے نکاح فسخ کرادیا۔
( بخاری ج 1 ص 78-477)
ساتویں حدیث
عن على انه اجاز نکاح امراة بغير ولى انكحتها امها برضاها
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت یہ کہ انہوں نے ایک ایسی عورت سے نکاح کو جائز قراردیا جس کا نکاح بغیر ولی کے اس کی ماں نے اس کی مرضی سے کیا تھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 4/2 ص 133 مطبوعد ادارة القرآن کراچی)
آٹھویں حدیث
علی بن عبدالله قال حدثنا مرحوم قال سمعت ثابتا البناني قال كنت عند انس و عنده ابنة له قال انس جائت امراة الى رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم تعرض عليه نفسها قالت يارسول الله ﷺانك في حاجة فقالت بنت انس ما اقل حبائها و اسوه اتاه اسواتاه قال هي خبر منك رغبت في النبی ﷺ فعرضت عليه نفسها
علی بن عبداللہ مرحوم سے ثابت بنانی کہتے ہیں میں نے انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھا ان کے پاس ان کی ایک بیٹی بھی بیٹھی تھی ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اس نے اپنانفس آپ کو پیش کیا۔عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ کو میری خواہش ہے حضرت انس ﷺ کی بیٹی کہنے لگی کیا ہے شرم عورت تھی افسوس افسوس انس رضی اللہ عنہ نے کہا وہ عورت تجھ سے بہتر تھی اس نے تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنانفس آپ کو پیش کیا۔
( بخاری مع تسیر الباری ج 5 ص 97 حدیث نمبر 107 نعمانی کتب خانہ لاہور ) یہ حدیث مبارکہ بخاری شریف کی کتاب النکاح میں وارد ہوئی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ مجھ کو معلوم نہیں ہوا کہ یہ کون سی عورت تھی بہر حال ان عورتوں میں سے تھی
جنہوں نے اپنے تئیں آنحضرت ﷺ کو بخش دیا۔ قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلا کہ نیک بخت اور دیندار مرد کے سامنے اگر عورت اپنے تئیں پیش کرے تو اس میں کوئی عار کی بات نہیں البتہ دنیاوی غرض سے ایسا کرنا برا ہے۔ مندرجہ بالاجلیل القدر علماء کی آراء سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں اولا یہ کہ ایسے واقعات ایک سے زیادہ مرتبہ رونما ہوۓ کہ کسی عورت نے اپنے آپ کو حضور ﷺ کی ذات اقدس میں بغرض نکاح پیش کیا ہو اور ثانیا یہ کہ اگر عورتوں کو اپنا نکاح خود کرنے یا نکاح کے لئے اپنی راۓ کے اظہار کی اجازت نہ ہوتی جیسا کہ راشدی صاحب کی راۓ ہے تو کسی عورت کی مجال ہوسکتی تھی کہ در بار رسالت حاضر ہو اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہماکی موجودگی میں اپنی اس رائے کا اظہار کرے اور اگر کوئی اس کی جسارت کر بھی لے تو حضور ﷺ اس کو اپنے قول یا فعل سے نہ روکیں لہذا یہ حدیث سنت تقریری کے ضمن میں اس مسئلہ کے حوالہ سے آتی ہے کہ ایک فعل حضور ﷺ کے سامنے ہو اور حضور ﷺ نے اس فعل کے کرنے والے کو نہ روکا نہ منع فرمایا اور نہ ہی نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔
نویں حدیث
عن ام سلمة، لما بعث النبی ﷺ يخطها قالت ليس احد من اولیایی شاهد، فقال رسول الله ﷺ " ليس احد من اوليائك شاهد و لا غائب يكره ذلك، فقالت لابنها يا عمر قم قزوج رسول الله فزوجه
حضرت ام سلمة رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جب نبی کریم ﷺ نے حضرت ام سلمہ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا میرا کوئی ولی موجود نہیں ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارا کوئی موجود وغیر موجود ولی ایسا نہیں جو یہ نکاح ناپسند کرے گا۔ چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا عمراٹھواور میرا اللہ کے رسول سے نکاح کرادو اور عمر نے اپنی ماں کا نکاح کرادیا۔
( سن نسائی کتاب النکاح ج 2 مترجم خلاص حدیث )
دسویں حدیث
عن ابي سملة بن عبدالرحمن انه سل عبدالله بن عباس و ابوهريرة
عن المراة الحامل يتوفى عنها زوجها فقال ابن عباس آخر الاجلين وقال أبو هريرة اذا ولدت فقد حلت فدخل ابو سلمة بن عبدالرحمن على ام سلمة زوج النبي ﷺ فساء لها عن ذلك فقالت ام سلمة ولدت سبيعة الاسلمية بعد وفات زوجها بنصف شهر فخطبها رجلان احدهما شاب والاخر كهل فحطت الى الشاب فقال الكهل تحلى بعد و كان أهلها غيبا ورجا اذا جاء اهلها ان يوثروه بها فجاءت رسول اللہ ﷺ فذكرت له ذلك فقال قد حللت فانکحی من شئت۔
ترجمہ: ابی سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ حاملہ عورت کا خاوند اگر مر جاۓ تو وہ کس حساب سے عدت کرے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ دونوں عدتوں میں سے جو عدت دور ہو اس کو اختیار کرے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا وضع حمل تک انتظار کرے پھر ابوسلمہ حضرت ام سلمہ کے پاس گئے اور ان سے جا کر پوچھا انہوں نے کہا کہ سبیعہ اسلمیہ اپنے خاوند کے مرنے کے بعد پندرہ دن میں جنی پھر دوشخصوں نے اس کو پیام بھیجا ایک جوان تھا اور دوسرا ادھیڑ وہ جوان کی طرف مائل ہوئی ادھیٹر نے کہا تیری عدت ہی ابھی نہیں گزری اس خیال سے کہ اس کے عزیز وہاں نہ تھے جب وہ آئیں گے تو شاید اس عورت کو میری طرف مائل کر دیں پھر سبیعہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور یہ حال بیان کیا کہ آپ نے فرمایا تیری عدت گزرگئی تو جس سے چاہے نکاح کر لے۔
حاصل:
یہ وہ دلائل ہیں جن کی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عورت اپنا نکاح خود کر سکتی ہے ۔ اور
اس کو یہ اختیار حاصل ہے اور کسی کو اس پر جبر کاحق حاصل نہیں۔ لیکن امام ابوحنیفہ عورت کے اس حق کو دو شرطوں سے مشروط کرتے ہیں ۔
اولا: یہ کہ عورت جو نکاح کرے وہ کفو میں کرے ۔
ثانیا: یہ کہ وہ کم از کم نکاح میں مہرمثل مقرر کرے۔
عورت کا ایسا کیا ہوا نکاح جائز اور نافذ سمجھا جائے گا اور عورت کسی گناہ کی مرتکب نہ ہوگی اورنہ ہی یہ سمجھا جاۓ گا کہ اس نے حد سے تجاوز کیا۔ ناظرین کرام ہم نے یہاں پر صرف تین آیات قرآنی اور دس احادیث نقل کی ہیں۔ ویسےاس مسئلہ میں دلائل کافی ہیں ایک انصاف پسند آدمی کو اتنی بات کافی ہے۔ رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں ۔ یہ روایت نہ بخاری میں ہے اور نہ مسلم میں اور ہم نے اوپر جو دس احادیث پیش کی ہیں ان میں بخاری مسلم کی روایات بھی موجود ہیں ۔ویسے یہ روایت ہمارے خلاف نہیں ہے۔ حنفیہ کے نزدیک اس حدیث کا تعلق نا بالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے یعنی کمسن لڑکی اور دیوانی لڑکی کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔
نواب نور الحسن خان بن نواب صدیق حسن خاں غیر مقلد اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں
و حدیث لا نكاح الابولی مرسل است . اور لا نکاح الا ولی والی حدیث مرسل ہے ۔
(عرف الجادی ص 106)
اور موجود غیر مقلدین کی اکثریت مرسل حدیث کو نہیں مانتی ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں