اعتراض نمبر ٥٣
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : اقامت کے بعد نفل کا حکم۔
حدیث نبویﷺ
عن ابي هريرة عن النبي ﷺ انه قال اذا اقميت الصلوة فلاصلاة الا المكتوبة.
( ترجمہ ) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ دوسری کوئی نماز نہیں ( پڑھنی چاہیے )
( مسلم ج١کتاب صلاة المسافرين وقصرها باب كراهية الشروع في نافلة بعد شروء المؤذن في اقامة الصلاة الخص۲۴۷، رقم الحدیث (۱۶۴۴)
فقه حنفی
ان تفوته الركعة ويدرك الاخرى يصلى ركعتي الفجر عندباب المسجد - (هدایه اولین کتاب الصلاة باب ادراك الفريضة صفحه: ۱۵۳)
( ترجمہ ) ( فجر نماز ) کی ایک رکعت فوت ہو چکی ہو اور دوسری رکعت مل سکتی ہو تو مسجد کے دروازے کے پاس فجر کی سنتیں پڑھ سکتا ہے۔
(فقہ وحدیث ص ۹۲)
جواب:
تمام آئمہ کا اتفاق ہے کہ ظہر، عصر، عشاء کی فرض سے پہلے والی سنتیں بوقت اقامت جماعت
نہ پڑھیں کیونکہ یہ سنتیں بعد فرائض کے اس نماز کے وقت میں بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔ ہاں فجر کی سنتیں جمہور صحابہ و تابعین۔ امام ابو حنیفہ امام ثوری۔ امام مالک فی روایۃ امام اوزاعی ، امام حسن بصری، امام مسروق ۔ امام ابو یوسف، امام محمد، امام زفر کے نزدیک دو شرطوں سے پڑھی جاسکتی ہیں۔
پہلی شرط :
خارج مسجد ہو یا جماعت اور مصلی کے درمیان کوئی چیز حائل ہو۔
دوسری شرط :
ایک رکعت امام کے ساتھ مل جانے کا غالب گمان ہو۔
اگر یہ دونوں شرطیں نہیں پائی جاتیں تو ایسا شخص جماعت میں شامل ہو جائے پھر سورج نکلنے
کے بعد یہ سنتیں پڑھے، نماز فجر کی سنتوں میں یہ خاص رایت کیوں رکھی گئی ہے اس کے دلائل ملاحظہ
فرمائیں۔
(١)احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فجر کی نماز کی سنتیوں کی تاکید باقی تمام سنتوں کےمقابلہ میں بہت زیادہ ہے۔
(دیکھے آثار السنن ج ۲ ص ۲۲ ص ۲۹)
(۲) نماز فجر کے بعد نوافل پڑھنا منع ہے۔ ( آثار السنن ج ۲ ص ۷ ۲۸.۲)
اگر یہ سنتیں فرضوں سے پہلے نہ پڑھی جائیں گی تو پھر نماز فجر کے وقت میں تو پڑھنے کا موقع ہی نہ رہا۔
(۳) عدم قضاء تستہ من غیر بنية الفرضی ۔ ( معارف السنن شرح ترمذی ، ج ۴، ص ۷۴) اس لئے احناف نے دلائل میں تطبیق کی ایسی کوشش کی کہ تطبیق بھی ہو جائے اور تمام فضیلتیں بھی حاصل ہو جائیں۔
فجر کی سنتوں کی فضلیت اور تاکید والی روایات
(۱) عن عائشة قالت قال رسول الله ركعتا الفجر خير من الدنيا ومافيها
( مسلم ج ١ ص ۲۵۱)
(ترجمہ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
فجر کی دورکعتیں دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے سب سے بہتر ہیں۔
(۲) عن عائشة قالت لم يكن النبي ﷺ على شيء من النوافل اشد تعاهدا منه على ركعتي الفجر
بخاری ج ١ ص ۱۵۶، مسلم ج ١ ص ۲۵۱)
( ترجمہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کسی نفل کی اتنی زیادہ پابندی اور حفاظت نہیں کرتے تھے جتنی فجر کی دورکعتوں کی۔
(۳) عن ابي هريرة قال قال رسول الله ﷺ لا تدعو هماوان طردتكم الخيل
(ابو داؤدج ١ص۱۷۸)
حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ فجر کی دو رکعتوں کو نہ چھوڑواگرچہ گھوڑے تمہیں روند ڈالیں۔
جماعت کی فضیلت والی روایت
دلائل احناف
عن ابي هريره رضى الله تعالى عنه ان رسول الله ﷺ قال اذااقیمت فلا صلوۃ الا المكتوبة الاركعتى الصبح
(سنن الکبری بہیقی ج ۲ ص ۴۸۳)
(ترجمہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب نماز کھڑی کر دی جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرضی نماز کے مگر فجر کے دورکعتیں۔ ( یعنی سنت فجر )
(۲) عن ابى اسحق قال حدثني عبدالله بن ابى موسى عن ابيه حين دعاهم سعيد بن العاص دعا ابا موسى وحذيفة وعبد الله بن مسعود قبل ان يصلى الغداة ثم خوجوا من عنده قد اقيمت الصلوة مجلس عبد الله الى اسطوانة من المسجد فصلى الركعتين ثم دخل في الصلوة
(طحاوی ج ١ص٢٥٧)
(ترجمہ) حضرت ابو اسحق فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہعنہ) کے صاحبزادے عبد اللہ رحمۃاللہ علیہ نے اپنے والد کے واسطے سے یہ حدیث بیان کی جب کہ ان کو حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے بلایا کہ حضرت سعید بن العاص نے حضرت ابو موسیٰ اشعری، حضرت حذیفہ ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز سے پہلے بلایا، پھر جب یہ حضرات ان کے پاس سے نکلے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے مسجد کے ایک ستون کے پاس بیٹھ کر دور کعتیں پڑھیں پھر نماز میں شریک ہو گئے۔
(۳) عن عبدالله بن ابی موسی قال جاء ابن مسعود والامام يصلى الصبح فصلى ركعتين الى سارية ولم يكن صلى ركعتي الفجر
( معجم طبرانی کبیر ج ۹ ص۲۷۷)
(ترجمہ) حضرت عبداللہ ابی موسیٰ اشعری رضیاللہعنہ) فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے تو امام فجر کی نماز پڑھارہا تھا آپ نے ایک ستون کی اوٹ میں فجر کی دورکعت سنتیں ادا کیں جو آپ پہلے ادا نہیں کر سکے تھے۔
(٤) عن عبد الله بن ابی موسی عن عبدا الله انه دخل المسجد والامام في الصلوة فصلى ركعتي الفجر ( طحاوی ج ١ص ۲۵۷)
( ترجمہ ) حضرت عبداللہ ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے اور وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (فجر کے وقت) مسجد میں
تشریف لائے تو امام نماز میں تھا تو ( پہلے ) آپ نے فجر کی دو سنتیں پڑھیں۔
(ه) عن حارثة بن مضرب ان ابن مسعو د و ا با موسی خرجا من عند سعيد بن العاص فأقيمت الصلوة فركع بن مسعود ركعتين ثم دخل مع القوم فى الصلوة واما ابو موسى فدخل في الصف
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۵۱)
( ترجمہ ) حضرت حارثہ بن مضرب رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو فجر کی جماعت کھڑی ہو گئی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو
فجر کی دوسنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوئے اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سیدھے صف میں داخل ہو گئے۔
(٦) عن مالك بن مغول قال سمعت نافع يقول ايقظت ابن عمر لصلوة الفجر وقد اقيمت الصلوۃ فقام فصلی رکعتیں۔ ( طحاوی ج ١ ص ۲۵۸)
( ترجمہ ) حضرت مالک بن مغول رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نافع رحمۃاللہ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو فجر کی نماز کے لیے جگایا جب کہ جماعت کھڑی ہو چکی تھی ، آپ اُٹھے اور (پہلے) دورکعتیں پڑھیں ۔
(۷) عن محمد بن كعب قال خرج عبد الله بن عمر من بيته فأقيمت صلوة الصبح فركع ركعتين قبل ان يدخل المسجد وهو في الطريق ثم دخل المسجد فصلى الصبح مع الناس
( طحاوی ج ١ ص ۲۵۸)
( ترجمہ ) حضرت محمد بن کعب قرظی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ گھر سے تشریف لے گئے تو فجر کی جماعت کھڑی ہو چکی تھی آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے راستہ ہی میں دو رکعت ( فجر کی سنتیں ) ادا کیں پھر مسجد میں داخل ہوئے اور فجر کی نماز لوگوں کے ساتھ ادا کی۔
(۸) عن زید بن اسلم عن ابن عمر انه جاء والامام يصلى الصبح ولم يكن صلى الركعتين قبل الصبح فصلا هما في حجرة حفصة ثم انه صلى مع الامام . (طحاوی ج ١ ص ۲۵۸) (ترجمہ) حضرت زید بن اسلم رحمۃاللہ علیہ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ( فجر نماز کے لیے تشریف لائے تو امام نماز پڑھا رہا تھا اور آپ نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے حجرے میں سنتیں ادا کیں پھر امام کے ساتھ نماز پڑھی۔
(٩) عن ابى مجلز قال دخلت المسجد فى صلوة الغداة مع ابن عمر و ابن عباس والا مام يصلى فاما ابن عمر فدخل في الصف واماابن عباس فصلی رکعتین ثم دخل مع الامام فلما سلم الامام قعد ابن عمر مكانه حتى طلعت الشمس فقام فركع ركعتين (طحاوی ج ١ص ۲۵۷)
(ترجمہ) حضرت ابو مجلز رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے ساتھ فجر کی نماز کے لیے مسجد میں آیا تو امام نماز پڑھا رہا تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تو صف میں داخل ہو گئے لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما دورکعت (سنت) پڑھ کر امام کے ساتھ شریک ہوئے پھر جب امام نے سلام پھیرا تو حضرت عبداللہ عمر رضی اللہ عنہمااپنی جگہ بیٹھے رہے حتی کہ جب سورج نکل آیا تو اٹھ کر دور کعتیں پڑھیں۔
(۱۰) عن ابي عثمان الانصاري قال جاء عبد اللہ بن عباس والامام فى صلوة الغداة ولم يكن صى الركعتين فصلی عبداللہ بن عباس الركعتين خلف الامام ثم دخل معهم -
( طحاوی ج ١ص ۲۵۸)
(ترجمہ) حضرت ابو عثمان انصاری رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ( فجر کی نماز کے لیے مسجد ) تشریف لائے تو امام نماز میں تھا اور آپ نے دو رکعتیں (سنت کی) نہیں پڑھی تھیں چنانچہ آپ نے دو رکعت سنت امام کے پیچھے پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ شریک (جماعت) ہو گئے۔
(۱۱) عن ابي الدرداء انه كان يدخل المسجد والناس صفوف في صلوة الفجر فيصلى الركعتين في ناحية المسجد ثم يدخل مع القوم فى الصلوة
(طحاوی ج ١ص ۲۵۸)
( ترجمہ ) حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ مسجد میں تشریف لاتے تو لوگ فجر کی نماز کی صف باندھے کھڑے ہوتے ، آپ مسجد کے ایک گوشہ میں دو رکعت (سنت) ادا کرتے پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاتے ۔
(۱۲) عن ابى عثمان النهدى قال كنان تي عمر بن الخطاب قبل ان نصلى الركعتين قبل الصبح وهو في الصلوة فنصلى فى اخرالمسجد ثم ندخل مع القوم فى صلوتهم -
(طحاوی ج ١ ص ۲۵۸)
(ترجمہ) حضرت ابو عثمان نہدی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں صبح کی دو سنتیں پڑھنے سے پہلے حاضر ہوتے تو آپ نماز پڑھا رہے ہوتے ، ہم مسجد کے آخر میں دو سنتیں پڑھ کر لوگوں کے ساتھ ان کی نماز میں شریک ہو جاتے۔
(۱۳) عن حصين قال سمعت الشعبى يقول كان مسروق يجيئ الى القوم وهم في الصلوة ولم يكن ركع ركعتي الفجر فيصلى الركعتين في المسجد ثم يدخل مع القوم فى صلوتهم - (طحاوی ج ١ ص ۲۵۸)
(ترجمہ) حضرت حصین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام شعبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضرت مسروق رحمۃاللہ علیہ لوگوں کے پاس تشریف لاتے اس حال میں کہ لوگ نماز میں ہوتے اور آپ نے فجر کی دو رکعت سنت نہ پڑھی ہوتیں تو آپ مسجدمیں دورکعت سنت پڑھ کر لوگوں کے ساتھ ان کی نماز میں شریک ہو جاتے۔
(۱۴) عن الحسن انه كان يقول اذا دخلت المسجد ولم تصل ركعتي الفجر فصلهما وان كان الامام يصلى ثم ادخل مع الامام
( طحاوی ج ١ ص ۲۵۸)
( ترجمہ ) حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں داخل ہو اور تم نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو ( پہلے ) وہ سنتیں پڑھ لو اگرچہ امام نماز ہی پڑھارہا ہو پھر امام کے ساتھ شریک ہو جاؤ۔
(طحاوی ج ص ۲۵۸)
(۱۵) انا يونس قال كان الحسن يقول يصليهما في ناحية المسجد ثم يدخل مع القوم في صلوتهم -
(طحاوی ج ١ ص ٢٥٨)
(ترجمہ) حضرت هشیم رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت یونس رحمۃاللہ علیہ نے خبر دی وہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بصری رحمۃاللہ علیہ فرماتے تھے کہ فجر کی دو سنتیں مسجد کے ایک گوشہ میں پڑھ کر پھر لوگوں کے ساتھ ان کی نماز میں شریک ہو جاتے ۔
(۱۶) عن سعید بن جبير انه جاء الى المسجد والامام في صلوة الفجر
فصلي الركعتين قبل ان يلج المسجد عند باب المسجد
(مصنف ابن ابی شیبه ج ۲ ص ۲۵۱)
(ترجمہ) حضرت سعید بن جبیر رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں تشریف لائے تو امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے مسجد کے دروازے کے پاس دورکعت سنت ادا کیں ۔
(۱۷) عن مجاهد قال اذا دخلت المسجد والناس في صلوة الصبع ولم تركع ركعتي الفجر فاركعهما وان ظننت ان الركعة الاولى تفوتك (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۵۱)
(ترجمہ) حضرت مجاہد رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں داخل ہو اور لوگ صبح کی نماز پڑھ رہے ہوں اور تم نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں تو ( پہلے ) وہ پڑھ لو اگرچہ تمہارا خیال ہو کہ تم سے پہلی رکعت فوت ہو جائے گی۔
(۱۸) عن مسروق انه دخل المسجد والقوم في صلوة الغداة ولم يكن صلى الركعتين فصلا هما في ناحية ثم دخل مع القوم في صلاتهم . (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۵٠)
( ترجمہ ) مسروق ہے روایت ہے کہ بے شک وہ داخل ہوا مسجد میں لوگ صبح کی نماز میں تھے اور اس نے دور کعتیں نہیں پڑھی تھیں پس انہیں ایک کونے میں پڑھا پھر وہ لوگوں کے ساتھ نماز میں داخل ہوئے۔
حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی توجیہہ
رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے مرفوع اور موقوف ہونے میں اختلاف ہے امام ترمذی فرماتے ہیں زکریا بن اسحاق ، ایوب، درق ابن عمر زیاد بن سعد اسماعیل بن مسلم اور محمد بن مجادہ اس کو عمرو بن دینار عن عطا بن یسار عن ابی ہریرہ مرفوع نقل کرتے ہیں اور حماد بن زید اور سفیان بن عینیہ عمر و بن دینار سے موقوف نقل کرتے ہیں والمرفوع اصح حماد بن سلمہ ( کتاب الام ج ١ ص ۱۲۶ و حاشیه الام ج ۱ ص ۱۲۹، ابن علیه عند ابن ابی شیبہ ابراہیم بن اسماعیل بن مجمع عند ابن ابی حاتم ( معارف السنن ص ۷۶۔ ۷۸، ج ۴) بھی اس کو موقف نقل کرتے ہیں محمد بن طاہر المقدسی نے بھی موقوف ہی قرار دیا ہے ( تذکرۃ الموضوعات ص ۶) اسی اختلاف کی وجہ سے امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے صحیح میں اس کو سند روایت نہیں کیا۔ غالباً اسی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو ترمذی نے صحیح کے بجائے حسن قرار دیا ہے۔ پھر خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح لا تدعواركعتي الفجر ولوطر وتكم الخيل (آثار السنن ج ١ ص ۲۹) مروی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مرفورعاً من ادرك ركعة فقد ادرك الصلوة ( مسلم ج ۲ ص ۲۲۱) اور ان سے ہی مرفوعاً مروی ہے اذا كنتم في المسجد فنودى بالصلوة فلا يخرج احدكم حتى يصلى
(رواہ احمد ورجاله رجاله الصحیح، مجمع الزوائد ج ۲ ص ۵) تو ان سب احادیث کو جمع کر لیا گیا کہ مسجد کے باہر یا درمیان میں کوئی چیز حائل ہو تو ایک رکعت مل سکنے کی صورت میں فجر کی سنتیں ادا کر کے جماعت میں شامل ہو جائے تاکہ لوطر ذنکم الخیل کی مخالفت نہ ہو بعض نے بواسطہ مسلم بن خالد زنجی عن عمر و بن دینا دولا رکعتی الفجر روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں ایک تو یحیی بن دینار کے سات شاگردوں پر زیادتی کر رہا ہے۔ (آثار السنن ج ۲ ص۳۰) اس کے برعکس بیہقی نے بطریق ليث بن سعد عن عطاء عن ابي هريرہره رضی اللہ عنہ ان رسول الله ﷺ قال اذا اقمت الصلوة فلا صلوة الا الكتوبة الاركعتي الفجر نقل کیا ہے اس کی سند میں حجاج بن نصیر مختلف فیہ ہے (میزان ج ١ ص ۴۶۵ اور عباد بن کثیر الرملی مختلف فیہ ہے (میزان ج ۲ ص ۳۷۰) پہلی روایت و لار کعتی الفجر کو ابن عدی نے یحیی کی حدیث میں ذکر کیا ہے مگر اس کو اس حدیث میں ذکر نہیں کیا۔ اگر بالفرض دونوں حسن ہوں تو بھی لا رکعتی الفجر صفوں میں مل کر پڑھنے پر اور الاركعتي الفجر علیحدہ پڑھنے پر محمول ہوں گی۔ عبداللہ بن مالک بن بحسینہ بخاری ج ۱ ص ۹۱ مسلم ج ١ص ٢٤٧ پر ہے آنحضرت ﷺحجرہ سے جماعت کے لیے مسجد میں آتے تھے آپ نے مسجد میں ہی کسی کو نماز پڑھتے دیکھا اور فرمایا لا تجعلوا هذا مثل صلوة الظهر قبلها
وبعدها اجعلوا بينهما فصلا ( ج ١ ص ۲۱۹ مسند احمد ج ۵ ص ۳۴۵) اور مسلم میں دوسری ہے فان رسول اللہﷺ امرنا ان لا نوصل صلوة بصلوة ج ١ص ۲۸۸ والعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص المورد۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ بالکل جماعت کے ساتھ وصل نہ ہو بلکہ فاصلہ پر پڑھی جائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں