اعتراض نمبر ٥٥
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : فرض کے بعد فجر کی سنتوں کا حکم
حدیث نبوی ﷺ
عن قیس ابن عمر و قال رای النبيﷺ رجلا يصلى بعد صلوة الصبح ر رکعتین فقال رسول اللهﷺ صلوة الصبح ركعتين ركعتين فقال الرجل انى لم اكن صليت الركعتين اللتين قبلها فصليتهما الان فسکت رسول اللہ ﷺ۔
( ترجمہ ) سیدنا قیس بن عمرو انہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو دیکھا وہ فجر نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا تھا۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا فجر کی نماز تو دورکعتیں ہیں ؟ تو اس آدمی نے جواب دیا میں نے پہلے والی دور رکعتیں (سنتیں) نہیں پڑھی تھیں اب پڑھی ہیں۔ پھر رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔
(ابوداؤد ج١کتاب الصلوة باب من فاتته متي يقضبها ص ١۷۸ رقم الحدیث ۱۳۶۷)
فقه حنفی
اذا فاتته ركعتا الفجر لا يقضيهما قبل طلوع الشمس
هدایه اولین ج١کتاب الصلوۃ باب ادراك الصلوة ص ۱۵۶)
جب فجر کی دورکعتیں ( سنتیں ) فوت ہو جا ئیں تو ان کو طلوع آفتاب سے قبل ادانہیں کر سکتے۔
جواب:
( فقه و حدیث ص ۹۴)
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث نمبر١:
روایت ہے ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جس نے نہ پڑھی ہوں سنتیں فجر کی تو پڑھ لے بعد طلوع آفتاب کے۔
( مسلم باب الاوقات التی نمی الصلوۃ فیها( ترمذی مترجم جلد اول ص ۱۹۱) باب ماجاء فی اعادتها بعد طلوع الشمس ترجمہ مولانا بدیع الزماں غیر مقلد صحیح ابن حبان مستدرک حاکم موطا امام مالک باب النھی عن الصلوة بعد الصبح و بعد العصر )
حدیث نمبر ۲:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی صبح کی سنتیں فوت ہو جاتیں تو آپ ان کو طلوع شمس کے بعد پڑھتے ۔
(المعتمر من المختصر من مشکل الانار طحاوی ص ٤۲، بحوالہ احیاء السن جلد دوم ص ۲۳۶)
حدیث نمبر ۳:
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ راستہ چھوڑ کر ایک طرف کو چلے ، غزوہ تبوک میں قبل فجر کے میں بھی آپ کے ساتھ چلا آپ نے اونٹ بٹھایا اور پاخانہ پھرا پھر آئے تو میں نے چھاگل سے پانی ڈالا آپ کے ہاتھ پر آپ نے دونوں پہنچوں کو دھویا۔ پھر منہ کو دھویا ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ آستین سے نکالنا چاہے، مگر آستینیں تنگ تھیں، اس واسطے آپ نے جے کے نیچے سے ہاتھ نکال لیے اور دونوں ہاتھوں کو دھویا ، کہنیوں تک اور مسح کیا موزوں پر پھر سوار ہوئے اور ہم چلے جب ہم آئے تو ہم نے لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اور انہوں نے امام بنایا عبدالرحمن بن عوف کو اور عبدالرحمن نے نماز شروع کر دی تھی حسب معمول وقت پر ( یعنی جس وقت آپﷺ نماز فجر کی پڑھا کرتے تھے، وہ وقت آیا تو صحابہ نے نماز شروع کر دی اور ایک رکعت پڑھ چکے تھے، فجر کی دو رکعتوں میں سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ صف میں شریک ہوئے اور ایک رکعت عبد الرحمن بن عوف کے پیچھے پڑھی پھر عبدالرحمن نے سلام پھیرا، اور رسول اللہ ﷺ کی ایک رکعت باقی جو رہ گئی تھی پڑھنے کو کھڑے ہوئے ، مسلمان گھبرا گئے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے آگے
نماز پڑھ لی تو انہوں نے تسبیح کہنی شروع کی جب رسول اللہ ﷺ نے سلام پھیرا، تو فرمایا تم نے ٹھیک کیا یا تم نے اچھا کیا۔
(ابو داود باب المسح علی الخفین ص ۲۱ ج ۱ )
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ آپ نے فجر کی سنتیں پہلے ادا نہیں فرمائی تھیں کیونکہ آپ کو تا خیر نماز کی تیاری کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ اور اس طرح سے سنتیں رہ جانے کا واقعہ آپ کی زندگی میں شاز و نادر ہی پیش آیا ہے اگر طلوع شمس سے پہلے سنتیں پڑھنی جائز ہوتیں تو آپ اس وقعہ پر بیان
جواز کے لیے ضرور پڑھتے ۔
(اشرف التوضح ج ۲ ص ۱۱۱)
حدیث نمبر ۴ :
امام مالک کو یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر کی فجر کی دو سنتیں قضا ہو گئی انہوں نے طلوع آفتاب سے بعد ان کی قضا پڑھی۔
(موطا امام مالک باب ماج آء فی رکعتی الفجر )
حدیث نمبر ۵ :
عبدالرحمن بن قاسم کا بیان ہے کہ قاسم بن محمد نے اسی طرح کیا جیسے حضرت ابن عمر نے کیا تھا۔ ( یعنی طلوع آفتاب کے بعد سنتیں پڑھیں )
(موطا امام مالک ماب ماج آ فی رکعتی الفجر )
حدیث نمبر ٦:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے ۔ انہوں نے صبح کی سنتیں نہیں پڑھی تھیں یہ آ کر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہو گئے، پھر نماز کے بعد اسی جگہ بیٹھے رہے جب
چاشت کا وقت ہوا تو انہوں نے سنتوں کو پڑھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۲۵۵) حدیث نمبر ٧ :۔
حضرت یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت قاسم سے سنا ہے وہ کہتے تھے اگرمیں نے صبح کو سنتیں نہ پڑھی ہوں یہاں تک کہ صبح کی نماز پڑھ لوں ۔ تو میں ان کو طلوع شمس کے بعدپڑھ لیتا ہوں ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص۲۵۵)
حدیث نمبر ۸:
ابو مجلز کہتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ صبح کی نماز کے لیے ایسے وقت مسجد میں داخل ہوا کہ امام نماز پڑھا رہا تھا سو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تو نماز میں شریک ہو گئے ، رہے ابن عباس رضی اللہ عنہ سو انہوں نے پہلے صبح کی سنتیں پڑھیں اس کے بعد وہ جماعت میں شریک ہو گئے۔ پس جبکہ امام نماز سے فارغ ہوا تو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ طلوع آفتاب تک اپنی جگہ بیٹھے رہے۔ پس جب آفتاب طلوع ہوا تو وہ اٹھے اور دورکعت نماز پڑھی۔
طحاوی بحوالہ آثار السنن ج ٢ص ۳۹)
حدیث نمبر ۹ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کئی معتبر لوگوں نے بیان کیا اور ان سب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ زیادہ معتبر تھے کہ آنحضرت ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد سورج روشن ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
( بخاری کتاب مواقيت الصلوۃ باب الصلوة بعد الفجر حتى ترتفع الشمس ) ( مسلم باب الاوقات التی نھی عن الصلوة فيها )
حدیث نمبر ۱۰:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نماز عصرکے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ۔
حدیث نمبر ۱۱: مسلم شریف میں حضرت عمرو بن عنبہ سلمی رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں آتا ہے۔ قال صل صلوة الصبح ثم اقعر عن الصلوة حتى تطلع الشمس آپ ﷺ نے فرمایا صبح کی نماز پڑھو اور اس کے بعد اس وقت تک نماز نہ پڑھو جب تک کہ سورج طلوع نہ ہو جائے ۔ الخ
(مسلم باب الاوقات التي نحى عن الصلوة فيها )
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو سورج نکلنے کے بعد پڑھی جائیں۔
رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔
پہلا جواب:
یہ روایت منقطع ہے۔
امام ترمذی فرماتے ہیں اور اسناد اس کی متصل نہیں کہ محمد بن ابراہیم تمیمی کو سماع نہیں قیس سے۔ ( ترمذی باب ماجا فیمن تقویۃ الرکعتان ) لہذا یہ روایت مرسل ہے۔ اور مرسل روایت غیر مقلدین کے نزدیک حجت نہیں ۔ ۔
دوسرا جواب:۔ ابوداؤد میں ہے کہ آپ خاموش ہو گئے ۔ مگر ترمذی میں خاموش رہنے کا ذکر نہیں ہے۔
ترمذی کی روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا قال فلا اذن کہ ایسا مت کر یہاں پر یہ ترجمہ زیادہ فٹ ہوتا ہے تا کہ تمام روایات کی آپس میں مطابقت بن جائے جن روایات میں نماز پڑھی منع ہے۔ اس میں بھی منع والا ترجمہ کرنے سے ان کی مخالفت لازم نہیں آتی جیسا کہ علامہ وحید الزمان نے کیا ہے۔ علامہ صاحب مسلم شریف کتاب الهبات باب كراهية تفصيل بعض الاولاد في الهبة میں حضرت نعمان بن بشیر کی روایت میں لکھتے ہیں۔ حضرت نعمان بن بشیر اللہ سے روایت ہے میرے باپ مجھ کو اٹھا کر لے گئے۔ جناب رسول خدا ﷺ کے پاس اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺآپ گواہ رہیے کہ میں نے نعمان کو فلاں فلاں چیز اپنے مال میں سے ہبہ کی ہے۔ آپ نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو تو نے ایسا ہی دیا ہے جیسے نعمان کو دیا ہے؟ میرے باپ نے کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ تو پھر مجھے کو گواہ نہ کر۔ اور کسی کو کر لے۔ بعد اس کے فرمایا۔ کیا تو خوش ہے اس سے کہ سب برابر ہوں تیرے ساتھ نیکی کرنے میں میرا باپ بولا۔ ہاں آپ ﷺنے فرما یا قال فلا اذا تو پھر ایسا مت کر ( یعنی ایک کو دے ایک کو نہ دے)
اس حدیث میں بھی فلا اذا ہے یہاں پر علامہ وحید الزماں نے ترجمہ کیا ہے ایسا مت کر ہمارےنزدیک وہاں پر بھی یہ ترجمہ کرنے سے روایت کا آپس میں تعارفی ختم ہو جاتا ہے۔
تیسراجواب:۔ یہ صرف ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل ہے۔ ( جب آپ ﷺ نے دیکھا تو منع فرما دیا) دوسری طرف جو روایات ہم نے نقل کی ہیں وہ مرفوع روایات ہیں اور آپ ﷺ کےارشادات ہیں اس لیے ترجیع ان کو ہوگی۔
بہر حال احناف کے پاس دلائل موجود ہیں ۔ ان کو مخالفت حدیث کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں