نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 62 مسئله : اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں

 اعتراض نمبر ٦٢

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:

مسئله : اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں

حدیث نبوی ﷺ

عن ابن عمران عمر سأل النبى ﷺ قال كنت نذرت في الجاهلية ان اعتكف ليلة في المسجد الحرام قال اوف بنذرك. 

( ترجمہ ) سید نا ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا میں نے دور جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات بیت اللہ میں اعتکاف کروں گا آپ ﷺ نے فرمایا اپنی نذر پوری کرو۔

( اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ اعتکاف کرنے لیے روزہ شرط نہیں ہے۔)

(بخاري ج ۲ كتاب الايمان والنذور باب اذا نذر اور حلف الايكلم انسانا في الجاهلية ثم اسلم صفحه : ۹۹۱، رقم الحدیث ۶۶۹٧) (مسلم ج ۲ کتاب الايمان والنذور باب نذر الكافر وما يفعل فيه اذا اسلم ص ۵۰ ، رقم الحدیث ۴۲۹۲)

فقه حنفی

الاعتكاف مستحب و هو اللبث في المسجد مع الصوم ونيةالاعتكاف ... والصوم من شرطه عندنا

(هدایه اولین ج١کتاب الصوم باب الاعتكاف صفحه : ۲۲۹)

اعتکاف مستحب ہے یعنی مسجد میں روزہ رکھ کے ٹھہرنا اور اعتکاف کی نیت کرنا اورہمارے نزدیک روزہ (اعتکاف کی ) شروط میں سے ہے۔ (فقہ وحدیث ص ۱۰۱)

جواب: حدیث:

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اعتکاف کرنے والے کو یہ سنت ہے کہ عیادت نہ کرے مریض کی اور نہ جنازہ کی نماز کے واسطے حاضر ہو اور نہ عورت کو چھوئے اور نہ عورت سے مباشرت کے اور نہ کسی کام کے واسطے نکلے سوائے ضرورت کے کام کے (یعنی پیشاب و پاخانہ وغیرہ کے لیے ) اور بغیر روزہ کے اعتکاف درست نہیں ہوتا۔ الحدیث

 (ابو داؤد باب الاعتکاف سنن دارقطنی باب الاعتکاف ) 

ہم نے یہاں پر صرف ایک روایت ذکر کی ہے اس مسئلہ کے دلائل اور بھی ہیں ۔ 

اس روایت سے معلوم ہوا کہ فقہ حنفی کا مسئلہ حدیث کے مطابق ہے مخالف نہیں۔

حدیث:

رہی وہ روایت جو راشدی صاحب نے نقل کی ہے اس میں روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا تھا۔ 

ملاحظہ فرمائیں۔

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جاہلیت کے زمانہ میں نذر کی تھی ایک رات یا ایک دن اعتکاف کرنے کی کبعے کے پاس انہوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا آپ نے فرمایا اعتکاف کر اور روزہ رکھ ۔ 

(ابوداؤد باب المعتكف يعود المريض )

( مشکوۃ باب الاعتکاف فصل ثانی سنن دارقطنی باب الاعتکاف )

اس سے ثابت ہوا کہ فقہ حنفی کا مسئلہ درست ہے احناف نے اپنی طرف سے روزہ کی شرط نہیں بنائی۔

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...