اعتراض نمبر٦٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں :
مسئله : شاتم رسول ذمی واجب القتل ہے۔
حدیث نبوی ﷺ
عن على ان يهودية كانت تشتم النبىﷺ وتقع فيه فخنقهارجل حتى ماتت فابطل النبيﷺ دمها -
( ترجمہ ) ایک یہودی عورت نبی ﷺ کو گالیاں دیتی تھی اور آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتی تھی ایک آدمی نے اس کو گلا گھونٹ کر مار دیا۔ نبی کریمﷺ نے اس کا خون باطل قرار دے دیا۔
(ابوداؤد کتاب الحدود ج٢ باب الحكم فيمن سب النبي ﷺ صفحه ۲۵۲، رقم الحدیث ۴۳۶۲)
فقه حنفی
و من امتنع من الجزية او قتل مسلم اوسب النبی ﷺ اوزنی بمسلمة لم ينتقص عهده .
اور امام مالک کا اور حضرت ابوبکر صدیق سے یہی نقل کیا گیا ہے۔ مولانا ظفر احمد عثمانی حنفی لکھتے ہیں
علمائے اسلام کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر زمی مرد یا عورت نبی علیہ السلام کی شان میں اعلانیہ گستاخی کرے یا اسلام میں عیب نکالے تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔
(اعلاء السنن ج ۲ ص ۵۳۹)
مولانا عبد المالک کاندھلوی حنفی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور لکھتے ہیں
امت کے تمام فقہاء اور آئمہ مفسرین اور محدثین کا فیصلہ ہے کہ توہین رسول علیہ الصلوۃ والسلام
کی سزا موت ہے۔
(ناموس رسول ص ۲۱۰)
ان حنفی علماء کی عبارات سے معلوم ہوا کہ حنفی مسلک میں گستاخ رسول ﷺ کی سزا موجود ہے اور وہ قتل ہے اور حدیث میں بھی قتل کا ہی ذکر ہے۔ پھر فقہ حنفی حدیث کے خلاف کیسے ہوئی۔
ہدایہ کی عبارت کی وضاحت:
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ اگر حاکم اسلام کسی ملک کفار کو فتح کرے اور پھر ان سے عہد و پیمان لے کر ان کو اپنے ظل حمایت میں جگہ دیوے تو تاوقتیکہ وہ اپنے عہد و پیمان کا خلاف نہ کریں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کا معاہدہ بدستور قائم رکھیں ہاں اگر منکرات شرعیہ میں سے کسی جرم کار ارتکاب کریں تو حسب قانون شرع اس پر حد جاری کریں سواگر کسی مسلمان عورت سے کوئی ذمی زنا کرے یا رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کرے اور اس کے عہد نامہ میں اس قسم کی شرائط کا کچھ ذکر نہ تھا تو گو اس کا معاملہ معاہدہ جوں کا توں باقی ہے ان دونوں جرموں کی سز اس کو دی جائے گی۔ یعنی زنا کی صورت میں حد زنا اس پر جاری ہوگی۔ چنانچہ رد مختار میں ہے: قولہ ولا بالزنا بمسلمة بل يقام عليه موجبه وهو الحد یعنی زناء مسلمہ سے عہد تو نہ ٹوٹے گا پر اس پر زنا کی سزا جاری کی جائے گی اور نبی ﷺ کے برا کہنے میں اگر خفیہ طور سے ایک دو دفعہ اپنی گمت کے آدمیوں میں برا کہا ہے اور عہد نامہ میں اس قسم کی شرائط کا کچھ ذکر نہ ہو تب بھی اگرچہ معاہدہ اس کا بدستور باقی ہے لیکن تعزیر اور زجر سزا دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر مصلحت وقت ہو تو اس کو قتل کر دینا تک بھی جائز ہے چنانچہ درمختار میں ہے: ويؤدب الذمی ويعاقب على سبه دين الاسلام والقران او النبي ﷺ : قال العينى و اختيارى فى السب ان يقتل وتبعه ابن الهمام قلت و به افتی شیخنا الخير الرملي وهو قول الشافعی۔ یعنی ذمی دین اسلام یا قرآن یا نبیﷺ کے برا کہنے میں تادیب و تعزیر دیا جائے۔ علامہ عینی نے فرمایا ہے کہ میرا مذہب یہ ہے کہ وہ قتل کیا جائے۔ اسی مذہب کے ابن ہمام تابع ہوئے ہیں اور شیخ رملی نے بھی اسی کا فتویٰ دیا ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔
پھر یہ بھی جب ہے کہ اس قسم کی شرائط وقت عہد اس سے نہ کی گئی ہوں ۔ اور اگر اس سے شرط کی گئی ہو کہ مذہب اسلام اور قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کو بڑا نہ کہے یا فلاں فلاں کام نہ کرے اور پھر اس نے اس کا خلاف کیا تو اس کا معاہدہ بھی باقی نہ رہے گا۔ بلکہ مباح الدم ہو جائے گا۔ چنانچہ رد مختار میں ہے : اقول هذا ان لم يشرط انتقاضه یه اما اذا شرط انتفض به كما هو ظاهر - یعنی عہد کا نہ ٹوٹنا جب ہے کہ اس قسم کی شرط نہ کی گئی ہو ورنہ برا کہنے سے اس کا عہد ٹوٹ جائے گا۔ علی ہذا اگرچہ معاہدہ میں ایسی شرائط نہ کی گئی ہوں پر وہ کھلم کھل نبی ﷺ کوبرا کہتا پھرتا ہے تب بھی اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اس کے صلہ میں قتل کیا جائے گا۔ چنانچہ ردمختار میں ہے: قولہ و سب النبي ﷺ ای اذله يعلن فلو اعلن بشتمه او اعتاده قتل ولو امراة وبه يفتى الیوم ۔ یعنی عہد کا نہ ٹوٹنا اس وقت ہے کہ علی الاعلان برا نہ کہا ہو۔ اور اگر کھلم کھلا برا کہا ہے یا اس کی عادت کرلی ہے تو قتل کر دیا جائے اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو اسی پر اب فتویٰ ہے۔ یہ عبارات تو کتب فقہ کی تھیں اب حدیث کا حال بھی سینے: سو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر بار بار نبی ﷺ کے برا کہنے کی عادت کر لی تو اس کا خون معاف ہے ابوداؤد میں ہے : ان اعمی كانت له ام ولد تشتم النبي ﷺ وتقع فيها فينها ها فلا تنتهى ويزجرها فلا تنزجر قال فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع فى النبى ﷺ وتستمه فأخذ المغول فوضعه في بطنها واتكاء عليها فقتلها- الحدیث ۔ یعنی ایک نابینا کی باندی تھی اور نبی علیہ اسلام کو برا بھلا کہا کرتی تھی وہ نابینا اس کو منع کیا کرتا تھا اور جھڑکا کرتا تھا سووہ باز نہ آتی تھی۔ اتفاقا ایک رات کو پھر برا کہنے لگی تو نابینا نے ایک چھرا لے کر اس کے پیٹ میں بھونک دیا اور اس کو جان سے مارڈالا۔ جب شدہ شدہ اس امر کی رسول اللہ ﷺ کو خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا : الا اشهدوا ان دمها هدر یعنی گواہ رہو کہ خون اس باندی کا معاف ہے۔ اب صاحب انصاف ملاحظہ فرمائیں کہ کتب فقہ اور حدیث شریف کس طرز سے موافق و مطابق ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں