اعتراض نمبر ٧١
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : تین میل کا فاصلہ ہو جانے سے قصر کا آغاز ہو جاتا ہے۔
حدیث نبویﷺ
عن انس قال كان رسول الله ﷺ اذا خرج مسيرة ثلاثة اميال او فراسخ "شعبة الشاك" صلى ركعتين
( ترجمہ ) سیدنا انس و اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین میلوں یافرسخوں کے فاصلے پر نکلتے تھے تب قصر کرتے تھے۔
(مسلم ج١کتاب صلاة المسافرين وقصرها باب صلاة المسافرین وقصرها صفحه : ۲۴۲ رقم الحدیث ۱۵۸۳)
سنن سعید بن منصور میں ثلاثہ امیال یعنی تین میل کی صراحت موجود ہے۔
(التلخيص الحبير ج ۲ ص ۴۷، تحت حدیث ۶۱۰)
فقه حنفی
السفر الذي يتغير به الاحكام ان يقصد مسيرة ثلاثة ايام ولياليها بسير الابل ومشى الاقدام .
(هداية اولين ج١كتاب الصلاة باب صلاة المسافر صفحه: ١٦٥)
وہ سفر جس سے احکام تبدیل ہو جائین تین دن اور تین راتیں چلنا ہے۔ (فقہ وحدیث ص ۱۱۰)
جواب:
اس مسئلہ میں روایتیں مختلف ہیں پیر بدیع الدین شاہ راشدی نے اپنی دلیل کا ذکر کر دیا اور فقہ حنفی کے دلائل کا ذکر نہیں کیا۔ ہم پہلے احناف کے دلائل ذکر کرتے ہیں بعد میں اس روایت کا جواب بھی عرض کریں گے۔ اس مسئلہ میں اصل دنوں کا اعتبار ہے۔ دنوں کے بارے میں جو زیادہ صحیح اور راجع بات قرآن و سنت سے ثابت ہوتی ہے وہ تین دن اور تین رات والی ہی ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر میلوں کا تعین کر لیا گیا ہے۔
دلائل احناف ملاحظہ فرمائیں:
(۱) عن شريح بن هانيئ قال اتيت عائشة اسألها عن المسح على الخفين فقالت عليك بابن ابى طالب فاسئله فانه كان يسافر مع رسول الله ﷺفسألناه فقال جعل رسول الله ﷺثلثة ايام ولياليهن للمسافر ويوما وليلة للمقيم -
(مسلم ج ١ص ۱۳۵)
( ترجمہ ) حضرت شریح بن ھانی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر موزوں پر مسح کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا تم ابن ابی طالب ( حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھو کیونکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے، چنانچہ ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا رسول اللہﷺ مسافر کے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن ایک رات مقرر فرماتے تھے۔
(۲) عن عبد الرحمن بن ابى بكرة عن ابيه ان رسول الله ﷺ وقت في المسح على الخفين ثلاثة ايام وليا ليهن للهمسافر وللمقيم يوما وليلة. (صحیح ابن حبان ج ۲ ص ۳۱۱) ( ترجمہ ) حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرۃ اپنے والد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے موزوں پر مسح کی مدت مسافر کےلیے تین دن تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات مقرر فرمائی ہے۔
(۳) عن ابن عمر ان النبى ﷺ قال لا تسافر المراة ثلثة ايام الامع ذي محرم ( بخاری ج ١ ص ۷ ۱۴)
( ترجمہ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا نہ سفر کرے عورت تین دن کا محرم کے بغیر۔
(۴) عن ابي هريرة قال رسول الله ﷺلا يحل لامراة ان تسافر ثلثا الا ومعها ذو محرم منها۔
( مسلم ج ١ص ۴۳۴)
( ترجمہ ) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ تین دن کا سفر کرے اپنے محرم کے بغیر ۔
(ه) عن ابى سعيد الخدري قال قال رسول الله ﷺ لا يحل لامراة تؤمن بالله واليوم الاخر ان تسافر سفر ا يكون ثلثة ايام فصاعدا الا ومعها ابوها او ابنها اوزوجها او اخوها او ذو محرم منها .
( مسلم ج ١ص ۴۳۴)
(ترجمہ) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حلال نہیں ہے کسی بھی ایسی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے کہ وہ تین دن یا تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر کرے مگر اس حال میں کہ اس کا باپ یا بیٹا، یا شوہر یا بھائی یا کوئی محرم اس کے ساتھ ہو۔
(٦) عن على بن ربيعة الوالبى - الولبة بطن من بني اسد بن خزيمة قال سالت عبد الله بن عمر الى كم تقصر الصلوة ؟ فقال اتعرف السويداء قال قلت لا ولكني قد سمعت بها قال هی ثلث ليال قواصد فاذا خرجنا اليها قصرنا الصلوة.
(کتاب ال آثار امام ابی حنیفہ بروایت الامام محمد ص ۳۹)
( ترجمہ ) حضرت علی بن ربیعہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ کتنی مسافت پر نماز قصر کرنی چاہیئے۔
آپ نے فرمایا سو ایداء کو جانتے ہو میں نے عرض کیا کہ جانتا تو نہیں لیکن اس کے بارے میں سنا ہے فرمایا وہ تین درمیانی راتوں کی مسافت پر ہے۔ جب ہم وہاں جاتے ہیں تو نماز میں قصر کرتے ہیں۔
(٧) حدثنا ابراهيم بن عبدالا على قال سمعت سويد بن غفلة الجعفى يقول اذا سافرت ثلاثا فاقصر -
(کتاب الجنة ج ١ ص ۱۶۸)
( ترجمہ ) حضرت ابراہیم بن عبد الا علی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے سوید بن غفلہ جعفی رحمۃاللہ علیہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تو تین دن کا سفر کرے تو قصر کر۔
(۸) عن عمر قال تقصر الصلوة فى مسيرة ثلث ليال
( کنز العمال ج ۸ ص ۲۳۴)
( ترجمہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین رات کی مسافت ( کے سفر ) میں نماز قصر کی جائے۔
(٩) عن سالم بن عبد الله عن ابيه انه ركب الى ريم فقصر الصلوة في مسيره ذالك قال يحيى قال مالك وذالك نحو من اربعة برد.
(موطا امام مالک ج ١ ص ۱۳۰)
(ترجمہ) حضرت سالم رحمۃاللہ علیہ اپنے والد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ریم تک سفر کیا تو اپنے اس سفر کے دوران نماز میں قصر کیا۔ یحیی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا ہےکہ ریم کا مدینہ طیبہ سے تقریباً ۴ برید کے برابر فاصلہ ہے۔
(۱۰) عن سالم بن عبد الله ان عبد الله بن عمر ركب الى ذات النصب فقصر الصلوة فى ميسره ذالك قال يحيى قال مالك وبين ذات النصب و المدينة اربعة برد
(موطا امام مالک ج ١ ص ۱۳۰) (ترجمہ) حضرت سالم بن عبد اللہ رحمة الله عليه سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ذات نصب تک سفر کیا تو اپنے اس سفر کے دوران نماز میں قصر کیا، یحیی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ مدینہ طیبہ اور ذات نصب کے درمیان ۲ برید کا فاصلہ ہے۔
(۱۱) عن سالم ان ابن عمر خرج الى ارض له بذات النصب فقصر وهى ستة عشر فرسخا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۴۳۴
(ترجمہ) حضرت سالم رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی اس زمین کی طرف سفر کے لیے نکلے جو ذت نصب میں تھی تو آپ نے قصر کیا، مدینہ طیبہ سے اس کا فاصلہ سولہ فرسخ ہے۔
(۱۲) عن عطاء بن ابی رباح ان ابن عمر و ابن عباس کانا یصلیان ركعتين ويفطر ان فى اربعة برد فما فوق ذالك
( بیہقی ج ۳ ص ۱۳۷)
(ترجمہ) حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دو رکعت پڑھتے تھے ( قصر کرتے تھے ) اور روزہ افطار کرتے تھے چار یا اس سے زیادہ برید پر۔
(۱۳) و كان ابن عمر و ابن عباس يقصران ويفطران في اربعة برد و هو ستة عشر فرسخا
( بخاری ج ١ص ۱۴۷)
( ترجمہ ) ( حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے کہ) حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نماز میں قصر کرتے تھے
اور روزہ افطار کرتے تھے ۴ برید پر جو ۱۶ فرسخ کے ہوتے ہیں۔
(۱۴) عن عطاء بن ابي رباح قال قلت لابن عباس اقصر الى عرفة فقال لاقلت اقصر الى مرقال لا قلت اقصر الى الطائف والى عسفان قال نعم وذالك ثمانية واربعون میلا و عقد بیده
(مصنف ابن ابی شیبه ج ۲ ص ٤٤۵ ومسند امام شافعی رحمۃاللہ علیہ ج١ ص ۱۸۵)
( ترجمہ ) حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا کہ میں عرفہ کی مسافت میں قصر کر سکتا ہوں فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا کہ مرکی مسافت میں قصر کر سکتا ہوں فرمایا نہیں ، میں نے عرض کیا طائف اور عسفان کی مسافت میں قصر کر سکتا ہوں فرمایا ہاں، ان کی
مسافت اڑتالیس میل ہے ہاتھ سے گرہ لگا کر شمار کر کے دکھایا۔
(۱۵) عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ﷺيا اهل مكة لا تقصروا الصلوة فى ادنى من اربعة برد من مكة الى عسفان.
(معجم طبرانی کبیر بحوالہ مجمع الزوائد ج ۲ ص ۱۵۷) ( دار قطنی باب قدر المسافة البي تقصر )
(ترجمہ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اہل مکہ تم چار برید سے کم کے سفر میں قصر نہ کیا کرو چاربرید مکہ مکرمہ سے عسفان تک ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ آنحضرتﷺ نے مسافر کے لیے موزوں پر مسح کی مدت تین دن و تین رات مقرر فرمائی ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۔ ۲ سے واضح ہے اور آپﷺ نے عورت کو محرم کے بغیر تین دن کے سفر سے منع فرمایا ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۳۔ ۴ سے ظاہر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر میں تین دن ورات کو ضرور دخل ہے اور مسافر کہلانے کا مستحق وہی ہے جو تین دن ورات کی مسافت کے سفر کے ارادہ سے گھر سے چلے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور جلیل القدر حضرت سوید بن غفلہ رحمۃاللہ علیہ کے اقول سے اس کی صراحت بھی ہو گئی اور معلوم ہوا کہ نماز میں قصر کے لیے مسافت سفر تین دن ورات کا سفر ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۶۔۷۔ ۸ سے ظاہر ہے مگر جس زمانہ میں قافلے پیادہ یا اونٹوں وغیرہ پر چلا کرتے تھے۔اس زمانہ میں اس مسافت کا اندازہ لگانا آسان تھا موٹر ریل اور ہوائی جہاز کے اس دور مین تین دن کی پیدل مسافت کا اندازہ لاگانا بہت مشکل ہے شاید آئندہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری کا زمانہ آئے ، لہذا احکام شرح میں سہولت کے پیش نظر اب میلوں کی تعیین ضروری ہے، چنانچہ متفقین علماء احناف نے ۴۸ میل کو مسافت قصر قرار دیا ہے جیسا کہ یہ ائمہ ثلاثہ حضرت امام مالک، حضرت امام احمد اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام شافعی رحمہم اللہ کا بھی مسلک ہے اور مندرجہ بالا احادیث و آثار بھی اس کے مؤید ہیں۔ آنحضرت ﷺ سے مسافت سفر کی تحدید چار برد = ١٦ فرسخ = ۴۸ میل ثابت ہو رہی ہے جیسا کہ حدیث نمبر ۱۵ سے ظاہر ہے اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے اقوال و اعمال سے بھی مسافت سفر کی تحدید چار برد = ۱۶ فرسخ = ۴۸ میل ہی ثابت ہو رہی ہے جیساکہ حدیث نمبر ۹۔۱۰۔۱۱۔۱۲۔ ۱۳۔ ۱۴ سے واضح ہے، حضرت امام مالک حضرت ابوبکر بن ابی شیبہ حضرت امام بخاری حضرت امام بیہقی رحمہم اللہ سب یہی نقل کر رہے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کا عمل اور فتویٰ اس پر تھا کہ مسافت قصر اڑتالیس میل ہے۔ رہی وہ روایت جور اشدی صاحب نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔
جواب نمبر ١ :
اس روایت کا مطلب یہ نہیں کہ صرف تین میل کے سفر میں قصر فرمالیتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ
سفر تو تین میل سے زیادہ کا ہوتا تھا لیکن تین میل یا تین فرسخ ہی کے فاصلہ پر قصر پڑھنا شروع کر دیتے تھے۔
جواب نمبر ۲:
اس روایت میں تین میل کا ذکر بھی ہے اورتین فرسخ کا بھی راوی کو شک ہے پھر علی التعیین تین فرسخ یا تین میل کیسے ثابت ہو سکتے ہیں۔
جو روایت سنن سعید بن منصور کے حوالہ سے ذکر کی ہے۔ اس کا مفہوم بھی یہ ہے جو جواب اول میں ذکر ہوا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں