نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر88 مسئلہ : نفل پڑھنے والے کی اقتداء،فرض پڑھنے والے کے لیے جائز ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

 اعتراض نمبر ٨٨
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں: 
مسئلہ : نفل پڑھنے والے کی اقتداء،فرض پڑھنے والے کے لیے جائز ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن جابر قال كان معاذ يصلي مع النبی ثم یاتی قومہ فیصلی بہم (ترجمہ ) سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ معاذ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے ، پھر اپنی قوم میں جاتے اور ان کو نماز پڑھاتے ، ( یعنی دوسری نماز معاذ رضی اللہ عنہ کے لیے نفلی ہوتی اور دوسری جماعت کے لیے فرض ۔ )

(بخاري ج١كتاب الاذان باب اذاصلي ثم ام قوما صفحه۹۸، رقم الحدیث ۷۱۱ ، مسلم ج١کتاب الصلاة باب القرأة في العشاء صفحه ۱۸۷، رقم الحدیث ۱۰۴۰)

 فقه حنفى 

ولا يصلى المفترض خلف المتفل

(هدایه اولین ج١کتاب الصلاة باب الامامة صفحه ١٢٧)

(ترجمہ) فرض نماز پڑھنے والانفل نماز پڑھنے والے کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتا۔

(فقه و حدیث ۷ ۱۲)

جواب:

راشدی صاحب نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ حضرت معاذ کس نیت سے پڑھتے تھے کیونکہ نیت تو ایک باطنی امر ہے اس پر کوئی دوسرا مطلع نہیں ہوسکتا جب تک نیت کر نے والا خود نہ بتاۓ ۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ نفل کی نیت سے نماز پڑھتے ہوں تا کہ وہ آنحضرت ﷺ سے نماز کا طریقہ سیکھ سکیں اور آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ کر برکت حاصل کر سکیں اور پھر اپنی قوم کے پاس جا کر فرض نماز پڑھاتے ہوں جب اس بات کا بھی احتمال ہے تو دوسرے حضرات کا استدلال درست نہ ہوگا ۔ اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے فعل کو ایسے معنی پر محمول کرنا جومتفق علیہ ہے زیادہ بہتر ہوگا ایک ایسے معنی پر محمول کرنے سے جو مختلف فیہ ہے چنانچہ نفل نماز کی نیت کے ساتھ اس امام کے پیچھے نماز پڑھنی جو فرض نماز پڑھارہا ہو بالا تفاق سب کے نزدیک جائز ہے لیکن نفل نماز پڑھانے والے کے پیچھے فرض والے کی نماز میں آئمہ کرام کا اختلاف ہے ۔احناف ، مالکیہ،حنابلہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ اگر غیر مقلدین اس بات پر ہی بضد ہوں کہ وہ فرض نماز ہی پڑھ کر جاتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو حضرت معاذ ان کے اس عمل کا علم ہوا آپ علیہ سلام نے منع فرمادیا۔ جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے ۔

عن معاذ بن رفاعة عن سليم رجل من بنی سلمة قال رسول الله یا معاذ بن جبل لا تكن فتانا اما ان تصلی معی و اما ان تخفف علی قومک

( مسند احمد ج ۵ ص ۷٤)


على قومك

(ترجمہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے معاذ بن جبل ! یا توتم میرے ساتھ نماز پڑھو اور یا پھر اپنی قوم کے ساتھ ہلکی نماز پڑھو۔ اس کا معنی یہی ہے کہ یا تو تم فرض نماز میرے ساتھ پڑھو اور اپنی قوم کے لوگوں کے ساتھ فرض نہ پڑھو ، اور یا میرے ساتھ فرض نہ پڑھوتا کہ وہ تمہارا انتظار نہ کر میں ۔ چنانچہ امام عبدالسلام ابن تیمیہ جواکابرحنابلہ میں سے ہیں ( صاحب منتفی ) کہتے ہیں۔

وقد اجتج به بعض من منع اقتداء المفترض بالمتنفل قال لانه يدل على انه متى صلى معه امتنعت امامته وبالاجماع لاتمتنع صلاة النفل معه فعدم انه اراد بهذا القول صلاة الفرض وان الذي كان يصلى معه كان ينويہ نفلا ۔ 

(منتقی متر جم ج ۱ ص ۵۷۸) ( ترجمہ ) جونفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز کو درست نہیں قرار دیتے ، اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں اس حدیث میں دلالت ہے اس بات پر کہ فرض پڑھنے والے کی اقتدا نفل پڑھنے والے کے پیچھے نہیں ہوتی کیونکہ جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی تو پھر ان کی امامت ممنوع ہوگی حصر والی تقسیم کا یہی مقتضی ہے۔

اور یہ بات بالا جتماع ثابت ہے ، اگر وہ آپ کے پیچھے نفل کی نیت سے نماز پڑھیں تو پھر ان کی امامت ممنوع نہ ہوگی ۔

تو اس سے معلوم ہوا کہ معاذ نے آنحضرت ﷺ کی طرف سے مامور تھے، کہ وہ اپنی قوم کو امامت کرائیں تو ظاہر ہے وہ فرض نماز یقینا اپنی قوم کے ہمراہ جماعت کے ساتھ ہی ادا کرتے تھے۔

( شرح نقایہ ج١س۸۸)

اس حدیث میں نہیں آیا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے یہ کام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے کیا ہو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اجازت دی ہو کہ فرض میرے پیچھے پڑھ لیا کرو۔ اور نفل کی نیت سے اپنے مقتدیوں کو پڑھا دیا کرو۔ زیادہ سے زیادہ یہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا عمل تھا مگر جب حضور اکرم کو اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت معاذ رضی اللہ عنہ کومنع فرمادیا۔

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...