نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 92 مسئله : جمع بین الصلاتین میں ایک اذان اور دواقامتیں ہوں گی۔


 اعتراض نمبر ٩٢
پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں:
مسئله : جمع بین الصلاتین میں ایک اذان اور دواقامتیں ہوں گی۔ 

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

حجۃ الوداع کے قصے میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ پہنچے 

فجمع بها المغرب والعشاء باذان و اقامتين 

(الصحيح المسلم كتاب الحج باب حجة النبي صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ج١ص۳۹۴، رقم الحدیث ۲۹۵۰) (ترجمہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کیا مغرب اور عشاء کو ایک اذان اور دواقامتوں کے ساتھ۔ ( فقه و حدیث ۱۳۱)



هدایه پر اعتراضات کا علمی جائزہ م

فقه حنفی

ويصلى الامام بالناس المغرب والعشاء باذان واقامة واحدة

(هدایه اولین ج١کتاب الحج باب الاحرام صفحه ۲۴۷) 

(ترجمہ )امام نماز پڑھاۓ لوگوں کو مغرب اور عشاء ایک اذان اور ایک

اقامت کے ساتھ ۔

جواب:

اس مسئلہ میں احادیث مختلف ہیں کسی میں آتا ہے کہ ہر نماز کے لیے اذان بھی دی جاۓ گی اور ا قامت بھی کہی جاۓ گی ۔اورکسی میں آتا ہے ایک اذان اور دوتکبیروں سے دونوں نماز میں پڑھیں گے اور کسی روایت میں آ تا ہے کہ ایک اذان اور ایک ہی تکبیر سے دونوں نماز میں پڑھیں گے راشدی صاحب نے صرف دوتکبیروں والی روایت نقل کر دی اور ایک تکبیر والی کا ذکر نہیں کیا فقہ حنفی کا عمل ایک تکبیر والی احادیث کے مطابق ہے۔

فقہ حنفی کے دلائل:

حدیث نمبر ١ :

روایت ہے عبداللہ بن مالک سے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نماز پڑھی مزدلفے میں اور ملا کر پڑھیں دونماز میں ایک تکبیر سے اور فرمایا دیکھا میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایسا ہی کرتے ہوئے اس مکان میں ۔ (ترمذی مترجم جلد اول ص ۳۵ ترجمہ علامہ بدیع الزمان غیر مقلد ابواب الحج باب ماج آفی الجمع بين المغرب والعش آء) 

حدیث نمبر ۲:

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے پڑھی ۔ آپﷺ نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات ایک اقامت کے ساتھ پڑھیں ( مسلم کتاب ج١ الحج باب الافاضتہ من عرفات الى المزدلفة )

حدیث نمبر ۳:

حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے حتی کہ

مزدلفہ پہنچے وہاں انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نماز میں ایک اقامت کے ساتھ پڑھائیں پھر واپس لوٹے اور کہارسول اللہ ﷺ نے اس جگہ اسی طرح ہمیں نماز پڑھائی تھی۔ ( مسلم کتاب الحج باب الافاضته من عرفات الى المزدلفہ )

حدیث نمبر ۴:

عبداللہ بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے مغرب کی تین رکعتیں اور عشاء کی دورکعتیں عبداللہ بن عمر کے ساتھ پڑھیں تو ملک بن الحارث نے ان سے کہا یہ کس طرح کی نماز ہے۔انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان دونوں نمازوں کو اسی جگہ پڑھا تھا ایک تکبیر سے ۔ (ابو داؤد کتاب المناسک باب الصلوة بجمع )

حدیث نمبر ۵:

سعید بن جبیر وعبداللہ بن مالک سے روایت ہے کہ ہم نے عبداللہ بن عمر کے ساتھ مزدلفے میں نماز مغرب اور عشاء پڑھی ایک تکبیر سے ۔ ( سنن ابو داؤ دکتاب المناسک باب الصلوۃ مجمع ) 

حدیث نمبر ٦ :

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی علم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز میں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ ملا کر پڑھیں اور ان کے درمیان کسی قسم کی نماز نہیں پڑھی۔

(مصنف ابن ابی شیبه بحوالہ نصب الرایہ ج ۳ ص ۲۸) 

حدیث نمبر٧:

حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم نے مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دورکعات ایک اقامت کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔

(نصب الرایج ۳ ص ۶۹)

 ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو عشاء کے وقت میں ایک اذان اور ایک اقامت کے ساتھ پڑھے اور مغرب اور عشاء کے درمیان کسی قسم کی نفل نماز نہ پڑھی جاۓ حضور اکرم ﷺ کا یہی عمل ہے ۔ اور احناف کا بھی یہی مختار مسلک ہے۔ باقی رہی وہ حدیث جوراشدی صاحب نے نقل کی ہے وہ اس صورت پر محمول ہے کہ اگر مغرب اور عشاء کے درمیان کسی قسم کا وقفہ کر دیا جاۓ مثلا کھانا کھانے کا یا اونٹ وغیرہ بٹھانے کا تو پھر عشاء کی نماز کے لیے دوبارہ اقامت کہی جاۓ تا کہ جولوگ ادھر ادھر ہو چکے ہیں وہ نماز کے لیے حاضر ہوجائیں صاحب ہدایہ نے ایک عقلی دلیل بھی نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاء اپنے وقت پر پڑھی جارہی ہے اس لیے الگ سے اقامت کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ لوگ تو عشاء کے لیے پہلے سے منتظر ہی ہیں اس کے برخلاف عرفہ میں عصر کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی جارہی ہے اس لیے لوگوں کو مزید بتلانے کے لیے کہ عصر کی نماز ابھی ہی ہورہی ہے عصر کے لیے الگ سے اقامت کہی جائے گی ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...