اعتراض نمبر 83 : کہ امام مالک نے کہا کہ ابو حنیفہ کادالدین ہے اور جو کادالدین ہو اس کا دین نہیں ہوتا۔ نیز کہا کہ ابو حنیفہ الداء العضال ہے اور الداءالعضال سے مراد دین میں ہلاکت ہے۔ نیز کہا کہ ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس اسلام میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
اعتراض نمبر 83 : کہ امام مالک نے کہا کہ ابو حنیفہ کاد الدین ہے اور جو کاد الدین ہو اس کا دین نہیں ہوتا۔ نیز کہا کہ ابو حنیفہ الداء العضال ہے اور الداءالعضال سے مراد دین میں ہلاکت ہے۔ نیز کہا کہ ابو حنیفہ سے زیادہ منحوس اسلام میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
أنبأنا علي بن محمد المعدل، أخبرنا أبو علي بن الصواف، أخبرنا عبد الله ابن أحمد بن حنبل، حدثنا منصور بن أبي مزاحم قال: سمعت مالك بن أنس - وذكر أبا حنيفة - فقال: كاد الدين، كاد الدين
أخبرنا ابن رزق، أخبرنا أبو بكر الشافعي، حدثنا جعفر بن محمد بن الحسن القاضي قال: سمعت منصور بن أبي مزاحم يقول: سمعت مالكا يقول: إن أبا حنيفة كاد الدين ومن كاد الدين فليس له دين.
وقال جعفر: حدثنا الحسن بن علي الحلواني قال: سمعت مطرفا يقول:
سمعت مالكا يقول: الداء العضال، الهلاك في الدين، وأبو حنيفة من الداء العضال.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ پہلی سند میں عبد اللہ بن احمد ہے جو ان گپوں کا راوی ہے جو اس نے اس کتاب میں نقل کی ہیں جس کا نام اس نے السنہ رکھا ہے۔
جو شخص اس پر اطلاع پانا چاہتا ہو اس کو وہ کتاب دستیاب ہو سکتی ہے۔
اور جو شخص اس کے مندرجات کے مطابق اعتقاد رکھتا ہے اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے تو ہم ابو حنیفہ کے بارہ میں اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔
اور یقیناً اس کی وجہ سے وہ فتنہ میں پڑا ہوا ہو گا۔
اور اس کا راوی منصور بن ابی مزاحم الترکی جو بہادر تیز رفتار تھا۔ وہ اس (علمی) میدان کے آدمیوں میں سے نہیں ہے۔
اور دوسری سند میں ابن رزق اور ابوبکر الشافعی ہیں اور تیسری سند میں ان دونوں کے بعد الحلوانی اور مطرف ہیں اور چوتھی سند میں علی بن زید الفرائضی اور الحنینی ہیں اور ان تمام کے بارہ میں پہلے کلام ہو چکا ہے[1]۔
اور جن لوگوں نے اس (ابو حنیفہ) کی طرف کاد الدین ہونے کی نسبت کی ہے تو میں نہیں جان سکا کہ انہوں نے یہ نسبت کیوں کی ہے؟
باوجودیکہ وہ نہ تو طہارت کے بارہ میں سستی برتنے والے تھے اور ان سے جتنی روایات بھی مروی ہیں ان میں سے کسی ایک روایت میں بھی وہ مسح علی الخفین سے بھی انکاری نہ تھے اور نہ ہی وہ جمعہ اور عیدین چھوڑنے والے تھے۔ اور نہ ہی کتوں کا گوشت حلال کہنے والے تھے۔ اور نہ ہی اثفار کو مباح کہنے والے تھے اور نہ ہی رائے کی وجہ سے سد ذرائع میں وسعت رکھنے والے تھے اور نہ ہی بینہ کے بغیر سزاؤں میں سے کسی کو سزا دینے کی جرات کرنے والے تھے اور نہ ہی وہ ان روایات کو معطل کرنے والے تھے جو قیلولہ کی جگہ نہ ہو (یعنی جو روایات اپنے اپنے مقام پر فٹ ہوں ان کو معطل کرنے والے نہ تھے) اور نہ ہی مصلحت مرسلہ کا نظریہ رکھنے والے تھے بلکہ وہ وہیں ٹھرتے جہاں کتاب و سنت و اجماع اور قیاس ٹھرتے۔ پھر دلیل ظاہر ہو جاتی اور راستہ واضح ہو جاتا اور جو کلمات روایت کیے گئے ہیں ان کے بارہ میں قدیم مالکیہ میں بڑے بڑے حضرات سے ان کلمات کے بارہ میں تین رائے پائی جاتی ہیں۔
پہلی رائے امام ابو جعفر احمد بن نصر الداوردی کی ہے جو کہ الموطا پر النامی لکھنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو ذکر کیا گیا ہے اگر وہ غلطی سے محفوظ ہے اور امام مالک سے ثابت ہے تو پھر ہو سکتا ہے کہ امام مالک کے سامنے ابو حنیفہ کے بارہ میں کوئی ایسی چیز ذکر کی گئی ہو جس کو وہ اچھا نہ سجھتے ہوں تو اس وقت ان کے بارہ میں سینہ تنگ ہو گیا ہو تو انہوں نے یہ بات کہہ دی ہو۔
اور عالم آدمی پر کبھی تنگ دلی کی حالت آجاتی ہے۔ پھر وہ ایسی بات کہہ دیتا ہے جس سے غصہ دور ہو جانے کے بعد استغفار کرتا ہے۔
اور دوسری رائے ابن عبد البر کا قول ہے جو کہ الانتقاء ص 150 میں ہے اس کو امام مالک سے حدیث بیان کرنے والے تقریبا تمام حضرات نے روایت کیا ہے اور بہرحال امام مالک کے وہ اصحاب جو اہل الرائے ہیں تو وہ امام مالک سے اس قسم کی باتیں روایت نہیں کرتے۔ الخ
تو فقہاء کے علاوہ اس کے راوی منفرد ہیں اور ان کے انفراد کی طرف نظر موڑنا کافی ہے۔
اور فقہاء تو مالک کے راز دان تھے۔
تیری رائے ابو الولید الباجی کا قول دیکھیں گے کہ وہ الموطا کی شرح میں المنتقی میں اس جیسی روایات کا امام مالک سے ثبوت کا ہی سختی سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام مالک نے فقہاء کے بارہ میں قطعاً کچھ نہیں کہا۔
انہوں نے تو صرف بعض راویوں کے بارہ میں قاعدہ کے مطابق کلام کیا ہے۔
پھر اس نے ذکر کیا کہ امام مالک ابن المبارک کی کس قدر تعظیم کیا کرتے تھے جو کہ ابو حنیفہ کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔
جیسا کہ محمد بن الحسن نے امام مالک جو الموطا روایت کیا ہے اس میں مذکور ہے۔
اور الباجی کو اس کی روایت سے الموطا ابو ذر الھروی کی سند سے پہنچا اس کے آخر تک جو اس نے وہاں ذکر کیا ہے۔
تو اس سے ظاہر ہو گیا کہ بے شک یہ اقوال بالفرض اگر ثابت بھی ہو جائیں تو ان کا قائل ہی مجرم ہے تو مجرم کی تقلید اس کے جرم میں کیونکر کی جاسکتی ہے؟
اور اگر یہ روایات من گھڑت ہیں تو ان روایات کی کمزوری بیان کیے بغیر ان کو روایت کرنے والا گناہ میں گھڑنے والے کے ساتھ شریک ہوگا۔ اگرچہ ان کے گھڑنے میں شریک نہیں ہے۔ پس ایسے آدمی کے راستہ پر نہیں چلنا چاہیے جس کے پیشوا گناہ گار ہوں[2]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ أخبرني أبو الفرج الطناجيري، حدثنا عمر بن أحمد الواعظ، حدثنا محمد ابن زكريا العسكري، حدثنا علي بن زيد الفرائضي، حدثنا الحنيني قال: سمعت مالكا يقول: ما ولد في الإسلام مولود أشأم من أبي حنيفة.
جواب:
1)۔ علي بن زيد الفرائضي کے بارے میں مسلمة بن القاسم الأندلسي کی توثیق کافی نہیں کیوں کہ وہ خود ضعیف ہیں جبکہ علی بن زید کو کسی نے ثقہ نہیں کہا البتہ ابن امام یونس مصری فرماتے ہیں کہ ان پر کلام کیا گیا ہے لہذا علی بن زید ثقہ نہیں۔
2)۔ إسحاق بن إبراهيم أبو يعقوب الحنيني
أبو أحمد الحاكم : في حديثه بعض المناكير
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : ضعيف ومع ضعفه يكتب حديثه
أبو بكر البزار : لم يكن بالحافظ، كف بصره فاضطرب حديثه
أبو حاتم بن حبان البستي : كان يخطئ
أحمد بن شعيب النسائي : ليس بثقة
أحمد بن صالح المصري : لا يرضاه
ابن حجر العسقلاني : ضعيف
الذهبي : ضعفوه
محمد بن إسماعيل البخاري : في حديثه نظر
لہذا امام مالک سے یہ روایت کہ ابو حنیفہ منحوس ہیں ، باطل ہے ۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 22 : امام مالک رحمہ اللہ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
اعتراض نمبر55 : کیا امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ کے استاد تھے؟
![]() |
( النعمان سوشل میڈیا سروسز )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں