کیا امام مالکؒ، امام ابو حنیفہؒ کے استاد تھے؟
حدثنا عبد الرحمن نا أبو بكر الجارودي محمد بن النضر النيسابوري قال سمعت أحمد بن حفص يقول سمعت أبي يقول سمعت إبراهيم بن طهمان يقول: أتيت المدينة فكتبت بها ثم قدمت الكوفة فأتيت أبا حنيفة في بيته فسلمت عليه فقال لي: عمن كتبت هناك؟ فسميت له، فقال: هل كتبت عن مالك بن أنس شيئا؟ فقلت: نعم، فقال: جئني بما كتبت عنه، فأتيته به، فدعا بقرطاس ودواة فجعلت
أملي عليه وهو يكتب.
قال أبو محمد ما كتب أبو حنيفة عن ابراهيم بن ط عن مالك بن أنس ومالك بن أنس حي إلا وقد رضيه ووثقه ولا سيما إذ (١) قصد من بين جميع من كتب عنه بالمدينة مالك بن أنس وسأله أن يملي عليه حديثه فقد جعله إماما لنفسه ولغيره.
ترجمہ: ابراہیم بن طَہمان کہتے ہیں : میں مدینہ منورہ آیا تو وہاں (احادیث) لکھیں، پھر کوفہ آیا تو امام ابوحنیفہؒ کے گھر گیا اور ان پر سلام کیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: وہاں (مدینہ میں) کس سے (احادیث) لکھی ہیں؟ میں نے ان کے نام گنائے۔ تو انہوں نے پوچھا: کیا امام مالک بن انس سے بھی کچھ لکھا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔
امام ابوحنیفہؒ نے فرمایا: جو کچھ امام مالکؒ سے لکھا ہے وہ مجھے لا کر دکھاؤ۔ چنانچہ میں لے آیا۔ انہوں نے کاغذ اور دوات منگوائی اور میں پڑھتا گیا اور وہ خود لکھتے گئے۔
ابو محمد (ابن أبي حاتم ) کہتے ہیں: "ابوحنیفہؒ نے ابراہیم بن طہمان کے واسطے سے امام مالک بن انس کی روایات لکھیں، حالانکہ اس وقت امام مالکؒ زندہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے امام مالکؒ کو پسند کیا اور ان پر اعتماد کیا، بالخصوص اس وقت جب انہوں نے مدینہ کے تمام محدثین میں سے خاص طور پر امام مالکؒ کی حدیث اپنے لیے منتخب کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ ان کی احادیث اُنہیں املا کریں۔ پس انہوں نے امام مالکؒ کو اپنے اور دوسروں کے لیے امام تسلیم کرلیا۔"
(الجرح والتعديل - الرازي - ج 1 - الصفحة 4)
جواب :-
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امام ابو حنیفہ نے امام مالک کی احادیث آگے روایت کرنے کی غرض سے لکھی تھیں. کیونکہ اگر یہی مقصد ہوتا تو ہمیں امام ابو حنیفہ کے واسطہ سے معتبر سندوں سے امام مالک کی احادیث کتابوں میں ملتیں. لیکن ایسی روایات کتابوں میں موجود نہیں ہیں. اسکا مطلب ممکن ہے کہ وہ روایات آگے بیان کرنے کے لئے نہیں بلکہ شاید امام مالک کی روایات کی جانچ کے لئے لکھی گئی ہوں . کیونکہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک دونوں امام نافع، امام ابن شہاب الزهري، امام أيوب السختياني، امام هشام بن عروة وغيرہ کے مشترکہ شاگرد ہیں تو ممکن ہے امام مالک کی ان شیوخ سے روایات کا موازنہ کرنے، انکی جانچ کرنے کے لئے ان روایات کو لکھا گیا ہو.
لیکن بقول امام ابن ابی حاتم کے امام ابو حنیفہ نے امام مالک کو اپنے لئے امام تسلیم کر لیا تو یہ بات غلط ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو احادیث کی کتابوں میں خصوصی طور پر امام ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن کی کتابوں میں یہ روایات ملنی چاہیے تھیں لیکن ایسی کوئی روایت ان کتابوں میں موجود نہیں. بلکہ جو روایات نقل کی گئی ہیں وہ سخت ضعیف قسم کی ہیں یعنی ناقابل اعتبار ہیں. ان روایات کا حال بھی پیش خدمت ہے :-
روایت نمبر 1 -
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنِي أَبُو مُحَمَّدٍ الْقَاسِمُ بْنُ هَارُونَ بْنِ جُمْهُورِ بْنِ مَنْصُورٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، وَكَتَبَهُ لِي بِخَطِّهِ قَالَ: ثنا أَبُو سَعِيدٍ عِمْرَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ الْبَاهِلِيُّ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا بَكَّارُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا حَمَّادُ بْنُ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «الْأَيِّمُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا، وَالْبِكْرُ تُسْتَأْذَنُ فِي نَفْسِهَا، وَصُمَاتُهَا إِقْرَارُهَا» (ما رواه الأكابر عن مالك لمحمد بن مخلد ١/٤٥ — محمد بن مخلد ت ٣٣١، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/٢٣٦ ، تاريخ بغداد ت بشار ١٤/٤٥٣ ، الفانيد في حلاوة الأسانيد ١/٥٢ )
جواب :- اس سند ميں القاسم بْن هارون بْن جمهور بْن منصور أَبُو مُحَمَّد الأصبهاني مجہول راوی ہے. اس کے علاوہ عمران بن عبد الرحیم کے بارے میں امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں نقل کیا کہ اس نے "ابو حنیفہ عن مالک" کی روایت گھڑی ہے اور یہ وہی روایت ہے.
٦٢٩٤ - عمران بن عبد الرحيم بن أبي الورد. حدث بأصبهان، عن قرة بن حبيب، ومسلم بن إبراهيم. قال السليماني: فيه نظر، هو الذي وضع حديث أبي حنيفة عن مالك. (ميزان الاعتدال ٣/٢٣٨ ، لسان الميزان ت أبي غدة ٦/١٧٥ ، التذييل علي كتب الجرح والتعديل ١/٢٢٣ )
اس کے علاوہ اس روایت کی ایک علت یہ بھی ہے کہ کبھی یہ روایت "اسماعیل بن حماد بن أبي حنيفة عن أبي حنیفة عن مالک" کبھی اسماعیل عن أبيه عن أبي حنیفة عن مالک" کبھی "حماد بن أبي حنيفة عن مالک" کبھی "حماد عن أبي حنيفة عن مالک" کی سند سے مذکور ہوتی ہے. یعنی سندوں میں بھی زبردست اضطراب ہے.
روایت نمبر 2 :-
عن أحمد ابن ثابت الحافظ ، أنبأ محمَّد بن علي بن أحمد الصلحي ، ثنا أبو زرعة أحمد بن [الحسين] بن علي الرازي ، ثنا علي بن محمَّد بن مهرويه ، ثنا المُنْسجر بن الصَّلت، ثنا القاسم بن الحكم العُرَني، ثنا أبو حنيفة، عن مالك، عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:أتى كعب بن مالك النبي ﷺ فسأله عن راعية له كانت ترعى في غنمه، فتخوَّفت على الشاة الموت فذبحتها بحَجَر فأمر النبي ﷺ بأكلها (الفانيد في حلاوة الأسانيد 1/50)
جواب :- اس کی سند میں محمد بن علي الصلحي ضعیف ہے
ابن حجر العسقلاني : لا يعتمد على حفظه وأما كونه متهما فلا
ابن عراق : روى حديثا مسلسلا بأخذ اليد، اتهم بوضعه
الخطيب البغدادي : رأيت له أصولا صحيحة وأصولا مضطربة ورأيت له أشياء سماعه فيها مفسود إما مكشوط أو مصلح بالقلم واتهم بوضع حديث مسلسل فأنكرت عليه فسئل بعد إنكاري أن يحدث به فامتنع
الذهبي : ضعيف، وله حديث اتهم في إسناده
اور المسنجر بن الصلت مجہول راوی ہے. یعنی سند ضعیف ہے.
روایت نمبر 3 :-
حدثنا القاضي أبو بكر محمد بن عمر بن سلم، ومحمد بن إسحاق الأهوازي، قالا: ثنا محمد بن محمد بن عرفة، ثنا صفوان ابن المغلس، ثنا أبو سليمان الجوزجاني، ثنا محمد بن الحسن، عن أبي حنيفة رضي الله عنه، حدثني مالك بن أنس، عن نافع، عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: من راح إلى الجمعة، فليغتسل. ( مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/٢٣٧ )
جواب :- اس سند میں محمد بن محمد بن عرفہ اور صفوان بن المغلس دونوں مجہول ہیں.یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے.
روایت نمبر 4 :-
أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الأَبَنُوسِيِّ الصَّيْرَفِيِّ، بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ، بِالْكَرْخِ فِي سُوقِ الصَّيَارِفَةِ، غَرْبِيِّ مَدِينَةِ السَّلَامِ، فِي ذِي الْقَعْدَةِ، سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ، وَمَوْلِدُهُ، قَالَ: سَنَةَ ثَمَانَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ فِيمَا عَلَيْهِ مَعَ رِوَايَتِهِ الأَكَابِرِ عَنِ الأَصَاغِرِ، فِي شَهْرِ رَجَبٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَتِسْعِينَ، أَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَافِظِ الْخَلَّالُ، حَدَّثَتْنَا جُمُعَةُ بِنْتُ أَحْمَدَ الْمَحْمِيَّةِ، قَالَتْ: أَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ صَالِحِ بْنِ أَعْيَنَ بْنِ رُمَيْحٍ التِّرْمِذِيُّ، نَا نَصْرُ بْنُ يَحْيَى أَبُو بَكْرٍ، نَا عُمَرُ بْنُ مَرْوَانَ، عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ وَلَا يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ مَا لَا يَطِيقُ» (الجزء الثالث من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي ١/١٤١ )
جواب :- اس سند میں مذکور جمعة بنت أحمد کے بارے میں ہمیں علم نہیں کہ کسی نے انہیں ثقہ کہا ہو، اس کے علاوہ سند میں موجود أبو حامد، نصر بن يحيى اور عمر بن مروان تینوں ہی مجہول ہیں یعنی یہ سند بھی ضعیف ہے
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی
وقال شيخ الإسلام: أما اعتراضه بأبي حنيفة، فلا يحسن، لأن أبا حنيفة لم تثبت روايته عن مالك، وإنما أوردها الدارقطني ثم الخطيب لروايتين وقعتا لهما عنه بإسنادين فيهما مقال، وأيضا فإن رواية أبي حنيفة عن مالك إنما هي فيما ذكره في المذاكرة،
شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی نے فرمایا: امام ابو حنیفہ پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ درست نہیں، کیونکہ امام ابو حنیفہ سے امام مالک کی روایت ثابت نہیں ہے۔ صرف دارقطنی اور اس کے بعد خطیب بغدادی نے دو روایتیں ذکر کی ہیں جو ان تک پہنچی ہیں، لیکن دونوں کی اسناد پر کلام ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ امام ابو حنیفہ کی امام مالک سے روایت کا ذکر صرف مذاکرہ (علمی گفتگو) کے حوالے سے آتا ہے، نہ کہ باقاعدہ روایت کی صورت میں۔ (سلسلة الذهب - أحمد بن علي بن حجر - الصفحة ١٨)
لیکن بالفرض امام ابن ابی حاتم کی بات مان بھی لی جائے تو یہ امام ابو حنیفہ کا ظرف ہے کہ وہ اپنے سے عمر میں چھوٹے امام کی روایت لکھنے میں حرج نہیں سمجھتے. یہ دکھاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ علم اور اہل علم کی قدر کرتے تھے اور اپنے سے چھوٹے سے روایت لکھنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے.
باقی اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام مالک امام ابو حنیفہ پر مقدم تھے تب ہی امام ابو حنیفہ نے انکی روایات لکھیں تو عرض ہے کہ کسی کی کچھ روایات لکھنے کی بنیاد پر کوئی مقدم یا چھوٹا نہیں بن جاتا. بلکہ یہ دکھاتا ہے کہ علاقہ اور فقہی مسائل میں اختلاف کے باوجود ان اماموں میں ایک دوسرے کے لئے احترام قائم تھا. اور خصوصاً امام ابو حنیفہ اس اختلاف کی بنیاد پر دوسرے امام سے روایت نقل کرنے یا حدیث میں اسے ثقہ قرار دینے میں نہ شرم محسوس کرتے اور نہ ہی انصاف کا دامن چھوڑتے. ورنہ ہمیں تاریخ کی کتابوں سے کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں محدثین نے کسی راوی سے صرف اس لئے روایت نقل نہیں کی کیونکہ وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کے مذہب پر تھا یا امام ابو حنیفہ کا شاگرد تھا. حالانکہ یہی محدثین روایت حدیث میں اسے ثقہ صدوق قرار دیتے ہیں لیکن اس کی رائے ( قیاس) کی طرف جھکاؤ یا امام ابو حنیفہ کی فقہ پر ہونے کی وجہ سے اس سے روایت بیان نہیں کرتے. کیا یہ محدثین کی ناانصافی اور ظلم نہیں کہ اپنی ذاتی نظریہ اور اختلاف کی بنیاد پر آپ نے امت کو اس راوی کے واسطہ آنے والی روایات سے محروم رکھا اپنے موقف پر آنے والی روایات پر تو اعتماد کیا لیکن دیگر امام کے موقف کے مطابق آنے والی روایات پر بے وجہ جرح کرکے اسے غیر معتبر ثابت کرنے کی کوشش کی. مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اللہ تعالی ہم سے اور تمام اکابر سے درگزر کا معاملہ فرمائے آمین
امام مالکؒ کا امام ابو حنیفہؒ کی کتابوں سے استفادہ
امام ابو القاسم عبد اللہ بن احمد ابن ابی عوام ؒ (م ۳۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ : حدثني يوسف بن أحمد المكي قال: حدثنا محمد بن حازم الفقيه قال: حدثنا محمد بن علي الصائغ بمكة قال: حدثنا إبراهيم بن محمد الشافعي: أنه قال: أخبرني عبد العزيز بن محمد الدراوردي قال: كان مالك بن أنس ينظر في كتب أبي حنيفة وينتفع بها۔ عبد العزیز بن محمد الدراوردی ؒ کہتے ہیں کہ امام مالک بن انس ؒ ،امام ابو حنیفہ ؒ کی کتابوں میں غور کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ (فضائل ابی حنیفہ واخبارہ ومناقبہ لابن ابی عوام : صفحہ ۲۳۵) اس کی سند حسن ہے۔ اور اس روایت میں ہے کہ امام مالک ؒ (م ۱۷۹ھ) امام صاحب ؒ (م ۱۵۰ھ) کی کتابوں سے فائدہ اٹھاتے تھے ، یہ بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام مالک ؒ نے ، امام صاحب ؒ سے روایت لی ہے، کیونکہ عامۃً شاگرد ہی
استاد کی کتابوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ واللہ اعلم
اگر امام ابن ابی حاتم کے طرزِ استدلال کو ہم بھی اپنائیں، تو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ:
"جب امام مالکؒ نے امام ابو حنیفہؒ کے اقوال کے مطابق فتویٰ دیا اور ان کی کتابوں سے استفادہ کیا… تو اس بنیاد پر ہم اعلان کرسکتے ہیں کہ امام مالک فقہ میں حنفی ہوگئے تھے!"
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 22 : امام مالک رحمہ اللہ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں