نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 127 : کہ عبد اللہ بن نمیر نے کہا کہ میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ ابوحنیفہ سے حدیث نہیں لکھتے تھے تو فقہ کیسے لکھتے ہوں گے؟


 اعتراض نمبر 127 :

 کہ عبد اللہ بن نمیر نے کہا کہ میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ ابوحنیفہ سے حدیث نہیں لکھتے تھے تو فقہ کیسے لکھتے ہوں گے؟


أخبرنا العتيقي، حدّثنا يوسف بن أحمد الصيدلاني، حدّثنا محمّد بن عمر العقيلي، حدّثنا محمّد بن أيّوب، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن عبد اللَّه بْن نمير قال: سمعت أبي.

 وأخبرنا البرمكي، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلَفِ، حدّثنا عمر بن محمّد الجوهريّ، حدّثنا أبو بكر الأثرم، حدّثنا يحيى بن محمّد بن صاعد، حَدَّثَنَا ابن نمير قَالَ: أدركت النَّاس وما يكتبون الحديث عن أبي حنيفة، فكيف الرأي؟


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ راویوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کو فقہ سے ذرا بھی مس نہیں اور نہ ہی ان کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ بری رائے اور صحیح رائے میں فرق کر سکیں۔پھر وہ اہل الراۓ فقہاء کی احادیث روایت کرنے میں اور فقہ کی روایت کرنے میں مطلقاً بے پروائی کرتے ہیں۔ تو فقہ اور احادیث میں ان کا رغبت کرنا ان کے اندر کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتا اور نہ ہی اس میں ان کا زہد ہے اور نہ ہی ان کی یہ کاروائی ان فقہاء میں کچھ نقص پیدا کرتی ہے۔ تو ان راویوں کے عمل سے ابو حنیفہ پر کیا اعتراض ہے ؟ [1]

اس کو تو وہی لوگ کافی ہیں جو اس سے فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اور انہوں نے دنیا کے کناروں کو علم سے بھر دیا[2]۔

 یہاں تک کہ ابن حجر المکی نے مناقب ابی حنیفہ میں اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ائمہ میں سے کسی کو اتفاق سے اتنے کثرت سے اصحاب نہیں ملے جتنے ابوحنیفہ کو ملے تہذیب الکمال دیکھیں

اور انہوں نے دنیا کے کناروں میں علم پھیلایا۔ تفصیل کے لیے ابن الحجاج المزی کی تہذیب الکمال دیکھیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ اس سے روایت کرنے والے کون لوگ تھے[3]۔ اور پھر ان کو اور اس واقعہ میں منسوب بات کے قائل کی بات کو ملا کر دیکھیں تا کہ آپ کے سامنے فرق روشن ہو جائے۔  علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ابن نمیر تو خود ابوحنیفہ سے روایت کرنے والوں میں سے ہیں اور اس کے ثناخوان ہیں۔ یہاں تک کہ ابن ابی شیبہ نے بھی لعان کے بارہ میں ایک حدیث ابن نمیر کی روایت کی ہے جو اس نے ابوحنیفہ

سے روایت کی ہے[4]۔  اور اس کے بارہ میں جو اس کی فقہ ہے اس کو بھی روایت کیا ہے۔ اور (اس کی) سند پہاڑ کی طرح (مضبوط) ہے۔



امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1].یہ اعتراض بھی خزاں رسیدہ پتے جیسا ہے جنہیں ہر سال زمین نگل جاتی ہے، ویسے ہی یہ اعتراض بھی اہلِ علم کی بارگاہ میں بے وزن اور مردہ پڑا ہے۔

خطیب نقل کرتے ہیں کہ ابنِ نمیر نے کہا:

"میں نے لوگوں کو پایا کہ وہ امام ابو حنیفہ سے حدیث نہیں لکھتے تھے، تو فقہ کیسے لکھتے ہوں گے؟"

واقعی؟ ماشاءاللہ! گویا پوری علمی کائنات کا معیار اب "لوگوں کا عمل" بن چکا ہے؟ اور وہ "لوگ" کون تھے؟ جنہیں نہ فقہ کی تمیز، نہ اصولِ استنباط کا شعور، اور نہ ہی روایت اور درایت میں فرق کرنے کی صلاحیت!

اے اعتراض کرنے والو ،  اگر "لوگوں" کے نہ لکھنے سے کوئی علم باطل ہو جاتا، تو آج ابو حنیفہؒ کا نام دنیا کی ہر فقہی کتاب میں نہ ہوتا —

 تمہارے ان بعض "لوگوں" کی خاموشی کے باوجود اُن کی فقہ ہر منبر پر بول رہی ہے، ہر قاضی کے قلم سے جاری ہے، ہر دارالافتاء کی میز پر بچھائی جا رہی ہے!

اور ستم ظریفی دیکھیے کہ جس ابن نمیر کو تم غیر مقلد یا متعصب لوگ گواہ بنا رہے ہو ، جس کا اعتراض پیش کر رہے ہو ، وہ خود امام ابو حنیفہؒ سے روایت کرتا ہے! تو اب بتاؤ! جس شخص سے ابن نمیر خود روایت کر رہا ہو، اُسی کی روایت سے تم امام کو مجروح کرنے چلے ہو؟

 یہ منطق ہے یا مذاق؟

مزید سنیے! امام سفیان بن عیینہؒ کی گواہی ہے: "دو چیزوں کے بارے میں میں نے گمان کیا تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے آگے نہیں جائیں گی: حمزہ کی قراءت اور امام ابو حنیفہؒ کے اجتہادات۔ لیکن وہ آج دنیا میں پھیل چکی ہیں!"

(تاریخ بغداد، ج:۱۵، ص:۴۷۵، اسنادہ صحیح)

تو کیا بعض "لوگ" سفیان بن عیینہؒ سے زیادہ جانتے ہیں؟

🔹 آخر میں صرف اتنا کہوں گا: اگر کم علم راویوں کے "عدمِ روایت" سے کوئی امام مجروح ہو سکتا، تو بخدا آج امام اعظم ابو حنیفہؒ کا تذکرہ  محدود حلقوں سے آگے نہ جاتا! 

لیکن آج دنیا گواہی دے رہی ہے کہ ان کا علم دنیا کے کناروں تک پھیل چکا ہے — اور ان کے فتاویٰ میں وہ نور ہے جو ہر زمانے کے اندھیرے کو چیر کر راہ دکھاتا ہے۔


[2]. محدث سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں کہ دوچیزوں کے باریمیں میرا گمان تھا کہ وہ کوفہ کے پل سے تجاوز نہیں کریں گی لیکن وہ پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں ایک حمزہ کی قراءت اور دوسرے ابوحنیفہ ؒ کے اجتہادات ۔

(تاریخ بغداد ج:۱۵ ص:۴۷۵ اسنادہ صحیح )


[3]. تهذيب الكمال في أسماء الرجال 29/420 ، مؤسسة الرسالة 


[4]. مثلا  المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري ٧/‏٢٩١ ، ٧/‏٢٩٣  ، ٧ ‏/ ٣٤٥ ، ،١٥ ‏/ ٧٢ ، ١٠ ‏/ ٢٥٥ .

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...