نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 140 : کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے۔


 اعتراض نمبر 140 : 

کہ احمد بن حنبل نے کہا کہ ابوحنیفہ جھوٹ بولتے تھے۔


أحمد بن حنبل يقول: أبو حنيفة يكذب

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ خطیب کی تدقیق کی انتہاء کو دیکھیں کہ روایت میں کان کا اثبات اور اسقاط بھی اس کی نظر سے فوت نہیں ہوتا لیکن یہ اس کو نظر نہیں آتا کہ یکذب مصحف ہے يكتب ہے۔ 

اس میں لکھنے میں باء کو تھوڑا سا جدا کر دیا اور وہ بغیر کسی خوف کے فقیہ الملت کی طرف کذب کی نسبت کرتا ہے۔ اور وہ امت کو اس زمرہ میں شمار کرنے سے نہیں بچتا کہ اس نے ایک جھوٹے کو امام بنا لیا ہے۔ اور اس خطیب کے امام ۔ امام شافعی نے اس  (ابو حنیفہ جس کو خطیب جھوٹا ثابت کر رہا ہے) جھوٹے  سے المسند اور الام سے دلیل پکڑی ہے

(تو جھوٹے سے دلیل پکڑنے والے کا کیا مقام ہو گا؟) 

اور پہلے ابن عبد البر کی راویت میں ابن معین کا قول نقل کیا جا چکا ہے کہ ابوحنیفہ ثقہ ہیں۔ میں نے کسی کو نہیں سنا کہ اس نے اس کو ضعیف کہا ہو۔ چہ جائیکہ کسی نے اس کی تکذیب کی ہو۔

 پس اگر امام احمد نے یہ کہا ہوتا تو وہ ابن معین کے ساتھ تو کثرت سے مجلس کرتے تھے تو اس کا کلام اس کو پہنچا ہوتا۔ پس یا تو اصل میں مصحف ہے یا نرا جھوٹ ہے۔ 

اور سلف میں سے بہت سے حضرات حدیث کی کتابت سے بچتے تھے اور ان میں سے ابراہیم النخعی بھی ہیں۔  تو اس کے قول کان یکتب کا معنی یہ ہوگا کہ وہ کتابت حدیث سے نہیں بچتے تھے۔

 ہاں واقع کے خلاف خبر دینا کذب ہی ہے اور اس معنی میں کذب کا اطلاق غلطی کرنے والے اور وہم کرنے والے پر بھی کیا جاسکتا ہے۔

 پس جس نے غلطی کی یا کسی بات میں وہم  کیا تو اس رائے کے مطابق اس کو کذاب شمار کیا جا سکتا ہے۔

 لیکن غلطی کرنے والے کو اکثر غالط اور اکثر اور وہم کرنے والے کو واہم کا حکم لگایا جاتا ہے۔

 تو جس آدمی نے کسی کے بارہ میں کہا کہ : فلان يكذب تو اس کے قول کو اس وقت تک شمار میں نہ لایا جائے گا جب تک وہ کذب کی وجہ بیان نہ کرے۔ 

اوراسی لیے بہت سے اہل نقد کذب فلان کے قول کو جرح في غیر مفسر شمار کرتے ہیں۔  اور بے شک پہلے تاریخ الخطیب ص 383-393 میں گزر چکا ہے کہ بعض حضرات نے ابوحنیفہ کے نظریہ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کذاب من يقول ان الايمان لا يزيد ولا ينقص وہ آدمی کذاب ہے جو کہتا ہے کہ ایمان میں کمی بیشی نہیں ہوتی اور ہو سکتا ہے کہ یہاں کذب سے مراد بھی اسی انداز کا کذب ہو اور بے شک ہم نے وہاں (ایمان کی کمی بیشی کے تحت شافی کافی بحث کی ہے تو وہاں ہی دیکھ لیں۔)

 اور پختہ بات ہے کہ اہل جرح کے ہاں وہ کذب جو جرح بنتا ہے وہ وہ ہوتا ہے جو جان بوجھ کر ہو۔

 اور بہر حال راوی کا غلطی کرنا یا اس کو وہم ہو جاتا تو اس کے احکام اپنے مقام میں واضح ہیں۔

 تو جب غلط اور  ہم کو ہم نے کذب اعتبار کر لیا تو امت کے تمام طبقات میں ساری امت کو کذب کا عیب لگانا لازم آتا ہے اور یہ تو بہت قبیح فساد میں پڑتا ہے۔

اور بہت دفعہ ضدی لوگ سچے لوگوں کی طرف کذب کی نسبت کرتے ہیں اس معنی میں کہ ان کی کسی کلام میں غلطی یا وہم واقع ہوا۔

 اور یہ قبیح تصرف ہے جو طعن کرنے والے کے اندرونی خبث کی خبر دیتا ہے۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ہم نہ تو خطیب جیسے آدمی پر اور نہ ہی العقیلی جیسے آدمی پر اعتماد کر سکتے ہیں۔

 بعد اس کے کہ ہم نے ان دونوں کے بارہ میں شواہد پیش کر دیے ہیں۔ 

پھر رہا معاملہ عبد اللہ بن احمد کا تو اس کے تصرفات اور اس کے حل کی وضاحت بھی پہلے ہم بیان کر چکے ہیں۔

 اور احمد بن الحسن الترمذی جو امام احمد کے اصحاب میں سے ہیں وہ بھی تعصب میں عبد اللہ سے کوئی کم نہ تھا۔ اور بے شک بخاری نے صرف ایک حدیث اس سے المغازی میں روایت کی ہے۔

 اور بخاری کے رجال میں کتنے ہی ایسے پائے جاتے ہیں جن سے کوئی چیز لی جاتی ہے اور کوئی چیز نہیں لی جاتی۔

 واللہ سبحانہ اعلم۔ 

اور جعفر بن محمد الفریابی ایسا آدمی تھا کہ اس کے حدیث بیان کرنے کی مجلس میں تمہیں ہزار آدمی جمع ہوتے تھے۔  ان میں دس ہزار کے قریب بڑے بڑے ماہر علماء ہوتے تھے۔ پس جب اس جیسا آدمی کوئی چیز روایت کرے تو سوار اس کو لے دوڑتے ہیں۔

 اور یہ وہی شخص ہے جس نے لوگوں کے سامنے جنونی دورے والے آدمی کے کان کے پاس آذان کہی تو جن دوڑتا ہوا پکارتا ہوا چلا گیا کہ آگے محمد کا تلفظ نہ کر میں جا رہا ہوں اور اس کی بات کو لوگوں نے سنا یعنی میں جا رہا ہوں، تو محمد " نہ کہے۔ جیسا کہ تاریخ الخطیب میں ہے اور اس جیسے راوی کے متعلق کچھ کہنے کی ہم ہمت نہیں رکھتے۔ 

اللہ تعالی ہی ان کا احاطہ کرنے والا ہے۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ جب منصور نے ابوحنیفہ کو قضاء قبول کرنے پر مجبور کیا تو انہوں نے ان الفاظ سے اس کو جواب دیا کہ میں تو قضاء کے لائق نہیں ہوں۔

 تو منصور نے کہا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔  تو ابوحنیفہ نے کہا بے شک امیر المومنین نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ میں قضاء کے لائق نہیں ہوں۔ اس لیے کہ اس نے میری طرف جھوٹ کی نسبت کی ہے۔

 تو اگر میں جھوٹا ہوں تو قضاء کے لائق نہیں ہوں تو اگر سچا ہوں تو یقینا میں نے امیر المومنین کو بتا دیا ہے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ 

جیسا کہ  تاریخ الخطیب ص 338 میں ہے۔ تو ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اس قسم کا جھوٹ اس میں پایا جاتا تھا [1]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا 


[1]مزید تفصیل کیلیے قارئیں دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...