نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام عمرو بن علی المعروف الفلاس کہتے ہیں کہ ( امام ) ابوحنیفہ صاحب الرائے حدیث کے حافظ نہیں تھے. مضطرب الحدیث، واهي الحديث اور صاحب هوى ( خواہش نفس کی پیروی کرنے والے ) تھے.


امام عمرو بن علی المعروف الفلاس رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح


 أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا سهل بن أحمد الواسطي، حدثنا أبو حفص عمرو بن علي قال: وأبو حنيفة النعمان بن ثابت صاحب الرأي ليس بالحافظ مضطرب الحديث، واهي الحديث، وصاحب هوى


 امام عمرو بن علی المعروف الفلاس کہتے ہیں کہ ( امام ) ابوحنیفہ صاحب الرائے حدیث کے حافظ نہیں تھے. مضطرب الحدیث، واهي الحديث اور صاحب هوى ( خواہش نفس کی پیروی کرنے والے ) تھے.


جواب 

 ہم اپنی پہلی کی تحریروں میں وضاحت کر چکے ہیں کہ امام ابو حنیفہ خاص محدثین کے طریقہ پر کثرت سے احادیث بیان کرنے والے نہیں تھے کیونکہ آپ کا اصل میدان فقہ اور مسائل کا استنباط تھا. جس کے لئے وہ ( کثرت سے ) قیاس سے بھی کام لیتے تھے. اور اس وقت قیاس سے کام لینا دین میں اپنی رائے کا دخل دینا اور عیب سمجھا جاتا تھا. مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

اعتراض نمبر 22 : امام مالک رحمہ اللہ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات :

جروحات کی وجوہات :  وجہ نمبر 1: قیاس 

 اس لئے بعض محدثین نے انہیں نفس کی پیروی کرنے والا ضعیف انسان سمجھ لیا ہے اور اسی لئے بعض محدثین انہیں محدثین کی طرح حدیثوں کا حافظ نہیں مانتے. کچھ یہی حال امام فلاس کے اس قول کا بھی ہے.

دوسری بات امام فلاس اگرچہ راویوں پر کثرت سے کلام کرنے والے ہیں لیکن ان کے اقوالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آپ متشدد قسم کے جارح تھے. کبھی کبھی راویوں پر بے وجہ بھی کلام کر جاتے تھے بلکہ جس محدث یا راوی کو کوئی ضعیف نہیں کہتا اس پر بھی سخت جرح کر جاتے. امام فلاس کے ایسے اقوال کا رد امام ذہبی اور امام ابن حجر نے جگہ جگہ کر رکھا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام فلاس نے اس راوی پر بے وجہ کلام کیا تھا. یہی حال اس جرح کا بھی ہے.

امام فلاس کا راویوں پر ( بے وجہ ) کلام اور محدثین کا انہیں رد کرنا -

1 :- محمد بن بشار المعروف بندار - امام فلاس انکے تعلق سے فرماتے ہیں " عمرو بن علي يحلف أن بندارا يكذب فيما يروي عن يحيى"  [تهذيب التهذيب (3/ 519)] عَمرو بن علی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ بُندار، یحییٰ ( بن سعيد القطان ) سے جو روایت کرتا ہے، اس میں جھوٹ بولتا ہے.

حالانکہ بندار کی امام یحیی بن سعید القطان کے واسطہ سے روایات کو امام بخاری و امام مسلم نے جگہ جگہ نقل کیا ہے. اس لئے امام ابن حجر امام فلاس کی جرح کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں " مُحَمَّد بن بشار بنْدَار تكلم فِيهِ الفلاس فَلم يلْتَفت إِلَيْهِ (فتح الباري لابن حجر 463/1)  مُحَمَّد بن بَشَّار المعروف بندار کے بارے میں فلاس نے کلام کیا، مگر (محدثین نے ) اس کی طرف توجہ نہ دی۔

2 :- محمد بن حاتم بن ميمون السمين الحافظ الإمام أبو عبد الله المروزي - امام الفلاس انکے بارے میں کہتے ہیں " ليس بشيء " یعنی وہ کچھ بھی نہیں ہے" یا "اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے"۔ امام الفلاس کی اس جرح کا رد کرتے ہوئے امام ذہبی کہتے ہیں" وقال أبو حفص الفلاس: ليس بشيء. قلت: هذا جرح مردود "  امام ابو حفص الفلاس نے انکے بارے میں کہا " لیس بشیء "، میں ( امام ذہبی ) کہتا ہوں" یہ جرح مردود ہے "  (تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي 33/2 ). 

جبکہ سير أعلام النبلاء ( 450/11 ) پر امام ذہبی امام الفلاس کی جرح کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں"هَذَا مِنْ كَلاَمِ الأَقْرَانِ الَّذِي لاَ يُسمَعُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ ثَبْتٌ حُجَّةٌ یہ ہم عصروں کی باہمی تنقید میں سے ہے، جسے قابلِ قبول نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ یہ شخص ( محمد بن حاتم بن ميمون ) ثقہ اور حجت ہے. 

3 :- عبد الله بن رجاء - امام الفلاس عبد اللہ بن رجاء پر جرح کرتے ہوئے کہتے ہیں "كثير الغلط ليس بحجة" امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں انکے ترجمہ میں "صح" کی علامت لگائی ہے جسکا مطلب ہے کہ یہ راوی امام ذہبی کے نزدیک ثقہ ہے اور اس پر جرح درست نہیں ہے. جبکہ امام علی بن المدینی عبد اللہ بن رجاء کے بارے میں کہتے ہیں " اجتمع أهل البصرة على عدالة رجلين: أبي عمر الحوضى وعبد الله بن رجاء". ( ميزان الاعتدال )

4 :- وهب بن منبه - وهب بن منبه کی محدثين توثيق ہی کرتے ہیں سوائے امام الفلاس کے. امام ذہبی لکھتے ہیں " ثقة مشهور ، ضعفه أبو حفص الفلاس وحده". ( من تكلم فيه وهو موثق )

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی امام الفلاس راوی پر بے وجہ ( اور سخت کلام ) کر جاتے تھے. جسکی طرف محدثین نے توجہ نہیں دی. یہی حال امام ابو حنیفہ پر جرح کا بھی ہے.


امام فلاس کی جرح، امام یحییٰ بن معین کی توثیق کے مقابلے میں ناقابلِ اعتبار ہے

امام ابو حفص الفلاس کی جانب سے امام اعظم ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح کو اصولِ جرح و تعدیل کی روشنی میں ناقابلِ قبول قرار دینا عقلاً و نقلاً درست ہے، اور اس پر متعدد مضبوط دلائل موجود ہیں۔

اولاً، امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا مقام فنِ جرح و تعدیل میں امام الفلاس سے کہیں بلند اور مقدم ہے۔ شیخ ابن باز و شیخ ابن عثیمین  کے شاگرد عبد الله بن عبد الرحمن السعد نے اس بات کو صراحت سے لکھا ہے : "وأيضاً الطبقة الأولى على درجات؛ فيحيى بن معين يُقدَّم على أبي حفص الفلاس" (یعنی: طبقہ اولیٰ کے محدثین میں بھی درجہ بندی ہے، اور یحییٰ بن معین، ابو حفص الفلاس پر مقدم ہیں۔) ( قواعد الجرح والتعديل صفحة 12 )

اس بنا پر امام یحییٰ بن معین کی توثیق کو امام الفلاس کی جرح پر ترجیح دی جائے گی۔

ثانیاً، امام یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہؒ کے متعلق واضح کلماتِ توثیق ارشاد فرمائے ہیں۔

مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود

تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 2 :امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام ابن معین ؒ (م۲۳۳؁ھ) کی نظر میں

 اس کے علاوہ اُن سے منقول ایک نہایت اہم روایت جو کہ "جامع بیان العلم و فضلہ" (جلد 2، صفحہ 1081) میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے، یہ واضح کرتی ہے کہ:

"أصحابُنا يُفرِطونَ في أبي حنيفةَ وأصحابِهِ"

(ہمارے اصحاب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کے بارے میں زیادتی سے کام لیتے ہیں۔)

یہ جملہ محدثین، خصوصاً اصحاب الحدیث، کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے، جنہوں نے امام ابو حنیفہؒ پر بے جا طعن و تشنیع کی۔ ان محدثین میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خود امام یحییٰ بن معین کے شاگرد ہوں یا معاصرین۔ جیسا کہ ابن الغلابی ہوں ابن معین کے شاگرد یا ابو حفص الفلاس یا دیگر معاصرین ۔ لہٰذا جب امام یحییٰ بن معین خود اپنے معاصرین و تلامذہ کی بے اعتدالی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، تو ان کی بیان کردہ جرح کو خود ان کے اصولی موقف کی روشنی میں رد کرنا لازم ہے۔

اس تفصیل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امام ابو حفص الفلاس کی جرح نہ صرف درجہ و مرتبہ میں کمزور ہے بلکہ خود امام یحییٰ بن معین کی توثیق اور ان کے عمومی تبصرے کی روشنی میں مردود و غیر معتبر قرار پاتی ہے۔ پس جو جرح امام یحییٰ جیسے امامِ فن کے اصولی تبصرے سے متصادم ہو، وہ علمی معیار پر ثابت نہیں رہتی۔

ہم دیکھتے ہیں کہامام عمرو بن علی المعروف الفلاس کی طرف سے امام ابو حنیفہؒ پر کی گئی جرح کو نہ تو امام ذہبیؒ نے قبول کیا، نہ ابن حجرؒ نے اسے ان کے خلاف بطور حجت پیش کیا، اور نہ ہی امام مزّیؒ جیسے بلند پایہ محدث نے اس پر کوئی اعتماد ظاہر کیا۔

اگر واقعی یہ جرح قابلِ اعتماد اور مؤثر ہوتی، تو یہ عظیم محدثین، جو فنِ جرح و تعدیل میں فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، ضرور امام ابو حنیفہؒ کے ترجمے میں اس کا ذکر کرتے یا اس پر توضیح دیتے۔ مگر ان سب کا اس جرح کو نظر انداز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ: یہ جرح ناقابلِ قبول ہے۔

خصوصاً اس لیے بھی کہ امام ابو حنیفہؒ اپنی فقاہت، ضبط، دیانت اور امت میں علمی قبولیت کے باعث ہمیشہ بلند مقام پر فائز رہے ہیں۔ ایسی مبہم یا تعصّب پر مبنی جرح ان کی عظمت کو متاثر نہیں کرتی۔

اسی لیے جمہور محدثین نے ان کی عدالت، ثقاہت اور علمی مقام کو تسلیم کیا ہے، اور ان پر کیے گئے بعض بے بنیاد اعتراضات کو ردّ کر کے ان کے مقام و مرتبے کی تائید کی ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون

علمِ حدیث کے اُفق پر چمکتا ستارہ: تابعی، ثقہ، ثبت، حافظ الحدیث، امام اعظم ابو حنیفہؒ


خلاصہ کلام : 

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ کبھی کبھی امام الفلاس راوی پر بے وجہ ( اور سخت کلام ) کر جاتے تھے. جسکی طرف محدثین نے توجہ نہیں دی. یہی حال امام ابو حنیفہ پر جرح کا بھی ہے. محدثین نے اس طرف توجہ نہیں دی جسکا مطلب ہے کہ امام ابو حنیفہ ان محدثین کے نزدیک قابل اعتبار ہیں.







تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...